Sunday 30 May 2021

بریلوی اہلسنت نہیں ہیں قادیانیوں کے چیلے اجہل مرزا جہلمی کو جواب

0 comments

 بریلوی اہلسنت نہیں ہیں قادیانیوں کے چیلے اجہل مرزا جہلمی کو جواب

محترم قارئینِ کرام : اجہل مرزا جہلمی اپنے بڑے ابّا مرزا قادیانی اور خارجیوں والے جھوٹ و فریب کو آگے بڑھاتے ہوئے بکتا ہے کہ بر صغیر کے اکثریتی مسلمانانِ اہلسنت جنہیں مخالفین بریلوی کہتے ہیں یہ اہلسنت نہیں ہیں اس گمراہ کے گمراہ کن پروپینگنڈے کا مختصر جواب حاضر ہے پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے :

بریلوی نست رکھنے والے اصلی اہل سنت نہیں جب کہ ان کے خارجی فرقے اصلی اہل سنت ہیں ۔

کیا دیوبندی وھابی اہلسنت ہیں ؟

پڑھیں ان کی اپنی کتب کہ حوالا جات سنو غور کرو اور حوالہ جات ملاتے جاؤ ، وہابیوں کو وہابی علامہ ابن عابدین شامی نے کہا دیکھو ردالمحتار حاشیہ و صاحب تفسیر صاوی علی الجلالین علامہ جمیل آفندی عاقی الفجر الصادق ص 17-18، علامہ احمدین زینی دحلان مکی ۔ (الفتوحات الاسلامیہ جلد 2 ص 268، والدر السنیہ ص 49)۔(مولوی عبید ا للہ سندھی ابجد العلوم ص 87 بحوالہ تاریخ وہابیہ ص 83)

بلکہ وہابی اپنی وہابیت پر اس قدر نازاں تھے کہ نواب الوہابیہ نواب صدیق حسن بھوپالی نے اپنے رسالہ کا نام ہی ’’ترجمان وہابیہ‘‘ رکھ لیا تھا اور وہابیوں کی ایک کتاب ’’تحفہ وہابیہ‘‘ ہے ۔

ترجمہ بقلم مولوی اسماعیل غزنوی وہابی یہ جملہ کتب اور ان کے مصنفین سیدنا اعلیٰحضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی ولادت باسعادت سے پہلے کے ہیں ،

لہٰذا ثابت ہوا کہ وہابیوں نے نام وہابی اور وہابیہ خود پسند کیا اور رکھا۔ ہم مندرجہ بالا قسم کے پچاس حوالہ جات اور نقل کرسکتے ہیں کہ وہابی بقلم خود وبیدہ خود وہابی ہیں ۔

اجہل مرزا جہلمی کے روحانی پیشوا مولوی احسان الٰہی ظہیر کی ولادت اور ان کی کتاب ’’البریلویہ‘‘ کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے متعدد کتب لغت سے ثابت کرسکتا ہے کہ وہابیوں کو وہابی کا لقب ہم نے نہیں دیا ۔ سیدنا اعلیٰحضرت قدس سرہ نے نہیں دیا، بلکہ لفظ وہابی کے معنی کی وضاحت میں اہل لغت متفق البیان ہیں اور سب نے یہی لکھا ہے۔ (وہابی (ع) عبدالوہاب نجدی کا پیروکار فرقہ (جو صوفیوں کے مدِ مقابل خیال کیا جاتا ہے ۔ (حسن اللغات، فیروز اللغات، امیر اللغات وغیرہم زیر و۔ہ)

اکابر علماء بدایوں شریف کی سیدنا مجدد اعظم اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے بہت پہلے کی کتاب سیف الجبار اور مجاہد جلیل وعظیم شیر حق علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کی کتاب برد وہابیہ تحقیق الفتویٰ لسلب الطغویٰ اور بوارق محمدیہ وغیرہ ملاحظہ فرماتے اور تو اور مقالات سرسید میں خود مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی فخریہ طور پر اپنی اور اپنے فرقہ کی وہابیت کا برملا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں اور ’’انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں خود اس فرقہ کے لئے جو وہابی کہلاتا ہے، ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہابیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار بلکہ ناممکن ہے (مسلم) سلطان کی عمل داری میں وہابی کا رہنا مشکل ہے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 211-212، از مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی و علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ بابت 2 فروری 1889)

دیوبندی خود کو دیوبندی کہتے ہیں اور وہابی ہونے کا اقرار و اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس عنوان اور اس موضوع پر مولانا اصدق جتنے حوالے ثاہیں نقد بہ نقد موجود ہیں۔ ان کی ضیافت طبع کے لئے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔

دیوبندیت وہابیت ہند کے امام دوم بانی ثانی مدرسہ دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی وہابیت اور بانی وہابیت عبدالوہاب شیخ نجدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے، وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا ۔ (فتاویٰ رشیدیہ جلد 1ص 111 و ص 551)

دیوبندی حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی بدیں الفاظ اپنی وہابیت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں : بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں، یہاں فاتحہ نیاز کیلئے کچھ مت لایا کرو ۔ (اشرف السوانح جلد 1ص 45)

یہی تھانوی صاحب کہتے ہیں : اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں ۔ (الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67)

مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے ۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی، فرمایا : بدعتی کے معنی ہیں باداب، بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب باایمان ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد 2ص 326)

دیوبندی وہابیوں کے منظور مضرور مناظر اعظم مدیر الفرقان کہتے ہیں : ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں ۔ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی تبلیغی وہابی ص 192)

مولوی محمد ذکریا امیر تبلیغی جماعت کہتے ہیں : مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں ۔ (سوانح مولانا محمد یوسف تبلیغی وہابی ص 193)

فقیر انہی چند حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہے ، ورنہ بحمدہ تعالیٰ ایسے بیسیوں حوالے مزید پیش کئے جاسکتے ہیں ۔

ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ وہابی دیوبندی اکابر اپنے آپ کو فخریہ وہابی کہتے ہیں اور اسی طرح وہابی دیوبندی خود کو دیوبندی اور دیوبندی مسلک و مسلک دیوبندی کہتے اور لکھتے ہیں ۔

ملاحظہ ہوں … مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند جس کا مقدمہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے ، میں صاف صاف لکھا ہے ، مسلک دیوبند ص 424و ص 428 و ص 431 و ص 476 بیسوں صفحات پر مسلک دیوبند،دیوبندی مسلک لکھا ہوا ہے ۔

کتب خانہ مجیدیہ ملتان کے شائع کردہ المہند عقائد علماء دیوبند کے مصنفہ مولوی خلیل انبیٹھوی کے صفحہ 20 صفحہ 21، صفحہ 164، صفحہ 165، صفحہ 187 پر بار بار مسلک دیوبند مسلک حق دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہے۔ انجمن ارشاد المسلمین کے پاکستانی ایڈیشن حفظ الایمان کے متعدد صفحات پر دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے۔ پاکستان دیوبندیوں کے مصنف اعظم مولوی سرفراز صفدر گکھڑوی نے اپنی کتاب عبارات اکابر کے صفحات 143,115,58,18,15 پر بار بار دیوبندی مسلک دیوبندی مسلک لکھا ہے ۔

مولوی منظور سنبھلی مولوی رفاقت حسین دیوبندی کی کتاب بریلی کا دلکش نظارہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کردہ مکتبہ مدینہ صفحہ 35، صفحہ 181وغیرہ پر متعدد صفحات پر دیوبندی بریلوی دیوبندی دیوبندی لکھا ہے ۔

مولوی خلیل بجنوری بدایونی کی کتاب انکساف حق کی پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ 6 صفحہ 7 پر دیوبندی، بریلوی، بریلوی دیوبندی ہر دو اہلسنت لکھا ہے ۔

مولوی عارف سنبھلی ندوۃ العلماء کی کتاب بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 121، صفحہ 124پر مسلک دیوبندی، علماء دیوبند کا مسلک لکھا ہے ۔

دیوبندیوں کے خر دماغ ذہنی مریض کذاب مصنف پروفیسر خالد محمود مانچسٹروی اپنی تردید شدہ کتاب مطالعہ بریلویت جلد اول کے صفحہ 401، صفحہ 402 پر دیوبندی مسلک دیوبندی دیوبندی لکھتا ہے ۔ اسی کتاب کی جلد 3 کے صفحہ 202 پر اہلسنت بریلوی دیوبندی لکھا ہے ۔ مطالعہ بریلویت جلد دوم صفحہ 16 پر دیوبندی بریلوی، مطالعہ بریلویت صفحہ 234 پر دیوبندی بریلوی، صفحہ 235 جلد 4 دیوبندیوں، بریلویوں دیوبندیوں جلد 4 صفحہ 237، دیوبندیوں صفحہ 238 جلد 4 دیوبندیوں بریلیوں، بار بار دیوبندیوں بریلویوں صفحہ 239، دیوبندیوں، دیوبندی بار بار دیوبندی صفحہ 240، جلد 4 دیوبندیوں صفحہ 316، اہلسنت والجماعۃ دیوبند مسلک ، دیوبندی بریلوی، صفحہ 317، دیوبندی، دیوبندیوں، دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند وغیرہ وغیرہ، بکثرت مقامات پر دیوبندیوں نے خود کو بقلم خود دیوبندی لکھا ہے ۔

مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی الاقاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 220، دیوبندیوں اور بریلیوں، مولوی انور کاشمیری صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند کتاب حیات انور صفحہ 333، مضمون وقت کی پکار نوائے وقت لاہور، 8 مارچ 1976، جماعت دیوبندی ۔

دیوبندی امیر شریعت عطاء اللہ بخاری احراری دیوبندی لکھتے ہیں… مولانا غلام اللہ خان دیوبندی بھی اہلسنت و الجماعت ہین، وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں (مکتوب بنام علامہ محمد حسن علی قادری رضوی) دیوبندی جمعیت العلماء اسلام دیوبند کے ناظم اعلیٰ مولوی غلام غوث ہزاروی دیوبندی لکھتے ہیں ۔ اہلسنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب مسلمان ہیں ۔ (خدام الدین لاہور)

قصص الاکبر ص 205 میں تھانوی لکھتے ہیں ’’میرا مسلک شیخ الہند کا مسلک‘‘ (دیوبندی مسلک، الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 135) میرا مسلک تھانوی ۔ (اشرف السوانح جلد 3ص 153 وصفحہ 164، تھانوی مسلک ۔

ایک کتاب ’’آئینہ بریلویت‘‘ مولوی عبدالرحیم رائے پوری دیوبندی اور مولوی حسن احمد ٹانڈوی وغیرہ اکابر دیوبند کے پڑپوتے مرید مولوی عبدالرحمن شاہ عالمی مظفر گڑھ کی ہے ۔اس کے صفحہ 24، 27، 30، 34، 40، 42، 43، 45، 54، 57، 61، 63، چالیس صفحات پر بار بار دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند، دیوبندیوں، دیوبندی اہلسنت دیوبندی لکھا ہے اور فخریہ طور پر اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کیا ہے ۔

ایک کتاب تسکین الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء مرتبہ مولوی محمد مکی دیوبندی صفحہ 79 مسلک اکابر دیوبند، صفحہ 99، اکابر دیوبند کا مسلک صفحہ 100اکابردیوبند کا مسلک، صفحہ 01 مسلک دیوبند، صفحہ 102 علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 103، علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 106، صفحہ 107 بار دیوبندی دیوبندی… اس کتاب پر پاکستان کے صف اول کے اکابردیوبند مولوی محمد یوسف بنوری شیخ الجامعہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مولوی شمس الحق افغانی، صدر وفاق المدرس العربیہ دیوبند، مفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مفتی محمد شفیع سابق مفتی دیوبند مہتمم دارالعلوم کراچی، مولوی عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، مولوی ظفر احمد عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ، مولوی محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاوہر، مولوی محمد رسول خان جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور ، مولوی احمد علی امیر خدام الدین وامیر جمعیت العلماء اسلام، مولوی محمد صادق، ناظم محکمہ امور مولوی حامد میاں جامعہ مدینہ، مولوی مسعود احمد سجادہ نشین درگاہ دین پور وغیرہ اٹھارہ اکابر دیوبند کی تصدیقات ہیں۔ اس قسم کے حوالے اگر فقیر چاہے تو پچاسوں نقل کرسکتا ہے ۔ مرزا جی اپنی اوقات میں رہنا سیکھو بزرگان اہلسنت اور مسلمانان اہلسنت پر بکنا بند کرو ۔

بریلوی نیا فرقہ ہے مخالفین اہلسنت کی سازش کا مدلّل جواب

محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار ونظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء ومشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے ۔

اسی سال پہلے سب سنی حنفی بریلوی خیال کے تھے مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری

مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیرمقلد وہابی لکھتے ہیں : اسی (80) سال پہلے قریبا سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی کہا جاتا ہے ۔ (رسائل ثنائیہ ، شمع توحید صفحہ نمبر 163 مطبوعہ لاہور،چشتی)

معلوم ہوا وہابیت اس کے بعد کی پیداوار ہے برِّ صغیر پاک و ہند میں اور بریلویوں کے عقائد و نظریات وہی ہیں جو قدیم سنی مسلمانوں کے تھے بطور پہچان آج کل انہیں بریلوی حنفی کہا جاتا ہے حق حق ہوتا ہے ۔

غیرمقلد وہابی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے ، مگر دیوبندی مقلدین (اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی'' کہتے ہیں . (تراجم علمائے حدیث ہند صفحۃ نمبر 482 مطبوعہ مکتبہ اہلحدیث ٹرسٹ کورٹ روڈ کراچی)

جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے ، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، ص٧)

میں یہی کہوں گا کہ اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا ہندوستانی دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3 از تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور، ص١٠۔١١،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے''(احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، ص٧)

اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو ۔

امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، ص٨٥، ٨٦،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔ (سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦)(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، ص٢٢)

مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، ص٧٠،چشتی)

اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔ (ثناء اﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا(پنجاب)، ص٤٠)

یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔ (انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٨)

پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩،چشتی)

تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اہلسنت والجماعت ہیں ۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آخری نبی مانتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اولیاءاللہ سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں ۔ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)

ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے ۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے ۔ (آئینہ رضویات، ص 300)

صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں ۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا ۔ لہٰذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے ۔ (فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ چہارم

0 comments

 مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ چہارم

ام المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراضات کے جوابات

جنگ جمل میں شرکت کی وجہ سے حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو سطحی قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں ذیل میں ان میں سے کچھ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے :

اعتراض نمبر 1 : قرآن پاک میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو اپنے گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں شرکت کر کے قرآن مجید کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے ۔
اس اعتراض کا جواب : مشہور مثال ہے ”المعترض کالاعمیٰ“ یہی حال مذکورہ اعتراض کرنے والوں کا بھی ہے ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت کریمہ ”و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن“ میں استقرار فی البیوت کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک خاص نوعیت اور کیفیت کے ساتھ ہے اور وہ جاہلیت کی رسم کے مطابق زیب و زینت کے ساتھ بغیر پردے کے گھر سے باہر نکلنا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے قول کے مطابق اگر امہات المومنین کو گھروں سے نکلنا منع ہوتا تو وہ درج ذیل احکام شرع پر کیسے عمل کرتیں حالانکہ بالاتفاق مندرجہ ذیل احکام ان کے حق میں بھی وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ امور سر انجام بھی دیئے ہیں :
(1) حج و عمرہ کے لیے جانا
(2) غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت اپنے حجروں سے نکل کر عیادت کے لیے حضرت عائشہ کے حجرہ مقدسہ میں جانا
(4) فوت شدگان کی تعزیت کے لیے جانا
(5) والدین اور اقارب کی ملاقات کے لیے تشریف لے جانا
(6) عیادت مریض کے لیے تشریف لے جانا
(7) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب امہات المومنین سفر حج کے لیے جانے لگیں تو ان کے ساتھ محافظ کے طور پر سیدنا عثمان غنی اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف کو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے روانہ کیا۔
(روح المعانی ج22 ص12 تحت الایہ قرن فی بیوتکن،چشتی)
اس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کا اپنے گھروں سے نکلنا مطلقا منع نہ تھا، اس لیے امہات المومنین مذکورہ بالا امور شرعیہ کو پوری زندگی سر انجام دیتی رہیں اور دینی معاملات کو پورا کرنے کے لیے تستر اور حجاب کے ساتھ گھروں سے نکلتی رہیں اور آج گئے گزرے دور میں بھی پردہ نشین عورتیں ستر وحجاب کی پابندیوں کے ساتھ سفر کے لیے نکلتی ہیں خاص طور پر وہ سفر جو دینی، ملی یا دنیاوی مصالح پر مبنی ہو جیسے حج و عمرہ اور جہاد وغیرہ ۔
جنگ جمل کے موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ایک دینی مصلحت یعنی اصلاح بین الناس اور مطالبہ قصاص ازخلیفہ عادل کے لیئے سفر اختیار فرمایا تھا جو کہ بالکل صحیح تھا اور اس کا جواز حج و عمرہ کی طرح ہے۔ چنانچہ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بھی اس نوعیت کا تھا کہ مسلمانوں میں باہم رخنہ پڑگیا تھا اس کی اصلاح ہو اور امام عادل کے قتل کے قصاص کے مطالبہ میں سب مسلمان متفق اور شریک ہوں... آپ کا یہ سفر حج و عمرہ کے سفر کی مانند تھا ۔ (تحفہ اثنا عشریہ ص630 عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی،چشتی)

اعتراض نمبر 2 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بغیر محرم کے تھا لہذا ، عند الشرع صحیح نہ تھا ۔
اس اعتراض کا جواب : یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس لیئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر ایک نیک مقصد کے لیئے تھا اور شرعی محارم کے ہمراہ تھا، علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ام المؤمنین کے ساتھ آپ کی بہنوں ؛ حضرت اسماء اور ام کلثوم کے صاحبزادے اس سفر میں موجود تھے ۔ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دریں سفر عبداللہ بن زبیر ہمشیرہ زادہ حقیقی وے ہمراہ وے بود وطلحہ بن عبیداللہ شوہر خواہرش ام کلثوم بنے ابی بکر وزبیر بن العوام شوہر خواہر دیگرش بود اسمائ بنت ابی بکر واولاد ایں ہر دو نیز ہمراہ بود ۔ (تحفہ اثناء عشریہ ص330 طبع لاہور در تحت جواب طعن اول)
نیز عظیم مفسر سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وکان معہا ابن اختہا عبداللہ بن الزبیر وغیرہ من ابناء اخواتہا ام کلثوم زوج طلحہ واسماء زوج الزبیر بل کل من معہا بمنزلۃ الابناء فی المحرمیۃ وکانت فی ہودج من حدید ۔ (روح المعانی ج22ص10 تحت الایۃ وقرن فی بیوتکن) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اماں جی رضی اللہ عنہا کا یہ سفر محارم کے ساتھ ہوا تھا۔ اس لیے یہ اعتراض ساقط الاعتبار ہے ۔

اعتراض نمبر 3 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ قتال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عناد اور عداوت کی وجہ سے کیا تھا اور اس میں ناکامی کی وجہ سے بعد میں شرمندگی کا اظہار کرتی تھیں اور رویا کرتی تھیں ۔ نیز یہ اعتراض حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں حضرات کو بھی حضرت علی کی خلافت سے شدید عداوت تھی، حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ ایک بہانہ تھا ۔
اس اعتراض کا جواب : اس اعتراض کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں :
(1) : یہ اعتراض بھی جہلاء نے اہلِ بیتِ رسول سے بغض و عداوت کی وجہ سے وضع کیا ہے حالانکہ اہل بیت رسول کے ساتھ امیر المومنین سیدنا علی اور دیگر اصحاب رسول کا بہت ہی اچھا برتاؤ تھا اور اہل بیت بھی حضرت علی المرتضی اور اصحاب رسول سے محبت و مودت کا تعلق رکھتے تھے (رضی اللہ عنہم ) ۔
(2) : واقعہ جمل پر صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ندامت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ امیر المومنین محبوب المسلمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس واقعہ پر اظہار افسوس اور متاسفانہ کلام منقول ہے ذیل میں دو حوالے درج کیے جاتے ہیں : (1) سید محمود آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فقد صح انہ رضی اللہ عنہ لما وقع الا نہزام علی من مع ام المومنین وقتل من قتل من الجمعین طاف فی مقتل القتلیٰ کان یضرب فخذیہ ویقول : یا لیتنی مت من قبل ھذا وکنت نسیا منسیا . (روح المعانی جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 11)
(2) امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت امیر قتلی را ملاحظہ فرمود، را نہائے خود را کوفتن گرفت و مے فرمود یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا . (تحفہ اثناء عشریہ ص335،چشتی)
مذکورہ دونوں حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب جمل کے مقتولین پر نظر ڈالی تو اس وقت بے ساختہ طور پر اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ کاش میں اس سے قبل فوت ہوگیا ہوتا اور بھلا دیا گیا ہوتا ۔ کیا معترضین اب حضرت علی کے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو انہوں نے اماں جی کے بارے میں کہاہے بلکہ اس مقام پر حضرت علی المرتضی کے کلام سے جو مراد لیا گیا ہےحضرت عائشہ کے فرمان میں بھی اسی قسم کا کلام پایا گیا ہے اور اس کا مقصد و محمل بھی وہی ہے ۔
(3) حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کا واقعہ جمل کے بعد اس پر تاسف کرنا اور پریشان ہونا خشیت الہی اور تقوی کی بناء پر تھا اور مسلمانوں کے باہم قتال اور افتراق بین المسلمین پر تھا۔ اس سے جانبین کی باہمی عداوت اور عناد کا تصور قائم کرنا اصل کلام کے محمل سے بعید تر ہے اور مقصد کلام کے خلاف ہے اور توجیہ القول بمالا یرضی بہ القائل کے قبیل سے ہے ۔

اعتراض نمبر 4 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگ جمل کے سفر میں نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بلکہ اس پر جمی بھی رہیں وہ اس طرح کہ اہل تشیع کی عام روایات اور اہل السنۃ کی بعض روایات میں ہےکہ حضرت عائشہ کا لشکر مکہ سے بصرہ کی طرح جب عازم سفر ہوا تو راستہ میں ایک ایسے مقام سے گزرا جہاں پانی تھا تو وہاں کتوں نے بھونکنا شروع کردیا ۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسامقام ہے ؟ تو محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس جگہ کو ”حوآب“ کہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ فرمانے لگیں کہ ”ردونی“ مجھے واپس لے چلو کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تم میں سے اس کا کیا حال ہوگا جس پر حوآب کے کتے بھونکیں گے۔ اس پر حضرت طلحہ و زبیر اور لشکر کے دیگر نے تحقیق کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ مقام ماء الحوآب نہیں ہے ۔ لوگوں کی شہادت کے بعد حضرت عائشہ نے پھر آگے سفر شروع کردیا ۔ اس روایت کی بناء پر مخالفین صحابہ سیدہ پر سخت معترض ہوئے کہ انہوں نے اس فرمان نبوی کی علانیہ مخالفت کی اور بصرہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا ۔
اس اعتراض کا جواب : اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے
(1) روایت کے اعتبار سے (2) درایت کے اعتبار سے ۔
روایت کے اعتبار سے :
(1) : مستند کتب احادیث میں یہ روایت نہیں ہے ۔
(2) : واقعہ کی اکثر سندوں کا آخری راوی قیس بن ابی حازم ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے اور اس سے کئی منکر روایات مروی ہیں جن میں سے ایک روایت ”کلاب الحوآب“ بھی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الحجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں : قال ابن المدینی قال لی یحیی بن سعید: قیس بن ابی حازم منکر الحدیث ثم ذکر لہ یحیی احادیث مناکیر منہا حدیث کلاب الحوآب.
( تہذیب التہذیب ج8ص388 تحت قیس بن ابی حازم)
(3) : اس واقعہ کی بعض روایات میں عبدالرحمان بن صالح ازدی پایا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ جلنے والا شیعہ ہے اور صحابہ کرام کے حق میں مثالب و مصائب کی بری روایات بیان کرتا ہے اور کوفہ کے مشہور غالی جلنے والے شیعوں میں سے ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج4ص1627 تحت عبدالرحمان بن صالح، العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیۃ لامام ابن الجوزی ج2ص366،چشتی)
(4) : عظیم محقق مولانا محمد نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس واقعہ کی عام روایات عموما عند المحدثین سقیم پائی جاتی ہیں اور بیشتر علماء کےنزدیک اس واقعہ کی روایت منکر و مجروح ہیں ۔ (سیرت سید علی المرتضی ص241)
(5) : واقعہ حوآب مورخین کے نزدیک کوئی متفق علیہ امر نہیں ہے کہ جس کا انکار کرنا مشکل ہو کیونکہ قدیمی مورخین میں سے اکثر نے اس واقعہ کو اس مقام میں ذکر ہی نہیں کیا شہادت کے طور پر ہم فریقین کے ایک ایک مؤرخ کا فقط نام ذکر کرتے ہیں : (1) خلیفہ بن خیاط م240ھ ۔ (2) صاحب اخبار الطوال احمد بن داود دینوری شیعی م282ھ ۔ بعض مورخین نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور اور مجروح ہے مثلا مورخ الطبری نے اپنی تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی سند علماء فن کے نزدیک مجروح ہے۔ مثلا :
(1) طبری کا استاد اسماعیل بن موسی فزاری ہے جو غالی شیعہ ہے
(2) پھر اس کا استاد علی بن عابس الرزاق بالکل غیر معتبر ہے۔
(3) اس کے بعد دو راوی ابو الخطاب الہجری اور صفوان بن قبیصہ الاحمسی دونوں مجہول ہیں ۔
(4) پھر ان سے اوپر والے راوی صاحب الجمل العرنی اور اس کے بعد العرش کو ایک سوار ملتا ہے العرنی اور سوار دونوں مجہول ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ طبری کی یہ روایت مذکورہ بالا کوائف کی وجہ سے بالکل بے حکم ہے، ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، بعد والے لوگوں نے طبری سے ہی نقل کی ہے ۔
درایت کے اعتبار سے : اگر بالفرض ”روایت حوآب “کو درست تسلیم کر لیا جائے اور علماء کی تنقیدات سے صرف نظر کرلیا جائے تب بھی درایت کے اعتبار سے جواب یہ ہے کہ پیش کردہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عامر کے پانیوں سے گزرنے سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہے بلکہ خود حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے اپنے ازواج مطہرات کو بطور پیش گوئی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں ایک کو یہ مصیبت پیش آئے گی جو بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ اس حدیث سے نہی سمجھنا اور مخالفت رسول پر اصرار اور ضد کی نسبت سیدہ صدیقہ کی طرف کرنا بالکل غلط ہے اور سیدہ اس اعتراض سے بری ہیں ۔ ﴿جنگِ صفین﴾
بلادِشام کی مشرق جانب میں ایک مقام ہے جس کا نام ”صفین “ ہے۔ وہاں فریقین کی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔ یہ محرم 37ھ کا واقعہ ہے ۔
فریقین کا موقف : حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں موقف یہ تھا کہ فریق مقابل کے مطالبہ قصاصِ دمِ عثمان کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بیعت کریں، اس کے بعد اپنا قصاص عثمانی کا مطالبہ مجلس خلیفہ میں پیش کریں۔ بعد ازاں حکم شریعت کے مطابق اس مطالبہ کا شرعی فیصلہ کیا جائے گا ۔ (البدایہ لابن کثیر ج8ص127تحت ترجمہ معاویہ)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت میں متعدد صحابہ کرام تھے جو ملک شام میں رہتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ظلماً شہید کےگئے ہیں اور ان کے قاتلین علوی جیش میں موجود ہیں، لہذا ان سے قصاص لیاجائے اور ہمارا مطالبہ صرف قصاص دم عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے خلافت کے بارے میں ہمارا نزاع نہیں ہے ۔
واما الخلافۃ فلسنا مطلبھا . (الفتنۃ وقعۃ الصفین لنصرین تراجم المنقری الشیعی ص 70)
حجۃ معاویۃ ومن معہ ماوقع معہ من قتل عثمان رضی اللہ عنہ مظلوماً ووجود قتلتہ باعیا نھم فی العسکر العراقی ۔ (فتح الباری ج3ص246 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
ولیس المراد بما شجر بین علی رضی اللہ عنہ ومعاویۃ رضی اللہ عنہ المنازعۃ فی الامارۃ کما تو ھمہ بعضہم وانما المنان عنہ کانت بسبب تسلیم قتلۃ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الیٰ عشیرتہ لیقتصوا منھم . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص27 المسامرۃ للکمال بن ابی شریف ص 158،159،چشتی)
مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں فریقین کے موقف سامنے آگئے ہیں ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مطالبہ پر حضرت رضی اللہ عنہ طرف سے جو رائے تھی وہ درج ذیل ہے : لان علیا کان رای ان تاخیر تسلیمھم اصوب اذ العبادۃ بالقبض علیہم مع کثرۃ عشائرھم واختلاطہم بالعسکر یودی الیٰ اضطراب امر الامارہ . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77الصواعق المحرقۃ مع تطہیر الجنان ص216،چشتی)
لہذا تعجیل کی بجائے تاخیر کرنی چاہیے ۔ فریقین کے موقف یہی تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے نظریات پر شدت کے ساتھ قائم رہے تاآنکہ یہ واقعہ پیش آیا ۔
ایک اشکال مع جواب : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عام اشکال یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کا حق وارث کو ہوتاہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کیوں کیا ؟
اس کا جواب خود شیعہ کتب میں موجود ہے : ان معاویۃ یطلب بدم عثمان ومعہ ابان بن عثمان وولد عثمان رضی اللہ عنہ . ( کتاب سلیم بن قیس الکوفی الہلالی العامری الشیعی ص 153 مطبوعہ نجف)
یعنی دم ِ عثمان کے قصاص کے مطالبہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابان بن عثمان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیگر فرزند شامل تھے ۔
اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں : فریقین کے درمیان اس دور کے بعض اکابر حضرات کے ذریعے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یہ کوشش کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قیام گاہ سے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے شروع ہوئی اور دیگر حضرات کے ذریعے تخلیہ اور صفین کے مقامات پر قیام کے دوران بھی یہ کوشش جاری رہی ۔ (البدایہ ج7ص253،258 سیر اعلام النبلاء للذھبی ج3ص93)
لیکن فریقین اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے آخر قتال کی صورت پیش آئی ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فتر اسلوا فلم یتم لھم امر فوقع القتال الیٰ ان قتل من الفریقین ۔ (فتح الباری ج13ص73،چشتی)
جانبین میں مر اسلت ہوئی لیکن کسی بات پر معاملہ طے نہ ہو سکا تو قتال واقع ہوا اور فریقین سے لوگ مقتول ہوئے ۔
ان کی صحیح تعداد اللہ کومعلوم ہے۔ جیسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقتل فی ھذاالموطن خلق کثیر من الفریقین لا یعلم الا اللہ.(البدایہ ج7ص271)
البتہ جن اکابر کی اس قتال میں شہادت ہوئی ہے ان میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت خزیمہ بن ثابت ، رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھےاور حضرت عبیداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا، حضرت ذوالکفل اور حوشب رضی اللہ عنہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت میں سے شہید ہوئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بعض مورخین کے قول کے مطابق بدھ ، جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کی رات ماہ صفر 37ھ کے اوقات اس جنگ میں مشکل ترین تھے اور ان ایام میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔( البدایہ ج7ص261)
آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی دعوت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور طے ہوا کہ ہر فریق کی طرف سے ایک ایک حکم اس مسئلے کے فیصلے کے لیے منتخب کیا جائے ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص فیصل تسلیم کیے گئے اور طے ہوا کہ ہر دو فریق کے یہ دونوں فیصل دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کریں گے ۔ (تاریخ خلیفہ ابن خیاطِ ج 1ص173،174 العبر للذھبی ج1ص43،چشتی)

اعتراض نمبر 5 : مخالفین کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت پر سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا تھا ۔
جواب : اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں، ان میں سے دوتین درج کیے جاتے ہیں :
(1) جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق مقابل کو سب وشتم کرنے کا ذکر ہے وہ سب روایات قواعد فن کی رو سے درست نہیں۔ ان کے راوی اور ناقلین مجروح اور مردود الروایۃ ہیں۔ مثال کے طور پر اس قسم کی روایات کے راوی ابو مخنف لوط ،یحیی، ابو جناب یحیی بن ابی حی کلبی اور ہشام بن سائب کلبی ہیں اور یہ لوگ علماء رجال کے نزدیک کذاب، دجال، جھوٹے، مفتری، شیعہ امامیہ اور رافضی ہیں اور یہ لوگ روایات میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرنے والے اور دروغ گوئی کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کی روایات ناقابل اعتبار اور متروک ہیں۔
(2) بعض اوقات کلام میں الفاظ توسختی اور تلخ قسم کے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے مراد گالی گلوچ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات باہمی درشت کلامی، سخت گوئی اور تلخ نوائی کو راوی سب و شتم سے تعبیر کردیتے ہیں ایسے مواقع پر صرف فریق مخالف کے عیوب کی نشان دہی کرنا اور دوسرے کی رائے کو غلط اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، لعن طعن اور گالی مقصود نہیں ہوتی ۔
(3) اگر بالفرض کسی جگہ روایات میں سب و شتم اور لعن طعن پایا بھی جائے تو اس کے مقابل ان روایات پر بھی نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن روایات میں سب و شتم اور لعن طعن سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ان متقابل روایات میں قاعدہ ”والمحرم مقدم علی المبیح“ کے مطابق تطبیق دی جائے گی اور سب و شتم اور لعن و طعن سے منع کرنے والی روایات کو اباحت والی روایات پر ترجیح دی جائے گی ۔

مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ

امام حافظ ابو الفضل امام احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی المتوفیٰ 852 ہجری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب انہم کانوا فیہا متاولین وللمجتہد المخطی اجر واذا ثبت ھذا فی حق احادی الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولیٰ ۔
ترجمہ : ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 312 الشاملہ،چشتی)

امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر فرماتے ہیں : واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب الا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وان المصيب يؤجر أجرين ۔
ترجمہ : اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بناء پر ان میں کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ کا موقف موقف حق تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناء پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا ۔ (فتح الباری جلد 13 صفحہ 43 کتاب الفتن باب ا اذا التقیٰ المسلمان،چشتی)

حضرت عثمان غنی کے قتل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل نہ تھے

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے اور مظلوم شہید ہوئے ۔ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا ، ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا ، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے قتل پر رضا مندی کا اظہار ثابت نہیں بلکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں انکار ثابت ہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصاص ضرور لیں گے لیکن تاخیر سے لیں گے اسی میں مصلحت ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی کہ قصاص جلدی لینے میں مصلحت ہے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک اجر کا مستحق ہوگا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ بر حق حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے اور ان میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔ وہ تمام حضرات عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے تھے ۔ نیز وہ دین پر عمل کرے والے تھے ۔ انہی کی تلوار سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا ۔ اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہوجائے گی ۔ یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہوگا دیندار آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں اس بات کو پختہ کرے ، جو واقعات (مشاجرات) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان کو روکے رکھے ، یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ جل شانہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک و صاف رکھا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں ۔ (تحریر الاصول مع شرح تقدیر الاصول ج2ص2260)

امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م676 ہجری) شرح مسلم میں فرماتے ہیں : ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والامساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفة باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة ۔
ترجمہ : اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے ، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے ، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے ۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے ۔ (شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما)

امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت و جماعت کا یہی موقف انہوں نے کتاب فضائل الصحابہ کے اوائل میں بیان کیا جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع صحیح ہے ، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے ۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ یہ سبھی عادل ہیں ، جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے ۔ (شرح مسلم ص272 ج2)

محترم قارئین : فقیر نے انتہائی دیانتداری اور مہذب انداز میں مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ مختصر چار مضامین لکھے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے غلطیوں کا امکان موجود ہے اہل علم جہاں کہیں غلطی پائیں اس فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے بے ادبی و گستاخی سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ سوم

0 comments

 مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ سوم

مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تابعی رضی اللہ عنہ (متوفی 150ہجری) کا موقف

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تابعی رضی اللہ عنہ ”الفقہ الاکبر“ میں فرماتے ہیں : تولاہم جمیعا ۔ امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الابخیر ۔
ترجمہ : ہم سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے ۔

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں : وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم ۔
ترجمہ : گو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)

الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں : اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد ۔
ترجمہ : اہل سنت وجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی ۔ (شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948،چشتی)

اما م ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہکے عقیدہ وعمل کے ترجمان ہیں ، آپ اپنی مشہور کتاب ”العقیدۃ الطحاویۃ“ میں لکھتے ہیں : نحب اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا نفرط فی حب احد منہم ولا نتبرا من احد منہم و نبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم ولا نذکر ہم الا بخیر وحبہم دین وایمان و احسان وبغضہم کفر و نفاق وطغیان ۔
ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ صفحہ نمبر 704 جلد نمبر 2 بیروت)

امام ابو جعفر طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں مزید فرماتے ہیں : ومن احسن القول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وازواجہ الطاہرات من کل دنس وذریاتہ المقدسین من کل رجس فقد برئ من النفاق ۔
ترجمہ : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اچھی بات کرتا ہے ، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہر قسم کے عیب سے پاک سمجھتا ہے اور آپ کی مقدس آل و اولاد رضی اللہ عنہم کو ہر قسم کی آلودگی سے مبرا سمجھتا ہے وہ نفاق سے بری ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ صفحہ نمبر 490 جلد نمبر 2 بیروت،چشتی)

اہل سنت و جماعت ناصبیوں ، خارجیوں اور رافضیوں کے افراط و تفریط سے بچ کر اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کہتے ہیں ۔

جنگ جمل : جنگ جمل کا واقعہ نصف جمادی الاولیٰ یا عند البعض جمادی الثانی 36ھ میں پیش آیا تھا ۔ شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور بیعت کی گئی تو اس میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، دیگر اکابر صحابہ اور اہل مدینہ نے بھی بیعت کی۔ جب بیعت ہوچکی تو اس وقت حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ پیش کیا کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرماچکے ہیں اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے متعلق انتطام فرمادیں کیونکہ اگر ہم شہید مظلوم کا انتقام نہ لیں اور فسادیوں کا قلع قمع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے عتاب و غضب کے مستحق ٹھہریں گے تو اس مطالبہ کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا کہ : ان ھولاء لہم مدد واعوان انہ لا یمکنہ ذلک یومہ ھذا . ترجمہ : ان لوگوں کو مدد گار اور حمایتی میسر ہیں اس لیے یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا حالات کے سازگار ہونے کے بعد یہ ہوسکے گا ۔ (البدایہ لابن کثیر ج7ص229 تحت ذکر بیعت خلافت علوی )

بہرحال اس جواب پر ان حضرات کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے پناہ لی تھی جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے : وقاتلان بجز آنکہ پناہی بحضرت مرتضیٰ بردند با او بیعت کنند علامے نیافشند وکیف ماکان عقد بیعت واقع شد .
ترجمہ : قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ملا کہ حضرت علی کی بیعت کریں اور اس کی پناہ میں آئیں جیسا کہ یہ معاملہ ہوا بھی، بہر کیف یہ بیعت منعقد ہوئی ۔ (قرۃ العینین ص143 طبع مجتبائی دہلی،چشتی)

تو ان دو حضرات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر شروع کیا ، جب مکہ پہنچے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور امہات المومنین رضی اللہ عنھن بھی عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچ چکی تھیں ۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر حضرات مکہ تشریف لے گئے ۔ یوں مکہ میں صحابہ کرام ، امہات المومنین رضی اللہ عنہم اور دیگر حضرات کا اجتماع ہوا ، ان تمام کا مقصد ایک ہی تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون ناحق اور ظلما گرادیا گیا ہے اس لیئے ان کے قصاص کا مسئلہ سب سے پہلے طے ہونا چاہیئے اور مجرموں کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیئے ۔ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں ۔ بالآخر طے ہوا کہ اس سلسلے میں بصرہ پہنچنا چاہیے ۔ منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت اگر مطالبہ پر جمع ہوجائے تو امید ہے کہ فریق ثانی بھی اس کی طرف توجہ کرے گا اور باہمی موافقت کی صورت پیدا ہوجائے گی ۔ اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل رہنے کی درخواست کی گئی تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہوجائے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں : فسارت معہم بقصد الاصلاح وانتظام الامور . (تفسیر روح المعانی ج22ص10،چشتی) ۔ اس کے بعد بہت سارے حضرات ان اکابر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے ساتھ شریک ہوگئے اور بصرہ کی طرف سفر شروع کیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی طرف سفر شروع کیا ۔ بصرہ کے قریب جب دونوں جماعتیں اپنے اپنے مقام پر پہنچیں تو بعض معتمد حضرات کے ذریعے مصالحت کی گفتگو جاری ہوئی ۔ اسی موقعہ پر حضرت قعقاع بن عمر التمیمی حضرت عائشہ اور ان کی جماعت کے پاس آئے اور عرض کیا : ای اُمُّہ ما اشخصک وما اقدمک ھذہ البلدۃ قالت: ای بنی! اصلاح بین الناس .
ترجمہ : حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے ام المومنین! اس شہر میں آپ کا تشریف لے آنا کسی مقصد کے لیے ہے؟ تو ام المومنین نے فرمایا اے بیٹے !لوگوں کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کرنے کے لیئے ۔ (روح المعانی ج22ص9، 10 وقرن فی بیوتکن)
اس پر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کریں تاکہ مسلمانوں میں انتشار کی یہ فضا ختم ہوجائے اور اتفاق پیدا ہوجائے تاکہ حضرت عثمان کا بدلہ لینا آسان ہوجائے ۔
افہام و تفہیم کے اس بیان کے بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا : اصبت واحسنت فارجع الخ ۔
ترجمہ : آپ کی بات درست ہے ہم اس پر آمادہ ہیں۔ آپ جائیں (اور فریق ثانی کو اطلاع دیں) ۔ فرجع الی علی فاخبرہ فاعجبہ ذالک واشرف القوم علی الصلح کرہ ذالک من کرہہ ورضیہ من رضیہ وارسلت عائشۃ الی علی تعلمہ انہا انما جاءت للصلح ففرح ھولاء وھولاء . (البدایہ لابن کثیر ج7ص239 روح المعانی ج22 ص9، 10)
مختصر یہ کہ جب یہ اطلاع حضرت علی کو ملی تو بہت خوش ہوئے اور باقی لوگ بھی صلح پر متوجہ ہوئے۔ البتہ بعض لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور بعض کو پسند آئی۔ بہرحال فریقین نے صلح ومصالحت پر اتفاق ظاہر کیا ۔

اس موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ : الا وانی راحل غدا فارتحلوا الا ولا یرتحلن غدا احد اعان علی عثمان بشئی فی شئی من امور الناس . ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے (اور دوسرے فریق کے پاس جائیں گے) اور خبردار جس نے بھی حضرت عثمان کے قتل پر اعانت کی ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے، ہمارے ساتھ نہ رہے۔(الفتنۃ وقعۃ الجمل لسیف بن عمر الضی ص147 البدایہ لابن کثیر ج7ص237،چشتی)

جب یہ اعلان ہوا تو فتنہ انگیز پارٹی کے سربراہ شریح بن اوفیٰ ، علباء بن الہیثم، سالم بن ثعلبہ العبسی، عبداللہ بن سبا المعروف بابن السوداء وغیر ہ سخت پریشان ہوئے اور انہیں اپنا انجام تاریک نظر آنے لگا۔ قابل غور بات یہ تھی کہ اس پارٹی میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : ولیس فیہم صحابی وللہ الحمد. ( البدایہ لابن کثیر ج7ص238) ۔ اس پارٹی نے ایک خفیہ مشورہ کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن باہم اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام رہا ۔
چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں : فان بعضہم کان عزم علی الخروج علی الامام علی رضی اللہ عنہ وعلی قتلہ لما نادیٰ یوم الجمل بان یخرج عن قتلۃ عثمان الخ . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77) ۔ بہرحال یہ دشمن تو اپنے اس مذموم عمل میں ناکام رہے، ادھر دونوں جماعتیں دو مقام پر جمع ہوئیں۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ”زابوقہ“ کے مقام پر پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جماعت کے ساتھ ”ذاقار“ کے مقام پر تشریف لائے۔ قعقاع کے میدان میں فریقین کی صلح ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین کو شرعی سزا دینے پر راضی ہوگئے اور دوسری جماعت (حضرت طلحہ وغیرہ) بیعت پر راضی ہوگئے اور اس صلح پر کوئی شک نہ رہا ۔

وہم لا یشکون فی الصلح . (الفتنۃ وقعۃ الجمل ص155 روح المعانی ج22ص9، 10)
ان حالات میں تمام حضرات نے خیر اور سلامتی سے رات گذاری لیکن مفسدین اور قاتلین عثمان پوری رات فتنہ کھڑا کرنے کی تدابیر میں مصروف رہے آخر کار تاریکی میں دفعۃ لڑائی کرادینے پر ان کا اتفاق ہوگیا ۔

اس واقعہ جمل کو علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں سورۃ الحجرات کی آیات کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے : قلت : فهذا قول في سبب الحرب الواقع بينهم. وقال جلة من أهل العلم : إن الوقعة بالبصرة بينهم كانت على غير عزيمة منهم على الحرب بل فجأة ، وعلى سبيل دفع كل واحد من الفريقين عن أنفسهم لظنه أن الفريق الآخر قد غدر به ، لأن الأمر كان قد انتظم بينهم ، وتم الصلح والتفرق على الرضا. فخاف قتلة عثمان رضي الله عنه من التمكين منهم والإحاطة بهم ، فاجتمعوا وتشاوروا واختلفوا ، ثم أتفقت آراؤهم على أن يفترقوا فريقين ، ويبدأوا بالحرب سحرة في العسكرين ، وتختلف السهام بينهم ، ويصيح الفريق الذي في عسكر علي : غدر طلحة والزبير. والفريق الذي في عسكر طلحة والزبير : غدر علي. فتم لهم ذلك على ما دبروه ، ونشبت الحرب ، فكان كل فريق دافعا لمكرته عند نفسه ، ومانعا من الإشاطة بدمه. وهذا صواب من الفريقين وطاعة لله تعالى ، إذ وقع القتال والامتناع منهما على هذه السبيل. وهذا هوالصحيح المشهور. والله أعلم.
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کردی گئی تھی، ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کررہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہوچکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہوگئی تو ہماری خیر نہیں لہذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہوگئے کہ ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں کچھ حضرت علی کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ حضرت طلحہ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ والو ں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے ۔ (تفسیر قرطبی ج16ص318، 319،چشتی)
اس کو جنگ ”جمل“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آخر کار اس لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت غالب آگئی اور دوسرے فریق کے اکابر حضرت زبیر اور حضرت طلحہ وغیرہم شہید ہوگئے اور یہ فریق مغلوب ہوگیا ۔ اس کے بعد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ام المؤمنین کو حفاظتی انتظام کے ساتھ لایا گیا ۔ حضرت علی نے سلام عرض کیا اور خیریت دریافت کی ، حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں بخیریت ہوں ، اس کے بعد چند ایام بصرہ میں گزارنے کے بعد جب حجاز کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضروریات سفر مہیا کر کے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ روانہ فرمایا ۔ چونکہ یہ واقعہ دشمنوں کی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے سرزد ہوا اس لیئے اس واقعہ پر دونوں فریقین کی طرف سے اظہارِ افسوس روایات بھی منقول ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اظہار افسوس : عن قیس بن عبادۃ قال قال علی یوم الجمل یا حسن لیت اباک مات منذ عشرین سنۃ فقال لہ یا ابہ قد کنت انہاک عن ھذا قال یا بنی انی لم ار ان الامر یبلغ ھذا. (البدایہ لابن کثیر ج2ص240)
حضرت ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اظہار افسوس : فقالت انما ارید ان یحجز بین الناس مکانی قالت ولم احسب ان یکون بین الناس قتال ولو علمت ذالک لم اقف ذالک الموقف ابدا. (مصنف عبدالرزاق ج5ص475 غزوات ذات السلاسل وخیر علی و معاویہ )
ترجمہ : حضرت ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا خیال تھا کہ میں اپنے مقام و مرتبہ کی بنا پر لوگوں کے درمیان جنگ و قتال سے مانع ہوں گی اور مجھے یہ گمان ہی نہ تھا کہ لوگوں کے درمیان لڑائی واقع ہوگی ۔ اگر یہ بات مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میں اس مقام پر ہرگز نہ پہنچتی ۔ (جاری ہے) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)