امر بالمعروف و نہی عن المنکر حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کسی کو ذرا احساس نہیں کہ ان کی کتاب زندگی جو مقدس و دیانتدار فرشتے تحریر فرما رہے ہیں ایک دن ان کے ہاتھوں میں تہما دی جائے گی اور کہا جائے گا ۔
اِقْرَأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا o
’’لے اپنی کتاب کو پڑھ لے، آج کے دن تو خود ہی اپنا محاسب (حساب کرنے کو) کافی ہے۔‘‘
آج کے خزاں رسیدہ و پرفتن دور میں معاشرتی خرابیاں جس عروج پر پہنچ چکی ہیں اس کے تناظر میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہر انسان پر فرض ہو چکا ہے ۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو ۔ قرآن مجید میں ہمارے جو اوصاف وارد ہوئے ہیں وہ یہ ہیں کہ : کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۔ (سورہ آلعمران 110:3)
’’تم ایک بہترین امت ہو، جو لوگوں کی اصلاح و ہدایت کیلیے ظاہر کی گئی ہو، نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اس سے پہلے ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا:وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (آلعمران 104:3)
’’اور تم میں ایک امت ( لوگوں کا ایک منظم گروہ، جماعت ) ایسی ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائیں، اچھی باتوں کا حکم دیں
اور بری باتوں سے منع کریں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
پھراللہ رب العزت نے اس ( امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کے معاملہ میں عورتوں کو بھی مردوں کا رفیق قرار دیا اور فرمایا کہ دونوں مل کر یہ عظیم کارنامہ (پیغمبرانہ وصف، فریضہ نبوت و خلافت) سر انجام دیں۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ‘ اُوْلٰٓءِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔
’’ اورمسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیں اور ہر برائی سے منع کریں، اور نماز قائم رکھیں اور زکوۃ دیں، اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا حکم مانیں، یہ ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ غالب، حکمت والا ہے ۔ (سورہ التوبہ 71:9)
مطلب یہ کہ اول تو ساری امت کی سعی و حرکت اور دوڑ دھوپ کا محور دعوت الی الخیر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہونا چاہیے، کیونکہ یہ عظیم جہاد (پیغمبرانہ وصف) ہر وقت ہر مسلمان مرد، عورت، بوڑھے، جوان، عاقل، بالغ پر فرض ہے کہ وہ بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کا حکم دیں، حق بات کی تلقین کریں اور بری باتوں سے منع کریں۔ لیکن اگر تجارتی و کاروباری مصروفیات کے باعث ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم لوگوں کا ایک ایسا منظم گروہ لازمی ہونا چاہیے جو صرف اور صرف اس عظیم کارنامے فریضہ نبوت و خلافت کی ادائیگی کیلیے وقف ہو۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ عظیم کارنامہ حکومت کی نگرانی میں سر انجام پانا چاہیے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اہل علم لوگوں کو منظم کرے، ان کی سرپرستی کرے اور انہیں دنیا کے کونے کونے پر دین حق کی تبلیغ و اشاعت کےلیے بھیجے۔ ریاست مدینہ سے تبلیغی قافلے حکومت کی نگرانی میں ہی نکلتے تھے، اور حکومت کے مقرر کردہ ہدف، علاقے میں جا کر یہ فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ مگر افسوس کہ آج ایسا نہیں ہو رہا۔ کیونکہ یہ کام اہل ایمان کا ہے اگر حکمران اہل ایمان ہوں تو ایسا کریں، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم مانیں اوریہ عظیم کارنامہ ’’فریضہ نبوت وخلافت ‘‘ سر انجام دیں۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان ہر وہ کام جو وہ اپنے رب کے احکام و ہدایات اور حدود سے قطع نظر کر کے کسی اور طریقے پر انجام دیتا ہے تو شیطان ہی اس کا آقا ہے اور وہ اس کا آلہ کار اور ایجنٹ ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی بجائے اس کی نافرمانی کے طریقے کو دنیا میں رائج کرنے اور معاشرہ میں اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتاہے۔ حالانکہ آپ دیکھیں کہ اس وقت ہمارے پاس الیکڑونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی صورت میں ایک انتہائی طاقتور اور مضبوط مشینری موجود ہے۔ اگر ہم اسے لوگوں کی اصلاح و ہدایت اور دین حق کی تبلیغ و اشاعت کیلیے استعمال کریں تو گھر بیٹھے بٹھائے پل بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے تک اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیغام پہنچا سکتے ہیں جوکہ ہماری بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔لیکن اس کے باوجود حال یہ ہے کہ اس مشینری کو چوبیس گھنٹے شیطانی خیالات کی تبلیغ و اشاعت کےلیے استعمال کیاجا رہا ہے۔ ہر وقت گمراہی و ضلالت کا درس دیا جارہا ہے، اسے فحاشی و عریانی، بد اخلاقی، غنڈہ گردی، ناچ راگ اور موسیقی وغیرہ کو فروغ دینے کےلیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرکہیں کوئی علمائے دین کا اجتماع ہو، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوں، رشد و ہدایت کی باتیں ہو رہی ہوں یا کہیں کوئی محفل نعت ہو، ملک بھر سے نعت خواں حضرات اکٹھے ہوں، اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکرخیر ہو رہا ہو تو اسے میڈیا سے دور رکھا جاتا ہے کہ کہیں کوئی سن کر ہدایت نہ پالے، اس کے برعکس اگر کہیں کوئی شیطانی ٹولوں (موسیقاروں، فنکاروں وغیرہ) کی چھوٹی سی تقریب ہو تو اسے براہ راست میڈیا پر لا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ پرنٹ میڈیا، اخبارات و جرائد میں ہر روز خصوصی صفحات شوبز، فحاشی و عریانی پھیلانے کیلیے وقف ہوتے ہیں۔دینِ حق کی تبلیغ و اشاعت کےلیے نہیں ۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ ہم اپنے آپ کو کیوں دجالیت کی طرف لے کر جا رہے ؟ ہم اپنے مالک حقیقی کو مندر کے بت کی حیثیت دے کر مسجد کی چار دیواری کے اندر تک محدود رکھنے پر مصر ہیں کہ بس پوجا (نماز) کے وقت آ کر اسے سجدہ کرلیا جائے لیکن زندگی کے باقی امور و معاملات میں اس کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ آج معاشرہ میں جو بے حیائی، بے شرمی، بے پردگی، فحاشی و عریانی، غنڈہ گردی، موسیقی، ڈرامہ و فلم سازی کی جو گرم بازار ی ہے یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ ہماری روز مرہ زندگی میں اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی عمل دخل نہیں۔ آج مسلم معاشرہ میں جو طرح طرح کی خرابیاں پائی جاتی ہیں جیسے سود خوری، رشوت ستانی، دھوکا بازی، فراڈ، فریب، زناکاری، چوری، بدکاری، ڈاکہ زنی، کیا یہ مسلمانوں کا شعار ہیں ؟ آج ہم نے گمراہی و ضلالت کے گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں اتنی گمراہی، جہالت، فحاشی و عریانی نہیں تھی جتنی آج ایک مسلم معاشرہ میں پائی جاتی ہے۔ کیا ہم نے ’’خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ اور ’’ امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس ‘‘کا حق ادا کیاہے؟ کیا ہم مسلمان کہلوانے کے حق دار ہیں؟
اگر ہمیں خود کو اللہ واحد القوی القہار کے غضب سے بچانا ہے تو ہمیں قرآن و سنت کی پیروی کرنا ہوگی۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ دینی ہو گی اور اسے اپنی روزمرہ زندگی میں عملی طور پر اپنانا ہو گا اور جہاد فی سبیل اللہ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی راہ اختیار کرنا ہوگی ۔
