بیعتِ مرشد و شرائطِ مرشد اور جہلاء و کاروباری پیر حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت اور امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ
(1) شریعت ۔ (2) طریقت ۔ (3) حقیقت ۔ (4) معرفت
شریعت : قرآن و سنت کے ظاہری احکام کو ’’شریعت‘‘ کہا جاتا ہے ۔
طریقت : ان کے باطن کا نام ہے
مثال کے طور پر طہارتِ شرعی یہ ہے کہ بدن کو پاک کرلیا جائے لیکن
’’ طریقت‘‘ کی طہارت یہ ہے کہ دل کو تمام برائیوں سے پاک کیا جائے ۔
حقیقت : یہ ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے جو اثرات ذہن و قلب پر مکمل طور پر چھا جائیں اور یقین کی دولت حاصل ہو جائے تو اِسے ’’حقیقت‘‘ کہا جاتا ہے ۔
معرفت : سے مراد ہے ,, اللہ تعالیٰ کی پہچان ,, اس کا دوسرا نام ’’عرفان‘‘ ہے۔ جب صوفی پر حقائق کھلتے ہیں تو وہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔یہی عرفان ہے اور یہی معرفت ہے ۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء قدس سرہ فرماتے ہیں کہ : جب سالک سے کوئی غلَطی ہو جاتی ہے تو ’’معرفت‘‘ سے ’’حقیقت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے ۔ جب حقیقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے وہ ’’طریقت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے ۔ جب طریقت کی منزل پر اس سے غلطی ہوتی ہے تو’’شریعت‘‘ کی منزل پر آجاتا ہے۔اس لئے ’’شریعت‘‘ کی پابندی ضروری ہے ۔ (فوائد الفواد)
اعلی حضرت ، امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حاشا نہ شریعت و طریقت دو راہیں ہیں نہ اولیاء کبھی غیر علماء ہو سکتے ہیں ۔ علامہ مناوی شرح جامع صغیر پھر عارف باللہ سیدی عبدالفنی نابلسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں , امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں علم باطن نہ جانے گا مگر وہ جو علم ظاہر جانتا ہے ، امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اسکے بعد ولی کیا ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 530،چشتی)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں : شریعت ، طریقت ، حقیقت معرفت میں باہم اصلا کوئی اختلاف نہیں اس کا مدعی اگر بے سمجھے کہے تو نرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ ، بد دین ۔ شریعت ، حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال ہیں ، اور طریقت ، حضور کے افعال ، اور حقیقت ، حضور کے احوال ، اور معرفت ، حضور کے علوم بے مثال . (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 460)
سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو باطنی علم اور معرفت حاصل ہے ۔ اس لیے ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ۔ آپ فرمایئے کہ کیا طریقت شریعت سے جدا کوئی راستہ ہے ۔
جواب : اعلیٰ حضرت مجدد برحق امام احمد رضا خاں قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف مقال عرفاء باعزاز شرع و علماء میں فرماتے ہیں کہ ’’شریعت منبع ہے اور طریقت اس میں سے نکلا ہوا ایک دریا‘ عموما کسی منبع سے دریا بہتا ہو تو اسے زمینوں کو سیراب کرنے میں منبع کی حاجت نہیں ہوتی لیکن شریعت وہ منبع ہے کہ اسے سے نکلے ہوئے دریا یعنی طریقت کو ہر آن اس کی حاجت ہے ۔ اگر شریعت کے منبع سے طریقت کے دریا کا تعلق ٹوٹ جائے تو صرف یہی نہیں کہ آئندہ کے لیے اس میں پانی نہیں آئے گا بلکہ یہ تعلق ٹوٹتے ہی دریائے طریقت فورا فنا ہوجائے گا ۔ پھر فرماتے ہیں کہ شریعت و طریقت تو منبع و دریا کی مثال سے بھی اعلیٰ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت مطہرہ ربانی نور کا ایک فانوس ہے کہ دین کی دنیا میں اس کے سوا کوئی روشنی نہیں اور اس کی روشنی بڑھنے کی کوئی حد نہیں ۔ اس روشنی کی زیادتی و افزائش چاہنے کا نام طریقت ہے یہ روشنی بڑھ کر صبح اور پھر آفتاب اور پھر اس سے بھی غیر متناہی درجوں تک ترقی کرتی ہے‘ جس سے حقائق اشیاء کا انکشاف ہوتا ہے اور نور الٰہی تجلی فرماتا ہے ۔ یہ مرتبہ علم میں معرفت اور مرتبہ تحقیق میں حقیقت ہے درحقیقت شریعت ہی ہے کہ مختلف مراتب کے لحاظ سے اس کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں۔ جب یہ نور بڑھ کر صبح روشن کی مثل ہوجاتا ہے تو ابلیس لعین خیر خواہ بن کر آتا ہے اور اس سے کہتا ہے‘ چراغ بجھا دے اب تو صبح خوب روشن ہوگئی ہے۔ آدمی دھوکے میں نہ آئے اور نور بڑھ کر دن کی مثل ہوجائے تو شیطان پھر کہتا ہے دن اتنا روشن ہے کیا اب بھی چراغ نہیں بجھائے گا ۔ ﷲ تعالیٰ بندہ کی مدد فرمائے تو بندہ لاحول پڑھتا ہے اور کہتا ہے اے لعین! یہ اس فانوس ہی کا تو نور ہے‘ اسے بجھا دیا تو روشنی کہاں سے آئے گی پس وہ ملعون دفع ہوجاتا ہے اور بندہ نور حقیقی تک پہنچ جاتا ہے جیسا کہ سورہ نور میں فرمایا گیا ہے۔ نور علی نور یعنی ’’نور پر نور‘‘ ہے ۔ ﷲ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ (سورہ النور ۳۵)
اگر آدمی شیطان کے دھوکے میں آگیا اور سمجھا کہ دن تو ہوگیا اب مجھے چراغ کی کیا حاجت‘ پھر جیسے ہی اس نے چراغ بجھایا‘ گھپ اندھیرا ہوگیا کہ ہاتھ سے ہاتھ سوجھائی نہیں دیتا جیسا کہ قرآن عظیم میں ارشاد ہوا ’’ایک پر ایک اندھیرے ہیں‘ جب اپنا ہاتھ نکالے تو کچھ نہ سوجھائی دے اور جسے ﷲ نور نہ دے اس کےلیے کہیں نور نہیں ۔ (النور ۴۰)
یہ ہیں وہ کہ طریقت بلکہ حقیقت تک پہنچ کر اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھے اور ابلیس کے فریب میں آکر اس ربانی فانوس کو بجھا بیٹھے۔ کاش ان کو اس کی خبر ہوتی تو شاید توبہ کرتے لیکن ستم تو یہ ہے کہ شیطان ملعون نے جہاں فانوس بجھوایا۔ اس کے ساتھ ہی فورا اپنی سازشی بتی جلا کر ان کے ہاتھ میں دے دی۔ یہ اسے نور سمجھ رہے ہیں اور وہ حقیقتا نار ہے ۔ یہ مگن ہیں کہ شریعت والوں کے پاس کیا ہے ۔ ایک چراغ ہے ہمارا نور تو آفتاب کو شرما رہا ہے لیکن انہیں خبر نہیں کہ اہل شریعت کے پاس ہی اصل نور ہے اور ان کے پاس صرف دھوکا ۔
مزید فرمایا : شریعت کی حاجت ہر مسلمان کو ایک ایک سانس ایک ایک پل ایک ایک لمحہ پر مرتے دم تک ہے اور طریقت میں قدم رکھنے والوں کو اور زیادہ کہ راہ جس قدر باریک اسی قدر ہادی کی زیادہ حاجت ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’بغیر فقہ کے عبادت کرنے والا ایسا ہے جیسا چکی کھینچنے والا گدھا کہ مشقت جھیلے اور نفع کچھ نہیں ۔ (ابو نعیم فی الحلیہ)
پھر عارف باﷲ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ طریقت و شریعت کے درمیان تعلق کو ایک اور مثال کے ذریعے یوں واضح کرتے ہیں کہ شریعت ایک عمارت ہے اس کا اعتقاد بنیاد اور عمل چنائی ہے پھر ظاہری اعمال وہ دیوار ہیں کہ اس بنیاد پر ہوا میں چنے گئے اور جب یہ تعمیر اوپر بڑھ کر آسمان تک پہنچی وہ طریقت ہے ۔ دیوار جتنی اونچی ہوگی نیو (یعنی بنیاد) کی زیادہ محتاج ہوگی اور نہ صرف بنیاد بلکہ اعلیٰ حصہ نچلے حصے کا بھی محتاج ہے اگر دیوار نیچے سے خالی کردی جائے اوپر سے بھی گر پڑے گی۔ احمق وہ ہے جس پر شیطان نے نظربندی کر کے اس کی چنائی آسمانوں تک دکھائی اور دل میں ڈالا کہ اب تو ہم زمین کے دائرے سے اونچے گزر گئے ۔ ہمیں اس سے تعلق کی کیا حاجت ہے ۔ پس بنیاد سے دیوار جدا کرلی اور نتیجہ وہ ہوا جو قرآن عظیم نے فرمایا کہ ’’اس کی عمارت اسے لے کر جہنم میں گر پڑی‘‘ اسی لیے اولیاء کرام فرماتے ہیں ’’جاہل صوفی شیطان کا مسخرہ ہے‘‘ اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان عالی شان ہے کہ ’’ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے‘‘ ۔ (ترمذی ابن ماجہ)
امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس تصنیف میں چالیس اولیاء کرام علیہم الرحمہ کے اسی ۸۰ ارشادات عالیہ بھی بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند اقوال پیش خدمت ہیں تاکہ اس مسئلہ میں اولیاء کرام کا مسلک واضح ہو جائے ۔
امام مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’علم باطن نہ جانے گا مگر وہ علم ظاہر جانتا ہے‘‘
امام شافعی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’ﷲ تعالیٰ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا‘‘
یعنی ولی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا ۔ اس کے بعد ولی کیا ۔
حضور غوث اعظم قطب الاقطاب سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’اگر حدود شریعت میں سے کسی حد میں خلل آئے تو جان لے کہ تو فتنہ میں مبتلا ہے (طریقت میں نہیں) بے شک شیطان تیرے ساتھ کھیل رہا ہے تو فورا حکم شریعت کی طرف پلٹ آ اور اس سے لپٹ جا اور اپنی نفسانی خواہش چھوڑ اس لیے کہ جس حقیقت کی شریعت تصدیق نہ فرمائے وہ حقیقت باطل ہے‘‘ ۔ (طبقات اولیاء از امام شعرانی،چشتی)
حضرت جنید بغدادی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی گئی کہ کچھ لوگ زعم کرتے ہیں کہ احکام شریعت تو وصول کا وسیلہ تھے اور ہم واصل ہوگئے یعنی اب ہمیں شریعت کی کیا حاجت ؟
فرمایا ‘ وہ سچ کہتے ہیں وہ واصل ضرور ہوئے مگر کہاں تک جہنم تک ۔ چور اور زانی ایسے برے عقیدے والوں سے بہتر ہیں ۔ میں اگر ہزار برس جیوں تو فرائض و واجبات تو بڑی چیز ہیں جو نوافل و مستحباب مقرر کرلئے ہیں بے عذر شرعی ان میں سے کچھ کم نہ کروں ۔ (الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر)
حضرت با یزید بسطامی رضی ﷲ عنہ ایک شخص سے ملنے گئے جو زہد و ولایت کا مدعی تھا
آپ کے سامنے اس نے قبلہ کی طرف تھوکا آپ اس سے ملے بغیر واپس آگئے اور فرمایا ’’یہ شخص شریعت کے ایک ادب پر تو امین ہے نہیں اسرار الٰہی پر کیونکر امین ہوگا‘‘ ۔ (رسالہ قشیریہ)
حضرت ابو قاسم نصرآبادی فرماتے ہیں ‘ تصوف کی جڑ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو لازم پکڑے رہے ۔ (طبقات کبریٰ)
شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں: جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے ۔ (عوارف المعارف)
امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ فرماتے ہیں ’’تصوف کیا ہے بس احکام شریعت پر بندہ کے عمل کا خلاصہ ہے‘‘
مزید فرمایا ’’علم تصوف شریعت کے چشمہ سے نکلی ہوئی جھیل ہے‘‘ ۔ (طبقات کبریٰ)
ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ : شریعت اور طریقت لازم و ملزوم ہیں ۔ آج کل بعض جہلا طریقت کو شریعت سے الگ راہ اس لیے بتاتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے عقیدت مندوں کو اپنے غیر اسلامی افعال کے جواز کا اطمینان دلاسکیں ۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی ﷲ عنہ کشف المحجوب میں تصوف کے باب میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم اور سلف رحمہم ﷲ کے زمانے میں تصوف کا نام نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی جو سب پر طاری تھی ۔
آج کل صرف نام باقی ہے اور حقیقت غائب ۔ یعنی پہلے معاملہ معروف تھا اور ظاہر داری غائب اور اب معاملہ یعنی تصوف کی حقیقت غائب ہے اور ظاہر داری معروف ۔
مزید فرمایا کہ جب عام لوگ ظاہر پرستوں کو ناچتے گاتے دیکھتے ہیں جوکہ صوفیہ ہونے کے مدعی ہیں تو وہ تمام اولیاء سے بدظن ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’یہ ہے تصوف اور اس کے اصول ؟ پہلے زمانے کے صوفیا بھی اسی قسم کے ہوں گے‘‘ حالانکہ ان کہنے والوں نے یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ وقت فتنہ ہے اور فتنوں کی کثرت ہے ۔
حرص بادشاہ کو ظلم پرآمادہ کرتا ہے ۔ لالچ عالم کو بدکاری میں مبتلا کردیتا ہے ۔ اور ریاکاری زاہد کو منافقت کی طرف لے جاتی ہے ۔
اسی طرح ہوائے نفس اور لالچ بعض صوفیا کو رقص و سرور میں مبتلا کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہل طریقت برباد ہوجاتے ہیں طریقت برباد نہیں ہوتی ۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ لغویات و خرافات کو پاک و صاف چیزوں میں شامل کردیں تو پاک و صاف چیزیں خرافات نہیں بن جاتیں البتہ ایسے لوگ ضرور دنیاوآخرت میں نقصان اٹھاتے ہیں ۔
اب میں اس تمام گفتگو کاخلاصہ امام مالک رضی ﷲ عنہ کے الفاظ میں پیش کردیتا ہوں جسے محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں بیان کیا ہے وہ فرماتے ہیں : جس نے علم فقہ حاصل کیا اور تصوف کو نظر انداز کردیا وہ فاسق ہوا اور جس نے تصوف کو اپنالیا مگر فقہ کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے شریعت و تصوف دونوں کو جمع کیا اس نے حق کو پالیا ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment