Sunday 3 May 2020

اکابرینِ دیوبند جب ایسے تھے تو اصاغرینِ دیوبند کیسے ہونگے ؟

1 comments
اکابرینِ دیوبند جب ایسے تھے تو اصاغرینِ دیوبند کیسے ہونگے ؟

محترم قارئینِ کرام : اکابرین دیوبند کیسے تھے چند مثالیں دی جارہی ہے جس سے قارئین حضرات خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اکابرین دیوبند کیسے تھے ۔

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

دیوبندی مولوی نے اپنے مجدد کے پیشاب کی کہانی خود کی زبانی لکھی لکھا ہے کہ : حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی نے فرمایا میں (یعنی حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی) ایک روز پیشاب کر رہا تھا بھائی صاحب آئے (حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی کے بھائی) آکر میرے سر پر پیشاب کرنا شروع کر دیا ایک روز ایسا ہوا کہ بھائی پیشاب کر رہے ہیں میں نے ان کے سر پر پیشاب کرنا شروع کر دیا ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ نمبر 262)

جی جناب کچھ سمجھ آیا کہ نہیں بات یہ ہوئی کہ دیوبندی مجدد کے سر پر دیوبندی مجدد کے بھائی نے پیشاب کیا اور غصہ میں آکر بدلہ لینے کیلئے دیوبندیوں کے مجدد و حکیم الامت نے اپنے بھائی کے سر پر بھی پیشاب کر دیا ۔

اکابرین دیوبند میں اسمٰعیل دہلوی کو بہت بڑا مقام حاصل ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اسمٰعیل دہلوی کی کتاب تقویة الایمان ان دیوبندیوں کے نزدیک عین اسلام ہے ۔ ( نعوذ باللہ) ملاحظہ ہو) (فتاویٰ رشدیہ صفحہ نمبر 219, ایمان اور کفر کےمسائل کا بیان, ناشر دارالاشاعت کراچی)

جبکہ اس کتاب تقویة الایمان نے ہند کی سرزمین سے امن وشانتی کو تار تار کردیا اور گھر گھر میں اس کتاب نے وہ فساد افتراق انتشار پیدا کردیا جسکی تاریخ ہند میں نہیں ملتی اور اسمٰعیل دہلوی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ اس کتاب یعنی تقویة الایمان کی اشاعت سے شورش ہوگی ۔ (ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 68حکایت نمبر 42 کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

خیر حضرات اب ملاحظہ کریں دیوبندی اکابر اسمٰعیل دہلوی کیسے تھے ؟ تو آپ کو بتا دوں کہ اسمٰعیل دہلوی ہر قسم کے کھیل کھیلتے تھے یہاں تک کہ پتنگ بھی اڑاتے تھے حد تو یہ ہیکہ شطرنج بھی کھیلتے تھے دلیل دیوبندی کتاب سے ملاحظہ کریں دیوبندی مولوی نے اپنے اکابر کے کھیل کی کہانی لکھی خود کی زبانی چنانچہ لکھا اسمٰعیل دہلوی کے بارے میں کہ : اور کھیل بھی ہر قسم کے کھیلتے تھے پتنگ بھی اڑاتے تھے شطرنج بھی کھیلتے تھے ۔ (ارواح ثلٰثہ صفحہ نمبر 77حکایت نمبر 52کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

اسی طرح اسمٰعیل دہلوی دوسرے کو چھیڑا بھی کرتے تھے چنانچہ دیوبندی مولوی نے اپنے اکابر کے چھیڑا چھیڑی کی کہانی لکھی اپنی زبانی لکھا اسمٰعیل دہلوی کے تعلق سے کہ : مولوی وجیہ الدین صاحب بھی مولانا اسماعیل صاحب کے ساتھ جہاز میں تھے اور دونوں مل کر حاجیوں کیلئے آٹا پیسا کرتے تھے آٹا پیستے ہوئے مولانا ان کو چھیڑا کرتے تھے کبھی آٹا ان کے منھ پر مل دیتے تھے کبھی پیٹ پر کبھی کوئی اور مزاق کرتے رہتے تھے ۔ (ارواح ثلٰثہ صفحہ نمبر 65حکایت نمبر 49کتب خانہ نعیمیہ دیوبند ،چشتی)

ان سب حرکتوں کا نتیجہ تھا کہ دیوبندیوں وہابیوں کے امام اسمٰعلیل دہلوی ایک حدیث کا معنی تک نہیں سمجھ پاتا تھا چنانچہ ثبوت کیلئے دیوبندی مولوی کی عبارت ملاحظہ ہو ارواح ثلٰثہ کتاب سے لکھا کہ : شاہ عبد القادر صاحب نے فرمایا بابا ہم تو سمجھتے تھے کہ اسماعیل عالم ہوگیا مگر وہ تو ایک حدیث کے معنی بھی نہ سمجھا ۔ (ارواح ثلٰثہ صفحہ نمبر 81حکایت نمبر 56کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے جو شرارتی تھے اور کمر بند دوسرے کا کھولنے میں ماہر تھے حوالہ نوٹ کریں کتاب کا نام ملفوظات حکیم الامت جلد 11 صفحہ 70 میں دیوبندی نے اپنے اکابرین کی ایک دلچسپی سے بھرپور کہانی خود کی زبانی لکھی ہے ملاحظہ کریں لکھا ہے : مولانا یعقوب صاحب کے صاحبزادے کے کمر بند کو مولانا قاسم نانوتوی کھول دیتے تھے ۔ اس لئے میں کہتا ہوں بانی کا جب یہ عالم ہے پیروکاروں کا عالم کیا ہوگا ۔

اچھا سوال پیدا ہوتا ہے بانی دیوبند قاسم نانوتوی کمر بند کیوں کھولتا تھا ؟

کیا کرنے کیلئے ؟

کیا دیکھنے کیلئے ؟

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے لوگ بھی تھے جو کھانے کیلئے چھپٹا چھپٹی بھی کرتے تھے ۔ (حوالہ ملفوظات حکیم الامت صفحہ 70 جلد 11)

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے لوگ بھی تھے جو جوتیاں چوری کرلیا کرتے تھے اور جوتی چوری کر کے چھوپا دیا کرتے تھے ۔ (حوالہ ملفوظات حکیم الامت جلد 11صفحہ 73،چشتی)

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے لوگ بھی تھے جو چپل چور بھی تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے جو اپنے ماما کی رکابی میں کتے کا پلہ ڈال دیا کرتے تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے کہ اپنے ہی بھائی کے سر پر پیشاب کرتے تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی لوگ تھے جوپہلے علم حاصل کرتے تھے پھر بھول جایا کرتے تھے ۔ (حوالہ نوٹ کریں ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ 261 ) ۔ دیوبندی مولوی نے خود لکھا اپنے اکابر کی چوری کی کہانی خود کی زبانی فرمایا : ایک مرتبہ میرٹھ میں میاں الٰہی بخش صاحب مرحوم کی کوٹھی میں جو مسجد تھی سب نمازیوں کے جوتے جمع کر کے اس کے شامیانہ پر پھینک دیئے نمازیوں میں غل مچا کہ جوتے کیا ہوئے ؟

آپ حضرات نے اوپر پڑھا کہ اکابرین دیوبند جوتے چوری کرکے چھپا دیا کرتے تھے اب یہ دوسرا جوتا چور ہے دیوبندیوں کا ۔

دیوبندی مولوی نے خود کی زبانی اپنے اکابر کے کہانی ۔ لکھا ہے کہ : ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی بہت ہی نیک اور سادہ آدمی تھے والد صاحب نے ان کو ٹھیکہ کے کام پر رکھ چھوڑا تھا ایک مرتبہ کمریٹ سے گرمی میں بھوکے پیاسے پریشان گھر آئے اور کھانا نکال کر کھانے ۔ میں مشغول ہو گئے گھر کے سامنے بازار ہے میں نے (یعنی دیوبندیوں کے حکیم الامت) سڑک پر سے ایک کتا کا پلہ چھوٹا سا پکڑ کر گھر آکر ان کی دال کی رکابی میں رکھ دیا بچارے روٹی چھوڑ کر کھڑے ہو گئے ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ یہی 261، چشتی)

اب کیا کہا جائے دیوبندی کے حکیم الامت نے اپنے ماما کے دال کی رکابی میں کتا کا پلہ ہی ڈال دیا تو بچارے کھاتے کیسے ؟ اور قارئین آپ کو پتہ ہے یہ صرف دیوبندیوں کے اکابر نہیں مجدد بھی ہیں ۔

دیوبندی مولوی نے اپنے مجدد کے پیشاب کی کہانی خود کی زبانی لکھی لکھا ہے کہ : فرمایا میں (یعنی دیوبندی حکیم الامت) ایک روز پیشاب کر رہا تھا بھائی صاحب آئے (دیوبندی حکیم الامت کے بھائی) آکر میرے سر پر پیشاب کرنا شروع کر دیا ایک روز ایسا ہوا کہ بھائی پیشاب کر رہے ہیں میں نے ان کے سر پر پیشاب کرنا شروع کر دیا ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ نمبر 262)

جی جناب کچھ سمجھ آیا کہ نہیں بات یہ ہوئی کہ دیوبندی مجدد کے سر پر دیوبندی مجدد کے بھائی نے پیشاب کی اور غصہ میں آکر بدلہ لینے کیلئے دیوبندی مجدد دیوبندی حکیم الامت نے اپنے بھائی کے سر پر بھی پیشاب کر دیا ۔

دیوبندی کے حکیم الامت جو ہے جن کو دیوبندی مجدد کہتے ہیں وہ تو بقول دیوبندیوں کے عالم تھے مگر بعد میں جاہل ہو گے تھے سب بھول گے تھے ؟

دیوبندی مولوی نے اپنے حکیم الامت کی جہالت کی کہانی لکھی خود کے قلم سے لکھا کہ : اس واقعہ کو ختم کر کے پھر فرمایا خدا کا فضل و کرم ہے کہ یہ درس و تدریس کا کام اور جگہ اچھا ہو رہا ہے اب ہر شخص ایک ہی کام میں لگ جائے اس کی کون ضرورت ہے اور میں تو اب اس کام کا رہا ہی نہیں سب بھول بھال گیا جو کچھ لکھا پڑھا تھا ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد چہارم صفحہ ہے 306)

یعنی دیوبندی مجدد بعد میں جاہل ہو گئے تھے کچھ یاد نہیں رہا یاد بھی کیسے رہے بھائی کے سر پر پیشاب جو کیا ماما کی دال کی رکابی پر کتا کا پلہ جو ڈالا نمازیوں کے چپل جو چوری کی ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جن کو ننگاہ ہو کر گھومنے کا بڑا شوق تھا اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جن کو اپنا عضو تناسل پکڑوانے میں بڑا لطف ملتا تھا اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو اپنے پیچھے کے مقام یعنی دُبر میں اُنگلی ڈلوانے کے بڑے شوقین تھے اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو خود کو بھڑوا کہلاتے اور اور ساتھ میں اپنے بھڑوا ہونے کا پرچار بھی کروانے کے شوقین تھے حوالہ نوٹ کریں ملفوظات حکیم الامت جلد 9۔صفحہ 212 دیوبندی مولوی نے خود اپنے نوکے قلم سے اپنے اکابر کی لطف اندوز کھانی جو حقیقت پر مبنی ہے بیان کی ہے ( واقعہ تو طویل ہے بس مفہوم نقل کرتا ہوں کہ : اشرف علی تھانوی (یعنی دیوبندی فرقہ کے حکیم الامت) کے ماموں صاحب کانپور آئے عبد الرحمٰن صاحب اشرف علی تھانوی کے ماموں سے ملنے آئے مل کر بڑے خوش ہوئے پھر عبدالرحمٰن صاحب نے اشرف علی تھانوی کے ماموں سے واعظ کرنے کی فرمائش کی پہلے پہل تو اشرف علی تھانوی کے ماموں نے انکار کیا جب عبد الرحمٰن نے بار بار اصرار کیا تو اشرف علی تھانوی کے ماموں نے کہا واعظ کرونگا مگر اس کی ایک شرط ہے عبدالرحمٰن صاحب نے کہا شرط کیا ہے کہا شرط یہ ہے کہ میں میں بالکل ننگاہ ہوکر بازار میں سے نکلوں اس طرح کہ ایک شخص تو آگے سے میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچےاور دوسرا پیچھے سے اُنگلی کرے اور ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہو اور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا بھڑوا ہے رے بھڑوا۔اس وقت میں عقائق و معارف بیان کرونگا ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو انسان نہیں بلکہ فرشتہ تھے محترم قارئین آپ کو سن کر حیرانی ہوئی ہوگی لیکن میں آپ حضرات کو اور حیران کن بات بتانے جا رہا ہوں کہ اکابرین دیوبند صرف فرشتہ ہی نہیں بلکہ اکابرین دیوبند میں تو ایسے تھے جو فرشتہ مقرب تھے حوالہ نوٹ کریں ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 241صفحہ نمبر 192 لکھا قاسم نانوتوی دیوبندی کے تعلق سے کہ : انسانیت سے بالا درجہ ان کا دیکھا وہ شخص ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر ہوا تھا ۔

جنابِ من یہ وہی قاسم نانوتوی ہے جو شرافت کی حد پار کرکے دوسرے کا کمر بند کھولتے ہیں اور یہاں دیکھا آپ حضرات نے وہی کمر بند کھولنے والا فرشتہ مقرب ہے ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو گنوارتھے ( یعنی جاہل) اور اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو بالکل کالے موٹے (یعنی بھینس) تھے آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں کیسی کیسی باتیں کر رہا ہوں اکابرین دیوبند اور جاہل گنوار اکابرین دیوبند اور بھینس جبکہ قارئین آپ نے بہت سے دیوبندی کو دوسرے کے اکابر کو جاہل کہتے سنا ہوگا یہاں تک کہ دیوبندی تو آج کل کالا حضرت کہتے نہیں تھکتے تو حضرات قارئین یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہا کہ دیوبندی اکابر جاہل گنوار تھے بلکہ یہ بات تو دیوبندی نے خود کہا ہے اور دیوبندی اکابر بالکل کالے کلوٹے موٹے بھینس تھے اور یہ بات بھی میں خود نہیں کہ رہا بلکہ یہ بات بھی دیوبندی نے خود کہا ہے حوالہ نوٹ کریں ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 242صفحہ نمبر 192 دیوبندی مولوی نے خود کے قلم سے اپنے اکابرین کی خوبی بیان کی لکھا ہے کہ : نانوتوی اور فیض الحسن یہ دونوں ہمعصر تھے اور بہت ہی بے تکلف تھے ایک دفعہ انہوں نے (یعنی فیض الحسن نے) غایت بے تکلفی میں ہمعصرانہ طریق پر نانوتوی کو فرمایا بے جا گنوار کے لونڈے تجھے ان چیزوں یعنی علوم سے کیا واسطہ تو جاکر ہل جوت کھیتی کر اس کے جواب میں نانوتوی نے ہنس کر فیض الحسن سے کہا ایک بھینسا تو موجود ہے (یعنی فیض الحسن بھینسا) دوسرا ہو جائے گا تو ہل جڑے گا)

جی جناب کچھ بات سمجھ آئی کہ نہیں ؟ ۔ دیوبندی اکابر جاہل ہے گنوار ہے اور یہ فضول میں دوسرے کو جاہل کہتے ہیں دوسری بات دیوبندی کے اکابر کالے کلوٹے ہیں بھینس ہیں اس بنا پر دیوبندی اپنے اکابر فیض الحسن کو کالا حضرت بول کر پکارتے ہیں یا پھر دیوبندی آپنے اس کالا حضرت فیض الحسن کو چھپانا چاہتے ہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی اکابر تھے جو جاہل تھے اور صرف جاہل ہی نہیں بلکہ اکابرین دیوبند تو اجہل تھے حوالہ نوٹ کریں کتاب کا نام اکابر دیوبند کیا تھے تقی عثمانی دیوبندی کی کتاب صفحہ نمبر 33 دیوبندی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا واقعہ لکھا ہے اور اشرف علی تھانوی خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ : رہا جاہل ہونا اس کا البتہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں جاہل بلکہ اجہل ہوں ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جن کے اندر ساری گندگی بھری ہوئی تھی قارئین حضرات آپ پریشان ہونگے کہ اکابرین دیوبند اور ان کے اندر ساری گندگی بھری ہوئی تھی یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اورساری گندگی بھری ہوئی تھی اس کا صاف مطلب ہے کہ اکابر دیوبند میں ایسے بھی تھے جو گندگی کے بھنڈار تھے ؟ جی بالکل ایسا ہی ہے حوالہ نوٹ کریں کتاب کا نام ہے اکابر کا مقام تواضع صفحہ نمبر 76 ادارہ اسلامیات لاہور کراچی سے کتاب چھپی ہے دیوبندی نے خود اپنے قلم سے لکھا ہے کہ : ان کے اکابر کہا کرتے تھے کہ میں کیا ہوں میرے اندر ساری گندگی بھر ہوئی ہے ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو پاخانہ کے اندر حقّہ نوشی کرتے تھے اور رات میں اٹھ اٹھ کر حقہ پیتے رہتے تھے حوالہ نوٹ کریں نقش حیات مکمل خود نوشت وسوانح حیات حسین احمد مدنی حصہ اول صفحہ نمبر 103 حسین احمد ٹانڈوی نے خود اپنے قلم سے اپنے والد صاحب کے بارے میں لکھا کہ : والد صاحب مرحوم کو حقّہ کی اس قدر عادت تھی کہ پاخانہ میں بھی حقّہ لے کر جاتے تھے اور رات میں اٹھ اٹھ کر پیا کرتے تھے ۔

اسی طرح اکابرین دیوبند میں ایسے بھی تھے جو گالیاں اور بدعاء دیا کرتے تھے چنانچہ رشید احمد گنگوہی کے استاذ محمد بخش جب حج کرکے واپس ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ہمارے لیئے بھی دعا کی کہ نہیں تو رشید احمد گنگوہی کے استاذ محمد بخش نے جواب دیا لوگوں کو : ہاں گالیاں بھی دی تھیں اور بدعا بھی کی تھی ۔ (تذکرة الرشید جلد دوم صفحہ نمبر 349 مصنف عاشق الٰھی بلند شہری,کتب خانہ اشاعت العلوم)

اب نتیجہ آپ حضرات خود نکالیں کہ دیوبندی کے اکابرین کی حالت یہ ہے تو اصاغرین کی حالت کیا ہوگی جب دیوبندی کے اکابرین اپنے لوگوں کو گالیاں اور بدعاء دیا کرتے ہیں تو غیروں پر کیا ستم ڈھاتے ہونگے ۔ یاد رہے ہم نے یہ کچھ نمونے بطور الزام پیش کر دیئے ورنہ ہمیں ضرورت نہیں تھی کیونکہ آجکل دیوبندی صحابہ رضون اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے بولتا نظر آتا ہے کہ وہ تو ایسے تھے تو کوئی دیوبندی مثلا ابو عیوب دیوبندی (ہم اہل سنت وجماعت سنی حنفیوں) کے اکابرین پر جملے کستا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ ایسے تھے تو ویسے تھے توہم نے بس آئینہ دکھایا ورنہ مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے دیوبندیوں ہوش کے ناخن لو ورنہ اسی طرح تمہاری حقیقت سب کے سامنے آتی رہے گی اور تم سب دیوبندی وہابی کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہو گے ۔

دیوبندی تعلیم : بے وضو نماز پڑھ لیا کرو

حکیمُ الاُمّت بیمارانِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : ایسے ہی ایک مرتبہ گڑھی پختہ تشریف لے گئے ۔ ایک خاں صاحب سے نماز کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے داڑھی چڑھانے کی عادت ہے اور وضو سے یہ اتر جاتی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بے وضو پڑھ لیا کرو خاں صاحب نے کچھ روز بغیر وضو نماز پڑھی ۔ پھر خیال آیا کہ ایک مولوی کے کہنے سے تونے بغیر وضو نما زپڑھنی شروع کردی اور اللہ و رسول کے حکم سے باوضو نماز نہیں پڑھی جاتی ۔ اس کے بعد ہمیشہ باوضو نماز پڑھنے لگے ۔ (ارواح ثلاثہ ، حکایت نمبر 191 صفحہ نمبر 158 ، 159 مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)

محترم قارئین اندازہ کریں ایک جاہل شخص کو بے وضو نماز پڑھتے ہوئے شرم آگئی لیکن اکابرینِ دیوبند کو یہ فتویٰ دیتے ہوئے شرم نہیں آئی ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔

اس حکایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اکابرینِ دیوبند اللہ عزّ و جل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احکامات کی کھلی مخالفت کرتے ہیں اور احکامِ اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں جسے ایک عامی شخص نے بھی محسوس کر لیا ۔

اس پر ہمارا مکتبہ فکر دیوبند کے لوگوں سے صرف اتنا سوال ہے کہ اکابرینِ دیوبند کے پاس ایسا کون سا شرعی اختیار تھا جس کی وجہ سے بغیر وضو نماز پڑھنے کی اجازت دے دیتے تھے ؟

دیوبندی تعلیم : بے وضو ہی نماز پڑھ لیا کرو اور شراب بھی پی لیا کرو

حکیمُ الاُمّت بیمارانِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : ایک مرتبہ آپ کا جلال آباد یا شاملی گزر ہوا ۔ ایک مسجد ویران پڑی تھی ۔ وہاں نماز کے لئے تشریف لا کرپانی کھینچا وضو کیا مسجد میں جھاڑو دی اس کے بعد ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کوئی نمازی نہیں ؟ اس نے کہا کہ جی سامنے خاں صاحب کا مکان ہے جو شرابی اور رنڈی باز ہیں ۔ اگر وہ نماز پڑھنے لگیں تو یہاں اور بھی دو چار نمازی جمع ہو جائیں آپ ان خاں صاحب کے پاس تشریف لے گئے تو رنڈی پاس بیٹھی تھی ۔ اور نشہ میں مست تھے ۔ آپ نے خاں صاحب سے فرمایا کہ بھائی خاں صاحب اگر تم نماز پڑھ لیا کروتو دو چار آدمی اور جمع ہو جایا کریں ۔ اور مسجد آباد ہو جائے گی ۔ خاں صاحب نے کہا کہ میرے سے وضو نہیں ہوتی اور نہ یہ دو بری عادتیں چھٹتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ بے وضو ہی پڑھ لیا کرو ۔ اور شراب بھی پی لیا کرو ۔ اسپر اس نے عہد کیا کہ میں بغیر وضو ہی پڑھ لیا کروں گا ۔ (ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 158 مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی)

انا اللہ وانا علیہ راجعون : نجانے یہ کون سی شریعت ہے جس میں بے وضو نماز پڑھنے اور شراب پینے کی اجازت ہے ؟ ۔ یہ اسلام تو ہرگز نہیں ہوسکتا لیکن دیوبند کی تعلیم میں ضرور شراب حلال ہے ۔ کیونکہ دیوبندی حضرات نے نشے کی شرط کے بغیر مطلقاً شراب پینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے ۔ کوئی دیوبندی جواب دے گا کہ دیوبندیوں کے پاس کون سے اختیارات تھے جنہیں استعمال کر کے یہ اجازت نامہ جاری کیا گیا ؟ ۔

الیاس گھمن دیوبندی سوتیلی بیٹی کے ساتھ زنا اور مالی خورد برد کرنے والا ہے

محترم قارئینِ کرام : دیوبندیوں کے موجودہ متکلم الاسلام مولوی الیاس گھمن دیوبندی کے اپنی سوتیلی بیٹی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے مولوی الیاس گھمن دیوبندی کے اکابرین میں سے دیوبندیوں کے شیخ الکل سلیم اللہ خان دیوبندی کی گواہی پیشِ خدمت ہے انہوں دارالعلوم دیوبند کو خط لکھا جب دارالعلوم دیوبند نے مولوی الیاس گھمن دیوبندی کی تعریف کی تو دیوبندیوں کے شیخ الکل سلیم اللہ خان دیوبندی نے لکھا : آپ ایسے شخص کی کیسے تعریف کر سکتے ہیں جو اپنی سوتیلی بیٹیوں کے ساتھ بد فعلی کے جرم میں پکڑا گیا ، جو مالی خورد بُرد میں پکڑا گیا ، جس نے سعودی عرب میں غیر قانونی چندے کیئے جن سے الیاس گھمن کی شخصیت مجروح ہو رہی تھی ۔ اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند نے اپنی سابقہ تحریر جو تعریف میں لکھی گئی تھی سے رجوع کر لیا یہ کہہ کر کہ وہ تحریر عجلت (یعنی جلدی میں لکھی گئی تھی) ۔ (تذکرہ شیخ الکل صفحہ نمبر 302 مطبوعہ ادارۃ الرشید کراچی،چشتی)

مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری

دیوبندیوں کے متکلم الاسلام الیاس گھمن بیٹیوں کے ساتھ بدکاریوں میں ملوث ، مالی خورد بُرد کرنے والا ، سعودی عرب میں غیر قانونی چندے کرنے والا یہ تو ان کا متکلم اسلام ہے جس کے یہ کرتوت ہیں تو ان کے چھوٹے اللہ بچائے ایسے شخصیت پرست اندھوں سے جو پھر بھی ان جیسے لوگوں کو عالم اور اپنا قئد و پیشوا سمجھتے اور مانتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