Saturday 29 December 2018

تقلید کی چودہ سو سالہ تاریخ پر مختصر دلائل

0 comments
تقلید کی چودہ سو سالہ تاریخ پر مختصر دلائل

تقلید پہلی صدی میں : حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ان اہل المدینۃ سالوا ابن عباس رضی اللہ عنہما عن امراۃ طافت ثم حاضت ؟ قال لھم تنفر قالوا لا ناخذ بقولک و ندع قول زید ۔ترجمہ : مدینہ منورہ کے باسیوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا جسے طواف)وداع ( کرتے ہوئے حیض آگیا ؟ انہوں نے کہا کہ بس وہ چلی جائے ۔ اہل مدینہ کہنے لگے کہ ہم آپ کے اس فرمان کی وجہ سے حضرت زید ) بن ثابت رضی اللہ عنہ (کی بات کو نہیں چھوڑ سکتے ۔)صحیح البخاری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 237)

تقلید دوسری صدی میں : امام ابویوسف رحمہ اللہ )المتوفیٰ 179ھ (فرماتے ہیں:
علی العامی الاقتداء بالفقہاء لعدم الاھتداء فی حقہ الی معرفۃ الاحادیث ۔
ترجمہ :عام آدمی پر فقہاء کی اقتداء )تقلید (واجب ہے اس لیے کہ وہ احادیث کی چھان پھٹک کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ (الہدایہ شرح بدایۃ المبتدی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 282 عربی )

تقلید تیسری صدی میں : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م241ھ)کے بارے میں منقول ہے : ويأمر العامي بأن يستفتى إسحاق وأبا عبيد وأبا ثور وأبا مصعب وينهى العلماء من أصحابه كأبى داود وعثمان بن سعيد وإبراهيم الحربي وأبى بكر الأثرم وأبي زرعة وأبى حاتم السجستاني ومسلم وغيرهم أن يقلدوا أحدا من العلماء ويقول عليكم بالأصل بالكتاب والسنة ۔
ترجمہ : امام احمد رحمہ اللہ عام لوگوں کو امام اسحاق امام ابوعبید امام ابوثور اور امام ابو مصعب رحمہم اللہ سے مسائل دریافت کرنے کا حکم دیتے تھے اور اپنے اصحاب میں سے جو علماء تھے مثلا امام ابوداود،عثمان بن سعید،ابراہیم الحربی ،ابوبکر الاثرم، ابوزرعہ، ابوحاتم سجستانی اور امام مسلم رحمہم اللہ وغیرہ ان کو کسی کی تقلید کرنے سے روکتے تھے اور ان سے فرماتے تھے کہ تم پر اصل کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔(الفتاوى الكبرى لابن تیمیۃ: ج5 ص98، كتاب مسائل منثورة،رقم المسئلۃ:20،چشتی)

فائدہ: امام رحمہ اللہ کے قول میں جہاں عام آدمی کے لیے تقلید کا وجوب ثابت ہو رہا ہے وہاں ان لوگوں کا یہ شبہ بھی زائل ہوجاتاہے جو کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے تو روکا ہے پھر ان کی تقلید کیوں ؟ جواب واضح ہے کہ جن مجتہدین نے تقلید سے منع کیا ہے تو انہوں نے اپنے شاگردوں اوراجتہاد کی صلاحیت سے بہرہ ور ، احادیث وفقہ کے ماہر افراد ہوں ،رہے عام لوگ تو ان پر تو یہ خود تقلید واجب فرما رہے ہیں،پھر ان کا قول لے کر عدم وجوب تقلید پر دلیل پکڑنا حیرت کا موجب ہے۔

تقلید چوتھی صدی میں : امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ )المتوفیٰ 370ھ(فرماتے ہیں :
وفی ھذہ الآیۃ دلالۃ علی وجوب القول بالقیاس واجتہاد الرائی فی احکام الحوادث …ومنہا ان العامی علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث .
ترجمہ : یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں قیاس اور اجتہاد پر عمل کرنا واجب ہے ۔۔۔۔۔ اور اسی آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیش آمدہ مسائل میں غیر مجتہد پر مجتہد کی تقلید واجب ہے ۔ )احکام القرآن للجصاص ج 2 ص 305)

