حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ ہفتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جب حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ تشریف لائے اور فرمایا، میرا بیٹا مجھے دکھاٶ ، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا : ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”حسن“ ہے۔ پھر جب اِمام حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ نے فرمایا ، مجھے میرا بیٹا دکھاٶ آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا : نہیں‘ اِس کا نام ”حسین“ رکھو ۔ جب تیسرے شہزادے پیدا ہوئے تو آپ نے فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاٶ ، آپ نے اِس کا کیا نام رکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا ”حرب“ نام رکھا ہے ۔ نبی کریم نے فرمایا : ”حرب“ نہیں بلکہ اِس کا نام ”محسن“ ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا ” میں نے اِن کے نام (حضرت) ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں ۔ اُن کے نام شبر ، شبیر اور مبشر تھے ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (الادب المفرد کنزالعمال تہذیب تاریخ دمشق لا بن عساکر)
اِسی لیے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو شبر و شبیر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ سُریانی زبان میں شبر و شبیر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ ” حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں ۔“ عرب کے زمانہ جاہلیت میں یہ دونوں نام نہیں تھے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ 118،چشتی)
حضور نبی کریم نے واشگاف الفاظ میں خبر غیب سے اُمّت کو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی جنت کے جوانوں کی سرداری کی نوید سے نوازا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم نے فرمایا ”بے شک (حضرت) حسن اور (حضرت) حسین رضی اللہ عنہما دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ (بخاری، فتح الباری ، عمدة القاری ، مشکوٰة ، مسند احمد)
واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے ۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے لہذا اس غم کا اظہار مرثیہ وماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے ، واویلا کرنا ، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا ، کپڑے پھاڑنا ، بدن کو زخمی کرنا ، نوحہ و جزع فزع کرنا ، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں ۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا ۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل ﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔ ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام ، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے حضرت ام حبیبہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جو عورت ﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے ۔ (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز،چشتی)
حضرت امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ جلد 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے ۔
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون ساسنی ہوگا جسے واقعہ ہائلہ کربلا کا غم نہیں یا اس کی یاد سے اس کا دل محزون اور آنکھ پرنم نہیں ، ہاں مصائب میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اسے جھوٹا اظہارِغم ریاء ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری خلافِ رضاہے ۔ جسے اس کاغم نہ ہو اسے بیغم نہ رہنا چاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ۔ (فتاوى رضویہ، جلد 24، صفحہ 500، 501، رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے ۔ (عرفان شریعت ، حصہ اول، صفحہ: 15)
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا ۔ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں ۔
کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کر دیے۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے ۔ تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں ۔ (رسالہ تعزیہ داری)
تعزیہ بنانا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے (ملفوظات شریف، ص 286)
تعزیہ پر منت ماننا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر منت ماننا باطل اور ناجائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا اور اس کا کھانا کیسا ؟
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تعزیہ پر چڑھاوا چڑھانا ناجائز ہے اور پھر اس چڑھاوے کو کھانا بھی ناجائز ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 21، ص 246، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
محرم الحرام میں ناجائز رسومات
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام کے ابتدائی 10 دنوں میں روٹی نہ پکانا، گھر میں جھاڑو نہ دینا، پرانے کپڑے نہ اتارنا (یعنی صاف ستھرے کپڑے نہ پہننا) سوائے امام حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کے کسی اور کی فاتحہ نہ دینا اور مہندی نکالنا، یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، ص 488، جلد 24،رضا فاؤنڈیشن، لاہور،چشتی)
محرم الحرام میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ محرم الحرام میں (خصوصاً یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں، سبز رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے۔ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے نہ پہنے جائیں کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے، لہذا مسلمانوںکو اس سے بچنا چاہئے ۔ (احکام شریعت)
عاشورہ کا میلہ
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کا میلہ لغو و لہو و ممنوع ہے۔ یونہی تعزیوں کا دفن جس طور پر ہوتاہے، نیت باطلہ پر مبنی اور تعظیم بدعت ہے اور تعزیہ پر جہل و حمق و بے معنیٰ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
دشمنانِ صحابہ کی مجالس میں جانا
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ رافضیوں (دشمنانِ صحابہ) کی مجلس میں مسلمانوں کا جانا اور مرثیہ (نوحہ) سننا حرام ہے۔ ان کی نیاز کی چیز نہ لی جائے، ان کی نیاز، نیاز نہیں اور وہ غالباً نجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم از کم ان کے ناپاک قلتین کا پانی ضرور ہوتا ہے اور وہ حاضری سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجب لعنت۔ محرم الحرام میں سبز اور سیاہ کپڑے علامتِ سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ خصوصاً سیاہ (لباس) کا شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتویٰ رضویہ جدید، 756/23 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مسلمانوں کو چاہیے کہ محرام الحرام میں خرافات سے بچیں ۔ سبیلوں اور دکانوں پر نوحہ اور مرثیہ کی کیسٹیں ہرگز نہ بجائیں ۔ (مزیدحصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment