Wednesday 2 March 2022

شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات حصّہ دوم

0 comments

 شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شعبان کا چاند دیکھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے ، اپنے مالوں کی زکوۃ نکالتے تاکہ کمزور اور مسکین لوگ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے پر قادر ہوسکیں ، حکمران قیدیوں کو بلاکر اگر حد کے نفاذ کا مسئلہ ہوتا تو حد نافذ کر دیتے ورنہ اُن کو آزاد کر دیتے ، تاجر حضرات اپنے حساب و کتاب اور لین کی ادائیگی سے فارغ ہونے کی کوشش میں لگ جاتے تاکہ ہلالِ رمضان دیکھ کر اپنے آپ کو عبادت کےلیے وقف کرسکیں ۔ (غنیۃ الطالبین :1/341)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے ، چنانچہ فرمایا : شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے ۔ شَعْبَانُ شَهْرِيْ وَرَمَضَانُ شَهْرُ اللهِ ۔ (کنز العمّال :35172،چشتی)

اِس کے بابرکت ہونے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ دعاء ہی کافی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اس میں برکت کی دعاء مانگی ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دعاء پڑھا کرتے تھے : اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبَ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرمااور اور ہمیں (بخیر و عافیت) رمضان المبارک تک پہنچا دیجئے ۔(شعب الایمان :3534)
شعبان گناہوں سے پاک ہونے کا مہینہ ہے : اِرشادِ نبوی ہے : رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کا اور شعبان کا مہینہ میرا مہینہ ہے ، شعبان کا مہینہ پاک کرنے والا اور رمضان کا مہینہ گناہوں کو مٹانے والا ہے ۔ شَهْرُ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ، وَشَهْرُ شَعْبَانَ شَهْرِيْ ، وَشَعْبَانُ الْمُطَهِّر ، وَ رَمَضَانُ الْمُكَفِّرُ ۔ (أخرجہ ابن عساکر فی التاریخ:72/155)

شعبان کے مہینے میں روزہ دار کے لیے خیرِ کثیرہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : شعبان کو ”شعبان“ اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں روزہ رکھنے والےکے لئے بہت سی خیریں اور بھلائیاں (شاخوں کی طرح) پھوٹتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ جنت میں جاپہنچتا ہے ۔ إِنَّمَا سُمِّيَ شَعْبَانُ لِأَنَّه يَتَشَعَّبُ فِيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ لِلصَّائِمِ فِيْهِ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ ۔( کنز العمّال :35173،چشتی)

شعبان کے مہینے میں اعمال کی پیشی : اِس مہینے میں اعمال کی پیشی ہوتی ہے ، چنانچہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں: رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے ، (عام طور پر) لوگ اُس سے غفلت کا شکار ہ ہوتے ہیں ، حالآنکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ۔ شَعْبَانُ بَيْنَ رَجَبٍ وَشَهْرِ رَمَضَانَ، يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، يُرْفَعُ فِيهِ أَعْمَالُ الْعِبَاد ۔ (شعب الایمان :3540)

ماہِ شعبان کے اعمال اس مہینے سے متعلق دو طرح کے کام ہیں :

(1) قابلِ عمل یعنی کرنے کے کام ۔

(2) قابلِ ترک یعنی چھوڑنے کے کام ۔

قابلِ عمل کام : یعنی وہ کام جن کو اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور وہ سنت سے ثابت ہیں ۔ ایسے کام درج ذیل ہیں : ⬇

شعبان کے مہینے کا چاند دیکھنے کا اہتمام : اِسلامی مہینوں کی حفاظت اور اُن کی صحیح تاریخوں کا یاد رکھنا فرض کفایہ ہے ، کیونکہ اُن پر بہت سے شرعی احکام موقوف ہیں ، چنانچہ حج کا صحیح تاریخوں میں اداء کرنا ، رمضان المبارک کے روزوں اور زکوۃ کی ادائیگی اور اس کے علاوہ کئی شرعی امور قمری تاریخوں پر موقوف ہیں ، لہٰذا مسلمانوں کو قمری مہینوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیئے ، اور شعبان کے بعد چونکہ رمضان المبارک کا عظیم مہینہ آرہا ہوتا ہے اِس لئے ہلالِ شعبان کو اور بھی زیادہ اہتمام اور شوق سے دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شعبان کا چاند بڑے اہتمام سے دیکھا کرتے تھے، چنانچہ روایت میں آتا ہے،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہلالِ شعبان کی جتنی حفاظت کرتے تھے اتنی کسی اور مہینے کی نہ کرتے تھے۔كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَفَّظُ مِنْ هِلَالِ شَعْبَانَ مَا لَا يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ۔(دار قطنی:2149)

شعبان کے مہینے میں برکت کی دعاء : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا مہینہ داخل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دعاء پڑھا کرتے تھے : ”اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبَ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ“ اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرمااور اور ہمیں (بخیر و عافیت) رمضان المبارک تک پہنچادیجئے ۔ (شعب الایمان :3534،چشتی)

شعبان کے مہینے میں روزوں کی کثرت : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روزہ رکھنے کے لئے تمام مہینوں میں شعبان کا مہینہ سب سے زیادہ محبوب تھا، آپ یہ چاہتے تھے کہ روزہ رکھتے رکھتے اُسے رمضان کے ساتھ ملادیں۔عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ:كَانَ أَحَبَّ الشُّهُورِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَصُومَهُ: شَعْبَانُ، ثُمَّ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ۔(سنن ابوداؤد:2431)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا ۔ مَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ۔(مسلم:1156)۔(بخاری :1969)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوائے چند قلیل ایام کے شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے ۔ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا۔(مسلم:1156،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشَّهْرِ مِنَ السَّنَةِ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ۔(مسلم:1156)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ رمضان المبارک کے بعد کون سا روزہ افضل ہے ؟ آپ نے اِرشاد فرمایا : وہ روزہ جو رمضان کی تعظیم میں شعبان کے مہینے میں رکھا جائے۔عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ: «شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ»۔(ترمذی:663)
ایک حدیث میں رمضان کے بعد محرم کے روزے کو سب سے افضل کہا گیا ہے ۔ (ترمذی:438)
دونوں میں کوئی تعارض نہیں ، اِس لیے کہ رمضان کے بعد مرتبہ کے اعتبار سے مطلقاً دیکھا جائے تو حدیث کے مطابق محرّم ہی کا روزہ افضل ہے ، لیکن جب اِستقبالِ رمضان کی تعظیم کا اعتبار کیا جائے تو شعبان سے افضل کوئی روزہ نہیں ۔ اور رمضان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے آنے سے قبل ہی روزہ رکھ کر نفس کو بھوک و پیاس برداشت کرنے کا عادی بنایا جائے تاکہ اچانک سے ماہِ رمضان شروع ہوجانے سے طبیعت پر بوجھ نہ ہو اور کوئی بات خلافِ ادب سرزد نہ ہو ۔

شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بکثرت روزے رکھنے کی وجہ : اِس کی وجہ یہ تھی ، جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ اِس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال کی پیشی ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ روزے کی حالت میں اعمال کی پیشی ہو۔حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان کے مہینے میں مَیں آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں جتنا کہ کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا ، اِس کی کیا وجہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے ،(عام طور پر) لوگ اُس سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں ، حالآنکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کےحضور پیش کیے جاتے ہیں ، تو مَیں یہ چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اِس حالت میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أَرَاكَ تَصُومُ فِي شَهْرٍ مَا لَا أَرَاكَ تَصُومُ فِي شَهْرٍ مثل مَا تَصُومُ فِيهِ، قَالَ:أَيُّ شَهْرٍ؟، قُلْتُ: شَعْبَانُ، قَالَ:شَعْبَانُ بَيْنَ رَجَبٍ وَشُهِرِ رَمَضَانَ، يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، يَرْفَعُ فِيهِ أَعْمَالَ الْعِبَادِ، فَأُحِبُّ أَنْ لَا يُرْفَعَ عَمَلِي إِلَّا وَأَنَا صَائِمٌ ۔ (شعب الایمان :3540،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے خطبہ دیتے اور فرماتے : تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے پس تم اُس کے لئے تیاری کرواور اُس میں اپنی نیتوں کو درست کرلو ۔كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ قَبْلَ رَمَضَانَ خَطَبَ النَّاسَ ثُمَّ قَالَ: أَتَاكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ فَشَمِّرُوْا لَهُ وَأَحْسِنُوْا نِيَّاتِكُمْ فِيْهِ۔(کنز العمال عن الدّیلمی: 24269)
ہر چیز کی تیاری اُس کے آنے سے پہلے ہوتی ہے ، مثلاً مہمان کی آمد ہو تو اُس کے آنے بعد نہیں ، آنے سے پہلے تیاری ہوتی ہے ، اِسی طرح رمضان بھی مؤمن کے لئے ایک بہت ہی اہم اور معزز مہمان ہے ، اُس کی قدر دانی کے لئے بھی پہلے سے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہونا چاہیے ۔
رمضان المبارک کی تیاری میں دوچیزیں ہیں : (1) دنیاوی اعتبار سے ۔ (2) دینی اعتبار سے ۔
دنیاوی اعتبار سے : اِس طرح کہ دنیاوی مشاغل و مصروفیات سے اپنے آپ کو جس قدر بھی فارغ کرسکتے ہوں کرلیں ، تاکہ رمضان المبارک کا مہینہ مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت اور رجوع الی اللہ میں گزارا جاسکے۔اِس کےلیے چند اہم تجاویز ذکر کی جارہی ہیں ، اِن کی مدد سے ان شاء اللہ اپنے آپ کو رمضان کے لئے فارغ کیا جا سکتا ہے : عید کی تمام شاپنگ شعبان المعظم میں ہی کرکے فارغ ہوجائیں ، کیونکہ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کو شاپنگ مال اور مارکیٹس کے نذر کرنا ، بالخصوص جبکہ اُس کی وجہ سے روزہ ،نمازیں اور تراویح کی نماز متاثر ہوتی ہو یہ رمضان جیسے عظیم اور بابرکت کی بڑی ناقدری ہے ، جس میں عوام و خواص بہت سے لوگ مبتلاء نظر آتے ہیں ۔
راشن اور گھر کا دیگر سودا سلف جو روز مرّہ کے معمولات میں خریدا جاتا ہے ، وہ رمضان المبارک ہی میں جہاں تک ممکن ہو ایک ساتھ ہی خرید کر فارغ ہوجائیں تاکہ رمضان المبارک میں یکسوئی حاصل ہوسکے ۔
جو کام رمضان المبارک میں موقوف کیے جاسکتے ہوں اُنہیں موقوف کردیجئے ۔ہم اگر اپنے کاموں کا جائزہ لیں تو بہت سے ایسے کام نظر آئیں گے جنہیں اگر ایک مہینے تک ہم نہ کریں تو کوئی حرج لازم نہیں آئے گا ، مثلاً اخبار بینی ، دوستوں کے ساتھ گپ شپ ، ٹی وی دیکھنے اور انٹر نیٹ استعمال کرنے کی مصروفیت ، سیل فونز پر کی جانے والی بہت سی فضول اور لا یعنی مشغولیت، آؤٹنگ کے نام پر کی جانے والی پکنک اورتفریحات ، ویک اینڈ منانے کےلیے فوڈز پوائنٹ پر جانا ، یہ اور اِس جیسے اور بھی بہت سے ایسے کام ہیں جن میں بہت سے فضول اور لغو ہیں اور بہت سے گناہ کے زمرے میں آتے ہیں ، ان سب سے بچنا ضروری ہے اور رمضان المبارک میں ایسے کاموں سے اجتناب کرنااور بھی ضروری ہے ۔
سال بھر میں دفتر اور ملازمت سے ملنے والی ایسی چھٹیاں جن کو آپ کسی بھی استعمال کرسکتے ہوں اُن کو اِستعمال کرنے کے لئے رمضان المبارک کے مہینے سے بہتر کوئی وقت نہیں ، ایسی چھٹیوں کو رمضان میں استعمال کیجئے تاکہ خوب یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ صرف ایک کام یعنی عبادت اور رجوع الی اللہ کیا جا سکے ۔
دینی اعتبار سے : رمضان کی تیاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شعبان المعظم کے مہینے میں ہی اپنے دن اور رات کے معمولات کو کچھ اِس طرح ترتیب دیجئے کہ فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات کا بھی خوب اہتمام ہونا شروع ہوجائے،پانچوں فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ مسجد میں اداء کیجیے ، قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کریں ، نفلی نمازیں : اِشراق ، چاشت ، اوّابین اور تہجد وغیرہ کا اہتمام شروع کردیں اور خوب دعائیں مانگنے کی کوشش کریں ۔
یاد رکھیے ! دینی اور دنیاوی اعتبار سے رمضان کی تیاری کا مطلب شعبان میں ہی تیاری کرنا ہے کیو نکہ ہلالِ رمضان کے نکلنے کے بعد تیاری کرتے کرتے کافی وقت لگ جاتا ہے ، اور پھر اُن معمولات کی عادت بنتے بنتے بھی دیر لگتی ہےاور اِسی میں رمضان المبارک کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے ، اِس لیے جو بھی تیاری کرنی ہے وہ آمدِ رمضان سے قبل ہی کرکے فارغ ہوجائیں ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