تقلید پانچویں صدی میں :خطیب بغدادی رحمہ اللہ( المتوفی 463ھ )لکھتے ہیں : لومنعنا التقلید فی ہذہ المسائل التی ہی من فروع الدین لاحتاج کل احد ان یتعلم ذالک وفی ایجاب ذالک قطع عن المعایش وہلاک الحرث والماشیۃ فوجب ان یسقط۔ ۔
ترجمہ : اگر ہم ان فروعی مسائل میں عوام کو تقلید سے روکیں تو پھر ہر کسی پر پورے دین کی تعلیم ضروری ہوجائےگی اسےہر کسی کے لیے ضروری ٹھہرانے میں دیگر امور معاش ،کھیتی باڑی اور مال مواشی سب برباد ہوجائیں گے۔[یعنی لوگوں کو تقلید کے اس فطری حق سے محروم کرنے میں پوری دنیا کے انتظامی امور میں خلل واقع ہوگا۔ ) الفقیہ والمتفقہ ج 2 ص 62 ، 133،چشتی)

تقلید چھٹی صدی میں : امام غزالی رحمہ اللہ)المتوفی 505ھ (لکھتے ہیں : وانما حق العوام ان یو منوا ویسلموا ویشتغلوا بعبادتہم ومعایشہم ویترکوا العلم للعلماء ۔
ترجمہ: دین کی بات عوام کے ذمہ صرف یہ ہے کہ ایمان لائیں ،اسلام قبول کریں، عبادات میں مشغول رہیں اور اپنے اپنے کارو بار میں لگے رہیں علم اور تحقیق کے مسائل علما کے لیے چھوڑیں۔ (احیاء علوم الدین ج 3 ص 35)
عوام اگر مسائل کی تحقیق میں پڑیں اور فیصلہ خود کرنے لگیں اس کے لیے امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :وقع فی الکفر من حیث لایدری کمن یرکب لجۃ البحر وہو لایعرف السیاحۃ۔
ترجمہ: وہ کفر کے خطرہ میں ہے اس طرح کہ وہ جانتانہیں، یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص جو تیراکی نہ جانتا ہو اور دریا کے بھنور میں کود پڑے۔(احیاء علوم الدین ج 3 ص 35)

تقلید ساتویں صدی میں : حضرت امام رازی رحمہ اللہ(المتوفی 606ھ )فرماتے ہیں:
ان العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث۔
ترجمہ: عام آدمی پر روز مرہ پیش آنے والے مسائل میں علماء کی تقلید واجب ہے۔)تفسیر کبیر ج 3 ص 372)

تقلید ساتویں صدی میں :امام نووی رحمہ اللہ( المتوفی 676ھ )فرماتے ہیں : لوجاز اتباع ای مذہب شاء لافضی الی ان یلتقط رخص المذاہب متبعا ہواہ۔۔۔۔۔ فعلی ہذا یلزمہ ان یجتہد فی اختیار مذہب یقلدہ علی التعین ۔
ترجمہ: اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے۔)المجموع شرح المہذب جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 93 ،چشتی)

تقلید آٹھویں صدی میں :غیر مقلدین کی پسندیدہ شخصیت و امام علامہ ابن تیمیہ الحرانی (المتوفی 728ھ )لکھتے ہیں:یکونون فی وقت یقلدون من یفسدہ وفی وقت یقلدون من یصححہ بحسب الغرض والہویٰ ومثل لایجوز باتفاق الائمۃ۔
ترجمہ: لوگ غرض وخواہش کی خاطر کسی وقت ایک امام کی تقلید کریں جو ایک عمل کو فاسد قرار دیتاہو اور کسی وقت دوسرے امام کی تقلید کریں جو اسے صحیح قرار دیتاہو یہ باتفاق ائمہ جائز نہیں۔(فتاویٰ کبری جلد 3 صفحہ204)

تقلید نویں صدی میں :امام ابن خلدون رحمہ اللہ (المتوفی 808 ھ )لکھتے ہیں:
ولما عاق عن الوصول الی رتبۃ الاجتہاد ولما خشی من اسناد ذالک الی غیر اہلہ ومن لایوثق برایہ ولابدینہ فصرحوا بالعجز والاعراز وردوا الناس الی تقلید ہولاء کل من اختص بہ من المقلدین وحظروا ان یتداول تقلید ہم لما فیہ من التلاعب ولم یبق الا نقل مذاہبہم۔
ترجمہ: جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔ (مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 566 مصر)
اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔

تقلید نویں صدی میں :علامہ ابن الہمام الاسکندری رحمہ اللہ ( المتوفی 861ھ ) فرماتے ہیں:ان مثل ہذہ الالتزامات لکف الناس عن تتبع الرخص۔
ترجمہ: اس قسم کے التزامات (کہ انسان ایک مذہب کی پیروی کریں)اس لیئے نہیں کہ لوگ مختلف مذاہب سے (خواہش نفس کے مطابق)آسانیاں تلاش کرنے سے باز رہیں۔ (شرح فتح القدیر کاب ادب القاضی ج 1 ص239،چشتی)

تقلید دسویں صدی میں :علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ (المتوفیٰ970ھ) فرماتے ہیں :أَخَذَ الْعَامِّيُّ في كل مَسْأَلَةٍ بِقَوْلِ مُجْتَهِدٍ۔
ترجمہ: عام آدمی ہر مسئلہ میں اپنے مجتہد کے قول پر عمل کرے گا۔ (البحر الرائق: جلد نمبر 6 صفحات 447 ، 448)

تقلید گیارہویں صدی میں :شارح بخاری علامہ علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ(لمتوفی 1088ھ) صاحب درالمختار لکھتے ہیں:ان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل وخرق للاجماع وان الحکم الملفق باطل بالاجماع۔
ترجمہ: فقہاء میں سے کسی قول مرجوح کو لینا اور اس پر قضاء اور فتوی دینا ایک جہالت اور اجماع امت کی مخالفت کے سوا کچھ نہیں کبھی ایک امام کی بات لینا اور کبھی دوسرے کی یہ تلفیق کاانداز بالاجماع باطل ہے۔ (درمختار بحاشیہ شامی جلد نمبر 1 صفحات 176 ، 177)

بارہویں صدی اور تقلید:حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی 1176ھ) لکھتے ہیں:وجب علیہ ان یقلد لمذہب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذہبہ۔
ترجمہ: ہندوستان اور ماوراء النہر میں رہنے والوں کے لیے} واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں اور ان پر حرام ہے کہ آپ کے مذہب کی پروی سے نکلیں ۔ (الانصاف ص53)

تقلید تیرہویں صدی میں :علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمہ اللہ (1239ھ) فرماتے ہیں :ثم من لم یکن مجتہدا وجب علیہ اتباع المجتہد لقولہ تعالیٰ: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ و لاجماع السلف علی ذلک وھذا الاتباع یسمیّٰ تقلیدا۔
ترجمہ : جو مجتہد نہیں ہے اس پر مجتہد کی اتباع کرنا واجب ہے، اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ نیز اس لیئے بھی واجب ہے کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے اور اسی اتباع کا نا م”تقلید“ ہے۔ (نبراس شرح شرح العقائدصفحہ 109)(سوال یہ ہے کیا سارے غیر مقلد مجتہد ہیں اگر مجتہد نہیں ہیں تو ؟؟؟)

چودہ صدیوں کی شہادت ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے یہ پوری امت کی متفقہ آواز ہے۔ حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی ان کے سرکردہ علماء نے چوتھی صدی سے لے کر چودھویں صدی تک ائمہ کی تقلید شخصی کو تحفظ دین کی واحد صورت قرار دیا اور اس سے نکلنے میں الحاد اور گمراہی کے وہ سیاہ بادل دیکھنے میں آئے کہ الامان والحفیظ جب تیرہویں صدی کے بعد برٹش انڈیا میں اس قلعے میں پہلا شگاف لگا تو دنیا نے دیکھا کہ دین میں آزادی فکر پیداہونے کے جو خطرناک نتائج علماء نے بیان کیے تھے وہ سامنے آکر رہے۔اور آج مسلمانوں کی جو خطرناک فرقہ وارانہ حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دینا دیکھ چکی ہے کہ انکار فقہ نے انکار حدیث کی راہیں نکالیں اب فرقہ انکار حدیث اسی طرح مسلمانوں کو انکار قرآن کی دہلیز پرلارہا ہے۔

اس لیے ہمیں آج غور و فکر سے کام لینا ہوگا کہ جس کام کو ساری امت کرتی چلی آرہی ہو اور دین کا تحفظ اور بقا اسی میں بتلا رہی ہو، مشاہدہ اور تجربہ بھی اس کا موید ہو ، گمراہی و ضلالت سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہو اور اعمال کرنے میں آسانی بھی اسی میں ہو تو آخر کیونکر اس سے منہ موڑا جا رہا ہے ۔ کون لوگ ہیں جو دنیا کی اتنی بڑی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہیں وہ ہمارے اردگرد تو نہیں اور ہمیں راہ راست سے ورغلانے کے لیے شکوک و شبہات تو نہیں پھیلا رہے؟ اگر ہیں تو ان سے بچیئے ۔ (طالبِ دعا ودعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

















0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