Sunday 31 May 2020

غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کا اپنے ہی اکابرین کے موقف سے اختلاف و بغاوت

0 comments
غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کا اپنے ہی اکابرین کے موقف سے اختلاف و بغاوت

محترم قارئینِ کرام : غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں : پچیس برس کے تجربہ سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کوسلام کربیٹھتے ہیں ۔(اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

پھرغیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی یہ بھی لکھتے ہیں : اگروہ اہلِ حدیث میں جو بے علم یاکم علم ہوکر ترکِ تقلید کے مدعی ہیں وہ اِن نتائج سے ڈریں، اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوئے جاتے ہیں ۔ (اشاعۃ السنۃ، جلدنمبر:۴، سنہ۱۸۸۸ء)

علامہ سیدعبد الحیی صاحب نزہتہ الخواطر کی آٹھویں جلد میں غہر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی کے ذکر میں لکھتے ہیں : وشدد النکیر علی مقلدی الائمۃ الاربعۃ لاسیما الاحناف وتعصب فی ذلک تعصباً غیرمحمود فثارت بہ الفتن وازدادت المخالفۃ بین الاحناف واھل الحدیث ورجعت المناظرہ الی المکابرۃ والمجادلۃ والمقاتلۃ لماکبرت سنہ ورای ان ھذہ المنازعۃ کانت سبباً لوھن الاسلام ورجع المسلمون الیٰ غایۃ من النکبۃ والمذلۃ رجع الی ماھواصلح لھم فی ھذہ الحالۃــــــ واماماکان علیہ من المعتقد والعمل فھو علی ماقال فی بعض الرسائل ان معتقدہ معتقد السلف الصالح مماورد بہ الاخبار وجاءفی صحاج الاخبار ولایخرج مماعلیہ اھل السنۃ والجماعۃ ومذہبہ فی الفروع مذہب اہل الحدیث التمسکین بظواھر النصوص ۔(تقدمہ علی الاجوبۃ الفاضلۃ لاسئلۃ العشرۃ الکاملۃ للشیخ عبدالفتاح ابی غذ:۸، مطبوع:بحلب،چشتی)
ترجمہ: مولانا بٹالوی نے مقلدین ائمہ اربعہ خصوصاً احناف کے خلاف شدت اختیار کی اور اس میں ایسے تعصب سے چلے کہ اسے اچھا نہیں کہاجاسکتا؛ پس اس سے بھڑک اُٹھے اور احناف اور فرقہ اہلِ حدیث کے مابین مخالفت زیادہ ہوگئی مناظرے، مکابرہ، مجادلہ؛ بلکہ مقاتلہ تک پہنچے؛ پھرجب آپ بڑی عمرکو پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ مقلدین سے یہ کھچاؤ ضعف اسلام کا سبب ہوگیا ہے اور مسلمان رسوائی اور بدبختی کے گڑھے میں جارہے ہیں، آپ پھر اس طرف لوٹے جومسلمانوں کے لئے اس حالت میں بہتر تھاــــــہاں جہاں تک آپ کے اعتقاد اور عمل کا تعلق ہے وہ اس پر تھے جیسا کہ آپ نے اپنے بعض رسالوں میں کہا ہے کہ ان کا اعتقاد سلف صالحین کا سا ہے جو اخبار اور صحیح احادیث میں آیا ہے اور وہ اس حد سے نہیں نکلیں گے جواہلِ السنۃ والجماعت کی راہ ہے، رہیں فروعات تواس میں وہ ان اہلِ حدیث کے طریقے پر رہیں گے جونصوص کے ظواہر سے تمسک کرتے ہیں ۔

غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی کی فکری کروٹ پرپوری جماعت اہلِ حدیث کی روش بدل جانی چاہیے تھی؛ لیکن افسوس کہ وہ لفظ حنفی اور شافعی وغیرہ سے اسی طرح سیخ پارہے کہ کسی درجہ میں وہ فقہ کے قریب آنے کے لئے تیار نہ ہوئے، یہ شیخ الکل غیر مقلدین میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اور محمدحسین بٹالوی کے مسلک کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت کی ایک لہر تھی جو جماعت کے بیشتر علماء کولے ڈوبی، بہت کم تھے جومعتدل مزاج رہے اور اہلِ السنۃ والجماعت کے دائرہ کے اندر رہے، غالباً سنہ۱۳۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ جماعت اہلِ حدیث کے اعیان وارکان لاہور میں جمع ہوئے اور انجمن اہلِ حدیث کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کے صدر مولانا محمدحسین بٹالوی قرار پائے، مولانا بٹالوی مرزا غلام احمد قادیانی کاحال دیکھ کر ضرور سمجھتے تھے کہ غیرمقلدین فقہ اور مقلدین سے جونفرت بڑھا رہے ہیں، اس سے اندیشہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت یہ لوگ (غیرمقلدین) پورے اسلام سے ہی منحرف نہ ہوجائیں، انہوں نے اہلِ حدیث کے ساتھ اپنے کوحنفی کہنے کی بھی راہ نکالی ۔

غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں : لاہور میں ایک مجلس اہلحدیث کے نام سے نامزد ہوکر قائم ہوئی ہے (یہ مجلس نامزد ہوکر قائم ہوئی تھی حکومت برطانیہ سے یہ نام اہلِ حدیث انہیں الاٹ کیا گیا ) صدر ہونے کی عزت اس ناچیز کوبخشی گئی ہے، اس میں یہ امربحث میں آیا تھا کہ اہلِ حدیث (جس کی طرف یہ انجمن منسوب ہوئی ہے) کی کیا تعریف ہے اور اہلِ حدیث سے کون شخص موسوم ہوسکتا ہے (جواس انجمن کے ارکان اور مجلس منتظمہ میں داخل ہونے کا استحقاق رکھتا ہو) اس کا تصفیہ رسالہ اشاعۃ السنۃ، جلد:۲۰کے صفحہ نمبر۱۵۹ (جواہلِ حدیث کی قوم کا اور گورنمنٹ میںمہتمم ایڈوکیٹ Representative ریپریزنٹیٹیو ہے) کے اس بیان سے ہوگیا کہ اہلِ حدیث وہ ہے جواپنا دستور العمل والاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کوبنادے (احادیث کے ساتھ آثار سلفیہ کوماننے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کے ارشادات کوبھی اپنے لیے سمجھے) اور جب اس کے نزدیک ثابت ومحقق ہوجائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یااس سے قوی پایا نہیں جاتا تووہ ان احادیث وآثار پرعمل کرنے کومستعد ہوجاوے اور اس عمل سے اس کوکسی امام یامجتہدکا قول بلادلیل مانع نہ ہو ۔ ازآنجا کہ اس تعریف کی رُو سے بے تعصب ومنصف مزاج مقلدین مذاہب اربعہ حنفیہ وغیرہ جوعمل بالحدیث کوجائزرکھتے اور سعادت سمجھتے، تقلید مذہب ان کواس عمل بالحدیث سے مانع نہ ہوتی، داخل ہوسکتے ہیں، نظر برآں اس انجمن کے صدر خاکسار کی یہ رائے قرار پائی کہ اس انجمن کے نام میں ایسی تعمیم وتوسیع ہوجانی چاہیے کہ اس کا نام سنتے ہی وہ مقلدین جوعمل بالحدیث کوسعادت سمجھتے ہیں داخل سمجھے جائیں بناءً علیہ اس کے تجویز یہ ہوئی کہ لفظ انجمن اہلِ حدیث کے ساتھ بریکٹ میں حنفیہ وغیرہ بڑھادیا جائے۔(ماہنامہ الہدی، بابت ماہ ذیقعدہ، سنہ۱۳۲۷ھ، باہتمام مولوی کریم بخش، مہتمم ومالک اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور)
پھر محمدحسین صاحب بٹالوی کی اپنی رائے ملاحظہ کیجئے : صدرانجمن خاکسار چونکہ باوجود اہلِ حدیث ہونے کے حنفی بھی کہلانا جائز رکھتا تھا؛ لہٰذا اس امر کا اظہار اپنے ماہوار رسالہ اشاعۃ السنۃ اورد"سراج الاخبارد" کے ذریعہ کردیا، یہ امرہمارے رُوحانی فرزند (مولانا ثناء اللہ امرتسری جوان دنوں پرچہ اہلِ حدیث کے ایڈیٹر تھے) نوجوانوں کوجوصرف اہلِ حدیث کہلاتے ہیں اور وہ حنفی وغیرہ کہلانا پسند نہیں کرتے ناگوار گزرا اور انہوں نے خاکسار کے اس اظہار کے خلاف اپنے اخبار اہلِ حدیث میں یہ نوٹ شائع کرادیا....الخ ۔

غیر مقلد عالم ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا : کسی کا ہو رہے کوئی نبی کے ہو رہیں گے ہم ۔

غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی نے اس کے جواب میں لکھا : نبی کے ہیں سبھی حنفی نہ مرزائی نہ چکڑالی نہ معتزلی جوجاحظ کی کرتے ہیں شاگردی ۔

لفظ اہلِ حدیث ماضی میں ایک علمی شان رکھتا تھا، فرقہ اہلِ حدیث میں جب جاہل بھی اہلِ حدیث کہلانے لگے توپوری کی پوری جماعت نت نئے اُٹھنے والے فتنوں کا دروازہ بن گئی، مرزا غلام احمد کے پہلے جانشین حکیم نورالدین بھی پہلے اہلِ حدیث بنے تھے (تاریخ احمدیت، جلد چہارم، صفحہ:۶۹،۷۰، حرمین سے واپسی پر نورالدین نے وہابیت اختیار کی اور ترکِ تقلید پروعظ کیئے اور عدم جوازِ تقلید پرکتابیں تصنیف کیں، بھیرہ میں ہیجانِ عظیم پیدا ہوگیا ـ چودھری ظفراللہ خان قادیانی بھی اپنے دادا چودھری سکندرخان کے بارے میں لکھتے ہیں : جہاں تک مجھے معلوم ہوسکا ہے وہ اہلِ حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ (تحدیثِ نعمت صفحہ نمبر ۳) پھرمرزائی بنے ۔

قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری غیر مقلد کی رائے : ان خیالات سے متأثر ہوکر جماعت اہلِ حدیث کے مقتدر عالم قاضی عبدالواحد صاحب خانپوری نے اپنی جماعت کوجھنجھوڑا اور کہا : اس زمانہ کے جھوٹے اہلِ حدیث مبتدعین، مخالفین، سلفِ صالحین جوحقیقت ماجاء بہ الرسول سے جاہل ہیں وہ اس صفت میں وارث اور خلیفہ ہوئے شیعہ وروافض کے ـ جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب ودہلیز کفرونفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ اور زنادقہ کا تھے؛ اسی طرح یہ جاہل، بدعتی اہلِ حدیث اس زمانہ میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے بعینہ مثل اہل التشیع کے"۔(کتاب التوحید والسنۃ فی رد اہل الالحاد والبدعۃ:۲۶۲،چشتی)

اس عبارت سے واضح ہے کہ اَن پڑھ جاہلوں کا اہلِ حدیث کہلانا کس طرح آئیندہ دینی فتنوں کی اساس بنتا رہا ہے اور یہ بھی عیاں ہے کہ اس جماعت غیرمقلدین کے اعتدال پسند علماء کتنی دردمندی سے ترکِ تقلید کے کڑوے پھل چکھتے رہے ہیں اور ان کا ذائقہ بھی ساتھ ساتھ بتاتے رہے ہیں ، غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی نے اچھا کیا جواپے آپ کواہلِ حدیث حنفی کہنے لگے ، یہ کسی نہ کسی دائرہ میں فقہ کی طرف لوٹنے کا ایک قدم تھا ، اس پر دیگرعلماء فرقہ ہذا بہت سیخ پا ہوئے ؛ تاہم مرزا غلام احمد کے انجام کا یہ ایک طبعی اثر تھا ، جواس کے پرانے دوست غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب پر اس تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوا ، مشہور غیرمقلد عالم عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں : اربابِ فہم وذکاء اصحاب صدق وصفا کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ عرصہ سے جناب مولوی ابوسعید محمدحسین بٹالوی نے اپنے آپ کواہلِ حدیث حنفی لکھا ہے، آپ کے اس لقب پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار اہلِ حدیث نے ایک نوٹ لکھا ہے ۔ (الانصاف رفع الاختلاف:۱، مصنفہ مولانا عبدالحق، مطبوعہ سنہ۱۹۱۰ء رفاہِ عام اسٹیم پریس، لاہور،چشتی)

اس سے واضح ہے کہ غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی میں یہ تبدیلی بعد میں آئی ، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی دینی تباہی آنکھوں سے دیکھی تھی ۔

غیر مقلد عالم نواب وحیدالزمان کی رائے : غیرمقلدین کا گروہ جواپنے تئیں اہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنہوں نے ایسی آزادی اختیار کی ہے کہ مسائل اجماعی کی پرواہ نہیں کرتے نہ سلفِ صالحین علیہم الرّحمہ اور صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کی ، قرآن کی تفسیر صرف لغت سے اپنی من مانی کرلیتے ہیں ، حدیث شریف میں جو تفسیر آچکی ہے اس کوبھی نہیں مانتے ۔ (وحیداللغات ماوہشعب ، حیات وحیدالزماں :۱۰۲)

غیر مقلد عالم عبدالعزیز سیکرٹری جمعیت مرکزیہ اہلِ حدیث ہند : اہلِ حدیث جواپنے ایمانیات وعقائد کی پختگی میں ضرب المثل تھے معتزلہ اور متکلمین کی شریعت کودوبارہ زندہ کرنے والے حضرات ہم میں پیدا ہوگئے او راُن کی حوصلہ افزائی کی گئی نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج جمعیت اہلِ حدیث ایک جسم بلاروح رہ گئی؛ بلکہ جسم کہتے ہوئے بھی قلم رُکتا ہے، آج ہم میں تفرق وتشتت کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کسی جماعت میں اس قدر اختلاف وافتراق ہو ۔ (فیصلہ مکہ صٖڈحہ نمبر ۳،۲)

ترکِ تقلید کا یہ نتیجہ ان حضرات کے اپنے قلم سے آپ کے سامنے ہے ، کاش کہ یہ حضرات غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی کی بات مان لیتے ، ثناء اللہ صاحب امرتسری غیر مقلد نے اس وقت تواپنے استاد محمد حسین بٹالوی غیر مقلد کی مخالفت کی ؛ لیکن ترکِ فقہ کے نتیجہ میں جب ترکِ حدیث کی اُٹھتی ہوئی لہر دیکھی تو اُن کے ذہن نے بھی پھرپلٹا کھایا ، مرزا غلام احمد کے ترکِ تقلید نے غیر مقلد عالم محمدحسین صاحب بٹالوی میں فکری تبدیلی پیدا کی تو مولوی عبد اللہ چکڑالوی کی تحریک ترکِ حدیث نے ثناء اللہ صاحب امرتسری غیر مقلد عالم کوسوچنے پرمجبور کیا کہ ترکِ حدیث کی ان لہروں کا پسِ منظرکیا ہے ؟ غیر مقلد عالم ثناء اللہ صاحب امرتسری ، مولوی عبداللہ چکڑالوی امام مسجد چینیاں والی لاہور کے بارے میں رقمطراز ہیں : جب انہوں نے دیکھا کہ اب لوگ فقہ کی بندش سے تقریباً آزاد ہوگئے ہیں توانہوں نے احادیث پرنکتہ چینی شروع کردی اور جب کچھ دنوں میں یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا تو وہ جمع و تدوینِ قرآن میں رخنے نکالنا شروع کر دیں گے اور جب تک لوگوں کواس عیاری کا پتہ نہ چلے گا وہ عوام اور نئے تعلیم یافتہ طبقے کے و دماغ کواتنا مسموم کرچکے ہوں گے کہ ان کا تدارک کسی سے نہ ہوسکے گا ۔ (فتاویٰ ثنائیہ:۱/۲۸۰)(ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کمالات و خصائص

0 comments
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کمالات و خصائص
محترم قارئینِ کرام : بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاند سے باتیں کیا کرتے تھے، جس وقت آپ اس کی طرف انگشت مبارک سے اشارہ فرماتے تو وہ آپ کی طرف جھک جاتا۔
ہمارے حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دونوں جہانوں کے وجود کے لیے باعث تخلیق ہیں یعنی اگر آپ نہ ہوتے توکچھ بھی نہ ہوتا جیسے احادیث قدسیہ میں وارد ہے۔لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَرْضَ وَلَا الْاَفْلاَکَ وَلَاالْجَنَّۃَ وَلَا النَّارَاوْکَمَا قَالَ لَوْ لَاکَ لَمَا اَظْھَرْتُ الرُّبُوْبِیَّہَ۔
یعنی اے محبوب اگر تم نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان، جنت و دوزخ نہ بناتا۔
بلکہ ارشاد فرمایا:اگر پیارے تو نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا ظاہر نہ کرتا۔

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ

جب اللہ تعالیٰ نے سب اشیاء حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے پیدا فرمائیں تو پھر آپ زمین و آسمان کے مالک ہوئے۔ مالک اپنی ملکیت میں تصرف کر سکتا ہے اور مالک کو اپنی شے کی خبر ہوتی ہے اِسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے منجانب اللہ عزوجل علم غیب کا عقیدہ اور آپ کو ’’متصرف فی الاکوان باذن اللہ‘‘ ماننا آپ کے کمالات میں سے ہے۔
حبیب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حبیب خدا ہیں اور اس وصف کی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فخر بھی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم باہم مصروفِ گفتگو، تھے کسی نے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں، کوئی کہتا موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں، کوئی کہتا آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں، کوئی کہتا عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی گفتگو اپنی قیام گاہ میں سن رہے تھے، باہر تشریف لائے تو فرمایا ’’وَاَنَا حَبِیْبُ اللہِ‘‘ اور میں حبیب اللہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طفیل جملہ انبیاء علیہ السلام و اولیاء رحمتہ اللہ علیہم، بھی محبوبانِ خدا ہیں اور قیامت میں ان سب کی شفاعت حق ہے اور انبیاء و او لیاء سب کی شفاعت سے مطلقاً انکار صریح بددینی اور بحکم فقہا موجب اکفاء ہے۔
فقہائے کرام کے نزدیک وہ منکر کافر ہے۔ امام اجل ابن الہام فتح تقدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں کہ: لَا تَجُوْزُ الصَّلوٰۃُ خَلْفَ مُنْکِرِ الشَّفَاعَۃِ کَانَّہُ کَافِرٌ.منکر شفاعت کے پیچھے نماز نہیں ہوسکتی اس لیے کہ وہ کافر ہے۔
اسی طرح ’’فتاویٰ خلاصہ و بحرالرائق‘‘ وغیرہ ہما میں ہے۔ ’’فتاویٰ تاتار خانیہ‘‘ پھر ’’طریقہ محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‘‘ میں ہے۔مَنْ اَنْکَرَ شَفَاعَۃَ الشَّافِعِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃَ فَھُوَ کَافِرٌ.قیامت میں شفیعوں کی شفاعت کا منکر کافر ہے۔
علم غیب:اللہ تعالیٰ کی عطاء سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہفَعَلِمْتُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَرْض۔ پس جان لیا میں نے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ بےشک سمیٹ لی گئی میرے لیے زمین پس میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا۔(مشکوۃ:51)
ایک حدیث میں راوی بیان کرتے ہیں کہ کھڑے ہوئے ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خبر دی ہم کو ابتدائے مخلوق سے لے کر جنتیوں اور دوزخیوں کو اپنے اپنے مقامات میں داخل ہونے تک۔(مشکوۃ:506،چشتی)
حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی ہم کو ہر اُس بات کی جو ہونے والی ہے قیامت تک۔(مشکوۃ:533)
’’تفسیر روح البیان‘‘ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پس جان لیا میں نے علم اولین و آخرین کو، اور ایک روایت میں ہے علم ہر چیز کا جو ہوچکی اور جو بات آخر تک ہوگی۔(روح البیان232/9)
تصرفات:اللہ تعالیٰ کے اِذن سے حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے گرمی سردی کی تاثیر دور کرے اور ان کی آنکھ میں درد تھا۔ لعاب دہن اُن کی آنکھ میں ڈالا، اسی ساعت ان کو شفا حاصل ہوئی۔ اس کے بعد کبھی دردِ چشم عارض نہیں ہوا۔ (بخاری کتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب، بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر) ایک اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت قتادہ بن النعمان کی آنکھ کو زخم پہنچا اور آنکھ رخسارہ پر نکل آئی۔ اس کو اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ چنانچہ وہ آنکھ بہترین اور خوب ترین آنکھوں میں ہوگئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کو ’’تاویل قرآن‘‘ اور ’’تفقہ فی الدین‘‘ عنایت فرمائے، سو ایسا ہی واقعہ ہوا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خرما میں دُعائے برکت کی اور وہ بہت ہی تھوڑی تھیں۔ اس دُعا کے سبب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان سے قرض خواہوں کا حق ادا کر دیا پھر بھی تیرہ و سق باقی رہ گئے۔ (بخاری، مشکوٰۃ باب فی المعجزات پہلی فصل)۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اونٹ چلنے میں سب سے پیچھے رہ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دُعا فرمائی تو سب سے آگے جایا کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے طویل عمر اور کثرتِ مال و اولاد کے لیے دعا فرمائی تو آپ رضی اللہ عنہ نے لمبی عمر پائی اور آپ کی اولاد بڑی ہوئی۔ (متفق علیہ مشکوٰۃ باب جامع المناقب پہلی فصل) ایک اعرابی کی درخواست پر بارش کے لئے دُعا فرمائی جو متواتر ہفتہ بھر جاری رہی، پھر دُعا فرمائی تو بارش رُک گئی۔ (مشکوٰۃ باب فی المعجزات پہلی فصل متفق علیہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عتبہ بن ابی لہب پر ہلاکت کی دُعا کی تو اُس کو راہِ شام میں شیر نے پھاڑ ڈالا۔
ردالشمسّ:سورج لوٹانا حضور سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمالات میں سے ایک ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس کا انکار ’’غیر مسلم‘‘ کرتے تو کوئی حرج نہ تھا کہ وہ ہوئے جو غیر مسلم، آج اسلام کا دم بھرنے والے بلکہ علم کے مدّعی اس بہت بڑے کمال کا انکار کر بیٹھے اور وجہ یہ بیان کی کہ یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہیں حالانکہ یہ ان کا ایک لنگڑا عذر ہے اس لئے کہ حدیث پاک صحیح ہے جیسے ایک صحیح حدیث کو ہونا چاہیے۔ فقیر پہلے حدیث پاک کا متن عرض کرتا ہے اس کے بعد اس کی سند کی تحقیق عرض کرے گا۔
عن اسمآء بنت عمیس ان النبی ﷺ کان یوحٰی الیہ وراسہٗ فی حجر علی فلم یصل العصر حتی غربت الشمس فقال رسول اللہ ﷺ اصلیت یا علی قال لافقال اللھم انہ کان فی طاعتک وطاعۃ رسولک فار دو علیہ الشمس قالت اسمآ ء فرایتھا غربت ثم رایتھا طلعت بعد ما غربت ووقفت علی الجبال ولارض وذالک بالصھباء فی خیبر۔ (رواہ الطحاوی فی مشکل الاثار)
ترجمہ: یعنی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ خیبر میں صہبا کے مقام پر سید دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہورہی تھی۔ سورج غروب ہوگیا اور حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے ابھی عصر کی نماز نہ پڑھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے پیارے علی! کیا ابھی نماز نہیں پڑھی۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دُعا کی: یااللہ! علی المرتضیٰ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے، لہٰذا سورج کو واپس لوٹا دے۔ حضرت بی بی اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سورج کو دیکھا کہ وہ غروب ہوجانے کے بعد واپس لوٹ آیا اور خیبر میں صہبا پر یہ واقع ہوا۔اس حدیث مبارکہ کے متعلق آئمہ حدیث، اولیائے امت اور ملت رحمہم اللہ تعالیٰ کے تاثرات و ارشادات درج ذیل ہیں، اور یہ فہرست طویل ہے لہٰذا چند نمونے حاضر ہیں۔
(1) حضرت سیدنا امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ھٰذانہ حدیثان ثابتان رواتھما ثقات۔ (شفا شریف: ١/٢٨٤) یعنی اس حدیث پاک کی دونوں سندیں ثابت ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں
(2) حضرت ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔قال طحاوی و ھٰذان، حدیثان ثابتان، ای عندہ وکفیٰ بہ حجۃ ٌ و رواتھما ثقات فلا عبرۃ بمن طعن فی رجا لھما۔(شرح شفا علی نسیم الریاض، ٣/١١)
یعنی جب یہ دونوں حدیثیں امام طحاوی کے نزدیک ثابت ہیں تو یہ حجت کے لیے کافی ہے اور دونوں حدیثوں کے راوی ثقہ ہیں لہٰذا ان دونوں حدیثوں کے راویوں میں طعن کرنے والے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
(3) سیدنا امام احمد بن صالح مصری رحمتہ اللہ علیہ استاذ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔حکی الطحاوی ان احمد بن صالح کان یقول لاینبغی لمن سبیلہ العلم التخلف عن حفظ حدیث اسمآہ لانہ من علامات النبوۃ۔(شفا: ١/٢٨٤)
ترجمہ: یعنی امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امام احمد بن صالح فرمایا کرتے تھے ’’اہل علم کو لائق نہیں کہ وہ حدیث اسماء (ردشمس والی) حدیث یاد نہ کریں کیوکہ یہ حدیث تو علاماتِ نبوت سے ہے۔
(4)حضرت علامہ ابن عابدین شامی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’ردالمختار‘‘ میں عنوان یوں قائم کیا ’’مطلب لوردت الشمس بعد غروبھا:1/360‘‘ اس کے تحت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا والی حدیث پاک جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے حبیب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دُعا سے ڈوبا ہوا سورج واپس آیا بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’والحدیث صححہ الطحاوی وعیاض واخرجہ جماعۃٌ منھم الطبرانی بسند حسن‘‘ (ردالمختار ١/٣٢) یعنی اس حدیث کو امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ نے اور حضرت قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح ثابت کیا ہے اور اس حدیث کو محدثین کی ایک جماعت نے با سند حسن ذکر کیا ہے، ان میں سے محدث طبرانی ہیں۔ اس کے بعد علامہ ابن عابدین نے فرمایا ’’واخطا من جعلہٗ موضوعاً کابن الجوزی وقواعدنا لایا یاہ‘‘(ردالمختار ج1، ص361) یعنی ابن جوزی وغیرہ جنہوں نے اس حدیث کو موضوع کہا، انہوں نے غلط کہا ہے، اور اہل سنت و جماعت کے قواعد کے یہ بات خلاف نہیں۔
(5) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’مخفی نہ رہے کہ ان کا (یعنی بعض افراد کا) یہ کہنا کہ کتب صحاح میں حدیث مذکورہ کو ذکر نہیں کیا گیا اور حسن و منفرد ہے۔ یہ بات قابل غور و فکر ہے کیونکہ جب امام طحاوی، احمد بن صالح، طبرانی اور قاضی عیاض رحہم اللہ تعالیٰ اس کی صحت اور اس کے حسن ہونے کے قائل ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے تو اب یہ کہنا کہ کتب صحاح و حسان میں ذکر نہیں کیا گیا دُرُست نہ ہوگا، اور لازم نہیں ہے کہ تمام ہی احادیث مبارکہ کتب صحاح و حسان میں ذکر ہوں۔ نیز ان کا کہنا کہ اہل بیت میں سے ایک مجہول و غیر معروف عورت نے نقل کیا ہے جس کا حال کسی کو معلوم نہیں، یہ بات سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہنا ممنوع ہے اس لیے کہ وہ جمیلہ ۔۔۔ جلیلہ۔۔۔ اور عاقلہ و دانا عورت ہیں، ان کے احوال معلوم و معروف ہیں علامہ خفاجی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ابن تیمیہ اور ابن جوزی کا یہ کہنا کہ حدیث اسماء موضوع ہے، بےشک ان کا یہ کہنا ڈھگوسلہ ہے۔ (مدارج النبوت مترجم، ج دوم، 430)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کےلیئے ڈوبا سورج پلٹایا یہ حدیث صحیح ہے مکمل تحقیق و تخریج کے ساتھ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ کےلیئے ڈوبا سورج پلٹایا اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اختیار آسمانوں اور چاند پر بھی ہے آور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو اللہ نے کل کائینات کا مالک و مختار بنا کر بھیجا ہے سبحان اللہ ۔
اس حدیث پاک کے رجال صحیح ھیں اور یہ صحیح حدیث ہے : رواه الطبرانی بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوی في مشکل الآثار (2 / 9، 4 / 388. 389) وللحديث طرق أخري عن أسمائ، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدريث .
وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اﷲ بن عبد اﷲ الحسکا المتوفی سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس،چشتی)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي : فی الخصائص الکبری (2 / 137) : أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبرانی بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 / 193) : أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإِسنادين صحيحين .
وقال الإمام النووي فی شرحه علی صحيح مسلم (12 / 52) : ذکر القاضيص : أن نبينا صلی الله عليه وآله وسلم حبست له الشمس مرّتين … ذکر ذلک الطحاوي وقال : رواته ثقات .
حضرت اسماء سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے جسکا ترجمہ آپ نیچے پڑھ سکیں گے، یہ حدیث مختلف کتابوں میں مختلف طرق سے بیان ہوئی ہے سب سے پہلے عربی میں احادیث پیش خدمت ہیں ، ان کی صحت پر اقوالِ سلف بعد میں پیش کیا جائے گا۔پہلے عربی احادیث ملاحظہ فرمائیں :
حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ , فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” صَلَّيْتَ يَا عَلِيُّ؟ ” قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اللهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ “، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ , ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ ۔(شرح مشكل الآثار (3/ 92)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ عُمَيْسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ , وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” اللهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّكَ فَرُدَّ عَلَيْهِ شَرْقَهَا ” قَالَتْ أَسْمَاءُ فَطَلَعَتِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ , ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ , ثُمَّ غَابَتْ وَذَلِكَ فِي الصَّهْبَاءِ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ [ص:95] قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَذْكُورُ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَإِذَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَدَنِيُّ الْمَعْرُوفُ بِالْفِطْرِيِّ وَهُوَ مَحْمُودٌ فِي رِوَايَتِهِ وَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ عَوْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَذْكُورُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ عَوْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَاحْتَجْنَا أَنْ نَعْلَمَ مَنْ أُمُّهُ الَّتِي رَوَى عَنْهَا هَذَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هِيَ أُمُّ جَعْفَرٍ ابْنَةُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. فَقَالَ قَائِلٌ: كَيْفَ تَقْبَلُونَ هَذَا وَأَنْتُمْ تَرْوُونَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَدْفَعُهُ فَذَكَرَ مَا ۔(شرح مشكل الآثار (3/ 94،چشتی)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْخَفَّافُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْفِطْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ، فَرَجَعَ وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ، فَلَمْ يُحَرِّكُهُ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ» قَالَتْ: فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى رُفِعَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ غَابَتْ وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ ۔(المعجم الكبير للطبراني (24/ 144)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح [ص:148] وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ [ص:149] مُوسَى، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ [ص:150]، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:151] يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ» قَالَتْ أَسْمَاءُ: «فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرَبَتْ» وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُثْمَانَ ۔(المعجم الكبير للطبراني (24/ 147)
الكتب » الثالث من فوائد أبي عثمان البحيري
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبٍ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ ، ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ثنا فَضْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَّيْتَ الْعَصْرَ ” . قَالَ : لا . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ نَبِيِّكَ , فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ ” . قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ .الكتب » تاريخ دمشق لابن عساكررقم الحديث: 44459 ،چشتی)(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُظَفَّرِ بْنُ الْقُشَيْرِيِّ ، وَأَبو الْقَاسِمِ الْمُسْتَمْلِي ، قَالا : أنا أَبُو عُثْمَانَ الْبَحِيرِيُّ ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الدندانقاني بِهَا ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَحْبُوبٍ ـ وَفِي حَدِيثِ ابْنِ الْقُشَيْرِيِّ : نا أَبُو الْعَبَّاسِ الْمَحْبُوبِيُّ ـ نا سَعِيدُ بْنُ مَسْعُودٍ . ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْفَتْحِ الْمَاهَانِيُّ ، أنا شُجَاعُ بْنُ عَلِيٍّ ، أنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ مَنْدَهْ ، أنا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ الْبُسْتِيُّ ، نا أَبُو أُمَيَّةَ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، نا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ ـ زَادَ أَبُو أُمَيَّةَ : ابْنُ الْحَسَنِ ـ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ ، فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّى غَرُبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” صَلَّيْتُ الْعَصْرَ ؟ ” وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : ” صَلَّيْتُ يَا عَلِيُّ ؟ ” قَالَ : لا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ـ وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : فَقَالَ : النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ـ ” اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ فِي طَاعَتِكَ ، وَطَاعَةِ نَبِيِّكَ ـ وَقَالَ أَبُو أُمَيَّةَ : رَسُولُكَ ـ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ ” ، قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَرَأَيْتَهَا غَرُبَتْ ، ثُمَّ رَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَمَا غَرُبَتْ ، تَابَعَهُ عَمَّارُ بْنُ مَطَرٍ الرَّهَاوِيُّ ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ ۔الكتب » طرح التثريب للعراقي » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ الْغَنِيمَةِ وَالنَّفَلِ رقم الحديث: 1284)(حديث مرفوع) وَرَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ ، بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ، ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ ، وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ ، فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اللَّهُمَّ إنَّ عَبْدَك عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ . قَالَتْ أَسْمَاءُ : فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَفَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الأَرْضِ ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ ، وَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ غَابَتْ ، وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ ” . وَفِي لَفْظٍ آخَرَ : ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ يَكَادُ يُغْشَى عَلَيْهِ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمًا ، وَهُوَ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صَلَّيْت الْعَصْرَ ؟ فَقَالَ : لا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَدَعَا اللَّهَ ، فَرَدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ . قَالَتْ : فَرَأَيْت الشَّمْسَ طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَابَتْ حِينَ رَدَّتْ ، حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ ۔

تفصیلات ، مفہوم و ترجمہ:اس حدیث کو حدیث رد شمس (سورج کا لوٹنا) بھی کہا جاتا ہے اور یہ معجزاتِ نبویہ مین شمار ہوتا ہے۔

امام علامہ محمد بن یوسف بن اسمٰعیل النبھانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الاراء تصنیف حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین میں تحریر فرماتے ہیں کہ؛

“سورج کا معجزانہ طور پر پلٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے ثابت ہے، اسے ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں تحریر فرماتے ہیں؛جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےلیئے سورج کے لوٹنے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں حضرت اسماء بنت عمیس کی روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی تھی اس وقت آپ کا سراقدس حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی گود میں تھا۔ انہوں نے اس وقت تک عصر کی نماز نہ پڑھی تھی یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا؛۔ علی! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے عرض کیا نہیں یارسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی! اے اللہ ! علی (رض) تیری اور تیرے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طاعت وخدمت میں تھا، لہٰذا اس کے لیئے سورج کو واپس لوٹا (تاکہ وہ نمازِ عصر ادا کرسکے)۔ اسماء بیان فرماتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج، پھر طلوع کرآیا اور اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ یہ واقعہ خیبر کے مقام صہباء پر پیش آیا۔ اس روایت کو امام طحطاوی نے نقل فرمایا؛۔ امام طحطاوی فرماتے ہیں کہ احمد بن صالح کہا کرتے تھے، کہ جس شخص کو علم دین سے تعلق ہے وہ حدیثِ اسماء کو یاد کرنے سے پیچھے نہ رہے، کیونکہ یہ نبوت کی علامت اور دلیل ہے۔

اس حدیث کو امام طحطاوی اور قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ابن مندہ اور ابن شاھین نے حدیثِ اسماء سے اسکی تخریج کی اور ابن مردویہ نے اسے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا۔ طبرانی نے اسے سند حسن کے ساتھ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے نقل کیا۔ طبرانی کے الفاظ یہ ہیں:”حضرت اسماء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے مقام صہباء میں ظہر کی نماز پڑھی، بعد ازاں نمازِ عصر کے بعد حضرت علی (رض) کو بلا بھیجا (انہوں نے ابھی عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی) جب وہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ان کی گود میں اپنا سرمبارک رکھا، حضرت علی (رض) نے آپ کو جنبش دینا مناسب نہیں سمجھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ حضرت علی (رض) کی نمازِ عصر کا وقت جاتا رہا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی” اے اللہ! تیرا بندہ علی تیرے نبی کی خدمت میں تھا (اور اسکی نماز قضا ہوگئی ہے) تو سورج کو مشرق کی طرف لوٹا دے”۔ اسماء بیان کرتی ہیں کہ سورج لوٹ کر اتنا اٹھ آیاکہ اسکی دھوپ پہاڑوں پر اور زمین پر پڑنے لگی۔ اسکے بعد حضرت علی اٹھے اور وضو فرما کر عصر کی نماز ادا فرمائی، پھر سورج غروب ہوگیا۔ یہ واقعہ مقام صہباء کا ہے ۔ امام طبرانی اوسط میں سند حسن کے ساتھ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے سورج کو حکم دیا تو وہ کچھ دیر کے لیئے ٹھہر گیا ۔(حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین (اردو) ، تصنیف امام یوسف بن اسماعیل نبھانی (رح) نوریہ رضویہ پبلیکیشنز لاھور پاکستان، ص ۶۵۵ و ۶۵۶،چشتی)

جمہور نے اس حدیث کی تصدیق کی ہے سوائے چند علماء کے انہوں نے بھی اسکی جزءیات پر بحث کی ہے نا کہ اسکی اصل کو غلط قرار دیا ہے، علم الحدیث کا عام قائدہ ہے کہ جو حدیث ضعیف بھی ہو وہ فضائل میں مقبول ہوتی ہے، اور دو اصول مزید بھی ہیں کہ ایک تو یہ کہ جب جمہور یعنی اکثریت اس کو مان لیتی ہے تو پھر کسی بحث کی گنجائش نہیں رہتی، دوسرے یہ کہ اس حدیث کو دیگر طرق سے اسنادِ حسن سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اور قائدہ مشہورہ ہے ہے کہ جب ایک حدیث ایک طرق سے ضعیف ہو لیکن اسکی حمایت میں صحیح طرق سے بیان کی گئی ہو یا اس پر اقوال موجود ہوں تو اس کو بھی قبولیت حاصل ہوجاتی ہے ۔

مخالفین اس روایت پر اسکی سند میں اعتراض کرتے ہیں؛ لیکن حافظ العراقی نے اس کو سند حسن کہا ہےاور امام ھیثمی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا رجال الصحیح یعنی اسکے رجال صحیح ہیں، یعنی ان دونوں کے نزدیک سند کے تمام راوی ثقہ صدوق اور حسن الاسانید ہیں،امام ہیثمی کا یہ بیان ہے ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (6/ 140) رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ مَرْزُوقِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ وَهُوَ ثِقَةٌ ۔

اور جو حافظ عراقی سے اوپر روایت عربی میں بیان کی گئی ہے اسکی سند کے متعلق حافظ کا یہ کہنا ہے؛۔ الكتب » طرح التثريب للعراقي » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ الْغَنِيمَةِ وَالنَّفَلِرقم الحديث: 1284)(حديث مرفوع) وَرَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ ، بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا۔

بعض محدثین نے کہا ہے کہ جس شخص کو علم سے کچھ لگاؤ اور واقفیت ہے وہ ہرگز اس حدیث سے بے خبر نہیں ہوسکتا اسلیئے کہ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ (حدیثِ متصل) ہے ۔ کتاب امتناع نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث حضرت اسماء سے پانچ سندوں کے ساتھ روایت ہے۔

امام صفحه ۵۲۸ جلد ۱ نصف الآخر میں لکھتے ہیں : اب اس بات سے ابن کثیر کا وہ قول رد ہوجاتا ہے جو پیچھے بیان ہوا (نوٹ ضرب حق: جو ہم آگے تحریر کریں گے)۔ جو پیچھے بیان ہوا کہ اس حدیث کو صرف ایک عورت نے بیان کیا ہے جو کہ بالکل غیرمعروف ہے اور جس کا حال کچھ معلوم نہیں ہے۔ اسی طرح اس سے ابن جوزی کے اس قول کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث بلاشبہ موضوع یعنی من گھڑت ہے۔

کتاب امتناع میں اس حدیث کو پانچوں سندوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے مگر پانچویں سند میں یہ لفظ ہیں کہ خیبر کے دن حضرت علی ، حضور کے ساتھ مال غنیمت تقسیم کرنے میں مصروف تھے کہ اسی میں سورج غروب ہوگیا تھا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے علی! کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی؟۔ انہوں نے کہا نہیں۔ حضور نے یہ سن کر فوراً وضو فرمائی اور مسجد میں بیٹھ کر دو یا تین کلمے فرمائے جو ایسا لگتا تھا جیسے حبشی زبان کے کلمے ہوں۔ اسی وقت سورج پہلے کی طرح عصر کے وقت لوٹ آیا۔ حضرت علی اٹھے اور انہوں نے وضو کرکے عصر کی نماز پڑھی ۔ اب آنحضرت نے پھر اسی طرح کلمے فرمائے جیسے پہلے فرمائے تھے جس سے سورج پھر واپس مغرب میں جاکر چھپ گیا جس سے ایسی آواز سنائی دی جیسے آرہ چلنے کی آواز ہوئی ہے۔

مگر یہ روایت تمام سندوں کے خلاف ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سند میں کچھ خبریں رہ گئی ہیں۔ اصل میں پہلے حضرت علی رض، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے مال غنیمت کی تقسیم میں مصروف تھے اس کے بعد آپ ان کی گود میں سررکھ کر سوگئے اور پھر آپ کی آنکھ اسوقت کھلی جب کہ سورج غروب ہوچکا تھا۔ اس طرح ان روایتوں میں کوئی اختلاف نہیں رہتا ۔

سیرت حلبیہ جلد اول کے صفحہ 516 پر لکھا ہے کہ : اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے سورج یعنی دن کو روکا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ گھروں سے نکل کر اس قافلے کا انتظار کرنے لگے ۔ آخر دن ڈھلنے لگا مگر وہ قافلہ نہیں پہنچا یہاں تک کہ سورج چھپنے کے قریب ہوگیا۔ اس وقت حضور نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ سورج کو غروب ہونے سے اس وقت تک کے لیئے روک دے جب تک وہ قافلہ نہ آجائے (تاکہ اس طرح کفار آپ کو جھوٹا نہ سمجھیں) چنانچہ حق تعالیٰ نے سورج کو اس کی جگہ روک دیا یہاں تک کہ وہ قافلہ دن چھپنے سے پہلے پہنچ گیا جس میں وہ ساری علامتیں موجود تھیں جو حضور نے بتلائی تھیں۔
اقول؛ مولف کہتے ہیں: ممکن ہے یہ بات کسی دوسرے قافلے کے بارے میں آپ نے دن متعین کرکے فرمائی ہو جس کے پاس آپ کا گزر ہوا تھا۔ لہٰذا اس گزشتہ روایت میں کوئی شبہ نہیں پیدا ہوتا جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ اب ثنیہ کے مقام پر پہنچنے والا ہے ۔

سورج کے روکے جانے کے متعلق ہمزیہ کے شاعر نے بھی اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے ۔

وشمس الضحیٰ طاعتک وقت مفیبھا
فما غربت بل والفنک بوقفتہ
ترجمہ : اور چمکتے ہوئے سورج نے اپنے غروب ہونے کے وقت آپ کے حکم کی تعمیل کی چنانچہ وہ غروب نہیں ہوا بلکہ آپ کی خواہش کے مطابق کچھ دیر تک اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا ۔

اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں : ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ کے سورج کو طلوع ہونے سے روکا گیا تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک مشرک نے جب آپ سے یہ کہا کہ ہمیں ہمارے قافلے کے متعلق بتاؤ تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے قافلے کے پاس سے تنعیم کے مقام پر گزرا تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اس قافلے میں کتنے اونٹ تھے کیا سامان تھا اور قافلے میں کون کون لوگ تھے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اس پر غور نہیں کرسکا تھا۔ مگر اس کے بعد پھر آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے قافلے میں اونٹوں کی تعداد سامان کی تفصیل اور قافلے والوں کے متعلق خبر دی اور فرمایا؛ (یہ قافلہ آفتاب طلوع ہونے کے وقت تمہارے پاس پہنچ جائے گا)۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر) اس وقت تک سورج کو طلوع ہونے سے روکے رکھا جب تک کہ وہ قافلہ مکے نہیں پہنچ گیا۔ یہ لوگ جب قافلے کو دیکھنے کے لیئے نکلے تو اچانک کسی نے کہا لو یہ سورج تو نکل آیا۔اسی وقت کسی دوسرے نے پکار کر کہا۔اور لو یہ قافلہ بھی آگیا۔ اس میں وہی فلاں فلاں آدمی ہیں”۔ قافلے میں وہ لوگ نکلے جن کے متعلق آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ اب اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کے متعلق بھی وہی بات کہی جاسکتی ہے جو پیچھے بیان ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔
صفحہ ۵۱۷ پر مزید لکھتے ہیں کہ : جہاں تک سورج کے رکنے کا تعلق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی حرکت (یعنی زمین کی گردش) بالکل رک گئی تھی ۔ ایک قول یہ ہے کہ حرکت ہلکی ہوگئی تھی اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ وقت کے لحاظ سے اپنی جگہ سے پیچھے ہوجانا۔

علماء نے لکھا ہے اس موقعہ کے علاوہ اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے سورج کو نہیں روکا گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ غزوہ خندق کے دن بھی حضور علیہ السلام کے لیئے سورج کو غروب ہونے سے روکا گیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور اسکے بعد سورج غروب ہوا۔ مگر اس روایت کی تردید اس قول سے ہوجاتی ہے جس میں ہے کہ اس دن حضور علیہ السلام نے عصر کی نماز سورج غروب ہوجانے کے بعد پڑھی تھی اور فرمایا تھا کہ ان مشرکوں نے ہمیں نماز، وسطی درمیانی نماز یعنی عصر کی نماز سے روک دیا۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

مگر بعض حضرات نے اس بارے میں دوسری بات لکھی ہے کہ غزوہ خندق کئی تک تک رہا تھا۔ ان میں سے ایک دن سورج کو شفق یا اسکےبعد کی زردی کی شکل میں روکا گیا تھا اور آپ نے اسی وقت میں نماز پڑھی اور بعض دنوں میں روکا نہیں گیا بلکہ آپ نے غروب کے بعد نماز پڑھی۔ ان ہی بعض حضرات نے کہا ہے کہ شفق کی سرخی یا زردی میں تاخیر کی روایت کرنے والا دوسرا ہے اور غروب میں تاخیر کی روایت کرنے والا دوسرا شخص ہے اور اس طرح یہ دونوں باتیں الگ الگ روایتوں میں کہی گئی ہیں۔

امام حلبی نے مزید لکھا ہے کہ : دوسرے انبیاء جن کے لیئے سورج روکا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ضعیف روایت ہے کہ داؤد علیہ السلام کے لیئے بھی ایک بار سورج کو غروب سے روکا گیا تھا۔ علامہ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ اسی طرح ایک مرتبہ سورج کو سلیمان علیہ السلام کےلئے بھی روکا گیا ہے چنانچہ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو حکم دیا جو سورج پر متعین ہیں کہ وہ اسکو پیچھے پھیر دیں تاکہ سلیمان علیہ السلام عصر کی نماز وقت کے اندر پڑھ لیں۔

سلیمان علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے لیئے سورج کو پیچھے پھیرا گیا تھا روکا نہیں گیا تھا بلکہ یہاں اس کو روکے جانے کے سلسلہ میں ہی بحث چل رہی ہے ادھر بعض حضرات نے کہا کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنے گھوڑوں کی کوچیں کاٹ ڈالی تھیں اور انکی گردن ماردی تھی کیونکہ ان کی وجہ سے وہ وقتِ عصر کی نماز ادا نہیں کرسکے تھے یعنی حق تعالیٰ کا حکم اس وقت میں پورا نہیں کرسکے تھے انہوں نے صدقہ نہیں کیا۔ تو یہ بھی انہوں نے حق تعالیٰ کے حکم کی تعظیم میں کیا تھا کیونکہ صدقہ کرنے میں بھی وقت کا صرف ہونا ضروری تھا۔
ص ۵۱۸ پر یہ بھی لکھتے ہیں کہ یوشع علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا تھا۔۔۔۔۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھانجے حضرت یوشع علیہ السلام کے لیئے بھی سورج روکا گیا ہے یہی ابن نون ابن یوسف صدیق علیہ السلام ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہی ان کے جانشین ہوئے اورانہوں نے تبلیغِ دین کا کام کیا۔
ص ۵۲۴ پر لکھتے ہیں : اسکے بعد اسی کتاب میں لکھا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا۔
اے پرودگار مجھے بیت المقدس کی سرزمین سے اک تیر کی مار کے برابر قریب کردے۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تم کو ان کی قبر دکھلاتا جو ریت کے سرخ ٹیلے کے پاس راستے پر ہے۔

علامہ ابن کثیر کہتے ہیں؛۔ حضور علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ سوائے یوشع علیہ السلام کے سورج کو کسی انسان کے لیئے نہیں روکا گیا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ حضرت یوشع کی خصوصیات میں سے تھا۔ لہٰذا اس کی روشنی میں وہ روایت کمزور ہوجاتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقعہ پر سورج کو غروب ہونے کے بعد لوٹایا گیا تھا یہاں تک کہ حضرت علی نے عصر کی نماز پڑھی جو اسلیئے رہ گئی تھی کہ حضور اپنی سواری پر سوگئے تھے۔ یہ واقعہ آگے بیان ہوگا۔ (پھر علامہ ابن کثیر خیبر والی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ) یہ حدیث منکر ہے۔ اس میں صحیح یا حسن ہونے کا کوئی جز نہیں ہے پھر یہ اگر حدیث صحیح ہوتی تو مختلف وجہوں سے اس کی روایت ضروری تھی اور بہت سے معتبر راوی اسکو بیان کرتے مگر اس کو اہلبیت میں سے صرف ایک عورت نے روایت کی ہے اور وہ ایسی کہ اسکےمتعلق کوئی تفصیل نہیں (کہ عام زندگی میں وہ کیسی تھی اور اسکی باتیں قابلِ اعتبار ہوتی تھیں یا نہیں) “یہاں تک علامہ ابن کثیر کا کلام ہے۔
مگر اس روایت پر جو شبہ ہوتا ہے وہ آگے بیان ہوگا (نوٹ؛ضرب حق؛ جو پہلے ہی اوپر جواب کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے)۔ کیونکہ ایک حدیث یہ ہے کہ سورج کو سوائے حضور کے کسی کے لیے نہیں روکا گیا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ مراد سورج کو روکنے سے ہے اس کو غروب ہوجانے کے بعد پھیرنے یعنی واپس لوٹانے سے نہیں ہے۔ جب کہ ان دونوں باتوں میں فرق ہے کیونکہ سورج کو روکنے کا مطلب ہے اسکو اپنی جگہ پر ٹھہرا دینا اور پھیرنے کا مطلب ہے اسکے غروب ہونے کے بعد اس کو پھر واپس لانا بہرحال یہ اختلاف قابلِ غور ہے۔
مزید لکھتے ہیں : علامہ سبط ابن جوزی نے لکھا ہے کہ یہاں یہ کہاجاسکتا ہے کہ سورج کو روکنا یا اس کو دوبارہ پھیردینا مشکل ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتا کیونکہ اسکے رکنے کی وجہ سے یا لوٹائے جانے کی وجہ سے دن اور رات میں فرق پیدا ہوگا اور اسکے نتیجے میں آسمانوں کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ معجزات میں سے ہے اور معجزات کے سلسلے میں کوئی عقلی قیاس بھی کام نہیں کرسکتا (بلکہ وہ حق تعالیٰ) کی طرف سے ظاہر ہونے والی ایک خلافِ عادت بات ہوتی ہے جو جزو اور کل کا مالک ہے۔
امام حلبی نے مزید صفحہ ۵۲۵ میں بغداد کے ایک شیخ کا واقعہ بھی لکھا ہے کہ؛۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قسم کا واقعہ بغداد میں ایک بزرگ کے لیئے بھی پیش آیا ہے۔ یہ بزرگ عصر کی نماز کے بعد وعظ کہنے کے لیئے بیٹھے اور اس میں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت یعنی خاندان والوں کے فضائل ومناقب بیان کرنے شروع کئے۔ اسی دوران میں ایک بادل سورج کے سامنے آگیا جس سے روشنی کم ہوگئ۔ اس پر ان بزرگ اور دوسرے تمام حاضرین نے یہ سمجھا کہ سورج چھپ گیا ہے اس لیئے انہوں نے مغرب کی نماز کے لیے اٹھنے کا ارادہ کیا یہ دیکھ کہ ان بزرگ نے لوگوں کوہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ ابھی نہ جائیں اس کے بعد انہوں نے مغرب کی جانب اپنا رخ کرکے کہا ۔
لا تغربی یاشمس حتی ینتھی
مدجی لال المصطفی رلنجلہ
ان کان للمولی وقوفک فلیکن
ھذا الوقوف لولدہ ولنسلہ
ترجمہ : اے سورج! اس وقت تک غروب مت ہو جب تک کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعریفیں و مدح ختم نہ کرلوں۔اگر تو اب سے پہلے آقائے نامدار کے لیئے ٹھہرا تھا تو اس وقت تیرا ٹھہرنا آقائے نامدار کی اولاد اور نسل کے لیئے ہوگا ۔
ان کی اس دعا پر سورج ایک دم پھر سامنے آکر چمکنے لگا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر ان بزرگ پر لوگوں نے ہدیوں اور پوشاکوں کی بارش کردی۔ یہاں تک علامہ سبط ابن جوزی کا کلام ہے۔(الشفا بتعريف حقوق المصطفے، القاضي ابي الفضل عياض مالکي، ص ۳۸۴ دارالکتب العلميه بيروت، طباعت اردو، مکتبه اعلي حضرت ، س ۲۶۰ و ۲۶۱ مجلد ۱)
امام یوسف نبھانی نے علامہ ابن السبکی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی قول تحریر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کو قاضی عیاض مالکی نے الشفاء شریف ، میں ، امام الطحاوی نے ، طبرانی کی معجم الکبیر سے ، امام ابن مندہ ، ابن شاھین نے ابن مردویہ سے جنہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کیا ہے، جبکہ فرماتے ہیں:وروی الطبرانی فی معجمہ الاوسط باسناد ِ حسن۔ جس کو طبرانی نے اپنی معجم الاوسط میں اسنادِ حسن سے روایت کیا ہے۔ مزید لکھا ہے کہ۔ قاضی عیاض کے علاوہ امام نووی، حافظ ابن حجر اور حافظ مغلطائ نے بھی روایت کیا ہے۔(الانوار المحمديه من المواهب اللدنيۀ، القاضي شيخ يوسف بن اسماعيل النبهاني، ص۱۷۶، حديث رد الشمس، دارالکتب العلميه بيروت)(حافظ عراقی نے طرح التثریب فی شرح القریب میں ص ۲۴۷ و ۲۴۸ پر۔)(حجتہ اللہ علی العالمین، فی معجزات سید المرسلین، للنبھانی ص ۲۵۵ لاهور پاکستانٌ)(مجمع الزاوئد ومنبع الفوائد، الحافظ نورالدين علي بن ابي بکر بن سليمان الهيثمي المصري الشافعي، جز سادس ۷.کتاب المغازي والسير ص ۶۴۸)(مناهل الصفا في تخريج احاديث الشفا، ابي الفضل جلال الدين عبدالرحمن السيوطي، ص ۱۱۹ موسسته الکتب الثقافيه، دار الجنان، طبراني کي شرط پر صحيح قرار ديا.)(المقاصد الحسنه امام الحافظ المورخ شمس الدين ابي الخير محمد بن عبدالرحمن السخاوي، ص ۲۲۶ دارالکتب العلميه بيروت)(المعجم الکبير للحافظ ابي القاسم سليمان بن احمد الطبراني، ۲۶۰ تا ۳۶۰ هجري جز ۱۴ ص ۱۴۴ و صفحات ۱۴۵ و ۱۴۷ و ص ۱۵۲ از.مکتبه ابن تيميه قاهره مصر)(نسيم الرياض في شرح شفا القاضي عياض، شهاب الدين احمد بن محمد بن عمر الخفاجي المصري متوفي ۱۰۶۹ هجري جز ۳ القسم الاول ص ۴۸۵ ، دارالکتب العلميه بيروت،چشتی)(شرح الشفا، للامام ملا علي القاري الهروي المکي الحنفي متوفي ۱۰۱۴ هجري، جز ۱، ص ۵۸۸ و صفحات ۵۹۴ و ۵۹۶ و ۵۹۳ از.فصل في انشقاق القمر وحبس الشمس، دارالکتب العلميه بيروت)(المواهب اللدنيه ، از علامه زرقاني صفحات ۲۰۹ تا ۲۱۰ دارالکتب العلميه بيروت،چشی)(شرح مشکل الآثار، امام المحدث الفقيه المفسر ابي جعفر احمد بن محمد بن سلامه الطحاوي موسسته الرسالۀ بيروت صفحات ۹۲ تا ۹۴، باب ۱۶۵ بيان مشکل ماروي)(تاريخ مدينۀ دمشق ، للامام ابن عساکر، باب علي بن ابي طالب، صفحات ۳۱۳ و ۳۱۴ ج ۴۲ ، دارالفکر بيروت)

ہم اہلسنت و جماعت اسلاف علیہم الرّحمہ کے قول پر پوری طرح پابند ہیں اسلیئے ہم اکا دکا علماء کے اقوال کی جگہ جمہور کے اقوال کو اہمیت دیتے ہیں، اسی لیئے ہمارے نزدیک یہ حدیث بھی بالکل درست ہے اور اسکی تائید میں دیگر احادیث اسکو قوی بنا دیتی ہیں جیسا کہ اوپر تفصیل میں بیان کیا گیا۔

کمالاتِ ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

رخِ مصطفےٰ ﷺ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں نہ دُکانِ آئینہ ساز میں

حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
1۔ آپ ﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بوقت ولادت مبارک سرورِ دو عالم ﷺ ایسا نور ظاہر ہوا کہ زمین سے آسمان تک روشن ہوگیا۔ اور مجھ کو ملک شام کے محلات نظر آنے لگے۔ اور ایس خوبشو ظاہر ہوئی کہ دماغِ عالم معطر ہوگیا، آپ مختون و ناف بُریدہ اور آلائشِ اطفال سے پاک پیدا ہوئے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب کہتی ہیں کہ میَں نے اس شب چھ عجیب چیزیں دیکھیں۔
اوّل یہ کہ آپ ﷺ جب شکم مادر سے جُدا ہوئے تو آپ ﷺ نے خداوند تعالیٰ شانہ کو سجدہ کیا۔
دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے سر اُٹھایا اور لآاِلٰہَ اِلَّااللہُ اَنِّیْ رَسُوْلَ اللہِ فرمایا۔
تیسرے یہ کہ تمام گھر آپ ﷺ کے نور سے روشن ہوگیا۔
چوتھے یہ کہ میں حسبِ دستور ارادہ آپ کے غسل کا کیا تو غیب سے آواز آئی کہ اسے تو غسل کی تکلیف گوارانہ کر کیونکہ ہم نے ان کو شکمِ مادر سے پاک و صاف جُدا کیا ہے۔
پانچویں یہ کہ آپ مختون و ناف بریدہ پیدا ہوئے۔
چھٹے یہ کہ جب میں نے چاہا کہ آپ کر تہ پہناؤں تو میں نے آپ ﷺ کی پشت مبارک پر مہر نبوت دیکھی جس پر لآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدُّ رَسُوْلُ اللہِ لکھا ہوا تھا۔
2۔ نوشیرواں کا محل بوقتِ ولادتِ باسعادت بحالت شکستگی ایسا پاش پاش ہوگیا جیسے لشکر کسریٰ کو پھر مجتمع ہونا نصیب نہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ محل مذکورہ بالکل پھٹ گیا تھا اور اس کے چودہ کنگرے گرگئے، اس پر کاہنوں نے کہا کہ اس سلطنت کے چودہ بادشاہ تخت نشین ہوں گے۔ یہ سن کر کسریٰ کوفی الحال تسلیّ ہوئی اور کہا کہ چودہ بادشاہوں کے گزرنے کے لئے ایک عرصہ دراز چاہیے مگر حال یہ ہوا کہ چار برس کے عرصہ میں ان کے دس بادشاہ گزر چکے اور باقی امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ تک ختم ہوگئے۔

عجم میں زلزلہ نوشیرواں کے قصر میں آیا
عرب میں شور اُٹھا جس وقت اُسکی آمد آمد ہے

3۔ آپ کے میلاد شریف کے وقت آتش نمرود جو ہزار سال سے برابر روشن تھی۔ بسبب افسوس کے جو بطلانِ دین مجوس اور انشقاق ایوان کے باعث تھا جو اس کی بڑی حفاظت اور عبادت کرتے تھے بالکل سرد ہوگئی ہے اور نہر فرات کوفہ کے قریب جس پر نوشیرواں نے پُل باندھ کر عمارات عالیشان اور اس کے گرد بہت سے آتش کدے اور کنائس بنائے تھے ایسی حیران اور بیخود ہوئی اور ایسے ہاتھ پاؤں اس کے پھولے کہ اپنا بہاؤ چھوڑ کر سادہ کے گھاٹ میں جو دمشق اور عراق کے درمیان ہے جا پڑی۔
4۔ منکرین نے بچشم خود دیکھا کہ علاوہ اور آیات و بینات مذکورہ بالا کے جنات پر جو استراق سمع کے لیے اطراف آسمان کی طرف جاتے تھے برابر شعلہ ہائے آتش مارے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ وقت ولادت شریف تمام روئے زمین کے بُت اوندے گر پڑے اس قسم کی بہت سی روائتیں ہیں۔ اختصاراً چھوڑی گئیں اور شب ولادت حضرت ﷺ میں تخت ابلیس اُلٹ گیا۔ حضرت عبدالمطلب سے منقول ہے وہ کہتے تھے میں شب ولادت حضرت ﷺ میں کعبہ شریفہ میں تھا۔ قریب وقت سحر میں نے دیکھا کہ کعبہ مقام ابراہیم کی طرف سجدہ میں گیا اور تکبیر کہی اور بُت جو خانہ کعبہ کے گرد تھے سب سرنگوں ہوگئے اور بُت ہبل جو سب سے بڑا تھا۔ منہ کے بَل گرِ پڑا اور اس کے اندر سے آواز آئی کہ آمنہ نے محمد ﷺ کو جنا۔ قریش کے ایک فریق کا ایک بُت تھا کہ ہر سال وہاں حاضر ہوتے تھے اور عید مناتے تھے، ایک شب وہ بُت اپنی جگہ سے جدا ہوا اور سرنگوں ہوگیا، لوگوں نے اس کو پھر سیدھا کیا وہ پھر سرنگوں ہوگیا اور اس کے اندر سے آواز آئی کہ پیغمبر آخرالزماں پیدا ہوئے اور ان کے نور سے مشرق سے مغرب تک روشن ہوگیا اور تمام بُت منہ کے بَل گرِ پڑے اور بادشاہوں پر ان کا رعب چھا گیا۔

حضور سرورِ عالم ﷺ کے ارشاداتِ گرامی میں ملاحظہ ہوں جو آپ نے خود اپنے لیے تحدیث نعمت کے طور اِرشاد فرمائے۔
(1) عَنْ اَبیْ ھُرَیْرَۃُ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَاَوَّلُ مَنْ یُّشَقُّ عَنْہُ الْقَبْرُ وَاَوَّلُ شَافِعٍ وَّاَوّلُ مُشَفَّحٍ۔(رواہ مسلم کتاب الفضائل مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین، پہلی فصل)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا اور پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی قبر سب سے پہلے شق ہوگی اور میں قبر سے باہر نکلوں گا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کرنے والا میں ہی ہوگا اور سب سے پہلا شخص جس کی شفاعت قبول کی جائے گی وہ میں ہی ہوں گا۔
اس حدیث شریف میں حضورِ انور ﷺ کی چار فضیلتیں ارشاد ہوئی ہیں جو اور کسی پیغمبر میں پائی نہیں جاتیں۔

(2) عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رُسُوْل اللہِ ﷺ اَنَا اَکَثَرُ الْاَنْبِیَاءِ تَبَعًا یَّوْمَ الِقیٰمَۃِ وَاَنَا اوَّل مَنْ یَّقْرَعُ بَابَ الْجَنَّۃِ۔(مسلم کتاب الایمان مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین پہلی فصل)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن نبیوں کی امتوں سے بڑھ کر میرے تابعدار زیادہ ہوں گے، اور میں ہی سب سے پہلے جاکر بہشت کے دروازہ پر (کھولنے کے لیے) دستک دوں گا۔
اس حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ کی دو فضیلتیں بیان کی گئی ہیں جو کسی دوسرے پیغمبر میں نہیں پائی جاتیں۔

(3) عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قال رَسُوْلُ للہِ ﷺ مَثَلِی وَ مَثَلُ الْاَنْبِیَاءِ کَمَثَلِ قَصْرٍ اُحْسِنَ بُنْیَانہٌ تُرِکَ مِنْہُ مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فَطَافَ بہ النُّظَارُ یَتَعَجَّبُوْنَ مِنْ حُسْنِ بُنْیَا نِہ اِلَّا مَوْضِعَ تِلْکَ اللّٰبِنَۃِ فَکُنْتُ اَنَا سَدْدْتُّ مَوضِعُ اللَّبِنَۃٍ خُتِمَ بَی الْبُنْیَانُ وَخُتِمَ بِیَ الرُّسُلُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَنَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ (متفق علیہ مشکوۃ باب مقائل سید المرسلین، پہلی فصل)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری مثال اور دوسرے انبیاء علیہ السلام کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک محل ہو جس کی تعمیر بہت ہی خوبصورت طریقہ سے ہوئٰی ہو، اس محل میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہو، پھر دیکھنے والے اُس کے گرد گھومے اور اس کی عمدہ تعمیر سے تعجب کرتے ہیں، مگر اس ایک اینٹ کی جگہ وہ خالی پاتے ہیں۔ وہ میں ہی ہوں کہ میں نے اس ایک اینٹ کی جگہ کو بھر دیا اور وہ محل مکمل ہوگیا ہے اور میرے ہی ذریعہ سے انبیاء علیہ السلام کا سلسلہ ختم ہوا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ وہ اینٹ میں ہوں اور میں سب نبیوں میں آخری ہوں۔
اس حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ کی ایک فضیلت بیان کی گئی ہے کہ آپ سب پیغمبروں کے ختم کرنے والے ہیں، آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی دنیا میں نہیں آئے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت قیامت تک اپنی آب و تاب سے چمکتی رہے گی اور کوئی نبوت آپ کی نبوت کے لئے ناسخ نہیں ہوگی اور کوئی آپ کے بعد نبی ہونے کا نام بھی لے گا تو اُمتِ محمدیہ اُسے ملعون و کذّاب جیسے القاب سے نوازے گی۔

افضل الانبیاء ﷺ
حضور سرورِ عالم ﷺ تمام انبیاء علیہ السلام سے علی الاطلاق افضل ہیں۔ قطع نظر دیگر دلائل کے آپ کا اسم گرامی بھی اُن کے اسماء کے اعتبار سے افضلیت کی دلیل کافی ہے۔مثلاً آدم علیہ السلام کا نام آدم کیوں ہے۔اس لیے کہ آدم کے معنی گندم گوں ہیں، اس نام سے آپ کے رنگ کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے ہی نوح کے معنی آرام کے ہیں اور اسحٰق کے معنی ہنسنے والا اور یعقوب کے معنی پیچھے آنے والا ہے، یہ اپنے بھائی عیسو کے ساتھ توام پیدا ہوئے تھے اور موسیٰ کے معنی پانی سے نکالا ہوا، جب ان کا صندوق پانی سے نکالا گیا تھا تب ان کا یہ نام رکھا گیا تھا اور یحییٰ کے معنی عمر دراز اور عیسیٰ کے معنی سرخ رنگ اور اسم محمد ﷺ کا کیا کہنا، لیکن یاد رہے کہ حضور سرورِ کائنات ﷺ کے ذاتی اسماء گرامی دو ہیں، محمد اور احمد ﷺ، ان دونوں ناموں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ محمد وہ ہے جس کی تعریف و ثناء سب زمین و آسمان والوں سے بڑھ کر کی ہو۔ لہٰذا فخر الاولین والآخرین کا اسم گرامی علم بھی ہے اور صفت بھی اور اپنے معانی کے لحاظ سے کمالاتِ نبوت پر دلالت کرنے والا ہے۔ مزید تفصیل فقیر کی کتاب ’’شہد سے میٹھا نام ِ محمد ﷺ‘‘ پڑھیے۔

چند احادیثِ مبارکہ ثبوت افضیلت

عَنْ جَابِرٍ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ اُعْطِیْتُ خَمسًالَّمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ قَبْلِیْ نُصِرْتُ بِاالرُّعْبِ مَسِمْرَۃَ شَھْر وَّجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَھُوْرًا فَاَیُّمَا رَجُلٍ مِّنْ اُمَّتِیْ اَدرَکَتْہٗ الصَّلوٰۃُ فَلْیُصَلّ وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمَ وَلَمْ تَحِلَّ لِاَحدٍ قَبْلِیْ وَاُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ وَکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلیٰ قُومِہِ خَآصَّۃً وَّبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَآمَّۃً۔(متفق علیہ مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں نہ دی گئیں۔ ایک مہینہ کی مسافت پر میرا رعب دشمنوں پر ڈال دیا گیا ہے اور میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاکیزگی بنائی گئی ہے (یعنی زمین پر تیمم کر کے نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے، پس میری امت میں سے جس پر نماز کا وقت آئے پس چاہیے کہ جہاں پر ہو پڑھ لے، اور مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئی ہیں اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں کی گئیں اور مجھے بڑی اور عام شفاعت دی گئی ہے، اور پہلے نبی فقط اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور مجھے تمام لوگوں یعنی تمام قوموں کی طرف بھیجا گیا ہے۔
اس حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ کی پانچ فضیلتیں بیان کی گئی ہیں جو پہلے کسی پیغمبر میں نہیں پائی گئیں۔

معجزات

عَنْ جَابِرٍ قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ حَتّٰی نزلْنَا وَادِیًا اَفْیَحَ فَذَھَبَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یُقْضِیْ حَاجَتَہٗ فَلَمْ یَرَشَیئًا یَسْتَتِرُبِہِ وَاِذَا شَجَرَ تَیْنِ بِشَاطِیٔ الْوَادِیْ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اِلیٰ اِحْدٰھُمَا فَاخَذَبغُصْنٍ من اَغعَا نِھَا َقَالَ اِنقادِیْ عَلَیّ بِاِذْنِ اللہِ فانقادَتْ مَعَہُ کَالْبَعِیْرِ اَلْمَخْشُوشِ مِّنْ الَّذِیْ یُصَانِعُ قَائِدَہٗ حَتَّی اَتَی الشَّجَرَۃَ الْاُخْریٰ فَاَخَذَ بِغُصْنٍ مِّنْ اَغْصَانِھَا فَقَالْ اَنْقَادِیْ عَلَیَّ بِاِذْنِ اللہِ فَانْقَادَتْ مَعَہٗ کَذَالِکَ حَتّٰی اَذا کَانَ با لْمَنْصَفِ مِمَّا یَیْنَھُمَا قَالْ التَئِمَا عَلَّی باِذْنِ اللہِ فَالْتَاَ مَتَا فَجَلَمْتُ اُحَدِّثُ نَفْسِیْ فَحَانَتْ مِنِّیْ لَفْتَۃٌ فَاِذ اَنَا بِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ مُقْبِلاً وَاِذَ الشَّجَرَ تَانِ قَدِافْتَرَقَتَامَتْ کُلُّ وَاحِدَۃٍ مِّنْھُمَا عَلیٰ سَاقٍ۔(مسلم، مشکوۃ باب فی المعجزات)
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ سفر پرگئے۔ ہم ایک کشادہ وادی میں جاکر اُترے۔ رسول اللہ ﷺ قضائے جاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے کوئی ایسی چیز نہیں پائی جس کی اوٹ میں بیٹھ سکیں۔ ناگہاں آپ نے دودرخت وادی کے کنارہ پر پائے۔ ان میں سے ایک کی طرف رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے پھر اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی کو پکڑ کر فرمایا: تو اللہ کے حکم سے میری فرمانبردار ہوجا۔ وہ آپ ﷺ کے ساتھ اس طرح چلا جس طرح وہ اونٹ جس کے ناک میں نکیل ہو اپنے چلنے والے کے تابع ہو کر چلتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے درخت کے ہاں تشریف لائے اس کی بھی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی کو پکڑ کر فرمایا: دونوں میرے سامنے اللہ کے حکم سے مل جاؤ۔ پھر وہ دونوں مل گئیں اور میں بیٹھا ہوا اپنے دل میں خیال ہی کر رہا تھا، کچھ ہی وقت گذرا تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا ہوں کہ تشریف لا رہے ہیں اور دونوں درخت ایک دوسرے سے جُدا ہوگئے اور ایک ان میں سے اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا۔
اس حدیث مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درختوں کو بھی رسول اللہ ﷺ کے تابع فرمان بنا دیا تھا۔ مسلمانوں کو تو بطریق اولیٰ آپ کا ہر فرمان مان لینا چاہیے۔
عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ قَالَ کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ بِمَکَّۃَ فَخَرَجْنَا فِیْ بَعْضِ لَواحِیْھَا فَمَا اسْتَقْبَلَہٗ جَبَلٌ وَّلَا شَجَرٌ اِلَّا ھَوَ یَقُوْلُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا۔ پھر ہم مکہ معظمہ کے بعض اطراف میں نکل گئے۔ پھر کوئی پہاڑ اور کوئی درخت آپ کے سامنے نہیں آتا تھا مگر وہ کہتا تھا السلام علیک یارسول اللہ ﷺ ۔
اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوسکتی ہےکہ ہر پہاڑ اور ہردرخت آپ پر سلام عرض کرتا ہے۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کُنَّامَعَ النَّبِیِّ ﷺ فِیْ سَفَرٍ فَاَقْبَلَ اَعْرَابِیٌّ فَلَمَّا دَنیٰ قَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ تَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ وَمَنْ یَّشْھَدْ عَلیٰ مَاتَقُوْلُ قَالَ ھٰذِہ السَّلَمَۃُ فَدَعَاھَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَھُوَ بِشَاطِیً الْوَادِیْ فَاَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْاَرْضَ حَتّٰی قَامَتْ بَیْنَ یَدَیْہِ فَاسْتَشْھَدَ فَاثَلٰثًا فشھِدَتْ اِنَّہٗ کما قال ثُمَّ رَجَعَتْ اِلیٰ مَنْبَتِھَا۔(الداری، مشکوۃ باب فی المعجزات،چشتی)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ ایک اعرابی آیا۔ جب آپ کے قریب آیا، اُسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور بے شک محمد اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ اُس نے کہا، اس بات پر آپ کی تصدیق کون کرتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کانٹے دار درخت۔ پھر اُسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حالانکہ وہ وادی کے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ وہ آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اس تین مرتبہ گواہی دینے کے لئے فرمایا۔ اس نے تین مرتبہ گواہی دی کہ جو کچھ آپ ﷺ فرماتے ہیں ٹھیک ہے پھر اپنی اُگنے کی جگہ پر چلا گیا۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ جَاءَ اَعْرَابِیٌّ اِلٰی رَسُوْل اللہِﷺ قَالَ بِمَا اَعْرِفُ انَّکَ نَبِیٌّ قَالَ اِنْ دَعَوْتُ ھٰذَا الْعِذْقَ مِنْ ھٰذِہ النَّخْلَۃِ یَشْھَدُ اَنِّی رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَجَعَلَ یَنْزِلَ وَمِنَ النَّخْلَۃِ حَتّٰی سَقَطَ اِلیَ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ اِرْجِعْ فَعَادَ فَاَسْلَمَ الْاَعْرَابِیُّ ط(رواہ الترمذی و صحیح، مشکوٰۃ باب المعجزات)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک گنوار رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں کس طرح پہچانوں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں اس کھجور کی ٹہنی کو بلالوں جو گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں (پھر تو مان جائے گا) پھر رسول اللہ ﷺ نے اس ٹہنی کو بلایا، وہ کھجور کے درخت سے اتری یہاں تک رسول اللہ ﷺ کے آگے آگری۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: واپس چلی جا۔ پھر وہ گنوار مسلمان ہوگیا۔

یہ ایسا کمال ہے کہ عام آدمی سن کر دنگ ہوجاتا ہے اور وفادار اُمتی خوش ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک جنس حدیث کے ضعیف و صحیح کے چکر میں ہے۔ بہر حال معجزات کے متعلق علماء کرام فرماتے ہیں کہ:وَاِنَّ مُعْجِزَاتِہ ﷺزَادَتْ عَلیٰ مُعْجِزَاتٍ جَمِیْعِ الْانْبِیَاءِ علیہ السلام عَدَدًا وَتْبَۃً وَاِنَّہٗ اُوْتِیَ مِنْھَا مَالَمْ یُوْتَ اَحْدَ۔حضور ﷺ کے معجزات تمام انبیاء کرام سے بڑھ کر ہیں۔ گنتی میں بھی، رُتبے میں بھی۔ بعض ایسے معجزے ہیں کہ پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے۔

خصائص مصطفیٰ ﷺ
آخر میں حضور سرورِ عالم ﷺ کے اربعین خصائص پرمضمون کو ختم کرتا ہوں یاد رہے کہ حضور سرور عالم ﷺ کے فضائل و کمالات کا احاطہ بشری طاقت سے باہر ہے، علمائے ظاہر و باطن سب یہاں عاجز ہیں۔ چنانچہ ابوالحسن خرقانی قدس سرہ متوفی 425ھ یوں فرماتے ہیں کہ مجھے ان تین چیزوں کی حدوغایت معلوم نہ ہوئی۔
1۔ حضرت نبی کریم ﷺ کے درجات۔
2۔ مکر نفس۔
3۔ معرفت نفس (نفحات الانس مصنفہ ملاجامی قدس سرہ متوفی 697ھ)
امام شریف الدین بوصیری رحمتہ اللہ علیہ متوفی 694ھ اپنے قصیدہ ’’بردہ شریف‘‘ میں فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے۔
چھوڑ کر دعویٰ وہ جس کے ہیں نصاریٰ مدعی
چاہو جو مانو اُسے زیبا ہے اللہ کی قسم
جو شرف چاہو کرو منسوب اُس کی ذات سے کوئی عظمت کیوں نہ ہو، ہے منزلت سے اس کی کم
حد نہیں رکھتی فضیلت کچھ رسول ﷺ کی
لب کشائی کیا کریں اہل عرب اہل عجم

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1052ھ ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں یوں فرماتےہیں
ہر مرتبہ ء کہ بود در امکان بروست ختم
ہر نعمتے کہ داشت خدا شد برو تمام

شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1139ھ رقمطراز ہیں۔
یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَایُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعداز خُدا بُزُرگ تُوئی قِصَّہ مختصر

اے صاحب جمال اور سردار بشر آپ کے روشن چہرہ سے چاند منور ہے۔ آپ کی شان بیان کرنا کماحقہ، ممکن نہیں۔ قصہ مختصر خدا کے بعد آپ ہی بزرگ ہیں۔
قرآن حکیم یوں ناطق (گویا) ہے’’کَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘‘ (النساء:٤) آپ پر خدا کا فضل عظیم ہے ’’اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘بے شک آپ کی خوبو بڑی شان کی ہے ’’اَلنَّبِیُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (الاحزاب:٥) ’’یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے‘‘ بے شک ہمارے نبی تمام مخلوقات سے افضل ہیں،جو فضائل و معجزات حضور سیّد المرسلین ﷺ سے مخصوص ہیں، ان کو آپ کے خصائص کہتے ہیں۔ یہ خصائص بھی بکثرت ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 911ھ نے بیس سال کی محنت سے احادیث و آثار و کتب تفسیر و شروحِ حدیث و فقہ و اصول و تصوف میں حضور رسول اکرم ﷺ کے خصائص کا تتبع کیا ہے اور ’’خصائص کبریٰ‘‘ تصنیف فرمائیں جن میں ہزار سے زیادہ خصائص مذکورہ ہیں۔ قطب شعرانی متوفی 965ھ نے ’’کشف الغمہ‘‘ میں اپنے استاذ علامہ سیوطی کے خط سے یہی خصائص نقل کیے ہیں، ان میں سے بعض مختصر بحوالہ ’’ سیرۃ نبوی‘‘ مصنفہ پروفیسر مولانا نور بخش صاحب (مرحوم) توکلی ایم اے (وغیرہ) یہاں بیان کیے جاتے ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو سب نبیوں سے پہلے پیدا فرمایا اور سب سے اخیر میں معبوث فرمایا (آپ اول و آخر ظاہر و باطن اور بکل شئی علیم ہیں۔ (مدارج النبوۃ)
(2) عالم ارواح ہی میں آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور اسی عالم میں دیگر انبیاء کرام ﷺ کی روحِ انوار سے استفاضہ کیا۔
(3) عالم ارواح میں دیگر انبیاء کرام کی رُوحوں سے اللہ تعالیٰ نے عہدلیا کہ اگر وہ حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ کو پائیں تو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں جیسے قرآن کریم میں ہے ’’لَتُؤْمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ‘‘
(4) یومِ الست میں سب سے پہلے حضور نبی کریم ﷺ نے بلیٰ کہا تھا۔
(5) حضرت آدم علیہ السلام اور تمام مخلوقات حضور انور ﷺ ہی کے لیے پیدا کیے گئے۔
(6) حضور نبی کریم ﷺ کا اسم مبارک عرش کے پایہ پر اور ہر ایک آسمان پر اور بہشت کے درختوں اور محلاّت پر اور حوروں کے سینوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔
(7) کتب الہامیہ سابقہ تورات و انجیل وغیرہ میں آپ کی بشارت درج ہے۔
(8) حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم ﷺ کے والد ماجد تک حضور ﷺ کا نسب شریف سفاح (زنا) سے پاک و صاف رہا ہے۔
(9) حضورِ انور ﷺ کی پیدائش کے وقت بت اوندھے گر پڑھے اور جنوں نے اشعارپڑھے۔
(10) حضور نبی کریم ﷺ ختنہ کئے ہوئے، ناف بریدہ اور آلودگی سے پاک و صاف پیدا ہوئے۔
(11) پیدائش کے وقت آپ سجدہ میں تھے اور ہر دو انگشت ہائے شہادت آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے تھے۔
(12) آپ کے ساتھ پیدائش کے وقت ایسا نور نکلا کہ اس میں آپ کی والدہ ماجدہ نے ملک شام کے محل دیکھ لیے۔
(13) فرشتے آپﷺ کے گہوارے کو ہلایا کرتے تھے۔ آپ نے گہوارے میں کلام کیا، چنانچہ آپ چاند سے باتیں کیا کرتے تھے، جس وقت آپ اس کی طرف انگشت مبارک سے اشارہ فرماتے تو وہ آپ کی طرف جھک جاتا۔ ’’فتاویٰ مولوی عبد الحئی لکھنوی جلد اول 97‘‘ میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ! چاند آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا کرتا تھا جب کہ آپ ﷺ ان دنوں چند روزہ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مادر مشفقہ نے میرا ہاتھ مضبوط باندھ دیا تھا، اس کی اذیت (تکلیف) سے مجھے رونا آتا تھا اور چاند منع کرتا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ ﷺ تو ان دنوں چہل روزہ تھے، آپ کویہ حال کیونکر معلوم ہوا۔ فرمایا کہ لوحِ محفوط پر قلم چلتا تھا اور میں سنتا تھا حالانکہ شکم مادر میں تھا۔ (زرقانی شرح مواہب اللدنیہ ج 5/مطبوعہ مصر)
(14) بعثت سے پہلے گرمی کے وقت اکثر بادل آپ پر سایہ کرتا اور درخت کا سایہ آپ ﷺ کی طرف آجایا کرتا تھا۔
(15) مولا کریم نے قرآن مجید میں حضور نبی کریم ﷺ کے ہر عضو مبارک مثلاً دل، زبان، آنکھ، چہرہ، ہاتھ، گردن، سینہ، پشت وغیرہ کا ذکر کیا ہے جس سے کمال کی محبت و عنایات پائی جاتی ہے، آیات یہ ہیں۔
مَا کَذَبَ الْفُوَادُ مَارَای (نجم ع1) نَزَلَ بِہ الرُّوْحُ الْامِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ (شعراء ع 11) مَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی (نجم شروع) فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ (دخان رکوع 3) مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَا طَغٰی (نجم ع 1) قَدْنَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآءِ (بقرہ ع 17) وَلَا تَجْلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ (بنی اسرائیل ع 3) یَدُاللہِ فُوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ وَوَضَعْنَاعَنْکَ وَزْرکَ الّذِی اَنْقَضَ ظَھْرَکَ۔(انشراح شروع)
(16) حضور نبی کریم ﷺ کے اسم مبارک میں سے ستر نام مثلاً نور، عزیز، رؤف، رحیم وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہیں (بلکہ آپ مظہر جمع اسمائے الہیٰ ہیں)۔
(17) حضور نبی کریم ﷺ اپنے پیچھے سے ایسا دیکھتے جیسا آگے سے پیچھے اور رات کواندھیرے میں ایسا دیکھتے جیسا کہ دن کے وقت اور روشنی میں دیکھتے۔
(18) حضور نبی کریم ﷺ کے دہن (منہ) مبارک کا لعابِ دہن آبِ شور کو شیریں بنا دیتا تھا اور شیرخوار بچوں کے لیے دودھ کا کام دیتا تھا۔
(19) جب آپ ﷺ کسی پتھر پر چلتے تو اس پر آپ ﷺ کے پاؤں مبارک کا نشان ہوجاتا۔ چنانچہ مقام ابراہیم میں ہے اور سنگ مکہّ میں آپ کی کہنیوں کا نشان مبارک مشہور ہے۔(خصائص کبری و شرح ہمزیہ / ابن حجر ہتیمی،چشتی)
(20) آپ ﷺ کی بغل مبارک پاک و صاف اور خشبودار تھی، اس میں کسی قسم کی بوئے ناخوش نہ تھی۔
(21) آپ کی آواز مبارک اتنی دور تک پہنچتی کہ دوسرے کسی شخص کی نہیں پہنچتی تھی، چنانچہ جب آپ ﷺ خطبہ دیا کرتے تھے تو خواتین اپنے گھروں میں سن لیا کرتی تھیں۔
(22) آپ ﷺ کی قوتِ سامعہ سب سے بڑھ کر تھی یہاں تک کہ اکثر اژدھام (بھیڑ) ملائک کے سبب سے آسمان میں جو آواز پیدا ہوتی آپ وہ بھی سن لیتے تھے۔
(23) خواب میں آپ ﷺ کی آنکھ مبارک سوجاتی مگر دل بیدار رہتا۔ بعض کہتے ہیں کہ دیگر انبیاء کرام کا بھی یہی حال تھا۔
(24) آپ نے کبھی جمائی اور انگڑائی نہیں لی اور نہ کبھی آپ کو احتلام ہوا۔ دیگر انبیائے کرام بھی اس فضیلت میں مشترک ہیں۔
(25) حضور نبی کریم ﷺ کا پسینہ مبارک کستوری سےزیادہ خوشبودار تھا۔
(26) حضور نبی کریم ﷺ میانہ قد مائل بہ درازی تھے مگر جب دوسروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے زیادہ بلند نظر آتے تاکہ باطن کی طرح ظاہری صورت میں بھی کوئی آپ ﷺ سے بڑا معلوم نہ ہو۔
(27) حضور نبی کریم ﷺ کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ ﷺ نور ہی نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔
(28) حضور انور ﷺ کا خون اور تمام فضلات پاک تھے بلکہ آپ کے بول شریف کا پینا شفا تھا۔
(29) حضور نبی کریم ﷺ کے براز کو زمین نگل جایا کرتی تھی اور وہاں سے کستوری کی خوشبو آیا کرتی تھی۔
(30) آپ ﷺ جس گنجے کے سر پر اپنا دست شفا پھیرتے اسی وقت بال اُگ آتے، اور جس درخت کو لگاتے وہ اسی سال پھل دیتا۔
(31) آپ ﷺ جس کے سرپر ہاتھ رکھتے آپ کے دست مبارک کی جگہ کے بال سیاہ ہی رہا کرتے، کبھی سفید نہ ہوتے۔
(32) آپ رات کے وقت دولت خانے میں تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتا۔
(33) حضورِ اقدس ﷺ کے بدن مبارک سے خوشبو آتی تھی۔ جس راستے سے آپ ﷺ گزرتے اس میں بوئے خوش رہتی جس سے پتہ چلتا کہ آپ ﷺ یہاں سے گزرے ہیں۔
(34) جس چوپائے پر آپ ﷺ سوار ہوتے وہ بول و براز نہ کرتا جب تک کہ آپ ﷺ سوار رہتے۔
(35) بعض غزوات میں فرشتے آپ ﷺ کے ساتھ ہوکر دشمنوں سے لڑے مثلاً بدروحنین وغیرہ معرکوں میں۔
(36) قرآنِ کریم اور دیگر کتب الہامیہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوائے آپ کے کسی اور پیغمبر پر درود وارد نہیں ہوا۔
(37) اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہر شئے کا علم دیا یہاں تک کہ روح اور ان اُمورِ خمسہ کا علم بھی عنایت فرمایا جو ’’سورۂ لقمان‘‘ کے اخیر میں مذکورہ ہیں ۔
i۔قیامت کب ہوگی۔ ii۔ مینہ کب ہوگا۔ iii۔ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے۔کوئی کس زمین میں مرے گا اور کل کیا ہوگا۔
(38) حضور نبی کریم ﷺ سارے اِنس و جن و ملائکہ کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔
(39) چاند کا دو ٹکڑےہونا، شجر و حجر (درخت و پتھر) کا سلام کرنا اور رسالت کی شہادت دینا، ستون حنانہ کا رونا اور آپ کی انگلیوں سے چشمے کی طرح پانی کا جاری ہونا یہ سب معجزات آپ ﷺ کو عطا ہوئے۔
(40) حضور نبی کریم ﷺ خاتم النبین ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
(41) حضور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کنایہ سے خطاب دیا اور فرمایا یُّھَاالنَّبِیُّ یٰٓاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بخلاف دیگر انبیاء علیہ السلام انہیں ان کے نام سے خطاب کیا گیا۔ مثلاً یا آدم، یا موسیٰ، یا عیسیٰ، علی نبینا علیھم الصلوٰۃ والسلام۔
(42) جہاں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے نام کی تصریح فرمائی وہاں ساتھ ہی رسالت یا کوئی وصف فرمایا مثلاً وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ (پ4آل عمران ع 15) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ (پ 18، سورہ نور، ع 9) مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّنَ۔
(43) حضور نبی کریم ﷺ کو نام مبارک کے ساتھ خطاب کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا یعنی لَاتَجْعَلُوْادُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا (پ 18، سورۂ نور، ع9) رسول اللہ ﷺ کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہراؤ جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے حالانکہ دیگر امتیں اپنے اپنے نبیوں کو نام کے ساتھ خطاب کیا کرتے تھے۔(پیشکش طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صالحین علیہم الرحمہ کا وسیلہ جائز ہے

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور صالحین علیہم الرحمہ کا وسیلہ جائز ہے حیات ظاہری اور بعد از وفات بھی ۔ (نشرالطیب صفحہ نمبر 318 تا 322 حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصالحین علیہم الرّحمہ کا وسیلہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی ۔ (بخاری شریف، کتاب الاستسقاء، 1 / 342، الرقم : 964، کتاب فضائل الصحابة، 3 / 1360، الرقم : 3507، ابن خزيمة ، 2 / 337، الرقم : 1421، ابن حبان ، 7 / 110، الرقم : 2861، طبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، بيهقي سنن الکبریٰ، 3 / 352، الرقم : 6220)

حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا : وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں ۔ حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے ۔ (بخاری، کتاب الاستسقاء، 1 / 342، الرقم : 963، ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 405، الرقم : 1272،مسند أحمد بن حنبل ،2 / 93، الرقم : 5673، 26، بيهقي سنن الکبریٰ، 3 / 352، الرقم : 6218 - 6219،تاريخ بغداد، خطيب البغدادی، 14 / 386، الرقم : 7700، تغليق التعليق، 2 / 389، الرقم : 1009،امام عسقلانی البداية والنهاية، 4 / 2، 471، علامہ ابن کثیر،چشتی)

حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔:: ترمذی شریف، کتاب الدعوات 5 / 569، الرقم : 3578، ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، 1 / 441، الرقم : 1385،نسائی شریف، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495،چشتی)

حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ان لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور ان کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو بے شک تمہیں اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔ (بخاری شریف، کتاب الجهاد،3 / 1061، الرقم : 2739، ابو داودشریف، کتاب الجهاد، 3 / 32، الرقم : 2594، نسائی شریف، کتاب الجهاد، 6 / 45، الرقم : 3179، ترمذی شریف، کتاب الجهاد 4 / 206، الرقم : 1702،مسند، 5 / 198، الرقم : 21779، امام حمد بن حنبلسنن الکبري، 3 / 30، الرقم : 4388،)

حضرت عتبہ بن عزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے اور وہ کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہے : اے ﷲ کے بندو! میری مدد کرو، اے ﷲ کے بندو! میری مدد کرو، یقینًا ﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) اور یہ تجربہ شدہ بات ہے ۔ حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں چھوٹ جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے ﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے ﷲ کے بندو! میری سواری پکڑا دو کیوں کہ ﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے ۔ (معجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518،طبرانی،چشتی)

حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی ۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہٰذا اس سال کا نام ہی ’’عَامُ الْفَتْق‘‘ (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔(سنن دارمی، 1 / 56، الرقم : 92، مشکاة المصابيح، 4 / 400، الرقم : 5950،الوفاء بأحوال المصطفي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 801،ابن جوزیشفاء السقام، 1 / 128، تقی الدين السبکیلمواهب اللدنية، 4 / 276، امام قسطلانی،چشتی)

حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبد المطلب رضی ﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور ﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے ﷲ! یہ تیرے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ ﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔(مستدرک، 3 / 377، الرقم : 5438، مواهب اللدنية، 4 / 277، قسطلانی الاستيعاب، 3 / 98،جامع الصغير، 1 / 305، الرقم : 559، اما سيوطیفتح الباری، 2 / 497،قسطلا نی)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا ﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ محمد مصطفیٰ کون ہیں ؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (جامع الأحاديث، 11 / 94،امام سیوطیمعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992،طبرانی مجمع الزوائد، 8 / 253، هيثمی)

بعد از وصال وسیلہ کی حدیث مع منکرین کے اعتراض کا جواب

أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا : حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط پڑا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ”یا رسول اللہ ! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہورہی ہے ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا : ”عمر کے پاس جاؤ ، میرا سلام کہو اور بشارت دو کے بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کے نرمی اختیار کریں“، اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی (تو) خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔ (علامہ ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں)(المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المصنف میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن ہجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو ان اعتراض کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ : اس حدیث کو مخالفین و موافقین سب کے نزدیک مسلم ائمہ و محدثین الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی سند کو " صحیح " کہا ہے، (الفتح الباری ٢/ ٤٩٥)(البداية والنهاية ٨ / ٨٤ ، البدایہ والنہایہ مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 126 ،127)

یہاں ہی حجت تمام ہو جاتی ہے ، لیکن اعتراض کا تھوڑا تفصیلی جواب بھی ضروری ہے ، مالک الدار رضی الله تعالی عنہ کی توثیق ! آپ مشور تابعی ہیں اور آپ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے خادم اور وزیر خزانہ تھے .علّامہ ابن سعد نے مالک الدار کو تابعین میں شمار کیا ہے اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو صالح السمّان نے اور فرمایا " کان معروفا " ۔ (الطبقات الکبیر ، ٦ / ١٢/ ١٤٢٣،چشتی)

امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات میں فرمایا ، مالک بن عیاض الدار ، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ اور ابو صالح السمّان سے روایت کی ہیں . (" الكتاب: الثقات جلد ٥ ص ٣٨٤")

الحافظ امام شمس الدین ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے تجريد الأسماء الصحابه میں فرمایا ، مالك الدار مولي عمر بن خطاب ٠روي عن ابي بكر٠حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.( تجريد الأسماء الصحابه ٢ / ٤٤ ،چشتی)

الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی مالک الدار کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا اور تفصیل سے آپ کے حالات نقل کئیے.("الاصابة في تميز الصحابة ٦ / ١٦٤ ")

اسی لئے کہتے جھوٹ کے پیر نہیں کذاب البانی نے التوسل میں اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مالک الدار کو مجہول کہ کر مگر صحیح الترغیب و الرھیب میں مالک الدار والی ایک روایت پر البانی حسن کا فتویٰ صادر کر رہے ہیں ؟ یہ البانی کا ایک دجل اور ملاحضہ فرمائیں ۔ (صحیح الترغیب و الرھیب ١/ ٩٢٦،چشتی)

جواب : امام اعمش کی تدلیس ، امام اعمش بخاری و مسلم کے باالجماع ثقہ راوی ہیں ، ایک اہم نقطہ، وہابیوں کا کذاب محدث و امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث پر امام اعمش کی ممکنہ تدلیس پرکوئی اعتراض نہیں کیا جس کا شور شرابہ آج کا جاہل وہابی کرتا پھرتا ہے ۔

تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ مذکورہ راوی کے بارے میں تحقیق پیشِ خدمت ہے : امام اعمش مدلس ہیں مگر انکی حدیث ٢ امور کی بنا پر مقبول ہے، چاہے سماع کی تصریح کرے یا نا کرے، امام اعمش کا شمار مدلسین میں مرتبہ ثانیہ میں ہوتا ہے .

اور محدثین علیہم الرّحمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں . ( التدلیس والمدلسون للغوری ص104)،(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32)

امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ہیں جن کے بارے میں الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی فرماتے ہیں.من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح ، یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں روایت لی .

علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين ١.كالحسن البصري ٢.وأبي إسحاق السبيعي و٣.قتادة بن دعامة و٤.عمرو بن دينار٥. وسليمان الأعمش ٦.وأبي الزبير و٧.سفيان الثوري و٨.سفيان بن عيينة ۔ (الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار،چشتی)

اور اس میں یہی سليمان الأعمش بھی ہیں . اگر بالفرض وہابیوں کے اس اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جاے کہ اس حدیث کو سماع کی تصریح کی وجہ سے ہی قبول کریں جیسا کہ اہل مرتبہ ثالثہ اور بعد کے مدلسین کا مقام ہے پھر بھی یہ حدیث مقبول ہے کیوں کہ یہاں امام اعمش نے ابن ابی صالح سے اسکو روایت کیا ہے ، اور امام الائمہ فی الحدیث امام شمس الدین ذھبی " میزان الاعتدال" میں رقمطراز ہیں . ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كـ إبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
ترجمہ : امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جب " عن " کہیں تو تدلیس کا احتمال عارض ہوتا ہے ، مگر علاوہ ان شیوخ کے جن سے وہ اکثر روایت لیتے ہیں، جسے، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ، ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ اور ابی صالح السمّان رحمۃ اللہ علیہ . بلا شبہ اس نوع سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) ، (حافظ ابوعمرو بن عبدالبر ، حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) ، اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)

علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر کے خازن مالک الدار سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ) ۔

اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)