Wednesday 31 May 2017

مختصر سوانح حضرت سیدۃ طیبہ طاہرہ فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا

0 comments
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی اورچہیتی صاحب زادی سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی ولادت با سعادت مکہ شریف میں ہوئی۔پوری دنیا کی تاریخ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کی نظیر اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آپ کی ذات طیبہ امت مسلمہ کی خواتین کے لئے ایک بے مثال اور قابل تقلید نمونہ ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بڑے پاکیزہ اوصاف کی حامل تھیں ،ہر وقت عبادت الٰہی میں ڈوبی رہتی تھیں ،دنیا کی خواہشات سے آپ کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا،انہیں اعلی صفات کی بنیاد پر آپ متعدد القاب سے جانی جاتی تھیں جن میں سے ایک”بتول” ہے علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ آپ کا لقب “بتول” اس لئے تھا کہ آپ دینداری اور شرافت و پاکیزگی میں تمام عورتوں سے ممتاز اور یگانہ تھیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کا دور اسلام کا ابتدائی دور تھا۔یہ وقت بڑا کٹھن اور دشوار تر ین تھا،اس وقت مکہ کے کفاروں کا مسلمانوں پر ظلم وستم اور تعصب پورے زور پر تھا۔قریش نے بنی ہاشم پر عر صہ حیات تنگ کر رکھا تھا،اس دوران بنی ہاشم تقریبا تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور بھی رہے اور نہایت تنگ دستی کی زندگی گزاری۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے بچپنے میں اپنے عظیم والد حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک اور پیاس کی تمام تکلیفوں کو برداشت کیں۔آپ کی مادرِ عظیم ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی رحلت کا صدمہ بھی آپ کے لئے بڑا جان گداز تھا ،جسے آپ نے بڑے حوصلے سے برداشت کیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتر بیت اور درس ونصیحت کی وجہ سے آپ بچپنے ہی سے ملکوتی صفات سے آراستہ و پیراستہ ہو گئی تھیں۔آپ کو عام لڑ کیوں کی طرح کھیل کودکا بالکل شوق نہ تھا،آپ نے کبھی ضد نہ کیا،آپ کو زیورات پہننے کی خواہش تھی نہ بناؤسنگھار کی کوئی فکرنہ زرق برق لباس پہننے کی کوئی آرزو۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بچپنے ہی سے پاک باز تھیں ،فہم وتدبر،مہمان نوازی،شرم وحیا،صبر وتوکل،زہد وقناعت اور تواضع وخاکساری آپ کا شعار تھا۔

جب آپ سن بلوغ کو پہنچیں تو بڑے بڑے سرداران عرب نے نکاح کا پیغام بھیجا مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردیا اس وقت ان کے پاس رہنے کو اپنا گھر بھی نہیں تھا۔مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے والد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب کو خوشدلی کے ساتھ قبول فر مایا۔اور پوری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ بغیر کسی گلہ شکوہ کے گزاردیں۔گھر کے تما م کاج کام آپ خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں،گھر صاف کرتیں،چکی پیستیں،مشکیزہ میں بھر کے پانی لاتیں ،چکی پیسنے کی وجہ سے آپ کی ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ایک دن حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ اونٹ کے بالوں کا ایک موٹا کپڑا پہنے ہوئی ہیں ۔تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:اے فاطمہ !آج اس دنیا کی پر یشانی اور تکلیف پر صبر کرتی رہ تا کہ آخرت میں تمہیں جنت کی نعمتیں ملے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہنا اور اپنے رب کریم کے احکام وفر مانبرداری میں زندگی گزارنا بڑا پسند تھا۔آپ نے کبھی اپنا چہرہ غیر محرم مردوں کے سامنے نہیں کھولا ،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ:عورت کی سب سے بہترین خوبی کیا ہے؟ کسی سے اس کا جواب نہ بن پڑاتو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے اور یہی سوال حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو آپ نے فر مایا کہ: عورت کی سب سے بہترین خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ کوئی غیر اس کو دیکھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ جواب لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور حضرت فاطمہ کا جواب بیان کیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:فاطمہ میری لخت جگر ہے اس کی رائے میری رائے ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی زندگی کے تمام ادوار میں بے مثال نظر آتی ہیں۔آپ اپنے والدین کے لئے ایک بے مثال اور قابل فخر بیٹی تھیں۔اپنے شوہر کے لئے ایک بے مثال شریک حیات اور مونس وغمخوار تھیں۔آپ نے ماں ہونے کی حیثیت سے سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی ایسی تربیت فر مائی کہ انہوں نے اللہ کے دین کو بچانے کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیا یہاں تک کہ انتہائی صبر وتحمل کے ساتھ اپنی جان بھی قر بان کردی اور اس وقت جب کہ آپ کی نگاہوں کے سامنے عزیز واقارب کی بہترّ نعشیں پڑی تھیں اور خود اپنا جسم تلواروں ،بھالوں،نیزوں اور تیروں کےزخموں سے لہو لہان تھا سجدہ قضا نہ ہونے دیا۔اور اپنی صاحبزادی حضرت زینب اور ام کلثوم کو اللہ و رسول کے احکام کا ایسا پابند بنایا تھا کہ انہوں نے کر ب وبلا کی سر زمین پر اپنے بھائی ،بھتیجوں اور بھانجوں کے تڑپتے لاشے کو دیکھ کر بھی اپنے سر سے دوپٹے کو ہٹنے نہیں دیا ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والدین علی اور فاطمہ ان دونوں سے بھی بہتر ہیں۔ ( ابن ماجہ،حدیث:۱۱۸ )

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:میری بیٹی فاطمہ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ ( ترمذی،حدیث:۳۷۸۱ )
تین (3) رمضان المبارک سن 11 ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔ ( ماخذ : کتب احادیث ، کتب تفاسیر ، فضائل سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ، البتول ، خاتون جنت وغیرہ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

وتر کی نماز تین (3) رکعات دو تشہد اور ایک سلام کے ساتھ ہے

0 comments
وتر کی کیفیت یہ ہے کہ دو تشہد اور ایک سلام سے ادا کیا جائے۔اس پر احادیث صحیحہ مرفوعہ، آثار صحابہ و اجماع امت موجود ہیں ۔ احادیث میں نماز وتر کو مغرب کی طرح اد اکرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا نماز وتر دو قعدوں اور ایک سلام سے ادا کی جائے گی فرق اتنا ہے کہ وتر کی تینوں رکعتوں میں قراءۃ فاتحہ اورسورۃ ہوگی تیسری رکعت میں قنوت وتر اور رفع الیدین ہوگا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ہے : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث یقرء فی الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الرکعۃ الثانیۃ بقل یا ایہا الکافرون وفی الثالثۃ بقل ہو اللہ احد ولا یسلم الا فی آخرہن۔ ( سنن نسائی ج1ص248 )
ترجمہ:آپ علیہ السلام تین رکعات وتر پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت:ثم اوتر بثلاث لا یفصل فیہن ۔ ( مسند احمد ج6ص156 رقم 25101 )
ترجمہ: آپ علیہ السلام تین رکعت وترایک سلام سے پڑھتے تھے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث ہے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔ ( مستدرک حاکم ج 1 ص 608 )
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اور آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ اس کے بعد امام حاکم فرماتے ہیں: وھذا وتر امیر المومنین عمر بن خطاب وعنہ اخذہ اہل المدینہ ۔ یہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وتر ہیں اور ان سے اہل مدینہ نے یہی عمل لیا ہے۔

عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم لا فصل فی الوتر ۔ (جامع المسانید ج1ص402 )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں آپ علیہ السلام نے فرمایا وتر میں (سلام کا)فاصلہ نہیں ہے۔

عن عائشۃرضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یسلم فی الرکعتین الاولیین من الوتر۔ ( مستدرک حاکم ج1ص607 کتاب الوتر )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔

عن عبداللہ قال ارسلت امی لیلۃلتبیت عند النبی منتظر کیف یوتر فباتت عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصلی ما شاء اللہ ان یصلی حتی اذا کان آخر اللیل واراد الوتر ۔۔۔۔الخ ( الاستیعاب لابن عبدالبر ص934 رقم 742 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو بھیجا کہ آپ علیہ السلام کے گھر رات گزاریں اور دیکھیں آپ علیہ السلام وتر کس طرح پڑھتے ہیں چنانچہ انہوں نے آپ علیہ السلام کے ہاں رات گزاری پس آپ علیہ السلام نے رات میں جتنا اللہ کو منظور ہوا نماز پڑھی جب رات کا آخری حصہ ہوا آپ علیہ السلام نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں قل یا ایہا الکافرون پڑھی پھر قعدہ کیا۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو گئے اور تیسری رکعت میں)سورۃ (قل ھوا للہ احد پڑھییہاں تک کہ جب اس سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی دعائے قنوت پڑھی اور جو اللہ کو منظور تھا دعائیں کی اورتکبیر کہی رکوع کیا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آثارِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور کیفیت وتر

عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ المغرب وتر النہار فاوتروا صلاۃ اللیل ۔ ( مصنف عبدالرزاق ج2ص401 )
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا مغرب کی نماز دن کے وتر ہیں تو رات کے وتر بھی پڑھا کرو۔
یعنی جیسے مغرب کی نماز دو تشہد ایک سلام کے ساتھ ہے ایسے ہی وتر کی نماز بھی دو تشہد اور ایک سلام سے ہوگی ۔

عن عقبۃ بن مسلم قال سالت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما عن الوتر فقال اتعرف وتر النہار قلت نعم صلوٰۃ المغرب قال صدقت او احسنت ۔ )طحاوی ج1ص197 باب الوتر (
ترجمہ: حضرت عقبہ بن مسلم فرماتے ہیں میں نے وتر کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا۔ تو انہوں نے فرمایا کیا دن کے وتر جانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں !مغرب کی نماز۔ انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا یا احسنت فرمایا، تو نے اچھا کہا ۔

اجماعِ امت اورکیفیت وتر

عن الحسن قال اجمع المسلمون علی ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص194 رقم 177 )
ترجمہ: اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں ان کی صرف آخری رکعت میں سلام ہے۔

قد اجمعوا ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخرہن ۔ ( طحاوی ج1ص207 باب الوتر )
ترجمہ: اس بات پر اجماع کیا ہے کہ وتر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ ہیں۔

وتر کی دوسری رکعت میں تشہد

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یستفتح الصلوۃ بالتکبیر والقراۃ بالحمدللہ رب العالمین۔۔ وکان یقول فی کل رکعتین التحیۃ ۔۔ الحدیث ۔ (صحیح مسلم ج1ص194 باب مایجمع صفۃ الصلاۃ )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر سے نماز شروع کرتے جبکہ قرأت کو الحمد للہ رب العالمین سے اور آپ علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہر دو رکعت میں التحیات (تشہد) ہے۔

عن عبداللہ قال کنا لاندری مانقول فی کل رکعتین غیر ان نسبح و نکبر و نحمد ربنا وان محمدا علم فواتح الخیر وخواتمہ فقال اذا قعدتم فی کل رکعتین فقولوا التحیات للہ ۔۔۔ الخ۔ ( سنن النسائی ج1ص174 کیف التشہد الاول )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھیں تو کیا کریں بجز اس کے کہ تسبیح کہیں تکبیر کہیں، اپنے پروردگار کی تعریف کریں اور یہ کہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سراپا بھلائی کی باتیں سکھلائی گئیں ہیں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا جب تم دو رکعت پڑھ کر بیٹھو تو یوں کہو التحیات للہ (آخر تشہد تک)

عن الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصلوٰۃ مثنیٰ مثنیٰ تشہد فی کل رکعتین۔ ( جامع الترمذی ج1ص87 المعجم الکبیر ج8ص26 )
ترجمہ: آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے رات کی نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعتوں میں تشہد ہے۔

دعائے قنوت کے الفاظ

نماز وتر میں دعائے قنوت کے الفاظ اللھم انا نستعینک احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں اور خصوصا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خلفاء راشدین نے اس کو معمول بہا بنایا ہے اور جمہور امت نے بھی اسی کو معمول بنایا ہے ۔
عن خالد بن ابی عمران قال بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا علی مضر اذ جاءہ جبرائیل علیہ السلام فاومیٰ الیہ ان اسکت فسکت فقال یا محمد ان اللہ لم یبعثک سبابا ولا لعانا وانما بعثک رحمۃ ولم یبعثک لیس لک من الامر شیئ او یتوب علیہم الایۃ قال ثم علمہ ھذا القنوت اللھم انا نستعینک ونستغفرک ۔۔ ۔۔۔۔ الخ ( سنن الکبری بیہقی ج2ص210 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص518 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: حضرت خالد بن ابی عمران کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کے لیے بد دعا کررہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام آئےا ور خاموش ہونے کا اشارہ کیا آپ علیہ السلام خاموش ہوگئے تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو گالی دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا ہے عذاب بنا کر نہیں بھیجا آپ کے اختیار میں اس قسم کے امور نہیں ہیں اللہ چاہے تو ان کو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول کرلے کیونکہ وہ ظالم ہیں پھر آپ کو یہ دعائے قنوت تعلیم فرمائی۔

یہی دعا قنوت معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے متعدد آثار میں مفصل طور پر مروی ہےجن کے مجموعہ سے یہ مکمل دعا ثابت ہے، ان آثار کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص213تا215۔ مصنف عبدالرزاق ج3ص29تا31 )
اما م ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ ؛ امام بخاری وامام مسلم کے شیخ اور استاذ ہیں اور امام عبدالرزاق رحمہ اللہ ؛امام احمد بن حنبل کے شیخ و استاد ہیں۔

قنوت قبل الرکوع

وتر میں قنوت کا عمل تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے اور سال بھر کا معمول ہے جن روایات میں رکوع کے بعد قنوت کا ذکر ہے اس قنوت سے مراد قنوت نازلہ ہے۔

عن عاصم قال سألت انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن القنوت فقال قد کان القنوت قلت قبل الرکوع او بعدہ؟ قال قبلہ قال فان فلانا اخبرنی عنک انک وقلت بعد الرکوع فقال کذب انما قنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد الرکوع شہرا ۔ ( صحیح بخاری ج1ص136 باب القنوت قبل الرکوع او بعدہ )
ترجمہ: حضرت عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا کہ وہ رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا رکوع سے پہلے ہے۔ آپ علیہ السلام نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ قنوت پڑھی تھی۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر ویقنت قبل الرکوع ۔ ( سنن نسائی ج1ص248 )
ترجمہ: آپ علیہ السلام وتر پڑھتے تھے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔

عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یوتر بثلاث رکعات کان یقرء فی الاولیٰ ب ۔سبح اسم ربک الاعلیٰ وفی الثانیۃ ب۔قل یا ایہا الکافرون، وفی الثالثۃ ب۔قل ہو اللہ احد ویقنت قبل الرکوع ۔ ( سنن نسائی ص243،قیام اللیل للمروزی، باب کیف الوتر بثلاث ص248 )
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے: آپ علیہ السلام تین رکعت وتر پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ دوسری میں قل یا ایہا الکافرون اور تیسری میں قل ہو اللہ احد پڑھتے تھے، اور قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔

عن علقمۃ ان ابن مسعود واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یقنتون فی الوتر قبل الرکوع ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص521 )
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔

علماء غیر مقلدین وہابی حضرات بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قنوت وتر کا محل قبل الرکوع ہے اور جن روایات میں بعد الرکوع کا ذکر ہے ان سے مراد قنوت نازلہ ہے۔

چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم مبشر ربانی لکھتے ہیں : آپ علیہ السلام کے قول و فعل اور صحابہ کرام کے عمل سے وتر میں دعا قنوت رکوع سے قبل ثابت ہے اور اکثر روایات رکوع سے قبل ہی قنوت وتر پر دلالت کرتی ہیں۔۔ جو دعا ہنگامی حالات میں مسلمانوں کی خیر خواہی کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کے خلاف بد دعا کے طور پر کی جاتی ہے وہ رکوع کے بعد ہے جسے قنوت نازلہ کہا جاتا ہے، اور جو دعا رکوع سے قبل مانگی جاتی ہے وہ قنوت وتر ہے ۔ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل ج1ص185 از مبشر ربانی )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

غیر مقلد ین وہابی حضرات کہتے ہیں قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھنا راجح ہے جیسا کہ نسائی وغیرہ سے ثابت ہے جو لوگ رکوع کے بعد پڑھتے ہیں، وہ قنوت نازلہ پر قیاس کر کے ہی پڑھتے ہیں،، مؤلف کتاب کی ذکر کردہ روایات کا تعلق قنوت نازلہ ہی سے ہے۔ ( تسہیل الوصول الی تخریج و تعلیق صلاۃ الرسول ص295 )

بعض غیر مقلدین لکھتے ہیں وتر میں رکوع کے بعد قنوت کی تمام روایات ضعیف ہیں اور جو روایت صحیح ہے اس میں صراحت نہیں کہ آپ علیہ السلام کا رکوع کے بعد والا قنوت قنوت وتر تھا یا قنوت نازلہ لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وتر میں قنوت رکوع سے پہلے کیا جائے۔ ( نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں ص236 )

دعائے قنوت کے وقت رفع یدین : وتر کی تیسری رکعت میں قرأت سے فارغ ہوکر تکبیر کہنا اور رفع یدین کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

عن ابی عثمان قال کان عمر یرفع یدیہ فی القنوت ۔ ( جزء رفع الیدین مترجم ص346 )
ترجمہ: ابو عثمان کہتےہیں حضرت عمر قنوت کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔

عن عبداللہ انہ کان یقرء فی آخر رکعۃ من الوتر قل ہو اللہ احد ثم یرفع یدیہ ویقنت قبل الرکعۃ ۔ ( جزء رفع الیدین مترجم ص346 )
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وتر کی آخری رکعت میں قل ہوا للہ احد پڑھتے تھے پھر رفع الیدین کرتے اور رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔

عن الاسود عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہ کان یرفع یدیہ فی قنوت الوتر ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص531 )
ترجمہ: حضرت اسود رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وتر میں قنوت کے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔

غیر مقلدین وہابی حضرات کے علماء بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے متعلق کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔

صحیح حدیث سے صراحۃ ہاتھ اٹھا کر یا باندھ کر قنوت پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ۔ ( فتاویٰ علماء حدیث ج3ص206 )

دعا قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے ۔ ( نماز نبوی ص237 )

