میاں بیوی کا ایک دوسرے کو نام لے کر بلانا
محترم قارئینِ کرام : عورت کو اپنے شوہر کا نام لے کر پکارنا جائز تو ہے لیکن خلافِ ادب ہے جیسے بیٹے کا اپنے والد کو نام لے کر پکارنا یہ خلافِ ادب ہے ۔ بیوی اپنے شوہر کو مُنّے کے ابّو ، سلمان کے ابّو وغیرہ کہہ کر پکارے ، اگر ابھی اَولاد پیدا نہ ہوئی ہو تو فُلاں کے چچّا ، فُلاں کے ماموں کہہ کر بھی پکار سکتی ہے ، اسی طرح شوہر بھی اپنے بیوی کو سلمان کی امّی وغیرہ کہہ کر پکارے تو زیادہ مُناسِب ہے ، اَلْغَرَض جو اَنداز زیادہ مُہذَّب ہو وہ اختیار کیا جائے ۔
صحابیات رضی اللہ عنہن سے ثابت ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو کنیت سے بلاتی تھیں :
حضرت عون ابو جحیفۃ بیان رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہما کی آپس میں اخوت قائم کی ، تو ایک بار حضرت سلمان رضی اللہ عنہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے توام درداء رضی اللہ تعالی عنہا کو پراگندہ اور کام کاج والے لباس میں دیکھا توکہنے لگا یہ کیا حالت بنا رکھی ہے ؟
وہ کہنے لگيں : آپ کے بھائی ابو درداء کو دنیا کی حاجت اور ضرورت ہی نہیں ، اتنی دیر میں ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ بھی آگئے اور ان کے لیے کھانا رکھا تو سلمان رضی اللہ تعالی کہنے لگے بھائی کھاؤ ابو درداء کہنے لگے میں روزہ سے ہوں ، سلمان رضی اللہ تعالی کہنے لگے تم کھاؤ گے تو میں بھی کھاؤں گا ، وہ بیان کرتے ہیں کہ ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے کھایا ۔ اورجب رات ہوئی تو ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ قیام کرنے لگے ، سلمان رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا سو جاؤ ، تو وہ سوگئے ، تھوڑی دیر بعد پھر اٹھے اور قیام کرنے لگے ، توسلمان رضی اللہ تعالی عنہ نےکہا بھائی سو جاؤ ، جب رات کا آخری پہر ہوا تو سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے اب اٹھو اور قیام کرلو ، توپھر دونوں نے نماز پڑھی ۔ اور بعد میں سلمان رضی اللہ تعالی کہنے لگے : بلاشبہ تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے ، اور تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے ، اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے ، تو ہر حقدار کواس کا حق ادا کرو ، ابو درداء رضي اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آئے اور سب کچھ آپ سے ذکر کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے سچ کہا ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر 1832،چشتی)
فاطمۃ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے عیاش بن ابی ربعیہ کو میری طلاق دے کر بھیجا اوراس کےساتھ پانچ صاع کھجوریں اور پانچ صاع جو بھی بھیجے ، تومیں نے اسے کہا کہ کیا میرے لیے صرف یہی نفقہ ہے ، میں تمہارے گھرمیں اپنی عدت بھی نہ گزاروں ؟ تو اس نے جواب میں کہا نہيں ۔ وہ کہتی ہیں میں نے اپنے کپڑے جمع کیے اورنبی کرہم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آگئی توانہوں نے پوچھا کتنی طلاقیں دی ہیں میں نے جواب دیا تین ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اس نے سچ کہا تمہارے لیے نفقہ نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 2721 )
صدرالشریعہ حضرت مفتی امجد علی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : عورت کو یہ مکروہ ہے کہ شوہر کو نام لے کر پکارے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 657)(درمختار ،ج9 ، ص690،چشتی)
مزید لکھتے ہیں : بعض جاہلوں میں یہ مشہور ہے کہ عورت اگر شوہر کا نام لے لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، یہ غلط ہے ۔ شاید اسے اس لئے گڑھا ہو کہ اس ڈر سے کہ طلاق ہو جائے گی شوہر کا نام نہ لے گی ۔(بہارِ شریعت جلد ننبر 3 صفحہ نمبر 657)
يکره ان يدعوا الرجل اباه والمراءة زوجها باسمه ۔
ترجمہ : اپنے والدین کو نام لیکر پکارنا اور بیوی کا شوہر کو نام لے کر پکارنا مکروہ ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری)
بہتر یہ ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو نام لے کر نہ پکارے اگرچہ نام لے کر پکارنا جائز ہے ۔ بیوی کو چاہیے کہ خاوند کو پیار سے بلائے ، اسی طرح بدلے میں خاوند بھی اپنی بیوی کو پیار سے پکارے ۔ اس طرح دونوں کے مابین محبت بڑھے گی اور ان کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوگا ۔
اگر خاوند عورت کا نام لے کر پکارے یا عورت خاوند کا نام لے کر پکارے تو یہ جائز ہے ، اس میں کچھ عیب نہیں ہے ، البتہ چونکہ نام لے کر آواز دینے میں ایک قسم کی شانِ خلاف ادب پائی جاتی ہے ، اس لیے زوجہ کے لیے مکروہ ہے کہ اپنے خاوند کا نام لے کر اس کو آواز دے م ویکرہ أن یدعو الرجل وأن تدعو المرأة زوجہا باسمہ ۔ (الدر المختار مع الشامی،چشتی)
بیوی اپنے خاوند کا نام لے کر نہ پکارے ، بلکہ کسی تعظیمی لفظ کے ذریعے اسے اپنی طرف متوجہ کرے ۔ (فتاویٰ شامی کتاب الحظر والاباحۃ جلد نمبت 5 صفحہ نمبر 369)
بیوی اپنے شوہر کا نام بھی لے سکتی ہے اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں :
عبداللہ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں مسجد میں تھی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا کہ آپ یہ فرما رہے تھے عورتو تم بھی صدقہ کیا کرو چاہے اپنے زيور میں سے ہی ، زینب رضی اللہ تعالی عنہا عبداللہ اور اپنی گود میں پلنے والے یتیموں کا خرچہ برداشت کیا کرتی تھیں ۔ راوی کہتے ہیں : وہ عبداللہ رضی اللہ تعالی عہنا سے کہنے لگيں : آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھیں کہ کیا میرا آپ اور میری گود میں پلنے والے یتیموں پر خرچ کرنا صدقہ سے کفائت کرجائے گا ؟ تو عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے خود ہی پوچھ لو ، تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف چل پڑیں جب دروازے پر پہنچی تو ایک انصاری عورت کو پایا جو میری طرح کا سوال ہی پوچھنا چاہتی تھی ۔ اسی اثنامیں ہمارے پاس سے بلال رضی اللہ تعالی عنہ گذرے توہم نے ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ پوچھو کہ کیا میرا خاوند اور میری گود میں پلنے والے یتیم بچوں پر خرچ کرنا کافی ہوگا ؟ ہم نے انہیں یہ بھی کہا کہ ہمارے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہ بتانا ، توبلال رضی اللہ تعالی اندر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا وہ دونوں کون ہیں ؟ بلال رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : زينب (رضي اللہ تعالی عنہا) ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کونسی زینب ؟ وہ کہنے لگے عبداللہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جی ہاں اسے ڈبل اجر ملےگا ، ایک اجر تو قرابت و رشتہ داری کا اوردوسرا صدقہ کا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1373)۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 1667،چشتی)
خولۃ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ میرے خاوند اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا ، تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس شکایت لے کر آئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے ساتھ اس کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے اور فرمانے لگے اللہ تعالی سے ڈرو وہ تو تمہارے چچا کا بیٹا ہے ، میں وہیں رہی حتی کہ قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئيں : ترجمہ : یقینا اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سن لی جو تیرے ساتھ اپنے خاوند کے بارہ میں جھگڑ رہی تھی ۔ (سنن ابوداود حدیث نمبر 1893،چشتی)
رہا مسئلہ شوہر یا بیوی کا لوگوں میں نام لینا تو گزارش یہ ہے کہ اس کے متعلق معاشرہ میں لوگوں کی عادت اور عرف کو دیکھا جائے گا ، بعض معاشروں میں تواسے ناپسند کیا جاتا ہے ، بلکہ بعض لوگ تو اسے قلت غیرت میں شمار کرتے ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الہ عنہ والی مذکورہ حدیث مبارکہ میں یہ موجود ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کی بیوی کا نام ذکر کیا تھا کہ اس کا نام زينب ہے ، اس لیے اگر عورت اپنے نام سے معروف اور مشہور ہے تو خاوند کے علاوہ دوسرے مرد کے لیے بھی اس کانام لینے میں کوئی حرج نہیں تو پھر خاوند اس کا نام لے لے تو کونسا حرج ہوگا ؟
آخر میں گذارش ہے کہ : اسلام اخلاق و آداب ، تہذیب و تمدن کی تعلیم دیتا ہے ، اس نے چھوٹوں کو بڑوں کے ساتھ پیش آنے کے آداب سکھائے ہیں ، اور ہر ایک کو اس کے حسب مرتبہ خطاب و ندا کرنے کے اصول دیئے ہیں چنانچہ بیوی کےلئے اپنے شوہر کا نام لے کر پکارنا شرعاً مکروہ قرار دیا گیا ہے بلکہ بیوی کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے مقام و مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے اسے میرے سرتاج ، میرے آقا اور اس جیسے عظمت والے الفاظ سے مخاطب کرے ۔ در مختار میں ہے : ویکرہ ان یدعو الرجل اباہ وان تدعوالمرأۃ زوجھا باسمہ ، اھ بلفظہ ۔ رد المحتار کے اسی صفحہ پر ہے : قولہ ویکرہ ان یدعوالخ ، بل لا بد من لفظ یفید التعظیمک ’’یاسیدی‘‘ ونحوہ لمزید حقہما علی الولد والزوجۃ ۔ (در مختار جلد نمبر 5 کتاب الحظر والاباحۃ صفحی نمبر 297)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment