حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
محترم قارٸینِ کرام : جن سعادت مَند خواتین نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا ، ان میں ایک مبارک نام حضرت حَلیمہ سَعْدِیہ بنت عبد اللہ بن حارِث رضی اللہ تعالٰی عنہا کا بھی ہے ، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا تعلق قبیلۂ بنی سعد سے ہے ، آپ شرفِ اسلام و صحابیت سے مشرف ہوئیں ، آپ کے شوہر کا نام حضرت حارِث رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا ، آپ بھی صاحبِ ایمان اور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ بابرکت سے فیض پانے والے تھے نیز آپ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں بھی حاضرہوئے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 30 صفحہ 293،چشتی)
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں جب مکہ معظمہ میں پہنچی اور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر آئی تو میں نے دیکھا کہ جس کمرہ میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے ، وہ کمرہ سارا چمک رہا تھا ، میں نے حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا آپ نے اس کمرہ میں بہت سے چراغ جلا رکھے ہیں ؟ تو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں ، بلکہ یہ ساری روشنی میرے لختِ جگر پیارے بچہ کے چہرے کی ہے ، حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں اندر گئی تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیدھے لیٹے ہوۓ سو رہے ہیں ، اور اپنی مبارک ننھی انگلیاں چوس رہے ہیں ، میں نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حسن و جمال دیکھا تو فریفتہ ہو گئی اور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میرے بال بال میں رچ گئی ، پھر میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سر انور مبارک کے پاس بیٹھ گئی اور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی چشمان مبارک کھول دیں اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے ، اللہ اکبر میں نے دیکھا کہ اس نور بھرے منہ سے ایک ایسا نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا ، پھر میں نے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اٹھا کر بہت پیار کیا ، پھر حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لے کر واپس چلنے لگی تو حضرت عبدالمطلب نے زادِ راہ کے لیے کچھ دینا چاہا تو میں نے کہا حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پا لینے کے بعد اب مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب میں اس نعمتِ عظمٰی کو گود میں لے کر باہر نکلی تو مجھے ہر چیز سے مبارک باد کی آوازیں آنے لگیں کہ اے حلیمہ رضی للہ عنہا رضاعت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تجھے مبارک ہو ، پھر جب میں اپنی سواری پر بیٹھی تو میری کم زور سواری میں بجلی جیسی طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ بڑی بڑی توانا اونٹنیوں کو پیچھے چھوڑنے لگی ، سب حیران رہ گئے کہ حلیمہ سعدیہ کی سواری میں یک دم یہ طاقت کیسے آگئی ؟ تو سواری خود بولی میری پشت پر اولین و آخرین کے سردار محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوار ہیں ان ہیؐ کی برکت سے میری کم زوری جاتی رہی اور میرا حال اچھا ہو گیا ۔ (جامع المعجزات صفحہ نمبر 86،چشتی)
اس حدیث کے مختلف ٹکڑے مختلف روایات میں موجود ہیں ، جس کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے :
سواری کا بجلی کی طرح تیز رفتاری سے چلنا اور طاقتور ہونا ۔ (سیرۃ ابن اسحاق :۲۶، ط : دارالنفائس لاہور) میں مذکور ہے ۔ اسی طرح سیرۃ ابن ہشام ص :۱۸۹، ط: دارالریان ، دلائل النبوۃ للبیہقی :۱/۱۵۹، ط: دارالفکر میں موجود ہے ۔
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نیند سے بیدار ہونا اور مسکرانا (سیرۃ حلبیہ ، باب ذکر رضاعہ ۱/۱۵۳، ط : دارالفکر،چشتی) میں مذکور ہے ۔