بعض صحابہ کرام سے وتروں میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں ضعیف آثار بھی ملتے ہیں بہتر یہ ہے کہ قنوت وتر میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں ۔ ( حاشیہ صلوۃ الرسول ص297 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نماز وتر تین (3) رکعات ہیں و فضائل و احکام

0 comments
ائمہ احناف کے نزدیک وتر کی نماز واجب ہے ۔ نماز وتر کا وجوب احادیث طیبہ سے ثابت ہے۔چنانچہ اس بارے میں متعدد روایتیں کتب احادیث میں موجود ہیں ۔ان میں سے چند صاف اور صریح روایتیں پیش خدمت ہیں ۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:وتر واجب ہے۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الوتر،حدیث:۱۱۳۲)

حضرت عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺنے فر مایا:وتر واجب ہے ۔تو، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(سنن ابی داود،کتاب الصلوٰۃ،باب فیمن لم یوتر،رقم الحدیث :۱۴۱۹،المستدرک علی الصحیحین للحاکم،رقم الحدیث:۱۱۴۶،مصنف ابن ابی شیبۃ،حدیث:۶۹۳۴)

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ نے تمہاری نمازوں میں ایک نماز کا اضافہ فرمایا ،اور وہ وتر ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ،حدیث:۹۲۹)

حضرت نافع سے روایت ہے کہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:جو شخص رات میں نماز پڑھے تو چاہئے کہ اس کی آخری نماز وتر ہو کیونکہ حضور نبی کریم ﷺاس کا حکم دیا کرتے تھے۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب صلاۃ اللیل مثنی مثنی الخ حدیث:۷۵۱، سنن النسائی،حدیث:۱۶۸۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ جوشخص وترسے سو جائے یا وتر پڑھنا بھول جائے تو جس وقت یا دآئے پڑھ لے۔(ترمذی،کتاب الصلاۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الرجل ینام عن الوتر او ینساہ، حدیث:۴۶۵،ابن ماجہ، حدیث:۱۱۸۸)

دین کا ادنیٰ سوجھ بوجھ رکھنے والاشخص بھی جانتا ہے کہ سنت نمازوں کی قضا نہیں ہوتی اور اس حدیث مبارکہ میں وتر چھوڑنے پرقضا کا حکم دیا گیا ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ وتر کی نماز سنت نہیں اور اس کے فرض ہونے کا کوئی قائل نہیں تو یقینی طور پر معلوم ہوا کہ یہ واجب ہی ہے۔ رہی یہ بات کہ بعض احادیث میں آیا کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وتر کی نماز سواری پر ادا فرمائی ۔جب کہ فرض و واجب نمازیں سواری پر ادا کرنا درست نہیں۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز وتر کے واجب ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے یا پھر وہ عذر کی بنا پر تھا جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ وغیرہ کی عذر کی بنیاد پربعض دفعہ فرض نماز سواری پر پڑھی ۔تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ فرض نہیں رہا ۔ بہر حال ان تمام روایتوں سے وتر کا واجب ہونا روز روشن کی طر ح ظاہر ہوگیا۔مسلمان کے لئے تو حضور اکرم ﷺکی ایک ہی روایت کافی ہے مگر جو ان سب روایتوں کے ہونے کے باوجود نہیں مانے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔

وتر کی نماز ائمہ احناف کے نزدیک تین رکعات ہیں ۔ الحمد للہ!وتر کے تین رکعت ہونے پر متعدد احادیث مو جود ہیں ۔ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔

سیدنا ابن عبا س ر ضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی تین رکعتیں ادا فرماتے ،پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی،دوسری میں قل یٰایھاالکٰفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد‘‘تلاوت فرماتے۔
(سنن نسائی، کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب کیف الوتر بثلاث ،حدیث:۱۷۰۲،ترمذی، حدیث:۴۶۲)

عبدالعزیز جر یح کہتے ہیں:ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وترمیں کیا پڑھتے تھے تو انہو نے فرما یا: پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری میں قل یا یھا الکٰفرون او ر تیسری میںقل ھواللہ احدپڑھتے تھے ۔(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا ،باب ماجاء فیما یقرأ فی الوتر ،حدیث:۱۱۷۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کس طرح نماز پڑھتے تھے؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ،چار رکعت نماز پڑھتے اور اس نماز کے حسن اور طول کی بات مت پوچھو!پھر چار رکعت نماز پڑھتے  اور ان کے حسن اور طول کی بات مت پوچھو !اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے،سیدہ عائشہ صدیقہ بیا ن کرتی ہیں کہ :میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ !کیا آپ وتر سے پہلے سو جاتے ہیں؟فرمایا:ائے عائشہ میری آنکھیں سو جاتی ہیںمگر میرا دل نہیں سوتا ۔ (بخاری،کتاب التھجد،باب قیام النبی ﷺباللیل فی رمضان وغیرہ ،حدیث:۱۱۴۷، مسلم ،حدیث:۷۳۸،ترمذی، حدیث:۴۳۹)

ان حدیثوں میں صاف صاف لفظوں میں گن گن کر واضح انداز میں بتایا گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز تین رکعت ادا فرمایا کرتے تھے پہلی رکعت میں فلاں سورت دوسری میں فلاں اور تیسری میں فلاں۔ اب آپ خود سوچئے کہ اگر وتر میں صرف ایک ہی رکعت ہوتی تو دوسری اور تیسری رکعت کی بات کہاں سے آتی ؟ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان فر مایا کہ:رمضان ہو یا غیر رمضان،حضور اکرم ﷺکی عادت یہی تھی کہ آپ ۸؍رکعات تہجد اور تین رکعات وتر ادا فر مایا کرتے تھے۔لہذا وہ لوگ جو نماز پڑ ھنے میں بڑی دقت اور پریشانی سمجھتے ہیں اور ایک ہی رکعت وتر پڑھ کر بھا گنا چا ہتے ہیں ۔انہیں اپنی نفسانی خواہشات سے نکل کر حضور ﷺکے دائمی عمل کی پیروی کرنی چاہئیے کیو نکہ ایک سچے مسلمان کی نشانی یہی ہے۔

حضور ﷺ نے دم کٹی(یعنی صرف ایک رکعت نماز)پڑھنے سے منع فر مایا۔ چنانچہ صحابی رسول سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ ج،۲، ص،۱۲۰ ،حافظ ابن حجر نے درایہ ج۱،ص۱۱۴،اور علامہ عینی نے عمدہ القاری ج۴،ص،۴، پر بیان کیا ہے) یونہی محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیںکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کٹی (ایک رکعت)نماز پڑھنے سے منع فرمایا(نیل الاوطارمصنفہ شیخ محمد بن علی شوکانی)

جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے ،دو رکعت پر نہیں ۔ جیساکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ وترکی تین رکعت ادافرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے۔(سنن نسائی،کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب کیف الوتر بثلاث ،حدیث :۱۷۰۱، ۱۶۹۸)

بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار علیہ اسلام نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنا یا،ایسی تمام روایات اس معنی پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعت سے ملی ہوئی تھی ۔کیونکہ خود حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعت ہے ۔چنانچہ حضرت حسن بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘تمام مسلمانو کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعت ہے اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج،۲،ص،۲۹۴ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں 11/ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے 4/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ 4/ رکعت پڑھتے تھے، ان کے حسن اور لمبائی کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔  یہ حدیث، حدیث کی ہر مشہور کتاب میں موجود ہے ،اس حدیث میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورہٴ فاتحہ اور ”سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأعْلیٰ“، دوسری رکعت میں ”قُل یَا أیُّہَا الکَافِرُون“ اور تیسری رکعت میں ”قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَد“ پڑھتے تھے ۔ ( نسائی باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر أبی بن کعب فی الوتر ۱۷۰۱، أبوداوٴد باب ما یقرا فی الوتر ۱۴۲۳، ابن ماجہ باب ما جاء فی ما یقرا فی الوتر ۱۱۷۱)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لاتے تھے، پھر دو رکعت پڑھتے تھے، پھرمزید دو رکعت پہلی دو نوں رکعتوں سے لمبی پڑھتے تھے، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور درمیان میں (سلام کے ذریعہ) فصل نہیں کرتے تھے (یعنی یہ تینوں رکعت ایک ہی سلام سے پڑھتے تھے۔ ( مسند احمد ۶/۱۵۶ ، مسند النساء، حدیث السیدہ عائشہ ۲۵۷۳۸، نیزملاحظہ ہو زاد المعاد ۱/۳۳۰ فصل فی سیاق صلاتہ … باللیل ووترہ )

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مغرب کی نماز، دن کی وتر ہے ، پس رات میں بھی وتر پڑھو۔
( مسند احمد ۲/۳۰، موٴطا مالک ، باب الامر بالوتر صحیح الجامع الصغیر للالبانی ۲ /۷۱۲ حدیث نمبر ۳۸۳۴ )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رات کے وتر میں دن کے وتر یعنی نمازِ مغرب کی طرح تین رکعت ہیں۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی ۹/۲۸۲ حدیث نمبر ۹۴۱۹ ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۲/۵۰۳ باب عدد الوتر حدیث نمبر ۳۴۵۵ )

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابی رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت میں سلام پھیرتے تھے ۔ ( مصنف عبد الرزاق ۳/۲۶ باب کیف التسلیم فی الوتر حدیث نمبر ۴۶۵۹ )

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں اور آخر میں ہی سلام پھیرا جائے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۰ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۳۴ )

صحابی رسول  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین رکعت وتر پڑھی اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۲ /۹۱ باب من کان یوتر بثلاث او اکثر حدیث نمبر ۶۸۴۰ )

ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے ہیں، رہا دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے کا ثبوت تو ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں ملتی، جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اس کے برعکس متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آپ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے دن رات کی ہر نماز میں ہر دوسری رکعت پر قاعدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وتر کا اس عموم سے مستثنیٰ ہونا کسی ایک حدیث میں نہیں ملتا، اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرماتے اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم اہتمام سے امت تک پہونچاتے۔

بعض حضرات نے دار قطنی اور بیہقی میں وارد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے صرف ایک حصہ (وَلاَ تَشَبَّہُوا بِصَلاَةِ الْمَغْرِب) کو ذکر کرکے تحریر کردیا کہ نبی اکرم  صلی اللہ  علیہ وسلم نے ایک سلام اور دو تشہد کے ذریعہ نماز ِ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔ حدیث کے صرف ایک حصہ کو ذکر کرکے کوئی فیصلہ کرنا ایسا ہی ہوگا، جیسے کہ کوئی کہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور دلیل کے طور پر پیش کرے (وَلاَ تَقْرَبُوا الصَّلاة۔۔۔ )۔

دار قطنی اور بیہقی میں وارد اس حدیث کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں (لَا تُوتِرُوْا بِثَلاثٍ، اَوْتِرُوا بِخَمْسٍ اَوْ سَبْع وَلا تَشَبَّہُوا بِصَلاةِ الْمَغْرِب) ۔ اگر اس حدیث کا تعلق صرف وتر سے ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ مغرب کی طرح تین وتر نہ پڑھو؛ بلکہ پانچ یا سات پڑھو، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یقینا اس کا دوسرا مفہوم ہے۔ ممکن ہے کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہو، یعنی جب تم نماز تہجد اور اس کے بعد وتر پڑھنا چاہو تو کم از کم ۵یا ۷رکعت پڑھو۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اور اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ نبی اکرم … نے نمازِ وتر میں مغرب سے مشابہت سے منع فرمایا ہے، تو کس بنیاد پر ہم یہ کہیں گے کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ دوسری رکعت میں قاعدہ نہ کیا جائے۔ کل قیامت تک بھی کوئی شخص نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے دار قطنی اور بیہقی میں وارد اِس حدیث کا یہ مفہوم ثابت نہیں کرسکتاہے۔ اس کے یہ مطلب بھی تو ہوسکتے ہیں:

(1) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر کی تیسری رکعت میں بھی سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورت ملاوٴ؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔

(2) نماز وتر کو مغرب کی طرح نہ پڑھو یعنی وتر میں دعائے قنوت بھی پڑھو؛ تاکہ مغرب اور وتر میں فرق ہوجائے۔

غرضے کہ اِس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے پر وتر کی دوسری رکعت میں قاعدہ کرنے سے منع فرمایا ہے، صحیح نہیں ہے؛کیونکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں حدیث کا یہ مفہوم مذکور نہیں ہے۔ ہاں کسی عالم یا فقیہ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے جو غلطی کا احتمال رکھتی ہے، جس پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت مثلاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ اِس حدیث سے یہ مفہوم لینا صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے مختلف فیہ مسائل میں وسعت سے کام لینا چاہیے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دینے کی ناکام کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔

اس موقع کو غنیمت سمجھ کر یہ بات واضح کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اِن دنوں بعض حضرات امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ ( جنہیں تقریباً سات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم کے دیدار کا شرف حاصل ہے) کی قرآن وسنت کی روشنی میں بعض آراء ( اگر وہ اُن کے علماء کی رائے سے مختلف ہوتی ہے) کو قرآن وسنت کے خلاف بتاتے ہیں اور ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ جو انہوں نے 1400 سال کے بعد قرآن وسنت کو سمجھا ہے، وہی صحیح ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنھم  اور بڑے بڑے تابعین کی صحبت سے مستفید ہونے والے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن وسنت کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے اور اُن کی رائے پر اس طرح لعن وطعن شروع کردیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ رائے گیتا، رامائن اور بائیبل سے اخذ کی ہے، نعوذ باللہ ۔ اگر کسی مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کی دلیل ترمذی جیسی مستندکتاب میں وارد نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا عمل پر مشتمل ہوتی ہے، تو بخاری ومسلم کی حدیث کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔ ایک سلام اور دو تشہد سے وتر کی تین رکعت کو غلط قرار دینے کے لیے صحیحین ہی نہیں؛ بلکہ صحاح ستہ سے بھی باہر نکل کر دار قطنی اور بیہقی کی اُس روایت کو بنیاد بنایا جارہا ہے، جس کے متعدد مفہوم ہوسکتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

Tuesday 30 May 2017

Friday 26 May 2017

نبی کریم ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح پڑھاتے

0 comments
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح پڑھاتے اور وتر۔(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد کیی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ جلد2صفحہ395)

حدیث ابن عباس اور 20 رکعات تراویح کی روایات پر اعتراضات کے جوابات
دلیل نمبر1: قال الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي (مـ 235 هـ) : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
تحقیق السند: اسنادہ حسن و قد تلقتہ الامۃ بالقبول فہو صحیح۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653، السنن الكبرى للبیھقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ.)
اعتراض نمبر 1 ۔ غیرمقلدین کی طرف سے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابرھیم بن عثمان ابو شیبہ ضعیف ہے ۔ اس کو امام بہیقی ؒ ۔ امام زیلعی ؒ ۔ امام نسائی ؒ ۔ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے ۔ امام بخاریؒ نے اس کے بارے میں سکتوا عنہ اور امام ابو حاتم ؒ نے سکتوا عنہ اور ترکوا حدیثہ فرمایا ہے ۔ امام احمد ؒ نے اس کو منکر الحدیث اور امام ابن عدی ؒ نے اس کو لین کہا ہے اور اس کی حدیث کو انہوں نے اپنی کتاب الکامل میں ابو شیبہ کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ۔ امام شعبہ ؒ نے اس کی ایک روایت کے بارے میں کذب کہا ہے ۔ (محصلہ انوار المصابیح ص 169 -177 )
بعض غیر مقلدین تو اس حدیث کو موضوع تک قرار دیتے ہیں ، العیاذ باللہ من ذالک
جواب نمبر 1 ۔ اس روایت کا راوی ابرھیم بن عثمان ابو شیبہ اگرچہ مجروح ہے لیکن یہ اتنا ضعیف نہیں ہے کہ اس کی روایات کو بالکل رد یا موضوع قرار دیا جائے کیونکہ بعض ائمہ رجال نے اس کی توثیق بھی کی ہے چنانچہ امام شعبہ بن الحجاج ؒ نے اس سے روایت لی ہے ۔ ( تہذیب الکمال 1/390 تہذیب التہذیب 1/144
اور غیر مقلدین کے ہاں یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ امام شعبہ صرف اسی سے روایت لیتے ہیں جو ثقہ راوی ہو اور اس کی احادیث صحیح ہو ۔ چنانچہ مولانا عبد الرؤف سندھو غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ شیخ احمد شاکر ( جو غیر مقلدین کے بڑے عالم تھے ) فرماتے ہیں کہ محمد بن مہران سے شعبہ نے بھی روایت لی ہے اور وہ ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں ( القول المقبول شرح صلوٰۃ الرسول ص 386 ) علامہ شوکانی اور مولانا عبد الرحمان مبارک پوری وغیرہ مقلدین علماء امام شعبہ ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں وھو لا یحمل عن مشائخھم الا صحیح حدیثھم ( نیل الاوطار 1/16 ابکار المنن ص 147 ، 150 وغیرہ ) امام شعبہ ؒ اپنے مشائخ سے صرف وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے ۔ اس طرح جن جن ثقہ (قابل اعتماد) محدثین نے بیس (٢٠) رکعت کی روایت لی، یہ ان کی قوی تائید ہے ورنہ یہ حضرات اس طرح متفق نہ ہوتے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ابو شیبہ اتنا ضعیف راوی ہے اور اس کی حدیث صحیح نہیں تو پھر امام شعبہ ؒ نے اس سے روایت کیوں بیان کی ہے ؟؟
2 ۔امام ابن عدی ابو شیبہ کے بارے میں فرماتے ہیں : لہ احادیث صالحۃ کہ ابو شیبہ کی احادیث درست ہیں ( تہذیب الکمال 1/ 393 )
( غیر مقلدین کی طرف سے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگرچہ ابن عدی نے ابو شیبہ کی روایات کے بارے میں لہ احادیث صالحہ فرمایا ہے لیکن اس قول سے اس کی مذکورہ روایات کو کیا فائدہ ہوا کیونکہ انہوں نے اس روایت کو ابو شیبہ کی مناکیر میں شمار کیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ مذکورہ روایت اس کی صالح حدیثوں میں شامل نہیں ہے ۔ ( محصلہ انوار المصابیح ص 183 ) وغیرہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس اعتراض کا جواب خود غیر مقلدین ( مولانا نزیر رحمانی وغیرہ ) نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ امام ابن عدی کسی راوی کسی راوی کی روایت کو منکر شمار کریں تو وہ روایت فی الواقع بھی منکر ہی ہو ۔ چنانچہ مولانا نزیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں : ابن عدی کا یہ صنیع صرف مجروح راوی کیساتھ خاص نہیں اور نہ یہ بات ہے کہ ( جس روایت کو وہ منکر شمار کریں ۔ ناقل ) وہ روایت منکر ہوتی ہے جیسا کہ علامہ مئوی کہہ رہے ہیں بلکہ وہ روایت ذکر کرتے ہیں جس پر جرح و انکار کیا گیا یہ ضروری نہیں کہ فی الواقع وہ منکر بھی ہو ۔ ( انوار المصابیح ص 126 ) اب غیر مقلدوں کے اعتراض کا جواب خود انہی کے علماء کے قلم سے دیئے گئے جواب سے زیادہ بہتر کیا ہوسکتا ہے ۔ )
واضح رہے کہ امام ابن عدی نے شیبہ کی احادیث کو تو صالح کہا ہے لیکن انہوں نے عیسی بن جاریہ ( جو رسول اللہ ﷺ سے مروی گیارہ رکعات والی روایت کے راوی ہیں ) کے بارے میں فرمایا ہے : احادیثہ غیر محفوظہ کہ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں ۔ تہذیب التہذیب 8/187
اب جس کی روایات صالح اور درست ہیں وہ تو غیر مقلدین کے نزدیک نہایت ضعیف راوی ہے لیکن جس کی احادیث غیرمحفوظ اور شاذ ہیں ، وہ غیر مقلدین کے ہاں اونچے درجے کا ثقہ راوی ہے ۔ غیر مقلدین کا یہ بھی عجیب انصاف ہے ؟؟؟

3 ۔ امام بخاری ؒ کے استاز الاستاذ حضرت یزید بن ہارون ؒ جو ابو شیبہ کے زمانہ قضاء میں ان کے کاتب اور منشی تھے ، وہ بھی ابو شیبہ کے بڑے مداح تھے ۔ چنانچہ وہ اس کے بارے میں یہاں تک فرماتے تھے ۔
ما قضی علی الناس رجل یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ ۔ ابرھیم ابو شیبہ سے بڑھ کر اپنے زمانے میں کوئی قاضی عادل نہیں ہوا ۔ تہذیب الکمال 1/392
اب جو شخص قضاء اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں اتنا بڑا عادل ہے وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث بیان کرنے میں عادل کیوں نہیں ہوگا ؟؟؟؟ اور راوی کے ثقہ ہونے کیلئے بنیادی طور پر دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں ، ایک ضبط یعنی قوت حافظہ اور دوسری عدالت ۔ چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری غیر مقلد لکھتے ہیں : لابد فی کون الشخص ثقۃ من شیئین العدالۃ و الضبط ۔ راوی کے ثقہ ہونے کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں نمبر 1 عدالت نمبر 2 قوت حافظہ ۔۔ ( ابکار المنن ص 169
اب امام ابن عدی کا ابو شیبہ کے بارے میں لہ احادیث صالحۃ کہنا ابو شیبہ کے ضبط اور قوت حافظہ کو ثابت کرتا ہے کیونکہ اس کا حافظہ اگر قوی نہیں تھا تو اس کے پاس صالح اور درست حدیثیں کیسے آگئیں ؟؟؟ اور یزید بن ہارون کی اس شہادت کے بعد تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اونچے درجے کا عادل تھا ۔
4 ۔۔ امام ابن عدی نے ابوشیبہ کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے : وهو وإن نسبوه إلى الضعف خرب من إبراهیم بن أبی حیة،{ تہذیب الکمال ج1 ص393 ) لوگوں نے اگرچہ ابو شیبہ کو ضعف کی طرف منسوب کیا ہے لیکن وہ ابرھیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے ۔
اور ابراهیم بن ابی حیہ کے بارے میں امام الرجال حضرت یحیٰ بن معین فرماتے ہیں : ثقۃ کبیر ، یہ شیخ ہیں اور بہت بڑے ثقہ ہیں ۔( لسان المیزان 1/53 )
یہ امام ابن معین کی طرف سے ابرھیم بن ابی حیہ کی زبردست اور مقرر توثیق ہے کیونکہ لفظ ثقۃ الفاظ تعدیل میں سے تو ہے ہی ۔ لفظ شیخ بھی الفاظ تعدیل میں سے ہے ۔ دیکھئے توضیح الکلام 1/480
نیز مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں ۔ اصول حدیث کے طالب پر مخفی نہیں کہ مقرر توثیق تعدیل میں درجہ اول کے الفاظ میں شمار ہوتے ہیں ۔ ( توضیح الکلام 1/268 )
اگرچہ ابن ابی حیہ پر جرح بھی کی گئی ہے (امام نسائی نے اس کو ضعیف ، ابن المدینی نے لیس بشی ، امام ابو حاتم اور امام بخاری نے منکر الحدیث ، اور امام دار قطنی نے اس کو متروک کہا ہے ابن حبان نے بھی اس پر جرح کی ہے ، ( لسان المیزان 1/53 )
لیکن یہ سب جرحین غیر مقلدین کے نزدیک مبہم اور غیر مفسر ہیں کیونکہ اس کی توثیق بھی کی گئی ہے لہذا یہ مختلف فیہ راوی ہے اور غیر مقلدین کے مشہور محدث حافظ محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : کہ جب راوی مختلف فیہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہوتی ہے ( خیر الکلام ص 238 )
بنابریں جب ابن ابی حیہ اس درجہ کا راوی ہے کہ بقول غیر مقلدین اس کی حدیث حسن ہے تو پھر ابراھیم ابو شیبہ جو اس سے بہتر ہے اس کی حدیث کیوں قابل قبول نہیں ؟؟؟
لہذا جب ابراہیم بن ابی حیہ ثقہ ہے تو ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ بدرجہ اولی ثقہ ہونا چاہیے۔
آپ اپنے جو رو جفا پہ خود ہی ذرا غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ابو شیبہ پر کی گئی جرحوں کا جائزہ ۔۔
پیچھے ہم یہ بیان کرچکے ہیں ابن ابی حیہ پر جرح بھی کی گئی ہے اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے ابن ابی حیہ پر جرح (امام نسائی نے اس کو ضعیف ، ابن المدینی نے لیس بشی ، امام ابو حاتم اور امام بخاری نے منکر الحدیث ، اور امام دار قطنی نے اس کو متروک کہا ہے ابن حبان نے بھی اس پر جرح کی ہے ، لسان المیزان 1/53
لیکن یہ سب جرحین خود غیر مقلدین کے نزدیک مبہم اور غیر مفسر ہیں : چنانچہ زبیر علیزئی غیر مقلد لکھتے ہیں : صرف ضعیف یا متروک یا منکر الحدیث کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہے ۔ (رسالہ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص65 ) مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : متروک جرح غیر مفسر ہے ۔ ( تو ضیح الکلام 1/143 ) مولانا نزیر رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : مستند علماء نے اس ( لفظ منکر الحدیث ) کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 119 ) مولانا محمد گوندلوی تو امام بخاری کی جرح منکر الحدیث کو بھی غیر مفسر کہتے ہیں ۔ ( دیکھئے خیر الکلام ص 162 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پس جب یہ تمام جرحیں خود غیر مقلدین کے نزدیک مبہم ہیں اور متعدد علمائے غیر مقلدین نے تصریح کی ہے جرح مبہم توثیق کے بعد معتبر نہیں ہوتی ۔ چنانچہ مولانا محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں : مبہم جرح توثیق کے بعد مقبول نہیں ہوتی ۔ ( خیر الکلام ص 158 ) مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب فرماتے ہیں : کہ جرح مبہم مضر نہیں ہے ۔ ( دیکھئے ابکار المنن ص 80 وغیرہ ) مولانا نزیر رحمانی صاحب لکھتے ہیں کہ جب کسی راوی کی تعدیل و توثیق کسی حاذق اور ماہر فن محدث نے کی ہو تو اس کے حق میں جرح مفسر ہی مقبول ہوگی غیر مفسر اور مبہم جرحوں کا اعتبار نہ ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 138 )
تو اس تفصیل کیساتھ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ابو شیبہ پر جتنی جرحیں کی گئی ہیں ۔ تقریبا وہ سب جرحیں خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی مبہم اور غیر مفسر ہیں ۔ مثلا امام ابو داؤد ؒ ، امام بہیقی ؒ اور امام زیلعی ؒ وغیرہ نے اس کو ضعیف اور امام نسائی وغیرہ نے اس کو متروک کہا ہے اور ابن حیہ کے تذکرہ میں غیر مقلدین کے حوالے سے ہم نے بیان کردیا ہے کہ یہ جرحیں مبہم ہیں ۔ نیز یہ بات بھی ہم نے متعدد علمائے غیر مقلدین کے حوالہ سے بیان کردی کہ جرح مبہم مضر نہیں ہے ۔
اب ان جرحوں کی حیثیت خود غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں ملاحظہ ہوں ۔
1 ۔ امام بخاری ؒ اور امام ابو حاتم ؒ نے ابو شیبہ کے بارے میں سکتوا عنہ اور ترکوا عنہ فرمایا ہے اور ان دونوں جملوں سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ دوسروں لوگوں کی رائے نقل کی ہے ۔ اور یہ کلام بھی موجب جرح نہیں کیونکہ جرح کرنے والے مجہول ہیں چنانچہ اس قسم کی ایک جرح لینوہ کے بارے میں مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : امام دار قطنی ؒ نے اگر لینوہ کہا ہے تو اس کو لین کہنے والے مجہول ہیں لہذا اس کا کوئی اعتبار نہیں (توضیح الکلام 1/534)
نیز لکھتے ہیں : اگر جارح مجہول ہے تو اہل علم نے جرح قبول نہیں کیا ۔ ( توضیح الکلام 1/534 ) مزید لکھتے ہیں : یہ کلام موجب جرح نہیں کیونکہ یہ مجہول آدمی سے ہے کہ کس نے یہ کہا ہے ۔ (توضیح الکلام 1/534) زبیر علیزئی غیر مقلد لکھتے ہیں : ابن ابی حاتم کا قول تکلموا فیہ کئی لحاظ سے مردود ہے ۔ 2 ۔ یہ جرح غیر مفسر ہے ۔ 3 ۔ اس کا جارح نہ معلوم ہے ۔( نور العنین ص 88 ) کیا ہم بھی غیر مقلدین سے ایسے انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟؟؟ دیدہ باید
2 ۔ امام احمد نے ابو شیبہ کو منکر الحدیث کہا ہے لیکن اول تو یہ جرح بھی غیر مقلدین کے نزدیک مبہم ہے جیسا کہ گزر چکا ۔
ثانیا ۔ امام احمد کی لفظ منکر الحدیث کے بارے میں اصطلاح ہی جدا ہے ۔ چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : امام احمد نے کسی کو منکر الحدیث بالفرض کہا بھی ہو تو اس کی جرح مفسر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ منکر الحدیث امام احمد کی اصطلاح میں اس پر بولا جاتا ہے جو غریب حدیث لائے اور غریب حدیث صحیح بھی ہوسکتی ہے ۔
مولانا محمد گوندلوی صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : امام احمد اور اس قسم کے لوگ کسی کو منکر کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ قابل احتجاج نہیں ہے ۔ ( خیر الکلام ص 45 )
3 ۔ امام شعبہ نے ابو شیبہ کی مطلق تکذیب نہیں کی بلکہ صرف ایک قصہ میں اس کے بارے میں کذب فرمایا ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں : وکذب شعبۃ فی قصۃ ( تہذیب 1/145 ) اور وہ قصہ کیا تھا ؟؟ اس کو حافظ ذہبی ؒ نے یوں بیان کیا : امام شعبہ نے ابو شیبہ کو اس لئے جھٹلایا کہ اس نے حکم سے یہ روایت بیان کی کہ حضرت ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں جنگ صفین میں ستر اہل بدر نے شرکت کی تھی ۔ امام شعبہ نے فرمایا اس نے غلط بیانی کی ۔ واللہ میں اس بارے میں حکم سے مذاکرہ کیا تو ہم نے سوائے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے کسی اہل بدر کو نہیں پایا جس نے جنگ صفین میں شرکت کی ہو ۔ ( میزان الاعتدال 1/23 ) اس بیان سے واضح ہوگیا کہ امام شعبہ ؒ نے ابو شیبہ کی مطلق تکذیب نہیں کی بلکہ صرف ایک واقعہ بیان کرنے میں اسے جھٹلایا ہے اور اس قصہ میں بھی ابو شیبہ کا کوئی قصور نہیں ۔ کیونکہ انہوں نے یہ روایت امام حکم سے نقل کی تھی ۔ اب اگر یہ روایت غلط ہے تو اس میں قصور امام حکم ؒ کا ہے کہ انہوں نے ہی یہ روایت بیان کی نہ کہ ابو شیبہ نے ۔۔
پھر جب شعبہ نے حکم سے اس بارے میں مذاکرہ کیا تو حکم نے بھی یہ انکار نہیں کیا کہ انہوں نے یہ روایت ابو شیبہ سے نہیں بیان کی بلکہ وہ تو الٹا شعبہ کیساتھ اس بارے میں مذاکرہ کیلئے تیار ہوگئے لیکن سوائے ایک کے کسی دوسرے اہل بدری شرکت جنگ صفین میں ثابت نہ کرسکے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکم نے ابو شیبہ کے سامنے یہ روایت ضرور بیان کی تھی ورنہ وہ امام شعبہ سے مذاکرہ کرنے اور ستر 70 اہل بدر کے اسماء ڈھونڈنے کے بجائے صاف انکار کردیتے کہ انہوں نے یہ روایت ہی بیان نہیں کی ۔
پس امام حکم کو بھی تسلیم ہے کہ انہوں نے ابو شیبہ ؒ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ اب اگر یہ واقعہ غلط ہے تو اس کا قصور امام حکم کے سر ہے کیونکہ وہ ہی صاحب واقعہ ہیں اور دلیل بھی ان کے ذمہ ہے ۔ لہذا حکم کی وجہ سے امام شعبہ ؒ کا ابو شیبہ کی تکذیب کرنا غلط اور ناقابل قبول ہے ۔
امام شعبہ کا دعویٰ کے صفین میں حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بدری شریک نہیں ہوا ، اور درست نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی ؒ نے امام شعبہ ؒ کی اس جرح کا یوں مزاق اڑایا ہے : قلت سبحان اللہ اما شھدھا علی اما شھدھا عمار (میزان الاعتدال 1/32 ) میں کہتا ہوں کہ سبحان اللہ : کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں شرکت نہیں کی تھی ؟؟ کیا حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے شرکت نہیں کی تھی ۔ ( اور یہ دونوں اہل بدر میں سے ہیں )
یعنی امام شعبہ نے صرف اس وجہ سے ابو شیبہ ؒ کی تکذیب کردی کہ بجائے ستر بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے صرف ایک حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی شرکت ثابت ہوسکی حالانکہ امام ذہبی ؒ کے مطابق حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی بھی جنگ صفین میں شرکت ثابت ہے ۔ اور معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک بھی ابو شیبہ پر امام شعبہ ؒ کی یہ جرح غلط ہے ۔
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کئ نزدیک بھی شعبہ کی یہ تکذیب قابل قبول نہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب میں ابو شیبہ کے بارے میں متروک الحدیث لکھا ہے ۔ ( دیکھئے انوار المصابیح ص 481 ) اور حافظ نے متروک الحدیث کو الفاظ جرح کے طبقہ عاشرہ میں شمار کیا ہے جبکہ جس راوی پر کذب کی تہمت لگائی گئی ہے اس کو انہوں نے طبقۃ الحادیۃ عشرہ میں شمار کیا ہے اور جس راوی پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے اس کو انہوں نے طبقہ الثانیۃ عشرۃ میں شمار کیا ہے ۔ ( دیکھئے مقدمہ تقریب 1/52 )
لہذا جب حافظ ابن حجر نے ابو شیبہ کو نہ طبقہ حادیہ عشرہ میں شمار کیا اور نہ طبقہ ثانیہ عشرہ میں شمار کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک نہ ابو شیبہ پر کذب کی تہمت صحیح ہے اور نہ اس پر کذب کا اطلاق درست ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ اور ان کی اس کتاب تقریب التہذیب کے متعلق مولانا نزیر احمد رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں : حافظ نے یہ بھی لکھا ہے اس کتاب میں کسی راوی پر وہی حکم لگاؤں گا جو اس کے حق میں کہے گئے اقوال میں سب سے زیادہ صحیح اور اس کے متعلق بیان کئے گئے اوصاف میں زیادہ مناسب ہوگا ۔ ( انوار المصابیح ص 116 بحوالہ تقریب )
پس جب بقول مولانا رحمانی حافظ ابن حجر کے نزدیک ابو شیبہ کے بارے میں تکذیب کا قول غیر صحیح اور غیر مناسب ہے تو پھر غیر مقلدین کس منہ سے ابو شیبہ کی تکذیب پر کمربستہ ہیں ۔؟؟
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے
ثانیا : یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں کذب قصدا جھوٹ بولنے کے معنی میں نہ ہو کیوں کہ کذب کا اطلاق صرف قصدا جھوٹ بولنے پر نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی اس کا اطلاق کسی بات کو بلا تحقیق نقل کرنے پر بھی ہوتا ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس کی کئی مثالیں مقدمہ فتح الباری میں ذکر کی ہیں ۔
اور یہی معنیٰ قرین قیاس ہے کیوں کہ امام شعبہ ؒ جنہوں نے خود ابرھیم ابو شیبہ سے روایت لی ہے ( اور غیر مقلدین کو اقرار ہے کہ وہ صرف ثقہ راوی سے روایت لیتے ہیں ) وہ کیسے ابو شیبہ کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں ۔
اس صورت میں کذب کا مطلب ہوگا کہ ابو شیبہ نے بلا تحقیق حکم کی روایت کو آگے بیان کردیا کہ جنگ صفین میں ستر بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شرکت کی تھی ، فلا اشکال ۔ یا یہاں کذب خطاء کے معنیٰ میں ہے یعنی ابو شیبہ سے یہ روایت بیان کرنے میں خطاء اور غلطی ہوئی ہے کیوں کہ کذب خطاء کے معنیٰ میں بھی آتا ہے ، چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : وقد یطلق الکذب علی الخطاء ۔ ( مقدمہ فتح الباری ص 181 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
علامہ طاہر صدیقی اور علامہ ابن الاثیر جزری ؒ لکھتے ہیں : وقد استعملوا الکذب علی الخطاء ۔ ( مجمع بحار الانوار 4/390 النھایہ 4/159 )
محدثین کبھی کبھی کذب کو خطاء کے معنیٰ میں بھی استعمال کرتے ہیں ۔
غیر مقلدین حضرات بھی ضرورت پڑنے پر کذب کو خطاء کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں چنانچہ امام مالک ؒ نے حدیث کے ایک راوی محمد بن اسحاق کو کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) قرار دیا ہے ۔ اس پر مولانا ارشاد الحق اثری امام یحییٰ بن معین ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں غالبا انہوں ( یعنی امام مالک ناقل ) نے کلام میں غلطی ( خطاء ) کی بنا پر کذاب کہا ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/240 )
کیا غیر مقلدین ابراہیم ابو شیبہ کے ساتھ یہی انصاف کریں گے ؟؟
ثالثا : بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ کذب یہاں اپنے اصلی معنیٰ ( جھوٹ ) میں ہی مستعمل ہے تو پھر امام شعبہ کی طرف سے ابو شیبہ پر یہ ایک جرح ہے لیکن امام شعبہ کا اس سے روایت لینا اس کی توثیق ہے ( جیسا کہ غیر مقلدین کے حوالے سے گزر چکاہے ) اور مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد لکھتے ہیں : ایک ہی امام کے قول میں اختلاف ہو تو ترجیح توثیق کو ہوتی ہے ۔ ( توضیح الکلام 1/523 )
پس بالفرض اگر امام شعبہ نے ابو شیبہ کی تکذیب بھی کی ہے تو اس سے روایت لے کر اس کی توثیق کردی ۔ لہذا ان کی توثیق کرنا ان کے جرح کرنے پر راجح ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
5 ۔ مولانا نزیر رحمانی صاحب علامہ زیلعی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ابن عدی نے اس ( ابرہیم ابو شیبہ ) کو لین کہا ہے ۔ ( انوار المصابیح ص 170 ) اب لین کا لفظ الفاظ جرح میں کس درجہ کا ہے ؟؟؟ اس کا جواب خود مولانا رحمانی کے قلم سے ملا حظہ فرمائیں ۔ چنانچہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں : محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیا ہے ۔ ( ا نوار المصابیح ص 115 ) نیز لکھتے ہیں : معلوم ہوا کہ جس راوی کے متعلق فیہ لین یا لین الحدیث کہا ہو اس کی روایت قابل جرح و ترک نہیں ہے ۔ (نوار المصابیح ص 170 )
قارئین : یہ ہیں ابو شیبہ پر کی گئی مبہم اور غیر متعلق جرحیں جو خود غیر مقلدین کے ہاں بھی قابل قبول نہیں ۔ اور اس آخری جرح سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ ابو شیبہ اگرچہ مجروح اور کمزور راوی ہے لیکن یہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ اس کی حدیث کو ترک کردیا جائے لیکن اس کے باوجود غیر مقلدین کا تعصب اور ان کی بے انصافی ملاحظہ کریں کہ جو جرحیں خود ان کے نزدیک بھی ناقابل قبول ہیں ، ان ہی کے بل بوتے وہ ابو شیبہ کو کس طرح سے سخت سے سخت ضعیف قرار دیکر اس کی یہ بیس تراویح والی روایت کو موضوع تک قرار دینے سے نہیں چوکتے ، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ یہ روایت ان کے مذہب کے خلاف ہے لیکن یہی راوی ابو شیبہ جب ان کے مذہب کے موافق کوئی روایت نقل کرتا ہے تو پھر ابو شیبہ نہ تو ضعیف ہے اور نہ اس کی روایت موضوع ہے ۔ والی اللہ المشتکیٰ ۔ مثلا مشہور غیر مقلد لکھاری مولانا صادق سیالکوٹی صاحب کی کتاب صلوٰۃ الرسول غیر مقلدین کے درمیان نہایت مشہور اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے اور یہ کتاب غیر مقلدین کے تمام اکابر ( مولانا داؤد غزنوی ۔ مولانا اسماعیل سلفی ۔ مولانا عبد اللہ امرتسری ۔ مولانا نور حسین گرجاگھی ۔ مولانا احمد دین لتھا گھگڑوی اور مولانا محمد گوندلوی وغیرہ کی مصدقہ ہے ۔ اس کتاب میں سیالکوٹی نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی دلیل کے طور پر ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے ۔ ( صلوٰۃ الرسول ص 434 ) حالانکہ یہ روایت بھی ترمذی اور ابن ماجہ میں اسی ابو شیبہ سے مروی ہے لیکن پھر بھی مولانا سیالکوٹی صاحب بڑے طمطراق سے اس روایت سے استدلال کر رہے ہیں اور خود انہوں نے بھی اور ان کی کتاب کے تمام مصدقین نے بھی اس روایت کے راوی ابو شیبہ ؒ کے ضعف کی طرف ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا ۔ یہ ہے غیر مقلدین کا انصاف ۔
ع ایں گنا ہیست کہ در شھر شما نیز کنند
بہر حال ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ابو شیبہ مجروح راوی ہے لیکن اس کی روایت کو موضوع کہنا اور بالکل رد کردینا یہ بے انصافی ہے ۔ اگر یہ ہماری بات تسلیم نہ ہو تو آیئے اہلسنت و الجماعت اور غیر مقلدین دونوں کی مسلمہ شخصیت اور غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نزیر حسین دہلوی صاحب کے استاذ الاستاذ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی ؒ کی بات کو مان لیا جائے ۔ چنانچہ شاہ صاحب اپنے فتاوی میں اسی بیس تراویح والی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ۔ امام بہیقی این روایت را تضعیف نمودہ بعلت آنکہ راوی ایں حدیث جد ابی بکر ابی شیبہ است حالانکہ جد ابی بکر ابی شیبہ آں قدر ضعف ندارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود ۔ ( فتاویٰ عزیزیہ 1/119)
بہیقی نے اس روایت کو اس بنا پر ضعیف قرار دیا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی ابو شیبہ جو ابوبکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے ضعیف ہے حالانکہ ابوبکر ابن ابی شیبہ کا دادا اس قدر ضعیف نہیں کہ اس کی روایت کو مسترد کردیا جائے ۔
یہ ہے اس شخصیت کا فیصلہ جس کو خود غیر مقلدین بھی اپنا پیشوا مانتے ہیں ۔
ضد چھوڑیئے بر سر انصاف آیئے
انکار ہی رہے گا میری جان کب تلک
جواب ثانی : اس حدیث کی سند کو اگرچہ کتنا ہی ضعیف مان لیا جائے لیکن بہرحال یہ بات ضرور ہے کہ اس حدیث کا متن بالکل صحیح اور قابل عمل ہے ( جس طرح حدیث کی سند کا صحیح ہونا اس کے متن کی صحت کو مستلزم نہیں کما قالہ المبارکپوری فی ابکار المنن ص 28 ۔ اسی طرح سند کا ضعیف ہونا بھی اس کے متن کے ضعف کو مستلزم نہیں چنانچہ مولانا عبد الرحمان مبارکپوری امام ترمذی کے قول ھذا الحدیث لا یصح من قبل اسنادہ ( یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے ) کے تحت لکھتے ہیں ای من جھۃ اسنادہ وان کان صحیحا باعتبار معناہ ۔ تحفۃ الاحوذی 1/146 ۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اگرچہ اس کا معنیٰ ( مضمون ) صحیح ہے ۔ معلوم ہوا کہ کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود مضمون کے لحاظ سے صحیح ہوسکتی ہے جیسا کہ یہ مذکورہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ ہے )کیونکہ اس حدیث تلقی بالقبول حاصل ہے کہ تمام امت نے بالاتفاق اس کے مضمون ( بیس رکعات تراویح ) کو عملی طور پر قبول کیا ہے ۔ خصوصا حضرات خلہفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور مسعود میں اس حدیث کو شرف قبولیت حاصل رہا ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےاس کے مضمون پر اجماع اور اتفاق کیا ہے ۔یہ بات خود غیر مقلدین کے اکابر کو بھی تسلیم ہے ۔ چنانچہ غیر مقلدین کے رئیس المحققین نواب صدیق حسن خان صاحب یہ حقیقت بے چوں و چرا تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقد عدوا ما وقع فی زمن عمر کالاجماع ( عون الباری 1/317 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جو طریقہ بیس تراویح کا رائج ہوا اس کو علماء نے مثل اجماع کے شمار کیا ہے ۔ مولانا وحید الزماں غیر مقلد رقم طراز ہیں : کوئی یہ وہم نہ کرے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے ( تراویح کی جماعت مقرر کرکے ۔ ناقل ) دین میں ایک بات شریک کردی جسکا اختیار ان کو نہ تھا ۔ اسی طرح بیس رکعات تراویح کا حکم اپنی رائے سے دے دیا ۔
حاشا وکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا کرتے بلکہ انہوں نے طریقہ نبوی ﷺ کا اتباع کیا ۔آنحضرت ﷺ کی حیات میں ایک ہی امام کے پیچھے سب نے تراویح پڑھی ۔ ایک مسجد میں متعدد جماعتیں ایک ہی وقت آنحضرت ﷺ کے عھد میں کبھی نہیں ہوئیں ۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور آنحضرت ﷺ کو بیس رکعتیں تراویح کی پڑھتے ہوئے دیکھا ہوگا ۔ گو ہم تک یہ روایت بہ سند صحیح نہیں پہنچی ۔ اس کی سند میں ابو شیبہ ابر ہیم بن عثمان منکر الحدیث ہے ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ اس سے بہت پہلے تھا ۔ ان کو بہ سند صحیح یہ پہنچ گئی ہوگی یا انہوں نے خود دیکھا ہوگا ۔ ( لغات الحدیث مادہ وزغ )
مولانا میاں غلام رسول صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ائمہ اربعہ اور مسلمانوں کی عظیم جماعت کا عمل یہ ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لیکر اس وقت تک مشرق و مغرب میں تئیس 23 ) بیس 20 تراویح اور تین 3 وتر ) ہی پڑھتے ہیں ، ( رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص 28 )ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود تعامل اور توارث سے مؤید ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امت مسلمہ کی طرف سے اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ طے شدہ اصول ہے کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے وہ سند کے اعتبار سے کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو پھر بھی وہ قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے ۔ چنانچہ مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں : بعض ضعف ایسے بھی ہیں جو امت کی تلقی بالقبول سے رفع ہوگئے ہیں ۔ ( اخبار اہلحدیث 19 اپریل 1907 بحوالہ رکعات تراویح ص61)
فتاوی علمائے حدیث میں ہے ۔ ضعیف حدیث جبکہ قرون مشہود لھا بالخیر ( خیر القرون ۔ناقل ) میں معمول بہ ہو وہ امت کے ہاں مقبول ہے ۔ (فتاوی علمائے حدیث 6/74) نواب صدیق حسن خان صاھب غیر مقلد لکھتے ہیں : اگر کوئی حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف بھی ہو لیکن اس کے مضمون پر پوری امت کا عمل ہو تو اس حدیث پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو ضعیف کہنے والے علماء بھی اس پر عمل کرتے ہیں ۔ (الروضۃ الندیہ ص6 )
علامہ ابن حزم ظاہری غیر مقلد لکھتے ہیں : جب کوئی مرسل حدیث ہو یا کوئی ایسی حدیث ہو جس کے راوی میں ضعف ہو اور ہم دیکھیں کہ سب لوگوں کا اس پر اجماع ہے اور سب اس کے قائل ہیں تو یقینا ہم یہ جان لیں گے کہ وہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ( توجیہ النظر ص 50 بحوالہ تسکین الصدور ص33 )
قاضی محمد شوکانی غیر مقلد ایک حدیث کی تحقیق میں امام خطابی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں : یہ ایسی حدیث ہے کہ اس کے قبول کرنے پر فقہاء نے بالاتفاق اس حدیث کو قبول کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے جیسا کہ فقہاء نے لا وصیۃ لوارث والی روایت کو قبول کرکے اس سے احکام مستنبط کیے ہیں حالانکہ اس کی سند میں جو ضعف ہے وہ ظاہر ہے ۔ ( نیل الاوطار 5/238 )
مولانا اسماعیل سلفی صاحب غیر مقلد ( سابق ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث ) ابن ماجہ کی ایک ضعیف روایت کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقد قبل جمہور الامۃ روایۃ ابن ماجہ مع ضعفھا ۔ ابن ماجہ کی اس حدیث کو ضعیف ہونے کے باوجود جمہور امت نے قبول کیا ہے ۔ ( حرکۃ انطلاق الفکری ص441 ) پس جب اکابرین غیر مقلدین کو بھی تسلیم ہے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور ان کو یہ بھی اقرار ہے کہ اگر کوئی حدیث ضعیف بھی ہو تو تلقی بالقبول کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ حدیث خود غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں بھی بالکل صحیح اور قابل عمل ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بعض غیر مقلدین تو ابو شیبہ کی روایات کو موضوع تک قرار دیتے ہیں جبکہ غیر مقلدین کا ابرہیم ابو شیبہ کی روایات کو موضوع کہنا باطل ہے ۔ اولا ۔ آج تک کسی بھی معتبر اور ثقہ محدث نے اس کو موضوع نہیں کہا ورنہ دلیل پیش کی جائے ۔ دیدہ باید ۔ ثانیا ۔ ابو شیبہ کی کم از کم ایک روایت ترمذی میں بھی موجود ہے اور غیر مقلدین کے مشہور محقق مولانا عبد الرحمان مبارکپوری صاحب نے تصریح کی ہے کہ ترمذی میں ایک بھی موضوع حدیث نہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : قلت الاحادیث الضعاف موجودۃ فی جامع الترمذی و قد بین الترمذی نفسہ ضعفھا وابان علتھا و اما وجود الموضوع فیہ فکلا ثم کلا ۔ میں کہتا ہوں کہ ضعیف حدیثیں ترمذی میں موجود ہیں اور خود ترمذی نے ان کا ضعف بیان کیا ہے اور ان کی علت کو ظاہر کیا ہے ۔ باقی رہا اس میں موضوع حدیث کا وجود تو وہ ہرگز ہرگز نہیں ہے ۔ پس جب ترمذی میں ایک بھی حدیث موضوع نہیں ہے تو پھر ابو شیبہ کی احادیث کیسے موضوع ہیں حالانکہ اس کی حدیث بھی ترمذی میں موجود ہے ۔( تحفۃ الاحوذی 1/181 )
دلیل نمبر2:روی الامام المورخ أبو القاسم حمزة بن يوسف السهمي الجرجاني (م427ھ): حدثنا أبو الحسن علي بن محمد بن أحمد القصري الشيخ الصالح رحمه الله حدثنا عبد الرحمن بن عبد المؤمن العبد الصالح قال أخبرني محمد بن حميد الرازي حدثنا عمر بن هارون حدثنا إبراهيم بن الحناز عن عبد الرحمن عن عبد الملك بن عتيك عن جابر بن عبد الله قال خرج النبي صلى الله عليه و سلم ذات ليلة في رمضان فصلى الناس أربعة وعشرين ركعة وأوتر بثلاثة ۔ اسنادہ حسن و رواتہ ثقات۔(تاريخ جرجان للسہمی ص317، فی نسخۃ 142)
فائدہ: اس روایت میں چار رکعت فرض، بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے۔
اعتراض: اس میں دو راوی ہیں؛ محمد بن حميد الرازی اور عمر بن ہارو ن البلخی اور دونوں ضعیف ہیں۔
جواب: یہ حسن الحدیث درجہ کے راوی ہیں۔
محمد بن حميد الرازی : (م248ھ)
آپ ابوداود ،ترمذی، ابن ماجہ، کے را وی ہیں ۔
( تہذیب التھذیب ج:5ص:547)
اگرچہ بعض محدثین سے جر ح منقول ہے لیکن بہت سے جلیل القدر ائمہ محدثین نے آ پ کی تعدیل و تو ثیق اور مدح بھی فر ما ئی ہےمثلا
1 ۔ امام احمدبن حنبل :وثقہ (ثقہ قراردیا )۔
(طبقات الحفاظ للسیوطی ج:1ص:40)
اور ایک بار فر ما یا ”لایزال با لری علم مادام محمد بن حمید حیاً“۔(جب تک محمد بن حمید زند ہ ہیں مقام ری میں علم با قی رہے گا )
(تہذیب الکمال للمزی ج:8ص:652)
2 ۔ امام یحی بن معین: ثقۃ ،لیس بہ باس، رازی کیس [ثقہ ہے اس احا دیث پر کو ئی کلام نہیں ، سمجھ دار ہے] (ایضاً)
3 ۔ امام جعفر بن عثمان الطیالسی: ثقۃ۔( تہذیب الکمال ج:8ص:653
4 ۔ علامہ ابن حجر :الحافظ [حافظ ہے]۔
( تہذیب التھذیب ج:5ص:547)
5 ۔ علامہ ہیثمی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : ” وفی اسناد بزار محمد بن حمید الرازی وھو ثقۃ “[بزاز کی سند میں محمد بن حمید الرازی ہے اور وہ ثقہ ہے ]۔
(مجمع الزوائد ج:9ص:475)
چونکہ اس پر کلام ہے اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے،لہذا اصولی طور پر یہ حسن درجہ کا راوی ہے ۔
عمر بن ہارو ن البلخی : (م294ھ)
آپ ترمذی اور ابن ماجہ کے را وی ہیں۔ بعض حضرات نے جر ح کی ہے لیکن بہت سے ائمہ نے آپ کی تعدیل وتوثیق اور مدح وثناء میں یہ الفا ظ ارشاد فر ما ئے ہیں
”الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“[علم کا خزانہ تھے ]کثیر الحدیث ، وارتحل [حصول علم کے اسفار کئے ] ثقۃ ،مقارب الحدیث ۔
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152،تہذیب التہذیب ج:4ص:315تا317)
لہذا اصولی طور پر آپ حسن الحدیث درجہ کے راوی ہیں ۔
٣) حدیث: انہ ﷺ صلی بالناس عشرین رکعة لیلتین فلما کان فی اللیلة الثالثہ اجتمع الناس فلم یخرج اليہم، ثم قال من الغد وخشیت ان تفرض عليکم فلا تطیقوھا متفق علی صحتہ۔ (تلخیص الحبیر ج1ص21 المکتبہ الاثرىہ)؛

ترجمہ: آپ ﷺ نے صحابہ کو بیس رکعات تراوىح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپﷺ باہر تشریف نہیں لائىں پھر آپﷺ نے دوسرے دن فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)