Sunday, 16 December 2018

قیام اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا (حصّہ اوّل)

قیام اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا (حصّہ اوّل)


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِیَاثٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِیَادِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ، أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: مِنَ السُّنَّۃِ وَضْعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ ۔ (ابو داؤد، ج1، کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعِ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ، ص305، حدیث751)
نوٹ : اس روایت کو امام ابو داؤد نے بیان کر کے ضعیف کا کوئی قول نہیں کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ امام احمد کا ضعیف کہنا معتبر نہیں ۔ ’’ آثار سنن‘‘ میں مصنف ابن ابی شیبہ سے منقول تمام احادیث کو صحیح یا حسن صحیح کہا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ رَبِیعٍ، عَنْ أَبِی مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: یَضَعُ یَمِینَہُ عَلَی شِمَالِہِ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ، حدیث3939)

حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ حَسَّانَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ، أَوْ سَأَلْتُہُ قَالَ: قُلْتُ: کَیْفَ یَصْنَعُ؟ قَالَ: یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِینِہِ عَلَی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہِ وَیَجْعَلُہَا أَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ ۔(مصنف ابن ابی شیبہ، ج1,کِتَابُ الصَّلوٰۃ، باب وَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ، حدیث3942،چشتی)
نوٹ : مصنف ابن ابی شیبہ کی دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔جیسا کہ علامہ نیموی علیہ الرحمہ نے فرمایا ۔

اليد من أطراف الأصابع إلى الكف ۔ (لسان العرب : ١٥٤١٩) ؛
ہاتھ : انگلیوں کے اطراف سے گٹ (کلائی) تک ہے.

غیر مقلدین کا مزاج دینی مسائل میں آوارہ قسم کا ہے، ہم نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں ہمیں ان کے مزاج میں کہیں ٹھہراﺅ نظر نہیں آتا، ان کو اپنے مذہب کے خلاف ہر چیز سنت کے خلاف ہی نظر آتی ہے اور ساری احادیث ضعیف دکھلائی دیتی ہیں، صحابہ کرام کا عمل حجت نہیں ہوتا ،خلفائے راشدین کی باتیں قابل رد ہوتی ہیں ،جمہور کیا کہتے ہیں اور ان کا عمل کیا ہے اس کی ان کو پرواہ نہیں ہوتی ہے حدیث میں ثقہ کی زیادتی منظور نہیں ہوتی انہیں احادیث میں اضطراب نظر آتا ہے۔

لیکن اگر مسئلہ اپنا ہو تو حدیث کا ضعیف ہونا بھی قبول ہوتا ہے ،صحابہ کے قول و عمل سے استدلال بھی جائز ہو جاتا ہے ،خلفائے راشدین کا عمل بھی بھانے لگتا ہے ثقہ کی زیادتی بھی محدثین کا مذہب قرار پاتی ہے ،حدیث میں جو اضطراب ہوتا ہے وہ بھی انکی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے ۔
غیر مقلدین کے مستند شدہ محدث علامہ البانی بھی سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی روایت کو مومل کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومل سیئ الحفظ ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ بتحقیق البانی جلد 1 صفحہ 243)

غیر مقلد عالم عبدالمنان نور پوری کا اعتراف کہ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی روایت کا راوی مومل بن اسماعیل ضعیف ہے اور علامہ البانی بھی اس کی سند کو اس لئے ضعیف کہتے ہیں کہ مومل بن اسماعیل سئی حفظ ہے۔ ( مکالمات نورپوری، صفحہ 528)۔

علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ مومل ضعیف ہے۔( اعلام الموقعین، جلد 4 صفحہ 285)

مشہور غیر مقلد عالم عبدالرحمان مبارکپوری کہتے ہیں کہ " میں تسلیم کرتا ہوں کہ مومل بن اسماعیل ضعیف ہے اور بپیقی کی سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی یہ روایت ضعیف ہے" ( ابکار المنن، صفحہ 359)

ابونصرالمروزی کہتے ہیں: المؤمل إذا انفرد بحديث وجب ان يتوقف ويتثبت فيه لانه كان سيئ الحفظ كثير الغلط. (تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 381، تعظیم قدر الصلوہ از امام مروزی، صفحہ 574،چشتی)

دارقطنی کہتے ہیں: : ثقة كثير الخطأ۔اوران سے ایک دوسری روایت میں صدوق کثیر الخطاء کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ اس کے علاوہ علل میں دارقطنی کہتے ہیں۔
وَرَوَاهُ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ فَوَهِمَ عَلَيْهِ فِي إِسْنَادِهِ، وَهْمًا قَبِيحًا؛(علل الدارقطنی9/314)

امام بخاری فرماتے ہیں منکرالحدیث(میزان الاعتدال4/284)

یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پہ جرح کے بارے میں غیر مقلدین کی پیش کردہ ایک مشہور روایت کا حال ہے جس سے غیر مقلدین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاذ اللہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ شیطان تھے۔اللہ سب کو ہدایت دے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ، اہلبیت رضی اللہ عنھم اور ائمہ کرام رحمھم اللہ عنھم کا ادب اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نماز میں ہاتھ کہاں باندھنا چاہئے، اس کا فیصلہ امام ترمذی نے فرمایا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ اس بارے میں صحابہ کرام و تابعین سے صرف دو طرح کی بات منقول ہے، ایک ناف کے نیچے اور دوسری ناف کے اوپر سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر انہوں نے کیا ہی نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام و تابعین کا امام ترمذی کی نگاہ میں ان دو عمل کے علاوہ تیسرا کوئی عمل تھا ہی نہیں ۔

دلیل نمبر 1 : سنیئے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ کی بات انہیں کے الفاظ ہیں۔

وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ ۔ [جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ ...رقم الحديث: 234]
ترجمہ : اسی پر عمل ہے صحابہ و تابعین اور اہل علم کا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جاۓ، اور ان میں بعض کی راۓ (مذھب) ہے کہ ہاتھ کو ناف کے اوپر باندھے اور بعض کی راۓ (مذھب) ہے کہ ناف کے نیچے باندھے اور یہ سب وسعت (جائز) ہے ان کے نزدیک. [جامع ترمذی: جلد اول: حدیث نمبر 243 , نماز کا بیان : نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے]

امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ جیسا وسیع النظر محدث کا یہ فیصلہ آپ کے سامنے ہے ، صرف یہی ایک بات اطمینان پیدا کرنے کے لئے کافی ہے کہ احناف کا مسلک وہ ہے جس پر صحابہ و تابعین اور بعد کے ائمہ محدثین کا عمل رہا ہے ،انہوں نے سینہ پر ہاتھ باندھنے والی بات کوئی لائق ذکر بھی نہیں سمجھا ،اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور تابعین اور محدثین میں سینہ پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کا کبھی معمول ہی نہیں رہا ہے۔

اب ہر سمجھدار آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ احناف کا عمل حدیث کے خلاف ہے کہ حدیث کے موافق، اگر حدیث کے خلاف ہے تو اس کا الزام صرف احناف پر ہی نہیں آتا بلکہ یہ الزام ان تمام صحابہ تمام کرام اور تابعین اور محدثین پر آتا ہے جو نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے۔

ذرا اس بارے میں ائمہ اربعہ کے یہاں جو بات منقول ہے اس پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس بارے میں تین روایت ہے
(1) نمازی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھے گا
(2) سینہ کے نیچے ہاتھ باندھے گا اور ناف کے اوپر
(3) اسے اختیار ہے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے یا ہاتھ چھوڑ کر۔
یعنی امام مالک کے نزدیک سینہ پر ہاتھ باندھنے کا مذکور ہی نہیں،

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی تین روایات ہیں
(1) سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھے گا، اور یہی روایت مشہور ہے اور اسی پر ان کے یہاں عمل ہے اور یہی روایت امام شافعی کی کتاب الام اور دوسری کتابوں میں مذکور ہے۔
(2) دوسرا قول یہ ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھے گا مگر یہ عمل بعض ہی کتابوں میں مذکور ہے شوافع کی کتابوں میں مشہور پہلی روایت ہے۔
(3) اور امام شافعی کا تیسرا قول یہ ہے کہ ناف کے نیچے باندھے گا۔
[شرح النووي على مسلم] [المجموع شرح المهذب » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة » وضع اليمين على اليسار في الصلاة][إعلام الموقعين عن رب العالمين » أمثلة لمن أبطل السنن بظاهر من القرآن » ترك السنة الصحيحة في وضع اليدين في الصلاة]

امام احمد رحمتہ الله علیہ سے بھی تین طرح کی روایت ہے

(1) ایک روایت یہ ہے کہ ناف کی نیچے باندھے گا
[المبدع في شرح المقنع » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة » وضع اليمنى على اليسرى تحت السرة][المغني لابن قدامة » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة » مسألة وضع اليمين على الشمال تحت السرة في الصلاة](دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
(2) دوسری روایت ہے کہ سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر باندھے گا۔
(3) اور تیسری روایت ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ ناف کے نیچے باندھے یا ناف کے اوپر۔
مگر ناف کے نیچے والی روایت ہی مشہور ہے اور اسی پر عام طور پر حنبلیوں کا عمل ہے۔ (دیکھو: تحفہ لاحوذی: ص۳ ۱ ۲۔۴ ۱ ۲ ، ج۲،چشتی)

آپ غور فرمائیں کہ ائمہ اربعہ میں دوامام ایسے ہیں جن کا مذہب ناف کے نیچے باندھنے کا بھی ہے اور رہے امام ابو حنیفہ رحمتہ الله علیہ تو ان کا مذہب صرف ایک طرح کا نقل کیا گیا ہے کہ نماز میں ناف کے نیچے ہی ہاتھ باندھنا افضل اور اولیٰ ہے، بلکہ امام احمد بن حنبل کا مشہور مذہب تو امام ابو حنیفہ رحمتہ الله علیہ کے مطابق ہی ہے، سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات صرف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول میں ہے اور سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنا تو سلفیوں کی نئی ایجاد ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ الله علیہ کا مسلک ہر طرح سے پختہ ہے جس کی تائید میں اسلاف کا عمل ہے، اب رہا یہ کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے کی کوئی صریح حدیث بھی ہے، تو اس بارے میں عرض یہ ہے یہ زعم بالکل باطل ہے کہ اسلاف کرام ائمہ عظام اور صحابہ و تابعین کا جو معمول رہا ہے یہ معمول ان کا خود ساختہ ہو گا اور اس پر سنت سے کوئی دلیل نہ ہو گی، دلیل ہو گی اور یقینا ہو گی خواہ ہمیں وہ ضعیف نظر آئے یا قوی۔

نماز میں زیرناف ہاتھ باندھنے کا مسئلہ
دلیل نمبر 2 : حضرت علیؓ سے روایت ہے : رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر نماز میں ناف کے نیچے سنّت میں سے ہے .[احکام القرآن، للطحاوی رح: ٢٣٩-٣٢١ھ : تفسیر- فصل لربک وانحر، ١/١٨٦]؛
نماز میں زیرناف ہاتھ باندھنا : ذکر کیا الاثرم نے، حدیث بیان کی ہمیں ابو الولید الطیالسی نے ، کہا حدیث بیان کی ہم سے حمد بن سلمہ نے، عاصم الجحدری سے، وہ عقبہ بن صھبان سے، انہوں نے سنا حضرت علیؓ کو فرماتے الله عز و جل کے فرمان : ((پس نماز پڑھ اپنے رب کے لئے اور قربانی کر)) (کے بارے) میں، فرمایا : (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے .[التمهيد لابن عبد البر : ٨/١٦٤ ، سندہ صحیح] الشواہد : [احکام القرآن، للطحاوی رح (٢٣٩-٣٢١ھ) : تفسیر- فصل لربک وانحر، ١/١٨٦]
أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ " .[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ » بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 644]
ترجمہ : حضرت علیؓ سے روایت ہے، (کہ انہوں نے) فرمایا : " سنّت نماز (کی میں) سے رکھنا ہے ہاتھ کا ہاتھ پر نیچے ناف کے " .
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں (یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم نہ لگاؤں) تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢]؛
[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ, رقم الحديث: 3840](دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی )
الشواهد: تحفة الأحوذي: ١/٥١٢
م طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة
1 من السنة في الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة علي بن أبي طالب مسند أحمد بن حنبل 853 --- أحمد بن حنبل 241
2 من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة علي بن أبي طالب سنن أبي داود 644 --- أبو داود السجستاني 275
3 من السنة في الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة علي بن أبي طالب تهذيب الكمال للمزي 553 9:473 يوسف المزي 742
4 من سنة الصلاة وضع الأيدي تحت السرة علي بن أبي طالب الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر 1240 1290 محمد بن إبراهيم بن المنذر 318
5 من السنة أن يضع الرجل يده اليمنى على اليسرى تحت السرة في الصلاة عبد الرحمن بن صخر الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر 1241 1291 محمد بن إبراهيم بن المنذر 318
6 وضع اليمين على الشمال في الصلاة تحت السرة من السنة علي بن أبي طالب أحكام القرآن الكريم للطحاوي 255 327 الطحاوي 321
7 من السنة أن يضع الرجل يده اليمنى تحت السرة في الصلاة عبد الرحمن بن صخر أحكام القرآن الكريم للطحاوي 256 328 الطحاوي 321
8 وضع اليمين على الشمال تحت السرة علي بن أبي طالب سنن الدارقطني 959 1090 الدارقطني 385
9 السنة في الصلاة وضع الكف على الكف تحت السرة علي بن أبي طالب السنن الكبرى للبيهقي 2136 2:31 البيهقي 458
10 من سنة الصلاة وضع اليمين على الشمال تحت السرة علي بن أبي طالب السنن الكبرى للبيهقي 2137 2:31 البيهقي 458
11 من السنة في الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة علي بن أبي طالب التحقيق في مسائل الخلاف لابن الجوزي 453 481 أبو الفرج ابن الجوزي 597
ترجمہ : حضرت علیؓ سے روایت ہے، (کہ انہوں نے) فرمایا : " بیشک سنّت نماز (کی میں) سے ہے رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر نیچے ناف کے".
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابٌ فِي أَخْذِ الشِّمَالِ بِالْيَمِينِ فِي الصَّلاةِ ... رقم الحديث: 1103 (1090)،چشتی)
تخريج الحديث: مسند أحمد بن حنبل: 853 ، سنن أبي داود: 1 : 129 ، أحكام القرآن الكريم للطحاوي: 327 ، السنن الكبرى للبيهقي: 2 : 31 ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر: 1290 ، تهذيب الكمال للمزي: 940
اور جب صحابہ کرام رضٰ اللہ عنہم کسی عمل کے بارے میں سنت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آنحضورﷺکا یہی معمول تھا اور آپ کا یہی فرمان تھا، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری محدث طیبی سے نقل کرتے ہیں : اذا قال الصحابی من السنة کذا اوالسنة کذا فھو فی الحکم کقولہ قال رسول الله ﷺ ھذا مذھب الجمھور من المحدثین والفقھاءفجعل بعضھم موقوفا ولیس بشیئ۔ (تحفة الأحوذي : ص۰ ۴ ۲ ج۱)؛
یعنی جب صحابی یہ کہے کہ سنت سے یہ ہے یا یہ سنت ہے تو اس کا مطلب اور حکم اسی طرح کا ہے جیسے صحابی یہ کہے کہ آنحضورﷺ کا یہ ارشاد ہے (یعنی یہ بات آنحضور ہی سے ثابت ہو گی اور اس کا حکم حدیث مرفوع کا ہے) اور یہی عام طور پر فقہاءاور محدثین کا مذہب ہے، اور جس نے اس کو موقوف قرار دیا ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔
چونکہ حضرت علی رضی الله عنہ کی یہ تعلیم اور فرمان غیر مقلدین کی گلے کی ہڈی بن رہا تھا۔ اس وجہ سے مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے اس کو بھی ضعیف قرار دینے کی پوری سعی کی ہے، مگر ہمارے نزدیک ان کی یہ سعی، سعی باطل ہے اس لئے کہ جب امام ترمذی کے بقول صحابہ کرام اور تابعین کی ایک جماعت کا اسی پر عمل رہا ہے تو ہمارے لئے ان کا عمل حجت ہے، اس لئے کہ ہمیں یقین ہے کہ ان کا عمل خلاف سنت نہیں تھا، چاہے غیر مقلدین مانیں یا نہ مانیں۔
دلیل نمبر 3 : احناف کی یہ روایت ہے جو ابو داود میں ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا۔
عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : " أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ ". [سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ » بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 646]
حضرت ابو وائل حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ہاتھ کو باندھا جائے گا۔(تحفة الأحوذي : ص۵ ۱ ۲)؛
غیر مقلدین کو حضرت ابوہریرہ کا یہ فرمان بھی گوارا نہیں ہوا، اور اس کو بھی ایک راوی کی وجہ سے ضعیف کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے : سنّت یہی ہے کہ مرد رکھے دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے نماز میں.اور اسی کو فرمایا امام سفیان ثوری، اور امام اسحاق نے. اور فرمایا امام اسحاق نے : (نماز میں ہاتھوں کا) ناف کے نیچے رکھنا سب سے زیادہ مضبوط ہے حدیث میں اور سب سے زیادہ قریب ہے عاجزی کرنے میں.[مسائل أحمد أ إسحاق رواية ألكوسج : ٢١٦ ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر (سنة الوفاة:318) » كِتَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » ذِكْرُ وَضْعِ بَطْنِ كَفِّ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ ... رقم الحديث: 1241]؛
تخريج الحديث
م طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة
1 من السنة أن يضع الرجل يده اليمنى على اليسرى تحت السرة في الصلاة عبد الرحمن بن صخر الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر 1241 1291 محمد بن إبراهيم بن المنذر 318
2 من السنة أن يضع الرجل يده اليمنى تحت السرة في الصلاة عبد الرحمن بن صخر أحكام القرآن الكريم للطحاوي 256 328 الطحاوي 321
[احکام القرآن، للطحاوی رح: ٢٣٩-٣٢١ھ : تفسیر- فصل لربک وانحر، ١/١٨٦]
الشواہد: سنن الاثرم بحوالہ التمہید : ٨/١٦٤

عن أنس : من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضعك يمينك على شمالك في الصلاة تحت السرة.[مختصر خلافيات للبيهقي (سنة الوفاة:458ھ) : 2 / 34 ، كتاب الصلاة ، مسألة # 75 - والسنة أن يضع اليمنى على اليسرى تحت صدره فوق سرة....؛ المحلى بالآثار لابن حزم : 3/30 ؛ معجم الکبیر للطبرانی بحوالہ شرح سنن أبي داود للعيني : 3/356]
ترجمہ : حضرت انس فرماتے ہیں : انبیاء کرام کے اخلاق (عادات) میں سے ہے (کہ) روزہ (اول وقت میں) جلدی افطار کرنا ، اور (آخر وقت میں) دیر سے سحری کرنا ، اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا.
اور اسے ذکر کیا علامہ ابن ترکمانی نے [الجوہر النقی : 2/32] اور (امام دار قطنی نے اپنی السنن) دار قطنی [1/284 ، رقم : 2] میں حضرت عائشہ سے اسی کے مثل الفاظ کے ساتھ .
دلیل نمبر 4 : احناف کی وہ روایت ہے جو حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے اور جس کو ابن حزم نے نقل کیا ہے، حضرت انس نے فرمایا۔
تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں، افطار میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا اور داہنے ہاتھ کو بائیں کے اوپرزیر ناف رکھنا، (تحفہ)؛
غیر مقلدین نے اس حدیث کو بھی رد کر دیا، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس کی سند کا پتہ نہیں، اس لئے یہ قابل احتجاج نہیں ہے ۔ یعنی ان غیر مقلدین کی زور و زبردستی کا اندازہ لگائیے کہ جب تک بذات خود کسی حدیث کی سند کا ان کو پتہ نہیں لگے گا وہ کسی پر اعتماد کر کے اس کو ماننے والے نہیں ہیں، جی ہاں غیر مقلدیت اسی کا نام ہے۔
اگر میں تفصیل میں جاؤں تو ابھی مصنف ابن ابھی شیبہ، دارقطنی، مسند احمد و غیرہ سے متعدد آثار اس بارے میں نقل کر سکتا ہوں، مگر ایک انصاف پسند کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور اس سے نماز مین زیر ناف ہاتھ باندھنے کی مسنونیت کا صاف پتہ چلتا ہے۔
اور اسی طرح ایک صحیح روایت حضرت علی سے بھی مروی ہے: حضرت علیؓ نے فرمایا: تین چیزیں انبیاء (علیھم السلام) کی عادات میں سے ہیں: افطار جلدی کرنا، سحری دیر سے کرنا اور (نماز میں) ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا.[ مسند زيد (سنة الوفاة:٢٤١ھ) » كِتَابُ الصِّيَامِ » بَابُ الإِفْطَارِ، رقم الحديث: ٢٣٤]
آپ نے اوپر کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ غیر مقلدین کے علماء جو مذہب اختیار کرتے ہیں اگرچہ وہ "شاذ" ہو اور امت میں اس کا قائل کوئی بھی نہ ہو، اس کے خلاف ایک سننے کو تیار نہیں ہوتے اور صحیح حدیث کو پوری قوت خرچ کر کے ضعیف قرار دیدیتے ہیں مگر جب اپنی باری ہوتی ہے تو ضعیف حدیث بھی صحیح سند والی ہو جاتی ہے۔
آئیے اس کا آپ کو ایک نمونہ دکھلاں، اسی مسئلہ میں غیر مقلدین علماء کا استدلال اس حدیث سے بھی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ قبیصہ اپنے والد ہ حلب طائی سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں داہنے رخ اور بائیں رخ دونوں طرف نمازکے بعد منہ پھیرتے تھے اور اس کواپنے سینہ پر رکھتے تھے، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری اس کو نقل کر کے فرماتے ہیں ورواة ھذا الحدیث کلھم ثقات و اسنادہ متصل یعنی اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے، لیکن کیا حقیقت یہی ہے؟ تو سنئے کہ:اس کا ایک راوی سماک ہے، اس کا حافظہ آخر میں خراب ہو گیا تھا، امام ذہبی فرماتے ہیں کہ امام احمد کا کہنا تھا کہ سماک مضطرب راوی ہے، شیبہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہی۔ ابن عمار کہتے ہیں کہ یہ غلطی کیا کرتا تھا، دامام عچلی کہتے ہیں کہ وہ بسا اوقات منقطع حدیث کو متصل کر دیتا تھا، امام ثوری اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی روایت میں اضطراب ہوتا ہے اور وہ پختہ کار محدثین میں سے نہیں تھا، اور صالح بھی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں، ابن خداش کہتے ہیں کہ اس میں کمزوری ہے۔
یہ ساری باتیں غیر مقلد عبد الرحمٰن مبارکپوری صاحب نے لکھی ہیں اس کے باوجود وہ بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
اب سنئے کہ قبیصہ کی جو صحیح روایت ہے اس کو امام ترمذی نے ذکر فرمایا ہے اور اس میں ہاتھ کہاں رکھتے تھے اس کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
اور پھر غور کرنے کی بات ہے کہ اس حدیث میں راوی نماز ختم کرنے کے بعد کی حالت بیان کرتا ہے کہ دائیں بائیں رخ پھیرنے کے بعد آپ ﷺ اپنا ایک ہاتھ سینہ پر رکھتے تھے، اس میں یہ بھی تصریح نہیں ہے کہ کون سا ہاتھ رکھتے تھے ، بہر حال اس حدیث سے اس بات کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے(اگر اسے قابل استدلال قرار دیا جائے تو) کہ نماز ختم کرنے کے بعد اپنا ایک ہاتھ سینہ پر رکھنا چاہئے۔
غیر مقلدین کا عمل تو اس حدیث کی روشنی میں یہ ہونا چاہئے کہ وہ نماز ختم ہونے پر اپنا ایک ہاتھ سینہ پر رکھیں ، مگر اس حدیث سے غیر مقلدین حالت قیام میں اور نماز کی حالت میں سینہ پر دونوں ہاتھوں کے باندھنے کی مشروعیت کو ثابت کرتے ہیں جس کا حدیث کے الفاظ میں کہیں دور دور تذکرہ نہیں ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں آپ بھی دیکھ لیں اور ہر غیر مقلد دیکھ لے۔
قال رایت رسول الله ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورایت یضع ھذہ علی صدرہ۔
یضع ھذہ علی صدرہ (میں نے دیکھا کہ آپ دائیں بائیں رخ پھیرنے کے بعد اس کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے) کا تعلق نماز ختم ہونے کے بعد کی حالت سے ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد آپ کا ایک عمل یہ بھی تھا کہ کوئی ہاتھ آپ آپنے سینہ پر رکھتے تھے۔
لیکن اس حدیث کو غیر مقلدین محدثین علماء بھی سینہ پر دونوں ہاتھ رکھنے کی اپنی دلیل بناتے ہیں آپ اندازہ لگا ئے کہ جب آدمی تقلید کا راستہ چھوڑ اکر اپنی من مانی کرتا ہے تو وہ کیسی بے سر و پیر کی بات کرتا ہے، ایک اہم بات اور بھی ذہن آپ نشین کر لیں کہ اگر بالفرض و المحال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے کی بات اگر کسی صحیح حدیث میں ہو بھی تو اس کا سنت ہونا ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ سنت وہ عمل ہوتا ہے جس پر آنحضور کا عمومی عمل ثابت ہو اور صحابہ کرام نے بھی اس کو اپنا معمول بنایا ہو، اور یہ بات کسی طرح ثابت نہیں ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا آنحضور کا اکثری یا دائمی معمول تھا، اور یہی وجہ ہے کہ غیر مقلدین کی اس مسئلہ میں نقل کردہ کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ کسی صحابی نے یہ کہا ہو کہ سنت یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ پر رکھے جائیں جب کہ سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں حضرت علی خلیفہ راشد کا صاف ارشاد ہے کہ سنت یہ ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھا جائے اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ و تابعین میں ہاتھ زیر ناف باندھنے کا معمول تو رہا ہے مگر سینہ پر ہاتھ باندھنے کا کسی ایک صحابی کا بھی عمل منقول نہیں ہے۔
یقین جانئے کہ اگرنماز میں سینہ پر ہاتھ رکھنا بھی اسلاف کا معمول ہوتا تو اس بارے میں کوئی صحیح حدیث ہوتی اور یہ سنت ہوتا تو امام ترمذی اس کو ہرگز نظر انداز نہ کرتے، اور امام ابن قیم اس کو مکروہ نہ قرار دیتے، امام ابن قیم کا ارشاد ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں: "دیکوہ ان یجعلاھا علی الصدر" یعنی سینہ پر ہاتھ رکھنا مکروہ ہے، اور حضرت علی کا یہ ارشاد کہ سنت یہی ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھا جائے جس کو عبدالرحمن مبارکپوری صاحب نے از راہ تعصب ضعیف قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن قیم فرماتے ہیں۔صحیح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات ہے....والصحیح حدیث علی یعنی صحیح حدیث حضرت علی ہی والی ہے۔(بدائع الفوائد : ص۱۹ ج۱)؛
دلیل نمبر 5 : نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کا جن کا مذہب ہے ان کی صریح صحیح دلیل یہ ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے;حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ" [مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ, رقم الحديث: 3959]؛
حضرت وائل فرماتے ہیں : میں نے رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے۔
یہ روایت بالکل صحیح سند سے ہے، مگر غیر مقلدین علماء کو اس بارے میں بڑی مہارت حاصل ہے کہ وہ صحیح سند والی روایت کو بھی غلط قرار دے دیتے ہیں، چنانچہ عبدالرحمن مبارک پوری غیر مقلد اس صحیح سند والی روایت کو دیکھ کر اوپر نیچے ہونے لگے اور فرماتے ہیں:میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند اگرچہ عمدہ ہے مگر تحت السرہ یعنی ناف کے نیچے والا کلمہ ثابت نہیں ہے۔ لکن فی ثبوت لفظ تحت السرة فی ھذا الحدیث نظر اقویا۔(ص ۴۱۲ )
اور پھر اس ثابت شدہ لفظ کو غیر ثابت کرنے کے لئے وہ سب کچھ کر کے رکھ دیا جس سے امانت و دیانت اور اصول پناہ مانگتے ہیں، اب ان کی اس تفصیل میں کون پڑے اور جان کھپائے، ہم تو ان غیر مقلدوں سے صرف یہ کہیں کہ اگر آپ کے یہاں ثابت نہیں ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، صحابہ کرام اور تابعین عظام اور ائمہ فقہ و حدیث کا عمل یہ بتلاتا ہے کہ یہ لفظ ثابت ہے چاہے مصنف کے بقیہ اور نسخوں میں یہ لفظ ہو یا نہ ہو۔
علامہ شیخ ہاشم السندی نے اپنے رسالہ میں بیان کیا کہ:”میں نے یہ ذیادتی ( تحت السرۃ) 3 نسخوں میں پائی ہے۔ ایک وہ نسخہ جس کو شیخ قاسم محدث دیار مصریہ میں نقل کیا اور دوسرا وہ نسخہ جس کو شیخ اکرم النصر پوری نے نقل کیا اور تیسرا وہ نسخہ جس کو شیخ عبدالقادر مفتی مکہ معظمہ نے نقل کیا ہےٌ ( ترصیع الدرۃ) ، اسی بات کو ترصیع الدرۃ کے مقدمہ میں نعیم اشرف صاحب سے نقل کیا گیا ہے اور اس کا مقدمہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ نے بیان کیا ہے اور کتاب میں ترصیع الدرۃ کے پرانے مخطوطے کا وہ صفحہ بھی پیش کیا جہاں شیخ ہاشم السندی نے اس زیادتی کی تصدیق کی۔

مصنف ابن ابی شیبہ کی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت تحقیق

مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض نسخوں میں یہ حدیث ہے ، اس میں تحت السرہ کا لفظ نہیں اور بعض نسخوں میں تحت السرہ کا لفظ ہے۔ ان دونوں نسخوں کی اشاعت کا شرف اہل السنت و جماعۃ احناف کو ہی نصیب ہوا۔ جس میں تحت السرہ نہیں اسکو بھی سب سے پہلے احناف نے ہی حیدرآباد دکن سے شائع کیا اور جس میں یہ لفط ہے اسکو بھی احناف نے ہی کراچی سے شائع کیا۔ جس سے احناف کی امانت و دیانت واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں نسخوں کو مانتے ہیں اس نسخہ کی اطلاع سب سے پہلے الشیخ قاسم بن قطلو بغا شاگرد رشید ابن ہمام نے دی ، ان کا وصال 879ھ ہے ۔ ان کی مخطوطات پر وسیع نطر تھی ، بہت بڑے محدث تھے ، پوری دنیا میں ان کے علم کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس صدی میں اور پھر دسویں صدی میں گیارہویں صدی کے نصف تک دنیا بھر میں عرب یا عجم کے کسی محدث نے اس کا انکار نہ کیا۔ تقریبا پونے تین سو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد محمد حیات سندھی نے کہا کہ مجھے اس قلمی نسخہ میں یہ الفاظ نہیں ملے جو میں نے دیکھا ہے۔ یہ محمد حیات سندھی ، محمد معین ٹھٹھوی کا شاگرد ہے جو دراصل شیعہ تھا لیکن تقیہ کر کے اپنے آپ کو حنفی کہتا تھا۔
محمد حیات سندھی کی وفات 1163 ھ میں ہے ، نہ ہی محمد حیات سندھی بعد میں حنفی رہا اور نہ ہی محمد فاخرا الٰہ آبادی حنفی تھا ، اس کی وفات 1124 ھ میں ہے وہ بھی محمد حیات سندھی کا ساتھی تھا جو محمد معین شیعہ کی وجہ سے حنفیت سے برگشتہ ہوگیا اور محمد فاخر بھی اسی کے مذہب پر تھا۔ الغرض پونے تین سو سال بعد اس نے انکار کیا کہ میرے نسخہ میں نہیں تو مولانا قائم سندھی اور مولانا محمد ہاشم سندھی نے اس کو صحیح نسخہ میں تحت السرہ کا لفظ دکھا کر اس کی بولتی بند کردی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ الشیخ قاسم بن قطلوبغا (879ھ) نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ”تخریج احادیث الاختیار” میں لکھا : ھذا سند جید ۔ اور اس صدی میں کسی نے اس پر انکار نہیں کیا ، پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔ ھذا حدیث قوی من حیث السند ان کا وصال 1140 ھ میں ہے اور شیخ ابوالحسن السندھی کے معاصر ہیں۔ جب شیخ حیات سندھی نے انکار کیا تو شیخ قائم السندھی اور شیخ ہاشم سندھی نے انکو نسخہ صحیحہ دکھایا اور محمد فاخر نے اس زیادت کا انکارنہیں کیا ۔ اس کے بعد شیخ عابد السندھی (1257ھ) نے بھی طوالع الانوار شرح در مختار میں اس حدیث کو ذکر کیا اور اس پر ایک آواز بھی اس کے خلاف بلند نہ ہوئی کیونکہ محمد حیات السندھی کا انکار نہ صرف بے دلیل بلکہ خلاف دلیل تھا۔ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری :۔ تاآنکہ مولوی عبدالرحمٰن مبارک پوری غیر مقلد (1335ھ) نے محمد حیات السندھی کی مردود بات کو دوبارہ ہوا دی اور اس پر تیل چھڑکا لیکن مبارک پوری بھی مانتا ہے کہ بعض نسخوں میں یہ زیادت ہے ۔
انکار حدیث کے لئے انکا کہنا ہے کہ نسخوں میں ” تحت السرہ” تو ہے مگر یہ سہو کاتب ہے نچلی سطر میں “تحت السرہ ” تھا وہ غلطی سے نظر سے چوکنے سے اوپر والی حدیث میں لکھ دیا ۔ اگر انکا یہ وہم مان لیا جائے تو پھر نیچے والی روایت میں تحت السرہ کا لفظ نہیں رہنا چاہیے ، آخر دو سطروں میں دو جگہ ” تحت السرہ ” تو فورا” نظر آجاتا ہے ۔ تصحیح کے وقت اصل نسخہ میں ایک تحت السرہ ہوتا نقل میں ساتھ ساتھ دو جگہ نظر آئے تو یہ غلطی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی اس لئے یہ محض وہم ہے۔ و ان الظن لا نغنی من الحق شیا “سو اٹکل کام نہیں دیتی حق بات میں کچھ بھی ۔ دوسرا وہم یہ ہے کہ ابن ترکمانی ، زیلعی ، عینی وغیرہ نے اسکا ذکر نہیں کیا تو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کے دو نسخے ہیں ایک میں یہ الفاظ ہیں ایک میں نہیں تو انکے پاس پہلا نسخہ ہو تو اس سے دوسرے نسخے کی نفی کیسے ہوگی ۔ شیخ قاسم کے بعد ابن طولون حنفی (953ھ) ، علی حنفی (975ھ ) ، ملاعلی قاری حنفی ( 1014 ھ ) ، احمد شبلی حنفی (1027ھ) ، شیخ عبدالحق حنفی (1052ھ) ، محدث ایوب بن احمد خلوتی حنفی (1071ھ ) ، محدث حسن بن علی عجیمی مکی حنفی (1113ھ) ، محدث ابن الہادی السندھی (1139ھ) ، محدث شیخ عبدالغنی نابلسی حنفی (1143ھ) ، محدث محمد بن احمد عقیلہ مکی حنفی (1150ھ) ، شیخ محدث عبداللہ بن محمد اماسی حنفی شارح بخاری و مسلم (1127ھ) ، شیخ محدث محمد بن حسن المعروف بابن ہمات حنفی ( 1175ھ) ، شیخ محدث سید مرتضٰی زبیدی حنفی ( 1205ھ ) ، محدث فقیہ محمد ہبۃ اللہ باہلی ( 1224ھ ) ، محدث شھیر ابن عابدین ( 1252ھ) ، شیخ محدث شاہ ولی اللہ حنفی (1276ھ) وغیرہ ہم کسی نے اس حدیث کا انکار نہیں کیا ۔
اپنی خواہش کے مخالف حدیث کو جھٹلانا بلکہ اس حدیث کو شہید کرنا غیر مقلدیت کی سرشت میں شامل ہے ، پہلے دونوں وار کار گر نہ ہوئے تو اب تیسرا اور آخری وارکیا ۔ جو پہلے دو سے بھی زیادہ بودا اور کمزور ہے بلکہ بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ اور وہ یہ کہ حدیث مسند احمد اور دارقطنی میں ہے ، اس میں تحت السرہ نہیں ہے ، اس لئے مصنف ابن ابی شیبہ میں تحت السرہ نہیں ہے۔
اختلاف نسخہ کی پہلی مثال : اگر یہ اعتراض بھی علم حدیث میں کوئی حیثیت رکھتا ہے تو اسی مسلہ میں غیر مقلدین جو حدیث مسند احمد سے پیش کرتے ہیں عن ھلب (الطائی) قال : راءیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ و عن شمالہ و راءیتہ یضع ھذہ علی صدرہ وصف یحیٰ الیمنی علی الیسری فوق المفصل ۔ (احمد )
ترجمہ :۔ ھلب طائی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں طرف سے پھرتے تھے اور میں نے دیکھا آپ نے اس کو اپنے سینے پر رکھا یحیٰی نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر گٹ پر رکھ کر دکھایا:
(1) اس حدیث کی سند اوپر سے یوں ہے ۔ سفیان ، سماک ، قبیصہ ، ھلب اس حدیث کو ترمذی ، (2) ابن ماجہ نے ابوالاحوص ، سماک الخ سے روایت کیا ہے اور اس میں صدرہ نہیں۔ دارقطنی نے (3) عبدالرحمٰن بن المحدی اور (4) وکیع عن سفیان سے اس کو روایت کیا ہے ۔ اس میں علی صدرہ نہیں۔ پھر (6) امام احمد نے ہی اس کو شریک عن سماک سے روایت ہے اس میں بھی علی صدرہ نہیں ہے۔ اپنا فیصلہ یہاں بھی جاری کریں کہ “6″ جگہ علی صدرہ نہیں ، صرف ایک جگہ ہے اس لئے علی صدرہ تحریف ہے۔
(2) اس حدیث میں مرکزی راوی سماک بن حرب ہے اور وہ منفرد ہے : قال فصانی اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ الانہ کان یلقن فیتلقن۔ (میزانا الاعتدال ج2 ص233)۔ امام نسائی فرماتے ہیں جب وہ اکیلا ہو تو حجت نہیں کیونکہ وہ تلقین کو قبول کر لیتا تھا ۔ پھر یہ سماک کوفی بھی ہے اور اہل کوفہ کی روایت کو صاحب حقیقۃ الفقہ نے ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔
(3) اس سند میں سفیان ثوری بھی ہیں جو اس حدیث کے خلاف ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے ۔
(4) اس میں نماز کے بعد کا ذکر ہے کہ اس کو اپنے سینے پر رکھا ، کوئی صاف معنی نہیں بنتا ،نماز کے اندر ہاتھ باندھنے کا معنی نکلتا ہے ۔
(5) امام احمد بھی اس حدیث کو نہیں مانتے ، ان کا ایک قول ” فوق السرہ ” اور دوسرا “تحت السرہ ” کا ہے ” علی صدرہ ” کا کوئی قول نہیں۔
(6) یحیٰی بن سعید نے دایاں ہاتھ بائیں گٹ پر رکھا ، غیر مقلد دایاں ہاتھ بائیں کہنی پر رکھتے ہیں۔
(7) ابن عبدالبر نے ” التمہید “میں اس حدیث میں ” علی صدرہ” ذکر نہیں کیا ۔
(8) علامہ ہیثمی نے ” مجمع الزوائد ” میں مسند احمد کی تمام زائد احادیث لی ہیں اور اس میں ” علی صدرہ ” والی کا ذکر تک نہیں ۔
(9) علامہ سیوطی نے ” جمع الجوامع ” میں مسند احمد کی روایات لی ہیں مگر اس روایت کا نشان تک نہیں ۔
(10) علی متقی نے ” کنزالعمال ” میں مسند احمد کی روایات لی ہیں مگر اس میں ” علی “صدرہ” کا نشان تک نہیں۔ کیا ان دس دلائل قاہرہ سے آپکے اصول پر تحریف ثابت ہوگئی یا نہیں ، اب ذرا مسند احمد کے حوالہ سے ” علی صدرہ ” نقل کرنے والوں کے خلاف بھی گالیں کا پلندہ شائع کرو۔
اختلاف نسخہ کی دوسری مثال : اگر اس طرح تحریف ثابت ہوتی تو جو حدیث غیر مقلدین صحیح ابن خزیمہ کے حوالہ سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی پیش کرتے ہیں اس کا حال ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) یہ حدیث حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ہے اور حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری زندگی ساری کوفہ میں گزاری ہے اور اہل کوجہ کا سینے پر ہاتھ باندھنا ہرگز ثابت نہیں ، پس اس پر صحابی کا عمل ہی ثابت نہیں۔
(2) حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے انکے ایک صاحب زادہ علقمہ ( احمد ج 4 ص 316 ، دارقطنی ج1 ص117 ، نسائی ج1ص141) اور ان کے دوسرے صاحبزادے عبدالجبار عن علقمہ و اہل بیت و مولٰی لہم روایت کرتے ہیں ۔ (مسلم ج1ص173، ابوداؤد ج1ص112 ،بیہقی ج2ص26 ، احمد ج4ص318 ، دارمی ج1ص164)۔ مگر کسی روایت میں نہ “علی صدرہ ” ہے اور نہ ہی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے خاندان میں سے کسی ایک کا سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھناثابت ہے۔
(3) عاصم بن کلیب سے شعبہ (احمد ج4 ص 319 ) عبدالواحد ( ایضا” ج4 ص319) زہیر بن معاویہ ( ایضا” ج4 ص318 ) زائدہ (ایضا” ج4 ص 318 ) بشر بن المفصل ( ابوداؤد ج1ص112) عبداللہ بن ادریس ( ابن ماجہ ص59) سلام بن سلیم (طیالسی ص137) خالد بن عبداللہ ( بیہقی ج2ص31)روایت کرتے ہیں اور کسی ایک روایت میں بھی علٰی صدرہ نہیں ہے۔
(4) عاصم سے صرف سفیان ثوری کی سند میں ہے اور وہ اس کے خلاف زیرناف ہاتھ باندھتے ہیں۔ (شرح المہزب ج 3ص313، مغنی ابن قدامہ ج اص519)۔
(6) اس کے بعد مؤمل بن اسماعیل کا انفراد اور ضعف بھی بیان ہو چکا۔ اب فرمائیے ! اس کو آپ تحریف کہیں گے ? محمد حیات سندھی ، محمد فاخرالہ آبادی اور مبارک پوری نے اس کو تحریف نہیں ، سہو کاتب کہا تھا ، جو ان کا وہم تھا۔ جبکہ ان تین غیر مقلدوں کے علاوہ کسی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی نے اسکو سہو کاتب بھی نہیں کہا۔
اختلاف نسخہ کی تیسری مثال
(1) تمام غیر مقلدین اہل السنت و جماعت کی ضد میں وتر میں دو رکعتوں کے بعد قعدہ نہیں کرتے ، وہ مستدرک حاکم کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں لا یقعد الا فی آخر ھن ۔ مگر یہ مستدرک کے اکثر نسخوں میں نہیں ہے ۔ علامہ زیلعی ، شیخ ابن ہمام ، علام عینی ، سید مرتضٰی زبیدی سب نے لا یقعد کی جگہ لا یسلم ہی نقل کیا ہے لیکن وہ چونکہ غیر مقلدین کی خواہش کے موافق ہے اس لئے قبول ہے اس کو تحریف نہیں کہیں گے۔ ابو داؤد:
(2) ابوداؤد سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث ابن الاعرابی کے نسخہ میں ہے۔ لؤلؤی جو آخری نسخہ ہے اس میں بالکل نہیں مگر اس کو تحریف نہیں کہتے۔
(3) ابو داؤد شریف میں ہی یہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع یدین والی حدیث کے بارے میں انہوں نے فرمایا ہے : لیس بصحیح بھذا اللفظ یہ عبارت ابوداؤد کے اکثر نسخوں میں نہیں ہے۔ ابن الاعرابی کے نسخہ میں بھی بریکٹ میں ہے۔اور ابوداؤد کے آخری اور صحیح ترین نسخے لؤلؤی میں نہیں ہے۔ جب آخری نسخہ سے خود ابوداؤد نے اس کو نکال دیا تو اب دوبارہ اس کو ابوداؤد میں داخل کرنے کی ضرورت کیا تھی، صرف خواہش نفسانی۔
(4) مگر ابو داؤد شریف میں ہی بعض نسخوں میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عشرین رکعۃ” ہے ، چونکہ یہ روافض کی تقلید میں بیس رکعت تراویح کا انکار کرتے ہیں اس لئے اس نسخہ کا انکار کردیا،
علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء ج ا ص 400 پر ابوداؤد سے سند کے ساتھ عشرین رکعۃ” (بیس رکعت) ہی نقل کیا ہے ۔ اس کتاب کے محقیقن شعیب الارنوط اور حسین الاسد نے بھی اس کی حاشیہ میں تائید کی ہے ۔ ذہبی کا وصال 748ھ ہے اس وقت سے لے کر آج تک کسی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، محدث نے اس نسخہ کا انکار نہیں کیا ۔ اس کے انکار کی لعنت جلالپوری کے چہرہ پر برسی اور انکار پر شرم کرنے کی بجائے الٹا اسے تحریف کا نام دیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(5) حضرات انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے کی جو عادات یہود میں تھیں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے میں غیر مقلدین نے یہود کا ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ مسند الحمیدی میں ایک نہایت صحیح السند حدیث ترک رفع یدین پر ہے جو ان کے اس جھوٹ کے خلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رفع یدین کرتے رہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ اس صحیح حدیث کے بعد اپنے جھوٹ سے توبہ کرلیتے ابھی توبہ کا دروازہ کھلاہے ، مگر اپنے جھوٹ سے توبہ کرنے کے بجائے الٹا اس حدیث کا انکار کردیا کہ یہ حدیث دمشق کے مکتبہ ظاہریہ کے نسخہ میں نہیں ۔
(6) اسی طرح صحیح ابوعوانہ میں نہایت صحیح سند سے ترک رفع یدین کی حدیث ہے جس کو مان لینا ان کے مذہب کی موت ہے ، اس کے انکار کیلئے پہلے تو تحریف معنوی کرتے رہے کہ لایرفع پیچھے نہیں آگے لگتا ہے اور غتر بود کے لطیفے کو دہراتے رہے ۔ مشہور ہے کہ ایک طالب علم نے سعدی کا یہ شعر پڑھا۔ سعدی کہ گوئے بلاغت ربود در ایام ابوبکر بن سعد بود اس نے بلاغت کی غت کو پیچھے لگا نے کی بجائے آگے لگا دیا اور استاد سے پوچھا کہ غتر بود کا کیا معنی ہے ؟ یہی کچھ اس منکر حدیث فرقے نے حدیث ابوعوانہ کے ساتھ کیا ۔ پھر جب ہر طرف سے اپنوں اور بیگانوں نے ملامت کی تو اب یہ شور مچادیا کہ ایک نسخہ میں “و” زائد مل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن نسخوں کا حوالہ آڈت کرنے والوں نے دیا ہے ان نسخوں میں یہ حدیث اسی طرح ہے تو حدیث ثابت ہوگئی ، اس کاانکار کر کے منکرین حدیث کی جماعت میں آپ شامل ہو گئے ہیں۔ جس طرح قرآن و حدیث روافض کی خواہشات نفسانی کے خلاف ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ ہم قرآن و سنت کو اس لئے نہیں مانتے کہ اس سے ہماری خواہشات نفس پامال ہوتی ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و سنت میں صحابہ کرام نے تحریف کردی ہے ، اس لئے ہم نہیں مانتے۔
اسی طرح چھوٹے رافضی جن احادیث صحیحہ کو اپنی خواہشات نفسانی کے خلاف پاتے ہیں ان کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور انکار کی وجہ یہ بتاتے ہیں اہل سنت وجماعت احناف نے قرآن و حدیث میں تحریف کر دی ہے۔ اس عقیدہ میں دونوں متفق ہیں کہ قرآن و حدیث میں تحریف ہوچکی ہے، صرف اختلاف اس میں ہے کہ تحریف صحابہ کرام نے کی یا اہل سنت و جماعت نے ۔ لیکن اس طرح انکار حدیث کر کے یہ اپنی ہی دنیا اور دین بگاڑتے ہیں ، اللہ تعالٰی ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...