Monday 28 February 2022

کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

0 comments

 کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : ارشادِ باری تعالیٰ ہے : بِاَيۡدِىۡ سَفَرَةٍ ۞ كِرَامٍۢ بَرَرَةٍؕ‏ ۞ (سورة عبس : ١٥ ، ١٦) ترجمہ: ان کے ہاتھوں سے لکھے ہوئے جو عزت والے نیک ہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اپنی زبان مبارک سے نطق فرماتے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اس کو تحریر فرماتے اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نطق وحی الٰہی ہے اسی وجہ سے ان کو کاتب وحی کہا جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کاتب عادل تھے کیونکہ غیر عادل رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا کاتب نہیں ہو سکتا قرآن پاک میں ہے : وَلۡيَكۡتُب بَّيۡنَكُمۡ كَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ‌ ۔ ( سورة البقرة : ٢٨٢ ) ۔ چاہیے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھاک لکھے ۔

اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اس آیۃ کا مصداق ہیں اور چونکہ کاتب پر اعتماد ہوتا ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ پر اعتماد تھا ۔ آج کل حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ذاتِ اقدس کو لے کر جاہل قسم کے لوگوں نے طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے اور کئی طرح کے اعتراضات اور سوالات کرتے ہیں اسی سلسلے میں ایک سوال اٹھایا گیا ہے کہ قرآن کی وہ کون سی آیت ہے جس کی کتابت حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے کی تھی ؟ عرض ہے کہ رجال و سیر کی کتابوں میں رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے کاتبوں کے نام ملتے ہیں ، مگر سب کے بارے میں یہ صراحت نہیں ملتی کہ کس نے کیا لکھا سب کے نام ملتے ہیں مگر کس نے کونسی آیت کی کتابت کی اس کی صراحت نہیں ملتی ، اب ذرا ان ہستیوں کے نام ملاحظہ فرمائیں جن کے نام کتابتِ وحی کے فرائض انجام دینے میں لکھے گئے ہیں : 1_ حضرت ابو بکر صدیق 2_ حضرت فاروق اعظم 3_ حضرت عثمان غنی 4_ مولا علی شیر خدا 5_ طلحہ بن عبید الله بن عثمان 6_ زبیر بن العوام بن خویلد 7_ سعد بن ابی وقاص مالک 8_ عامر بن فہیرہ 9_ ثابت بن قیس بن شماس 10_ خالد بن سعید بن العاص بن امیہ 11_ ابان بن سعید بن العاص امیہ 12_ حنظلہ بن الربیع 13_ ابو سفیان صخر بن حرب 14_ یزید بن ابو سفیان 15_ امیر معاویہ بن ابی سفیان 16_ زید بن ثابت 17_ شرحبیل بن حسنہ 18_ علاء حضرمی 19_ خالد بن ولید 20_ محمد بن مسلمہ انصاری 21_ عبد الله بن رواحہ انصاری 22_ مغیرہ بن شعبہ 23_ عمرو بن العاص بن وائل قرشی 24_ عبد الله بن عبد الله بن ابی بن سلول 25_ جہم بن سعد اسلمی 26_ جہیم بن الصلت 27_ ارقم بن ابی ارقم مخزومی 28_ عبد الله بن زید بن عبد ربہ انصاری خزرجی 29_ علاء بن اقبی 30_ ابو ایوب انصاری 31_ حذیفہ بن یمان 32_ بریدہ بن ابن الحصیب مازنی 33_ حصین بن نمیر بن فاتک 34_ عبد الله بن ابی سرح سعد 35_ ابو سلمہ بن عبد الاسد قرشی 36_ حویطب بن عبد العزی 37_ حاطب بن عمرو 38_ ابن خطل 39_ ابی بن کعب 40_ عبد الله بن ارقم قرشی 41_ معیقیب بن ابی فاطمہ رضی الله تعالی عنہم اجمعین ۔ (قرآن کیسے جمع ہوا صفحہ 38 تا 50 مکتبہ اعلی حضرت لاہور)


ان اسماء گرامی کو لکھنے کے بعد معترض سے انہی کے طریقہ پر کہوں گا پوچھنا یہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک ہستی نے قرآن کی کون کون سی آیت لکھی ہے مزید یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے کتنی کتنی آیات مبارکہ کی کتابت فرمائی ؟ بیچارے کیا جواب دیں گے شائد اس نے کاتبانِ وحی کے اسماء گرامی ہی پہلی مرتبہ پڑھے ہوں ۔ جب جواب '' نہیں " میں ہے اور یقیناً نہیں میں ہے تو صرف حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں اس طرح سوال کرنا بدبختی نہیں تو کیا ہے ؟ اسی شرف سے مشرف ہونے کی بنا پر جلیل المرتبت محدثین اور علماء ربانیین و اولیاء کاملین علیہم الرحمہ آپ کو کاتب وحی کہہ کر یاد کرتے رہے اور کرتے ہیں : ⬇


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نےحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل علیہ السّلام سے مشورہ کے بعد کاتب وحی بنایا جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کیا کیوں نہیں وہ امین ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر مترجم حصّہ ہفتم ، ہشتم صفحہ 158)


حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے خطوط اور وحی الٰہی لکھا کرتے تھے ۔ (مدارج النبوت جلد دوم صفحہ نمبر 620 حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مترجم مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی لکھواتے حروف بتاتے یہ ایسے ایسے لکھو ۔ (تفسیر دُرِّ منثور جلد اوّل صفحہ نمبر 45 مترجم اردو،چشتی)


امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ) اور کاتب وحی اور وحی الٰہی کے امین ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کو دوسروں پر قیاس مت کرو ۔ (کتاب الشفا مترجم اردو جلد نمبر 1 صفحہ نمبر61)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی لکھواتے حروف بتاتے یہ ایسے ایسے لکھو ۔ (تفسیر دُرِّ منثور جلد اوّل صفحہ نمبر 45 مترجم اردو،چشتی)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ اُمتِ مُسلمہ کے ماموں اور رب العالمین کی وحی کے کاتب ہیں دیگر کاتبان وحی کے ساتھ وحی لکھتے تھے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد نمبر ہفتم ، ہشتم صفحہ نمبر 33)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی اور اُمتِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کے ماموں ہیں ۔ (تاریخ مدینہ دمشق الجزء التّاسع و الخمسون صفحہ 55) ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی تھے (معانی الاخبار صفحہ 394 شیعہ مصنف شیخ صدوق کا انتہائی گستاخانہ انداز میں مجبورا اقرار) سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی منکر اب کیا کہتے ہیں ؟


جناب ڈاکٹر محمد طاہرُ القادری صاحب لکھتے ہیں : کتابتِ وحی کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسب ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں :


حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ ابن الربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن ارقم الزہری رضی اللہ عنہ، حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاتب وحی کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے، چنانچہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لکھ لیا جاتا تھا، قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، اور چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، البتہ کبھی کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال کئے گئے ہیں ۔ (عسقلانی، فتح الباری، 9 : 18،چشتی) ۔ (سیرۃُ الرّسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی و رِسالتی اہمیت صفحہ 59)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ، عظیم المرتب صحابی اور تمام اہلِ اسلام کے ماموں ہیں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ء الفقہ آپ کے دینی مسائل،چشتی)


کاتب کےمعنی ہیں : لکھنے والااورنبی علیہ السَّلام پر اللہ پاک کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو ”وحی“ کہتے ہیں۔ ( عمدۃ القاری،ج 1،ص37) جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر وحی نازل ہوتی (یعنی اترتی) تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو لکھوا دیتے۔ کئی صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان وحی لکھنے پر مامور تھے، جن میں حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو کاتبِ وحی کہا جاتا ہے۔(سیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 458،چشتی)(امتاع الاسماع جلد 9 صفحہ 329،334)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل امین علیہ السّلام کے مشورے سے کاتبِ وحی بنایا جبرائیل امین علیہ السّلام نے عرض کیا معاویہ امانت دار ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے دعائیں فرمائیں اور فرما یا اے معاویہ میں تم سے ہوں اور تُم مجھ سے ہو تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے ۔ (سیرتِ حلبیہ مترجم اردو جلد نمبر 5 صفحہ 289 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)


حضرت سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں کہ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا : يا نبي الله ثلاث أعطنيهن ، قال نعم قال عندي أحسن العرب وأجمله، أم حبيبة بنت أبي سفيان، أزوجكها، قال: نعم قالومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك، قال نعم قال وتؤمرني حتى أقاتل الكفار، كما كنت أقاتل المسلمين، قال نعم ۔

ترجمہ : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ مجھے تین چیزیں عطا فرما دیجیے (یعنی تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرمالیجیے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جوابا ارشاد فرمایا : جی ہاں ۔ (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) نےعرض کیا میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا عرب کی سب سے زیادہ حسین وجمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتاہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) نے عرض کیاکہ آپ معاویہ کو کاتب وحی بنالیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ پھر (ابوسفیان رضی اللہ عنہ) نے عرض کیاکہ آپ مجھے کسی دستے کا امیر بھی مقرر کردیں تاکہ میں کفار سے لڑائی کروں جس طرح میں (قبول اسلام سے قبل) مسلمانوں سے لڑائی کرتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی سفیان برقم۶۴۰۹)


اس صحیح حدیث سے ثابت ہواکہ امیرمعاویہ کو کاتب وحی اور خال المؤمنین ہونے کاشرف حاصل ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا گیا کہ : ومعاوية، تجعله كاتبا بين يديك ؟ ۔

ترجمہ : کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب مقرر فرمائیں گے ؟


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں ۔ )صحيح مسلم : 304/2، ح : 2501)


ایک روایت میں ہے : وكان يكتب الوحي ۔

ترجمہ : معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے ۔ (دلائل النبوة للبيهقي : 243/6، وسنده صحيح)


تبع تابعی ، شیخ الاسلام ، معافی بن عمران رحمۃ اللہ علیہ (م : 186/185 ھ) فرماتے ہیں : معاوية ، صاحبه ، وصهره ، وكاتبه ، وأمينه علٰي وحي الله ۔

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ، آپ کے سالے ، آپ کے کاتب اور اللہ کی وحی کے سلسلے میں آپ کے امین تھے ۔ (تاريخ بغداد للخطيب : 209/1،چشتی)(تاريخ ابن عساكر : 208/59، البداية والنهاية لابن كثير : 148/8، وسنده صحيح)


امام حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ (571-499 ھ) فرماتے ہیں : وأصح فى فضل معاوية حديث أبي جمرة عن ابن عباس، أنه كان كاتب النبى صلى الله عليه وسلم منذ أسلم ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اصح حدیث ابوجمرہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جب سے اسلام لائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب تھے ۔ (البداية والنهاية لابن كثير : 128/8)


امام ابومنصور معمر بن احمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ (م : 428 ھ) اہلسنت کا اجماعی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وأن معاوية بن أبي سفيان كاتب وحي الله وأمينه، ورديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وخال المؤمنين رضي الله عنه .

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو وحی الٰہی کے کاتب و امین ہونے ، نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ایک سواری پر سوار ہونے اور مؤمنوں کے ماموں ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ (الحجة فى بيان المحجة للإمام قوام السنة أبي القاسم إسماعيل بن محمد الأصبهاني : 248/1، وسنده صحيح)


امام ابن قدامہ مقدسی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (م : 620 ھ) مسلمانوں کا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں : ومعاوية خال المؤمنين، وكاتب وحي الله، وأحد خلفاء المسلمين ۔

ترجمہ : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مؤمنوں کے ماموں ، کاتب وحی الٰہی اور مسلمانوں کے ایک خلیفہ تھے ۔ (لمعة الاعتقاد، ص : 33)


شیعہ مذہب کی ان معتبر کتب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی تسلیم کیا گی اہے ۔ (معاني الاخبار ص۳۴۶،طبع دارالمعرفہ)(معانی الاخبار اردو مترجم ج۲ص۳۹۳۔۳۹۴،طبع کراچی)(الإحتجاج للطبرسی ج۱ص۲۳۹،ط انتشارات الشریف الرضی)(شرح نهج البلاغة لابن ابي الحديد ج۱ص۲۳۸،چشتی)


حافظ ابوبکرمحمد بن حسین آجری بغدادی (متوفی 360ھ ) فرماتے ہیں : معاویۃ رحمہ اللہ کاتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی وحی اللہ عزوجل وھو القرآن بامر اللہ عزوجل ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب سیدنا امیر معاویہ پر اللہ رحم فرمائے آپ اللہ کے حکم سے وحی الہی؛ قرآن پاک لکھا کرتے تھے ، (الشریعہ کتابت فضائل معاویۃ ج 5 ص 2431)


حافظ الکبیر امام ابو بکر احمد بن حسین خراسانی بیہقی (متوفی 458ھ) فرماتے ہیں،

و کان یکتب الوحی ، سیدنا امیر معاویہ کاتب وحی تھے ، (دلائل النبوۃ ج6ص243 )


امام شمس الائمہ ابوبکر محمد بن سرخسی حنفی (متوفی 483 ھ) فرماتے ہیں : و کان کاتب الوحی ۔ (المبسوط کتاب الاکراہ ج 24 ص 47)


امام قاضی ابو الحسین محمد بن محمد حنبلی(ابن ابی یعلی) (متوفی 526ھ) فرماتے ہیں : (معاویۃ) کاتب وحی رب العلمین ، حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب تھے ۔ (الاعتقاد۔ الاعتقاد فی الصحابۃ ص43)


امام حافظ ابو قاسم اسماعیل بن محمد قرشی طلیحی (قوام السنۃ) (متوفی 535)

فرماتے ہیں : معاویۃ کاتب الوحی ۔ (الحجۃ فی بیان المحجۃ ج2 ص570 رقم 566)


علامہ ابو الحسن علی بن بسام الشنترینی اندلسی(متوفی 542ھ) فرماتے ہیں

معاویۃ بن ابی سفیان کاتب الوحی ۔ (الذخیرۃ فی محاسن اہل الجزیرۃ ج1ص110)


حافظ ابو عبداللہ حسین بن ابراھیم جوزقانی(متوفی 543ھ) فرماتے ہیں،(معاویۃ) کاتب الوحی ۔ (الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاھیر باب فی فضائل معاویۃ ص116رقم 191)


علامہ ابو الفتوح محمد بن محمد طائی ہمذانی (متوفی 555ھ) فرماتے ہیں : معاویۃ کاتب وحی رسول رب العلمین و معدن الحلم والحکم ، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول رب العلمین کے کاتب وحی اور حلم و دانائی کے کان تھے،

(کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین ص174 )


امام حافظ ابو القاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ شافعی (ابن عساکر)(متوفی 571) فرماتے ہیں،(معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ) خال المؤمنین وکاتب وحی رب العلمین

حضرت امیر معاویہ تمام مؤمنوں کے خالو ہیں اور تمام جہانوں کے رب کی وحی کے کاتب ہیں ۔ (تاریخ دمشق الکبیر ذکر من اسمہ معاویۃ ، معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر ج59 ص55 رقم 7510،چشتی)


امام حافظ جمال الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی( متوفی 497ھ) نے کشف المشکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 12 کاتبوں کا تذکرہ کیا ہے

جن میں حضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہیں۔(کشف المشکل ج2ص96)


ابو جعفر محمد بن علی بن محمد ابن طباطبا علوی(ابن الطقطقی) (متوفی 709ھ)

نے لکھا ہے،و اسلم معاویۃ و کتب الوحی فی جملۃ من کتبہ بین یدی الرسول

اور حضرت سیدنا امیر معاویہ اسلام لائے اور ان سب میں رہکر کتابت کی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کتابت کرتے تھے۔(الفخری فی الآداب السلطانیۃ من سیرۃ معاویۃ ص 109)


حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر قرشی شافعی (متوفی 774) لکھتے ہیں،ثم کان ممن یکتب الوحی بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر (سیدنا امیر معاویہ) ان میں سے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وحی لکھتے تھے ۔ (جامع المسانید والسنن الھادی ج8 ص 31 رقم 1760)


حافظ ابراھیم بن موسی مالکی شاطبی(متوفی 790ھ) نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کتاب وحی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر فرمایا

(الاعتصام ص239)


حافظ ابو الحسن نور الدین علی بن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی(متوفی 807ھ) نے بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کُتّابِ وحی کے باب میں سیدنا امیر معاویہ کا تذکرہ کیا ہے۔(مجمع الزوائد باب فی کُتّاب الوحی ج 1 ص 53 رقم 686)


علامہ تقی الدین ابو العباس احمد بن علی حسینی مقریزی(متوفی 845ھ) فرماتے ہیں،

و کان یکتب الوحی ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کاتب وحی تھے ۔ (امتاع الاسماع اجابۃ اللہ دعوۃ الرسول ج12 ص 113،چشتی)


امام حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی (متوفی 852ھ) لکھتے ہیں،معاویۃ بن ابی سفیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخلیفۃ صحابی اسلم قبل الفتح و کتب الوحی سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہما خلیفہ ہیں صحابی ہیں آپ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے اور وحی کی کتابت فرمائی ۔ (تقریب التھذیب حرف المیم ص 470 رقم 6758)


امام حافظ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی حنفی (متوفی 855) لکھتے ہیں،

معاویۃ بن ابی سفیان صخر بن حرب الاموی کاتب الوحی ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین ج 2ص73 رقم 71)


علامہ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد قسطلانی مصری شافعی(متوفی 923) لکھتے ہیں،و ھو مشھور بکتابۃ الوحی ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مشہور کاتب وحی ہیں ۔ (المواھب اللدنیۃ الفصل السادس ج1 ص533،چشتی)


علامہ قسطلانی نے ارشاد الساری میں بھی لکھا ہے کہ : معاویۃ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب کاتب الوحی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذا المناقب الجمعۃ ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ ج1ص170 رقم 71)


امام حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد(ابن حجر) ہیتمی مکی شافعی(متوفی 974ھ) لکھتے ہیں،معاویۃ بن ابی سفیان اخی ام حبیبۃ زوجۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاتب الوحی ، حضرت سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سیدہ ام حبیبہ زوجہ رسول رضی اللہ تعالی عنھا و صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی اور کاتب وحی ہیں ۔ (الصواعق المحرقہ ص 355)


علامہ عبد الملک بن حسین بن عبد الملک عاصمی مکی (متوفی 1111ھ) نے لکھا ہے : معاویۃ و کان یکتب الوحی ، (سمط النجوم العوالی ج3ص 55)


علامہ اسماعیل بن مصطفیٰ حقی حنفی (متوفی 1127ھ) لکھتے ہیں،معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ کاتب الوحی ۔ (تفسیر روح البیان جزء 1 تحت سورۃ بقرۃ ایت 90 ج 1 ص 180)


اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1340ھ) فرماتے ہیں ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن عظیم کی عبارت کریمہ نازل ہوتی عبارت میں اعراب نہیں لگائے جاتے (تھے) حضور کے حکم سے صحابہ کرام مثل: امیر المؤمنین عثمان غنی و حضرت زید بن ثابت و ::::امیر معاویہ:: وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم اسے لکھتے؛ ان کی تحریر میں بھی اعراب نہ تھے یہ تابعین کے زمانے سے رائج ہوئے ، اللہ تعالی اعلم ۔ (العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ ج26 ص 492/493)


شارح بخاری علامہ سید محمود احمد رضی ر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ایمان لانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خدمت نبوی سے جدا نہ ہوئے ہما وقت پاس رہتے اور وحی الہی کی کتابت کرتے ۔ (شان صحابہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وسلم کا احترام صفحہ نمبر 32) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں حصّہ دوم

0 comments

 حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت پیر سید محمد مقصود علی شاہ بخاری رحمة الله علیہ  متوفٰی ١٩٨٨ء کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب " جمال مقصود " میں درج ہے کہ : ایک مرتبہ آپ رحمة الله علیہ کی مجلس عالیہ میں جنگ جمل کا تذکرہ ہوا آپ نے فرمایا : کہ میرا گزر اس میدان سے ہوا جہاں یہ جنگ لڑی گئی ۔ دوسرے لوگوں کی طرح میرے دل میں بھی خیال آیا کہ یہ جنگ کیوں اور کیسے لڑی گئی؟ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بڑی گرج دار آواز مجھے سنائی دی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے " خبر دار اس بارے میں دوبارہ نہ سوچنا ورنہ ایمان کی دولت سے محروم ہو جاؤ گے ۔ (جمال مقصود ، صاحںزادہ سید محمد عبد الرزاق شاہ بخاری ، باب چھارم ، تحت " جنگ جمل ، ص 237 ، مطبوعة دار الکتب مقصودیہ غوثیہ ، کوٹ گلہ شریف تلہ گنگ ضلع چکوال ، طبع اول ۱٤٣٧ه‍/٢٠١٦ء)

حضرت امام ابو اسحاق ابراھیم بن علی بن یوسف بن عبد الله فیروز آبادی الشیرازی رحمة الله علیہ متوفٰی٤٧٦ه‍ ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ لکھتے ہیں : ⬇

سوال : اگر کہا جائے کہ حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے درمیان جو اختلاف و نزاع ہوا اس میں حق ان کے ساتھ تھا جو ان دونوں سے تعلق رکھتے تھے ؟

جواب : ان کو جواب دیا جائے گا کہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے ۔ پس کچھ کہتے ہیں کہ حق حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کے ساتھ تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علی حق پر ہیں اور حق علی کے ساتھ جہاں پھریں ۔ کچھ علماء فرماتے ہیں : کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مجتہد مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہر مجتہد مصیب ہے ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کا اختلاف اصول میں نہ تھا ۔ بلکہ ان کا اختلاف فروع میں تھا ۔جیسے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما الله کا اختلاف تھا ۔ لوگ اس  مسئلہ میں دو قول پر ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ حق ایک جہت میں تھا ۔ اور اس جہت میں مخالف مخطئ تھا جس کیلئے ایک اجر تھا مگر اس کی خطا اسے کفرو فسق تک نہ لے جانے والی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص (کسی مسئلہ میں) اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کیلئے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد کرے اور صحیح فیصلے تک نہ پہنچے چوک جائے تو اس کیلئے ایک اجر ہے ان ائمہ میں سے بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک خیر پر ہونے کے باعث مصیب تھا انہوں نے حضرت علی المرتضی اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما کے معاملہ کو اس پر محمول کیا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ خلیفہ تھے اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے چچا زاد تھے ۔ انہیں ظلم سے قتل کیا گیا ان کے بعد خلافت کی زمام کار حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کے ہاتھ آئی پس حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کے پاس خون عثمان کا مطالبہ لے کر آئے ۔ تو حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ  نے پوچھا کس نے عثمان کو قتل کیا ۔ تو پیچھے رہ جانے والے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے پس ان کا اجتہاد اس وقت قاتلین کو اس وقت  ترک کرنے (یعنی کچھ نہ کہنے) کا ہوا کیونکہ ان سب سے لڑنا ممکن نہ تھا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو خدشہ ہوا کہ خود انہیں نہ قتل کر دیں ۔جیسے انہوں نے عثمان کو قتل کیا ۔ پس جب ان سے تعرض نہ کیا تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے گمان کیا کہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں نے امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط ترک کی ۔ کیونکہ امامت کی شرط اہل حق کیلے حقوق کا کامل حصول ہے ۔ پھر جب حقوق پورے نہ لئے تو شروط امامت میں سے ایک شرط ترک کر دی اور امامت باطل ہو گئی ۔ جب کہ فی الوقت امام و حاکم کا ہونا ضروری ہے پس اس اجتہاد سے انہوں نے معاویہ کو حاکم بنایا ۔ پس ان میں سے ہر ایک مجتہد اپنے اجتہاد میں مصیب تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے درمیان ایسا معاملہ نہ ہوا جو کفر و فسق پر منتج ہو ۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہ جب کافروں سے قتال فرماتے تو خوشی مسرت کا اظہار فرماتے ۔ جب کہ معاویہ کے ساتھ پیکار میں دکھ اورغم کا ظہور ہوا یہاں تک کہ جاں بلب ہو گئے ۔ ابو الحسن علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : یہ سب ہمارے درمیان ہوا میں اپنے دکھ اور پریشانی کا شکوہ بارگاہ خداوندی میں کرتا ہوں کاش میں بیس سال پہلے جام موت پی لیتا ۔ آپ اپنے ساتھیوں سے فرماتے : پیٹھ دینے والے کا تعاقب نہ کیا جائے زخمی کو قتل نہ کیا جائے ۔ اگر محاربین سے کوئی بات کفر و فسق تک پہنچانے والی بات پاتے تو اپنے ساتھیوں کو اس کا حکم نہ دیتے ۔ ہمارے اصحاب فرماتے ہیں : حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ مجتہد مصیب تھے ان کیلئے دو اجر ہیں جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ مجتہد مخطئ تھے ان کیلئے ایک اجر ہے ۔ اس مسئلہ میں واجب یہ ہے کہ ان کے درمیان وقوع پذیر اختلافات میں زبان روکی جائے اور ان کےمحاسن یعنی خوبیوں کا ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عنقریب میرے اصحاب کے درمیان خرابی پیدا ہوگی ۔ جسے الله تعالی ان کی سابقہ نیکیوں کے سبب معاف فرما دے گا ۔ پس تم ان کے اختلافات میں نہ پڑو ۔ بخدا تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے تو ان کے ایک یا نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (الإشارة الى مذهب اهل الحق لامام ابى اسحاق الشيرازى تحت " ترتیب الصحابة فی الفضل صفحہ 184 تا 188 ، مطبوعة المجلس الاعلى للشئون الاسلامية وزارة الاوقاف،چشتی)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ متوفی ۱۰۵۲ھ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قطعی طور پر جنتی ہیں اس (یعنی ان کو جہنمی کہنے) سے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنقیص شان لازم آتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا گیا ان کی راہنمائی فرمانا اور انہیں کفر و ضلالت سے نکالنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہے ، اس سے یہ لازم آئے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام میں چھ یا سات کے علاوہ سب کے سب ہدایت نہ پا سکے اور نہ ان کا ایمان ہے خاتمہ ہوا ، ایسے کلمات ادا کرنے سے ہم الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ اس لیے اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کا تزکیہ کرے ان کو عادل قرار دے ، ان کو برا بھلا کہنے اور ان پر طعن کرنے سے باز رہے اور ان کی مدح و ستائش کرے ، کیونکہ الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو عادل قرار دیا ہے ان کا تزکیہ کیا اور ان کی تعریف بیان فرمائی ۔ اور اسی کی مثل حضرت شہاب الدین عمر سہروردی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب " اعلام الہدی " میں فرمایا : اے خواہش نفس اور تعصب سے پاک لوگو! یہ بات ذہن نشین رکھو کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم پاکیزہ نفسی اور صاف دلی کے باوجود انسان تھے ۔ ان کے بھی نفس تھے اور نفسوں کی کچھ صفات ایسی ہیں جو ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس لیے اگر ان کے نفسوں سے کوئی ایسی بات ظاہر ہوتی جو دلوں کےلیے ناگوار ہوتی تو وہ دلوں کی طرف رجوع کر کے ان کا فیصلہ مانتے اور نفسانی خواہشات سے کنارہ کشی کرتے ۔ (لمعات التنقیح فى شرح مشكاة المصابيح ، العلامة المحدث عبد الحق الده‍لوى ، کتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة ،  ، جلد 9 صفحہ 579 ، مطبوعة دار النوادر ، طبع اول ١٤٣۵ھ/۲٠١٤ء)

حضرت امام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى رحمة الله عليہ  متوفٰی۷۸٦ھ فرماتے ہیں : ہم رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں کسی ایک کی محبت میں افراط نہیں کرتے ، نہ ہی ان میں کسی سے بیزاری کرتے ہیں ۔ ہم ان سے بغض رکھتے ہیں جو ان سے بغض رکھے اور ان کے بارے میں برا ذکر کرے ۔ ہم ان کا ذکر صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی محبت دین ہے ، ایمان ہے اور احسان ہے اور ان کے ساتھ بغض کفر ہے نفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ ہم ان سے محبت اس لیے کرتے ہیں کہ الله ان سے راضی وہ الله سے راضی ہیں ۔ اور ان کی شان تورات ، انجیل اور قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمائی : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الله کے رسول ہیں ، جو ان کے اصحاب ہیں ، کفار پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نرم دل ہیں (اے مخاطب) تو ان کو رکوع کرتے ہوئے ، سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، وہ الله کا فضل اور اس کی رضا طلب کرتے ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر نشانی ہے ، ان کی یہ صفات تورات میں ہیں ۔ صحابہ کرام نے غلبہ دین اور اعلائے کلمة الله کےلیے پوری کوششیں کیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  میں وطن چھوڑے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٹھکانہ دیا آپ کی نصرت و حمایت کی اور آپ کے سامنے جانبازی کی پس ان کی محبت واجب ہوئی ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، گویا اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جس نے الله تعالی کو ایذاء پہنچائی تو وہ دوزخ کا زیادہ حق دار ہے ۔ یہ کہ ہم اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے کسی کی محبت میں افراط و غلو نہیں کرتے ۔ کیونکہ کسی چیز میں افراط فساد اور دوسروں کیلئے بغض و عداوت کا موجب ہوتا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ روافض نے سیدنا علی رضی الله عنہ کی محبت میں افراط و غلو کیا تو حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی الله عنہم کی تنقیص و عداوت میں پڑ گئے الله تعالی ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے ۔ ان روافض نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی شان میں الوہیت و نبوت کا دعویٰ کیا ۔ جیسا کہ غالی روافض کا عقیدہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے فرمایا : تیری وجہ سے دو جماعتیں ہلاک ہوں گی ایک وہ جو بغض میں افراط سے کام لے گی دوسری جو تیری محبت میں غلو کرے گی ۔ اور جیسا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھی فرمان ہے بیشک خوارج آپ کے بغض میں افراط سے کام لے کر ہلاک ہوں گے جیسا کہ روافض آپ کی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔ جہاں تک ان سے برآت یعنی بیزاری کا تعلق  ہے تو یہ کجروی اور گمراہی ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم منہج قویم اور دین مستقیم (پختہ اور سیدھے راستے اور دین) پر تھے ہدایت ان کی اقتداء سے وابستہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سلسلہ میں فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ لہذا ان سے تبری اور بیزاری عدم اھتداء ہے اور یہی گمراہی ہے ہم ان بدبختوں سے عداوت رکھتے ہیں جو ان سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں ۔ دراصل صحابہ کرام سے بغض ان کے دین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو الله تعالی نے ان کیلئے پسند فرمایا اور منتخب کیا ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا : اور میں نے اسلام بطور دین تمہارے لئے پسند فرمایا ۔ صحابہ کرام سے بغض ، خبث عقیدہ کی دلیل ہے اور نفاق و فساد کا نتیجہ ہے پس ان لوگوں سے عداوت رکھنا اور برائی سے ان کا ذکر کرنا واجب ہے جو صحابہ کرام سے عداوت رکھتے ہیں ۔ ہم صحابہ کرام رضی الله عنہم کے باہمی اختلافات و مشاجرات میں نہیں پڑتے ان اختلافات کو ہم اجتہاد ہر محمول کرتے ہیں اور ان کاذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ دین کے اصول یعنی جڑیں ہیں ۔ پس ان میں طعن دراصل دین میں طعن ہے اور ان کی محبت دین ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض اور کینہ کفر نفاق اور طغیان ہے اور یہ سب ضروریات شرع سے ظاہر ہے ۔ (شرح عقيدة اهل السنة و الجماعة ، لامام اكمل الدين محمد بن محمد البابرتى ، تحت " القول في حب أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، صفحہ نمبر 141 تا 142 ، مطبوعة وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية سلسلة الرسائل التراثية ، طبع اول ١٤٠٩ه‍/١٩٨٩ء،چشتی)

حضرت امام شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمة الله علیہ متوفی ۷٤٨ه‍ فرماتے : صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی فرماتا ہے : جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اسے لڑائی کا چیلنج کرتا ہوں ۔ اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے ایک مد اور اس کے نصف کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں الله تعالی سے ڈرو میرے بعد ان کو نشانہ نہ بنانا پس جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ، اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے الله تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا ۔ اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث میں ان لوگوں کی حالت بیان کی گئی ہے جنہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کو نشانہ بنایا ان کو گالیاں دی ان پر جھوٹ باندھا ، ان کو عیب لگایا ان کو خلافت قرار دیا اور ان پر جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ کلمہ " الله الله " ڈرانے کے لیے جس طرح اس شخص کو ڈرایا جاتا ہے کہا جاتا ہے " السار " یعنی آگ سے بچو اور ڈرو ۔ لا تتخذوهم غرضاً بعدي " تک یہ عبارت صحابہ کرام کے فضائل مناقب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام سے محبت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ ہیں ۔ انہوں نے آپ کی مدد کی ، آپ پر ایمان لائے ، آپ کی تعظیم کی اور جان و مال کے ذریعے آپ کی غمخواری کی ۔ پس جس نے ان سے محبت کی اس نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کی تو صحابہ کرام کی محبت  ، رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کا عنوان ہے اور ان سے بغض رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بغض کا عنوان ہے صحیح حدیث میں ہے : انصار سے محبت ایمان ہے اور ان سے بغض منافقت سے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے الله تعالی کے دشمنوں سے جہاد کیا ۔ اسی طرح حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت کی علامت ہے ۔ صحابہ کرام کے فضائل کا علم اس طرح حاصل ہوگا کہ ان کے احول ، سیرتوں اور آثار کا مطالعہ کیا جائے ان میں غور و فکر کیا جائے وہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہوں یا آپ کے بعد ۔ ان لوگوں نے ایمان میں سبقت کی اسی طرح کفار سے جہاد کیا ، اشاعت اسلام ، شعائر اسلام کے اظہار ، الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلمہ کو بلند کرنے ، آپ کے بتائے ہوئے فرائض و سنن کی تعلیم میں سبقت کی ۔ اگر یہ نفوس قدسیہ نہ ہوتے تو ہمارے پاس دین کی اصل اور فرع کچھ بھی نہ پہنچتا ، اور ہمیں فرائض و سنن میں سے کسی فرض اور سنت کا علم نہ ہوتا اور نہ ہی ہم احادیث و اخبار علم حاصل کر سکتے ۔ پس جو شخص ان پاکیزہ ذاتوں پر طعن کرے یا ان کو گالی گلوچ کرے تو وہ دین سے نکل گیا اور مسلمانوں کی ملت سے بھی خارج ہوگیا ۔ کیونکہ طعن کی وجہ سے ان کے بارے میں بر عقیدہ رکھنا اور دل میں کینہ رکھنا ہے نیز الله تعالی نے اپنی کتب میں ان کی تعریف میں جو کچھ فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے فضائل و مناقب اور ن سے محبت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا انکار کرنا ہے ۔ علاوہ ازیں جو کچھ ہم تک منتقل ہوا ، اس کا سب سے عمدہ وسیلہ صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں اور وسائل میں طعن ، اصل میں طعن ہوتا ہے اور نقل کرنے والے کو حقیر جاننا منقول کو معمولی سمجھنا ہے ۔ یہ بات غور و فکر کرنے والوں کے لیے ظاہر ہے اور اس طرح منافقت اور بے دینی سے بچ سکتا ہے اور تمہارے لیے وہی بات کافی ہے جو احادیث میں آتی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے صحابہ کرام کو پسند فرمایا پس میرے لیے ان کو وزیر ، مددگار اور سسرالی بنائے ، پس جو ان کو گالی دے اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن الله تعالی اس کے کسی فرض اور نفل کو قبول نہیں فرمائے گا ۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں گالی دی جاتی ہے تو رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر الله تعالی ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اور انہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : بے شک الله تعالی نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لیے میرے صحابہ کو پسند فرمایا اور میرے صحابہ ، بھائی اور سسرال والے بنائے اور عنقریب ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو ان میں عیب نکالیں گے اور ان کی توہین کریں گے ۔ نہ ان کے ساتھ کھانا اور نہ پینا اور نہ ہی ان کے ساتھ نکاح کرنا ، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور ان کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھنا ۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خاموش رہو جب ستاروں کا ذکر ہو تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر ہو تو خاموش رہو ۔ علماء کرام فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق کے بارے میں تقدیر کے راز پر بحث کو تو خاموش رہو کیونکہ یہ خاموشی ایمان کی علامت ہے اور الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرنا ہے ۔ یہی حال ستاروں کا ہے جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خود عمل کرنے والے ہیں یا ان ستاروں میں ارادۂ خداوندی کے بغیر تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ۔ اسی طرح جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام کی کسی طرح برائی بیان کرے ، ان کی خامیاں تلاش کرے اور عیب بیان کرے اور ان عیبوں کو ان کی ذواتِ قدسیہ کی طرف منسوب کرے وہ منافق ہے ۔ بلکہ مسلمانوں پر الله تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت واجب ہے ۔ وہ جو کچھ لائے ہیں اور جس حکم کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے ، اس سے محبت کرنا نیز آپ کی سیرت و سنت پر عمل کرنے والے ، آپ کی آل ، صحابہ کرام ، آپ کی ازواج مطہرات ، اولاد ، غلاموں اور خادموں سے محبت کرنا بھی ضروری ہے ۔ جو لوگ ان شخصیات سے محبت کرتے ہیں ، ان سے محبت کرنا اور جو ان سے بغض رکھتے ہیں ، ان سے بغض رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایمان کی مضبوط رسی الله تعالی کے لیے محبت اور الله تعالی کے لیے بغض ہے ۔ حضرت ابو ایوب سختیانی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : جس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے دین کا مینار کھڑا کیا ، جس نے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے راستہ واضح کیا ، جس نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے محبت کی وہ الله تعالی کے نور سے روشن ہوا اور کس نے حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ سے محبت کی اس نے مضبوط رسی کو تھاما اور جا نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں اچھی بات کہی ، وہ منافقت سے بری ہوگیا ۔ (الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الندوة الجديدة،چشتی)(الکبائر ، لامام شمس الدين محمد بن احمد بن عثمان الذهبي ، تحت " الکبیرة السبعون : سب أحد من الصحابة رضوان الله عليهم ، ص 236 تا 239 ، مطبوعة دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بيروت)

حضرت شیخ اکبر امام ابو بکر محی الدین محمد بن علی المعروف ابن عربی رحمة الله علیہ متوفٰی٦٣٨ه‍ فرماتے ہیں : کاتبین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے (وحی و دیگر امور کی) کتابت کرنے والے اصحاب رضی الله عنہم حسب ذیل ہیں : 1 ۔ حضرت عثمان  2 ۔ حضرت علی 3 ۔ حضرت ابی بن کعب 4 ۔ حضرت زید بن ثابت 5 ۔حضرت معاویہ 6 ۔ حضرت خالد ابن سعید بن العاص 7 ۔ حضرت ابان بن سعید 8 ۔ حضرت علاء بن الحضرمی 9 ۔ حضرت حنظلہ بن الربیع 10 ۔ حضرت عبد الله بن سعید بن ابی سرح ، حضرت عثمان کے رضاعی بھائی یہ سب اصحاب رضی الله عنہم وحی کے کاتبین تھے ۔ (دیگر امور کے کاتبین کی تفصیل اس طرح ہے) حضرت زبیر بن عوام اور حضرت جہم بن صلت رضی الله عنہما صدقات کے اموال (کا ریکارڈ) تحریر فرماتے تھے ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کھجوروں کے حوض لکھ کر شمار فرماتے تھے ، حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت حصین بن نمیر رضی الله عنہما مداینات و معاملات تحریر میں لاتے تھے ۔ حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی الله عنہ بادشاہوں کے نام خطوط لکھتے تھے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ نے سفر ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے تحریر کی ۔ (تحت كتابه صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صفحہ 47 تا 48،چشتی)
خلافت حضرت معاویہ بن ابی سفیان  رضی الله عنہما : معاویہ بن سفیان ابن صخر ابن امیہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف یہاں رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ان کی والدہ ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس ابن عبد مناف سے شجرہ مل جاتا ہے ۔ صلح امام حسن رضی الله عنہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے بیعت ٢۵ ربیع الاول سنہ اکتالیس ھجری کو ہوئی ۔ ان کی مہر و انگوٹھی کا نقش تھا " رب اغفرلی " ان کا کاتب (منشی) عبد الله بن اوس الغسانی تھا ۔ جب کہ حاجب ان کا مولی زیاد بن نوف اور قاضی فضالہ بن عبد الله الانصاری تھا ۔ رجب سنہ ساٹھ ہجری میں وفات پائی ، نماز جنازہ ان کے بیٹے یزید نے پڑھائی ۔ ایک اور قول ہے کہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی ۔ دمشق شہر میں باب الجابیہ اور باب الصغیر کے درمیان دفن ہوئے ، بوقت وصال ان کی عمر اٹھتر سال ایک دن کم نو مہینے تھی ۔ بیعت خلافت سے پہلے بیس سال سے زائد شام کے گورنر رہے ۔ (محاضرة الابرار و مسامرة الاخيار الشيخ الاكبر محى الدين ابن عربي ذكر الخلفاء و تاريخ مدتهم خاصة تحت خلافة معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنه ، جلد 1 صفحہ 66 مطبوعة دار اليقظة العربيعة طبع عام ١٣٢٤ه‍،چشتی)

حضرت امام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى رحمة الله علیہ متوفی۹۷٤ھ فرماتے ہیں : حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاويہ اور مقتولین صفین رضی الله عنہم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالی کے پاس ایسا جواب لے کر جاؤں جس کے بارے میں مجھ سے سوال ہو اور اگر خاموش رہتا ہوں تو اس سے سوال نہ ہوگا تو جس کیساتھ میں مکلف ہوں اس میں مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ (الخيرات الحسان فى مناقب الامام الاعظم ابى حنيفة النعمان ، لامام شهاب الدين احمد بن محمد بن على بن حجر الهيتمى الشافعى الفصل السادس و العشرون و السابع و العشرون فى شيء من حكمه و آدابه صفحہ 140 مطبوعة دار الهدى و الرشاد طبع اول ١٤٢٨ه‍/٢٠٠٧ء،چشتی)

حضرت امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد العینی رحمة الله علیہ متوفٰی۸۵۵ھ فرماتے ہیں :
اہل سنت کا برحق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اور یہ کہ وہ لوگ مجتہد اور تاويل کرنے والے تھے ، انہوں نے نہ ہی کسی معصیت کا قصد کیا اور نہ ہی دنیا داری کا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الإيمان ، تحت " باب " وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا‌ۚ ، جلد 1 ، ص 335 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه‍/٢٠٠١ء،چشتی)

درست جواب یہ ہے کہ وہ سب صحابہ مجتھد تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ وہ سب جنت کی طرف بلانے والے ہیں اگرچہ نفس الامر میں اس سے خلاف ہو ۔ ان کے اپنے گمان پر فیصلے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے اگر توں یہ اعتراض کرے کہ مجتھد جب درست فتوی دے تو دو ثواب جب غلطی کرے تو ایک یہاں کیسے یہ ہو سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں : یہ جواب کافی ہے اس پر گزارا کروں کہ صحابہ کے حق میں اس کے خلاف بات ذکر کرنا اچھی بات نہیں کیونکہ ان کی تعریفیں تو رب تعالیٰ نے کی ہیں اور ان کی فضیلتوں کی گواہی دی ہے ۔ فرمایا : تم لوگوں میں نکلنے والی بہترین امت ہو ۔ مفسرین کرام فرماتے : اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں ۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، لامام بدر الدين ابى محمد محمود بن احمد العينى ، كتاب الصلوة ، تحت " باب التعاون فى بناء المسجد ، جلد 4 ، ص 308 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢١ه‍/٢٠٠١ء)

حضرت امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد بن عثمان الشافعی رحمة الله علیہ  متوفی٧٤٨ھ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ جیسے کام کرنے لگو تو لوگ پکار اٹھیں گے یہ مہدی ہے ۔ احمد بن حواس کہتے ہیں ۔ مجھے ابو ہریرہ المکتب نے بتایا کہ اعمش کے ہاں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ اور ان کے عدل و انصاف کا ذکر چل پڑا تو اعمش نے کہا : اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا عہد خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیا آپ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی بردباری کے بارے میں فرما رہے ہیں ؟ اعمش نے فرمایا : نہیں الله کی قسم! میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے عدل کی بات کر رہا ہوں ۔ ابو اسحاق سبعیی حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کی شان میں فرماتے ہیں ۔ اگر تم حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہی امام مہدی ہیں ۔ ابو بکر بن عیاش ، ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ۔ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے بعد ان کا ثانی نہیں دیکھا ۔ امام بغوی رحمة الله علیہ ، ابو قیس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ہر قبیلہ میں ایک آدمی مقرر فرما رکھا تھا جو اس کے حالات سے ان کو باخبر رکھتا تھا ، ایک شخص جس کی کنیت ابو یحیی تھی ہر صبح ہر مجلس میں جا کر پوچھتا کیا تمہارے ہاں شبِ گزشتہ کوئی بچہ پیدا ہوا یا کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے یا کوئی مہمان باہر سے آیا ہے ؟ لوگ بتایا کرتے کہ ہاں اہل یمن میں سے فلاں آدمی اپنے کنبہ میں آیا ہے ، وہ اس شخص اور اس کے قبیلہ کا نام ذکر کر دیا کرتے تھے ۔ قبائل سے فارغ ہو کر وہ دفتر میں آتا اور وہاں ان کے نام تحریر کیا کرتا تھا ۔ عطیہ بں قیس کہتے ہیں کہ ميں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : تنخواہ تقسیم کرنے کے بعد بیت المال میں کچھ مال بچ گیا ہے اب وہ تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر آئندہ سال بھی حسب دستور کچھ مال بچ گیا تو تمہارے درمیان تقسیم کر دوں گا ورنہ مجھے معتوب نہ کریں ۔ اس لیے کہ یہ میرا نہیں ، بلکہ یہ الله تعالی کا مال ہے جس نے تمہیں یہ عطا فرمایا ۔ سیرت و کردار اور عدل و احسان کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا دامن ایسے فضائل و مناقب سے پر ہے ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں ۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا : حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے ٹھیک کیا وہ فقیہ ہیں ۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنہ کا فرمان ہے کہ میں نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سے بڑھ کر کسی شخص کو نہیں دیکھا جس کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہو ۔ یہ ہے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کی شہادت حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے تدوین و تفقہ کے بارے میں فقاہت امیر معاويہ رضی الله عنہ کے گواہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ ہیں ، اور حسن صلوة کی گواہی دینے والے حضرت ابو درداء رضی الله عنہ دونوں جس پایہ کے صحابی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس کے مؤید آثار اور بھی بہت ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ سابقین اولین صحابہ میں شمار نہیں ہوتے ۔ بخلاف ازیں کہا گیا ہے آپ فتح مکہ کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے ۔ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ خود اس بات کے معترف تھے کہ وہ فضلاء صحابہ میں شامل نہیں ہیں ، اس کے باوجود آپ کثیر اوصاف کے حامل تھے ۔ آپ کی سلطنت حدود خراسان سے لے کر مغرب میں بلاد افریقہ اور قبرص سے لیکر یمن تک پھیلی ہوئی تھی ، اس بات پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما تو درکنار عظمت و فضیلت میں حضرت عثمان غنی و حضرت علی المرتضی رضی الله عنہما کے قریب بھی نہ تھے ۔ پھر کسی اور بادشاہ کو ان کے مشابہ کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ؟ نیز مسلم سلاطین میں سے کوئی مسلم سلطان سیرت و کردار کے اعتبار سے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا حریف کیسے ہو سکتا ہے ؟ ۔ (المنتقى من منهاج الاعتدال ، لامام ابى عبد الله محمد بن عثمان الذهبى ، تحت " ثناء الأئمة الاعلام على معاوية و حكمه و سيرته و انه خير ولاة المسلمين بعد الراشدين ، ص 402 تا 403 ، مطبوعة الرئاسة العامة لإدارة البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد السعودية ، طبع ثالث ١٤١٣ه‍،چشتی)

حضرت امام ابو اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط رحمة الله علیہ  متوفٰی ۷۱۸ھ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما بہت زیادہ سخی اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  میں سے تھے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سے زیادہ سخی نہیں دیکھا ۔ آپ رضی الله عنہ پہلے شخص ہیں جس نے صلہ (انعام) میں لاکھوں دیے ، آپ رضی الله عنہ امام حسن مجتبی ، امام حسین اور حضرت عبد الله بن جعفر رضی الله تعالی عنہم کو عطا کرتے تھے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی اس عطا (داد و دہش) کی چمکتی حکایت ہے کہ آپ رضی الله عنہ نے حج کیا پھر جب مدینہ منورہ سے لوٹے تو حضرت امام حسین بن علی رضی الله نے اپنے بھائی حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ سے فرمایا : معاویہ (رضی الله عنہ) سے جا کر نہ ملیں اور نہ سلام پیش کریں ۔ فرمایا : میں زیر بارِ قرض ہوں ان کے پاس جانا ضروری ہے پس سوار ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے پیچھے چلے یہاں تک ان سے جا ملے ٬ سلام کیا اور اپنے قرض سے آگاہ کیا ۔ جب دونوں باہم گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک بختی اونٹ گزرا جو بوجھ کی گرانی سے درماندہ تھا لوگ اسے گھسیٹ کر لے جا رہے تھے تاکہ اسے باربردار اونٹوں سے ملا دیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے پوچھا : اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے؟ تو حاضرین نے بتایا کہ لدے ہوئے مال کے بوجھ سے درماندہ ہے ۔ فرمایا : اس پر کتنا بوجھ ہے؟ حاضرین نے بتایا کہ (80) اسی ہزار دینار ہیں ۔ فرمایا : اسے پھیر کر ابو محمد ( امام حسن بن علی رضی الله عنہما ) کو دے دو ۔ (غرر الخصائص الواضحة و عرر النقائص الفاضحة ، لامام ابى اسحاق جمال الدين محمد بن ابراهيم بن يحيى الكتبى المعروف بالوطواط ، الباب التاسع في السخاه ، ص 313 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٩ه‍/٢٠٠٨ء،چشتی)

حضرت امام محمد بن احمد بن سالم بن سليمان السفارينى الحنبلى رحمة الله عليہ متوفٰی ۱۱۸۸ھ فرماتے ہیں : ناظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں : و خالنا معاویہ ، ہمارے ماموں حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو خال المؤمنین کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے بھائی ہیں اس لیے آپ پر خال المومنین کا اطلاق کیا کیونکہ ماں کا بھائی اس کے بیٹے کےلیے ماموں ہوتا ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہا کا نام رملہ تھا ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام ہند تھا ۔ مگر زیادہ صحیح یہی ہے کہ ان کا نام رملہ بنت ابی سفیان خواہر معاویہ تھا ابو سفیان کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف القرشی الاموی ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ عبد مناف میں مل جاتا ہے امیر المومنین حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ابو سفیان رضی الله عنہما فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے ۔ اور مؤلفة القلوب میں سے تھے پھر اسلام میں حسن و کمال پیدا ہو گیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ماں کا نام ھند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا وہ بھی فتح مکہ کے بعد اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد مشرف باسلام ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان دونوں کو سابقہ نکاح پر باقی رکھا ۔ وہ فصاحت عقل اور رزانت وقار و سنجیدگی کی مالک تھیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ابو عبد الرحمن کنیت کرتے تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے کاتب تھے ایک قول یہ ہے کہ صرف مکاتیب کی کتابت کرتے تھے وحی نہیں لکھتے تھے ۔ ترمذی میں بحکم تحسین مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےحضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کیلئے دعا فرمائی : اے الله معاویہ کو ہادی مہدی بنا ۔ مسند امام احمد میں حضرت عرباض رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے وہ فرماتے ہیں میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا آپ نے دعا فرمائی : اے الله معاویہ کو حساب و کتاب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔ طبرانی معجم کبیر میں عبد المک بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے جب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان اقدس سے سنا کہ آپ نے فرمایا : معاویہ! جب تو مالک حکومت بنو تو لطف و احسان سے کام لینا تو خلافت کا خیال دل میں رہا ۔ (لوائح الأنوار السنية ولواقع الأفكار السنية ، لامام محمد بن احمد بن سالم بن سلیمان السفارینی الحنبلی ، تحت " ترجمة معاوية رضي الله عنه ، جلد 2 ص 74 تا 75 ، مطبوعة مكتبة الرشد الرياض ، طبع اول ١٤١۵ھ/۱۹۹٤ء،چشتی)

حضرت امام جمال الدين ابو زكريا يحيى بن يوسف بن یحیی بن منصور الانصاری الصرصری الحنبلی رحمة الله علیہ  متوفٰی ٦۵٦ھ فرماتے ہیں : یہ بھی فضیلت کی دلیل ہے ، کہ میرے عقیدہ کے مطابق ، حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ردیفِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہونا بھی باعثِ فضیلت ہے اس کی فضیلت ضائع نہ جائے گی ۔ وہ کاتبِ وحی تھے صاحبِ حلم تھے اور ان کی بہن مصطفےٰ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جاوداں جنت میں ثمرات جنت سے لطف ہو رہی ہیں ۔ ہر صحابی کےلیے فضیلت ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دیدار کیا اور اس کی یہ فضیلت دوسروں پر کامیابی و نعمت کے لحاظ سے ایسی ہے کہ اس کی طمع نہیں کی جاسکتی ۔ اور اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان ہونے والے اختلافات و مشاجرات کی تفتیش کا خواہش مند وہی ہوگا جو نامراد گمراہ اور طعنہ باز ہے ۔ (منظومة فى مدح النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و بيان عقيدة أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى زكريا يحيى بن يوسف الأنصاري الصرصري ، ص 61 تا 62 ، نثر : 211 تا 214 ، مطبوعة بيت الأفكار الدولة ، طبع اول ١٤٢٧ه‍/٢٠٠٦ء)

حضرت امام ابو القاسم محمد بن احمد بن جُزَیّ الكلبى الغرناطی المالکی رحمة الله علیہ متوفٰی ۷٤١ھ فرماتے ہیں : جہاں تک حضرت علی المرتضی و حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہما اور دونوں میں سے ہر ایک کا ساتھ دینے والے اصحاب رضی الله عنہم کے درمیان مشاجرت و اختلاف کا تعلق ہے تو زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس نزاع کے ذکر سے زبان کو روکا جائے اور ان صحابہ کرام رضی الله عنہم کا ذکر کلمات خیر سے کیا جائے اور ان کیلئے عمدہ تاویل تلاش کی جائے کیونکہ یہ معاملہ اجتہادی تھا اس میں حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی حق پر تھے کیونکہ انہوں نے اجتہاد کیا اور صحیح فیصلے پر پہنچے اور ماجور ہوئے ۔ جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھیوں کا تعلق ہے انہوں نے اجتہاد کیا اور اجتہاد میں خطا کی پس وہ اس میں معذور ٹھہرے ۔ ان کی عزت و توقیر ضروری ہے نیز دیگر تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کی بھی توقیر و محبت لازم ہے کیونکہ قرآن حکیم میں ان کی مدح و ثناء آئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم نشینی اور صحبت کی وجہ سے بھی ان کی تعظیم و توقیر واجب ہے ۔ پس تحقیق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے معاملہ میں الله سے ڈرو میرے بعد انہیں ہدف تنقید نہ بنانا ، جس نے ان سے محبت کی ، تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے ساتھ بعض کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی ، اس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، جس نے مجھے ایذاء پہنچائی ، تحقیق اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی ۔ (القوانين الفقهية ، لامام محمد بن احمد بن جُزَيّ الغرناطى المالكى ، تحت " الباب الثامن في الإمامة ، ص 39 تا 40 ، مطبوعة دار ابن حزم ، طبع اول ١٤٣٤ه‍/٢٠١٣ء)

اس میں روافض کا رد ہے وہ اپنی بدگمانی و بد اعتقادی کے سبب اہل سنت کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں ۔ یہ اُن کی بد گمانی ہے اہل حق (یعنی اہل سنت و جماعت) تمام صحابہ اور تمام اہل بیت رضی اللہ عنہم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ خوارج کی طرح نہیں ہیں جو اہل بیتِ نبوت کے دشمن ہیں اور روافض کی طرح بھی نہیں جو جمہور صحابہ کرام اور اکابر امت سے عداوت رکھتے ہیں ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب القريش و ذكر القبائل ، جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 135 ، مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء،چشتی)

حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ عادل ، فاضل اور بہترین صحابہ میں سے تھے وہ جنگیں جو ان کے درمیان ہوئیں ان میں سے ہر ایک گروہ شبہہ پر تھا جس کے سبب وہ اپنے آپ کو صواب پر ہونے کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ اور یہ تمام اپنی جنگوں میں تاویل کرنے والے تھے اس سبب ان میں سے کوئی عدالت سے خارج نہیں ہوا اس لیے کہ یہ تمام مجتہد تھے ۔ اور انہوں نے مسائل میں اختلاف کیا جیسا کہ ان کے بعد آنے والے مجتہدین نے مسائل میں اختلاف کیا ۔ اور ان میں سے کسی کے حق میں بھی اس سبب سے تنقیص کرنا لازم نہیں آتا ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ، لامام ابى الحسن على بن سلطان محمد القاري الحنفي ، كتاب المناقب ، تحت " باب مناقب الصحابة رضي الله عنهم جلد 11 صفحہ 151 مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء)

بہر حال صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت کا حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی مدد نہ کرنا آپ کے ساتھ جنگ پر نکلنے سے رکنا اور ان میں سے ایک گروہ کا آپ رضی الله عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کا جو واقعہ پیش آیا ۔ جیسا کہ جنگ جمل و صفین تو یہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی خلافت کی عدم صحت پر دلالت نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کی حکومت میں آپ سے مخالفت کرنے والوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ یہ نزاع حقیقتاً حکومت کے لیے نہیں تھا بلکہ ان کے اجتہاد کی وجہ سے تھا جیسا کہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینے پر حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ پر انکار کیا ۔ بلکہ ان میں سے بعض نے تو یہ گمان کیا کہ آپ رضی الله عنہ قتلِ عثمان کی طرف مائل تھے ۔ اور معتمد قول کے مطابق اجتہاد میں خطا کرنے والے کی نہ تضلیل کی جاتی ہے نہ تسفیق کی جاتی ہے ۔ (منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم صفحہ 191 تا 192 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه‍/١٩٩٨ء،چشتی)

ہم رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہر ایک صحابی کا ذکر خیر کیساتھ ہی کرتے ہیں ۔ یعنی اگرچہ ان میں سے بعض سے بعض سے وہ کام صادر ہوئے جو صورتا شر ہیں ، کیونکہ یہ امور ان سے اجتہاد کی بنیاد پر صادر ہوئے نہ کہ اصرار و عناد کے سبب فساد کی وجہ سے ۔ ان سے حسن ظن کی بنیاد پر ان تمام کا مقصود بہترین انجام کی طرف تھا ۔ (منح الروض الازھر فى شرح فقه الاكبر ، للملا علی بن سلطان محمد القاری ، أفضل الناس بعده عليه الصلاة السلام الخلفاء الأربعة على ترتيب خلافتهم ، ص 209 ، مطبوعة دار البشائر الاسلامية ، طبع اول ١٤١٩ه‍/١٩٩٨ء،چشتی)

جو صحابہ کرام رضی الله عنہم میں کسی کو بھی برا کہتے وہ بلاجماع فاسق ، بدعتی ہے جب کہ اس کا اعتقاد یہ ہو کہ برا کہنا مباح ہے ۔ (شم العوارض فى ذم الروافض ، للملا على بن سلطان بن القارى ، تحت " مسألة من اعتقد ان سب الصحابة مباح فهو كافر ، ص 28 ، مطبوعة مركز الفرقان ، طبع اول ١٤٢۵ھ/٢٠٠٤ء)

وہ احادیث بھی جن میں حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ ، حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ اور بنی امیہ کی مزمت اور منصور و سفاح کی تعریف پائی جاتی ہے اور اسی طرح یزید ، ولید اور مروان بن حکم کی مزمت پائی جاتی ہے وہ بھی موضوعات میں سے ہیں ۔ (الاسرار المرفوعة و اخبار الموضوعة ، للملا على بن سلطان بن القارى ، فصول في الأدلة على وضع الحديث ، تحت " أحاديث الفضائل و المثالب صفحہ 455 ، مطبوعة المكتب الاسلامي ، طبع ثانى ١٤٠٦ه‍/١٩٨٦ء)

حضرت امام ابو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائی الطبری الشافعى رحمة الله علیہ متوفٰی ٤١٨ه‍ فرماتے ہیں : انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ام حرام بنت ملحان رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ۔ میں نے کہا : یا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، کس چیز نے آپ کو ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے ، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں ، میں نے کہا : الله تعالی سے دعا فرما دیجیے کہ الله تعالی مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے ، آپ نے فرمایا : تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو ، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے ، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی ، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ الله تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو ۔ آپ نے فرمایا : تم (سوار ہونے والوں کے) پہلے دستے میں ہو گی ۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے شادی کی اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا ، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی (اور ان کا انتقال ہو گیا) ۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سعید بن عمرو بن سعید بن عاص کو بیان کرتے سنا کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ پانی کا برتن لے کر رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ جایا کرتے تھے ، جب وہ بیمار پڑے تو ان کے بعد حضرت امیر معاویہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ اس برتن کو اٹھاتے اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا : اے معاویہ! اگر تو والئ حکومت بنا تو الله سے ڈرنا اور عدل و انصاف سے کام لینا ۔ فرماتے ہیں کہ میں جان گیا کہ میں آزمایا جاؤں گا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ۔ عبد الله بن بسر سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے گھر میں حضرت ابو بکر اور  حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما سے مشورہ طلب کیا ۔ تو انہوں نے عرض کیا الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : معاویہ (رضی الله عنہ) کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ اس سے حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کو خفگی ہوئی ۔ انہوں نے عرض کیا : یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا جو حکم پاتے ہیں کیا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قریش کے ان   بزرگوں میں اس کا نمونہ نہیں پاتے ۔ تو رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : معاویہ کو بلا لاؤ ۔ چنانچہ جب معاویہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوئے ۔ فرمایا : اپنا معاملہ معاویہ (رضی الله عنہ) کے سپرد کرو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے ۔
حضرت حارث بن زیاد رضی الله عنہ جو کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہیں ان سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا ۔
حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ المزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے سعید کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا : اے الله! اس کو ہادی (یعنی ہدایت والا) اور مہدی (یعنی ہدایت یافتہ بنا) اس کو ہدایت عطا فرما اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ۔
جبلہ بن سحیم روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے فرمایا : میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ جیسا سردار کوئی نہیں دیکھا ۔
امام جعفر صادق بن امام محمد باقر اپنے والد گرامی رضی الله عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی الله عنہما حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے عطیے قبول فرماتے تھے ۔
مصعب زبیری سے مروی ہے ۔ دراوردی نے ہم سے بیان کیا کہ جعفر بن محمد رحمة الله علیہ آئے اور بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سلام پیش کیا پھر تعریف کرنے کرنے کے بعد حضرت ابو بکر و حضرت عمر فاروق رضی الله عنہما پر سلام کیا پھر مجھے حالت تعجب میں دیکھ کر فرمایا : مجھے اچھا لگا (یعنی مجھے اس سے خوشی ہوئی) راوی بیان کرتے ہیں پھر فرمایا : بخدا یہ دین ہے جس پر میں عمل پیرا ہوں بخدا مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کےلیے بددعا کرتے ہوئے کہوں کہ الله اسے رسوا کرے یا اس کے ساتھ ایسا ایسا کرے ۔ اور (مجھے اس کے بدلے) دنیا ملے ۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم قریش سے محبت کرو بیشک جس نے ان سے محبت رکھی الله تعالی اس سے محبت فرمائے گا ۔
ریاح بن جراح الموصلی سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو حضرت معافی بن عمران رحمة الله عليہ سے سوال کرتے ہوئے سنا عرض کیا : اے ابو مسعود! امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليہ کے مقابلے میں کیسے ہیں؟ اس کی یہ بات سن کر آپ رحمة الله عليہ کو اتنہائی شدید غصہ آیا اور فرمایا : رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی صحابی پر کسی (غیر صحابی) کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ، سسرالی رشتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاتب اور وحی الہی  پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امین ہیں بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب اور میرے سسرال والوں سے درگزر کرو ۔ جس نے ان میں سے کسی کی بھی بدگوئی کی اس پر الله تعالی اس کے فرشتوں اور تمام دنیا کے انسانوں کی لعنت ہو ۔
عبد الملک بن عبد الحمید المیمونی رحمة الله عليہ فرماتے  ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمة الله عليہ سے عرض کی کہ : کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا : ہر سسرالی و نسبی رشتہ قیامت کے دن منقطع ہو جاۓ گا مگر میرا سسرالی و نسبی رشتہ (منقطع نہیں ہوگا) ؟ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا : کیوں نہیں ، ایسا ہی ہے . عبد الملک بن عبد الحمید فرماتے ہیں میں نے عرض کی : کیا یہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ہے ؟ آپ رحمة الله عليہ نے فرمایا : ہاں ، (حضور کے سسرال و نسب کے لیے ہے)
ابو علی الحسین بن خلیل العنزی سے  مروی ہے میں لکھاریوں کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا تھا ۔ انہوں معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ پر تنقید کی تو میں غصے سے کھڑا ہو گیا جب رات ہوئی تو خواب میں سرکارٍ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ فرما رہے تھے : تم ام حبیبہ! کا مقام میرے ہاں جانتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : ہاں یا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ۔ فرمایا : جس نے ام حبیبہ ( رضی الله عنہا ) کو اسکے بھائی کے بارے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو خط لکھا اور اس میں عرض کرتے ہیں کہ مجھے وصیت کریں اور زیادہ نہ کریں ۔ آپ نے انہیں لکھا کہ تم پر سلام ہو بعد اس کے کہتی ہوں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا : کہ جو الله تعالی کی خوشنودی لوگوں کی ناراضی سے کفایت کرے گا الله اسے لوگوں کی مصیبت سے بچائے گا ۔ اور جو کوئی خوشنودی الله کی ناراضی سے تلاش کرے گا تو الله اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا ، و السلام ۔
جعفر بن برقان سے مروی ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو دیر کرنے پر عتاب کرتے ہوئے لکھا ۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا : بھلائی کے کام میں غور و فکر سے کام لینا زیادتی اور راست روی کا باعث ہے ۔ دراصل راشد اور راست رو وہی ہے جو عجلت کی بجائے معاملہ فہمی اختیار کرتا ہے اور مضبوطی سے قدم رکھنے والا حق تک پہنچ جاتا ہے یا اس کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ اور عجلت باز خطا کرتا ہے یا قریب ہے کہ خطا میں مبتلا ہو ۔ جس شخص کو نرمی فائدہ نہ دے اسے بے عقلی نقصان دیتی ہے جسے تجربات فائدہ نہ دیں وہ مقاصد حاصل نہیں کر پاتا ۔ اور نصب العین تک نہیں پہنچتا ۔ یہاں تک کہ اس کی جہالت اس کے علم پر اور اس کی شہوت پر غالب آ جاتی ہے وہ مقاصد تک صرف حلم سے پہنچ سکتا ہے ۔
امام شعبی رحمة الله علیہ کا ارشاد مروی ہے کہ زیرک مدبر چار آدمی ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے اور حلم میں ، حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ مدبر ہونے اور جنگی حکمت عملی میں ۔ حضرت مغیرہ رضی الله عنہ سخت اور پیچیدہ معاملات کے حل میں ۔ (كاشف الغمة فى شرح اعتقاد أهل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت باب ذكر فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، ص 453 تا 457 ، مطبوعة مكتبة الطبري للنشر و التوزيع ، طبع اول ١٤٣٠ه‍/٢٠٠٩ء)(شرح اصول اعتقاد اھل السنة و الجماعة ، لامام ابى القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور اللالكائي الطبري ، تحت " ما روي عن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم في فضائل ابى عبد الرحمن معاوية بن ابى سفيان رضي الله عنه ، جلد 8 صفحہ 1524 تا 1534 ، مطبوعة دار الطيبة)

حضرت امام ابو طالب محمد بن علی بن عطیہ المکی الحارثی رحمة الله علیہ متوفٰی ۳٨٦ھ فرماتے ہیں : حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ کا عبید الله بن موسی عبسی کے ہاں بہت زیادہ آنا جانا تھا پھر آپ کو اس کا بدعتی ہونا معلوم ہوا مثلاً آپ سے عرض کی گئی کہ وہ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کو حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ سے افضل مانتا ہے اور یہ بھی عرض کیا گیا کہ اس نے حضرت امیر معاويہ رضی الله عنہ کا تذکرہ غیر موزوں الفاظ میں کیا تو امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ نے اس کے پاس نہ صرف آنا جانا چھوڑ دیا بلکہ اس سے جتنی احادیث حاصل کی تھیں سارہ مسوّدہ چاک کر دیا اور اس سے کوئی حدیث روایت نہ کی ۔ (قوت القلوب فى معاملة المحبوب ، لامام ابى طالب محمد بن على بن عطية المکی الحارثی ، الفصل الحادي و الثلاثون : فيه كتاب العلم و تفضيله ، و أوصاف العلماء ، تحت " ذكر تفصيل العلوم : معروفها و منكرها ، قديمها و محدثها ، جلد 1 صفحہ 463 تا 464 ، مطبوعة مكتبة دار التراث ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠١ء) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں حصّہ اوّل

0 comments

 حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اکابرین اسلام علیہم الرّحمہ کی نظر میں حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم  ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کو برا کہنا ہے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ 102)


حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اگر جنگ میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی ۔ (صواعق محرقہ صفحہ 105)


حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ 105)


امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ 106)


حضرت امام اعمش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے تو تم کو معلوم ہوتا کہ حکمرانی اور انصاف کیا چیز ہے‘ لوگوں نے پوچھا کیا آپ ان کے حلم کی بات کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں ! خدا کی قسم ان کے عدل کی بات کہہ رہاہوں ۔ (العواصم صفحہ 333‘ اور المتقی صفحہ 233)


حضرت عوف بن مالک مسجد میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ خواب میں ایک شیر کی زبانی آواز آئی جو منجانب اللہ تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دے دی جائے ۔ (بحوالہ طبرانی)


حضرت مجاہد نے کہا کہ اگر تم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہ مہدی ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ)


قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی‘ برادر نسبتی‘ اور کاتب وحی ہیں جو آپ کو برا کہے اس پر لعنت ہو ۔ (البدایہ والنہایہ)


امام ابن خلدون نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی کو خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کی ساتھ ذکر کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ آپ بھی خلیفہ راشد ہیں ۔ (تاریخ ابن خلدون ، جلد 2 ، صفحہ 1141)


حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے امام برحق ہیں ان کی برائی میں جو روایتیں لکھی گئی ہیں سب کی سب جعلی اور بے بنیاد ہیں ۔ (موضوعات کبیر صفحہ نمبر 129،چشتی)


امام ربیع بن نافع فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کے درمیان پردہ ہیں جو یہ پردہ چاک کرے گا وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر طعن کی جرات کرسکے گا ۔ (البدایہ ج 8‘ ص 139)


علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مرتبے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں لیکن دونوں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ہیں بلکہ مملکت اسلامیہ کے دوستوں میں سے ہیں ان کے باہمی اختلافات کے فتنہ کا تمام گناہ سبائی فرقہ پر ہے ۔ (البدایہ والنہایہ)


علاّمہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آپ کی سیرت نہایت عمدہ تھی اور آپ بہترین عفو کرنے والے تھے اور آپ سب سے بہتر درگزر کرنے والے تھے اور آپ بہت زیادہ پردہ پوشی کرنے والے تھے ۔ (البدایہ ج 8‘ ص 126،چشتی)


حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے خود اس شخص کو کوڑے مارے تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا کرتا تھا ۔ (الصارم المسلول)


حضرت معانی بن عمران سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ ﷲ علیہ ؟ انہوں نے کہا کیا تم ایک تابعی کا صحابی سے مقابلہ کرتے ہو ۔ (البدایہ)


حضرت ابن عمران نے کہا کہ جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی لعنت ہو اور اس پر تمام مخلوقات کی لعنت ہو ۔ (البدایہ)


حضرت قیصہ بن جابر اسدی فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر محبوب دوست اور ظاہر اور باطن کو یکساں رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا ۔ (تاریخ طبریٰ مترجم ج 5 ص 175،چشتی)


حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے پورا کرنے میں خلیفہ عادل ہیں ۔ (مکتوبات دفتر اول صفحہ 441)


حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے لکھا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں کبھی بدظنی نہ کرنا اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بدگوئی کرکے ضلالت کا ورطہ نہ لینا۔(ازالۃ الخفاء)


امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اللہ علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔

ترجمہ : جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)


امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں کو پیر سیال علیہ الرّحمہ کا جواب : ⬇


بندہ نے عرض کیا بعض سادات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اچھا نہیں سمجھتے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دشمن سمجھتے ہیں : فرمایا جب تک تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اعتقاد درست نہ ہو ایمان کامل نہیں ہوسکتا ۔ (مرآۃُ العاشقین صفحہ 183 حضرت خواجہ سمش الدین سیالوی المعروف پیر سیال رحمۃُ اللہ علیہ گولڑہ شریف والوں کے پیر و مرشد سلسلہ چشتیہ کے عظیم رہنما)


امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)


امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 ) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ ہشتم

0 comments

 معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ ہشتم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا ہے ، تاریخ پر ایسے دوررس اثرات ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی ہے ۔ چودہ سو سال بعد ذہنِِ انسانی کے ارتقاءنے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے سہارے معراج اور اس سے متعلقہ واقعات کو ایسی حقیقت میں تبدیل کردیا ہے جو ناقابلِ تردید ہے ۔


عقل کی پرواز بہت محدود ہے، وحی کی وسعت کا اندازا عقل نہیں لگا سکتی، اسی لیے وحی کے مقابل عقل کو قبلہ بنانا دانش مندی نہیں۔ قرآن مقدس نے اسی لیے عقلاے زمانہ کو چیلنج کیا تھا: 

  ’’اور اگر تمھیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے ان خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ ۔ (سورہ البقرۃ:۲۳) 

یہ اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن کے آگے سب عاجز و ساکت ہیں اور اس کتابِ مقدس کے احکام شک و شبہے سے پاک ہیں،امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ (م۱۹۲۱ء) نے خوب فرمایا :


تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منھ میں زباں نہیں ، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں


۱۷؍ویں صدی کے مشینی انقلاب نے مغربی قوتوں کو خود فریبی میں مبتلا کر دیا، وہ گمان میں پڑ گئے کہ اب قرآن مقدس سے دلوں کو دور کرنا آسان ہو گا، لیکن یہ گمان ڈھے گیا، قرآن کی حقانیت ایجادات و اختراعات کے ساتھ ساتھ اور اجاگر ہوتی گئی، سائنس نے جہاں جہاں قرآن سے استفادہ کیا ٹھوس نتائج بر آمد ہوئے، جانسن کے بہ قول : ’’یہی (قرآن مقدس کا) پیغام ایک تعمیری قوت کے طور پر وجود میں آیا اور عیسائی دنیا میں بہ طور نور پھیل گیااور جہالت کی ظلمت کو دور کر گیا ۔ (تبرکات مبلغ اسلام صفحہ ۴۹۳)


ایمان نام ہے اطاعت و تسلیم کا، ہم ایمان لائے، اللہ و رسول کی اطاعت کا عہد باندھا، قرآن کے احکام کو تسلیم کیا، اب اسے چھوڑ کر عقلِ خام کو قبلہ بنانا منفی طرزِ عمل ہے؛ جو مغرب کا وطیرہ ہے، مغربی قوتوں نے ایمان کم زور کرنے کی غرض سے عقلی تحریک کو آگے بڑھایا، قرآن کریم نے عقل کی نہیں بلکہ اللہ و رسول کی اطاعت کی تعلیم دی : اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا ۔ (سورۃ المآئدۃ:۹۲)


یوں ہی واقعۂ معراج ہے یعنی رسول کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ نے عالمِ سموات کی سیر کروائی؛ اور سب سے بڑھ کر اپنا قربِ خاص عطا فرمایا۔ واقعۂ معراج کو بعض مغربی تعلیم سے مرعوب مسلمان عقل نا پائیدار کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اعتراض کرتے ہیں کہ کس طرح کم وقت میں فرش سے عرش گئے، رب کا دیدار کیا؟ اور مشاہدات کیے ؟ قرآن نے صاف فرما دیا : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد اگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔ (سورۃ بنی اسرائیل : ۱)


سوچنے والی بات ہے کہ نبی ؛ رب قدیر کے پیغامات پہنچاتے ہیں ، انہیں نیابتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے، ’’رب کی عظیم نشانیاں‘‘ ملاحظہ فرما کر انہوں نے انسانیت کو سنوارا، رب نے انہیں اپنی ربوبیت کی پہچان کا ذریعہ بنایا، تو انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھا دے تو جائے تعجب کیا ہے ؟ اعتراض کیسا ؟ رب نے بتایا اور وہ قدرت والا ہے، اس میں کلام ؛ رب کی قدرت پر جسارت ہے ۔ قرآن و حدیث دونوں پر ہمارا ایمان ہے اور دونوں ہی معراجِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر دلیلیں رکھتے ہیں، قرآن مقدس میں مسجد اقصیٰ تک کا بیان تو بالکل واضح ہے اور احادیث میں آگے کی منازل اور رویتِ باری (دیدار الٰہی) کا بیان ہے ۔ قادرِ مطلق نے اپنی قدرت سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنا دیدار عطا فرمایا، ہم اس رُخ سے یہاں چند دلائل ذکر کیے دیتے ہیں تا کہ ایمان کو تازگی ملے اور اسلام مخالف قوتوں کو ضرب کاری۔


سورۃ والنجم میں بہت واضح طور پر معراج کا ذکرفرمایا گیا، جس میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ حضور اقدس اپنی خواہش سے نہیں کہتے جو رب کی مرضی ہوتی ہے وہی فرماتے ہیں، ملاحظہ کریں: ’’اس چمکتے تارے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کی قسم جب یہ معراج سے اترے، تمھارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے، اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو بس وحی ہوتی ہے جو انھیں کی جاتی ہے؛ انھیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقت ور نے، پھر اس جلوہ نے قصد فرمایا اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارے پر تھا، پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا، پھر خوب اتر آیاتو اس جلوہ اور محبوب میں دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا، پھر وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا، تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو، اور انھوں نے وہ جلوہ دو بار دیکھا سدرۃالمنتہیٰ کے پاس ۔ (سورۃالنجم)


دیدارِ الٰہی کی بابت کفارِ مکہ اور یہودو نصاریٰ کو بہت شاق گزرا اور وہ حسد میں پڑ گئے، اس حقیقت کو جھٹلانے کے لیے بہانے تلاش کرنے لگے، وحی نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، ابتدا سے ہی معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انکار یہود و نصاریٰ کرتے چلے آئے ہیں۔اسی سبب راقم نے معراج نبوی کے انکار کو مغربی اندازِ فکر سے تعبیر کیا ہے۔


امام محمد زرقانی کے حوالے سے امام احمد رضا علیہما الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خصائص سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے بیداری میں دیکھا، یہی مذہب راجح ہے اور اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس بلند و بالا تر مقام میں کلام فرمایا، جو تمام امکنہ سے اعلیٰ تھا، اور بے شک ابن عساکر نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا شبِ اسریٰ مجھے میرے رب نے نزدیک کیا کہ مجھ میں اور اس میں دو کمانوں بلکہ اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا ۔ (دیدار الٰہی صفحہ ۱۱۔۱۲)


امام نسائی اور امام ابن خزیمہ و حاکم و بیہقی علیہم الرحمہ کی روایت میں ہے : کیا ابراہیم کے لیے دوستی اور موسیٰ کےلیے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے دیدار ہونے میں تمہیں اچنبا ہے، حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے، امام قسطلانی نے فرمایا اس کی سند جید ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرمایا کرتے بے شک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دو بار اپنے رب کو دیکھا، ایک بار اس آنکھ سے اور ایک بار دل کی آنکھ سے۔ امام سیوطی و امام قسطلانی و علامہ شامی و علامہ زرقانی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (دیدار الہی ص۳۔۴)


خطیب بغدادی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : شب اسریٰ مجھے میرے رب عزوجل نے نزدیک کیا یہاں تک کہ مجھ میں اس میں دو کمان بلکہ کم کا فاصلہ رہا ۔ (ختم نبوت، ص۱۲، امام احمد رضا)

مجھے یہاں امام شرف الدین بوصیری کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جو معراج کی طرف اشارہ کرتا ہے :


وَبِتَّ تَرْقیٰ اِلٰی اَنْ نِلْتَ مَنْزِلَۃً

مِنْ قَابَ قَوْسَیْنِ لَمْ تُدْرَکْ وَلَمْ تُرَمٖ

ترجمہ : آپ بلندیوں کی جانب بڑھتے رہے، یہاں تک کہ ’’قاب قوسین‘‘ کی وہ منزل پالی جس تک نہ کسی کی رسائی ہوئی نہ ہمت (وہ یہ کہ صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا) ۔


ہمیں ایمان، رب کی معرفت، توحید کی تعلیم، حق کی پہچان سب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ہی عطا ہوئے، ان کی رسائی بارگاہِ رب تک اور ہماری رسائی بارگاہِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک، اسی لیے امتِ محمدیہ کو جو مقام ملا وہ دوسری امتوں کو نہ ملا۔ ان سب انعامات و امتیازات کے باوجود واقعۂ معراج سے متعلق صہیونی اندازِ فکر کو اہمیت دینا مناسب نہیں، اور یہی مغربی سازش بھی تھی کہ مسلمان اپنے نبی کی عظمت میں شک کرے، مغرب کے ایسے حربوں کو ناکام بنانا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ایک مسلمان کو لازم ہے کہ وہ اپنے نبی کی عظمتوں کے ترانے گنگنائے، امام شرف الدین بوصیری فرماتے ہیں: ’’ہم مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے کہ عنایت ربانی سے ہمیں ایک ایسا ستون میسر آگیا ہے جو کبھی زمیں بوس نہ ہوگا ۔


عہدِ حاضر کا انسان ان کے ماننے میں جھجک اور پس و پیش کا شکار نہیں۔ یہی باتیں جب مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور بعید از ممکنات تھیں۔ آج ہم گھر بیٹھے ٹیلی فون کے ذریعے یورپ و امریکہ میں مقیم اُن عزیز واقارب سے باتیں کرتے ہیں جو ہزاروں میل دور بستے ہیں ۔ مواصلاتی سیاروں کے ذریعے دوسرے براعظموں میں ہونے والے کرکٹ اور ہاکی کے میچ ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں۔ نیویارک میں ایک سو دو منزلہ امپائر اسٹیٹ کی فلک بوس عمارت میں لفٹ کے ذریعے منٹوں میں اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔نیل آرمسٹرانگ کے چاند کی سطح پر پہنچ کر بلندیوں سے کرہ ارض کی خوبصورتیوں کے بیان پر کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارا یقین متزلزل ہوتا ہے۔


ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی قیامت خیز ہولناک تباہیوں کو ثابت کرنے کے لیے کسی عینی شاہد کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ آج کا انسانی ذہن ان تمام باتوں سے مانوس ہے۔ بہ اندازِ دیگر یہی باتیں چودہ سو سال پہلے اُمّی لقب، معلم کتاب و حکمت اور مخبر ِ صادق نے سنائیں تو دنیا ماننے کو تیار نہ تھی۔ وحی، براق، اسراء، معراج، قیامت، حساب و کتاب، جزا و سزا، جنت دوزخ وغیرہ وغیرہ تو یہ سب باتیں ناقابلِِ فہم اور ناقابلِِ یقین تھیں۔ اللہ کا وہ آخری نبی جو نذیر و بشیر بن کر اِس دنیا میں آیا اُس کی باتوں کی صداقت، کلام کی بلاغت، ارشاد کی حکمت کی تصدیق کرنے کےلیے کسی بالغ نظر ابوبکرؓ کی ضرورت تھی، یا پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی، کہ زمانہ قرآن اور ارشادات ِ نبوی کی تصدیق کرتا جارہا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معراج انسانی تاریخ کا اچھوتا اور محیرالعقول واقعہ ہے۔ یہ واقعہ کس مہینے میں ہوا، قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سیرت نگاروں کا عام رجحان یہ ہے کہ ہجرت سے ایک سال یا ڈیڑھ سال پیشتر یہ واقعہ پیش آیا، وہ پیر کا دن اور رجب کی ستائیسویں تاریخ تھی۔ قرآنِ پاک میں تین مقامات پر اس واقعہ کا ذکر ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت  ہے : سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا  ۚإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۔

”پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کوسیر کرائی، مسجد ِ حرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (بیت المقدس) تک ، اس کے اطراف کو ہم نے بڑی برکت دی ہے، تاکہ اپنی نشانیاں اسے دکھائیں۔ بلاشبہ وہی ذات ہے سننے والی اور دیکھنے والی ۔


دوسرا اشارہ اسی سورت کی ساٹھویں آیت اور تیسرا سورہ نجم کی آیات میں ہے۔ مفسرین اور محدثین کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رات کے وقت مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک براق کا سفر ”اسراء“ کہلاتا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف سدرة المنتہیٰ تک کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے۔ اس موقع پر عام طور سے ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ معراج بحالت ِ جسم تھی یا بحالت ِ خواب؟ سورہ بنی اسرائیل میں لفظ ”سبحان الذی“ سے ابتداءخود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کر واقع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا مقصود تھا۔ لہٰذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیا۔ اور یہ وقت زمان و مکان کی فطری قیود سے آزاد تھا۔ اس بات کا سمجھنا آج کے انسان کےلیے نسبتاً آسان ہے۔


بیت الحرام (مکہ) سے مسجدِ اقصیٰ (فلسطین) کا زمین کا سفر جسے اسراءکہا جاتا ہے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے براق پر کیا ۔ براق، برق (بجلی) سے مشتق ہے جس کی سُرعت ِ رفتار سائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ بتائی ہے۔ جب برق کی یہ سرعت ہوسکتی ہے تو بُراق جو اللہ تعالیٰ کا راکٹ تھا اس کی تیز رفتاری اور سبک سری پر کیوں شک کیا جائے؟ غرض سفرِ معراج اللہ جل جلالہ اور خالقِ کائنات کی غیر محدود قوت اور قدرت ِ کاملہ کا مظاہرہ تھا جس نے انسان کو ایک نیا نظریہ دیا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ آج کی خلائی تسخیر، چاند پر اترنے کی کامیاب کوشش سب واقعہ معراج سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اس جانب حکیم الامّت علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے :


سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں


واقعہ معراج اگر خواب ہوتا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثر انسان مافوق الفطرت اور محیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔ خواب کو نہ آج تک کسی نے اس درجہ اہمیت دی اور نہ وہ اس کا مستحق ہے۔ عام روایت کے مطابق حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی چچازاد بہن اُمِّ ہانی کے گھر تھےاور بعض روایات میں حطیم کا ذکر ہے  کہ آپ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ صبح آپ نے اپنی چچا زاد بہن  سے اس بات کا تذکرہ فرمایا۔ اس نے حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین واقعے کو سن کر آپ کی چادر پکڑ کر روکا اور عرض کیا کہ خدارا اسے لوگوں کے سامنے بیان نہ فرمائیے، وہ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پُرعزم لہجے میں فرمایا: میں ضرور بیان کروں گا۔ یہ عزم خود اس بات کی دلیل ہے کہ واقعہ معراج بحالت ِ جسم و جاں ہے۔ پیغمبرِ آخر الزماں کے مشاہدات ِ معراج میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جن کا فیصلہ روزِ جزا پر منحصر ہے، یعنی دنیوی اعمال کی جزا و سزا۔ قیامت سے پہلے انہیں آپ کو ممثّل کرکے دکھلایا گیا۔ اس سے باری تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ جن چیزوں کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بشیر اور نذیر بناکر بھیجے گئے ہیں ان کے عینی گواہ بن جائیں۔


مختصراً  تفصیلات ِ معراج میں ایک اہم واقعہ جملہ انبیاءکی جماعت کی امامت کا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ میں یہ نماز پڑھائی گئی۔ بعض روایتیں ہیں کہ یہ معراج (آسمانی سفر) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں، اس گھر کے متولی رسول ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام انبیاء علیہم السلام نے (حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک) مسجد ِ اقصیٰ میں جمع ہوکر رسولِ آخریں کا استقبال کیا۔ تمام پیغمبروں نے مل کر اس لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پذیرائی فرمائی کہ اب آپ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کےلیے تشریف لے جارہے تھے۔ جنہوں نے لکھا ہے کہ انبیاءکی امامت کا شرف آپ کو معراج سے واپسی کے بعد پیش آیا، ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات نے آپ کا شرف اتنا بلند کردیا کہ امام الانبیاءبنادیا ۔ معراج کے سفر میں سید الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام رفیق سفر تھے۔ ہر آسمان میں وہاں کے فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور ہر آسمان میں ان انبیاء علیہم السلام سے ملاقات ہوئی جن کا مقام کسی معین  آسمان میں ہے  ۔چھٹے آسمان کی سیر کرواتے ہوئے جب ساتویں آسمان پر پہنچے تو اس آسمان کے عجائبات ہی کچھ اور تھے۔ یہاں فرشتوں کا کعبہ بیت المعمور ہے جو کعبة اللہ کے عین اوپر واقع ہے۔ ایک وقت میں ستّر ستّر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں اور ان کی دوبارہ طواف کی باری نہیں آتی ۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ سیدالملائکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ان سے تعارف آپ کے جدامجد کہہ کر کروایا۔ یہاں سے آپ بلند ہوئے تو سدرة المنتہیٰ پر آئے جو ایک بیری کا درخت ہے، اس کی جڑ ساتویں آسمان پر ہے اور یہ بہت بلند ہے۔ سدرة المنتہیٰ عالمِ خلق اور رب السموٰت والارض کے درمیان حدِّفاصل ہے۔ اس مقام پر تمام خلائق کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے آگے جو کچھ ہے وہ عالم الغیب ہے جس کی خبر نہ مقرب فرشتے کو ہے اور نہ کسی پیغمبر کو۔ نیچے سے جو کچھ آتا ہے یہاں وصول کیا جاتا ہے۔ اور اوپر سے جو کچھ صادر ہوتا ہے وہ بھی یہاں وصول کرلیا جاتا ہے۔ اسی مقام پر جنت الماویٰ ہے جس کا سورہ نجم میں ذکر ہے۔ صاحب المعراج کو جنت الماویٰ کا مشاہدہ کروایا گیا۔ اس میں وہ تمام نعمتیں تھیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا۔اسی طرح دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔اسی جگہ آپ نے حضرت جبرئل کو ان کی اپنی اصلی شکل میں دیکھا اور 50 نمازیں بھی فرض ہوئیں ۔ یہ خوشخبری بھی ملی کہ شرک کے سوا تمام گناہوں کی بخشش کا امکان ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

 

اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم براق پر سوار مکۃ المکرمہ تشریف لائے، اس وقت ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کا ذکر ام ہانی رضی اللہ عنہ سے کیا، احتیاطاً کہنے لگیں کہ یہ اس قدر عجیب واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ ورنہ کفار تمسخر اڑائیں گے، لیکن خانہ کعبہ میں نماز کے بعد وہی ہادی برحق، صادق و امین سردار انبیاء اٹھا اور رات کو پیش آنے والے اس واقعہ کا اعلان کر دیا۔ کفار یہ سن کر ہنسنے لگے، تمسخر اڑانے اور تنگ کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے پیچھے آوازیں کستے اور کہتے وہ دیکھو (نعوذ باللہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بہک گئے ہیں، نعوذ باللہ کافروں کی ان باتوں کا کچھ اثر بعض کم عقل مسلمانوں پر بھی ہوا اور کسی نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بہکایا  اور بولا دیکھو تمہارا دوست کیا کہہ رہا ہے کیا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتا ہے کہ وہ ایک رات میں اتنے لمبے سفر پر گئے اور واپس بھی آگئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات مانتا ہوں کیونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آسمانوں سے ہر روز ایک فرشتہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام اور وحی بھی لاتا ہے۔ معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔


یہ واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایک اجمالی تعارف تھا، لیکن یہ بحث صدیوں سے اب تک چل رہی ہے کہ معراج جسمانی تھا یا کہ ایک خواب تھا کیا یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا روحانی سفر تھا، پختہ ایمان والوں کےلیے اس میں کوئی الجھن نہیں رہی اور وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے ہوئے واقعہ معراج کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا شعور کی حالت میں جسمانی سفر مانتے ہیں اور واقعہ معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں  ۔ مشکل ان حضرات کی ہے جو اس واقعہ کو اپنی ناقص عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنی حیثیت کا اندازہ نہیں لگاتے کہ وہ کس قدر عالم، سائنس دان یا عقلمند ہیں ۔


موجودہ صدی میں یوں تو بہت سے سائنسی نظریات پیش ہوئے مگر ان میں سب سے زیادہ معروف نظریہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت (Theory of Relativity) کہلاتا ہے ۔اس نظریے کی آمد نے کائنات اور قوانین کائنات کے بارے میں ہمارے اندازِ نظر کو ایک نیا زاویہ بہم پہنچایا اور ہمارے ذہن کو وسعت دی۔


جب کبھی وقعہ معراج کا تذکرہ ہوتاہے تو ہمارے یہاں سائنسی حلقوں سے لے کر علمائے کرام تک اسی نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معراج پر جانا اور ایک طویل مدت گزار کر واپس آنا،مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی غیر موجودگی میں زمین پر وقت کا نہ گزرنا نظریہ اضافیت سے ثابت ہوتا ہے۔مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اس کی ٹھوس دلیل چند سطور  کے بعد پیش کروں گا۔تاہم پہلے نظریہ اضافیت سے کما حقہ تعارف حاصل کرلیا جائے تاکہ طبیعات سے تعلق رکھنے والوں کے ذہن میں نظریہ اضافیت کے نکات تازہ ہوجائیں اور ایک عام قاری کے لیے نظریہ اضافیت کو سمجھنا آسان ہوجائے۔


کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائنس انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمال کرسکا ہے ۔قدرت کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں ۔ وہ علم جو سو فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو،اُسے پانچ فیصد ی محدود ذہن سے سمجھنا ناممکن امر ہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو سائنسی توجیہ کا محتاج نہیں ہے۔


یہ نظریہ دو حصوں پر مبنی ہے ۔ ایک حصہ " نظریہ اضافیت خصوصی"(Special Theory of Relativity) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ " نظریہ اضافیت عمومی " (General Theory of Relativity) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ خصوصی نظریہ اضافیت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیں گے۔


فرض کیجئے کہ ایک ایسا راکٹ بنا لیا گیا ہے جو روشنی کی رفتار (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سکینڈ) سے ذرا کم رفتار پر سفر کرسکتا ہے ۔ا س راکٹ پر خلاء بازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے ۔راکٹ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ زمین پر موجود تمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظر آتے ہیں ۔ راکٹ کا عملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتار سے خلاء میں سفر کرنےکے بعد زمین کی طرف پلٹتا ہے اوراسی تیزی سے واپسی کا سفر بھی کرتا ہے مگر جب وہ زمین پر پہنچتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اپنے جن دوستوں کو وہ لانچنگ پیڈ پر خدا حافظ کہہ کر گئے تھے ،انہیں مرے ہوئے بھی پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور جن بچوں کو وہ غاؤں غاؤں کرتا ہوا چھوڑ گئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کا استقبال کررہے ہیں ۔وہ شدید طور پر حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے تو سفر میں دو سال گزارے لیکن زمین پر اتنے برس کس طرح گزر گئے ۔اضافیت میں اسے " جڑواں تقاقضہ" (Twins Paradox) کہا جاتا ہے اور اس تقاقضے کا جواب خصوصی نظریہ اضافیت "وقت میں تاخیر" (Time Dilation) کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ جب کسی چیز کی رفتار بے انتہاء بڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنےلگے تو  وقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑنا شروع ہوجاتا ہے ،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کے لئے ایک سکینڈ گزرا ہو تو زمینی باشندوں پر اسی دوران میں کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔


اسی مثال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہےکہ وقت صرف متحرک شے کے لئے آہستہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی ساکن فرد مذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کا منتظر ہے تو ا س کے لیے انتظار کے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں آکر ہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج کے سفر سے واپس آئے تو حجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چھوڑ کر گئے تھے۔گویا اتنے طویل عرصے میں زمین پر ایک لمحہ بھی نہیں گزرا ۔ اگر خصوصی نظریہ اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلاً زمین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی غیر موجودگی میں کئی برس گزر جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔


نظریہ اضافیت ہی کا دوسرا حصہ یعنی "عمومی نظریہ اضافیت " ہمارے سوا ل کا تسلی بخش جواب دیتا ہے ۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت (زمان)اور خلاء (مکان)کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان (Time and Space)کی مخلوط شکل میں پیش کیا ہے اور کائنات کی اسی انداز سے منظر کشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی (Spatial Dimensions) ہیں جنہیں ہم لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی (یاموٹائی ) سے تعبیر کرتے ہیں ، جب کہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں ۔ اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کو زمان ومکان کی ایک چادر (Sheet) کے طور پر پیش کیا ہے ۔


تمام کہکشائیں ، جھرمٹ ، ستارے ، سیارے ، سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہیں ۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہر کا باشندہ ہے لہٰذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کےکسی بھی حصے کو زمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایا ہےکہ وہ کتنا بے وقعت اور کس قدر محدود ہے ۔


یہاں آکر ہم ایک نقطہ اٹھائیں گے اوروہ یہ کہ کیا کائنات صرف وہی ہے جو طبعی طو ر پر قابلِ مشاہدہ ہے ؟ایسی دیگر کائناتیں ممکن نہیں جو ایک دوسرے سے قریب ،متوازی اور جداگانہ انداز میں پہلو بہ پہلو وجود رکھتی ہوں ؟


اس کاجواب ہے " ہاں"


لیکن اگر ایسا ممکن ہے تو پھر ہم ایسی دیگر کائناتوں کا مشاہدہ کیوں نہیں کر پاتے ؟اس بات کی وضاحت ذرا سی پیچیدہ اور توجہ طلب ہے ۔اس لیے یہاں ہم ایک اور مثال کا سہارا لیں گے جس سے ہمیں اپنی محدود یت کا صحیح اندازہ ہو گا۔


کارل ساگان (Carl Sagan) جو ایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے ، اپنی کتاب کائنات (Cosmos) میں ایک فرضی مخلوق کا تصور پیش کرتا ہے جو صرف دو جہتی (Two Dimensional) ہے۔ وہ میز کی سطح پر پڑنے والے سائے کی مانندہیں ۔ انہیں صرف دو مکانی جہتیں ہی معلوم ہیں ۔ جن میں وہ خود وجود رکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی ۔چونکہ وہ ان ہی دو جہتوں میں محدود ہیں لہٰذا وہ نہ تو موٹائی یا اونچائی کا ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں موٹائی یا اونچائی کا کوئی تصور ہے ۔وہ صرف ایک سطح (Surface) پرہی رہتے ہیں ۔ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی (Three Dimensional) مخلوق کی ملاقات ہو جاتی ہے ۔راہ ورسم بڑھانے کے لئے سہ جہتی مخلوق ،اس دو جہتی مخلوق کو آواز دے کر پکارتی ہے ۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈر جاتی اور سمجھتی ہے کہ یہ آواز اس کے اپنے اندر سے آئی ہے۔


سہ جہتی مخلوق ،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنا دیدار کرا سکے مگر دو جہتی مخلوق کی تمام تر حسیات صرف دو جہتوں تک ہی محدود ہیں ۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پر ہے ۔وہ مزید خوف زدہ ہو جاتی ہے ۔اس کا خوف دور کرنے کے لیے سہ جہتی مخلوق ،دو جہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھا لیتی ہے اور وہ اپنی دینا والوں کی نظر میں "غائب " ہوجاتا ہے جبکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذرا سا اوپر جاتا ہے ۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اور موٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اور بتاتی ہےکہ یہ ایک اور جہت ہے جس کا مشاہدہ وہ اپنی دو جہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکار دو جہتی مخلوق کو اس کی دنیا میں چھوڑ کر سہ جہتی مخلوق رخصت ہو جاتی ہے ۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کا سفر کیا ہے جسے اونچائی کہتے ہیں ،مگر اپنی دنیا کی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کو یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے ۔اس کے دوست اس سے کہتے  ہیں کہ آرام کرو اور ذہن پر دباؤ نہ ڈالو کیونکہ ان کے خیال میں اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔


ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پر محدود اس مخلوق کی مانند ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری طبعی قفس (Physical Prison) چہار جہتی ہے اور اسے ہم وسیع و عریض کائنات کے طو پر جانتے ہیں ۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہار جہتوں پر چلنے کے پابند ہیں اور ان سے باہر نہیں جا سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالا کی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے او ر اس جہاں دیگر کے مظاہر ہمارے مشاہدات سےبالاتر ہیں ۔


اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔عالم دنیا یعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالا یعنی ہمارے مشاہدے و ادراک سے ماوراء کائنات دو الگ زمانی و مکانی چادریں ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہو سکتی ہیں لیکن بے انتہاء قربت کے باوجود ایک کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دوسری کائنات میں ہونے والے عمل پر نہ اثر پڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیا جائے گا۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔


فقیر کی ناقص رائے میں واقعہ معراج کی دلیل کے طور پر " روشنی کی رفتار سے سفر"کے بجائے مختلف زمان ومکان کے مابین سفر والا تصور زیادہ صحیح ،اور سائنسی ابہام سے پاک ہے جس کی مدد سے خصوصی نظریہ اضافیت کے تحت پیدا ہونے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جاسکتا ہے ۔


واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیےنہیں  آتا کہ وہ کہتے ہیں کہ : ایک انسان کس طرح کھربوں میلوں کا فاصلہ یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک او رپھر زمین سے آسمانوں تک ، اور پھرسدرۃ المنتہیٰ تک چشم میں زدن میں طے کرکے واپس آجائے اور بستر بھی گرم ہو اور دروازے کی کنڈی بھی ہل رہی ہو اور وضو کا پانی بھی چل رہا ہو ۔ ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔

 دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔

تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔

 اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کےلیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔

ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلامیں جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔


آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔


ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کر سکے ۔


مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی  ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے  معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔


ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔  اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے  بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا ؟


مزید بحث میں پڑنے سے پہلے چند ضروری باتیں واضح کردی جائیں تو مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ آئن سٹائن کے مطابق مادی شے کے سفر کرنے کی آخری حد روشنی کی رفتار ہےجو 186000 (ایک لاکھ چھیاسی ہزار) میل فی سیکنڈ ہے دوسری رفتار قرآن حکیم نے امر کی بتائی ہے جو پلک جھپکنے میں پوری کائنات سےگزر جاتی ہے ۔


چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ۔ (سورہ القمر: 50)

" اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا"


سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے میں سے بغیر ٹکرائے  گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں  سرن لیبارٹری  میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے 23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات سے یہ ثابت  ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)


ایک اور بات یہ ہے کہ ایٹم (Atom) کے مرکز کے گرد الیکٹرون چکر لگارہے ہوتے ہیں ،ان دونوں کے درمیان مادہ نہیں ہوتا بلکہ وہاں بھی خلا موجود ہوتا ہے۔ایک اور ذرےکے بارے میں تحقیق ہورہی ہے جس کانام (Tachyon) ہے اسکا کوئی وجود ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن تھیوری (Theory)میں اس کا ہوناثابت ہے۔یہ ہیں مادے کی مختلف اشکال اور ان کی رفتاریں۔


جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو ۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا  وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔


بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے  فاصلے پر رکھ دیں ۔سوئچ دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔ اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت ایک رات میں کیسے طے ہوگئی ۔اللہ جلّ جلالہ کی قدرتیں لاانتہاء ہیں ،وہ ہر بات پر قادر ہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے ،اگر وہ روکے تو کوئی اس کی ذات پاک کے سوا نہیں جو دن نکال سکے ۔ قرآن پاک  میں فرمایا : قُلْ أَرَأ َيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴿ 71﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖأَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔ (القصص:  72 تا 71)

"آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگر قیامت تک تم پر رات کو مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ؟ آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ چاہے تو قیامت تک تم پر دن ہی دن رہنے دے تو کون رات لا سکتا ہے اس کے سوا،جس میں تم آرام پاؤ ۔


تو حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کو روک سکتا ہے پھر جب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند ،زہرہ اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں تو خدائی طاقت اور لا انتہاء قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیا اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شب معراج میں آسمانوں کو طے کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ؟ہے کوئی سوچنے والا؟پھرایک اور طریقے سے غورکریں کہ جوسواری ،بُراق آپ کے لیے بھیجی گئی تھی ،اس کی تیزرفتاری کا کیا عالم تھا۔روایت میں تصریح کے ساتھ درج ہے کہ اس کا ایک قدم حد نظر تک پڑتا تھاجو روشنی کی رفتار سے ہزارہا درجہ زیادہ ہے ۔ہماری نظروں کی حد نیلگوں خیمہ ہے جو آسمان کے نام سے موسوم ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بُراق کا پہلاقدم پہلےآسمان پر پڑا اور چونکہ آسمان  ازروئے قرآن پاک سات ہیں ،اس لیے سات قدم میں ساتوں آسمان طے ہوگئے ،پھر اس سےآگے کی مسافت بھی چند قدم کی تھی ۔


حاصل کلام یہ کل سفررات کے بارہ گھنٹوں میں سے صرف چندمنٹ میں طے ہوگیا اوراسی طرح واپسی بھی ،تو اب بتائیے کہ اس سرعت سیر کےساتھ ایک ہی رات میں آمد ورفت ممکن ٹھہری یا غیر ممکن ؟اب فرمایا جائےکہ کیا اشکال باقی رہا ؟


علاوہ ازیں ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں، پنکھے (سیلنگ فین) سے ہوا صاف ہورہی ہے ، ریڈیو سُنا جارہا ہے ، ٹیلی وژن دیکھا جارہا ہے ، ٹیلی فون پر گفتگو ہورہی ہے ، فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈ سے کمرہ ٹھنڈا ہورہا ہے ، ٹیپ ریکارڈر پر گانے ٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مسالے پس رہے ہیں، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں، سی ڈی پلیئرز پر فلمیں دیکھی جارہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا، پھر کیا تھا لمحوں میں ہر چیز نے کام کرنا بند کردیا۔ معلوم ہوا یہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔ یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑا بُنا جارہا ہے ، جیسے ہی بجلی غائب ہوئی تانے بانے بُننے والی کلیں رُک گئیں، جونہی کرنٹ آیا ہر چیز پھر سے کام کرنے لگی۔ آج کا انسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کا ادراک کرسکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے تو بستر کی گرمی اسی طرح باقی تھی، وضو کا پانی ہنوز بہہ رہا تھاکنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سو سال پہلے اس پر یقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ کرنٹ کے کرشمے نے ثابت کردیا کہ لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح معراج کی شب نظامِ زمان و مکان معطل ہوگیا تھا، وقت رُک گیا تھا۔ کیا یہ خالقِ کائنات، نظامِ زمان و مکان کے بنانے والے کے لیے کچھ مشکل تھا؟ جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سفرِ معراج سے واپس ہوئے تو معطل نظام پھر سے روبہ عمل ہوگیا۔ بستر کی گرمی جہاں بند ہوئی تھی پھر سے محسوس ہونے لگی، پانی بہنا جس مقام پر رُک گیا تھا وہاں سے جاری ہوگیاکنڈی جس زاویے پر ہلنے سے تھم گئی تھی اس سے حرکت میں آگئی، جیسے کرنٹ کے آف ہوتے ہی تمام کام رُک گئے تھے اور آن ہوتے ہی حرکت میں آگئے۔


جسم وروح کے ساتھ معراج کا حاصل ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خصوصی شرف ہے،یہ مرتبہ کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا،اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے نبی و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و برگزیدگی کا ظاہر کرنےکےلیے یہ خارقِ عادت قدرت ظاہر فرمائی ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے ،بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت وکیفیت کو علم ِ الہٰی کے سپر د کردینا ہی عین عبادت ہےاور ویسے بھی نبوت ،وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہر کی چیزیں ہیں جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل وفہم پر موقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں ا س کو نہیں مانوں گا ،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ۔ 


کچھ دوست یہ سوچ رہے ہونگے کہ ان معاملات کو سائنس کے ساتھ بیان کرنے اور جوڑنے کی آخر کیا ضرورت ہے ۔ کیا اسلام کی سچائی کےلیے سائنس کی تصدیق ضروری ہے ۔ تو گزارش ہے کہ

یقیناً دین اسلام ، سائنس کی تصدیق کا محتاج نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ او ر اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات پر ہی  ایمان و یقین رکھے ، چاہے سائنسی نظریات اس کے الٹ ہی کیوں نہ ہوں ۔ جیسے ڈارون کانظریہ ارتقاء وغیرہ ۔


سائنسی نظریات کو سچے مسلمانوں کےلیے اس لیے  بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید ، کثیر مقامات پر کائنات کی نشانیوں پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔یا در ہے کہ " غوروفکر" نہ کہ سرسری نظر سے دیکھنا ۔ اور بدقسمتی سے یہ کام مسلمانوں کی بجائے غیر مسلم سرانجام دے رہے ہیں حالانکہ ان کا مقصد صرف مادی تحقیق ہے ۔ تو جب ہم ان کی تحقیقات کو جو کہ اللہ کی عظیم والشان طاقت و ٹیکنالوجی کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں ،پڑھتے ہیں تو ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً اسی واقعہ معراج کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زمین سے باہر سماوٰت میں کچھ اور ہی طرح  کےقوانین قدرت روبعمل ہیں جن کو آج کا انسان کسی قدر سمجھنے کی کوشش کررہا ہے مگر قربان جائیے اس قدرتِ خداوندی پر کہ جس نے تقریباً 1500 سال پہلے اس شان سے اپنے محبوب بندے کو زمین و آسمان کی سیر کرائی کہ آج بھی عقل وعلم اس کو کما حقہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔


علاوہ ازیں ان سائنسی معلومات کو بیان کرنے کی غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ نام نہاد مسلمان او ر غیر مسلم جو کہ سائنس کو ہی حرف آخر مانتے ہیں ، سمجھایا جائے کہ آج جن باتوں یا معلومات تک سائنسدان پہنچے ہیں اگروہی قرآن و حدیث سے بھی ملتی ہوں او ر جو تقریباً (1500) پندرہ سو سال پرانی باتیں ہیں ، تو پھر سچا کون ہے اور ایڈوانس کون ؟ علاوہ ازیں یہ قرآن مجید کے الہامی ہونے کی بھی تصدیق کرتی ہیں کہ اگرچہ یہ معلومات صدیوں سے قرآن میں موجود تھیں مگر سائنس کی ترقی سے پہلے کبھی کسی  مفسر نے ببانگ دہل  ان کا ذکر نہیں کیا تھا ، چناچہ اگر یہ کسی انسان کا لکھا ہوتا تو ہمیں ان معلومات کا علم بھی ہوتا ؟ ۔ (مزید حصّہ نہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)