Thursday, 20 May 2021

یہودی جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت مُسلَّط کردی گئی

 یہودی جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت مُسلَّط کردی گئی

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ضُرِبَتْ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَضُرِبَتْ عَلَیۡہِمُ الْمَسْکَنَۃُؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوۡا یَکْفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَیَقْتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّکَانُوۡا یَعْتَدُوۡنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 112)
ترجمہ : ان پر جمادی گئی خواری جہاں ہوں امان نہ پائیں مگر اللہ کی ڈور اور آدمیوں کی ڈور سے اور غضب الٰہی کے سزاوار ہوئے اور ان پر جمادی گئی محتاجی یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے یہ اس لئے کہ نا فرماں بردار اور سرکش تھے ۔

اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی لازم کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس آیت میں استثناء بھی ہے’ اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ‘‘سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے ۔ اِستِثناء کے آنے سے معنی یہ بن گیا کہ (یہودی) ذلت و خواری سے کسی صورت اورکسی طرح نہیں بچ سکتے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کے ساتھ اور لوگوں کی رسی کے ساتھ ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کے ساتھ یوں کہ یہودی مسلمان ہو جائیں تو خواری سے بچ سکتے ہیں اور حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رسی کی صورت یہ کہ لوگوں سے عہد و پیمان کریں ، اسلامی حکومت کے ذمی بن جائیں یا کافر حکومتوں سے بھیک مانگیں اور تعاون حاصل کریں تو دنیاوی عزت پا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کی سلطنت بھی بن سکتی ہے ۔ فی زمانہ اگر دنیا کے کسی خطے میں کفار کے تعاون سے یہودی سلطنت وجو دمیں آئی ہے تو اس حکومت کا قائم ہونا قرآنِ کریم یا اسلام کی صداقت کے خلاف نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی صداقت کی بڑی صاف اور واضح دلیل ہے کہ بحسب اِستثنائ ’’ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ‘‘ صدیوں سے ذلیل و خوار یہودیوں کی ایک جماعت کو دنیاوی عزت مل گئی ۔ (فتاوی نوریہ، ۵/۱۹۴)

یہودیوں پر اس طرح ذلت لازم کردی گئی ہے کہ وہ کرہ ارض پر ہر خطہ میں ذلیل و خوار ہیں ‘ اور اپنے زور بازو سے انہیں کہیں پر بھی غلبہ حاصل نہیں ہے۔ ماسوا اس کے کہ کہیں مسلمانوں نے ان کو امان دے دی اور کہیں غیر مسلموں نے ان کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دیا ‘ اس زمانہ میں انگلینڈ ‘ امریکہ اور روس نے باہمی اشتراک سے فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کردی ہے اور آج کل امریکہ ان کا پشت پناہ ہے ‘ یہ صرف اپنی انفرادی قوت سے کہیں حکومت قائم نہیں کرسکے ‘ ان کا ایٹمی قوت بننا بھی امریکی مدد کی وجہ سے ہے ۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ ذلت ‘ غضب الہی اور مسکینی مسلط کیے جانے کے مستحق اس لیے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرتے رہے تھے ‘ اور اللہ کی آیتوں کا انکار اور انبیاء علیہم السلام کا قتل یہ اس لیے کرتے تھے کہ یہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرتے رہے ہیں ‘ اس آیت سے مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ جن لوگوں پر ہر جگہ خدا کی مار اور لعنت پڑ رہی ہے وہ تمہارا کیا بگاڑ سکیں گے اور جو لوگ غیروں کے سہارے کے بغیر اپنی حکومت قائم نہیں کرسکتے وہ تمہاری حکومت کو کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔

مسلمانوں کے لیے یہ اطمینان اور تسلی اور یہودیوں پر غلبہ کی بشارت صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اطاعت گزار رہیں اور جب مسلمان اجتماعی طور پر دینی اقدار سے منحرف ہوجائیں اسلامی اقدار پر عمل کرنا ان کے لیے باعث ننگ اور عار ہو (سو آج کے ماڈرن معاشرہ میں کسی مسلمان نوجوان کا ڈاڑھی رکھ لینا ‘ ٹخنوں سے اوپر شلوار پہننا اور سر پر عمامہ باندھنا اسی طرح اس طبقہ میں باعث ملامت ہے اور عورتوں کا برقعہ پہننا ‘ نامحرموں سے پردہ کرنا اور گھر کی چار دیواری میں رہنا اس ترقی یافتہ مہذب معاشرہ میں گنوار پن کی علامت سمجھا جاتا ہے) اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت کو اپنانا ان کے لیے فخر کا باعث ہو ‘ نماز ‘ روزہ ‘ زکوۃ ‘ حج اور دیگر اسلامی احکام ان کو بوجھ معلوم ہونے لگیں تو پھر ان مسلمانوں کا ان لعنتی اور مغضوب یہودیوں کے ہاتھوں مسلسل شکست کھانا کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہیں ہے ۔

یہود کی دائمی ذلت و مسکنت کا مفہوم جو ائمہ تفسیر علیہم الرّحمہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اس کاخلاصہ حافظ ابن کثیر کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ کتنے ہی مالدار بھی ہوجائیں ہمیشہ تمام اقوام میں ذلیل وحقیر ہی سمجھے جائیں گے جن کے ہاتھ لگیں گے ان کو ذلیل کرےگا ۔
امام تفسیر ضحاک ابن مزاہم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ان کی ذلت ومسکنت کا مفہوم یہ نقل کیا ہے کہ ,,ھم اھل النیالات یعنی الجزیہ ،، مطلب یہ ہےکہ یہود ہمیشہ دوسروں کی غلامی میں رہیں گے ،ان کو ٹیکس وغیرہ ادا کرتے رہیں گے خود ان کو کوئی قوت اور اقتدار حاصل نہ ہوگا ۔ تفسیر کشاف میں اس جگہ استثنا کو متصل قرار دے کر آیت کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ یہودپر ذلت وخواری لگی رہے گی مگر دوصورتوں میں وہ اس ذلت سے بچ سکتے ہیں ۔ ایک بحبل من اللہ ،، اللہ کا عہد مثلا نابالغ یا عورت ہونے کی بناء پر بحکم خداوندی وہ قتل وغیرہ سے مامون ہیں ۔ دوسرے بحبل من الناس ،، لوگوں سے معاہدہ صلح کی بناء پر ان کی ذلت وخواری کا ظہور نہ ہوگا ۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت سے لوگوں کو اشکال ہوتاہے ان کے پاس تو حکومت بھی ہے ۔ اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ یہ حکومت درحقیقت ,, حبل من الناس ,,میں داخل ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ یورپ امریکہ کی ایک مشترکہ چھاؤنی ہے جو عرب سرزمین پر ناجائز طور پر پر قائم کی گئی ہے وہی ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ اگرامریکہ اور اس کے اتحادی آج ان پر سے اپناہاتھ اٹھا لیں تواسرائیل ایک دن بھی اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا ۔ (تفسير ابن كثير جلد نمبر 1 صفحہ 282،چشتی)

اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانی، انبیاء علیہم السلام کی تکذیب اور انہیں قتل و اذیت کی بے باکی اور بت پرستی کے وبال نے انہیں ذلت و خواری کے ایسے گھڑے میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے کی ہر کوشش انہیں مزید رسوائی سے دوچار کردیتی ہے، اس ذلت و خواری کی تشریح علامہ آلوسی رحمة اللہ علیہ نے جان ومال کی بے وقعتی سے کی ہے ۔ (تفسیر روح المعانی سورہ اٰل عمران، ذیل آیت: 112،چشتی)
یعنی ان کے جان و مال کی کوئی قدر قیمت دنیا میں نہیں ہوگی، ہر جگہ مار کھاتے اور مال سے ہاتھ دھوتے نظر آئیں گے ۔

بُخْتَ نَصَّر بابلی بادشاہ 598 قبل مسیح میں ان کے وطن بیت المقدس پر حملہ آور ہوا اور پورے شہر کی عمارتوں کو ڈھاکر جلادیا، ہزاروں یہودیوں کو تہ تیغ کرکے باقی ماندہ ہزاروں کو اپنے ساتھ قید کرکے بابل لے گیا ۔ ستر سال کی غلامی کے بعد قدرت انہیں ایک دوسرے عذاب سے دوچار کرنے کے لیے فلسطین دوبارہ لے آئی۔ چناں چہ 198 قبل مسیح میں شاہ انطاکیہ انٹیوکس ثالث کا حملہ خدائی کوڑا بن کر ان پر برسا، اس نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ 63 قبل مسیح رومی سردار پومپی نے حملہ کرکے ایک بار پھر انہیں قتل و اسارت کا مزہ چکھایا۔70ء میں رومی شاہ ٹائٹس خدا کا عذاب بن کر ان پر اترا ، جس نے قتل و تعذیب کے نت نئے طریقے ان پر آزمائے ، پوری مملکت کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک روند ڈالا، سوا لاکھ یہودیوں کو قتل کرکے فتح کا جشن منایا ، چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ، یہودیوں کے قبول ایمان سے مایوس ہوچکے تھے، بلکہ حضرت مسیح پر ایمان لانے کی وجہ سے یہود کی تنگ نظری کا شکار تھے ، اس لیے انہوں نے اپنی دعوت کا رخ یہودیوں سے پھیر کررومیوں کی طرف موڑ لیا ، جس میں بنیادی کردار موجودہ مسیحیت کے بانی پولُس کا تھا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومیوں نے مسیحیت قبول کرکے یہودیوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ۔ فلسطین پر قبضہ کرکے مقدس مقامات ان سے چھین لیے ، یہودیوں نے جو ظلم مسیحیوں پر کیے تھے ، اس کا انتقام مسیحیوں نے ”اینٹ کا جواب پتھر“ کی صورت میں لیا ۔ باہمی چپقلش میں صاحبِ حیثیت یہودی فلسطین کو چھوڑ کر عرب میں آباد ہونا شروع ہوگئے ۔ چناں چہ طائف ، یمن ، بحرین ، تیما ، فدک ، وادی القریٰ اور بالخصوص مدینہ منورہ میں کافی تعداد میں آباد ہوگئے ۔ عرب میں آباد ہونے کے دو مقصد تھے ، مسیحیوں کے ظلم سے نجات آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انتظار ، جس کے ذریعے مسیحیوں پر غلبے کا یقین رکھتے تھے ۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت یہودیوں کے تین قبائل مدینہ میں مقیم تھے ۔ بنو قینقاع ، بنونضیر ، بنو قریظہ ۔ اول الذکر دونوں قبائل بوجہ عہدشکنی کے مدینہ منورہ سے ذلیل کرکے جلا وطن کردیے گئے اور بنو قریظہ غزوہ ٴ احد کے موقع پر مشرکین کے ساتھ ساز باز کرکے مسلمانوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے اور اس کے نتیجے میں ان کے مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا ۔ مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے والے یہودی خیبر کو اپنا مرکز بناکر مسلمانوں کے دشمن مشرکین کی سرپرستی کرنے لگے ۔ ان کی سرکوبی کے لیے 7ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور یہودی ذمی بن کر مسلمانوں کے ماتحت زندگی کا عذاب جھیلنے لگے ۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے انہیں جزیرة العرب سے نکال دیا۔ یوں ایک بار پھر یہ آوارہ جہاں ہوگئے ۔

سینکڑوں سال تک یہ مسلمانوں کے ماتحت جزیہ دے کر امن وسکون کی زندگی گزارتے رہے ، انہیں اپنے مذہبی احکام پر عمل کرنے کی مکمل اجازت رہی ۔ مسلمان معاشرے میں ہمیشہ ان کی جان و مال محفوظ رہی ، اس دوران یہ مسیحی ممالک روس ، انگلستان ، فرانس ، ہسپانیہ ، جرمنی ، اٹلی وغیرہ میں بار ہا جاکر آباد ہوئے ، لیکن ان پر مسیحیوں نے شدید ترین مظالم ڈھائے ۔ ان کی پوری کی پوری آبادیوں کو ڈھادیا جاتا ، انہیں زندہ جلادیا جاتا ، جنگلی درندوں سے بھڑوا دیا جاتا ۔ جہاں کہیں کسی کے یہودی ہونے کا پتہ چلتا مسیحی مجمع اس پر ٹوٹ پڑتا اور وہیں یہودی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ۔ یورپ کے مسیحی ممالک نے یہودیوں پر جو ستم ڈھائے ہیں اس کا اندازہ یہودیوں کی مرتب کردہ کتاب ”ہولوکاسٹ “ سے کیا جا سکتا ہے ، اگرچہ زیب داستان بڑھانے کےلیے اس میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے ، لیکن اس مبالغے کے پردے میں حقیقت کی جھلک بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔ یورپی ممالک کے ان ظالمانہ رویوں سے تنگ آکر یہ مسلمانوں کے پاس ہی پناہ لیتے رہے ۔ صدیوں تک یہودیوں کی حفاظت کرنے والے مسلمانوں کی نیکی کا صلہ ”اسرائیلی قابض“ جس درندگی کے ساتھ دے رہی ہے ، شاید محسن کشی کی اس سے بدتر مثال دنیا میں کہیں نہیں مل سکے گی ۔

پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں یہودی جرمنی اور آسٹریا میں خوب چھائے ہوئے تھے ۔ اسلامی خلافت عثمانیہ جرمنوں کی اتحادی تھی ، فریق مخالف برطانیہ اور اس کے حلیف ممالک تھے ۔ اس جنگ میں یہودیوں نے برطانیہ کو سرمایہ اور قوم کی ہر قابلیت کی پیشکش اس شرط پر کی کہ اختتام جنگ پر فلسطین کو یہودی وطن بنانے کا پختہ وعدہ کیا جائے۔ برطانیہ کو سرمائے کی بھی ضرورت تھی اور جرمن کے غداروں کی بھی ۔ وہ یہودی قوم کی صورت میں اسے مل گئے ، نیز یہود کی اس پیشکش سے خود برطانیہ کو یہودی آبادی کو اپنے مملکت سے جان چھڑاکر دوسری جگہ بسانے کا موقع بھی مل رہا تھا ، یوں اپنے مفادات کی خاطریہود و نصاریٰ ایک ہوگئے ۔ دوسری طرف فلسطین کی باگ ڈور خلافت عثمانیہ کے پاس تھی اور خلافت عثمانیہ اس جنگ میں جرمنی کا اتحادی بن کر برطانیہ کے مقابلے پر تھا ۔ جرمنی کی شکست کا اثر خلافت عثمانیہ کے منقسم ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا اور فلسطین کا اختیار برطانیہ کے ہاتھوں آگیا ۔ چناں چہ 1917ء میں وہ رسوائے عالَم دستاویز شائع ہوئی جس میں یہودیوں کو فلسطین میں بسانے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کا یقین دلایا گیا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں یہودی دھڑا دھڑ اسلحہ حاصل کرنے اور لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں لابسانے میں کام یاب ہوگئے ۔ بالآخر 1947ء میں اقوام متحدہ نے تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ کر کے تیسری جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی ۔

امریکہ اور یورپی ممالک کی چھتری تلے یہودی اپنی مملکت کو پرسکون بنانے کےلیے سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ، لیکن خدا نے ان کے حق میں ذلت ہی لکھی ہے ۔ مملکت ، فورس ، یورپی تعاون انہیں مسلمانوں کے خوف سے مطمئن نہیں رکھ سکتا ۔ مسلمان کبھی بھی اس غاصبانہ مملکت کو تسلیم نہیں کرسکتے ، نہ مقدس مقامات کی حوالگی قابل قبول ہے ۔ دنیاکے منظر نامے میں اسرائیلی مملکت کے قیام کے بعد دنیامیں جو کچھ ہو رہا ہے شاید یہودیوں پر خدا کے آخری کوڑے کا پیش خیمہ ہے ، کیوں کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نزول عیسیٰ عليه السلام کے بعد یہودیوں کی اجتماعی قتل گاہ کی پیشن گوئی بھی اسی مقام پر کی گئی ہے ۔

یہودکے متعلق دوسری پیشن گوئی مسکنت اور محتاجگی کی ہے ، یعنی کبھی یہ معاشی خودمختاری حاصل نہیں کرسکتے ، یہودی دنیا میں جہاں کہیں رہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کے تناسب سے معاشی طور پر فقر و مسکنت کا شکار رہے۔ یہ پیشن گوئی من حیث القوم کی گئی ہے ۔ یہودی ”قوم “کی حیثیت سے مسکنت کے عذاب سے نہیں نکل سکتے، اگر قوم کے کچھ افراد غیر معمولی طور پر مال دار ہوجائیں تو وہ پیشن گوئی کے خلاف نہیں ہے ، ان میں جو افراد معاشی طور پر غیر معمولی طور پر مستحکم ہوتے ہیں وہ بھی ٹیکس اور لوٹ مار کے خوف سے اپنا رہن سہن محتاجوں کا سا رکھتے ہیں۔خوف کی وجہ سے اپنے خون پسینے کی کمائی سے فائدہ نہ اٹھاسکنا اور اپنی مال داری پر فقر کی چادر پھیلائے رکھنا بھی ایک طرح کی مسکنت ہے ۔ (وقال اٰخرون : المراد بالمسکنة اٰن الیھودی یظھر من نفسہ الفقر وإن أغنیاء موسراً ۔ (تفسیر کبیر سورہ اٰل عمران نمبر 112،چشتی)

پہلی پیشن گوئی کے متعلق تو بتایا گیا ہے کہ وہ عہد الہٰی اور عہد انسانی پر پورا اترنے کی وجہ سے کم ہوسکتی ہے، مگر مسکنت کا ذکر کسی شرط کے بغیر اور”ذلت“ سے جد ا طور پر بیان کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ”مسکنت“ یہودیوں کے حق میں وصف لازم ہے ۔ عہدِ الہٰی یا عہد انسانی کے تحت زندگی گزاریں یا اس کے بغیر اس عذاب سے انہیں چھٹکارا نہیں مل سکتا ۔ (تفسیر کبیر رازیسورہ اٰل عمران آیت:112)

یہودی قوم ذلت سے چھٹکارا پاسکتی ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہودی قوم کو ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانے کے دوراستے دکھائے ہیں : حبل من اللہ ۔ ”حبل “ عہد کو کہتے ہیں۔ حبل من اللہ کا مطلب ہے کہ یہودی عہد الہٰی پر پورا اترنے کی صورت میں اس ذلت سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور عہد الہٰی سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں تمام انسانوں کو جسم دے کر ان سے ﴿الست بربکم قالوا بلی شھدنا﴾ کے ذریعے توحید کا اقرار کرایا تھا ۔ اگر یہودی اس عہد کی پاس داری کرتے ہوئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رسالت پر ایمان لاتے ہوئے ، تو حید کی عملی گواہی دے دیں تو جان ومال کی بے وقعتی کے عذاب سے محفوظ ہوسکتے ہیں ۔ ”حبل من اللہ“ کی دوسری تفسیر جزیہ کی ادائیگی سے بھی کی گئی ہے ، یعنی یہود مسلمانوں کے ماتحت جزیہ دے کر اطمینان کی زندگی گزارسکتے ہیں ۔ چوں کہ یہ جزیہ مسلمان بحکم الہٰی یہود سے وصول کرتے ہیں اس لیے عہد الہٰی سے تعبیر کیاگیا ہے ۔ (عن ابن عباس، زاد المسیر، اٰل عمران: 112)

لیکن اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جزیہ بھی ایک طرح کی ذلت ہے ، اسے ذلت سے چھٹکارا پانا کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ قرآن کریم میں بھی اسے ذلت کی کیفیت بتلایا گیا ہے ۔ ﴿حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَةَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون﴾ ۔ (سورہ التوبة: 29)

اس کے جواب میں امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ذلت کا اطلاق قتل ، اسارت ، غلامی ، مال کے مباح ہونے ، معاشرے میں ناپسندیدہ ہونے اور معمولی فرد سمجھنے کے مجموعے پر ہوتا ہے ۔ حبل من اللہ کے استثنا سے ذلت کے اس مجموعے سے بچ جائے گا ، لیکن ذلت کی کچھ صورتیں بہرصورت لاحق رہیں گی ۔ استثناء مجموعے کی نفی پر دلالت نہیں کرتا ۔ لہٰذا حبل من الناس سے یہود کی جان و مال تو محفوظ ہوجائے گی ، مگر عزت نفس ، معاشرے میں باعزت شہری اور جزیہ سے چھٹکارے کی ضمانت نہیں مل سکتی ۔ (تفسیر کبیر سورہ اٰل عمران آیت: 112)

حبل من اللہ کی مذکورہ بالا کی گئی تفسیر کے بعد حبل من الناس سے مراد لوگوں سے کیے مختلف معاہدے اور صلح نامے ہیں، جس کی آڑ میں یہ اپنی جان و مال کو محفوظ رکھ سکیں گے ۔ اس میں جزیہ داخل نہیں ، کیوں کہ وہ حبل من اللہ کی ایک صورت ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، اٰل عمران ذیل آیت: 112) ، البتہ مسلمان کی طرف سے شخصی امان اس میں داخل ہے ۔

مذکورہ بالا تفصیل سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہود کبھی قومی اور معاشی خودمختاری حاصل نہیں کرسکیں گے ، مگر اب ہم اسرائیل کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہ قوم خود مختار ہوچکی ہے ؟

اس کا جواب دینے سے پہلے یہ بات جان لیں کہ قرآن کریم نے ذلت و مسکنت کی خبر جس قوم کے متعلق دی ہے وہ اسرائیلی قوم کے ساتھ مخصوص ہے ، اگر کوئی شخص اسرائیلی نسل سے تعلق نہیں رکھتا ، مگر اس مذہب کواختیار کرکے خود کو یہودی کہلاتا ہے وہ اس کے متعینہ مصداق سے خارج ہے ، لہٰذا ایسے لوگوں کی حالت و معیشت دیکھ کر قرآنی آیت کو ان پر نہیں پرکھنا چاہیے ۔ ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد یہودی قوم میں ہے ۔ موجودہ قابض اسرائیل کی بقا حبل من الناس کے سہارے ہے ۔ اگر عالم کفر اس کی سرپرستی سے اپنا ہاتھ کھینچ لے تو چند لمحوں میں اس قابض اسرائیل کا وجود دنیا کے نقشے سے محو ہوجائے گااور ان کا معاشی ستون بھی عالمی کفر کی امداد سے مستحکم نظر آتا ہے ۔ وگرنہ حقیقت میں من حیث القوم اسرائیلی تنگ دستی سے دوچار ہیں، جس کی تفصیل گزرچکی ہے ۔

پوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وقتاً فوقتاً دنیا کے کسی گوشے میں کوئی نہ کوئی طاقت ایسی اٹھتی رہی ہے جو یہودیوں کو خوب مارتی کھدیڑتی رہی اور جہاں کہیں بھی وہ بخیریت رہے ہیں ، اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ عزّوجلّ کے دیے ہوئے مواقع کی بنا پر کسی دوسرے ہی انسانی گروہ کی حمایت میں آجانے کی وجہ سے رہے ہیں ۔ موجودہ یہودی قابض اسرائیل بھی سعودیہ ، برطانیہ اور امریکہ کی حمایت ہی میں قائم ہوئی ہے اور باقی ہے ۔ یہ حمایت جس وقت بھی ہٹے گی ، اس قابض اسرائیل کا حشر دنیا دیکھ لے گی ۔ میرا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو فنا نہیں کرنا چاہتا بلکہ نمونہ عبرت بنا کر باقی رکھنا چاہتا ہے ۔ اگر اس پر مسلسل عذاب کا کوڑا ہی برستا رہتا تو یہ کبھی کی فنا ہوچکی ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس کے باقی رہنے کا یہ انتظام کر دیا ہے کہ کہیں وہ پیٹی جاتی ہے تو کہیں اسے پناہ بھی مل جاتی ہے ۔ اس طرح ڈھائی ہزار برس سے لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْییٰ کے مصداق اس دنیا میں جیے جا رہی ہے ۔

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُوْنَ الْیَھُوْدَ۔ فَیَقْتُلُھُمُ الْمُسْلِمُوْنَ۔ حَتَّی یَخْتَبِیَٔ الْیَھُوْدِیَّ مِنْ وَّرَائِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ۔ فَیَقُوْلُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: یَا مُسْلِمُ! یَا عَبْدَ اللّٰہِ! ھَذَا یَھُوْدِيٌّ خَلْفِيْ۔ فَتَعَالَ فَاقْتُلْہُ إِلَّا الْغَرْقَدَ ۔ فَإِنَّہُ مِنْ شَجَرِ الْیَھُوْدِ ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَاب لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ رقم الحديث: 5207،چشتی)
ترجمہ : قیامت قائم نہ ہوگی مگر یہ ہے کہ اس سے پہلے پہلے مسلمان یہودیوں سے (آخری معرکہ) لڑیں گے۔ پھر مسلمان ان کو قتل کرتے چلے جائیں گے حتیٰ کہ یہودی اگر کسی پتھر یا کسی درخت کی آڑ میں چھپا ہوگا تو وہ پتھر اور درخت بول اٹھے گا: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چھپا بیٹھا ہے ۔ ادھر آ اور اس کو قتل کردے ۔ سوائے شجر غرقد کے ۔ (وہ نہیں بولے گا) اس لیے کہ وہ یہودیوں کا درخت ہوگا ۔ (غرقد ایک کانٹے دار درخت ہے جو بیت المقدس کی طرف بہت ہوتا ہے)

حضرت سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہوکر صلیب کو توڑ ڈالنے والے عمل ، خنزیر کو قتل کر کے دنیا سے مٹا دینے ، دین اسلام کے حکم کو دنیا پر نافذ کر دینے اور اسلام کے علاوہ ہر قانون اور دستور کو باطل کردینے والی یہود کے نزدیک ہر ناگواری کے باوجود کہ انہیں خوب معلوم ہے : ایسا ہوکر رہے گا اور اُن کی سازشوں پر حق غالب آکر رہے گا ، ان ظالموں نے کھلا انکار کرتے ہوئے کفر و شر اور فساد و دہشت گردی کی راہ پر چلنا آخر زمانے تک اختیار کر رکھا ہے ۔

حضرت سیّدنا عیسیٰ بن مرین اور امام مہدی جناب محمد بن عبد اللہ علیہم السلام کی قیادت میں ایک جانب مسلمان مجاہدین اور دوسری طرف کانے دجال اور یہودیوں کے مابین اس آخری معرکہ اور جنگ و قتال کا یہ آخری نتیجہ ہوگا اور اس معرکہ میں دجال کافر ، قوم یہود اور ان کے تمام حلیفوں اور مددگاروں پر اللہ عزوجل کی خاص مدد کے ساتھ سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام اور مسلمان مجاہدین کی یہ شاندار فتح ہوگی ۔ یہ وہی آخری معرکہ اور جنگ عظیم ہے کہ جس میں یہودی اور ان کے تمام حلیف و مددگار اپنی ہر طرح کی قوت ، طاقت ، تسلط اور دنیاوی ترقی جھونک دینے کے باوجود پوری پوری کوشش کریں گے کہ وہ اس جنگ سے دور رہیں ۔ اس کے لیے وہ کئی حربے اختیار کریں گے ۔ جیسے کہ : اسلامی لشکر یا جماعت کے ساتھ جنگ و قتال قائم کر کے انہیں وہاں پر اُلجھائے رکھنا ، (جیسے آج کل یہ لوگ عیسائیوں کے ساتھ مل کر دنیا کے مختلف مقامات پر یہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں) پروپیگنڈہ اور نشر و اشاعت کے ذریعے دین حنیف کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے والے عمل کو مسلسل جاری رکھنا اور آخری معرکہ کے اسباب کو ہمیشہ ختم کرتے رہنے کا عمل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس راہ کو ہموار رکھنے کےلیے مسلمانوں پر دنیا جہان میں ہر جگہ پر ظلم و استبداد اور زیادتیاں کرنے والے جرائم کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں ۔ اسی طرح اہل اسلام پر فریادوں کی پامالی میں انسانی حقوق کی آخری حد تک بے حرمتی کر رہے ہیں ۔ عراق ، گوانتا ، مقبوضہ کشمیر ، فلسطین و اسرائیل اور افغانستان کی جیلوں میں جو انسانیت سوز سلوک یہ یہود و نصاریٰ ، رب کائنات کے، انبیاء کرام علیہم السلام کے اور دین حنیف کے دشمن کر رہے ہیں کیا یہ سب کچھ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے ؟ ۔ اب فلسطین کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں قابض اسرائیل کی مکمل حمایت کے باوجود بہت سی طاقتیں کھل کر سامنے نہیں آرہیں انہیں بھی علم ہے یہودی دنیا کی ذلیل ترین قوم اور انبیائے کرام علیہم السّلام کی گستاخ و قاتل ہے ۔ ہر دور اور ہر زمانے میں ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...