Thursday 31 March 2022

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ چہارم

0 comments

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نماز تراویح بیس رکعات ہیں اور اہل سنت و جماعت کی علامت ہیں ۔ تراویح ترویحة کی جمع ہے ۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز ، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں ۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (20) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ، امام مالک رحمة الله عليه ، امام شافعی رحمة الله عليه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه ، وجمہور علماء اہل سنت و جماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے ۔

فقہِ شافعی اور بیس (20) رکعت تراویح : وقد قال الشافعي رحمه الله في كتابه الأم:ج1ص142 ما نصه؛"ورأيتهم بالمدينة يقومون بتسع وثلاثين، وأحب إلى عشرين لأنّه روي عن عمر، وكذلك يقومون بمكة، ويوترون بثلاث" ۔
ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : میں نے مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) انتالیس (39) رکعت پڑھتے ہیں اور مجھے بیس (20) رکعت (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) پسند ہے بیشک وہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے. اور اسی طرح مکّہ والے بھی قیام کرتے، اور وتر پڑھتے تین (رکعت).(كتاب الأم للإمام الشافعي : كتاب الصلوة باب في الوتر صفحه ١٠٥)

محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں : “(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔ (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲،چشتی)
ترجمہ : رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد اور امام داوٴد وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔

(امام غزالی علیہ الرحمہ (450 - 505 ھ) تراویح کی نماز ٢٠ رکعت سنّت موکدہ فرماتے ہیں ۔ [احیاء العلوم : ١/٣٦٨)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعب رضى الله عنه نے) بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی ۔ (اسنادہ حسن المختارہ للضیاء المقدسی ۱۱۶۱،چشتی)

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے ۔ (الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمة الله عليه نے یزید بن خصیفہ رحمة الله عليه کے طریق سے حضرت سائب بن یزید رضى الله عنه سے بیس (۲۰) رکعات نقل کی ہے ۔ (فتح الباری)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه تلخیص الحبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کر نہ سکو ۔

بیس (۲۰) رکعات تراویح پر صحابہ و علماء امت کا اجماع ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا ۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه و آلہ وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی ۔ (صحیح ابن حبان)

حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات پڑھا کرتے تھے ۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی آثار السنن ۶/۵۵)

امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکّہ مکرمہ میں بیس (۲۰) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے ۔ (الاُم و سنن ترمذی)

امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (۲۰) رکعات ہے ۔ (سنن ترمذی)

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا ۔ (بدائع الصنائع)

علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه (متوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ، امام شافعی رحمة الله عليه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد جلد ١ صفحہ ۱۵۶ مکتبہ علمیہ لاہور،چشتی)

علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (۲۰) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا ۔ (المغني لابن قدامة)

علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں : تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات کا ہے ، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (۲۰) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (۲۰) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)

بیس (٢٠) رکعت تراویح پر اجماع

علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں : تو نماز تراویح سنّت ہے اجماع علماء سے ، اور ہمارا (شافعی) مذھب (بھی) یہ ہے کہ وہ بیس (٢٠) رکعت ہے دس (١٠) سلام سے اور جائز ہے انفرادی طور پر اور جماعت سے بھی. اور ان دونوں میں افضل کیا ہے ؟ ... (صحیح قول کے مطابق) ساتھیوں کے اتفاق سے جماعت افضل ہے ۔ [المجموع شرح مہذب : ٣/٥٢٦]

علامہ ابن تیمیہ اور مسئلہ تراویح

جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے ، تو امام ابن تیمیہ نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ : ترجمہ : اگر عمر (رضی اللہ عنہ) کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اس کو ختم کر دیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے ۔ بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لیے ہماری مسجد کو روشن کردیا ۔ (اسد الغابہ:٤/١٨٣؛ غنیۃ الطالبین:۴۸۷۔ موطا محمد،باب قیام شھر رمضان:۱/۳۵۵شاملہ،چشتی)

ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (٢٠) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے ۔ (السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦) (منہاج السنّہ : ٢/٢٢٤، اردو ترجمہ پروفیسر غلام علی الحریری)
ترجمہ : تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (٢٠) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت" ہے ، اس لیے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی ۔ (مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض)

بیس (20) ركات تراويح پر اجماع صحابہ غیر مقلد اہل حدیث حضرات کے گھر کی گواہی ۔ (فتاویٰ نذیریہ : 1/634]

جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم بیس (۲۰) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے ، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہو سکتی ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلى الله عليه و آلہ وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرات تھے ۔ جب انھوں نے بیس (۲۰) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (۲۰) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں ، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے ۔

معترضین کے دلائل کی حیثیت
آٹھ رکعت تراویح سنّت نبوی نہیں ۔ آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لیے پیش کرتے ہیں : ⬇

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883 ؛ صحيح مسلم » رقم الحديث: ١٢٢٥،چشتی]
ترجمہ : حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے ؟ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر (رمضان) میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے ۔

یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ؛ اس لیے کہ (١) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان (اور غیر رمضان) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین ۔ [بخاري : 1883 ؛ مسلم : 1225] ۔ اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی ۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔ (۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں ۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے ، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) ۔ [صحيح ابن خزيمة : 2070] ۔ نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے ؛ لہٰذااس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے ۔ (۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں (جماعت) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ (۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے ، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟ (٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سو گئے تھے ؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو ؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث ۔ (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (٦) اس حدیث میں (فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ) کے الفاظ یعنی رمضان اور غیر (رمضان) میں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نماز تہجد ہے، چونکہ یہ آپ رمضان میں بھی پڑھتے تھے، اسی لئے اس حدیث کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ (كتاب التهجد) میں بھی لائیں ہیں اور (كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ) میں بھی لائیں ہیں ، کیونکہ آپ بھی ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے جو آپ کے عمل سے بھی واضح ہوتا ہے ۔

امام بخاری رحمة الله علیہ بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے : چناچہ امام ابن حجر العسقلاني (773 هـ - 852 هـ) رحمة اللہ علیہ [هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥] میں لکھتے ہیں، اور جسے غیرمقلد (اہل_حدیث) علامہ وحید الزمان بھی اپنی کتاب [تیسیر الباری شرح بخاری: ١/٤٩] نقل کرتے ہیں کہ : "امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل "بخاری" جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نماز_تراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نمازِ تہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتے اور تین راتوں میں قرآن ختم کرتےاور دن کو ایک قرآن ختم کرتے اور وہ افطار کے وقت ختم ہوتا تھا ۔ (هدي الساري مقدمة فتح الباري- شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥، ذکر و سيرته و شمائله و زهده و فضائله]

ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کےلیے بخاری کو چھوڑ کر (مسلم) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں ، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے ۔
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لیے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم پڑھتے تھے ، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں ۔ صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا ؟

تہجد کو محدثین نے کتب حدیث میں (قیام الیل) یعنی رات کی نماز، اور تراویح کو (قیام الیل فی رمضان) یعنی رمضان میں رات کی نماز ، کے الگ الگ ابواب سے ذکر کیا ہے ، اور یہ دونو جدا جدا نمازیں ہیں. چناچہ مشھور غیرمقلد اہلحدیث علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : "وأما قيام اليل فهو غير قيام رمضان" يعني: قیام الیل، قیام رمضان کے علاوہ ہے ۔ (نزل الأبرار: ص ٣٠٩)

تراویح اور تہجد کا وقت بھی جدا جدا ہے ، چناچہ فتاویٰ علماۓ حدیث (٦:٢٥١) میں ہے کہ: تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد "اول" شب کا ہے اور تہجد کا "آخر" شب کا ہے ۔

غیرمقلد عالم ثناء الله امرتسری لکھتے ہیں : تہجد کا وقت صبح سے پہلے کا ہے، اول وقت میں تہجد نہیں ہوتی ۔ (فتاویٰ ثناءیہ: ١/٤٣١)

محدثین کی طرح فقہاء کرام بھی تراویح اور تہجد کو علیحدہ علیحدہ نماز سمجھتے اور کتبِ حدیث کی طرح کتبِ فقہ میں بھی الگ الگ ابواب میں ذکر کرتے ہیں ۔

تہجد اور تراویح میں فرق کا ثبوت : تراویح سنّت ہے اور تہجد نفل نماز ہے ۔

تہجد کی مشروعیت قرآن سے "نفل" ثابت ہے : "اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ یہ نفل (زیادتی/اضافی) ہے تیرے لیے " (١٧:٧٩) جبکہ نمازِ تراویح کی : مشروعیت "سنّت" ہونا حدیث سے ثابت ہے ، حدیث : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ ، فَمَنْ صَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ؛ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔ [امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امداىہ]
ترجمہ : رسول ﷲ صلى الله عليه و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراویح) سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (تراویح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے ۔

فائدہ : یہ سنّت نماز (تراویح) بھی روزہ کی طرح رمضان کی خاص عبادات میں سے ہے ۔

قرآن : یعنی اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو ۔ (٥٩/٧)

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ سَمَّاهُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِؓ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ کعبؓ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ، قَالَ : " مَا هُوَ ؟ " ، قَالَ : نِسْوَةٌ مَعِي فِي الدَّارِ قُلْنَ لِي : إِنَّكَ تَقْرَأُ وَلَا نَقْرَأُ ، فَصَلِّ بِنَا ، فَصَلَّيْتُ ثَمَانِيًا وَالْوَتْرَ ، قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَرَأَيْنَا أَنَّ سُكُوتَهُ رِضًا بِمَا كَانَ " ۔ (مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 20626)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ سے بحوالہ ابی بن کعب مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلى الله عليه و آلہ وسلم آج رات میں نے ایک کام کیا ہے ، نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا میرے ساتھ گھر میں جو خواتین تھیں وہ کہنے لگیں کہ آپ قرآن پڑھنا جانتے ہو ہم نہیں جانتیں لہٰذا آپ میں نماز پڑھاؤ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیے اس پر نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم کی خاموشی مذکورہ واقعے پر رضا مندی کی دلیل تھی ۔

حقیقت : "قیام اللیل" کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، قمي اور عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضعیف ہیں ؛ اور "مسند احمد" مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ تو نہیں رَجُلٌ سَمَّاهُ ہے یعنی مبہم (نہ معلوم) راوی ہے اور باقی وہی دونوں قمي اور عِيسَى یھاں بھی ہیں، پس اصولِ حدیث کے اعتبار سے یہ حدیث نہایت ضعیف ہے، اور ہیثمی کا اسے حسن کہنا خلافِ دلیل ہے ۔

یہ روایت تین کتابوں میں ہے : "مسند احمد" میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، "ابو یعلیٰ" کی روایت میں (یعنی رمضان) کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فہمِ راوی ہے نہ کہ روایتِ راوی ، "قیام اللیل" میں فی رمضان کا لفظ ہے جو کسی راوی تحتانی کا ادراج ہے، جب اس حدیث میں فی رمضان کا لفظ ہی مُدرج ہے تو اس کو تراویح سے کیا تعلق رہا ۔

"ابو یعلیٰ" اور "قیام اللیل" سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ خود حضرت ابی بن کعب کا ہے ، مگر "مسند احمد" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور شخص کا ہے اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ راوی اس واقعہ کو کماحقہ ضبط نہیں کر سکے ۔ (یعنی ضبط راوی میں بھی ضعف ثابت ہوا)

پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑھنے والا (قيام الليل کی روایت میں) کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ اور (مسند احمد کی روایت میں کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسی ایک رات اس نے آٹھ پڑھی تھیں پہلے کبھی یہ عادت نہ تھی اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یہ انوکھا کام میں نے آج رات ہی کیا ہے ورنہ آٹھ میری عادت نہیں اور نہ میں اسے سنّت سمجھتا ہوں. حضور صلى الله عليه و آلہ وسلم خاموش رہے ورنہ آٹھ رکعت سنّت ہوتی تو آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم خاموش کیوں رہتے ، فرماتے تم گھبرا کیوں رہے ہو یہ تو سنّت ہے ۔ معلوم ہوا کہ عہدِ نبوی صلى الله عليه و آلہ وسلم میں کوئی شخص بھی آٹھ رکعت تراویح کو سنّت نہیں سمجھتا تھا ، آپ صلى الله عليه و آلہ وسلم نے خاموش رہ کر آٹھ کے سنّت نہ ہونے کی تقریر فرمادی جس سے کسی خاص حالت میں نفس جواز (اس کا صرف جائز ہونا) معلوم ہوا وہ بھی بعد میں اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ختم (منسوخ) ہوگیا ۔

نوٹ : ہم اس آٹھ (٨) رکعت والی حدیث جابر سے زیادہ بہتر اور مضبوط سند بیس (٢٠) رکعت تراویح کے ثبوت میں حضرت جابر سے ہی دوسری حدیث نبوی بیان کر چکے ہیں، لہذا جب صحیح سند اس کے خلاف وہ بھی ان ہی صحابی سے مروی حدیث ثابت ہے تو آٹھ (٨) رکعت کو سنّت اور بیس (٢٠) رکعت کو بدعت کہنا بلا دلیل ہی نہیں بلکہ خلاف (صحیح) دلیل ہے ۔

بیس (20) رکعت تراویح کا ثبوت کتب شیعہ سے : حضرت سیدنا علی المرتضى، حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورین کے دور خلافت میں گھر سے نکلے مسجد میں لوگوں کو جمع ہوکر نماز تراویح پڑھتے ہوۓ دیکھ کر ارشاد فرمایا : اے الله حضرت عمر کی قبر انور کو منور فرما جس نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا ۔ [شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید: ٣/٩٨]

حضرت سیدنا امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے ۔ عشاء کی (فرض) نماز کے بعد نماز کےلیے کھڑے ہوتے، لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ، اس طرح کے کچھ وقفہ کیا جاتا ۔ پھر اس طرح حضور سید عالم صلى الله عليه و آلہ وسلم نماز پڑھاتے ۔ [فروع کافی : ١/٣٩٤ - طبع نولکشور، ٤/١٥٤ - طبع ایران]

شیعہ کی کتاب من لایحضر الفقیہ میں بھی بیس (٢٠) رکعت تراویح کا ذکر ہے ۔ [من لایحضر الفقیہ : ٢/٨٨]

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز میں اضافہ کردیتے تھے، اور روزانہ معمول کے علاوہ بیس رکعت نماز نوافل (مزید) ادا فرماتے تھے ۔ [الاستبصار ١/٢٣١-طبع نولکشور، ١/٤٦٢-طبع ایران]

اسی لیے امام قرطبی علیہ الرحمہ (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں : قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد ۔ [فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549]
ترجمہ : مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)
مضطرب حدیث : جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو ، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ سوم

0 comments

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قیام رمضان (تراویح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بیس رکعت فرمایا ۔ اسی پر حضرات خلفاءِ راشدین میں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ ، دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ مجتہدین و حضرات مشائخ رحمہم اللہ عمل پیرا رہے ، بلادِ اسلامیہ میں چودہ سو سال سے اسی پر عمل ہوتا رہا ہے اورامت کا اسی پر اجماع ہے ۔ اس کی مزید وضاحت آ رہی ہے  ان شاء اللہ ۔

لفظ تراویح

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَالتَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّۃُ الْوَاحِدَ ۃُ  مِنَ الرَّاحَۃِ کَتَسْلِیْمَۃِ مِنَ السَّلَامِ ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ج4ص317)
ترجمہ : تراویح ”ترویحہ‘‘ کی جمع ہے اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں ، جیسے ”تسلیمہ‘‘ ایک بار سلام کرنے کو کہتے ہیں ۔
تراویح کسے کہتے ہیں ؟ ”ترویحہ‘‘ وہ نشست ہے جس میں کچھ راحت لی جائے ۔ چونکہ تراویح کی چاررکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر راحت لی جاتی ہے ، اس لیے تراویح کی چار رکعت  کو ایک ”ترویحہ‘‘ کہا جانے لگا اورچونکہ پوری تراویح میں پانچ ترویحے ہیں ، اس لیے پانچوں کامجموعہ ”تراویح‘‘ کہلاتاہے ۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہة اللہ علیہ فرماتے ہیں : سُمِّیَتِ الصَّلٰوۃُ فِی الْجَمَاعَۃِ فِی لَیَالِی رَمَضَانَ التَّرَاوِیْحَ ؛ لِاَنَّھُمْ اَول مااجتمعواعلیھا کانوا یستریھون بین کل تسلیمتین ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری: جلد 4 صفحہ 317،چشتی)
ترجمہ : جونماز رمضان کی راتوں میں باجماعت اداکی جاتی ہے اس کانام ”تروایح“ رکھا گیا ہے ، اس لیے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پہلی بار اس نماز پر مجتمع ہوئے تو وہ ہر دو سلام (چاررکعتوں) کے بعدآرام کیاکرتے تھے ۔

تروایح سنت مؤکدہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام رمضان کو سنت قرار دیا ہے جیسا کہ باحوالہ عرض  کیا جا چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرات خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر مواظبت فرمائی اور یہی مواظبت دلیل ہے کہ تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد روایت فرماتے ہیں : فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ۔ (سنن ابی داؤد: ج2،ص290، باب فی لزوم السنۃ،چشتی)
ترجمہ : تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو ۔

اس حدیث مبارک  میں جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت پر لفظ ’’علیکم‘‘ (تم پر لازم ہے) اور عضوا علیھا بالنواجذ (مضبوطی سے تھام لو) سے عمل کرنے کی تاکید فرمائی اسی طرح حضرات خلفاء راشدین  رضی اللہ عنہم کی سنت پر بھی عمل کرنے کی تاکید فرمائی جوکہ تراویح کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل ہے ۔

با جماعت نمازتراویح ؛ تین راتیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تراویح کی جماعت صرف تین دن ثابت ہے ، پورا مہینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نماز نہ پڑھائی جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِىَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ. قَالَ فَقَالَ « إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ». قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاَحُ . . . . ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 204،  باب فى قيام شهر رمضان،چشتی)
ترجمہ : فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے پورا مہینہ ہمیں رات میں نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ سات دن باقی رہ گئے تو (تیئسویں رات میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نمازپڑھائی یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی جب چھ دن رہ گئے تو نماز نہیں پڑھائی پھر جب پانچ دن رہ گئے تو نماز پڑھائی (یعنی پچیسویں رات میں) یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ اس رات کے باقی حصے میں بھی ہمیں نفل پڑھا دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ! آپ نے فرمایا : جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز (عشاء) پڑھے پھر اپنے گھر واپس جائے تو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا ۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب چار دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی ، جب تین دن باقی رہ گئے توآپ نے اپنے گھر والوں ، عورتوں اور دیگر لوگوں کوجمع کیا اور نماز پڑھائی (یعنی ستائیسویں رات) اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ہم سے سحری رہ جائے گی ، پھر باقی ایام بھی آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی ۔

بیس رکعت تراویح کا صحیح احادیث اور تابعین کے اقوال سے ثبوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تراویح کے بارے میں مختلف روایات ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمین کا اس پر اتفاق ہےکہ تراویح بیس رکعت پڑھی جائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عمل کو صحابہ کرام سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ، لہٰذا تراویح بیس رکعت ہی پڑھنی چاہئیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیس رکعت تراویح سے متعلق جو روایات منقول ہے ، اسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : ⬇

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم بیس (20) رکعات تراویح پڑھتے تھے ، اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے ، اور امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے ۔
(السنن الکبری للبیھقی جلد 2 صفحہ 698 رقم الحدیث : 4288، ط: دارالکتب العلمیۃ،چشتی)

علامہ محمد بن علی نیموی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ( معتبر ) ہیں ، اس حدیث کی سند کو امام نووی نے اپنی کتاب " الخلاصہ" میں ، امام ابن العراقی نے "شرح التقریب " میں ، اور امام سیوطی نے " المصابیح" میں صحیح کہا ہیں ۔ (التعلیق الحسن علی آثار السنن : ص 246 ، ط: مکتبۃ البشری،چشتی)

امام مالک نے یزید بن رومان علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ لوگ (یعنی صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک کے مہینے میں تئیس رکعات (تین رکعت وتر سمیت) تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ (مؤطّا الامام مالك بروايۃ يحيي بن يحيي الليثي ، ص 60 ، رقم الحدیث : 249 ، ط: مکتبۃ دارالکتب العلمیۃ،چشتی)

اس حدیث کی سند اگرچہ مرسل ہے ، لیکن مرسل روایت جمہور (جن میں حنفیہ بھی شامل ہیں) کے نزدیک حجت ہے ، نیز مرسل روایت کی تائید جب دوسرے صحیح مرسل روایت سے ہو جاتی ہے تو وہ قابل حجت ہوتی ہے ، ذیل کی روایت بھی مرسل ہے ، لہذا وہ اس کی مؤید ہے ۔

یحیی ابن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 2 صفحہ 163، رقم الحدیث 7682 ط مكتبة الرشد)

اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، اور مرسل ہونے کی وجہ سے ماقبل روایت کےلیے مؤید ہے ۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے ، اس لیے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین ! آپ نے ایک ایسی بات کا حکم دیا ہے ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں عمل نہیں رہا ہے (یعنی باجماعت تراویح پڑھنا) ، حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں ، لیکن یہی بہتر ہے ، تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی ۔ (الأحاديث المختارة لضياءالدين المقدسي: ج3، ص 367، رقم الحدیث : 1161، ط: دار خضر)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (20) رکعات ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھتے پایا ہے ۔ (جامع الترمذی : ج 3، ص 160، ط: مطبعۃ مصطفى البابي الحلبي – مصر،چشتی)

حضرات تابعین رضی اللہ عنہم کے چند مشاہدات بھی ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں : ⬇

جلیل القدر تابعی حضرت عطاء رضی الکہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم) کو بیس (20) رکعات تراویح اور تین (3) رکعات وتر پڑھتے پایا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ بحوالہ آثار السنن،ص 247،ط : مکتبۃ البشری)

امام نیموی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند حسن (صحیح کی ایک قسم ) ہے ۔

ابوالخصیب علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ سوید بن غفلہ ہمیں تراویح پانچ ترویحے پڑھاتے تھے ، جو کہ بیس رکعات بنتی ہیں ۔ (السنن للبیھقی بحوالہ آثار السنن، ص 247، ط : مکتبۃ البشری،چشتی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند بھی حسن ہے ۔

ان صحیح روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام اور حضرات تابعین کو بیس رکعت تراویح پر جمع فرمایا تھا ، اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی اس تعداد کی مخالفت اور تبدیلی بھی ثابت نہیں ہے ، لہٰذا بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین ، بلکہ موجود تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا متفقہ سنت طریقہ ثابت ٹھہرا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد صرف دو سال بعد شروع ہوا ہے ، لہٰذا بیس رکعت کا فیصلہ بالکل دورِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مزاج نبوی کے موافق تھا ۔

نیز جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سنت کی اتباع کا حکم دیا ہے ، ویسے ہی حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اتباع کا حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کی سنت پر چلو ، اور اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو ، اور (دین میں) نئی چیزوں کی ایجاد سے بچو، کیونکہ دین میں (اپنی طرف سے) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (سنن ابی داود،ج4، ص 200 رقم الحدیث 4607 ط المکتبۃ العصریۃ)

ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا بیس رکعت تراویح کے سنت ہونے پر اتفاق ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 141، ط : مطابع دار الصفوة مصر،چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ :
اگر لوگ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ، تو ایسی صورت میں بیس رکعت تراویح پڑھنا افضل ہوگا ۔ اسی تعداد پر اکثر مسلمانوں کا عمل ہے ، اور یہی تعداد دس اور چالیس رکعت کے درمیان معتدل طریقہ ہے ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ : ج 27، ص 144، ط : مطابع دار الصفوة – مصر)

سعودی وہابیوں کے مشہور عالم علامہ ابن باز کہتے ہیں کہ : اگر کوئی شخص بیس رکعات تراویح پڑھتا ہے ، جیسا کہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے رمضان کی بعض راتوں میں منقول ہے ، تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ تراویح کا معاملہ وسعت والا ہے ۔ (مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز،ج 11، ص 322، ط: مکتبۃ الشاملۃ) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 29 March 2022

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ دوم

0 comments
فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نمازِ تراویح کی بڑی ہی فضیلت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو سنت قرار دیا ہے ، اس لیے حضرات فقہا فرماتے ہیں کہ ہر عاقل بالغ مرد اور عورت کے ذمے تراویح سنت مؤکدہ ہے ۔ (سنن نسائی حدیث: ۲۲۱۰)(فیض القدیر حدیث: ۱۶۶۰)(ردالمحتار مع درالمختار)

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کے لیے تراویح پڑھنے کا اہتمام ضروری ہے اسی طرح خواتین کےلیے بھی تراویح کا اہتمام ضروری ہے ، بعض خواتین تراویح کو اہمیت نہیں دیتیں بلکہ اس کو ترک کرنے کےلیے معمولی بہانوں کا بھی سہارا لیتی ہیں ، ان کا یہ طرز عمل ہرگز درست نہیں ۔ تراویح چونکہ سنت مؤکدہ ہے، اس لیے بلاعذر تراویح چھوڑتے رہنا گناہ ہے ۔ (ردالمحتار)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح ادا فرماتے تھے

رمضان المبارک کے مہینہ میں نمازِ عشاء کے بعد بیس 20 رکعت نماز تراویح پڑھنی صحیح مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اور تمام آئمہ دین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، امام مالک اور ان کے تلامذہ ، امام شافعی اور ان کے تلامذہ، امام احمد بن حنبل اور ان کے تلامذہ کے علاوہ وہ دیگر مجتہدین بھی (جن کے مقلدین آج دنیا میں نہیں ہیں) اس کے سنت ہونے اور بیس رکعات ہونے پر متفق ہیں ۔ رافضیوں کے علاوہ کوئی جماعت ِتراویح کامنکر نہیں ہے ۔ غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیث یا اہل الظواہر) بیس رکعات پر کمزور اعتراض کرتے ہیں اور اپنی ہٹ دھرمی کے باعث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ، جو ثابت نہیں ۔ آٹھ رکعات کوتراویح کہنا بھی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ ”تراویح” جمع ہے ”ترویحہ ”واحد ہے ، ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے توعربی قواعد کے اصولو ں کے مطابق آٹھ رکعات ادا کرنے کے نتیجے میں دو ترویحہ بنتے ہیں جس پرتثنیہ کا اطلاق ہوتا ہے اور لغت کے حساب سے ”ترویحتان” کہا جاتا ہے ۔ عربی میںکسی بھی لفظ کی جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے لہٰذا آٹھ رکعات کو کبھی بھی تراویح قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حضوراکرم نے کبھی بھی رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے طور پر ادا نہیں فرمائیں ۔ اور نہ ہی آٹھ رکعات ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بسند صحیح حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سے روایت کی کہ” لوگ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، کے زمانہ میں بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد میں بھی ایسا ہی تھا ”اور ”موطا ”میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ ”عمر رضی اللہ عنہ، کے زمانہ میں لوگ تئیس 23 رکعات پڑھتے ”۔ بیہقی نے کہا اس میں تین رکعتیں وتر کی ہیں اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ ، نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ ”رمضان میں لوگوں کو بیس ٢٠ رکعتیں پڑھائے ۔” نیز اس کے بیس رکعت میںیہ حکمت ہے کہ فرائض و واجبات کی اس سے تکمیل ہوتی ہے اور کل فرائض و واجبات کی ہر روز بیس رکعتیں ہیں (یعنی فجر 2 + ظہر 4 + عصر 4 + مغرب 4 + عشاء فرض 4 + وتر 3 = 20رکعات) لہٰذا مناسب تھا کہ یہ بھی بیس ہوں ۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ، صفحہ نمبر 30،چشتی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رمضان المبارک میں بیس رکعات ( تراویح) اور وتر ادا فرماتے تھے ۔ (مصنف شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 669 حدیث نمبر 7774،چشتی)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں ۔کو بیس (20) رکعات نماز تراویح اور وتر پڑھائے رمضان المبارک میں ۔ ( تاریخ جرجان صفحہ نمبر 276)

حدیث : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رمضان المبارک میں دو راتیں لوگوں کو بیس رکعات (20) نماز تراویح پڑھائی۔(تلخیص الجبیر جلد 2 صفحہ نمبر 45)

منکرین بیس (20) غیر مقلد وھابی حضرات کو چیلنج ہے کہ آٹھ رکعات نماز تراویح پر ایک حدیث پیش کرو جس میں لفظ تراویح اور رمضان المبارک کا ذکر ہو اور جسے محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا اور قبول کیا ہو نماز تہجد والی روایت سے دھوکہ دے کر لوگوں کا بابرکت مہینے میں عبادت سے مت روکو وقت تا قیامت ہے ہم بحوالہ جواب کے منتظر رہیں گے ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات نماز تراویح پڑھنا متعدد حوالہ جات کے ساتھ ثابت کر دیا ہے الحمد للہ ۔

بیس رکعت تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا تھا

محترم قارئینِ کرام : غیر مقلدین کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی کے فتاویٰ نذریہ میں ہے : بیس (20) رکعات نماز تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا اور یہ اجماع صحابہ رضی عنہم کا ہے ۔ بیس رکعت تراویح اس حدیث سے ثابت ہیں ﻋﻦ ﯾﺰﯾﺪ ﺑﻦ ﺭﻭﻣﺎﻥ ﺍﻧﮧ ﻗﺎﻝ ﮐﺎﻥ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﯾﻘﻮﻣﻮﻥ ﻓﯽ ﺯﻣﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﺎﺏ ﻓﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺑﺜﻠﺚ ﻭﻋﺸﺮﯾﻦ رکعۃ ۔ ‏(ﻣﻮﻃﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﺹ 98‏) ، (ﺍﺳﻨﺎﺩﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﻋﻠﯽ ﺷﺮﻁ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ،چشتی) ۔
ترجمہ : یزید بن رومان سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ لوگ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں تیئیس رکعت (بیس تراویح اور تین وتر) پڑھتے تھے ۔ (ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻁ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ) ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ 634)

کیا کہتے ہیں منکرین بیس رکعات تراویح اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کو مانیں یا غیر مقلدین کی مانیں ؟

بیس (20) رکعات نماز تراویح پر علمائے امت کا اجماع ہے
محترم قارئینِ کرام : امام ترمذی رحمۃ ﷲ کا ارشاد : ترمذی شریف میں بابُ مَاجَاءَ فِي قِیَامِ شَھْرِ رَمضان کے تحت امام ترمذی رحمۃ ﷲ نے قیام رمضان یعنی تراویح کے باب میں احادیث پیش کرتے ہوئے فرمایا ” واختلف اھل العلم فی قیام رمضان فرأی بعضھم ان یصلی احدی واربعین رکعة مع الوتر وھو قول اھل المدینة والعمل علی ھٰذا عندھم بالمدینة وَأ کْثرُ أھلِ العِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَن عَلِّيٍ وَ عُمَرَ وَغَیْرِھِمَا مِنْ أصحابِ النبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عِشْرِینَ رَکْعَۃً وَ ھُوَ قَولُ الثَّوريِّ وَ ابْنِ المبارَکِ و الشَّافَعيِّ وقالَ الشافِعيُّ وَ ھَکذا أدْرکْتُ بِبَلَدِنَا مَکَّۃَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً ۔ (ترمذی صفحہ 104)
ترجمہ : تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ : علامہ ابن تیمیہ رقمطراز ہیں قَدْ ثَبَتَ أنَّ اُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ کانَ یَقُوْمُ بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِي قِیَامِ رَمَضانَ یُوتِرُ بِثَلاثٍ فَرَأی کَثِیْرٌ مِنْ العُلَمَاءِ أنَّ ذَلِکَ ھُوَ السُنَّۃُِ لأنَّہُ أقَامَہُ بَیْنَ المُھَاجِرِیْنَ وَالأنْصَارِ وَلَمْ یُنْکِرْہُ مُنْکِرٌ ۔
ترجمہ : علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) لوگوں کو قیام رمضان ( نماز تراویح) کے بیس (20) رکعات پڑھاتے اور وتر تین رکعات پڑھاتے تھے ، کثرت سے علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ بیس رکعات ہی سنت ہیں کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کرام اور انصار صحابہ کے درمیان بیس (20) رکعات تراویح پڑھائی اور ان میں سے کسی نے بھی اسکا انکار نہیں کیا ۔(فتاوی ابن تیمیہ ص 112 ج 23)
علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : اگرکوئی نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزیادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگی ۔ (الاختیارات 64 ،چشتی)

غنیۃ الطالبین یں ہے : وَصَلاۃُ التَراویْحِ سُنَّۃُ النَّبيِّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، وَھِيَ عِشْرُونَ رَکْعَۃً یَجْلِسُ عَقِبَ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَ یُسَلِّمُ ۔
ترجمہ : نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت ہے اور یہ بیس رکعات ہے ہر دو رکعت کے بعد بیٹھے اور سلام پھیرے ۔ (غنیۃالطالبین صفحہ 567)

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام صاحب کے مایہ ناز شاگرد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ نے امام صاحب سے دریافت کیا ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بیس رکعات کے بارے میں کو ئی بات معلوم تھی ۔ امام صاحب نے فر مایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کو ایجاد کر نے والے نہ تھے (یعنی بلا شبہ حضرت عمر کو بیس رکعت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی بات ضرور معلوم تھی ورنہ وہ اپنی طرف سے بیس کی تعین نہ کر دیتے ) ۔ (فیض الباری شرح بخاری ،العرف الشذی ، بحر الرائق ، طحاوی)

آثار امام ابو یوسف میں ہے ۔ یوسف اپنے والد امام ابو یوسف سے وہ امام ابو حنیفہ سے وہ حماد سے وہ ابرا ہیم نخعی رحمہم اللہ سے وایت کر تے ہیں کہ لوگ (صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم) رمضان میں پانچ ترویحات پڑھتے تھے (واضح ہو ہر ترویحہ چار رکعت کا ہوتا ہے ، اس طرح پانچ ترویحات ، بیس رکعتں ہوگئیں)
امام شمس الائمہ سر خسی رحمۃ اللہ علیہ امام سرخسی اپنی شہرہ آفاق کتاب “ مبسوط “ جو کہ امام محمد رحمہ اللہ علیہ کی ظاہر الروایات پر مشتمل ہے ۔میں فر ماتے ہیں ۔

تراویح ہمارے نزدیک وتر کے علاوہ بیس رکعتیں ہیں اور مام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سنت اس میں چھتیس رکعتیں ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ جو شخص امام مالک کے قول اور مسلک پر عمل کر نا چاہے ، اسے مناسب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے بیان کے مطابق عمل کرے ۔ یعنی جماعت کے ساتھ بیس رکعتیں پڑھے کیونکہ یہی سنت ہے ، پھر (16 رکعتیں) تنہا پڑھے ، ہر چار رکعات میں دو سلام ہوں (یعنی دو دو رکعتیں کر کے) اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے فر مایا کہ کل کی کل 36 رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں ۔ (کتاب المبسوط جلد 2)

ملک العلماء علامہ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : تراویح کی مقدار بیس رکعات ہے دس سلاموں سے ، پانچ ترویحات میں ، ہر دو سلام میں ایک ترویحہ ہوگا، یہی عالم علماء کا قول ہے ۔ اور امام مالک نے ایک قول میں چھتیس رکعات اور ایک قول میں چھبیس رکعات بیان فر مائی ہے ۔اور صحیح عام علماء کا ہی قول ہے اس لئے کہ روایت کیا گیا ہے حضرت عمر نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو رمضان المبارک میں حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا ، پس انہوں نے ان کو ہر رات میں بیس رکعتیں پڑھائیں اور اس پر کسی نے انکار نہیں کیا ۔ پس صحابہ کرام کی طرف سے بیس رکعات پر اجماع ہو گیا ۔ (بدائع الصنائع جلد 1،چشتی)

علامہ بر ہان الدین مر غینانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب ہدایہ علامہ بر ہان الدین مر غینای نے بھی بیس رکعات تراویح کو سنت قرار دیا ہے اور یہ بھی فر مایا کہ امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے بیس رکعات تراویح کا مسنون ہو نا روایت کیا ہے ۔ والاصح انھا سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ ۔ ( ہدایہ ج1 ص 151،چشتی)
علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله علیه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه، امام شافعی رحمة الله علیه ، امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات تراویح سنت ہے ۔ (بدایة المجتہد)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله علیه لکھتے ہیں کہ : تراویح کی بیس (20) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ادا فرمایا ۔ (کتاب المغنی)
علامہ نووی شافعی رحمة الله علیه لکھتے ہیں ۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (20) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (20) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (4) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله علیه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله علیه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله علیه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله علیه نے بیس (20) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ (المجموع)

جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (20) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے ، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے ۔ جب انھوں نے بیس (20) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (20) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (8) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے ۔

امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔ (المبسوط 2 / 145)

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ابوعبداللہ (یعنی امام احمد) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہیں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔ (المغنی لابن قدامہ المقدسی 1 / 457)

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائیگی باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔ (المجموع للنووی 4 / 31)

قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی 595ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں : واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔” رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، امام مالک رحمہ اللہ نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد رحمہم اللہ اور داوٴد رحمہ اللہ نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے ۔ (بدایة المجتہد ص 156، مکتبہ علمیہ لاہور)

مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی 1201ھ) لکھتے ہیں : وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل ۔
ترجمہ : اور تراویح ، وتر سمیت 23 رکعتیں ہیں ، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا) عمل تھا ، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر) ۔ (شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ص 315،چشتی)

امام محی الدین نووی رحمہ اللہ (متوفی 676ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداوٓد وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بنیزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر ۔
ترجمہ : رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ ، علاوہ وتر کے ۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب ، امام احمد رحمہ اللہ اور امام داوٴد رحمہ اللہ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، اور قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے ۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں ۔ (مجموع شرح مہذب جلد 4 صفحہ 32،چشتی)

حافظ ابنِ قدامہ المقدسی الحنبلی (متوفی 620ھ) المغنی میں لکھتے ہیں : والمختار عند ابی عبدالله رحمہ الله فیھا عشرون رکعة وبھٰذا قال الثوری وابوحنیفة والشافعی، وقال مالک ستة وثلاثون ۔” امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک تراویح میں بیس رکعتیں مختار ہیں ۔ امام ثوری ، ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور امام مالک رحمہ اللہ چھتیس کے قائل ہیں ۔ (مغنی ابنِ قدامہ ج ص 798، 799، مع الشرح الکبیر)

تراویح کی ابتدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہوئی، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو ، چار چار آدمی جماعت کرلیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا ، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں ، اور بیس رکعات ہی سنتِ مٶکدہ ہیں ۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں دن کی عبادت روزہ ہے اور رات کی عبادت تراویح، اور حدیث شریف میں دونوں کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہےجعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے ۔ (مشکوٰة صفحہ 173،چشتی)

اس لئے دونوں عبادتیں کرنا ضروری ہیں، روزہ فرض ہے، اور تراویح سنتِ موٴکدہ ہے ۔ تہجد الگ نماز ہے، جو کہ رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں مسنون ہے ، تراویح صرف رمضان مبارک کی عبادت ہے، تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں کہا جا سکتا ، تہجد کی رکعات چار سے بارہ تک ہیں ، درمیانہ درجہ آٹھ رکعات ہیں ، اس لیے آٹھ رکعتوں کو ترجیح دی گئی ہے ۔

جو شخص روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ بھی تراویح پڑھے۔جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔رمضان شریف میں مسجد میں تراویح کی نماز ہونا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی مسجد تراویح کی جماعت سے خالی رہے گی تو سارے محلے والے گناہگار ہوں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام نہیں تھا، بلکہ لوگ تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں پڑھا کرتے تھے، سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک امام پر جمع کیا ۔ (صحیح بخاری ج ص 269، باب فضل من قام رمضان) ۔ اور یہ خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے دُوسرے سال یعنی 14ھ کا واقعہ ہے ۔ (تاریخ الخلفاء ص 121، تاریخ ابنِ اثیر ج ص 189) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ اوّل

0 comments
فضائل ، مسائل اور دلائل تراویح حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک میں نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا زیادہ عطا کیا جاتا ہے ۔ اس ماہ مبارک میں دن میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات میں نماز تراویح ادا کی جاتی ہے ۔ ماہ رمضان کی راتوں میں ادا کی جانے والی بیس رکعات نماز باجماعت کا نام ’’تراویح‘‘ اس لیے رکھا گیا کہ جب لوگوں نے جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا شروع کی تو وہ ہر چار رکعت کے بعد اتنی دیر آرام کرتے تھے ، جتنی دیر میں چار رکعات پڑھی جاتی تھیں ، یعنی تراویح کے معنی آرام والی نماز ہے ۔ نماز تراویح بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز تراویح کی مداومت فرمائی ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو‘‘۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی نماز تراویح ادا فرمائی اور اسے پسند فرمایا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’جو رمضان میں قیام کرے ایمان کی وجہ اور طلب ثواب کےلیے ، اس کے اگلے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘ یعنی صغائر ۔ پھر اس اندیشہ سے کہ امت پر فرض نہ ہو جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ترک فرمائی ۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رمضان المبارک کی) ایک شب مسجد میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو متفرق طورپر نماز پڑھتے دیکھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں تو بہتر ہے‘‘۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے ایک امام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگوں کو اکٹھا کر دیا ۔ پھر دوسرے دن تشریف لے گئے تو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ اس وقت آپ نے فرمایا ’’یہ ایک اچھی بدعت ہے ۔ (بہار شریعت ۔ مصباح الفقہ اول)

واضح رہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو امام بنایا تو تمام صحابۂ کرام نے اس پر اتفاق کیا اور کسی نے اعتراض نہیں کیا ، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے بہتر قرآن مجید پڑھنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے ، تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (مسلم صفحہ ۳۸۲ حدیث ۷۵۹،چشتی)
حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ (یعنی چھوٹے) گناہ معاف ہو جائیں گے کیونکہ گناہ ِکبیرہ (یعنی بڑے گناہ) توبہ سے اور حقوق العباد (اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توبہ کے ساتھ) حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۲ صفحہ ۲۸۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے رَمضان کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے تمہارے لیے رَمضان کے قیام کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رَمضان میں روزے رکھے اور ایمان کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا ۔ (سنن نَسائی صفحہ ۳۶۹ حدیث ۲۲۰۷)

رَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنت بھی شامِل ہے اور سنت کی عظمت کے کیا کہنے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (ابن عساکر جلد ۹ صفحہ ۳۴۳،چشتی)

تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختم قراٰن بھی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ۔

افسوس ! آج کل دینی مُعاملات میں سستی کادَور دورہ ہے،عموماً تراویح میں قراٰنِ کریم ایک بار بھی صحیح معنوں میں ختم نہیں ہو پاتا۔ قراٰنِ پاک ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے ، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تواکثر لوگ اُس کے ساتھ تراویح پڑھنے کےلیے تیار ہی نہیں ہوتے ! اب وُہی حافظ پسند کیا جاتا ہے جو تراویح سے جلد فارِغ کر دے ۔ یاد رکھئے ! تر اویح اور نمازکے علا وہ بھی تلاوت میں حرف چبا جا نا حرام ہے ۔ اگر تراویح میں حافظ صاحب پورے قرآنِ کریم میں سے صرف ایک حرف بھی چبا گئے تو ختم قران کی سنت ادا نہ ہو گی ۔ بلکہ دورانِ نماز حرف چب جانے کی وجہ سے معنیٰ فاسد ہونے یا مہمل یعنی بے معنیٰ ہو جانے کی صورت میں وہ نماز بھی فاسد ہو جائے گی ۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حرف ’’چب‘‘ گیا یا دُرست ’’مخرج‘‘ سے نہ نکلا اور بدل گیا تو لوگوں سے شرمائے بغیر پلٹ کر پھر پڑھیے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمریہ بھی ہے کہ حفا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسے ترتیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا ! تیزی سے نہ پڑھیں تو بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد متوں میں ہمدردانہ مشورہ ہے ، لوگوں سے نہ شر مائیں ، اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی ناراضی بہت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحب کی مدد سے از اِبتدا تا اِنتہا اپنا حفظ دُرُست فر ما لیں ۔ مدولین (وؤا،ی اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو (یعنی واؤ کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر) اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں) کا خیال رکھنا لا زِمی ہے نیز مد ، غنہ ، اظہار ، اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں ۔

حضرت صدرُ الشَّریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں : فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرے اور تراویح میں مُتَوَ سِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے ، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ’’مد‘‘ کا جو دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔اس لئے کہ ترتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حکم ہے ۔ (بہار شریعت جلد ۱ صفحہ ۵۴۷،چشتی)(دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۲۰)

پارہ 29 سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّل کی چو تھی آیت میں ارشا د ِربّا نی ہے : وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ ۔
ترجمہ : اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔

ترتیل سے پڑھنا کسے کہتے ہیں !:
امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ’’ کمالین علیٰ حاشیہ جلالین‘‘ کے حوالے سے ’’ ترتیل ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں : ’’قراٰنِ مجید اِس طرح آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۶ ۲۷)
نیز فرض نماز میں اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تراویح میں مُتَوَسِّط (یعنی درمیانہ) طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے ۔(دُرِّمُختَار ج۲ص۳۲۰)
’’مدارِکُ التَّنْزِیل‘‘ میں ہے : ’’قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ،حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،’’ تَرْتِیْلًا ‘‘اس مسئلے میں تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کےلیے نہایت ہی ضَروری ہے ۔‘‘ (مدارکُ التّنزیل ص۱۲۹۲)(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۸ ۲۷،۲۷۹،چشتی)

قرآنِ کریم پڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضروری ہے اگر حافظ اپنی تیزی دکھانے ، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کےلیے قرآنِ کریم پڑھے گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے ، اُلٹا حب جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں جا پڑے گا ! اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو ، طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے آتے اِسی لیے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو ، تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلہ (یعنی اناج) وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت ، اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحب نیت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا ۔ پھر بعد میں حافظ صاحب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیثِ مبارَک میں ہے : اِنّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات۔ یعنی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ۔ (صحیح بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶ حدیث ۱)

امام احمد رضاخان قادری عَلَیْہِ الرَّحْمہ کی بارگاہ میں اُجرت دے کر میت کے ایصالِ ثواب کےلیے خَتْمِ قرآن و ذِکرُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کروانے سے مُتَعَلِّق جب اِستفتا پیش ہوا تو جواباً ارشاد فرمایا : تلاوتِ قراٰن وذکرِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے دینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں) کو بھیجیں گے ؟ گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت و اَشد (یعنی شدید ترین جرم) ہے ۔ اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقۂ جائزہ شرعیہ بھی حاصل ہو (یعنی شرعاً جائز بھی رہے) تو اِس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشخص کی مُعَیَّن (مقرر) کر  دیں ۔ مَثَلاً پڑھوانے والا کہے : ’’میں نے تجھے آج فلاں وَقت سے فلاں وَقت کےلیے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ) جو کام چاہوں گا لوں گا ۔‘‘ وہ کہے : ’’میں نے قبول کیا ۔‘‘ اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجیر (یعنی ملازِم) ہو گیا ، جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُس سے کہے فلاں مَیت کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قدر کلِمۂ طیبہ یا دُرُود پاک پڑھ دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جائز ہونے) کی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ص۵۳۷)

اِس فتوے کی روشنی میں تراویح کےلیے حافظ صاحب کی بھی ترکیب ہو سکتی ہے ۔ مَثَلاً مسجد کمیٹی والے اُجرت طے کر کے حافظ صاحب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نماز عشا کےلیے امامت پر رکھ لیں اور حافظ صاحب بِالتَّبَع یعنی ساتھ ہی ساتھ تراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تراویح بھی نمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے ۔ یا یوں کریں کہ ماہِ رَمَضان المبارَک میں روزانہ دویا تین گھنٹے کےلیے (مَثَلاً رات 8 تا 11) حافظ صاحب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہو گا ، تنخواہ کی رقم بھی بتادیں ، اگر حافظ صاحب منظور فرمالیں گے تو وہ ملازم ہو گئے ۔ اب روزانہ حافظ صاحب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگا دیں کہ وہ تراویح پڑھا دیا کریں ۔ یاد رکھیے ! چاہے امامت ہو یا مؤَذِّنی ہو یا کسی قسم کی مَزدوری جس کا م کےلیے بھی اِجارہ کرتے وقت یہ معلوم ہو کہ یہاں اُجرت یاتنخواہ کا لین دَین یقینی ہے توپہلے سے رقم طے کرنا واجِب ہے ، ورنہ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہوں گے ۔ ہاں جہاں پہلے ہی سے اُجرت کی مقررہ رقم معلوم ہو مَثَلاً بس کا کرایہ ، یا بازار میں بوری لادنے ، لے جانے کی فی بوری مزدوری کی رقم وغیرہ ۔ تواب باربارطے کرنے کی حاجت نہیں ۔ یہ بھی ذِہن میں رکھیے کہ جب حافظ صاحب کو (یاجس کوبھی جس کام کےلیے) نوکر رکھا اُس وقت یہ کہہ دینا جائز نہیں کہ ہم جو مناسب ہوگا دے دیں گے یا آپ کو راضی کر دیں گے ، بلکہ صَراحَۃً یعنی واضح طورپر رقم کی مقدار بتانی ہوگی ، مَثَلاًہم آپ کو 12ہزار روپے پیش کریں گے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حافظ صاحب بھی منظور فرمالیں ۔ اب بارہ ہزار دینے ہی ہوں گے ۔ یاد رہے ! مسجد کے چندے سے دی جانے والی اُجرت وہاں کے عرف سے زائد نہیں ہونی چاہیے ، پہلے سے موجود امام صاحب دل برداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جائے ، پورے ماہِ رَمضان میں نَمازِ عشا کی امامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عرف یعنی معمول جاری ہے ۔ ہاں حافظ صاحب کو مطالبے کے بغیر اپنی مرضی سے طۓ شدہ سے زائد مسجد کے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جائز ہے ۔ جو حافظ صاحبان ، یا نعت خوان بغیر پیسوں کے تراویح ، قراٰن خوانی یا نعت خوانی میں حصہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجائز کام کا ارتکاب نہ کریں ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرکے پا ک روزی حاصل کریں ۔ اور اگر سخت مجبوری نہ ہو تو حیلے کے ذَرِیعے بھی رقم حاصِل کرنے سے گریز کریں کہ جس کاعمل ہوبے غرض اُس کی جزا کچھ اور ہے ۔ ایک امتحان سخت امتحان یہ ہے کہ جو رقم قبول نہیں کرتا اُس کی کافی واہ !واہ ! ہوتی ہے ۔ یہاں اپنے آپ کو حب جاہ اور ریاکاری سے بچاناضروری ہے ، بلا حاجت دوسروں سے تذکرہ کرنے سے بچنا اور دعائے اخلاص کرتے رہنا ایسے مواقع پر مفید ہوتا ہے ۔

جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بہتر یہ ہے کہ ستائیسویں شب کو ختم کریں ، رقت و سوز کے ساتھ اِختتام ہو اور یہ اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا یاسنا نہیں ، کوتاہیاں بھی ہوئیں ، دل جمعی بھی نہ رہی ، اِخلاص میں بھی کمی تھی ۔ صد ہزار افسوس ! دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا ، ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مہمان رَہ گیا ، نہ جانے آیند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کےلیے میں زندہ رہوں گایا نہیں ! اِس طرح کے تصورات جما کر اپنی غفلتوں پر خود کو شرمندہ کرے اور ہو سکے تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت بنائے کہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے ، اگر کسی کی آنکھ سے مَحَبَّتِ قراٰن و فراقِ رَمضان میں ایک آدھ قطرہ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے صدقے اللہ تعالیٰ سبھی حاضرین کو بخش دے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اسے خوب پسند بھی فرمایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے رَمضان میں قیام کرے اُس کے پچھلے گناہ (یعنی صغیرہ گناہ) بخش دیے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۰۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح) فرض نہ کر دی جائے ۔(صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ حدیث ۲۰۱۲،چشتی)

امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے (اپنے دورِ خِلافت میں) ماہِ رَمَضان المُبَارَک کی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا : میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے حضرت سیّدنا اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو سب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں (توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا : نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ ۔ یعنی’’ یہ اچّھی بدعت ہے ۔ (بُخاری جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ حدیث ۲۰۱۰،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سیجماعتِ تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے ۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی ہو گیا ۔ مثَلاً تراویح کی باقاعدہ جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں اچھے اچھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تا قِیا مت ایسے اچھے اچھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی اجازت مَرحمت فرمادی تھی ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے : جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گا اور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعد اُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں) کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ (صحیح مُسلم صفحہ ۵۰۸ حدیث ۱۰۱۷،چشتی)

اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا ، قیامت تک اسلام میں اچھے اچھے نئے طریقے جاری کرنے کی اجازت ہے جیسا کہ {۱} امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیا اور اس کو خود ’’اچھی بدعت‘‘ بھی قرار دیا ۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وِصال ظاہری کے بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی جونیا اچھا کام جاری کریں وہ بھی بدعت حَسَنہ کہلاتا ہے ۔ {۲}مسجِد میں امام کےلیے طاق نما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے مسجدُ النَّبَوِی الشّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد (بد عتِ حَسَنہ) کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے ۔ {۳} اِسی طرح مساجِد پر گنبد و مینار بنانا بھی بعد کی ایجاد ہے ، یہاں تک کہ مسجد الحرام کے مَنارے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دَور میں نہیں تھے ۔ {۴} ایمانِ مفصل ۔ {۵} ایمانِ مُجْمَل ۔ {۶} چھ کلمے اور ان کی تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام ۔ {۷} قراٰنِ کریم کے تیس پارے بنانا ، اِعراب لگانا ، ان میں رُکوع بنانا ، رُموزِ اَوقاَف کی علامات لگانا ۔ بلکہ نقطے بھی بعدمیں لگائے گئے ، خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ ۔ {۸} احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا ، اس کی اَسناد پر جرح کرنا ، ان کی صحیح ، حسن، ضعیف اور موضوع وغیرہ اَقسام بنانا ۔ {۹} فقہ ، اُصولِ فقہ و علم کلام۔ {۱۰}زکٰوۃ و فطر ہ سکۂ رائج الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا ۔ {۱۱} اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفر حج کرنا ۔ {۱۲} شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادِری، نقشبندی ، سہروردی اور چشتی۔

ہر بدعت گمراہی نہیں ہے : ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱) کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار ۔ یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) (۲) شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلالۃ ۔ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے ۔ (مسلم ص۴۳۰ حدیث۸۶۷) ۔ کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارَکہ حق ہیں ۔ یہاں بدعت سے مراد بدعتِ سَیِّـَٔہ (سَیْ ۔یِ ۔ ئَ ہْ) یعنی بری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بری ہے جو کسی سنت کے خلاف یا سنت کو مٹانے والی ہو ۔ جیسا کہ دیگر احادیثِ مقدسہ میں اس مسئلے کی وضاحت موجود ہے ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ عزوجل اور اس کا رسول راضی نہ ہو ، تو اُس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اُس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے ، اُسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کرے گا ۔ ( تِرمذی ج ۴ ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶)
بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَہُوَ رَد ۔ (بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۱۱ حدیث ۲۶۹۷) ۔ یعنی ’’جو ہمارے دین میں ایسی نئی بات نکالے جو اُس (کی اصل) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے ۔
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنت سے دُور کر کے گمراہ کرنے والی ہو ، جس کی اَصْل دین میں نہ ہو وہ بدعتِ سَیِّـَٔہ یعنی بری بدعت ہے ، جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو یا جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعت ِحسنہ یعنی اچھی بدعت ہے ۔

حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک ،’’ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : جو بدعت اُصول اور قواعد سنت کے موافق اور اُس کے مطابق قیاس کی ہوئی ہے (یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات جلد ۱ صفحہ ۱۳۵،چشتی)

بدعت حسنہ کے بغیر گزارہ نہیں :
اچھی اور بری بدعات کی تقسیم ضروری ہے کیوں کہ کئی اچھی اچھی بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صرف اس لئے ترک کر دیا جائے کہ قرونِ ثلاثہ یعنی (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان (۲) تابعینِ عظام اور (۳) تبع تابعینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے اَدوارِ پر انوارمیں نہیں تھیں ، تو دین کا موجود ہ نظام ہی نہ چل سکے ، جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں درسِ نظامی ، قراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعد میں جاری ہوئے اور بدعت حسنہ میں شا مل ہیں ۔

تراویح ہر عاقِل و بالغ مسلمان بھائی اور مسلمان بہن کےلیے سنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے ۔ (دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶) اس کا تَرْک جائز نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)

تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔حضر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)

تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے ، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِسائَت کے مرتکب ہوئے (یعنی بُرا کیا) اور اگرچند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا ۔ (ہِدایہ ج۱ص۷۰)

تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے ۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی ۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ )

وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلا ل کی شہادت (یعنی چاند نظر آنے کی گواہی) ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے ۔

مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ (لیکن عشا کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں ) (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۸)

تراویح اگر فوت ہو ئی تو اس کی قضا نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ ص۵۹۸)

بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۵۹۹)

تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی) ہے ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۵۹۹،چشتی)
ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنا فرض ہے ، ہر قعدے میں اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت (یعنی پہلی ، تیسری ، پانچویں وغیرہ) میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذ و تَسْمِیہ بھی پڑھے ۔

جب دو دو رَکعت کر کے پڑ ھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۵۹۷)

بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار جلد ۲ صفحہ ۶۰۳)

تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے ، اگر گھر میں باجماعت ادا کی توترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا ۔(فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۱۶)
عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔

نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔

بالِغ کی تراویح (بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی ۔

تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کےلیے کفایت کرے گا ۔ فتاوٰی رضویہ جلد 10 صفحہ 334 پر ہے : قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے ۔ اور صفحہ 335 پر ہے : خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت ۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے ۔

اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجیے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَ سے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجیے ، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یا د رکھنا آسان رہے گا ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)

ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ جَہر کے ساتھ (یعنی اُونچی آواز سے) پڑھنا سنت ہے اور ہر سورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے ۔ مُتَأَخِّرین (یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ علیہم) نے ختم تراویح میں تین بار قُل ھُوَ اللہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتریہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں الٓمّٓۚ سے مُفْلِحُوْن تک پڑھے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۶۹۴،۶۹۵،چشتی)

اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتا ہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصان نہ ہو ، مَثَلاً تین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روزسوا پارہ پڑھا جا تا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جا سکتا ہے ۔

دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جا ئے ، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کاسجدہ کر لیا توچارپوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)

سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب (یعنی شک و شبہ) کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے (عالمگیری ج ۱ ص۱۱۷)

اگرلوگوں کوشک ہوکہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ ؟ تو دو رَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قرائَ ت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ،اِسی طرح ہر شفع (کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس) کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قرائَ ت مساوی (یعنی یکساں) ہو ، دوسری کی قرائَ ت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)

امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں (امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہ بھی پڑھے) اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِابراہیم اور دعابھی ۔ (دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار جلد ۲ صفحہ ۶۰۲،چشتی)

اگر مقتدیوں پر گِرانی (دشواری) ہوتی ہو تو تشہد کے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ پر اکتفا کرے ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۶۹۰،چشتی)(دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)

اگر ستائیسویں کویا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۸)

ہر چاررَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چاررَکعات پڑھی ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰،چشتی)(عالمگیری ج۱ص۱۱۵)

اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے ۔ (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰)(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰)

یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں : ⬇

سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ ۔

بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعد پانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے ، اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۵)

مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے ، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے ۔ سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے : وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ ۔
ترجَمہ : اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳)(غُنیہ ص۴۱۰)
فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رُکوع سے اُٹھ گیا تو سجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُ پوری کیے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔

رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے ، مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲،۶۹۳) ۔ بعض علما نے لکھا وتر جماعت سے پڑھ سکتا ہے ۔

یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔

حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ تراویح پڑھاتے ۔ (عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۱۱۶) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 27 March 2022

فضائل ، احکام و مسائلِ روزہ

0 comments
فضائل ، احکام و مسائلِ روزہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : روزہ کے بے شمار فضائل ہیں مثلاً روزے سے سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث 1901)(جامع ترمذی،جلد1صفحہ147)

روزہ دار کےلیے جنت میں داخلے کے وقت ’’باب الریاّن‘‘ کا مختص ہونا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر1896)

روزہ دار کے منہ سے آنے والی مشک کا کستوری سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا جانا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر8)

روزہ دار کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی دور ی پر کر دینے کی خوشخبری ۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر1153)

روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر1903،چشتی)

روزہ کی نیت

نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘ میں ہے : ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ ۔ (در مختار جلد 2 صفحہ 379)

لہٰذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو ۔

سحری کے احکام و مسائل

سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان مبارک ہے : تسحروا فان فی السحور برکۃ ۔ (صحیح بخاری،حدیث 1923) ۔ سحری کھایا کرو اس لئے کہ اس کھانے میں برکت ہے ، دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ’’ردالمحتار ‘‘میں یوں ہے کہ : السحور کلہ برکۃ فلاتدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعۃ من ماء ۔ (ردالمحتار، جلد2صفحہ419) ۔ سحری تمام تر برکت ہے ، لہذا اسے مت چھوڑو اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں سحری ہو ۔

سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

روزے کے لئے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ،سحری کی دعا یہ ہے : وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان ۔

سحری میں تاخیر (آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے ۔ (عالمگیری،جلد1صفحہ200)

یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے۔(فتاویٰ عالمگیری جلد1 نمبر صفحہ نمبر 194)

اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)

صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لیے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو ۔ (عالمگیری جلد1 صفحہ 194،چشتی)

سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے ۔ (بہار شریعت)

افطاری کے احکام و مسائل

یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہوجاتا ہے،اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ ,175)(بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 105)

افطاری کھجور ، چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء ۔ (الزیلعی جلد 1 صفحہ 443،چشتی)

احادیث مبارکہ میں افطاری کے وقت کی مختلف دعائیں موجود ہیں جو درجہ ذیل ہیں : ⬇

اول 

اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ، اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں ۔ (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ | بَابٌ : الْقَوْلُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ الجزء رقم :2، الصفحة رقم:531 رقم الحديث 2358،چشتی)(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 294)

دوم

اللهم لك صمت، و عليك توكلت و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨)

سوم

الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت ۔ (شعب الایمان باب فی الصیام حدیث ۳۹۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۴۰۶)

چہارم

اللھم لک صمنا وعلی رزقک افطر نا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم ۔ (کتاب عمل الیوم و اللیلۃباب مایقول اذاافطر حدیث۴۸۰ معارف نعمانیہ حیدر آباد دکن ص ۱۲۸)

پنجم

ذھب الظمأ و ابتلت العروق ویثبت الاجران شاء اﷲتعالی ۔ (سنن ابی داؤد باب القول عندالافطار)

ششم

بسم ﷲ والحمدﷲ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت وعلیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۲۳۸۷۳ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)

نوٹ : یہ چھ دعائیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہیں ۔

ہفتم

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ۔ (سنن ابن ماجه كِتَابُ الصِّيَامِ بَابٌ : فِي الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)

نوٹ : یہ دعا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔

اب احادیث سے یہ الفاظ ثابت ہیں ۔ عام طور پر جو الفاظ مشہور ہیں اللھم لك صمت و بك امنت و عليك توكلت و علي رزقك افطرت بعینہ ان الفاظ کے ساتھ افطار کی یہ دعا ثابت نہیں اگر چہ اس کا معنی صحیح ہے ۔

ملا علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وأما ما اشتهر على الألسنة ” اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت ” فزيادة ، ( وبك آمنت ) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحا ، وكذا زيادة ۔ وعليك توكلت ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الصوم باب في مسائل متفرقة من كتاب الصوم رقم الحدیث 1994،چشتی)

لیکن یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے اللهم لك صمت ، و عليك توكلت، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ ملا علی القاری کا و عليك توكلت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ یہی اضافہ دو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔

اول ایک طویل حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مختلف وصیتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وصیت ہے۔ کہ علی جب تم رمضان میں روزے سے ہو تو افطار کے بعد یہ پڑھو ۔

اللهم لك صمت، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨،چشتی)

دوسری حضرت انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس کھانا لایا جائے اور تم حالتِ روزہ میں ہوتو یہ کلمات کہو “بسم ﷲ والحمد للہ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت و علیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافرادحدیث ۲۳۸۷۳مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
لہذا و عليك توكلت کی زیادت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ مشہور دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے ۔ اللهم لك صمت ، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ اگر کوئی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں البتہ افضل و بہتر یہی مسنون دعا ہے ۔

کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ . (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ 173)
روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،جہنم سے نجات ملتی ہے ، روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے ۔

وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جا سکتا ہے

روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281،چشتی)

سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281)

اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 207،چشتی)

حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 207)

اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہو جانا ، کسی بلندی سے گرنا ، کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281،چشتی)

وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں ۔ (ردالمحتار،جلد2صفحہ402)

وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائزلیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے

کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد2صفحہ442)

اگر بیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ، البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422،چشتی)

اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہوجانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)

اگرعورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ (دودھ پلانے والی) روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

مسافر (جوکم ازکم 48 میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر421 - 423)

ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)

ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431،چشتی)

اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)

ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)

شوگر کے مریض اگر واقعتا روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں ، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)

لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں،تفصیل درج ذیل ہے ۔

نوٹ : مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 265،چشتی)

اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا ۔ (عالمگیری ، جلد1صفحہ207،چشتی)(فتاویٰ شامی، جلد2 صفحہ 423- 424- 425)

مفسدات روزہ

وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوتا (ٹوٹتا) ہے دو طرح کی ہیں

(1) روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں ۔

(2) صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ۔

وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں

جان بوجھ کر کھانا ، پینا یا جماع کرنا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 205)

لواطت (غیر فطری فعل،ہم جنس پرستی) ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 406)

وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا ۔ (شامی جلد2 صفحہ409-410)

جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202،چشتی)

روزے کا کفارہ

مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ، یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا ، لگاتار ساٹھ (60) روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا ) اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61) روزے لگاتاربغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ412)(ھندیہ جلد1صفحہ215،چشتی)

اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے ۔ (شامی جلد 2صفحہ412)
البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘ شروع ہو جائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘ کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا ۔ (البحرالرائق ،جلد2صفحہ277)

اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں :

بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 479)

اگر ایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگااور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انھیں کو کھلائے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 514،چشتی)

روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے ۔ (البحرالرائق جلد 4 صفحہ 109)

وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں

اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا ۔ (ردالمحتارجلد2صفحہ414)

کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)

ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا ۔ (عالمگیری جلد1صفحہ202)

البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا۔*بھول کر کھایا ، پیا ، جماع کرلیا ، احتلام ہوگیا ، تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کردیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402،چشتی)

نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ، پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)

غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا ۔ (ہدایہ جلد 1 صفحہ 207،چشتی)

اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا ۔ (الاشباہ والنظائر،صفحہ60)

اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 203)

سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود(یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194،چشتی)

دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 202)

کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)

ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (مبسوط سرخسی جلد 3 صفحہ 98)

مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 431)

یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی ۔ (عالمگیری،جلد 1 صفحہ 207،چشتی)(فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 384)

وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا

جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)

کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ417)

ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں) لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (ردالمحتار جلد 2صفحہ395)

بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ ۔ (شامی جلد 2صفحہ394)

کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ396)

خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ92)

احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ91)

حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)

پچھنا ، سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہار شریعت)

مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کے لئے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 380)

ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395،چشتی)

اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ جلد 2صفحہ369،چشتی)

البتہ اگرپسینہ ذیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا ، اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 278)

مکروہاتِ روزہ

بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ199)

منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ199)

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 416)

ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)

روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ200)

ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے ۔ (شامی جلد 2صفحہ 396،چشتی)

جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ، شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا ، فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں ۔ (حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 141)

غیبت کرنے ، چغلخوری کرنے ، دھوکہ دینے ، جھوٹی قسم کھانے ، جھوٹی گواہی دینے ، ظلم کرنے ، فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ نمبر 141) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 26 March 2022

اسلام سیرتِ طیبہ اور خدمتِ خلق

0 comments
اسلام سیرتِ  طیبہ اور خدمتِ خلق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ظہورِ اسلام سے قبل اہلِ عرب بہت سی تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کا شکار تھے ۔ شرک میں گھِرے معاشرے نے ان کےقلب و اذہان کو اپنی قوی گرفت میں لے رکھا تھا ۔ دینِ ابراہیمی کا اصل چہرہ مسخ ہو چکا تھا ۔ ایسے بدترین ماحول اور مایوس کن حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جو شبِ تاریک میں روشنی کا اندلیب ثابت ہوا جس نے بھولے بھٹکوں کی درست سمت رہنمائی کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس انقلاب کی بنیاد رنگ و نسل اور طبقاتی نظام سے بلا امتیاز انسانی ہمدردی ، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق جیسے پاکیزہ اُصولوں پر استوار کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرد کے جان ، مال ، عزت و آبرو کو نہ صرف تحفظ عطا کیا بلکہ امن و آشتی سے تمدنی زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی وضع فرمائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا جامع اور کامل ترین نظام عطا کیا جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض کو متعین فرمایا ۔ جس کا عملی نمونہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔

خدمت خلق ایک جامع لفظ ہے ،یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، خدمت خلق کے معنی مخلوق کے کام آنا ہے ، لیکن اسلام میں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کےلیے بلا کسی اُجرت اور صلے کے خلق خدا کے کام آنا اور امانت پر کمر بستہ رہنا ہے ۔

دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے ۔ ضروت مند کی حاجت روائی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے ۔ لیکن خدمت انسانیت یہ اسلام کا طرہ امتیاز اور مسلمانوں کا بنیادی وصف ہے ۔ یہی ہماری شان اور ہمارا شعار ہے اور یہ امت خدمت انسانیت کےلیے ہی برپا کی گئی ہےاور اسلام کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمےداریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں ۔

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا

کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ معاشرے میں رہنے پر مجبور ہے اسے قدم قدم پر دوسروں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے ، مال و دولت کی وسعتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایک دوسرے کے احتیاج کو دور کرنے کےلیے آپسی تعاون ، ہمدردی ، خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت کا جزء لا ینفک ہے اور انسان وہی ہے جو دوسروں کا خیر خواہ اور ہمددر ہو ۔

جس معاشرہ میں کمزوروں کو سہارا دینے ، گرتے کو تھامنے اور زندگی کی تلخ گھڑیوں میں افراد معاشرہ کے حوصلے بڑھانے کا رواج اور چلن ہو ۔ وہ سماج کے کمزور طبقات کی خدمت و تعاون کو مختلف اندازاور حکیمانہ اسلوب میں پیش کرتا ہے ۔ اورایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے ۔ اور بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا تمام معاشروں کا خاصہ ہے ۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔ اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ۔ یکجہتی اور بھائی چارہ نہیں رہا ، اخوت ، محبت ، رواداری ، اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا ۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے ۔

آج ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کی فکر کریں ، ہماری پہچان انسانیت کے بہی خواہ و خیر نواہ کی حیثیت سے ہو ، ہمارے اندر خدمات انسانیت کی ایسی ترپ موجود ہو کہ سماج کا وہ فرد ہمیں اپنا مونس و غمخوار سمجھے ، اگرہم نے انسانیت کی فکر چھوڑ دی تو ہم خیر امت کہلانے کے مستحق ہر گز نہیں ہوسکتے ۔

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ تھی ، نبوت سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سماج اور معاشرہ میں خدمت خلق ، محتاجوں و مسکینوں کی دادرسی ، یتیموں سے ہمدردی ، پریشاں حالوں کی مدد اور دیگر بہت سارے رفاہی کاموں کے حوالے سے معروف تھے ، اور نبوت سے سرفرز کئے جانے کے بعد تو پوری انسانیت اور تمام نوع انسانی جس طرح آپ کے احسانات کے زیر بار ہے اس کو شمار ہی نہیں کیا جا سکتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی انسانیت کےلیے وقف کی تھی ، آپ کی بعثت مسلمانوں کےلیے نہیں بلکہ انسانوں کےلیے ہوئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بے لوث محبتِ انسانیت ، رحم و کرم ، عفو و درگزر اور انسانوں کے دنیاوی و اخروی نجات کےلیے انتھک جدوجہد اور مساعی پر مشتمل تھی۔اس بنیاد پر ہر مسلمان اور خاص طور پر وارثینِ نبوت کا یہ فرض ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کا نصب العین انسان اور انسانیت کی خدمت کو بنائیں ۔

محترم قارئينِ کرام : خدمتِ مخلوقِ خدا کی ذریعہ دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے ۔ ایک بہترین مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جو دوسرے انسانوں کےلیے مفید اور نفع بخش ہوں ۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں بھی اہم رتبہ حاصل کرلیتا ہے ۔ پس شفقت و محبت ، رحم و کرم ، خوش اخلاقی ، غم خواری و غم گساری خیرو بھلائی ، ہمدردی ، عفو و درگزر ، حسن سلوک ، امداد و اعانت اور خدمتِ خلق ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہمیں اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے ، ہمیں چاہیے ہم ان نعمتوں میں سے اللہ کی مخلوق کےلیے کچھ حصہ ضرور نکالیں ، ڈاکٹر غریب مریضوں کا مفت یا کم فیس میں علاج کریں ، استاد غریب بچوں کو مفت یا کم فیس میں تعلیم دیں ، اگر آپ کا تعلق پولیس ، عدالت یا سیاست سے ہے ، تو آپ اپنا کام ایمان داری سے کر کے خدمت خلق کےلیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، آپ کا تعلق کسی بھی شعبےسے ہو ، اپنے کام کی نوعیت اور استطاعت کے مطابق خدمت خلق میں خود کو مصروف رکھیں ۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور
پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے ۔

لہٰذا ہمیں چاہیے اس فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ، تنظیمیں اور ادارے خدمتِ خلق کے میدان میں آگے آئیں اور مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جمائیں ، دنیا کو اپنے عمل سے اسلام سکھائیں ، لوگ اسلام کو کتابوں کے بجائے ہمارے اخلاق و کردار سے ہی سمجھناچاہتے ہیں ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے کچھ ادارے بہتر کام کر رہے ہیں ، لیکن مزید بہتری لانے کی شدید ضرورت ہے ، اپنے نجی اسکولوں اور مدارس کے نصابوں میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ عملی مشق کرائیں ، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے ۔

جب ہم رفاعی کاموں کا جامع تصوّر اور وسیع دائرہ سامنے رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی اور رفاعی کاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحمتِ عمیمہ اور وسیعہ سے نہ صرف انسان مستفیداور بہرہ ور ہوئے بلکہ تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات تک نے رحمت کا حصہ پایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رفاہِ عامّہ کے کاموں کی منظم اور مربوط بنیاد رکھی اس کے مقاصد واضح کیے اس کے لیے قانون سازی کی اور اس کا عملاً نفاذ فرمایا ۔ آج اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ انسانیت میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہو رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جامع تعلیمات کا پیش خیمہ ہے ۔ یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ دُنیا میں سب سے پہلی فلاحی ریاست کا تصور بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے شروع ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ و طاہرہ سے فلاحِ معاشرہ اور خدمتِ خلق کے تصورات اور ان پرعملی اقدامات ہمہ گیر ہیں ۔ دور حاضر میں جن کا مطالعہ اور عملی نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدمتِ خلق کو کس قدر اہم اورمقدس قرار دیا اس کا اندازہ حدیث مبارکہ سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے : خیر الناس من ینفع الناس ۔ (کنزالعمال، ج:8، حدیث نمبر:42154،چشتی)
ترجمہ : تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں کےلیے سراپا رحمت اور لطف و عطاہے- مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترجیح فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : بیوہ اور مسکین کےلیے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ قعنبی کو شک ہے کہ شاید امام مالک علیہ الرحمہ نے یہ بھی فرمایا کہ اس شب بیدار کی طرح ہے جو کبھی سستی محسوس نہیں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا ۔ ( صحیح بخاری، ج:5، حدیث نمبر:5661،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسی شخص نے سوال کیا ۔ بہترین اسلام کون سا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ، ’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث 2)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے ۔ (حاکم المستدرک علی الصحیحین، ج:2، حدیث:7172،چشتی)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل رہنمائی کرتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے ’’حقیر سے حقیر پیشہ اپنانا کسی کے آگےہاتھ پھیلانے سے بہترہے‘‘ اسلام نے درس دیاہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دی جائے ۔ اگر معاشرے میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی قسم کا ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتا ہے یا کوئی شخص کوئی ہنر جانتا ہے لیکن اس میں پختہ نہیں ہے اور پوری طرح کام نہیں کر سکتا تو ایسے شخص کو ہنر سکھانا یا ہنر میں قابل بنانا اس کی رہنمائی کرنا اور کام سلیقے سے کرنے کے لائق بنانا نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ سےروایت کردہ حدیث رہنمائی کرتی ہے : حضرت ابو ذرغِفاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے برتر اور افضل عمل کون سا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں نے دریافت کیا کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا زیادہ فضیلت کا کام ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا وہ جس کی قیمت زیادہ ہو میں نے عرض کیا کہ اگر میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکو ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مدد کرو جو (غربت کی وجہ سے) ضائع ہو رہا ہو جو شخص اپنا کام نہ کر سکے میں نے عرض کی اگر یہ بھی نہ کر سکوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے وجود پر کررہا ہے ۔ (صحیح بخاری، کتاب العتیق، باب ابی الرقاب افضل)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیواؤں کی بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم دی ہے ۔ قبل از ظہورِ اسلام جب عورت بیوہ ہوجاتی تو مرنے والے کے رشتے دار اسے مالِ وراثت تصور کرتے ہوئے قابض ہو جاتے اور پھر اس کی بقیہ زندگی کسی کنیز سے بہتر نہ ہوتی ۔ مرحوم کے عزیز و اقارب اسے نہ صرف وراثت سے محروم کر دیتے بلکہ اس کا جینا بھی محال کر دیتے ۔ ہوس بھری نگاہوں کے نشتر ہمیشہ اس (بیوہ) کے تعاقب میں رہتے ۔ اسلام نے بیوہ کو احسن طریقے سے زندگی گزارے کے حقوق سے ہمکنار کیا اور معاشرے میں اس کی عزت و تکریم کا اہتمام کیا ۔ اہلِ عرب بیواؤں سے نکاح کو پسند نہ کرتے جس سے وہ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار رہتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بیوہ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام عطا فرمایا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا : بیوہ اور مسکین کےلیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے ۔ (صحیح بخاری جلد نمبر 5 حدیث نمبر :5660،چشتی)

ایک مسلم خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی ہے اس لیے اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے جسے اسلام نے تقدس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنے ہی مردوں اور عورتوں کنواریوں اور بیواؤں کے نکاح کرواتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ارشادات سے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے مختلف پہلو بیان فرمائے اور اس کی اہمیت واضح کی جیسا کہ ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ : تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر ان لوگوں کا حق ہے ۔ (1) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ۔ (2) غلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا ۔ (3) اوراپنی عفت محفوظ رکھنےکےلئے نکاح کرنے والا ۔ (سنن ترمذی، کتاب الجہاد،حدیث:1655،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی ۔ (صحیح بخاری جلد 5 حدیث نمبر : 5659)

اسلامی معاشرے کے وہ افراد جو اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی فریضہ اشاعت و ترویجِ اسلام اور اسلامی حکومت کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں ۔ ایسے افراد کے اہلِ خانہ کی حفاظت و نگہبانی ، اگر حاجت مند ہوں تو ان کی امداد کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہدا ، مجاہدینِ اسلام کے اہل خانہ سے خصوصی شفقت فرماتے حدیث مبارکہ شاہد ہے : جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو تیار کیا (ثواب میں شریک ہوا) اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں سے کوئی بھلائی کی تو اس نے جہاد کیا (یعنی جہاد کے ثواب میں شریک ہوا) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر:2843،چشتی)

سردارانِ مکہ کی سخاوت و فیاضی اگرچہ ضرب المثل تھی لیکن یتامیٰ اور مساکین اور وسائل سے محروم افراد کی مدد کرتے وقت ان کے ہاتھ رُک جاتے تھے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے معاشرے میں معاشی استحکام کےلیے اہلِ ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی کیونکہ اسلام کے نقطہ نظر پر مبنی انفاق فی المال درحقیقت اپنے سرمایہ و دولت کو یتامیٰ اور مساکین اور معاشرے کے پست طبقات پر اس طرح خرچ کرنا ہے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہوجائے اور ان کی تخلیقی جدوجہد بحال ہو جائے اور وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بہ تحسین و خوبی سرانجام دے سکیں ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اطعام المساکین ، الحض علی الطعام ، انفاق فی سبیل اللہ ، زکوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے پُرزور الفاظ کے ذریعے ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کیا ۔ انفاق فی المال کی ترغیب دلاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خرچ کر تجھ پر (بھی) خرچ کیا جائے گا‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور دن رات کی فیاضی سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی ۔ کیا تم نہیں دیکھتے اس نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں کتنی فیاضی کی ہے لیکن اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ جلد 2 حدیث نمبر : 993،چشتی)

سود کو عربی زبان میں ربو/ربا کہتے ہیں لغوی اعتبار سے اس کا معنی کسی چیز کا زیادہ ہونا اور بڑھنا مراد ہے ۔ اصطلاحاً ربا سے مراد مال میں وہ زیادتی ہے جو سرمایہ دار اپنے مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کر حاصل کرتا ہے ۔ اگر بہ نظرغائر مطالعہ کیا جائے تو جدید کیا ہر دَور کے تمام پیچیدہ اور لاینحل مسائل کی بنیاد اور سب سے بڑی وجہ سودی معیشت اور اس پر مبنی سرمایہ داری ہے ، جس پر اپنےاعمال اور اپنے ارشادات سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کاری ضرب لگائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت کا ذکر ملتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : سود کے ستّر (70) سے زائد درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح ہے (گناہ میں اس کے برابر) ۔ (منذری، الترغیب والترھیب، ج:3، حدیث نمبر:2846،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاں جائز اور حلال ذرائع معیشت کی نشاندہی کی وہیں دوسری طرف ناجائز اور حرام ذرائع معیشت کو واضح طور پر بیان کیا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رشوت کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی ہے کہ : رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ (بیہقی، شعیب الایمان، ج:4، حدیث نمبر:5520)

رشوت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان تمام برائیوں کو جو معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جیسے قحبہ گری و عصمت فروشی سے کمایا ہوا مال ، چوری ، لوٹ مار،دھوکہ اور ظلم و غصب سے حاصل کیے ہوئے مال کو بھی حرام قرار دیا ۔

فرد کےلیے صرفِ مال کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے کہ اتنا خرچ کرے جتنا مناسب اور ضروری ہو ، نہ ہی بخل و کنجوسی سے کام لینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی اسراف و تبذیر کو شعار بنانے کو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ۔ (سورہ بنی اسرائیل:27)
ترجمہ : بے شک فضول خرچی والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کئی مواقع پر اسراف و تبذیر کی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے : کھاؤ اور پیئو اور دوسروں پر صدقہ کرو کپڑے بناکر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر نہ ہو ۔ (ابو یعلیٰ، المسند، ج:2، حدیث نمبر:1328،چشتی)

بحیثیتِ مسلمان سیرتِ طیبہ کےمطالعےسے ہمیں رفاعی کاموں کی ترجیح و ترغیب کی کامل رہنمائی ملتی ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اور سماجی رفاعہ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔ الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پہ فرض عائد ہوتا ہےکہ کسی مخصوص گروہ ، رنگ و نسل اور زبان سے بلا امتیاز بلا غرض و غایت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں انسانی ہمدردی ، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کےلیے کام کیا جائے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ الحَمْدُ ِلله الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام دور دراز دیہاتوں میں خدمتِ خلق اور غریب بچوں کو مفت عصری و دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے : ⬇

اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ الفیض فاٶنڈیشن پاکستان کے زیرِ انتظام خدمتِ خلق ، دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، استاذہ کرام کے وظاٸف ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر : ⬇ 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)