Saturday, 12 March 2022

مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ چہارم

 مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ چہارم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : فقیر نے یہ مضمون فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 29 سے ترتیب دیا ہے آج کل اس مسلہ پر اہلسنت کے لبادے میں چھپے رافضی بہت اچھل کود کر رہے ہیں اور بیہودہ زبان کے ساتھ ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی شان میں مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو لے کر غلیظ و گندی زبان استعمال کر رہے ہیں سو فقیر نے مناسب سمجھا اس بارے میں اہلسنت کا مؤقف امام اہلسنت کی تحاریر کی روشنی میں پیش کیا جائے تاکہ سادہ لوح مسلمانان اہلسنت ان فریبیوں کے فریب سے اور گستاخیوں و گستاخوں سے محفوظ رہیں : ⬇


مسئلہ ۱۳۵و ۱۳۶: از لاہور مسجد بیگم شاہی اندرون دروازہ مستی مرسلہ صوفی احمد الدین طالب علم ۲۶ صفر ۱۳۳۸ھ ، حضرت ہادی و رہنمائے سالکاں قبلہ دوجہاں دام فیضہ السلام علیکم ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ مسائل ذیل میں حضرت کیا فرماتے ہیں۔

(۱) حضرت علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ پر ایك روز خفا ہوئے،اور روافض کہتے ہیں یہی وجہ ہے باغی ہونے کی،پھر ایك کتاب مولانا حاجی صاحب کی تصنیف اعتقاد نامہ ہے جو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اس میں یہ شعر بھی درج ہے :

حق در آنجا بدست حیدر بود جنگ بااوخطا و منکر بود ۔

(حق وہاں حیدر کرار رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں تھا ان کے ساتھ جنگ غلط اور ناپسندیدہ تھی)

(۲) امام حسن رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے خلافت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے سپرد کی تھی واسطے دفع جنگ کے۔


الجواب : (۱) روافض کا قول کذب محض ہے،عقائد نامہ میں خطاو منکربود نہیں ہے بلکہ خطائے منکر بود۔اہل سنت کے نزدیك امیر معاویہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ کی خطا خطاء اجتہادی تھی،اجتہاد پر طعن جائز نہیں،خطاء اجتہادی دو۲ قسم ہے،۱مقرر و ۲ منکر ، مقرر وہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اُس سے تعرض نہ کیا جائے گا،جیسے حنفیہ کے نزدیك شافعی المذہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا،اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی ﷲ تعالٰی عنہم کہ قطعی جتنی ہیں اور ان کی خطاء یقینًا اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں،یا اینہہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولٰی علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم نے کیا باقی مشاجراتِ صحابہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم میں مداخلت حرام ہے،


حدیث میں ہے نبی کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا ذکر اصحابی فامسکوا ۔ ترجمہ : جب میرےصحابہ کا ذکر آئے تو زبان روکو ۔ (المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲۷ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/ ۹۶)


دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم : ستکون لاصحابی بعد زلۃ یغفرھا ﷲ لھم لسابقتھم ثم یاتی من بعد ھم قوم یکبھم ﷲ علی مناخرھم فی النار ۔

ترجمہ : قریب ہے کہ میرے اصحاب سے کچھ لغزش ہوگی جسے ﷲ بخش دے گا اُس سابقہ کے سبب جو ان کو میری سرکار میں ہے پھر ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو ﷲ تعالٰی ناك کے بل جہنم میں اوندھا کردے گا ۔ (المعجم الاوسط حدیث ۳۲۴۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۴/ ۱۴۲ و مجمع الزوائد ۷/ ۲۳۴)


یہ وہ ہیں جو اُن لغزشوں کے سبب صحابہ پر طعن کریں گے ، ﷲ عزوجل نے تمام صحابہ سید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو قرآن عظیم میں دو قسم کیا :

(۱) مومنین قبل فتح مکہ و مومنین بعد فتح۔اول کو دوم پر تفضیل دی اور صاف فرمادیا" وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ"(القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ۔ سب سے ﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔اور ساتھ ہی ان کے افعال کی تفتیش کرنے والوں کا منہ بند فرمادیا " وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿٪۱۰﴾ " (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ۔ ﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو،با ینہہ وہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا پھر دوسرا کون ہے کہ ان میں سے کسی کی بات پر طعن کرے،وﷲ الہادی ، وﷲ تعالٰی اعلم


(۲) بے شك امام مجتبی رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے امیر معاویہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ کو خلافت سپرد فرمائی ۔ اور اس سے صلح و بندش جنگ مقصود تھی اور یہ صلح و تفویضِ خلافت ﷲ و رسول کی پسند سے ہوئی۔رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے امام حسن کو گود میں لے کر فرمایا تھا : ان ابنی ھذا سیدولعل ﷲ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین ۔

ترجمہ : میرا یہ بیٹا سید ہے میں امید کرتا ہوں کہ ﷲ اس کے سبب سے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرادے گا ۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب مناقب الحسن والحسین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۳۰،مشکوۃ المصابیح باب مناقب اھل بیت النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم مطبع مجتبائی دہلی ص۵۶۹)

امیر معاویہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ اگر خلافت کے اہل نہ ہوتے تو امام مجتبٰی ہر گز انہیں تفویض نہ فرماتے نہ ﷲ و رسول اسے جائز رکھتے وﷲ تعالٰی اعلم ۔


مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم


حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیئے ۔ ( اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)


ہم اہلسنت ان میں حق ، جانب جناب مولٰی علی ( مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی تطہیر و بریت ( پاکدامنی و عفت اور منافقین کی بہتان تراشی سے براء ت ) میں آیات نازل فرمائے اور ان پر تہمت دھرنے والوں کو وعیدیں عذابِ الیم کی سنائے ۔ (القرآن الکریم ۲۴/ ۱۹)


نوٹ : بریلی شریف سے شائع ہونے والے رسالہ میں مذکور کہ یہاں اصل میں بہت بیاض ہے ، درمیان میں کچھ ناتمام سطریں ہیں مناسبت مقام سے جو کچھ فہم قاصر میں آیا بنادیا ۱۲ اس فقیر نے ان اضافوں کو اصل عبارت سے ملا کر قوسین میں محدود کردیا ہے تاکہ اصل و اضافہ میں امتیاز رہے اور ناظرین کو اس کا مطالعہ سہل ہو۔ اس میں غلطی ہو تو فقیر کی جانب منسوب کیا جائے ۔ (محمد خلیل عفی عنہ)


حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں اپنی سب ازواجِ مطہرات میں زیادہ چاہیں، جہاں منہ رکھ کر عائشہ صدیقہ پانی پئیں حضور اُسی جگہ اپنا لبِ اقدس رکھ کر وہیں سے پانی پئیں، یوں تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سب ازواج ( مطہرات ، طیبّات طاہرات) دنیاو آخرت میں حضور ہی کی بیبیاں ہیں مگر عائشہ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کے حق میں ارشاد ہوا کہ یہ حضور کی بی بی ہیں دنیا و آخرت میں حضرت خیر النساء یعنی فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کو حکم ہوا ہے کہ فاطمہ ! تو مجھ سے محبت رکھتی ہے تو عائشہ سے بھی محبت رکھ کہ میں اسے چاہتا ہوں۔ ( چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ سے فرمایا)


اَیْ بنیۃ ! الست تحبّین ما احب ؟ فقالت بلٰی قال فاحبّی ھٰذہ؂ پیاری بیٹی ! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تو اس سے محبت نہیں رکھتی؟ عرض کیا : بالکل یہی درست ہے ( جسے آپ چاہیں میں ضرور اسے چاہوں گی) فرمایا تب تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر) ۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل فضائل عائشہ رضی اللہ عنہا قدیمی کتب خانہ ۲/ ۲۸۵،چشتی)

سوال ہوا سب آدمیوں میں حضور کو کون محبوب ہیں؟ جواب عطا ہوا : عائشہ ۔؂ (صحیح البخاری ابواب مناقب اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ ۱/ ۵۱۷)،(صحیح مسلم ٓباب فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ ۲/ ۲۷۳)،(مسند احمد بن حنبلٓ عن عمروبن العاص المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۲۰۳) ۔ ( وہ عائشہ صدیقہ بنت الصدیق ، اُمّ المومنین، جن کا محبوبہ رب العالمین ہونا آفتاب نیم روز سے روشن تر، وہ صدیقہ جن کی تصویر بہشتی حریر میں رُوح القدس خدمتِ اقدس سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر لائیں ۔ وہ ام المومنین کہ جبرئیل امین بآں فضل مبین انہیں سلام کریں اور ان کے کاشانہ عزت و طہارت میں بے اذن لیے حاضر نہ ہوسکیں ، وہ صدیقہ کہ ﷲ عزوجل وحی نہ بھیجے ان کے سوا کسی کے لحاف میں ۔ وہ ام المومنین کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر سفر میں بے ان کے تشریف لے جائیں ان کی یاد میں واعروساہ ؂ فرمائیں ۔

(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۲۴۸)

وہ صدیقہ کہ یوسف صدیق علیہ الصلوۃ والسلام کی براء ت و پاکدامنی کی شہادت اہلِ زلیخا سے ایک بچہ ادا کرے بتول مریم کی تطہیر و عفت مآبی، روح ﷲ کلمۃ ﷲ فرمائیں، مگر ان کی براء ت ، پاک طینتی ، پاک دامنی و طہارت کی گواہی میں قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ نزول فرمائیں۔ و ہ ام المومنین کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے پانی پینے میں دیکھتے رہیں کہ کوزے میں کس جگہ لب مبارک رکھ کر پانی پیا ہے حضور پُر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے لب ہائے مبارک و خدا پسند و ہیں رکھ کر پانی نوش فرمائیں۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہا وعلٰی ابیہا وبارک وسلم ۔

آدمی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھے اگر کوئی اس کی ماں کی توہین کرے اس پر بہتان اٹھائے یا اسے بُرا بھلا کہے تو اس کا کیسا دشمن ہوجائے گا اس کی صورت دیکھ کر آنکھوں میں خون اُتر آئے گا، اور مسلمانوں کی مائیں یوں بے قدر ہوں کہ کلمہ پڑھ کر ان پر طعن کریں تہمت دھریں اور مسلمان کے مسلمان بنے رہیں۔ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

اور زبیر وطلحہ ان سے بھی افضل کہ عشرہ مبشرہ سے ہیں۔ وہ (یعنی زبیر بن العوام) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حواری (جاں باز، معاون و مددگار ) اور یہ ( یعنی طلحہ) رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرے انور کے لیے سپر، وقت جاں نثاری ( جیسے ایک جاں نثار نڈر سپاہی و سرفروش محافظ)

رہے امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تو اُن کا درجہ ا ن سب کے بعد ہے۔

اور حضرت مولٰی علی ( مرتضی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الاسنی)کے مقام رفیع (مراتب بلند وبالا) و شانِ منیع (عظمت ومنزلتِ محکم واعلا) تک تو ان سے وہ دور دراز منزلیں ہیں جن ہزاروں ہزار رہوار برق کردار ( ایسے کشادہ فراخ قدم گھوڑے جیسے بجلی کا کوندا ) صبا رفتار ( ہوا سے بات کرنے والے ، تیز رو، تیز گام ) تھک رہیں اور قطع ( مسافت) نہ کرسکیں۔

مگر فضلِ صحبت ( و شرفِ صحابیت وفضل) وشرف سعادت خدائی دین ہے۔( جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کرسکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارا رکھیں اور کیسے سمجھ لیں کہ مولٰی علی کے مقابلے میں انہوں نے جو کچھ کیا بربنائے نفسانیت تھا۔صاحب ایمان مسلمان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی۔

ہاں ایک بات کہتے ہیں اور ایمان لگتی کہتے ہیں کہ) ہم تو بحمدﷲ سرکار اہلبیت ( کرام) کے غلامانِ خان زاد ہیں( اور موروثی خدمت گار، خدمت گزار) ہمیں (امیر) معاویہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے کیا رشتہ خدانخواستہ ان کی حمایت بے جا کریں مگر ہاں اپنی سرکار کی طرفداری (اور امرِ حق مین ان کی حمایت وپاسداری) اور ان ( حضرت امیر معاویہ) کا (خصوصاً) الزام بدگویاں(اور دریدہ دہنوں، بدزبانوں کی تہمتوں سے بری رکھنا منظور ہے کہ ہمارے شہزادہ اکبر حضرت سبط (اکبر ، حسن) مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حسبِ بشارت اپنے جدِّا مجد سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد اختتامِ مدت ( خلافت راشدہ کہ منہاج نبوت پر تیس سال رہی اور سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چھ ماہ مدتِ خلافت پر ختم ہوئی) عین معرکہ جنگ میں ایک فوج جرار کی ہمراہی کے باوجود) ہتھیار رکھ دیے (بالقصدوالا ختیار) اور ملک (اور امور مسلمین کا انتظا م و انصرام) امیر معاویہ کو سپرد کردیا ( اور ان کے ہاتھ پر بیعت اطاعت فرمالی) اگر امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ العیاذ باﷲ کافر یا فاسق تھے یا ظالم جائر تھے یا غاصب جابر تھے-(ظلم وجور پر کمربستہ) تو الزام امام حسن پر آتا ہے کہ انہوں نے کاروبار مسلمین و انتظام شرع و دین باختیارِ خود (بلا جبروا کراہ بلا ضرورت شرعیہ، باوجود مقدرت) ایسے شخص کو تفویض فرمادیا (اور اس کی تحویل میں دے دیا) اور خیر خواہی اسلام کو معاذ ﷲ کام نہ فرمایا (اس سے ہاتھ اٹھالیا) اگر مدت خلافت ختم ہوچکی تھی اور آپ (خود) بادشاہت منظور نہیں فرماتے تھے) تو صحابہ حجاز میں کوئی اور قابلیت نظم و نسق دین نہ رکھتا تھا جو انہیں کو اختیار کیا۔ اور انہیں کے ہاتھ پر بیعتِ اطاعت کرلی) حاش ﷲ بلکہ یہ بات خود رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک پہنچتی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی پیش گوئی میں ان کے اس فعل کو پسند فرمایا اور ان کی سیادت کا نتیجہ ٹھہرایا کما فی صحیح البخاری (جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے) صادق و مصدوق صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت فرمایا : ان ابنی ھذا سیدلعل ﷲ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین۔۱؂ ( میرا یہ بیٹا سید ہے، سیادت کا علمبردار ) میں امید کرتا ہوں کہ اللہ عزوجل اس کے باعث دو بڑے گروہ اسلام میں صلح کرادے۔

(صحیح البخاری کتاب الصلح باب قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم للحسن الخ و مناقب الحسن و الحسین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۷۳ و ۵۳۰،چشتی)

آیہ کریمہ کا ارشاد ہے : ونزعنا مافی صدور ھم من غل ۔۱؂ اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیئے ۔ جو دنیا میں ان کے درمیان تھے اور طبعیتوں میں جو کدورت و کشیدگی تھی اسے رفق والفت سے بدل دیا اور ان میں آپس میں نہ باقی رہی مگر مودت و محبت ۔ (؂القرآن الکریم ۷/ ۴۳)

اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی کہ آپ نے فرمایا کہ ان شاء ﷲ تعالٰی میں اور عثمان اور طلحہ و زبیران میں سے ہیں جن کے حق میں ﷲ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا کہ نزعنا الایۃ ۔

حضرت مولٰی علی کے اس ارشاد کے بعد بھی ان پر الزام دینا عقل و خرد سے جنگ ہے، مولٰی علی سے جنگ ہے، اور خدا و رسول سے جنگ ہے ۔ والعیاذ باﷲ۔

جب کہ تاریخ کے اوراق شاہد عادل ہیں کہ حضرت زبیر کو جونہی اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے فوراً جنگ سے کنارہ کشی کرلی ۔

اور حضرت طلحہ کے متعلق بھی روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مدد گار کے ذریعے حضرت مولٰی علی سے بیعت اطاعت کرلی تھی۔

اور تاریخ سے ان واقعات کو کون چھیل سکتا ہے کہ جنگ جمل ختم ہونے کے بعد حضرت مولٰی علی مرتضی نے حضرت عائشہ کے برادر معظم محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور دیکھیں کہ حضرت عائشہ کو خدا نخواستہ کوئی زخم وغیرہ تو نہیں پہنچا۔ بلکہ بعجلت تمام خود بھی تشریف لے گئے اور پوچھا۔ آپ کا مزاج کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا الحمدﷲ اچھی ہوں ۔ مولٰی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ﷲ تعالٰی آپ کی بخشش فرمائے ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اور تمہاری بھی ۔ پھر مقتولین کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر حضرت مولٰی علی نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واپسی کا انتظام کیا اور پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ محمد بن ابی بکر کی نگرانی میں چالیس معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو جانب حجاز رخصت کیا۔خود حضرت علی نے دور تک مشایعت کی، ہمراہ رہے، امام حسن میلوں تک ساتھ گئے۔ چلتے وقت حضرت صدیقہ نے مجمع میں اقرار فرمایا کہ مجھ کو علی سے نہ کسی قسم کی کدورت پہلے تھی اورنہ اب ہے۔ ہاں ساس، داماد( یا دیور، بھاوج ) میں کبھی کبھی جو بات ہوجایا کرتی ہے اس سے مجھے انکار نہیں ۔

حضرت علی نے یہ سن کر ارشاد فرمایا لوگو ! حضرت عائشہ سچ کہہ رہی ہیں خدا کی قسم مجھ میں اور ان میں اس سے زیادہ اختلاف نہیں ہے، بہرحال خواہ کچھ ہو یہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زوجہ ہیں ( اور ام المومنین) ۔

ﷲ ﷲ ! ان یارانِ پیکر صدق و صفا میں باہمی یہ رفق و مودت اور عزت و اکرام اور ایک دوسرے کے ساتھ یہ معاملہ تعظیم و احترام، اور ان عقل سے بیگانوں اور نادان دوستوں کی حمایت علی کا یہ عالم کہ ان پر لعن طعن کو اپنا مذہب اور اپنا شعار بنائیں اور ان سے کدورت و دشمنی کو مولٰی علی سے محبت و عقیدت ٹھہرائیں ۔ ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔

مسلمانانِ اہلسنت اپنا ایمان تازہ کرلیں اور سن رکھیں کہ اگر صحابہ کرام کے دلوں میں کھوٹ ، نیتوں میں فتور اور معاملات میں فتنہ و فساد ہو تو رضی اللہ عنھم کے کوئی معنی ہی نہیں ہوسکتے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عند ﷲ مرضی و پسندیدہ ہونے کے معنی یہی تو ہیں کہ وہ مولائے کریم ان کے ظاہر و باطن سے راضی ، ان کی نیتوں اور مافی الضمیر سے خوش ہے ، اور ان کے اخلاق و اعمال بارگاہِ عزت میں پسندیدہ ہیں ۔ اسی لیے ارشاد فرمایا ہے کہ: ولٰکن ﷲ حبّب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم ۔ (القرآن الکریم ۴۹/ ۷) ۔ یعنی ﷲ تعالٰی نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیاہے اور کفر اور حکم عدولی اوار نافرمانی تمھیں ناگوار کردئیے اب جو کوئی اس کے خلاف کہے اپنا ایمان خراب کرے اور اپنی عاقبت برباد۔ ، والعیاذ باﷲ ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...