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو لوگ برے کام کرتے ہیں ان کا وبال انہی پر آئے گا، ہماری صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ ایسے لوگ یہ خیال اپنے ذہنوں سے نکال دیں۔جب اللہ کا عذاب آئے گا تو اس وقت خاص وعام، خطاکار و راست باز کی تفریق مٹ جائے گی بلکہ خطاکاروں کی نسبت راست بازوں کو زیادہ شدت کاعذاب ہو گا۔کہ انہوں نے ان کو برائی سے کیوں نہ روکا۔ اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کوواشگاف الفاظ میں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا۔
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo ۔ (الانفال25:8)
’’اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں خاص ظالموں تکہی محدود نہ رہے گا، اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ ‘‘
عذاب الٰہی سے صرف وہی لوگ بچ سکیں گے جو حق کی طرف بلاتے ہیں بھلائی کا راستہ دکھاتے ہیں، اچھی اور نیک باتوں کا درس دیتے ہیں اور بری باتوں سے نہایت سختی سے منع کرتے ہیں۔
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْھَوْنَ عَنِ السُّوْءِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَءِیْسٍ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَo
’’آخر کارجب انہوں نے ہماری ہدایت ( نصیحت ) کو بھولا دیا جو انہیں کی گئی تھی( جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا) تو ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے منع کرتے تھے اور باقی سب لوگوں کو ذلت کے بد ترین عذاب میں پکڑ لیا، بدلا ان کی نافرنیوں کا ۔ ( الاعراف 165:7)
یعنی بچا یاصرف ان لوگوں کو جو نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے منع کرتے تھے اور ہر وقت لوگوں کی اصلاح و ہدایت کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور باقی سب لوگ عابد وزاہد ذلت کے بد ترین عذاب میں پکڑ لیے گئے وہ بھی جو بالفعل برائیو ں میں مبتلا تھے اور وہ بھی جو اگرچہ خود برے کام نہیں کرتے تھے مگر دوسروں کواس سے روکتے نہیں تھے یا جنہوں نے دین کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھا ہوا تھا، اپنی ذات تک نمازی، پرہیزی اور عبادت گزار تھے لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے۔ اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا : ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصۃ حتیٰ یروا المنکر بین ظھرا نیھم وھم قادرون علی ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذالک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ ۔
’’اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا اس وقت تک جب لوگوں کی یہ حالت ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور وہ ان کو منع کرنے، برائی سے باز رکھنے اور ان کے خلاف اظہار ناراضگی کرنے کی قدرت رکھتے ہوں لیکن اس کے باوجود نہ تو وہ انہیں منع کریں اور نہ ہی ان سے اظہار ناراضگی کریں، جب لوگوں کا یہ حال ہوتاہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ بلا تمیز ہر خاص و عام کو ذلت کے عذاب میں پکڑ لیتا ہے اور آج معاشرہ کی بالکل یہی کیفیت ہے ۔
پھر فرمایا : والذی نفسی بیدہ لتامرون بالمعروف و لتنھون عن المنکر و لتاخذن علی ید المسی ولتاطرنہ علی الحق اطرا او لیضربن اللہ قلوب بعضکم علیٰ بعض اولیلعنکم کما لعنھم ۔
’’اس خدا کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تمہارے لیے لازم ہے کہ معروف (نیکی، بھلائی، اچھائی) کا حکم دو اور برائی سے لوگوں کو منع کرو، بدکار کا ہاتھ پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑ دو، ورنہ اللہ تعالیٰ بدکاروں کے دلوں کا زنگ معصیت حق پرستی کے دعوے داروں کے دلوں پر چڑھا دے گا یا تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح یہود پر کی ۔ (ابن کثیر)
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے اول تو انہیں منع کیا لیکن جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ بھی ان میں غل مل گئے اور کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے ان کے اس عصیان و تعدی کے سبب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی زبان سے ان پر لعنت اتاری۔
ذرا غور کریں اور دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ہم بدکاروں، موسیقاروں، فنکاروں، اداکاروں اور ان کے ساتھ الفت، محبت و عقیدت رکھنے والوں (اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان پر لعنت ہو، انہوں نے پورے معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے دوزخ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے) اوران ذلیلوں کے دیکھنے، سننے والوں کے ساتھ اٹھتے، بیٹھتے اور کھاتے، پیتے ہیں۔ آپ خود ہی اپنا محاسبہ کریں اور بتائیں کہ ہمارا کیا حشر ہوگا ؟
کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرِ فَعَلُوْہُ لَبِءْسَ مَاکَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۔
’’بیشک جو آپس میں ایک دوسرے کو بری باتوں سے منع نہیں کرتے وہ ضرور بہت ہی برا کام کرتے ہیں ۔ (المائدۃ79:5)
حدیث مبارکہ ہے : من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ ولیس وراءَ ذلک حبۃ خردل من الایمان ۔
’’ اگر تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے قوت بازو سے مٹا دے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اسے چاہیے کہ وہ زبان سے اس کے خلاف آواز بلند کرے اور اگر ایسا بھی نہ کر سکے تو دل میں اس کے خلاف نفرت ضرور پیدا کرے اور اگر یہ بھی نہ کرے تو جان لو کہ اس کے بعد ایمان کا اور کوئی درجہ نہیں ۔
یعنی وہ ایمان سے خالی ہے۔ اس کا اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان کا دعویٰ بے معنی ، بے بنیاد ، اور بے دلیل ہے ۔
اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مندرجہ بالا احکام سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کو صرف ذاتی طور پر مان لینا کافی نہیں ہے۔ حضور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرو کار اور ان کی امت ہونے کی حیثیت سے ہم پر واجب ہے کہ ہم نہ صرف اس کی تبلیغ و اشاعت کریں بلکہ اس کی اقامت و فروغ کی جدو جہد میں جان و مال کی بازی لگا دیں کیونکہ اس کے بغیر دین حق پر ایمان کا دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہر مسلمان ایک مبلغ ہے اور اپنی استعداد کے مطابق اس کی (دین حق کی) تبلیغ کا ذمہ دار ہے ۔ اسے چاہیے کہ اپنے گرد و نواح میں دیکھے جو لا تعداد مسلمان دین حق سے غافل اور اس سے ناواقفیت اور ناسمجھی کی بنا پر خلاف اسلام زندگی بسر کر رہے ہیں انہیں بھی وہی کچھ کرنے کی دعوت دے جو وہ خود کر رہا ہے۔ یعنی دین کے بارے میں جو کچھ اس نے سمجھا وہ دوسروں کو بھی سمجھائے ۔ صحیح اور سچا مسلمان بننے کےلیے ضروری ہے کہ دین حق کوصرف نظری اور اعتقادی حد تک ہی نہیں بلکہ اسے اپنے نظام حیات اور طرز زندگی کے طور پر اختیار کیا جائے۔ اسلام کاصرف زبانی اقرار جس کی تائید اعمال و افعال سے نہ ہو، خدا کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے تو پوری انسانیت کو یہ دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً بَعِیْدًا ۔ (النساء 116:4)
’’اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرمائے گا کہ کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ اس گناہ کے مرتکب کے سوا وہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اور جس نے کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا تو وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
اس سے اگلی آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں : اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّا اِنٰثًا وَ اِنْ یَّدْ عُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا ۔
’’یہ شرک کرنے والے اللہ کے سوا نہیں پوجتے مگر کچھ عورتوں کو، اور نہیں پوجتے مگر سرکش شیطان کو ۔ (النساء 117:4)
اس آیت مبارکہ میں شرک کرنے والوں کی خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ شرک کرنے والے اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ عورتوں اور سرکش شیطانوں کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم میں بھی، ہمارے معاشرہ میں بھی یہی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں عورت کی پوجا نہ کی جا رہی ہو،۔ ہمارے ہاں کوئی گھر، کوئی مکان، کوئی دکان ایسی نہیں جہاں ایک فحاش عورت کی برہنہ تصویر نہ لگی ہواور اس کی چاٹ پوس نہ کی جا رہی ہو۔ ہمارا کوئی کاروبار، ذریعہ معاش ایسا نہیں جس میں عورت کو روزی کا وسیلہ نہ بنایا گیا ہو، سیل گرل، ماڈل گرل،۔ تقریبا ہر کاروبار، ہر کارخانہ، ہر فیکٹری، ہر انڈسٹری اپنی مصنوعات کے ساتھ ایک فحاش عورت کی برہنہ تصویر شائع کرتی ہے تاکہ لوگ ان کے حسن و جمال کی طرف مائل ہو کر ہماری مصنوعات کو دیکھیں اور ان کے وسیلہ سے ہماری سیل میں اضافہ ہو ۔ تو کیا یہ شرک نہیں ہے ؟
اسی عورت کے نظریہ شرک کو دوسری رو سے دیکھیں کہ ہم ہر نماز کی ہرہر رکعت میں اللہ عزوجل سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’الحمد للہ رب العٰلمین‘‘ یعنی تمام تعریفیں اللہ ہی کیلیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘ گویا ہم نے اس بات کا اقرار کر لیا کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی شےء کوئی ہستی ایسی نہیں جو کسی قسم کی تعریف کے لائق ہو۔ لیکن اس اقرار کے باوجود ہم عورت کی شان میں نظمیں، گیت، غزلیں اور اشعار وغیرہ لکھ کر خوبصورت دھنوں، سازوں اور ڈانس و ناچ میں سجاکر بیان کرتے ہیں کہ اتنے خوبصورت انداز میں اللہ تعالیٰ کی شان میں لکھی گئی نظموں کو بیان نہیں کیا جاتا، جتنے خوبصورت انداز میں عورت کی تعریف، روپ، حسن و سنگھار کو بیان کیا جاتا ہے۔ پھر میڈیا پر ان کے نشر کیے جانے کے حوالے سے دیکھیں کہ دن میں کم از کم صرف ایک حمد (اللہ کی تعریف) نشر کی جاتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت نہیں کہ ایسا ہر روز ہوتا ہو، ہمارے اخبارات، رسائل، جرائدوغیرہ میں روزانہ کے کئی صفحات شوبز (فحاش عورتوں) کی نمائش کےلیے مخصوص ہوتے ہیں۔ہمارے قومی اخبارات میں علماء و محدثین اور ثناء خواں حضرات کےلیے جگہ ہی نہیں ۔ اگر کبھی کوئی نیک دن، نیک مہینہ آ جائے تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارا کوئی اللہ بھی ہے، ہمارا کوئی رسول بھی ہے۔ مگر عورت سال بھر یاد رہتی ہے۔ چوبیس گھنٹے اس کی تعریف میں نظمیں، غزلیں اور گیت وغیرہ نشر کیے جاتے ہیں۔ تو کیا یہ بھی شرک نہیں ہے؟ اس گنا ہ کا ارتکاب کرکے ہم بیک وقت دو کبیرہ گناہوں کا بوجھ اپنے سر اٹھاتے ہیں، ایک تو شرک کا اور دوسرا ایفائے عہد کا۔ یعنی وعدہ خلافی کا، کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرنے کے باوجود کہ ’’ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، تیرے سو ا کوئی کسی قسم کی تعریف کے لائق نہیں‘‘عورت کی تعریف کرتے ہیں۔
اے مسلمانو! خدا کےلیے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے اعمال و کردار پر نظر ڈالو، اپنے نفع و نقصان کا حساب لگائیے، جس جنس زندگی کوہم خالق کائنات سے امانتا لے کر اس دنیا کے بازار میں کچھ کمانے کیلیے آئے تھے اس کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کا کتنا حصہ نفع بخش کاموں میں لگایا اور کتنا نادانی سے بے کار گنوا دیا اور کس قدر دانستہ ونا دانستہ اس صاحب امانت کی منشاء بلکہ اس کے صریح احکام و ہدایات کے خلاف دوسرے کاموں میں خرچ کر ڈالا۔ ہاں ! ابھی وقت ہے اگر صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے،ابھی ہمارے پاس بہت سا وقت ہے کہ ہم سوچیں، اپنا محاسبہ کریں کہ ہماری جسمانی و دماغی قوتیں اور صلاحیتیں، ہماری انفرادی و اجتماعی جدو جہد اور کاوش ، ہمارے کاروبار اور تجارتیں، ہماری محبتیں اور عداوتیں، ہمارے زیر تربیت آئندہ آنے والی نسلیں، ہمارے مال ودولت اور جائیدادیں، مختصر یہ کہ روزمرہ زندگی کے وہ تمام ذرائع اور وسائل جو اللہ رب العزت نے ہمیں صرف اپنی اطاعت و بندگی اور فریضہ نبوت و خلافت کی ادائیگی کےلیے عطا فرمائے تھے وہ اب تک کن کاموں اور کن مقاصد کےلیے استعمال کیے ؟ کیا وہ تمام تر یا بیشتر نظام باطل کے قیام، خدا سے بے نیا ز و سرکش اقتدار کے استحکام اور خدا کی زمین پر فتنہ و فسادات پھیلانے کےلیے استعمال ہوتے رہے یا ان کا کچھ حصہ اللہ ذوالجلال اور اس کے دین کےلیے بھی صرف ہوا۔اگر ہمیں آخرت کی ذرا بھی فکر ہے تو ہمیں سنجیدگی سے اپنا حساب لگا کر دیکھناہو گا کہ ہماری جملہ مادی، جسمانی ودماغی قوتیں، قابلیتیں خدا سے بے نیازی و بغاوت پر مبنی نظام زندگی کو چلانے اور اسے مستحکم کرنے میں کتنا حصہ لے رہی ہیں ؟ اور کس قدر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے متعین کروہ نظام حیات کے قیام کےلیے صرف ہو رہی ہیں ؟ ہمارے کاروبار، تجارتیں، صنعتیں کہاں تک اللہ عزوجل کی مقرر کردہ حدود (حلال و حرام، جائز و ناجائز) کے مطابق چل رہی ہیں اور کہاں تک ان (حدود اللہ) سے آزاد اور بے بہرہ ہیں ؟ ہماری ساری دوڑ دھوپ، کاوشیں قرب طاغوت کےلیے ہیں یا رضائے الٰہی کے حصول کےلیے ؟ کیا ہم نے آئندہ آنے والی نسلوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی پسندیدہ راہ پر چلنے اور اس کی خوشنودی کی خاطر جینے اور مرنے کےلیے تیار کر رہے ہیں یا اپنی اس عزیز متاع قلیل کو مغضوب اور ضالین کے قدم بقدم چلنے کے قابل بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ؟ ہمارے مال ودولت اور دوسرے وسائلِ زندگی کا کتنا حصہ طاغوت کیلیے ہے، کتنا خود اپنے نفس کےلیے اور کتنا دین حق کی اقامت کی جدو جہد کو پروان چڑھانے کےلیے ہے؟اور پھر ہم اپنا حساب لگائیں اور دیکھیں کہ ہم نے کتنے بے گناہ، مظلوم مسلمانوں کا خون، جس کی حرمت،عزت و احترام اللہ عزوجل کے نزدیک بیت اللہ کی حرمت، عزت و احترام سے زیادہ ہے، طاغوت، شیطان کبیر، فرعون زمانہ، ظلم و فسادات کی جڑ امریکہ اور اس کے گماشتوں، صیہونی و سامراجی قوتوں کی وفاداری میں بہایا اور اب بھی بے دریغ بہائے جا رہے ہیں اور کتنے کامل مومنین، مجاہدین، اللہ کے بندوں کو نام نہاد دہشت گردی کے الزام میں پکڑ کر شیطان کے بندوں کے حوالے کیا اور کر رہے ہیں ؟
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۔
’’لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ عزوجل اورآخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کی عملی زندگی بتاتی ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اس دعوے میں، وہ ہر گز مسلمان نہیں ہیں ۔
اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ ۔
’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی مگر یہ سودا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ ‘‘
اے لوگو! ذرا ٹھنڈے دل سے، آخرت کے نقطہ نظر سے سوچ کر بتاؤ کہ مغضوب اورضالین لوگوں کی راہ پر چلتے ہوئے ہمیں وہ عزت ، سربلندی اور وقار کیسے حاصل ہوگا جس کا اللہ رب العزت نے ایک سچی مومن ومسلم امت سے وعدہ فرمایا ہے ؟ اے لوگو! خدا کےلیے اپنی ذمہ داری کا احساس کیجیے ۔ لوگوں کی جو امانت اللہ عزوجل کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہارے سپرد کی تھی اسے لوگوں تک پہنچاؤ اور اس میں خیانت نہ کرو، اپنی ذات تک محدود رکھ کر۔ فریضہ نبوت و خلافت کی ادائیگی اب قیامت تک آپ (امتیوں) ہی کی ذمہ داری ہے ، اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات آپ کے پاس محفوظ ہیں اور ان کے ذریعے بندگان خدا پر حجت قائم کرنا آپ کا فرض ہے اور قیامت کے دن آپ سے (ایک ایک مسلمان سے) یہ پوچھا جائے گا کہ ’’ ہم نے لوگوں کی جو امانت (دین حق، حقیقی اسلامی فلاحی نظام حیات) تمہیں دی تھی کیاتم نے اسے لوگوں تک پہنچا یا، یا اس میں خیانت کر کے اپنی ذات تک محدود رکھا ۔
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۔ (البقرۃ 143:2)
’’ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تا کہ تم ہمارے رو برو دوسرے لوگوں پر اس بات کی شہادت دے سکو کہ دین حق کی جو امانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمہارے سپرد کی تھی وہ تم نے ان تک پہنچا دی اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم پر شہادت دیں گے کہ جو امانت اللہ نے انہیں دی تھی وہ انہوں نے تم تک پہنچا دی ۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ بھی نہایت وضاحت سے اس ذمہ داری کا احساس دلایا گیا ہے : وَ جَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ھُوْ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِی ہٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۔
’’ اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں پسند فرمایا اور تم پر دین میں کوئی تنگی نہ رکھی، تمہارے باپ ابراہیم کا دین، اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا اگلی کتابوں اور اس کتاب (قرآن عظیم ) میں، تاکہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم پر گواہی دیں اور تم دوسرے لوگوں پر گواہی دو (کہ جس محنت اور دیانتداری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچایا وہ تم نے اسی محنت اور دیانتداری سے اپنے دور کے دوسرے لوگوں تک پہنچایا) ۔ (الحج78:22 )
اب یہ بات اچھی طرح لوگوں کی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ خدا کے دین کو صرف اپنی ذات کی حد تک مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ جو لوگ اس کے حق اور انسانیت کےلیے واحد سیدھا راستہ (ضابطہ حیات ہونے کو تسلیم کر لیں تو یہ بات بھی ان کے فرائض میں شامل ہو جاتی ہے کہ وہ اسے اپنے علاوہ اپنے گردو پیش کی دنیا میں بھی، نافذ کرنے کی انتہائی سعی و حرکت اور جدو جہد کریں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں سے جہاد کریں۔ خدا کے دین کے سلسلہ میں جتنی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تھی اتنی ہی ذمہ داری اب قیامت تک کےلیے ہم پر (حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت پر ) ہے ۔ جس طرح قیامت کے روز عدالت عظمیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس بات کا ثبوت پیش کرنا ہو گا کہ انہوں نے نہ صرف قولاً دین حق کی تعلیمات کو پوری طرح امت تک پہنچایا بلکہ اس پر پوری طرح عمل کرکے بھی لوگوں کو دکھایاکہ اسلام کے یہ عقائد ہیں، یہ اس کی تہذیب، تمدن، اخلاق اور اطوار ہیں۔ اس کی معاشرت، معیشت، سیاست اور عدالت کے یہ طریقے ہیں، اس کے بین الاقوامی روابط و تعلقات کی یہ صورتیں ہیں، اس میں دوستی اور دشمنی کے حدود اور طریقے یہ ہیں، اس کا نظام مملکت یہ ہے۔ اسی طرح امت کو بھی خدا کے حضور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے نہ صرف ان تعلیمات، احکام و ہدایات پر پوری طرح عمل کیا بلکہ اپنے اپنے زمانہ میں اپنی ہم عصر دنیا کے سامنے بھی اسے پوری طرح پیش کیا۔ یاد رکھو ! اس کے بغیر چھٹکارہ ہرگز ممکن نہیں ہو سکے گا ۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment