مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ام المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراضات کے جوابات : جنگ جمل میں شرکت کی وجہ سے حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو سطحی قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں ذیل میں ان میں سے کچھ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے : ⬇
اعتراض نمبر 1 : قرآن پاک میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو اپنے گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں شرکت کر کے قرآن مجید کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے ۔
اس اعتراض کا جواب : مشہور مثال ہے ”المعترض کالاعمیٰ“ یہی حال مذکورہ اعتراض کرنے والوں کا بھی ہے ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت کریمہ ”و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن“ میں استقرار فی البیوت کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک خاص نوعیت اور کیفیت کے ساتھ ہے اور وہ جاہلیت کی رسم کے مطابق زیب و زینت کے ساتھ بغیر پردے کے گھر سے باہر نکلنا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے قول کے مطابق اگر امہات المومنین کو گھروں سے نکلنا منع ہوتا تو وہ درج ذیل احکام شرع پر کیسے عمل کرتیں حالانکہ بالاتفاق مندرجہ ذیل احکام ان کے حق میں بھی وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ امور سر انجام بھی دیئے ہیں :
(1) حج و عمرہ کے لیے جانا
(2) غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت اپنے حجروں سے نکل کر عیادت کے لیے حضرت عائشہ کے حجرہ مقدسہ میں جانا
(4) فوت شدگان کی تعزیت کے لیے جانا
(5) والدین اور اقارب کی ملاقات کے لیے تشریف لے جانا
(6) عیادت مریض کے لیے تشریف لے جانا
(7) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب امہات المومنین سفر حج کے لیے جانے لگیں تو ان کے ساتھ محافظ کے طور پر سیدنا عثمان غنی اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف کو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے روانہ کیا۔(تفسیر روح المعانی جلد 22 صفحہ 12 تحت الایہ قرن فی بیوتکنچشتی)
اس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کا اپنے گھروں سے نکلنا مطلقا منع نہ تھا، اس لیے امہات المومنین مذکورہ بالا امور شرعیہ کو پوری زندگی سر انجام دیتی رہیں اور دینی معاملات کو پورا کرنے کے لیے تستر اور حجاب کے ساتھ گھروں سے نکلتی رہیں اور آج گئے گزرے دور میں بھی پردہ نشین عورتیں ستر وحجاب کی پابندیوں کے ساتھ سفر کے لیے نکلتی ہیں خاص طور پر وہ سفر جو دینی، ملی یا دنیاوی مصالح پر مبنی ہو جیسے حج و عمرہ اور جہاد وغیرہ ۔
جنگ جمل کے موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ایک دینی مصلحت یعنی اصلاح بین الناس اور مطالبہ قصاص ازخلیفہ عادل کے لیئے سفر اختیار فرمایا تھا جو کہ بالکل صحیح تھا اور اس کا جواز حج و عمرہ کی طرح ہے۔ چنانچہ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بھی اس نوعیت کا تھا کہ مسلمانوں میں باہم رخنہ پڑگیا تھا اس کی اصلاح ہو اور امام عادل کے قتل کے قصاص کے مطالبہ میں سب مسلمان متفق اور شریک ہوں... آپ کا یہ سفر حج و عمرہ کے سفر کی مانند تھا ۔ (تحفہ اثنا عشریہ ص630 عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی،چشتی)
اعتراض نمبر 2 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بغیر محرم کے تھا لہذا ، عند الشرع صحیح نہ تھا ۔
اس اعتراض کا جواب : یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس لیئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر ایک نیک مقصد کے لیئے تھا اور شرعی محارم کے ہمراہ تھا، علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ام المؤمنین کے ساتھ آپ کی بہنوں ؛ حضرت اسماء اور ام کلثوم کے صاحبزادے اس سفر میں موجود تھے ۔ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دریں سفر عبداللہ بن زبیر ہمشیرہ زادہ حقیقی وے ہمراہ وے بود وطلحہ بن عبیداللہ شوہر خواہرش ام کلثوم بنے ابی بکر وزبیر بن العوام شوہر خواہر دیگرش بود اسمائ بنت ابی بکر واولاد ایں ہر دو نیز ہمراہ بود ۔ (تحفہ اثناء عشریہ ص330 طبع لاہور در تحت جواب طعن اول)
نیز عظیم مفسر سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وکان معہا ابن اختہا عبداللہ بن الزبیر وغیرہ من ابناء اخواتہا ام کلثوم زوج طلحہ واسماء زوج الزبیر بل کل من معہا بمنزلۃ الابناء فی المحرمیۃ وکانت فی ہودج من حدید ۔ (روح المعانی ج22ص10 تحت الایۃ وقرن فی بیوتکن) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اماں جی رضی اللہ عنہا کا یہ سفر محارم کے ساتھ ہوا تھا۔ اس لیے یہ اعتراض ساقط الاعتبار ہے ۔
اعتراض نمبر 3 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ قتال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عناد اور عداوت کی وجہ سے کیا تھا اور اس میں ناکامی کی وجہ سے بعد میں شرمندگی کا اظہار کرتی تھیں اور رویا کرتی تھیں ۔ نیز یہ اعتراض حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں حضرات کو بھی حضرت علی کی خلافت سے شدید عداوت تھی، حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ ایک بہانہ تھا ۔
اس اعتراض کا جواب : اس اعتراض کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں :
(1) : یہ اعتراض بھی جہلاء نے اہلِ بیتِ رسول سے بغض و عداوت کی وجہ سے وضع کیا ہے حالانکہ اہل بیت رسول کے ساتھ امیر المومنین سیدنا علی اور دیگر اصحاب رسول کا بہت ہی اچھا برتاؤ تھا اور اہل بیت بھی حضرت علی المرتضی اور اصحاب رسول سے محبت و مودت کا تعلق رکھتے تھے (رضی اللہ عنہم ) ۔
(2) : واقعہ جمل پر صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ندامت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ امیر المومنین محبوب المسلمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس واقعہ پر اظہار افسوس اور متاسفانہ کلام منقول ہے ذیل میں دو حوالے درج کیے جاتے ہیں : (1) سید محمود آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فقد صح انہ رضی اللہ عنہ لما وقع الا نہزام علی من مع ام المومنین وقتل من قتل من الجمعین طاف فی مقتل القتلیٰ کان یضرب فخذیہ ویقول : یا لیتنی مت من قبل ھذا وکنت نسیا منسیا . (روح المعانی ج22ص11 )
(2) امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت امیر قتلی را ملاحظہ فرمود، را نہائے خود را کوفتن گرفت و مے فرمود یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا . (تحفہ اثناء عشریہ ص335،چشتی)
مذکورہ دونوں حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب جمل کے مقتولین پر نظر ڈالی تو اس وقت بے ساختہ طور پر اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ کاش میں اس سے قبل فوت ہوگیا ہوتا اور بھلا دیا گیا ہوتا ۔ کیا معترضین اب حضرت علی کے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو انہوں نے اماں جی کے بارے میں کہاہے بلکہ اس مقام پر حضرت علی المرتضی کے کلام سے جو مراد لیا گیا ہےحضرت عائشہ کے فرمان میں بھی اسی قسم کا کلام پایا گیا ہے اور اس کا مقصد و محمل بھی وہی ہے ۔
(3) حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کا واقعہ جمل کے بعد اس پر تاسف کرنا اور پریشان ہونا خشیت الہی اور تقوی کی بناء پر تھا اور مسلمانوں کے باہم قتال اور افتراق بین المسلمین پر تھا۔ اس سے جانبین کی باہمی عداوت اور عناد کا تصور قائم کرنا اصل کلام کے محمل سے بعید تر ہے اور مقصد کلام کے خلاف ہے اور توجیہ القول بمالا یرضی بہ القائل کے قبیل سے ہے ۔
اعتراض نمبر 4 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگ جمل کے سفر میں نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بلکہ اس پر جمی بھی رہیں وہ اس طرح کہ اہل تشیع کی عام روایات اور اہل السنۃ کی بعض روایات میں ہےکہ حضرت عائشہ کا لشکر مکہ سے بصرہ کی طرح جب عازم سفر ہوا تو راستہ میں ایک ایسے مقام سے گزرا جہاں پانی تھا تو وہاں کتوں نے بھونکنا شروع کردیا ۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسامقام ہے ؟ تو محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس جگہ کو ”حوآب“ کہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ فرمانے لگیں کہ ”ردونی“ مجھے واپس لے چلو کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تم میں سے اس کا کیا حال ہوگا جس پر حوآب کے کتے بھونکیں گے۔ اس پر حضرت طلحہ و زبیر اور لشکر کے دیگر نے تحقیق کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ مقام ماء الحوآب نہیں ہے ۔ لوگوں کی شہادت کے بعد حضرت عائشہ نے پھر آگے سفر شروع کردیا ۔ اس روایت کی بناء پر مخالفین صحابہ سیدہ پر سخت معترض ہوئے کہ انہوں نے اس فرمان نبوی کی علانیہ مخالفت کی اور بصرہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا ۔
اس اعتراض کا جواب : اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے
(1) روایت کے اعتبار سے (2) درایت کے اعتبار سے ۔
روایت کے اعتبار سے :
(1) : مستند کتب احادیث میں یہ روایت نہیں ہے ۔
(2) : واقعہ کی اکثر سندوں کا آخری راوی قیس بن ابی حازم ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے اور اس سے کئی منکر روایات مروی ہیں جن میں سے ایک روایت ”کلاب الحوآب“ بھی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الحجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں : قال ابن المدینی قال لی یحیی بن سعید: قیس بن ابی حازم منکر الحدیث ثم ذکر لہ یحیی احادیث مناکیر منہا حدیث کلاب الحوآب.
( تہذیب التہذیب ج8ص388 تحت قیس بن ابی حازم )
(3) : اس واقعہ کی بعض روایات میں عبدالرحمان بن صالح ازدی پایا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ جلنے والا شیعہ ہے اور صحابہ کرام کے حق میں مثالب و مصائب کی بری روایات بیان کرتا ہے اور کوفہ کے مشہور غالی جلنے والے شیعوں میں سے ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج4ص1627 تحت عبدالرحمان بن صالح، العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیۃ لامام ابن الجوزی جلد 2 صفحہ 366،چشتی)
(4) : عظیم محقق مولانا محمد نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس واقعہ کی عام روایات عموما عند المحدثین سقیم پائی جاتی ہیں اور بیشتر علماء کےنزدیک اس واقعہ کی روایت منکر و مجروح ہیں ۔ (سیرت سید علی المرتضی ص241)
(5) : واقعہ حوآب مورخین کے نزدیک کوئی متفق علیہ امر نہیں ہے کہ جس کا انکار کرنا مشکل ہو کیونکہ قدیمی مورخین میں سے اکثر نے اس واقعہ کو اس مقام میں ذکر ہی نہیں کیا شہادت کے طور پر ہم فریقین کے ایک ایک مؤرخ کا فقط نام ذکر کرتے ہیں : (1) خلیفہ بن خیاط م240ھ ۔ (2) صاحب اخبار الطوال احمد بن داود دینوری شیعی م282ھ ۔ بعض مورخین نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور اور مجروح ہے مثلا مورخ الطبری نے اپنی تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی سند علماء فن کے نزدیک مجروح ہے۔ مثلا :
(1) طبری کا استاد اسماعیل بن موسی فزاری ہے جو غالی شیعہ ہے
(2) پھر اس کا استاد علی بن عابس الرزاق بالکل غیر معتبر ہے۔
(3) اس کے بعد دو راوی ابو الخطاب الہجری اور صفوان بن قبیصہ الاحمسی دونوں مجہول ہیں ۔
(4) پھر ان سے اوپر والے راوی صاحب الجمل العرنی اور اس کے بعد العرش کو ایک سوار ملتا ہے العرنی اور سوار دونوں مجہول ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ طبری کی یہ روایت مذکورہ بالا کوائف کی وجہ سے بالکل بے حکم ہے، ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، بعد والے لوگوں نے طبری سے ہی نقل کی ہے ۔
درایت کے اعتبار سے : اگر بالفرض ”روایت حوآب “کو درست تسلیم کر لیا جائے اور علماء کی تنقیدات سے صرف نظر کرلیا جائے تب بھی درایت کے اعتبار سے جواب یہ ہے کہ پیش کردہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عامر کے پانیوں سے گزرنے سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہے بلکہ خود حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے اپنے ازواج مطہرات کو بطور پیش گوئی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں ایک کو یہ مصیبت پیش آئے گی جو بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ اس حدیث سے نہی سمجھنا اور مخالفت رسول پر اصرار اور ضد کی نسبت سیدہ صدیقہ کی طرف کرنا بالکل غلط ہے اور سیدہ اس اعتراض سے بری ہیں ۔ ﴿جنگِ صفین﴾
بلادِشام کی مشرق جانب میں ایک مقام ہے جس کا نام ”صفین “ ہے۔ وہاں فریقین کی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔ یہ محرم 37ھ کا واقعہ ہے ۔
فریقین کا موقف : حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں موقف یہ تھا کہ فریق مقابل کے مطالبہ قصاصِ دمِ عثمان کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بیعت کریں، اس کے بعد اپنا قصاص عثمانی کا مطالبہ مجلس خلیفہ میں پیش کریں۔ بعد ازاں حکم شریعت کے مطابق اس مطالبہ کا شرعی فیصلہ کیا جائے گا ۔ (البدایہ لابن کثیر جلد 8 صفحہ 127 تحت ترجمہ معاویہ)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت میں متعدد صحابہ کرام تھے جو ملک شام میں رہتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ظلماً شہید کےگئے ہیں اور ان کے قاتلین علوی جیش میں موجود ہیں، لہذا ان سے قصاص لیاجائے اور ہمارا مطالبہ صرف قصاص دم عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے خلافت کے بارے میں ہمارا نزاع نہیں ہے ۔
واما الخلافۃ فلسنا مطلبھا . (الفتنۃ وقعۃ الصفین لنصرین تراجم المنقری الشیعی ص 70)
حجۃ معاویۃ ومن معہ ماوقع معہ من قتل عثمان رضی اللہ عنہ مظلوماً ووجود قتلتہ باعیا نھم فی العسکر العراقی ۔ (فتح الباری ج3ص246 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
ولیس المراد بما شجر بین علی رضی اللہ عنہ ومعاویۃ رضی اللہ عنہ المنازعۃ فی الامارۃ کما تو ھمہ بعضہم وانما المنان عنہ کانت بسبب تسلیم قتلۃ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الیٰ عشیرتہ لیقتصوا منھم . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص27 المسامرۃ للکمال بن ابی شریف ص 158،159،چشتی)
مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں فریقین کے موقف سامنے آگئے ہیں ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مطالبہ پر حضرت رضی اللہ عنہ طرف سے جو رائے تھی وہ درج ذیل ہے : لان علیا کان رای ان تاخیر تسلیمھم اصوب اذ العبادۃ بالقبض علیہم مع کثرۃ عشائرھم واختلاطہم بالعسکر یودی الیٰ اضطراب امر الامارہ . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77الصواعق المحرقۃ مع تطہیر الجنان ص216،چشتی)
لہذا تعجیل کی بجائے تاخیر کرنی چاہیے ۔ فریقین کے موقف یہی تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے نظریات پر شدت کے ساتھ قائم رہے تاآنکہ یہ واقعہ پیش آیا ۔
ایک اشکال مع جواب : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عام اشکال یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کا حق وارث کو ہوتاہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کیوں کیا ؟
اس کا جواب خود شیعہ کتب میں موجود ہے : ان معاویۃ یطلب بدم عثمان ومعہ ابان بن عثمان وولد عثمان رضی اللہ عنہ . ( کتاب سلیم بن قیس الکوفی الہلالی العامری الشیعی ص 153 مطبوعہ نجف)
یعنی دم ِ عثمان کے قصاص کے مطالبہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابان بن عثمان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیگر فرزند شامل تھے ۔
اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں : فریقین کے درمیان اس دور کے بعض اکابر حضرات کے ذریعے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یہ کوشش کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قیام گاہ سے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے شروع ہوئی اور دیگر حضرات کے ذریعے تخلیہ اور صفین کے مقامات پر قیام کے دوران بھی یہ کوشش جاری رہی ۔ (البدایہ ج7ص253،258 سیر اعلام النبلاء للذھبی ج3ص93)
لیکن فریقین اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے آخر قتال کی صورت پیش آئی ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فتر اسلوا فلم یتم لھم امر فوقع القتال الیٰ ان قتل من الفریقین ۔ (فتح الباری ج13ص73،چشتی)
جانبین میں مر اسلت ہوئی لیکن کسی بات پر معاملہ طے نہ ہو سکا تو قتال واقع ہوا اور فریقین سے لوگ مقتول ہوئے ۔
ان کی صحیح تعداد اللہ کومعلوم ہے۔ جیسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقتل فی ھذاالموطن خلق کثیر من الفریقین لا یعلم الا اللہ.(البدایہ ج7ص271)
البتہ جن اکابر کی اس قتال میں شہادت ہوئی ہے ان میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت خزیمہ بن ثابت ، رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھےاور حضرت عبیداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا، حضرت ذوالکفل اور حوشب رضی اللہ عنہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت میں سے شہید ہوئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بعض مورخین کے قول کے مطابق بدھ ، جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کی رات ماہ صفر 37ھ کے اوقات اس جنگ میں مشکل ترین تھے اور ان ایام میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔( البدایہ ج7ص261)
آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی دعوت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور طے ہوا کہ ہر فریق کی طرف سے ایک ایک حکم اس مسئلے کے فیصلے کے لیے منتخب کیا جائے ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص فیصل تسلیم کیے گئے اور طے ہوا کہ ہر دو فریق کے یہ دونوں فیصل دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کریں گے ۔ (تاریخ خلیفہ ابن خیاطِ ج 1ص173،174 العبر للذھبی ج1ص43،چشتی)
اعتراض نمبر 5 : مخالفین کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت پر سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا تھا ۔
جواب : اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں، ان میں سے دوتین درج کیے جاتے ہیں :
(1) جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق مقابل کو سب وشتم کرنے کا ذکر ہے وہ سب روایات قواعد فن کی رو سے درست نہیں۔ ان کے راوی اور ناقلین مجروح اور مردود الروایۃ ہیں۔ مثال کے طور پر اس قسم کی روایات کے راوی ابو مخنف لوط ،یحیی، ابو جناب یحیی بن ابی حی کلبی اور ہشام بن سائب کلبی ہیں اور یہ لوگ علماء رجال کے نزدیک کذاب، دجال، جھوٹے، مفتری، شیعہ امامیہ اور رافضی ہیں اور یہ لوگ روایات میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرنے والے اور دروغ گوئی کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کی روایات ناقابل اعتبار اور متروک ہیں۔
(2) بعض اوقات کلام میں الفاظ توسختی اور تلخ قسم کے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے مراد گالی گلوچ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات باہمی درشت کلامی، سخت گوئی اور تلخ نوائی کو راوی سب و شتم سے تعبیر کردیتے ہیں ایسے مواقع پر صرف فریق مخالف کے عیوب کی نشان دہی کرنا اور دوسرے کی رائے کو غلط اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، لعن طعن اور گالی مقصود نہیں ہوتی ۔
(3) اگر بالفرض کسی جگہ روایات میں سب و شتم اور لعن طعن پایا بھی جائے تو اس کے مقابل ان روایات پر بھی نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن روایات میں سب و شتم اور لعن طعن سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ان متقابل روایات میں قاعدہ ”والمحرم مقدم علی المبیح“ کے مطابق تطبیق دی جائے گی اور سب و شتم اور لعن و طعن سے منع کرنے والی روایات کو اباحت والی روایات پر ترجیح دی جائے گی ۔
محترم قارئینِ کرام : فقیر نے انتہائی دیانتداری اور مہذب انداز میں مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ پانچ مضامین لکھے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے غلطیوں کا امکان موجود ہے اہلِ علم جہاں کہیں غلطی پائیں اس فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے بے ادبی و گستاخی سے بچائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment