Monday, 10 May 2021

غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

 غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ دوم

محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصّہ اوّل پڑھ لیا ہوگا آٸیے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :
محکمہ اوقاف نے علوم اسلامىہ میں تخصص اورتحقىق کےلیے بہاولپور میں جامعہ اسلامىہ قائم کیا تو اس کے شعبہ حدىث میں بلند پاہ محقق اور حدیث و اصول حدیث پر مہارت تامہ رکھنے والی شخصیت کی ضرورت تھى ۔ محکمہ اوقاف کی نظر غزالئ زماں علامہ کاظمی رحمة اللہ علیہ پر آکر ٹھہر گئی ۔ آپ رحمة اللہ علیہ کی بارگاہ میں شىخ الحدىث کا منصب قبول کرنے کى درخواست کی گئی ، آپ رحمة اللہ علیہ نے دیگر علمی مصروفیات کی وجہ سے انکار فرما دیا ۔ مگر بعد میں محکمہ کے اصرار ، اہلسنت کى نمائندگى اور مسلک کے تحفظ کى خاطر یہ عہدہ قبول کرلیا اور بعد کے حالات نے واضح کر دیا کہ آپ رحمة اللہ علیہ نے بروقت اور صحیح فیصلہ فرمایا ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے 1963ء تا 1974ء 11 سال تک جامعہ اسلامىہ میں بحیثیت شیخ الحدیث خدمات سرانجام دیں ۔ (مقالات کاظمی،۱/۱۸،چشتی)
مخالفین نے دین دشمنی کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا مگر غزالئ زماں رحمة اللہ علیہ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی آپ رحمة اللہ علیہ پر اور آپ کے راستے میں نجاستیں ڈالی گئیں ، گھر کے باہر سے کنڈی لگا کر محصور کیا گیا ، یہاں تک کہ آپ رحمة اللہ علیہ کے گھر کی نقب لگائی گئی اور آپ کی کتابیں چوری کر لی گئیں ۔ مگر کسی صورت بھی آپ رحمة اللہ علیہ کو اس راہِ سرفروشی سے روک نہ سکے ۔ مخالفین نے مخالفت اس لیے شروع کی تھی کہ غزالئ زماں رازی دوراں حضرت علامہ سَیّد اَحْمَد سعید شاہ کاظمی رحمة اللہ علیہ کی عِلْم و عرفاں کے میداں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو ختم کیا جاسکے اور پیغامِ عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو روکا جاسکے ۔ مگر وہ اپنی اس سازش میں ناکام رہے اور ہر طرف آپ رحمة اللہ علیہ کے عِلْم وفضل کا طُوطی بولنے لگا ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ،ص۵۳)
کچھ لوگوں نے آپ رحمة اللہ علیہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ آپ رحمة اللہ علیہ کو بہاولپور کے ایک گاؤں میں بیان کی دعوت دی گئی جسے آپ نے قبول فرما لیا ۔ چنانچہ 3 محرم الحرام جمعۃ المبارک کے دن آپ رحمة اللہ علیہ وقت مقررہ پر جلوہ فرما ہو گئے ۔ بیان کے دوران ہی شر پسندوں نے آپ رحمة اللہ علیہ پر کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا ، جس میں آپ رحمة اللہ علیہ شدید زخموں کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے ۔بعدازاں آپ رحمة اللہ علیہ ملتان شریف میں زیرِ علاج رہے ۔ مشائخِ کرام اور عقیدت مندوں نے بہت عرض کیا کہ مخالفین کے خلاف بیان قلم بندکروائیں مگر آپ رحمة اللہ علیہ نے ایک ہی جواب دیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمان ہے : اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ (۱۵۳)۔(پ ۲، البقرہ : ۱۵۳)
ترجمہ : بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔
آپ رحمة اللہ علیہ نے انتقامی کارروائی کیے بغیر اپنے دشمنوں کو معاف فرما دیا ۔ (مقالات کاظمی،۱/۱۵،چشتی)
جب غزالئ زماں رحمة اللہ علیہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی خبر پھیلی تو ہر طرف سے محبین ومعتقدین عیادت کےلیے آنے لگے ۔آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : زندگی اور موت تو اس رب العالمین عَزَّوَجَلَّ کے ہاتھ میں ہے مجھے اس حملے کا دکھ یا موت کا خوف نہیں ۔صرف ملال یہ ہے کہ کوئی مدرسہ قائم نہ کر سکا جو میرے لیے صدقۂ جاریہ ہوتا اور دین کا قلعہ بنتا ۔ آپ رحمة اللہ علیہ کے محب خاص منشى اللہ بخش رحمة اللہ علیہ عیادت کےلیے آئے ہوئے تھے انہوں نے یہ سنتے ہى دس ہزار روپے آپ رحمة اللہ علیہ کى خدمت میں پىش کیے اور ان کى اہلیہ نے بھی اپنے زیورات پیش کر دیۓ ۔ غزالئ زماں رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ نے بھی اپنا تمام زىور اتار کر نذر کردیا ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اس رقم سے ملتان شریف کے وسط میں زمىن خرید کر جامعہ اسلامیہ عربیہ انوار العلوم کی بنیاد رکھی ۔ 1944ء میں قائم ہونے والا یہ عظیم الشان جامعہ 70 سال کی عمر دراز پا چکا ہے اور آج بھی عِلْم وعرفان کے جام لٹا رہا ہے ۔(حیات غزالئ زماں ، صفحہ ۴۶،چشتی)
غزالئ زماں حضرت علامہ مولانا سَیّد اَحْمَد سعید شاہ کاظمی رحمة اللہ علیہ صحیح معنوں میں اخلاقِ نبوی کا عملی نمونہ تھے ۔ جس کسی کو بھى آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا وہ آپ رحمة اللہ علیہ کے حسنِ اخلاق کا گرویدہ ہوگیا ۔
ایک مرتبہ ایک صاحب نے اپنے بھانجے کى شادى میں آپ رحمة اللہ علیہ کو مدعو کیا اور نکاح پڑھانے کی درخواست کى ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے منظور فرمالى ۔ نکاح کےلیئے عصر اور مغرب کا درمیانی وقت طۓ کیا گیا ۔ بارات آنے میں کچھ دیر ہوگئى ، وہ صاحب مغرب کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ کو لینے پہنچے تو آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : حاجى صاحب آپ نے تو عصر کے بعد نکاح کا فرمایا تھا اب تو مغرب بھی ہو چکی ، اب میرے پوتے کا عقیقہ ہے اور مہمان آئے ہوئے ہیں ۔ ان صاحب کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی : عالی جاہ کچھ دیر ہوگئى ہے ، آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : اچھا چلو ، ابھى آپ نے کپڑے بھى تبدىل نہیں کیۓ تھے صاحبزادوں نے عرض کی : ابا جان کپڑے تبدیل فرمالیں ، آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : ابھى آجاتا ہوں ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اطمینان سے نکاح پڑھایا ، طویل دُعا مانگی ۔ ان صاحب کا بیان ہے کہ آپ رحمة اللہ علیہ کو جلدى واپس جانا تھا کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے ، اس کے باوجود اتنا وقت عطا فرمایا کہ ہم سب کا دل بے حد خوش ہوگیا ۔ (حیات غزالئ زماں ، ص۲۴۴)
آپ رحمة اللہ علیہ طلبہ کے ساتھ نہایت شفقت اور حسن اخلاق سے پیش آتے ۔ اندازِ تدریس بالکل عام فہم اور آسان تھا ، اسباق نہایت شفقت سے سمجھاتے ۔اپنے شاگرد کو مولانا کے لفظ سے یاد فرماتے تھے ۔ اگر کسی طالب عِلْم سے کوئی کوتاہى ہوجاتى تو درگزر فرماتے ہوئے اس کی پردہ پوشى فرماتے اور اس کے حق میں دعائے خىر فرماتے ۔ طلبہ سے تو اس قدر محبت تھی کہ بعض اوقات کھانا اور چائے تک خود پىش فرماتے ۔ (حیات غزالئ زماں ،ص۱۰۲،چشتی)
ایک عالم صاحب کا بیان ہے کہ مرتبہ اندرون بوہڑ گیٹ ملتان سے اىک غریب آدمى حاضر ہوا اور عرض گذار ہوا کہ میں نے حصولِ برکت کےلیے گھر میں محفلِ میلاد کا اہتمام کیا ہے ، آپ قدم رنجہ فرمائیں اور اپنے مواعظِ حسنہ سے ہمیں نوازیں ، آپ رحمة اللہ علیہ نے اس سے عشا کے بعد کا وعدہ فرما لیا ، میں بھی آپ رحمة اللہ علیہ کے ساتھ ہو لیا ۔ ہم عشا کى نماز کے بعد اس شخص کے مکان پر پہنچے تو وہ ہمیں اپنے گھر کى دوسرى منزل پر لے گیا اس وقت صرف چار پانچ افراد جمع تھے ۔ یہ تھا وہ اجتماع جس سے غزالىٔ زماں نے بیان فرمانا تھا ۔ حضرت غزالىٔ زماں رحمة اللہ علیہ کى جبین پر شکن تک نہ آئى ، آپ رحمة اللہ علیہ نے تقریباً ایک گھنٹہ بیان فرمایا ۔ وہ شخص غربت کى وجہ سے کرایہ تک نہ دے سکا لىکن آپ رحمة اللہ علیہ مکمل اطمینان اور سکون کے ساتھ واپس تشرىف لائے اور راستے میں مجھ سے فرمایا : اگر میں اس وقت تقریر نہ کرتا تو اس شخص کى کتنى دل شکنى ہوتى اور اب وہ کتنا خوش تھا ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۳۹۶)
عِلْمِ ایک ایسی دولت ہے کہ اس کی موجودگی میں شیطان تکبر کا ہتھیار لے کر بہت بری طرح حملہ آور ہوتا ہے ۔غزالئ زماں رحمة اللہ علیہ کی ذات گرامی عِلْم کا سمندر ہونے کے باوجود تکبر سے بہت دور تھے ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نہاىت منکسرُ المزاج تھے ۔ اپنے پرائے سب کے دکھ سکھ میں برابر شریک ہوتے ۔ آپ رحمة اللہ علیہ ہر آنے والے سے اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق خندہ پىشانى سے ملتے اور بے پناہ مصروفىت کے باوجود کبھى آنے والوں سے خفا نہ ہوتے تھے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اس کا چشم دید گواہ ہے ۔ ایک مرتبہ آپ رحمة اللہ علیہ علمائے کرام کے ساتھ کسی اہم موضوع پر محو گفتگو تھے کہ خادم نے آکر اطلاع دى : تین طالبِ عِلْم ملاقات کےلیۓ حاضر ہوئے ہیں ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے نہایت مصروفیت کے باوجود طلبہ پر شفقت فرماتے ہوئے وقت نکالا اور علمائے کرام سے فرمایا کہ تھوڑى دیر کےلیىۓ طلبہ کو حاضر ہونے کا موقع دیا جائے ہوسکتا ہے انہیں کوئی ضروری کام ہو ۔ آپ رحمة اللہ علیہ کى شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ شاگردوں پر کبھى ناراضگى اور برہمى کا اظہار نہ فرماتے ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات،ص۱۱۸،چشتی)
ایک مرحوم واعظ (جو غزالیٔ زماں رحمة اللہ علیہ کے شاگرد تھے) ایک بار کسی بات پر ناراض ہو گئے ، ملنا جُلنا ، آنا جانا سب تَرک کر دیا ۔ حسنِ اتفاق کہ ایک بار حضرت غزالیٔ زماں رحمة اللہ علیہ کسی محفل میں لاہور تشریف لے گئے تو ان صاحب سے آمنا سامنا ہو گیا ۔ آپ رحمة اللہ علیہ بے اختیار ان کی جانب بڑھے اور فرمایا : حدیث میں ہے خَیرُکُم مَّنۡ یَبدَأُ بِالسَّلَامِ ، یعنی تم میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۔ اس کے بعد السلام علیکم کہتے ہوئے مصافحے کےلیئے ہاتھ بڑھا دیا ۔ (حیاتِ غزالیٔ زماں،ص ۲۵۷)
حضرت غزالیٔ زماں رحمة اللہ علیہ نہ صرف مسجد و مدرسہ کی خدمت کی ترغیب دلاتے بلکہ جب بھی موقع ملتا اس کی سعادت بھی پاتے تھے ۔ اس معاملے میں غرور و تکبر سے کوسوں دور اور عاجزی وانکساری سے مزیّن تھے ۔ ایک مرتبہ آپ رحمة اللہ علیہ جامعہ میں سالانہ اجتماع کے انتظامات کے موقع پر ایک محلے سے شاگردوں کے ہمراہ قالین لینے گئے ۔ ایک گھر سے قالین لے کر شاگردوں کو دیئے ۔ جب وہ طالب عِلْم قالین مدرسہ پہنچا کر لوٹے تو دیکھا کہ غزالئ زماں رحمة اللہ علیہ خود بھى سر پر قالین اٹھائے آرہے ہیں ۔ شاگردوں نے یہ عالم دىکھا تو ر ونے لگے اور عرض کى حُضور یہ تکلیف کیوں فرمائى ؟ تو فرمایا : یہ دىن کا کام ہے اس سے کسى کى شان میں کمى نہىں آتى ۔ (علامہ کاظمی کی دینی و ملی خدمات ، صفحہ ۵۷)
حُضور غزالئ زماں رحمة اللہ علیہ نے خدمت دین میں ناز و نِعَم کو آڑے نہ آنے دیا اور طرح طرح کی تکالیف و مصائب کو برداشت کرتے ہوئے دین کی خدمت میں مصروف رہے ۔ آپ رحمة اللہ علیہ شدید گرمی میں بھی دور دراز پىدل سفر کرکے جاتے اور لوگوں کو عِلْمِ دىن سکھاتے ۔ آج لوگ جہاں گاڑی میں بىٹھ کر بھى جانا گوارا نہىں کرتے آپ رحمة اللہ علیہ وہاں بھى پىدل پہنچے ۔ کوئی بھی حاضر خدمت ہو کر بیان کا وقت مانگتا فوراً وقت عطا فرما دیتے ۔ بارہا ایسا ہوا کہ طویل سفر کے باوجود بھى صاحبِ دعوت نے امتحاناً یا غربت کى وجہ سے زادِ راہ تک نہ دیا اور آئندہ سال پھر تارىخ لینے آیا تو آپ رحمة اللہ علیہ نے بغیر پس و پیش کیۓ دوبارہ وقت عطا فرما دیا ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۱۱۴،چشتی)
ایک بار حضرت غزالى زماں رحمة اللہ علیہ شاہی عید گاہ میں عصر کی نماز کے بعد تشریف فرما تھے اتنے میں ایک نوجوان آیا اور ننگے سر نماز شروع کر دی ، اس نے جونہی نماز ختم کی ایک صاحب نے اس پر چڑھائی کر دی اور ننگے سر نماز پڑھنے پر خوب سرزنش کی ۔لوگوں کے سامنے اچانک سرزنش پر نوجوان بیچارہ احساسِ ندامت سے مراجارہا تھا اور وہ صاحب تھے کہ غصے سے مسلسل بولے جا رہے تھے ۔ حضرت غزالى زماں رحمة اللہ علیہ نے یہ تمام منظر دیکھا ، نوجوان کو فوراً اپنے قرىب بلایا ، دستِ شفقت سر پر رکھا ، اپنے سینے سے لگایا اور پیار بھرے انداز میں تربیت فرمائی ۔ پھر ان صاحب کو بھی پاس بلا کر اَحسن انداز میں سمجھایا ۔ دیکھتے ہى دیکھتے پسینے کے قطرے جو کچھ دیر پہلے اشکِ ندامت بن کر نوجوان کى پیشانى پر امنڈ آئے تھے اب خوشى و مسرت کے آنسو بن کر نوجوان کى آنکھوں میں چمکنے لگے ، غلط اندازِ تفہیم سے مرجھا جانے والا چہرہ غزالىِ زماں رحمة اللہ علیہ کى محبت و شفقت اور کریمانہ گفتگو سے کھل اٹھا ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۱۰۵،چشتی)
آپ رحمة اللہ علیہ غریبوں سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔ ایک بار دارالحدیث میں تشریف فرما تھے کہ ایک غریب دیہاتی حاضر خدمت ہوا ۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے مسکرا کر خوش آمدید کہا ۔ پاس بٹھا کر آنے کی وجہ دریافت فرمائی تو اس نے عرض کی ، حضور فلاں تاریخ کو فلاں جگہ آپ کے بیان کا وقت درکار ہے ، شفقت فرمائیے اور وقت عطا فرما دیجئے ۔اس نے ابھی بات مکمل ہی کی تھی کہ اچانک باہر دروازے پر ایک کار رکی جس سے ایک امیر آدمی اتر کر حضرت غزالیٔ زماں رحمة اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اسی تاریخ کو بیان کےلیۓ وقت کا مطالبہ کرنے لگا ۔ غریب دیہاتی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا ، آپ رحمة اللہ علیہ نے مسکراتے ہوئے اس غریب آدمی سے فرمایا : آپ فکر نہ کریں میں آپ کے ہاں بیان کےلیئے ضرور آؤں گا ، یہ فرما کر اس کار والے سے معذرت کر لی ۔ آپ رحمة اللہ علیہ سے ایک مرتبہ غریبوں پر زیادہ شفقت کی وجہ پوچھی گئی تو ارشاد فرمایا : غریب بڑے مخلص اور سادہ لوح ہوتے ہیں اسلام کے ابتدائی دور میں بھی یہی لوگ معاون و جان نثار بنے ۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ غریب ہی اسلام سے ٹوٹ کر محبت کریں گے اور اسلام کےلیۓ قربانیاں دیں گے ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۱۱۵،چشتی)
حضرت غزالیٔ زماں رحمة اللہ علیہ حقوق العباد کے بارے میں بڑی احتیاط فرماتے تھے ، ایک بار ارشاد فرمایا : ہر شخص کو چاہىۓ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حقوق بھى ادا کرے اور بندوں کے حقوق کا بھى خىال رکھے ، اگر بندوں کے حقوق ہمارے ذمے رہے توہمارے لیۓ کوئى پناہ نہیں ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا : اگر میرى طرف سے کسى شخص کے حق میں ناپسندیدگى کے لفظ نکلے ہوں تو میں ہاتھ جوڑ کر معافى چاہتا ہوں ، کیونکہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حقوق ادا کرنے کےلیۓ کوشاں رہتا ہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کےلیۓ بھی کوشاں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالىٰ مجھے اپنے حقوق ادا کرنے کى توفیق دے اور اپنے بندوں کے حقوق بھى ادا کرا دے ، یہى آپ سے بھی عرض کرتا ہوں ، یاد رکھیئے یہ دنیا کی زندگى چند روزہ ہے ، رازق اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے ، ظاہرى اسباب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پىدا کیۓ ہیں ، مگر وہ ظاہرى اسباب رازق نہىں ، رازق اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے ۔ ہم تجارت کریں ، زراعت کریں خواہ دوکاندارى کریں یہ نہ سمجھیں کہ اگر یہ نہ ہو تو روزى نہ ملے گى ۔ یہ تو اللہ تعالىٰ نے روزى کا ذریعہ بنایا ہے ہاں کسى تاجر ، دوکاندار ، کسى زمیندار یا مزدور کو یہ جائز نہیں کہ اپنے کام میں کوتاہى کرے اور دوسرے کى حق تلفى کرے ، مزدور مزدورى پورى لے اور مالک کا کام پورا نہ کرے یہ کوتاہى ہے ۔ جو لوگ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کردیتے ہیں تاکہ نفع زیادہ ہوجائے یہ بالکل کسى کام کا منافع نہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے حلال روزى کا سوال کرو اسى میں برکت ہوگى ، لہٰذا سب پیر بھائى اس بات کو اپنے ذھن میں رکھیں کوئى اپنے مفاد کےلیۓ بے ایمانى نہ کرے ، اپنے کاروبار کو صاف رکھیں ، سچ سے منافع ہو اگرچہ وہ تھوڑا ہو ، وہ ظاہراً دیکھنے میں تھوڑا ہوگا مگر اسى میں بے پناہ برکتىں ہوں گى ، لہذا سب پیر بھائى ان باتوں پر عمل پیرا ہوں ۔ (حیات غزالئ زماں، ص۲۰۰)۔(مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...