جمہور کے نزدیک حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا صحیح اور راجح قول کے مطابق مسلمان ہوگٸی تھیں
زاد المعاد في هدي خير العباد میں ابن قيم جوزيہ نے لکھا ہے : واختلف في إسلام أبويه من الرضاعة، فالله أعلم۔
صحیح اور راجح قول کے مطابق حضرت سیدہ حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔
علامہ فاسیی رحمة اللہ علیہ نے مستعذب الإخبار میں لکھا ہے کہ ابن حبان وغیرہ نے حضرت حلیمہ سعدیہ اور آپ کی صاحبزادی شیماء کے قبول اسلام کی روایت کی تصحیح کی ہے ، وہ فرماتے ہیں : وصحح ابن حبان وغيره حديث إسلام حليمة وابنتها الشيماء ۔
علامہ صالحی شامی نے سبل الھدی میں آپ کو صحابیات میں شمار کیا ہے ۔
شرح المواهب الدنية کے حاشیہ میں ہے کہ اکثر علماء اسلام کے نزدیک حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کرلیا تھا اور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پائی ہے ، یہی بات صحیح ہے ۔ فالأكثرون ۔ وهو الصحيح ۔ على أنها أسلمت وصحبت ۔
حضرمی نے منتهى السؤال میں لکھا ہے : وصحّح ابن حبّان وغيره ما يدلّ على إسلام حليمة، ثم قال : قلت : وابن عبد البرّ وابن حبان كل منهما أجل من الحافظ الدمياطي الذي قال إنها لم تسلم ، فالراجح عندي ما قاله ابن عبد البرّ ، من إثبات إسلامها ، وهو الذي اعتمده الحافظ مغلطاي ، وأيّده علماء عصره ، لا سيما وقد ذكرها الحافظ ابن حجر العسقلاني في الإصابة في الصحابيات أهل القسم الأول ۔ ولذلك ، فإن القول بإسلامها هو الصحيح ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ابن حبان ، ابن عبدالبر ، حافظ مغلطائی، حافظ ابن حجر ، علامہ شامی صالحی وغیرہ جمہور علماء کرام علیہم الرّحمہ کے نزدیک صحیح اور راجح یہ ہے کہ حضرت سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا مشرف باسلام ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی تھی ۔
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا زمانۂ رضاعت حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کواپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بچپن کے ابتدائی سال گزرے ۔ (مدارج النبوۃ جلد نمبر 2 ص 18،چشتی)
نبی کرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سات آسمانوں کی سیر کرنے والے مہمان ہیں جن کی ابتدائی خدمت بنو سعد کی نیک بخت خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ہوئی ۔ اس باب میں مکہ سے جدائی کے رقت انگیز لمحات اور ان برکات کا ذکر ہے جو بنو سعد اور خاندان حارث کو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طفیل ملیں ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے بچوں ، ان میں مکہ کے ہاشمی گھرانے کے چشم و چراغ کے وجود، شیماء کی لوریوں اور حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضاعی ماٶں کے اسماء گرامی کا تذکرہ اور ان کے ایمان کی باتیں ۔
بنو سعد اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جدہ سے 30 میل اور مکہ سے 10 میل دور حدیبیہ (شمیسی) واقع ہے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا قبیلہ طائف کے قریب’’ شحطہ‘‘ نامی پہاڑی گاٶں میں آباد تھا جو سڑک کے راستے مکہ سے 150 کلومیٹر کے راستے پر ہے ۔ جبکہ سیدھا پہاڑی راستہ 60 کلو میٹر سے لگ بھگ ہے ، طائف سے یمن جانے والی شاہراہ پر 20 کلومیٹر جائیں تو’’ شقصان‘‘ کے مقام سے دائیں طرف سڑک نکلتی ہے جو خیبات لے جاتی ہے جہاں بازار ہے ۔ اس کے قریب جس گاٶں شحطہ میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بچپن گزرا ، وہ ایک پہاڑی پر آباد ہے ۔ پہاڑی کے دامن میں ایک خوبصورت باغ ہے ۔ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے مکان کے نیچے ایک کنواں ہے جس میں اب ایک ٹیوب ویل لگا ہے ۔ غالباً اسی کنویں سے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیراب ہوتے رہے ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو محفوظ کرنے کے لیے اس کا سارا احاطہ اب مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ (اطلس سیرت نبوی حضرت حلیمہ سعدیہ)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا ابو ذویب عبد اللہ بن حارث کی بیٹی تھیں ۔ روایت ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی والدہ ماجدہ (حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا) کا لقب حَکِیْمَۃُ الْقَوْمِ (خاندان میں سب سے زیادہ سمجھدار خاتون) تھا ۔(شرح الزرقانی، ذکر تزوّج عبد اللہ)(اکمال الکمال ۳/۸۰، الجواہر المضیۃ حرف الحاء)
اسی لیے ضرورت تھی کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو خاتون دودھ پلائے وہ بھی حکیمہ ، حلیمہ اور عاقلہ ہو اور دوسری ضرورت تھی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دایہ فصاحت و بلاغت کے ماحول میں موجود ہو ، چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھ کو تمام عرب میں فصیح بنایا ہے ، ایک تو ہمارا قبیلہ قریش فصاحت زبان میں بے مثل ہے ، دوسرے میری پرورش قبیلہ بنو سعد میں ہوئی جو فصاحت و بلاغت میں مشہور و ممتاز ہے ۔ (المواھب اللدنیۃ: ۲/۲۲)
اُمّ النبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ماں) : حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا اسی قبیلہ سے تھیں ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو ظِئْرُ النَّبِی (نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دایہ) کہا جاتا تھا ۔ (المواھب اللدنیۃ: ۲/۲۲،چشتی)
ان کو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُمّی (میری ماں ) بھی کہا کرتے تھے ۔ (صفوۃ الصفوۃ ج ص۸)
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رونق افروز عالم ہو کر سات دن تک اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ پیا۔ اس کے بعد حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا نے چند دن دودھ پلایا ۔ اسی اثناء میں قبیلہ بنو سعد کی چند عورتیں بچے لینے مکہ آئیں ، ان میں حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ انھوں نے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دودھ پلایا تھا ، اس لیے ان کا لقب اُمُّ النَّبِیْ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مِنَ الرَّضَاعَۃ (رضاعی ماں) معروف ہو گیا ۔ (اَلسِّیْرَۃُ الْحَلْبِیَۃُ ذِکْر رَضَاعِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس رشتہ اُمْوِیَّت کا اس قدر لحاظ تھا کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بہن سلمیٰ رضی اللہ عنہا بنت ابی ذویب رضی اللہ عنہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مَرْحَباً یا اُمِّی کہتے ہوئے اپنی چادر ان کے قدموں میں بچھا دی ۔ (اسد الغایہ، سلمیٰ بنت ابی ذؤیب)
بعض روایات میں یہ واقعہ خود حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا ہے۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دیگر خدمات کے ساتھ دودھ پلانے کی سعادت سے بڑا حصہ حاصل کیا ، اس لیے آپ رضی اللہ عنہا کے دو لقب معروف ہوئے :
(1) مُرضعۃُ النبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ (الاصابۃ، الحارث بن عبدالعزی)
(2) ظِئْرُ النَّبِی ۔ (الکمال فی رفع الاتباب، باب الحلیمی)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا تیس سال کی عمر میں مکہ میں آئیں تو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دودھ پلانے کے لیے لے گئیں اور تقریباً 90 سال کی عمر میں وفات پا گئیں ۔ وہ خدمت رضاعت کے بعد حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اُس وقت بھی ملیں جب آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شادی ہو چکی تھی ۔ (السیرۃ الحلبیہ : ۱/۱۵۰)
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے جب حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نکاح ہوا تو اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے علاقے میں قحط سالی کی شکایت کی ۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو چالیس بکریاں اور سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ عطا فرمایا ۔ (الاکمال باب الحلیمی والحکیمی،چشتی)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا بھی جب قبیلہ بنو سعد سے چلیں اور مکہ پہنچیں تو عورتیں پورے مکے کا چکر لگا کر مختلف گھروں سے بچے لے جا چکی تھیں ، اب اس مسکین عورت کے لیے ایک ہی بچہ رہ گیا ، جس نے اس کی مسکینی کو غنا میں بدلنا تھا اور پوری دنیا میں اس کا نام روشن کرنا تھا ، دیگر عورتیں بھی درِ نبوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پہ آئیں اور یہاں سے بظاہر واپس ہو گئی تھیں ، درحقیقت واپس کی گئی تھیں ، ان میں وہ صلاحیت نہ تھی ، جو فیضِ نبوت سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے ، اس دربار سے اسے ملتا ہے جو عاجزی سے آئے، اپنی ہستی مٹا کے آئے، اللہ پر بھروسہ اور کامل توکل علی اللہ سے آئے ، یہ صفات صرف حلیمہ رضی اللہ عنہا میں تھیں اور ادھر حضرت عبدالمطلب اگرچہ بہت متمول تھے لیکن ان کی سخاوت، مہمانداری اور غریب نوازی کے اوصاف مال کو زیادہ دیر گھر میں رہنے نہ دیتے ۔ ابھی محرم کے مہینے تک حجاج مکہ سے واپس اپنے گھروں کو گئے تھے، اللہ کے یہ مہمان جب مکہ آتے تو ہاشمی گھرانہ ان کی دعوتوں میں اپنا سب کچھ لٹا دیتا تھا ، اس سال ابرہہ کے کعبۃ اللہ پر حملے کی وجہ سے حجاج کا رش بھی بڑھ گیا تھا یعنی نہ اس گھر میں مال جمع تھا جہاں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیدا ہوئے اور نہ اس گھر میں تھا جہاں سے حلیمہ رضی اللہ عنہا آئیں ، لیکن ان کو ابھی طلبِ صادق میں وہ درجہ حاصل نہ ہوا تھا جو نبی آخر الزمان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آغوش میں لینے کا مستحق بناتا ، اس لیے انہوں نے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھر پہ دستک دی ۔ جب معلوم ہوا کہ بچہ یتیم ہیتو سوال پیدا ہوا معاوضہ و حقِ خدمت کا کیا بنے گا ؟ میں تو پہلے ہی غریب ہوں ، شاید اس کا حق بھی ادا نہ کر سکوں ، یہ سوچ کر مکے میں کوئی اور بچہ تلاش کرنے نکل گئیں ۔ (السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۱)
لیکن کوئی ان کو بچہ دینے پہ راضی نہ ہوا ، کیا سب بچے اپنی دائیوں کے ساتھ جا چکے یا حلیمہ رضی اللہ عنہا کو کمزور اور مفلوک الحال سمجھ کر کسی نے بچہ نہ دیا ۔ وجہ کوئی بھی ہو، وہ خود فرماتی ہیں کہ محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گود میں لینے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے کوئی بچہ ملا نہیں ۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۱/۱۶۲)
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنا نے اپنے خاوند کو کہا : خدا کی قسم ! میں ضرور اس یتیم کو لے کر جاٶں گی ، اُمید ہے اللہ اس نومولود کو ہمارے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بنا دے ۔ (عیون الاثر: ۱/۴۲)
اب وہ اس قابل ہوئیں کہ نبی کرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کر کے اس لائق ہوں کہ حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کو ’’اُمی‘‘ (میری ماں) کہا کریں ۔
شہر مکہ میں ایک طرف حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا یہ سوچ رہی تھیں وہاں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا اپنے لخت جگر کو گود میں لیے غمگین تھیں کہ میرے یتیم کو سب آیائیں اسی وجہ سے گود نہیں لے سکیں کہ اس کے والد کا سایہ سر پہ نہیں ہے ۔ (مع المصطفیٰ: ۱/۴۲،چشتی)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا ابھی اسی سوچ و بچار میں تھیں کہ کیا کیا جائے ؟ خالی ہاتھ جائیں یا یتیمِ آمنہ کو لیتی جائیں ؟ کہ اچانک ان کی ملاقات حضرت عبدالمطلب سے ہوئی :
عبدالمطلب : (حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا سے) آپ کون ہیں ؟
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا : میرا نام حلیمہ سعدیہ ہے ۔
عبدالمطلب : واہ واہ ! حلیمہ یعنی حلم اور برداشت والی اور سعدیہ یعنی خیر و سعادت کا مرکز !
اس کے بعد جناب عبدالمطلب نے حلیمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : میرے گھر میں ایک یتیم بچہ ہے ، اسے لینے کے لیے بنو سعد کی عورتیں آئیں لیکن وہ اسے اس لیے نہ لے گئیں کہ اس کا باپ سر پہ نہیں ہے، انہیں اس بچے کی خدمت سے کیا صلہ ملے گا ؟ آٶ میں تمہیں وہ نومولود دکھاٶں ، حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا اور درِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پہ حاضر ہو گئیں ، حضرت عبدالمطلب انتظار میں ہی تھے ، حلیمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو خوش ہوئے اور فرمایا : آٶ میں تمہیں اس حجرے میں لے چلوں جہاں وہ بچہ موجود ہے ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں ان کے ساتھ اندر چلی آئی ، وہاں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بھی مجھے دیکھ کر خوش ہو گئیں ، مجھے مرحباً کہا ، میرا ہاتھ پکڑا اور اس کمرے میں لے گئی ، جہاں حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما تھے ، یہاں میں نے دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک اونی کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے جو دودھ سے زیادہ سفید تھا ، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نیچے سبز رنگ کا ایک کپڑا تھا ، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیدھے لیٹے سو رہے تھے اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سانس کی آواز کے ساتھ مشک کی سی خوشبو نکل کر پھیل رہی تھی ۔ میں نےآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جگانا پسند نہیں کیا، پیار سے ہاتھ ان کے سینے پہ رکھا ، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فوراً مسکرائے اور میری طرف دیکھنے لگے ، میں نے دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا ، جو آسمان تک پہنچ گیا ہے ۔ میں دیکھ رہی تھی کہ (حجرے کے اندر ہونے کے باوجود) ہمیں آسمان تک نور ہی نور نظر آ رہا تھا ۔ میں نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور گود میں لے لیا ۔ (السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۱، شرف المصطفیٰ: ۱/۳۷۴،چشتی)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا اور حارث فرحاں و شاداں باتیں کرتے جا رہے تھے انہیں دوجہاں کی دولت مل چکی تھی ۔ اسے کبھی گود میں رکھتے کبھی کمر پر بٹھاتے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا مہر و وفا کی یہ داستان لوگوں کو سنا کر حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنے تعلق کا اظہار کیا کرتی تھیں ، ذرا اس لذیذ کہانی کے چند جملے ان ہی کی زبانی سنتے ہیں ، فرماتی ہیں : میں نے اپنے خچر پر اپنے ساتھ نبی کرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی بٹھا لیا ۔ اب یہ خچر اتنا تیز چلا کہ سارے قافلے کو پیچھے چھوڑ گیا ۔ یہاں تک کہ ساتھیوں میں سے کسی کا گدھا بھی چلنے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکا بالآخر میری ساتھی دایائیں مجھ سے کہنے لگیں : اے بنت ابی ذؤیب! تمہیں کیا ہو گیا ؟ اتنا تیز مت چلو ذرا ہمارا بھی خیال رکھو ۔ کیا یہ وہی خچر نہیں ہے جس پر تم آئی تھیں اور جسے ایک ایک قدم چلنا مشکل ہوتا تھا اور اب اس قدر تیزی ؟ میں نے ان سے کہا : ہاں ہاں خدا کی قسم یہ وہی ہے ۔ وہ کہنے لگیں : خدا کی قسم اس کا معاملہ عجیب ہے ۔ (المواہب اللدنیہ، ۱/۸۲، سیرۃ ابن اسحاق: ۱/۲۵، تاریخ الخمیس: ۱/۲۲۴)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے سہیلیوں سے کہا : اللہ نے مجھے ایک شان دی اور اب میرا حال خاص سے بھی زیادہ خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے موت (یعنی انتہائی کمزوری کے بعد) دوبارہ زندہ کیا اور کمزوری کے بعد مجھے طاقت اور قوت عطا فرمائی ۔ اے بنی سعد کی عورتو ! تمہاری بری حالت ہو، تم بڑی غفلت اور بے خبری میں ہو ۔ کیا تم جانتی ہو کہ میری کمر پر کون ہے ؟
(حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کی سب ہم جولیوں نے ایک بار پھر حلیمہ رضی اللہ عنہا اور اس کی سواری کو دیکھا حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو غالباً مکہ میں کسی نے بتا دیا کہ محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نامی بچہ نبی آخر الزماں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ۔ اس لیے) فرمایا : میری کمر پر سوار بچہ پیغمبروں کا سردار ہے ۔ نہ اس سے بہتر انسان کوئی پیدا ہوا اور نہ ہوگا ۔ یہ بچہ پروردگارِ عالم کا محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ۔(تاریخ الخمیس: ۱/ ۲۲۴، شرح الزرقانی: ۱/۲۷۲)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے خواتین کے سوال کا شافی جواب دیا اور انہیں درمیان راہ چھوڑتی سواری کو آگے لے گئی ، فرماتی ہیں : آخر ہم بنی سعد کی بستی میں (اپنے گھر) پہنچ گئے ، اس وقت میرے خیال میں روئے زمین پر سب سے زیادہ خشک اور قحط زدہ علاقہ یہی تھا مگر (نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت سے) میری بکریاں (جب صبح چراگاہ میں جاتیں تو) اس حال میں شام کو واپس گھر آتی تھیں کہ ان کے پیٹ بھرے ہوتے اور ان کے تھن دودھ سے لٹکے ہوتے تھے ۔ چنانچہ ہم ان کا دودھ دوہتے اور جتنا دل چاہتا پیتے۔ حالانکہ خدا کی قسم دوسروں کو (قحط کی وجہ سے اپنے جانوروں میں) ایک قطرہ دودھ بھی نہیں ملتا تھا اور ان کی بکریوں کے تھن سوکھے ہوتے تھے ۔ یہاں تک کہ گھروں میں رہنے والے (جو لوگ ہماری قوم کے تھے وہ) اپنے چرواہوں کو کہتے : آخر تمہیں کیا ہو گیا ، تم لوگ اپنی بکریوں کو وہیں کیوں نہیں چراتے جہاں بنت ابوذؤہیب (حلیمہ رضی اللہ عنہا) کی بکریاں چرتی ہیں ۔ مگر ان کی بکریاں اس حال میں واپس ہوتیں کہ وہ بھوکی رہتیں اور دودھ سے خالی ہوتی تھیں جبکہ میری بکریاں پیٹ بھر کر چرتیں اور خوب دودھ دیتی تھیں ۔ ہمارے اوپر اللہ کے فضل سے یہی خیر و برکت رہی کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عمر کے دو سال گزر گئے ۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنی تیزی کے ساتھ بڑھ رہے تھے کہ عام بچے اس طرح نہیں بڑھتے ۔ چنانچہ دو سال میں ہی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک تندرست اور مضبوط لڑکے معلوم ہوتے تھے ۔ (الروض الانف: ۲/۱۰۶، عیون الاثر: ۱/۴۲ تاریخ الطبری: ۲/۱۵۹، الکامل فی التاریخ: ۲/۱۵۹، تہذیب ابن ہشام: ۱/۴۴، الموسوعۃ فی صحیح السیرۃ: ۱/۱۰۲، الرحیق المختوم: ۱/۴۷، السیرۃ النبویۃ علیٰ ضوء القرآن والسنۃ: ۱/۱۹۴، سیرۃ ابن ہشام: ۱/۱۵۲)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس قسم کے بے شمار واقعات پیش آئے ، جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام و مریم کے ایامِ کم سنی کے حالات قرآنِ کریم میں موجود ہیں ، جو معجزات، خوارقِ عادت یا ارہاصات کہلاتے ہیں ۔ ان پر ہم سب کا ایمان ہے ، اسی طرح حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بچپن میں جو حالات پیش آئے ان پر یقین کرنا چاہیے ۔ ایک روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جھولے کو فرشتے حرکت دیتے تھے ۔ (الخصائص الکبریٰ: ۱/۹۱،چشتی)
اس طرح کے واقعات اگر روایات میں ہوں تو ہرگز تعجب نہیں کرنا چاہیے بلکہ یقینِ کامل کے ساتھ انکا مطالعہ کرنا چاہیے ، یہ عمل ایمان اور محبتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ترقی کا ذریعہ ہے ۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے : ایک روز نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری گود میں تھے کہ سامنے سے میری بکریاں گزریں ۔ ان میں سے ایک قریب آئی اور اس نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سجدہ کیا ۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سر مبارک کو چوما اور دوسری بکریوں میں جا ملی ۔ (السیرۃ الحلبیہ: ۱/۱۳۳، تاریخ الخمیس: ۱/۲۲۵ )
بکری کا یہ تعظیمی سجدہ ابتداء تھی ان معجزات کی جو آئندہ تریسٹھ سالوں کے اندر حیوانات میں دکھائے گئے ۔ دلائل کی کتابوں میں اس قسم کے لاتعداد خوارقِ عادات موجود ہیں جو جانوروں میں نظر آئے ، وہ تمام واقعات اس واقعہ کی تائیدات ہیں نبی کرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لیے تو اونٹ اور درخت نے بھی سجدہ کیا ۔ (تاریخ الحمیس: ۱/۴۴،چشتی)
اولاد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد بھی مسلمان ہوگئی تھی ، آپ کے صاحبزادے کا نام عبداللہ بن حارث تھا جو کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رضاعی بھائی تھے اور دو صاحبزادیاں انیسہ بنتِ حارث اور جُدامہ بنتِ حارث تھیں ، جُدامہ بنتِ حارث ہی شَیما کے نام سے مشہور ہیں ۔ (طبقات ابن سعد جلد 1 ، ص ،89،چشتی)
حضرت شیما نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بڑی رضاعی بہن تھیں اور آپ کو گود میں کھلاتی اور لوریاں دیتی تھیں۔(مراٰۃ المناجیح ، جلد 8 صفحہ 20،چشتی)
برکاتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے ، حضرت حلیمہ کے مویشی کثرت سے بڑھنے لگے ، آپ کا مقام و مرتبہ بلند ہوگیا ، خیر و برکت اور کامیابیاں ملتی رہیں ۔(مواہب الدنیہ جلد 1 صفحہ 80،چشتی)
نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آپ سے محبت جب حضرتِ حلیمہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ غَزوۂ حُنین کے موقع پر جب حضرت سیّدتنا حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا محبوبِِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملنے آئیں تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،ج 4،ص374)
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت حلیمہ کو 1 اونٹ اور 40 بکریاں دیں ۔ (الحدائق لابن جوزی جلد 1 صفحہ 169،چشتی)
مدفن شریف آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جنّۃ البقیع شریف میں دفن کیا گیا ۔ (جنتی زیور، صفحہ نمر 512)
قبر پر سبزہ علّامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب میں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبرِ انور کے سامنے کھڑا ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنّتُ البقیع کی کسی قبر پر کوئی گھاس اور سبزہ نہیں لیکن حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی قبر شَریف کو دیکھا کہ بہت ہی ہری اور شاداب گھاسوں سے پوری قبر چُھپی ہوئی ہے ۔ (جنتی زیور صفحہ 512) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment