ہولو کاسٹ ڈرامہ یا حقیقت
تحریر : ڈاکٹر فیض احمد چشتی
تلخیص وترتیب : محمد ابو بکر صدیق نوری
یورپ میں یہودی تاریخ کے آئینے میں :
1933 میں یورپ میں یہودیوں کی آبادی 90 لاکھ سے زائد تھی۔ یورپ کے بیشتر یہودی ایسے ملکوں میں رہتے تھے جن پر دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی جرمنوں نے یا تو قبضہ کر لیا یا پھر اُنہیں اپنے زیرِ اثر کر لیا۔ جرمنی اور اُن کے اتحادیوں نے 1945 تک یورپ میں بہت بڑی تعداد میں یہودیوں کو ہلاک کیا۔ یہ اقدام یورپی یہودیوں کے قتلِ عام پر مبنی نازی پالیسی کا حصہ تھا جسے اُنہوں نے Final Soloution یعنی "حتمی حل" سے موسوم کیا تھا۔اگرچہ نازیوں نے یہودیوں کو جرمنی کیلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا تھا اور وہ نازی نسلی امتیاز کا بنیادی نشانہ بنے مگر نشانہ بننے والے دوسرے افراد میں دو لاکھ کے لگ بھگ روما خانہ بدوش بھی تھے۔ جرمن نسل سے تعلق رکھنے والے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور کم از کم دو لاکھ افراد بھی تھےجو "رحمدلانہ موت" کے نام پر ہلاک کردئے گئے۔
ہولو کاسٹ کا مطلب کیا ہے:
’’ہولوکاسٹ‘‘ یونانی الفاظ سے ماخوذایک مرکب ہے جس کا مطلب ’’مکمل طورپرنذرآتش کردینا‘‘ہے۔ اس سے مرادیہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ کم و بیش ساٹھ لاکھ (60,00000)یورپی بنی اسرائیلیوں(یہودیوں) کو پہلی سے دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل کیا گیاجس کا الزام نسل کشی کے ضمن میں نازی جرمنوں پر لگایا جاتا ہے۔
بعض محققین کے نزدیک ’’ہالوکاسٹ‘‘ سے مراد صرف یہودی مقتولین نہیں ہیں بلکہ وہ تمام مقتولین جنگ عظیم ثانی ہیں جو اتفاقی قتل نہیں ہوئے بلکہ جنہیں نازیوں نے کسی پروگرام کے تحت باقائدہ سے قتل کیا ہے جن میں دوسری اقوام کے چیدہ چیدہ لوگ، مذہبی راہنما، جنگی قیدی اور دیگر عسکری و سیاسی مخالفین بھی شامل ہیں ۔ اس تعریف کے تحت ہولوکاسٹ کے مقتولین کی تعداد ایک کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ ان دونوں آرا ءمیں سےقرین قیاس کیا ہے ؟یہودی سچ بولتے ہیں یا دیگر محققین؟ کیا یہودیوں نے دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے دوسرے مقتولین کو بھی اپنا تو نہیں بنا لیا؟ یہ اﷲ تعالی ہی بہتر جانتا ہے ۔
یہودی مفکرین کے ہاں ہولو کاسٹ یہ ہے:
صہیونیوں کے مطابق جنگ عظیم دوم کے سالوں قبل سے یہودیوں کو سول سوسائٹی سے نابود کرنے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی تھیں ۔ 1930کی دہائی میں ایسے قوانین بنائے گئے کہ آہستہ آہستہ یہودیوں کے معاشی، معاشرتی اور قانونی حقوق ماند پڑنے لگے اور انہیں جرمن یورپی معاشرے میں تنہاکیاجانے لگا۔ ان قوانین کا مقصدیورپ کو غیریورپیوں سے پاک کرنا تھا۔ 1933میں قوانین کا ایک مجموعہ منظور کیا گیا جن کے مطابق اہم علاقے اور اہم مناصب یہودیوں سے خالی کرالیے گئے۔ چنانچہ زرعی فارموں میں یہودی مزارعین سے لے کر کچہریوں میں یہودی وکلاء اور یہودی ججوں تک کو باہر نکال دیا گیا اور انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا۔ سکولوں ، کالجوں اور اخبارات کے دفاتر اور مختلف انجمنوں سے بھی انہیں قوانین کے تحت یہودیوں کا اخراج عمل میں آیا۔ 1935میں ہٹلر نے ایک تقریر کے ذریعے یہودیوں کو رہے سہے تمام سول حقوق سے بھی محروم کردیا۔
صہیونی تاریخ دانوں کے مطابق جرمنی کا ہر ادارہ یہودیوں کے اتنے بڑے قتل کے پروگرام میں ملوث تھا جرمن وزارت داخلہ اورمسیحی چرچز نے یہودیوں کا پیدائشی ریکارڈ دیا اور اس بات کی تعیین کی کہ کوکون کون سی بستی میں کون کون یہودی ہے، جرمن محکمہ ڈاک نے وہ خطوط متعلقہ حکام تک پہنچائے، جرمن وزارت خزانہ نے یہویوں کی جائدادوں کی تفصیلات مہیا کیں ، جرمن کاروباری اداروں نے یہودی تاجروں ، یہودی ملازموں اوریہودی مزدوروں کے بارے میں جامع معلومات فراہم کیں ، جرمن محکمہ مواصلات نے یہودیوں کو انکے ہلاکتی کیمپوں میں لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور ریل گاڑیاں مہیا کیں ۔ یہاں تک کہ جرمن جامعات تک نے یہودی طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا اور یہودی تعلیمیات واسرائیلی لٹریچرکونذرآتش کر دیا۔ یہودیوں کا قتل عام اس تمام علاقے میں ہواجو نازی جرمنوں کے زیرقبضہ تھے، جہاں اب کم و بیش 35 یورپی ممالک کی سلطنتیں قائم ہیں ۔ اس سے قبل یہاں یہودیوں کی بستیاں آباد تھیں اور 1939میں سات ملین یہودی نفوس یہاں ہنستے بستے گھروں میں آبادتھے، جن میں پانچ ملین کو یہاں قتل کردیاگیا۔ پولینڈ اورروس میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداداس کے علاوہ ہے۔ دیگرافراد اگر اپنا مذہب یا رائے تبدیل کر لیتے تو انہیں قتل بچالیاجاتا تھا لیکن یہودیوں کے لیے یہ رعایت بھی نہیں تھی۔ یہودیوں کے قتل میں عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کے لیے بھی کوئی تخصیص نہیں تھی، قبائل کے قبائل کو قتل کردیاجاتااور انکے بچوں پر طبی تجربات کر کے توانہیں بھی موت کی وادی میں دھکیل دیاجاتا۔
یہودیوں کو زندہ بھی جلایا گیااور جب گولی مارنے اور زندہ جلانے کا سامان میسر نہ آیا یا اسے مہیاکرنا مہنگاتصور کرلیاگیاتو لاکھوں یہودیوں کو روس کے شدیدترین ٹھنڈے علاقوں میں بے آب و گیاہ تنہاچھوڑ دیاگیااور یہ لوگ یخ بستہ اورجان لیواٹھنڈی ہواؤں سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس سب کے باوجود1941ء کے آخر تک روس کے صرف 15%یہودی مارے گئے تھے، اس رفتار کو تیزکرنے کے لیے ایک بار پھر وسیع پیمانے پر زہریلی گیسوں کا تجربہ کیا گیااور ظاہر ہے یہ تجربہ شہری علاقوں میں ممکن نہ تھا چنانچہ اس کے لیے شہر سے باہر بہت بڑی بڑی جگہیں بنائی گئیں جہاں یہودی نسل کو نیست و نابود کرنے کا عمل سالوں تک دہرایاجاتا رہا۔
یہودیوں نے اس سارے ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی بلند کی لیکن بے سود۔ کچھ کیمپوں میں نوجوان یہودیوں نے ہتھیارتک بھی اٹھائے لیکن ظاہر ہے نازی جرمن اس وقت پوری دنیاسے کنٹرول نہ ہونے والاطاقت کاطوفان تھاتو یہود اس سے کیسے جان چھڑاسکتے تھے۔
صیہونی فکر کا مکروہ پہلو یہ بھی ہے:
دوسری جنگ عظیم کے اس المناک پہلو کا دوسرا تاریک ترین رخ یہ ہے کہ جنگ عظیم کے دونوں متحارب فریقوں کو سرمایافراہم کرنے والی بہت بڑی فرم یہودیوں کی ہی ملکیت تھی۔ کیااپنے ہم مذہب بلکہ ہم نسل رشتہ داروں پر اتنا بے پناہ ظلم ہونے دیکھ کر وہ سرمائے کی فراہمی بند نہیں کر سکتے تھے؟ یہ تو تھی مغرب کی تاریخ جس کو یہودیوں نے اپنی مظلومیت ثابت کرنے کے لیئے دنیا کے سامنے واضح کیا ہے۔ جبکہ بہت سے تاریخ دان اس کو ایک افسانے سے تعبیر کرتے ہیں
ہولو کاسٹ پر تحقیق کرنا جرم ہے۔۔۔۔پر کیوں۔۔۔۔؟
ہولوکاسٹ کے حوالے سے اسرائیل کی پارلیمنٹ حکومت کو یہ اختیار دے چکی ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی،کسی بھی جگہ کوئی شخص اگر 60 لاکھ کی تعداد کو کم بتانے کی کوشش کرے،اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس ملک سے اسے نفرت پھیلانے کے جرم میں Hate Criminal کے طور پر مانگ سکتی ہے، گرفتار کرسکتی ہے،اور سزا بھی دے سکتی ہے حد تو یہ ہے کہ آپ یورپین ممالک اور امریکہ کینڈا میں بھی ہولوکاسٹ پر تحقیق نہیں کرسکتے۔ اور اس پر تحقیق کرنا آپ کو جیل میں بھی پہنچاسکتا ہے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ کا معافی مانگنا:
برطانیہ کی لبرل پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ’’ڈیوڈ وارڈ ‘‘نے اپنے بلاگ میں صرف یہ لکھ دیا تھا کہ ’’میں ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں کے لیے پیش آئے" ناقابل یقین "واقعات پڑھ کر غم زدہ ہوجاتا ہوں، لیکن یہودی جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے ہیں، وہ کیونکر فلسطینیوں کے خلاف مظالم ڈھا رہے ہیں۔‘‘ اس بلاگ کے بعد ڈیوڈ وارڈ پر اس قدر دباؤ بڑھا کہ اسے مجبوراً معافی مانگنا پڑی ۔
عالمی برادری کا ہولوکاسٹ کے متعلق غیرمنصفانہ موقف:
عالمی برادری کی ناانصافی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے حوالے سے تقریباً پون صدی بعد بھی سخت قوانین نافذ ہیں متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کردیے گئے تھے۔ ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ حالانکہ تحقیق کا دروازہ کبھی اور کسی ملک میں بند نہیں ہوتا، لیکن ہولوکاسٹ پر تحقیق کرنا اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے ہیں۔
بہت سے ممالک میں ہولوکاسٹ پر زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی، صرف یورپ کے تقریباً تین درجن ممالک میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے، جس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ عالمی برادری نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے بغیر تحقیق کیے سخت سے سخت تر قوانین بنا دیے، لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیا دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودی آباد بھی تھے یا نہیں ؟
لیکن دوسری جانب اپنی مظلومیت کا راگ الاپنےوالے انہی یہودیوں کے ہاتھوں گزشتہ 66 سالوں سے مظلوم فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ جاری ہے،انھیں تہہ و تیغ کیا جا رہا ہے، بمباری کرکے بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس سب کچھ کے بعد بھی عالمی برادری کی زبانیں گنگ ہیں یہودیوں کے ہولوکاسٹ کے حوالے سے قوانین بنانے والے ممالک کیا اسرائیل سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فلسطینیوں پر کس جرم کی پاداش میں بربریت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے؟ فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل عام پر اسرائیل کو نہ عالمی برادری کی کسی کارروائی کا خدشہ ہوتا ہے، نہ بڑی طاقتوں کی طرف سے کسی روک ٹوک کا اندیشہ ہوتا ہےاسرائیل کو ظالمانہ کارروائیوں میں امریکا اور مغرب کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے، مغرب" صہیونیت" کے دفاع میں ہمہ وقت تیار رہتا ہے،
ناموس رسالتﷺ کےمتعلق مغرب کا رویہ قابل افسوس ہے:
مغربی دنیا میں ہولو کاسٹ پر بات کرنا تو جرم ہے (کیونکہ اس سے یہود کی دل آزاری ہوتی ہے )مگر ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے نبی محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی توہین کا سلسلہ مغربی ممالک میں مقتدر قوتوں نے آزادی اظہار رائے کے نام پر جاری رکھا ہوا ہےمغربی دنیا کے مقتدر حلقے اگر دنیا کو گلزار بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اس گھناؤنے جرم کو روکنے کیلیے خاطر خواہ اقدامات کرنے ہونگیں تاکہ کروڑوں لوگوں کے جذبات کی توہین نہ ہو مسلمان ہر چیز برداشت کر سکتے ہیں مگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی توہین ہر گز برداشت نہیں کر سکتے ۔ چشم فلک بہت جلد یہ منظر دیکھے گی کہ سرزمین فلسطین ایک بار پھر اپنے حقیقی وارثوں کے قبضہ قدرت میں ہو گی مسلمان تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم پر متحد ہو کر آگے بڑہتے رہیں گیں اور مغرب کو ماننا ہوگا کہ امن عالم کی بقاء رسول اکرمﷺکے فرامین پر عمل اور آپ کی حرمت کے تحفظ میں ہی ہے۔
No comments:
Post a Comment