Thursday 29 June 2023

عید کا پیغام اہلِ اسلام و انسانیت کے نام

0 comments

عید کا پیغام اہلِ اسلام و انسانیت کے نام

محترم قارئینِ کرام : خوشی ومسر ت اور رنج وغم انسانی طبیعت پر آنے والے احوال ہیں ، جوں جوں طبیعت میں اختلاف آتا ہے احوال بھی مختلف ہوتے ہیں ، گویا یہ احوال فطرت انسانی میں داخل ہیں چنانچہ جب بھی روز عید آتا ہے بہ اقتضاء فطرت ،طبیعت پر فرحت کی چادر تنی جاتی ہے کیونکہ روز عید عطاء نعمت کادن ہوتا ہے ۔ عید ’’عَود‘‘ سے ماخوذہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں ، عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ یہ دن ہر سال نئی فرحت وشاد مانی لاتاہے اور اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالی بندوں کو منافع واحسانات سے سرفراز فرماتا ہے ، اورایک وجہ یہ کہ بندہ اس دن اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف لوٹتا ہے اسی لیے اس کو عید کہا جاتاہے ۔

جو بندے اطاعت و اتباع ، عبادت و تقوی کے ساتھ خوشی مناتے ہیں وہ اللہ تعالی کے محبوب ہیں اور جو تکبر و نافرمانی کے ساتھ اظہار خوشی کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کے پاس مبغوض وناپسند ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ  ہے : إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ۔
ترجمہ : یقیناً اللہ تعالیٰ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ (سورۃالقصص آیت نمبر 76)

دینِ اسلام کے سایۂ رحمت و ظلِ عاطفت میں رہنے والوں کو خالق کائنات نے بے عدد خوشیاں اور کئی عیدیں عطافرمائیں ہیں، جن میں مشہور عید یں یہ ہیں : (1) عیدالفطر (2) عیدالاضحی(3) عیدُالاعیاد (عید میلادُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) (4) عید المومنین (جمعہ )

عیدُ الاضحیٰ اللہ عزوجل سے محبت ، ابستگی ، وفاداری ، وفا شعاری اور خواہش نفس پر خواہش رب کو مقدم رکھنے کے تجدید عہد و پیمان کا دن ہے ، جس طرح اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم ِ ربی پر سر تسلیم خم کر تے ہوئے سچی وفاداری اور غلامی کا ثبوت دیا تھا اور اپنے زبانی قول پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللہ عزوجل کی محبت میں آگ میں داخل ہو کر ، دعوتِ دین کی خاطر وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر ، اللہ عزوجل کی مرضی پر اکلوتے فرزند اور ان کی ماں کو بے آب و دانہ وادی میں چھوڑ دیا اور پھر لخت جگر ، نور نظر ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور بڑ ھاپے کا سہارا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے عملی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے زبان حال و قال سے کہا تھا : میری نماز اور میری تمام عبادات (جیسے قربانی وغیرہ) اور میری پوری زندگی اور پھر میری موت سب اللہ کےلیے ہے ۔

عید الاضحی کے موقع پر ہر مسلمان قربانی اسی جزبہ کے ساتھ اور اسی ارادہ و عہد کے ساتھ قربانی کرے کہ اے اللہ ! جس طرح خلیل ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ سے سچی اور پکی وفاداری کا اظہار کیا تھا ، آپ کے حکم پر سر جھکایا تھا ، اپنی مرضی کو آپ کی مرضی کے تا بع کیا تھا اور آپ کی منشا پر سب کچھ قربان کیا تھا ، اسی طرح میں بھی آج آپ کے نام پر آپ کے خلیل و حبیب علیہما السلام کی اتباع میں جانور کے گلے پر چھری چلا رہا ہوں ، ان شاء اللہ زندگی کے ہر موڑ پر اور قدم بقدم آپ کی مرضی کےلیے خواہشات کے گلے پر چھری چلا تا رہوں گا اور آپ کا سچا و پکا وفادار بن کر زندگی گزاروں گا اور وفادار بن کر ہی دنیا سے جاؤں گا ، قربانی اسی تجدید عہد کا نام ہے ، قربانی کے بعد دیگر مواقع پر اگر ہم نے اس عہد و پیمان کو یاد نہیں رکھا اور رب کی مرضیات کوچھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرتے رہے تو جان لو کہ ہم نے جو قربانی کی تھی بس وہ ایک رسم سمجھ کر کی تھی وفاداری سمجھ کر نہیں ، کیونکہ سچا وفادار تو وہ ہے جو جان دے سکتا ہے لیکن وفاداری چھوڑ نہیں سکتا ہے ۔

امت مسلمہ قربانی کے ساتھ جذبۂ قربانی کو بھی زندہ رکھے ، عید الاضحی اور حج شعائر اللہ کے تحفظ اور انبیاء کی نشانیوں کی تکریم کے مظہر ہیں عیدِ قربان شیطانوں سے نجات کا درس دیتی ہے مسلمان شیطانی قوتوں کی دوستی کے دیوانے ہوئے جا رہے ہیں ان کی تجوریاں بھر رہے ہیں
خاکوں کی اشاعت رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام اور پیغام سے خوف کی علامت ہے سازش کا مقابلہ اتحاد اور مغربی قوتوں کے بائیکاٹ سے کیا جائے ۔

قربانی محض ریت و رواج نہیں بلکہ تجدید ایمان و عمل اور اللہ کے ماسواء کی محبت کو قربان کرنے کا نام ہے سنتِ ابراہیمی کی تعمیل میں شجاعت و مردانگی حق پرستی حق آگہی کے جلوے نظر آتے ہیں کمال عبدیت کا عکس معلوم ہوتا ہے اپنے لاڈلے کی گردن پر اپنے ہی ہاتھوں چھری چلائی ہے اس میں گویا تعلیم ہے کہ آپ اس وقت تک موحد نہیں بن سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال قربان نہ کردو : ⬇

یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی

امتِ مسلمہ سے آج اسی جذبہ فداکارانہ اور بے لوث عشق کے ساتھ جانوروں کی قر بانی مطلوب ہے لیکن افسوس صدافسو س کہ مادیت و صارفیت کے اس دور میں مسلمانوں نے اسباب و ذرائع کو مقا صد پر فوقیت دے رکھی ہے ، دنیاوی مال و متاع ، مادہ پرستی ، جاہ و منصب ، عیش و آرام ، خواہشات کی اتباع ، چند روز ہ زندگیوں کی آسا نیاں ، اور اس کی خوشیاں ہی ہم مسلمانوں کی نظروں میں مقصود حیات بن کر رہ گئی ہے ، ایسے میں اگر ہم سے حقیقی قربا نی کا مطالبہ ہوتا ہے ، تو ہما رے قدم لرزنے لگتے ہیں ، قلوب پر رعشہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے دنیاوی عیش و آرام اور لذت و نشاط کی خاطر جانی و مالی قربانی سے راہِ فرار اختیار کرنا نہ دنیاوی زندگی کی فلاح کا ضامن ہے اور نہ ہی اخروی حیات میں کامیاب ہونے کی دلیل ہے ۔ کامیاب مومن وہی ہے جس کا مطمح نظر اپنی جان و مال کو مر ضیات الہی پر قربان کر دینا ہو ، قربانی خواہ جان کی ہو یا مال کی ، نفس کی ہو کہ خواہشات کی ، وقت کی ہو کہ چاہت کی یہ ایک مشکل امر ہے ۔ جس کا انجام دینا آسان نہیں ، قربانی قوموں کے عروج و زوال کی ضامن ہے ، حیات فانی کو حیات جاودانی میں تبدیل کرنے کا اشا رہ ہے ، قربانی سراپا اطاعت ، ایثار اور اظہارِ محبت کی انتہا ہے ۔ قربانی کو کسی بھی قوم کی ارتقاء و ارتفاع میں راہِ حیات خیال کیا گیا ہے ، قربانی مذہبی و ملی تشخص کی علامت ہے ، قربانی باپ اور بیٹے کی محبت و اتفاق رائے کا حسین درس دیتی ہے ، قربا نی کر نے والا نوازشاتِ الہی کا مستحق ہوتا ہے ، قربانی سے سنتِ ابراہیمی کی تجدید ہوتی ہے ، قربانی امیدوں کے ساتھ جانفشانیوں کا حوصلہ عطا کرتی ہے ، قربانی اسلامی تہذیب و تمدن اور روایت و ثقافت کی شناخت ہے ، عید قرباں کے موقع پر یقیناً انسانی جان کی قربانی مطلوب نہیں ہے ، لیکن ہر ایمانی قلب میں ان تمناٶں کی انگڑائیاں ضرور مچلنی چا ہیے ۔

آئیے سنت ابراہیمی علیہ السلام کی ادا ئیگی کے حسین موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ راہِ خدا میں ہر طرح کی قربانی کےلیے ہمہ وقت تیار رہیں گے ، اپنی انا اور غرور کو خاک میں مِلا دیں گے ۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خیال کریں گے ۔ ملت اسلامیہ کی سربلندی کےلیے ہمہ وقت مستعد و تیار رہیں گے ۔ عالمِ اسلام پر کسی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ۔ جب جہاں جس وقت جس حال میں جیسی قربانی طلب کی جائے گے ہم بلا تذبذب و ہچکچاہٹ پیش کرنے کےلیے خوشی خوشی آمادہ رہیں گے ۔ انسانیت کا احترام جذبہء اخوت بدلہ اور انتقام سے نفرت بڑائی سے پاک اللہ عزوجل پر بھروسہ حق کی نصرت و حمایت باطل کے خلاف صدا برابری اور مساوات کردار سازی پاک بازی جان لیواؤں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ملک میں صالح نظام اور درست معاشرہ کےلیے قربانی کا جذبہ لے کر آتا ہے ۔

احادیثِ مبارکہ میں عیدالفطر کے فضائل وارد ہیں جن میں سے ایک حدیث شریف ذکر کی جارہی ہے جس کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں ذکرفرمائی ہے:

عَنْ سَعِيدِ بن أَوْسٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ وَقَفَتِ الْمَلائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الطُّرُقِ ، فَنَادَوْا : اغْدُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يَمُنُّ بِالْخَيْرِ ، ثُمَّ يُثِيبُ عَلَيْهِ الْجَزِيلَ ، لَقَدْ أُمِرْتُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَقُمْتُمْ ، وَأُمِرْتُمْ بِصِيَامِ النَّهَارِ فَصُمْتُمْ ، وَأَطَعْتُمْ رَبَّكُمْ ، فَاقْبِضُوا جَوَائِزَكُمْ ، فَإِذَا صَلَّوْا ، نَادَى مُنَادٍ : أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ قَدْ غَفَرَ لَكُمْ ، فَارْجِعُوا رَاشِدِينَ إِلَى رِحَالِكُمْ ، فَهُوَ يَوْمُ الْجَائِزَةِ ، وَيُسَمَّى ذَلِكَ الْيَوْمُ فِي السَّمَاءِ يَوْمَ الْجَائِزَةِ ۔ (معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر 616،چشتی)
ترجمہ : سیدنا سعیدبن اوس انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب عیدالفطرکا دن آتا ہے توفرشتے چوراہوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اورنداء دیتے ہیں : اے مسلمانوں کی جماعت !رب کریم کی جانب چلو؛جوخیرسے نوازتاہے ،پھراجرعظیم عطافرماتاہے، یقیناًتمہیں رات میں عبادت کرنے کا حکم دیاگیا توتم نے عبادت کی اور تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا توتم نے روزے رکھے، تم نے اپنے رب کی اطاعت کی، اب اپنے انعامات حاصل کرلو!پھرجب لوگ نمازعید اداکرتے ہیں تو ایک آوازدینے والاآوازدیتاہے،سنو!بے شک تمہارے پروردگار نے تمہیں بخش دیا ،اب تم اپنے گھرلوٹ جاؤ !اس حال میں کہ تم ہدایت والے ہو،تویہ یوم الجائزۃ (انعام کا دن)ہے اور آسمان میں اس دن کویوم الجائزۃ (انعام کا دن) کہاجاتاہے ۔

غنیۃ الطالبین میں ہے : قال  وہب بن منبہ رحمہ اللہ:خلق اللہ الجنۃ یوم الفطر،وغرس شجرۃ طوبی یوم الفطر،واصطفی جبریل علیہ السلام للوحی یوم الفطر،والسحرۃ  وجدوا المغفرۃ یوم الفطر ۔
ترجمہ : حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے عید الفطر کے دن جنت پیدا فرمائی اور اسی دن درخت طوبی لگا یا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کو وحی کیلئے منتخب فرمایااوراسی دن حضرت موسی علیہ السلام کے مقابل آنے والے جادوگروں کو توبہ نصیب ہوئی ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق جلد 2 صفحہ 18،چشتی)

حقیقی عید کیا ہے ؟

زبدۃ المحدثین ، خاتمۃ المحققین حضرت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : بے شک عید کی خوشی منانا بھی مسنون ہے ، لیکن کیا معلوم کہ ہمارے لیے یہ عید ہے یا وعید ؟

حضرات ! اصلی عید تو اس روز ہوگی جس روز وہ جانِ جہاں ہم پر نظر فرمائیں گے ۔

عید گاہ ِ ما غریباں کوئے تو
انبساطِ عید دیدن روئے تو
صد ہلال عید قربانت کنم
اے ہلالِ ما خم ِ ابروئے تو

ہم غریبوں کی عیدگاہ، اے دوست تیری گلی ہے اور عید کی خوشی ہمیں تیرے چہرے کو دیکھنے سے ملتی ہے ۔

عید کے سو (100)چاند میں تجھ پر قربان کرتا ہوں، ہماری عید کا چاند تیرے ابرو کا خم ہے ۔

عید کی خوشی منانا چاہیے اس لیے کہ یہ بھی سنت ہے ۔

مگر صاحبو ! عید تو اس روز ہوگی جب ہم خدائے تعالی سے ملیں گے ، اس حالت میں کہ ہم اس سے راضی اور وہ ہم سے راضی ۔

ہمیشہ اسی کوشش میں رہنا چاہے ۔

یہ عید اور اس کی خوشی دونوں فانی ہیں ، خدا کرے کہ وہ دن آئے جس میں دل کی اصلاح ہوکر دل' دلدار کا ہوجائے ، وہ دن حقیقی عید کا ہے ، یہ عید بھی باقی اور اس کی خوشی بھی باقی ۔

عید کے دن مغفرت ہوتی ہے اس لئے وہ خوشی کا دن ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ بندے عید کے دن خداکے دربار (عیدگاہ) میں جاتے ہیں تو وہاں سے بخشے بخشوائے گھروں کو واپس ہوتے ہیں ۔

بعض لوگ خلافِ شریعت اُمور کے مرتکب ہوکر عید کی نماز کےلیے آتے ہیں ، ان سب خرافات سے باز آکر سرفرازیوں کے مستحق بن کر آنا چاہیے ۔ (مواعظ ِ حسنہ حصہ اول صفحہ 277)

حضرت صالح رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہر عید کے روز اپنے اہل و عیال کو اکٹھا کرتے اور سب مل کر روتے بیٹھتے ، لوگوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتےہیں ؟ فر مانے لگے : میں غلام ہوں ، اللہ تعالی نے ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم فرمایا ہے ، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ہم سے پورا ہوایا نہیں ؟ عید کی خوشی منانا اُسے مناسب ہے جو عذاب الہی سے امن میں ہو ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عید کے دن گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اتنا روئے کہ ریش مبارک تر ہوگئی ، لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا : جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے روزے قبول ہوئےیا نہیں وہ عید کیسے منائے ۔(مواعظِ حسنہ حصہ دوم  صفحہ 315،چشتی)

عید منانے کا طریقہ

مومن کی عید یہ نہیں ہوتی کہ وہ اس میں کھیل کود کرے اور لہوولعب میں مشغول رہے بلکہ وہ اللہ تعالی کی عبادت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت میں عید مناتا ہے ۔

اور عید کا مفہوم ہی طاعت وعبادت ، فرحت ومسرت ، سلامتی و راحت ہے ، تقاضہ عقل کے مطابق اس دن عبادت میں تخفیف ہونی چاہیے تھی اس کے برخلاف اللہ تعالی نے امت پر ایک اور نماز اضافہ واجب فرمائی ، جس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ بندے جب ایک جا جمع ہو جائیں تو معاشرہ میں افرا تفری وانتشار پیدا ہونے کے بجائے رب کریم کی عبادت میں رہ کر انسانی معاشرہ کو اپنے اجتماع سے امن و سلامتی کا پیغام دیں ۔

عیدگاہ جاتے وقت راستہ میں میانہ آواز میں تکبیر کہنا سنت ہے ‘ تکبیر اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ بشری تقاضے کے مطابق جب کثیر اجتماع ہوتا ہے تو بلاوجہ آوازیں بلند ہوتی ہیں اور راہ گیروں کےلئے اذیت کا سبب بنتی ہیں اور رفتہ رفتہ بات جھگڑے و فساد تک پہنچ جاتی ہے ، معاشرتی ومعاشی فضا کو تکدر سے دور کرنے کےلئے تکبیرکہنے کا حکم دیا گیا ، اس کے علاوہ عید کے دن نماز اور تکبیروں سے مومن بندے ذکر خدا وندی کرکے اس کی برکتوں اوررحمتوں سے عالم کو فیض یاب بناتے ہیں کیونکہ جب ابرِ کرم برستا ہے تووہ رحمت عامہ بن کر سب کو اپنے سایہ میں لیتا ہے ۔

عید کے دن مالدار ، صاحب نصاب مومن پر صدقۂ فطر (ایک کلو 106 گرام گیہوں یا اس کی قیمت) اداکرنا واجب ہے تاکہ غریب ، نادار و محتاج افراد بھی عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہیں‘ اس کے علاوہ ہر خطہ کے مسلمان نماز عید کے بعد فقراء ومساکین میں گھر واپس ہونے تک راستہ بھر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہ عمل مسلمانوں کی سخاوت ‘ملت سے محبت اور ان پر مہربانی کو عیاں کرتا ہے ، اس طرح عید کی ابتداء سے انتہا ء تک مسلمانوں کا ہر عمل دنیا میں امن وسلامتی قائم کرنے کا پیام افرادِ وطن کے نام دیتا ہے ۔

عید کی خصوصی دعاء

امام طبرانی کی معجم اوسط میں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعامنقول ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کو تعلیم دینے کےلیے یہ دعاء فرمائی : ⬇

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : كَانَ دُعَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ الْعِيْدَيْنِ " اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ عِيْشَةً تَقِيَّةً ، وَمِيْتَةً سَوِيَّةً ، وَمَرَدًّا غَيْرَ مُخْزٍ وَلَا فَاضِحٍ ، اَللَّهُمَّ لَا تُهْلِكْنَا فَجْأَةً ، وَلَا تَأْخُذْنَا بَغْتَةً ، وَلَا تُعَجِّلْنَا عَنْ حَقٍّ وَّلَا وَصِيَّةٍ ، اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْعَفَافَ وَالْغِنَى ، وَالتُّقَى وَالْهُدَى ، وَحُسْنَ عَاقِبَةِ الْآخِرَةِ وَالدُّنْيَا ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّقَاقِ ، وَالرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ فِيْ دِيْنِكْ ، يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبّْ! لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةْ ، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابْ ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت انہوں نے فرمایا : عیدین کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دعاء فرماتے : اے اللہ ! ہم تجھ سے پرہیزگار زندگی اور بہترحالت میں حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ، ایسا انجام مانگتے ہیں جوذلیل اوررسوا کرنے والانہ ہو ، اے اللہ !توہمیں اچانک ہلاک نہ فرما، فوراًہمارا مؤاخذہ نہ فرما اور کسی حق کی ادائیگی یا وصیت پوری کرنے سے پہلے ہمیں عجلت میں مت ڈال ، اے اللہ !ہم تجھ سے پاکدامنی و بے نیازی ‘ پرہیزگاری وہدایت مانگتے ہیں اور دنیا و آخرت کے اچھے انجام کا سوال کرتے ہیں ، ہم شک و اختلاف ‘تیرے دین میں ریاء کاری اور شہرت سے تیری پناہ میں آتے ہیں ، اے دلوں کو پھیر نے والے !ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا مت کر ، اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ، بے شک تو ہی خو ب عطافرمانے والا ہے ۔ (معجم اوسط طبرانی باب العین حدیث نمبر 7787)

یہ عید کے موقع سے مناسبت رکھنے والی ایسی جامع دعاء ہے کہ اس میں ان تمام چیزوں کی درخواست ہے، جوہر کسی کیلئے دنیاو آخرت میں مسرت وشادمانی ، امن وسلامتی اور اتحاد واتفاق کا باعث ہوتی ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام اہلِ اسلام کو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے صدقہ و طفیل راہ حق پر گامزن رکھے اور اس عیدِ سعید کی بھر پُور خوشیاں عطا فرمائے آمین بجاہ نبی الکریم صلی اللہ تعالیٰ و بارک وسلم علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین ، سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ترجمہ و تفسیرِ قرآن کےلیے شرائط و مفسرِ قرآن کےلیے ضروری علوم

0 comments
ترجمہ و تفسیرِ قرآن کےلیے شرائط و مفسرِ قرآن کےلیے ضروری علوم
محترم قارئینِ کرام : مفسر قرآن کےلیے ضروری علوم ۔ آج کے پر فتن دور میں جہاں بے شمار فتنے ہیں وہاں ایک فتنہ بڑا خطرناک ہے مسلمان اہل علم اس کی سرکوبی کےلیے توجہ فرمائیں وہ یہ ہے کہ آج کل کچھ اردو خوان حضرات اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ ہر بندہ چند اردو کی کتابیں پڑھ لینے والا ترجمہ و تفسیر قرآن خود کر سکتا ہے ایسے اجہل لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں آئیے پڑھتے ہیں کہ ایک مفسر قرآن کےلیے کون سے علوم حاصل کرنا ضروری ہیں ۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م911ھ/1505ء) مفسر قرآن کےلیے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ : مفسر قرآن کم از کم درج ذیل علوم پر ضروری دسترس رکھتا ہو : علم اللغۃ ، علم نحو ، علم صرف ، علم اشتقاق ، علم معانی ، علم بیان ، علم بدیع ، علم قرأت ، علم اصول دین ، علم اصول فقہ ، علم اسباب نزول ، علم قصص القرآن ، علم الحدیث ، علم ناسخ و منسوخ ، علم محاورات عرب ، علم التاریخ اور علم لدنی ۔ (الا تقان فی علوم القرآن جلد 2 ص: 180 سہیل اکیڈمی 1980ء)

مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ ساتھ مفسر کو بہت زیادہ وسیع النظر ، صاحب بصیرت ہونا چاہیے کیونکہ ذرا سی کوتاہی تفسیر کو تفسیر باالرائے بنا دے گی جس کا ٹھکانہ پھر جہنم ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : ومن قال فی القران برایئہِ فلیتبوأ مقعدہ من النار ۔ (جامع ترمذی جلد 2 حدیث 861)
ترجمہ : اور جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے ۔

محترم قارئینِ کرام : علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ شرائط کی روشنی میں مترجم قرآن کی ذمہ داری مفسر قرآن سے بھی زیادہ سخت نظر آتی ہیں کیونکہ تفسیر میں مفسر ایک لفظ کی شرح میں ایک صفحہ بھی لکھ سکتا ہے مگر ترجمہ قرآن کرتے وقت عربی لفظ کا ترجمہ ایک ہی لفظ سے کرنا ہوتا ہے اس لئے مترجم قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ منشا الٰہی کے مطابق یا منشائے الٰہی کے قریب قریب کرنا مشکل ترین کام ہے۔ البتہ تمام شرائط کے ساتھ ترجمہ قرآن اس وقت ممکن ہے کہ جب مترجم قرآن تمام عربی تفاسیر ، کتب احادیث ، تاریخ، فقہ اور دیگر علوم و فنون پر دسترس کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب پر مکمل عبور رکھتا ہو اور وہ ایک عبقری شخصیت کا حامل ہو ساتھ ہی مترجم قرآن کتاب اللہ کو عربی زبان میں سمجھنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتا ہو تب ہی ترجمہ قرآن منشائے الٰہی اور فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تر ہو گا ۔

علماءِ کرام و آئمہ مفسرین علیہم الرّحمہ نے مفسر کے لئے جن علوم کو ضروری قرار دیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں : (1) لغت کا علم ۔ (2)نحو کا علم ۔ (3) صرف کا علم ۔ (4) اشتقاق کا علم ۔ (5،6،7) ۔ معانی، بیان اور بدیع کا علم ۔ (8) قرائتوں کا علم ۔ (9)اصولِ دین کا علم ۔ (10) اصولِ فقہ کا علم ۔ (11) اسبابِ نزول کا علم ۔ (12) ناسخ اور منسوخ کا علم ۔ (13) مُجمَل اور مُبہَم کی تفسیر پر مبنی احادیث کا علم ۔

اِن علوم کو سامنے رکھتے ہوئے اُن خواتین وحضرات کو اپنے طرزِ عمل پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی حاجت ہے جو قرآن مجید کا صرف اردو ترجمہ اورتفاسیر کی اردو کتب پڑھ کر ترجمہ و تفسیر کرنا اور اس کے معانی و مطالب بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک اقدام ہے ۔اسے یو ں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص از خودمیڈیکل کی کتابیں پڑھ کے اپنا کلینک کھول لے اور مریضوں کا علاج کرنا اور ان کے آپریشن کرنا شروع کردے تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا ؟

اسی طرح بلکہ ا س سے کہیں زیادہ نازک قرآنِ مجید کے ترجمہ وتفسیر کا معاملہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا معنی و مفہوم اور اس کی مراد بیان کرنی ہوتی ہے اور یہ کام سیکھے بغیر کرنا اور علم کے بغیر کرنا جہنم میں پہنچا دے گا ۔

اس لیے اگرکسی کو تفسیر بیان کرنے کا شوق ہے تو اسے چاہیے کہ باقاعدہ علومِ دینیہ سیکھ کر اس کا اہل بنے ۔

امام حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : عجمیوں کو اس بات نے ہلاک کر دیاکہ ان میں سے کوئی قرآنِ مجید کی آیت پڑھتا ہے اور وہ اس کے معانی سے جاہل ہو تا ہے تو وہ اپنی اس جہالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھنا شروع کر دیتا ہے ۔ (البحر المحیط، مقدمۃ المؤلف، الترغیب فی تفسیر القرآن، ۱/۱۱۸-۱۱۹)

معلم کائنات سرور عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں : جس شخص نے قرآنِ مجید میں بغیر علم کچھ کہا اسے اپنا ٹھکانہ دوزخ سمجھ لینا چاہئے ۔ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ما جاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ، ۴/۴۳۹، الحدیث : ۲۹۵۹،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (م911ھ/1505ء) مفسر قرآن کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مفسر قرآن کم از کم درج ذیل علوم پر ضروری دسترس رکھتا ہو :
’علم اللغۃ، علم نحو، علم صرف، علم اشتقاق، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم قرأت، علم اصول دین، علم اصول فقہ، علم اسباب نزول، علم قصص القرآن، علم الحدیث، علم ناسخ و منسوخ، علم محاورات عرب، علم التاریخ اور علم اللدنی ۔ (الا تقان فی علوم القرآن جلد 2 ص: 180 سہیل اکیڈمی 1980ء۔چشتی)

مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ ساتھ مفسر کو بہت زیادہ وسیع النظر ، صاحب بصیرت ہونا چاہیے کیونکہ ذرا سی کوتاہی تفسیر کو تفسیر باالرائے بنا دے گی جس کا ٹھکانہ پھر جہنم ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ۔

(ومن قال فی القران برایئہِ فلیتبوأ مقعدہ من النار )جامع ترمذی جلد 2 حدیث 861)

اور جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے ۔

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ شرائط کی روشنی میں مترجم قرآن کی ذمہ داری مفسر قرآن سے بھی زیادہ سخت نظر آتی ہیں کیونکہ تفسیر میں مفسر ایک لفظ کی شرح میں ایک صفحہ بھی لکھ سکتا ہے مگر ترجمہ قرآن کرتے وقت عربی لفظ کا ترجمہ ایک ہی لفظ سے کرنا ہوتا ہے اس لئے مترجم قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ منشا الٰہی کے مطابق یا منشائے الٰہی کے قریب قریب کرنا مشکل ترین کام ہے۔ البتہ تمام شرائط کے ساتھ ترجمہ قرآن اس وقت ممکن ہے کہ جب مترجم قرآن تمام عربی تفاسیر ، کتب احادیث ، تاریخ، فقہ اور دیگر علوم و فنون پر دسترس کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب پر مکمل عبور رکھتا ہو اور وہ ایک عبقری شخصیت کا حامل ہو ساتھ ہی مترجم قرآن کتاب اللہ کو عربی زبان میں سمجھنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتا ہو تب ہی ترجمہ قرآن منشائے الٰہی اور فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تر ہو گا ۔
علماء کرام نے ان شرائط کے متعلق طویل ابحاث فرمائی جو ان کی ہم پر مہربانی اور احسان ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ ان کے ذکر کردہ اقوال اور نقول میں سے ایسے منتخب نکات بیان کروں جو ان تمام منقول اقوال کے ہار کا ہیرا اور پروئے ہوئے موتیوں میں سے قیمتی موتی ہو۔ امید ہے کہ یہ نکات آنکھوں کے لئے بصیرت افروز اور قلوب کے لئے شفا کا سامان مہیا کریں گے اور حقیقی توفیق اور مدد دینے والا تو خدائے واحد ہی ہے۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ: اس بات میں علماء کرام کی دو آراء ہیں کہ آیا ہر شخص کے لئے قرآن کریم میں غور وفکر جائز ہے یا نہیں؟ ایک جماعت توکہتی ہے کہ کسی شخص کو قرآن کریم کی کسی آیت وجزء کی تفسیر کرنا روا نہیں ،چاہے وہ بڑا ادیب اور ادلہٴ شرعیہ ‘ علم فقہ‘ علم نحو‘ علم اخبار وآثار میں خوب رسوخ رکھتا ہو ،سوائے اس کے کہ وہ تفسیر بیان کرے جو نبی اکرم ا سے مروی ہو۔ اور دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کرنا ہر اس شخص کے لئے جائز ہے جو ان پندرہ علوم میں کامل رسوخ رکھتا ہو،جن کی مفسر کو احتیاج ہوا کرتی ہے ،وہ پندرہ علوم یہ ہیں : ⬇

۱- علم لغت‘ ۲- علم نحو‘ ۳- علم صرف‘ ۴- علم اشتقاق‘ ۵- علم معانی‘ ۶- علم بیان‘ ۷- علم بدیع‘ ۸- علم قرأت‘ ۹-علم فقہ ۱۰- علم اسباب نزول‘ ۱۱- علم قصص‘ ۱۲- علم اصول فقہ ۱۳- علم اصول دین (علم کلام) ۱۴- علم ناسخ ومنسوخ‘ ۱۵-علم توضیح مجمل و مبہم ۔

اور ان سب سے بڑھ کر وہبی علم جو اللہ رب العزت عاملین علماء کو الہام والقاء کے ذریعے مرحمت فرماتے ہیں، جس کی جانب حدیث نبوی امیں اشارہ بھی وارد ہوا ہے کہ : من عمل بما علم یورثہ اللّٰہ علم ما لم یعلم ۔
ترجمہ : جو شخص اپنے علم پر عمل کرے ،اللہ تعالیٰ ان چیزوں کا علم اسے مرحمت فرماویں گے جن کو وہ نہیں جانتا۔

امام سیوطی نے ان علوم کے احتیاج کی وجوہات بھی بیان فرمائی ہیں، لیکن یہ وجوہات چونکہ ہر سطحی فکر اور عربی زبان سے واقفیت رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے، اس لئے ان وجوہات کے بیان کرنے سے گریز کیا جاتاہے۔ امام سیوطی نے ابن ابی الدنیا سے نقل فرمایا ہے کہ: مندرجہ بالا پندرہ علوم مفسر کے لئے تفسیر میں ہتھیار کی مانند ہیں اور ان کو حاصل کئے بغیر کوئی شخص مفسر بن ہی نہیں سکتا، چنانچہ جو شخص ان علوم پر کامل دسترس حاصل کئے بغیر تفسیر کرتا ہے ،وہ تفسیر بالرأی کا ارتکاب کرنے والا ہوگا، جس سے احادیث مبارکہ میں ممانعت وارد ہوئی ہے ،اس کے مقابلے میں ان علوم میں رسوخ رکھنے والا تفسیر بالرأی کا مرتکب نہ ٹھہرے گا ،جو حدیث میں ممنوع قرار دی گئی ہے ۔ ان دونوں فریق میں تطبیق اور پہلے قول کو دوسرے قول کے مانند ٹھہراکر ان میں جمع کرنا چنداں مشکل نہیں ،کیونکہ جوتفسیر صحیح سند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے ثابت ہو اور اسی طرح کی کوئی اور حدیث اس کے معارض ومقابل نہ ہو تو وہ تفسیر ہر دو فریق کے نزدیک متعین ومقرر ہوگی اور اگر کوئی تفسیر صحیح سند سے ثابت نہ ہو اور وہ مقام تفسیر وتوضیح کا محتاج ہو اور وہ متشابہات میں سے بھی نہ ہو (جن پر اجمالی ایمان تو ضروری ہوا کرتا ہے، لیکن اس کی حقیقت اورتفصیل اللہ جل شانہ کے سپر د کردی جاتی ہے) اور نہ ہی ایسا مشکل ومبہم ہو کہ گومتشابہات میں سے نہ ہو ، لیکن متشابہات کے مانند ہوگیا ہو (کہ غور وفکر سے اس کے معنی واضح نہ ہو سکتے ہوں) بلکہ اہل علم ہی اس کے صحیح معنی ومفہوم تک رسائی حاصل کر سکتے ہوں اور اہل زبان اس کے درست مصداق کو سمجھتے ہوں، تب اس جگہ کوئی کلام کرنا ایسے عالم کے لیے جائزہو گا جو مذکورہ بالا پندرہ علوم میں کامل رسوخ اور مہارت تامہ رکھتا ہو ۔ اس لئے کہ اللہ رب العزت کی یہ مقدس کتاب جو لوگوں کے لیے نصیحت اور ان تمام امراض کے لئے جو سینوں میں چھپے ہیں،شفا کا پیام ہے وہ کیونکر آسمان وزمین کے مابین یوں معلق رہ سکتی ہے کہ اس کا معنی کسی کو سمجھ نہ آئے ؟ حالانکہ باری تعالیٰ کا خود فرمانِ عالی شان ہے : لعلمہ اللّٰہ الذین یستنبطونہ منہم ۔

جب کہ اگر اس مقام پر قول اول سے اس کا سطحی معنی لیا جائے کہ استنباط واستخراج سے کچھ علم حاصل ہو ہی نہیں سکتا ہے تو قرآن کا بیشتر حصہ غیر معلوم ٹھہرے گا ۔بہتر بات یہی ہے کہ ان دونوں اقوال کو ایک مدار میں مرتکز کردیا جاے، اس طرح معاملہ آسان اورلچک دار ہوجائے گا اور ان دونوں فریق کے مابین یہ اختلاف پاٹنے میں مدد ملے گی۔ مذکورہ جمع وتطبیق کے بیان میں علامہ زرکشی کا یوں فرمانا -واللہ اعلم- میری تائید کرتا نظر آتا ہے کہ قرآن کریم دوحصوں پر مشتمل ہے : ایک حصہ تو وہ ہے جس کی تفسیر نقلاً بیان کی جائے اور دوسرا حصہ وہ ہے جس کی تفسیر کے متعلق نقلی روایات وارد نہیں ہوئیں ، پھر پہلے حصے کی تفسیر یاتو خود آنحضرت ا سے یا صحابہ کرام یا کبار تابعین سے منقول ہوگی، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلّم سے منقول تفسیر ہو تو اس میں سندکی صحت سے بحث کی جائے گی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے منقول تفسیر میں دیکھا جائے گا کہ اگر وہ تفسیر لغوی اعتبار سے بیان کی گئی ہے تو چونکہ وہ اہل زبان تھے، اس لئے اس تفسیر پر اعتماد کیا جائے گا یا وہ تفسیر اسباب وقرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مشاہدہ کے پیش نظر ہوگی تب بھی اس تفسیر کی قبولیت میں شک نہ ہوگا ۔پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اگر صحابہ کرام کی تفاسیر میں بظاہر اختلاف وتعارض واقع ہورہا ہو تو اگر جمع وتطبیق ممکن ہو توجمع وتطبیق کی صورت نکالی جائے گی اور اگر جمع وتطبیق ممکن نہ ہو توحضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر مقدم کی جائے گی، اس لئے کہ نبی اکرم ا نے ان کو صحت تاویل کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ : اللّٰہم علّمہ التأویل ۔

اے اللہ! ان کوتاویل قرآنی کا علم مرحمت فرما ۔ امام شافعی فرائض ومیراث کے مسائل میں حضرت زید کے قول کو مقدم فرمایا کرتے تھے ،اس لئے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے : ”أفرضکم زید“

تم میں میراث کے مسائل کو سب سے زیادہ جاننے والا زید ہے۔ جو تفاسیر تابعین سے منقول ہیں ان پر اعتماد کی وہی صورتیں ہوں گی جو صورتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تفاسیر کے متعلق ابھی پچھلی سطور میں ذکر ہوئیں اور اگر ان میں تعارض واقع ہوجائے تو اجتہاد سے کام لیا جائے گا۔ جن مقامات کے متعلق کوئی نقلی روایات وارد نہیں ہوئی وہ بہت ہی کم ہیں، ان مقامات کے درست معانی ومفاہیم تک رسائی کے لئے سب سے پہلے لغت عرب میں مفردات کی چھان بین کی جائے گی اور ان کے مدلولات پر غورو خوض کیا جاوے گا اور سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر استعمال کی جانچ پڑتال بھی کی جائے گی ،اسی طریقہ اجتہاد کو امام راغب نے اپنی کتاب ”مفردات القرآن“ میں اختیار فرمایاہے۔ یہ تمام کا تمام زرکشی کا بیان علامہ سیوطی نے نقل فرمایا ہے، اسی طرح راقم کی تائید میں امام سیوطی کا ”المدخل“ سے منقول یہ بیان بھی قابل قدر ہے کہ جو تفسیر شارع علیہ السلام سے منقول ہو، اس کے متعلق غور و فکر کی بالکل ضرورت نہیں اور جس تفسیر کا بیان صاحب شرع سے منقول نہیں ہے ،اس میں اہل علم علماء کو غور وخوض کرنے کی گنجائش ہے، تاکہ علماء کرام غیر منقول تفاسیر کو منقول تفاسیر کی روشنی میں استدلال واستنباط اور اجتہاد کو بروئے کار لاکر واضح بیان فرماسکیں ۔

تفسیر بالراۓ سے کیا مراد ہے ؟
”من تکلم فی القرآن برأیہ فأصاب فقد أخطأ“
ترجمہ:” جس نے قرآن کی تفسیر میں اپنی رائے سے کلام کیاتو باوجود صحیح تفسیر کرنے کے اس نے غلطی کی۔

جان لینا چاہئے کہ مذکورہ بالا حدیث میں ممنوعہ تفسیر بالرأی کی تشریح وتوضیح میں علماء کرام کی آراء مختلف ہیں کہ اس تفسیر بالرأی سے نبی کریم ا کی مراد مبارک کیا ہے؟ یہ الفاظ نسائی‘ ابوداؤد اور ترمذی کے ہیں، جبکہ ایک روایت میں ”من قال“ اور ایک دوسری روایت میں ”من فسر القرآن“ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔

”من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار“
ترجمہ : جس نے قرآن کی تفسیر میں بغیر علم کے کچھ کہا تووہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔

اسی طرح اس حدیث کے متعلق بھی علماء کرام کا اختلاف ہے کہ اس میں تفسیر بدون علم سے کیا مراد ہے؟ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے نقل فرمایا ہے۔ پہلی حدیث کی صحت کے متعلق علماء کرام نے بحث فرمائی ہے اور جب بعض قرائن سے اس کی صحت ثابت ہوئی ،تب علامہ بیہقی نے فرمایا کہ: اس رائے سے مراد -واللہ اعلم- وہ رائے ہے جو بغیر کسی دلیل کے قائم کی جائے ۔ البتہ جو رائے برہان ودلیل سے مؤید ہو ،وہ رائے جائز ہے اور حدیث میں مذکور اس ٹکڑے ”فاصاب فقد اخطأ“ (اگر درست تفسیر بھی بیان کرلے ،تب بھی اس نے غلطی کی) کا مطلب امام سیوطی نے ”المدخل“ سے یوں نقل فرمایا ہے کہ: اگرچہ اس نے تفسیر میں درست تو کہا لیکن اس صحیح رائے زنی کے لئے جو طرز وطریقہ اس نے اختیار کیا، اس میں اس سے خطا ہوئی ،اس لئے کہ صحیح طرز تو یوں تھا کہ سب سے پہلے اس کے الفاظ کی تفسیر کے لئے اہل زبان لوگوں کی طرف رجوع کرتا، پھر اس کے ناسخ و منسوخ اور سبب نزول کے متعلق تأمل وتفحص کرتا اور صحابہ کرام جنہوں نے قرآن کریم کی وحی کے زمانہ کا مشاہدہ کیا ہے اور ہم تک وہ سنن واحادیث نقل فرمائی ہیں جو کلام اللہ کی تفسیر وتشریح میں مددکرتی ہیں، ان کے اقوال واخبار میں جس مقام کی وضاحت مطلوب ہو ،اس کے متعلق غور وفکر کرتا یا پھر اس رائے سے مراد اس شخص کی رائے ہے جو علوم کے اصول وفروع جانے بغیرمحض اپنی اٹکل سے رائے زنی کرے ۔چنانچہ اس کی درست بات سے اگرچہ موافقت بھی ہوجائے گی ،لیکن چونکہ وہ اس درست اور صواب رائے سے ناواقف بھی ہے تو محض اٹکل سے رائے زنی کچھ سود مند اور قابل تعریف نہ ہوئی۔ اور دوسری حدیث کے متعلق علامہ انباری کے بیان کردہ دومعانی میں سے ایک یہ ہے کہ : ”من قال فی القرآن قولاً یعلم ان الحق غیرہ فلیتبوأ مقعدہ من النار“
یعنی جس شخص نے قرآن کی تفسیر وتوضیح میں حق کے خلاف رائے زائی کی، باوجود یکہ حق کو جانتا ہو تو یہ شخص اپنا ٹھکا نہ جہنم بنالے ۔ امام سیوطی نے ”الاتقان“میں لکھا ہے کہ : ابن نقیب حنفی فرماتے ہیں کہ تفسیر بالرأی کے متعلق علماء کرام سے پانچ اقوال منقول ہیں : ⬇

۱- جو علوم تفسیر قرآن کے لئے بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو بدوں حاصل کئے تفسیر قرآن بیان کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ علوم تفسیر کے لئے بمنزلہ شرائط کے ہیں اور ان کے حصول اور ان میں رسوخ کے بغیر تفسیر قرآن جائز نہیں ہے ۔

متشابہات کی تفسیر جن کا حقیقی علم صرف خدائے واحد کو ہے۔
مذہب فاسد کے مطابق تفسیر کرنا، بایں طور کہ مذہب کو اصل اور تفسیر کو تابع بنا دیا جائے کہ جس طرح ممکن ہو گو تفسیر ضعیف بھی ہو،اس کو لے کر مذہب فاسد کے موافق کردیا جائے۔
بغیر کسی دلیل کے قطعی طور پر کسی تفسیر کو خدائے قدوس کی مراد ٹھہرادینا۔
اپنی خواہش وہوس کے پیش نظر تفسیر بیان کرنا۔

اس موقع پر قول فیصل وہ ہے جو امام خازن نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے اور علماء فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں اپنی رائے سے تفسیرکرنے کے متعلق جو ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے، یہ ممانعت اس شخص کے حق میں ہے جو اپنے جی کی مراد اور اپنی من چاہی تاویل وتفسیر بیان کرتاہو ۔ ظاہر ہے کہ یہ شخص علم رکھتا ہوگا یا نہیں ؟ اگر علم رکھتا ہے تو یہ اس شخص کی طرح ہوگا جو قرآن کی بعض آیات کو لے کر اپنی کسی بدعت کے درست اور صواب کے لئے دلیل بناکر پیش کرتا ہے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آیت کی مرادکچھ اور ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنی بدعت کی تصحیح کے لئے آیت کے ذریعے اپنی دلیل کو قوی قرار دے کر مخالف فریق کو التباس و پریشانی میں مبتلا کردے،۔جیساکہ فرقہٴ باطنیہ، خوارج اوردیگر گمراہ فرقوں نے اپنے فاسد مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ وطیرہ استعمال کیا ،تاکہ لوگوں کو دھوکہ وفریب میں مبتلا کریں ،اور اگر قرآن میں یہ رائے زنی بغیر علم کے محض جہالت سے ہو ،بایں طور کہ آیت بہت سی وجوہ واسباب کا احتمال رکھتی ہو اوروہ شخص قرائن سے صرف نظر کرکے ان وجوہ محتملہ کے علاوہ آیت کی کسی اوروجہ سے تفسیر وتشریح کرے ،یہ دونوں طرز، غلط اور قابل مذمت ہیں۔ اور یہ دونوں اس ممانعت اور وعید میں داخل ہیں جو قرآن میں رائے زنی کرنے کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں جو طرز تاویل ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ استنباط واجتہاد سے آیت کو اس کے مطابق معنیٰ کی طرف پھر دیا جائے۔ نیز آیت کا سیاق وسباق اس معنیٰ کا احتمال بھی رکھتا ہو۔ اسی طرح یہ معنیٰ قرآن وسنت کے مخالف بھی نہ ہو، اس کے بارے میں علماء کرام نے رخصت دی ہے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام نے قرآن کی تفسیر بیان فرمائی اوراپنی تفسیری روایات میں ان کے درمیان اختلاف بھی واقع ہوا ،اور یہ بات بھی نہ تھی کہ تمام صحابہ کرام صرف وہی تفسیر کرتے ہو ں،جو انہوں نے نبی پاک ا سے خود سنی ہو، بلکہ جتنا وہ سمجھتے اور لغوی معنیٰ ومفہوم کو جانتے، اس کے بقدر تفسیر بھی فرمایا کرتے تھے (اور یہی تاویل ہے) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے حضرت ابن عباس کے لئے باقاعدہ یوں دعا فرمائی

”اللّٰہم فقّہہ فی الدین وعلّمہ التأویل“

اسی بناء پر صحابہ کرام میں سب سے زیادہ تفسیری روایات انہی کی منقول ہوئی ہیں۔ اگر کسی شخص کی اپنی رائے کے مطابق بیان کردہ تفسیر سے کوئی متفق ومجمع علیہ مسئلہ متغیر نہ ہوتا ہو، اسی طرح سلف صالحین کے متفقہ عقائد میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی ہو تو ایسی تفسیر اس ممنوع تفسیر بالرأی کے ضمن میں شمار نہ ہوگی۔ البتہ اگر کسی متفقہ متواترہ مسئلہ میں تغیر آجائے یا مقررہ عقیدے میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہو، تب یہ تفسیر ‘ممنوعہ تفسیر بالرأی میں شمار کی جائے گی۔ نیز ایسی رائے زنی کرنے والا جہنم کا مستحق ہوگا ۔ یہ بات کہ تفسیر‘ تفسیر بالرأی کے زمرے میں داخل نہ ہو، اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ مفسرین کرام کے طرز طریق سے خوب واقفیت حاصل نہ کرلی جائے ،تب مفسرین نے اپنی بلند پایہ ذہانت اورصحیح فکر کی روشنی میں جوتفسیر بیان فرمائی، اس کے متعلق کسی قسم کا قلق وتردد نہ ہوگا ، اور جو شخص بھی کتب تفاسیر کا مطالعہ کرے گا ،وہ ان کو مفسرین کی آراء سے لدا ہوا پائے گا اور کون ہے جو علماء کرام کو سیاق و سباق میں تأمل وتدبر کرکے‘ الفاظ ونصوص کے حقائق میں غور و طلب کے ساتھ عقائد سلف صالحین کی رعایت رکھتے ہوئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے سے روکے ، حالانکہ ان علماء کےلیے تو قرآن کریم کا یہی انعام و اکرام ہے اور یہ علماء کرام ہی ہیں جو قرآنی عجائبات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، اس کی باریک و پوشیدہ وجوہات سے پردے اٹھا سکتے ہیں اور اس کے حقائق میں چھپے معارف کے خزینوں کو آشکارائے خلائق کرسکتے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تفسیر بالرأی تو علماء کرام کا تحفہ ہے اور محقق مجتہدین کا خاصہ ہے ۔ علاوہ ازیں جو شخص معاون اسباب تفسیر کی رہنمائی کے بغیرتفسیر قرآن کرے کہ نہ تو وہ سلف وخلف کے عقائد کے متعلق علم رکھتا ہو ، نہ عربی زبان سے اس کو کچھ ذوق ہو ، بلکہ بے وقوف اور ناخلف ہو کہ اس کو قرآن کی تفسیر بیان کرنے پر اس کی رسوائی اور قلت علم ، بلکہ جہالت نے برانگیختہ کیا ہو تو ایسے شخص پر سخت افسوس کرنا چاہیے اور ایسا آدمی دوزخ کا بھی مستحق ٹھہرے گا۔

علامہ ثعلبی جزاری علیہ الرحمہ نے ”الجواہر الحسان“ میں پہلی حدیث کی شرح و بسط میں اچھی بحث فرمائی ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ : اس کا مطلب یہ ہے کہ ”کسی شخص سے قرآنی آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا جائے اور وہ بے دھڑک اپنی رائے پیش کر دے ، نہ علماء کرام کے کلام میں غور و خوض کرے ، نہ علوم کے قوانین کے مقتضیات سے واقفیت رکھتا ہو ، مثلاً : نحو اور اصول سے نابلد ہو ، اس حدیث میں یہ بات داخل نہیں جو نحاة نے اپنی نحوی تفسیر اور فقہاء نے فقیہانہ طرز پر قرآن کی تفسیر کے متعلق کلام فرمایا ہے ‘ بایں طور کہ ہر فریق اپنے علم و فہم اور قوانین مقررہ کے پیش نظر اپنے اجتہادات سے کی گئی تفسیر قرآن میں کلام کرے ، اس لیے کہ ان باتوں پر دسترس رکھنے والا محض رائے زنی نہیں ، کبار اسلاف جیسے سعید بن مسیب‘  عامر شعبی رضی اللہ عنہما جیسے حضراتِ گرامی تفسیر قرآن کو قابل عظمت سمجھتے تھے ، لیکن تقویٰ و احتیاط برتتے ہوئے تفسیر قرآن بیان کرنے سے توقف فرمایا کرتے تھے ،باوجود اس کے کہ ان کا ادراک بھی بلند پایہ تھا اور فہم و فراست میں بھی وہ اپنے بعد والوں سے سبقت رکھتے تھے ۔ مذکورہ بالا تمام اقوالِ اسلاف علیہم الرحمہ صاحبِ بصیرت شخص کےلیے کافی ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں

0 comments

عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں

محترم قارئینِ کرام : ابتدائے اسلام میں عورتوں کو دین کے بنیادی احکامات ،مسائل اور آداب سے روشناس کرنے کےلیے مختلف اجتماعات مثلاً فرض نماز ،جمعہ ، عیدین وغیرہ میں شرکت کی اجازت تھی ۔ جب یہ ضرورت پوری ہوئی اور عورتیں بنیادی مسائل و احکام سے واقف ہو گئیں تو انہیں ان اجتماعات سے روک دیا گیا ۔ مندجہ ذیل روایات اس پر شاہد ہیں  : ⬇

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَوْاَدْرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَااَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ۔ (صحیح البخاری ج1ص120 باب خروج النساء الی المساجد الخ)(صحیح مسلم ج1ص183 باب خروج النساء الی المساجدالخ)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں کو مسجد جانے سے ضرور روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَا یُخْرِجُ نِسَاءَ ہٗ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیویوں کو نماز عیدین کےلیے نہیں جانے دیتے تھے ۔

عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہٗ کَانَ لَایَدَعُ اِمْرَأۃً مِّنْ اَھْلِہٖ تَخْرُجُ اِلٰی فِطْرٍ وَلَااَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر بن عوام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھنے کےلیے نہیں جانے دیتے تھے ۔

عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ القَاسِمِ قَالَ کَانَ الْقَاسِمُ اَشَدَّ شَیْئٍ عَلَی الْعَوَاتِقِ ، لَایَدَعُھُنَّ یَخْرُجْنَ فِی الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج4ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ نوجوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے کہ انہیں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ میں نہیں جانے دیتے تھے۔

عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ یُکْرَہُ خُرُوْجُ النِّسَائِ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234 ،باب من کرہ خروج النساء الی العیدین،چشتی)
ترجمہ : جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نمازوں کےلیے جانا مکروہ ہے ۔

عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل : جمعہ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں پر واجب نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی ، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں ، میلی کچیلی جائیں ، زینت نہ لگائیں ، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”لا تمنعوا نسائکم المساجد، وبیوتھن خیر لھن۔ترجمہ۔”اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کےلیے زیادہ بہتر ہیں ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶،چشتی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا۔ترجمہ:عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)

اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کا ارشاد ہے:لو ادرک رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ۔
ترجمہ : عورتوں نے جو نئی رَوش اختراع کرلی ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔(صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴)

عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي ۔
ترجمہ : حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) نماز پڑھوں''آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا''مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نمازپڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے(اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنانے کا) حکم دیا چنانچہ ان کے لئے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا (یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بناگیا) اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ رب العالمین سے جا ملیں۔(رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال و صحیح الترغیب والترہیب حدیث:٣٣٨،چشتی)

عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر برپا ہونے والے فتنہ کے متعلق یہ حديث صحيح ہے ، اسے ترمذی نے اس لفظ کے ساتھہ ذکر کیا ہے : عورت پوشیدہ رکھنے کی چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے ۔ (سنن ترمذی، جلد 3، صفحہ 476، حدیث نمبر 1173)(صحیح ابنِ خزیمہ، جلد 3، صفحہ 93،94 حدیث نمبر 1687-1685)(صحیح ابنِ حبان، جلد 12، صفحہ 412،413، حدیث نمبر 5599-5598)(طبرانی نے اسے المعجم الکبیر کی جلد 8، صفحہ 101، حدیث نمبر 10115 )(المعجم الاوسط میں جلد 8، صفحہ 101 حدیث نمبر 8096،چشتی)(مسند بزار، البحر الزخار، جلد 5، صفحہ 428-427، حدیث نمبر 2061،2062،2065 )(ابنِ عدی نے کتاب الکامل، جلد 3، صفحہ 423 سوید بن ابراہم کی سوانح عمری میں نقل کیا)

مختصر شرح حدیث : عورت جب تک پردہ میں رہے گی یہ اس کےلیے زیادہ بہتر اور حفاظت کا باعث ہے، اور وہ اپنے فتنے اور اپنے ذریعہ دوسروں کو فتنے میں ڈالنے سے دور رہے گی، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس میں راغب ہوتا ہے تو وہ اسے گمراہ کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے، مگر اللہ جس پر رحم کردے، اس لئے کہ اسی نے شیطان کو اپنے اوپر غالب آنے کے اسباب میں سے ایک سبب دیا، اور وہ اس کا اپنے گھر سے نکلنا ہے، مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے حق میں مشروع ہے کہ وہ اپنے گھر کو لازم پکڑے رہے، اور گھر سے کسی ضرورت کی بنا پر اپنے پورے جسم کا مکمل پردہ کرکے نکلے، اور زینت اور خوشبو استعمال نہ کرے، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان:وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۔(الاحزاب، آیت 33)(ترجمہ: ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎؤکا ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ۔  پر عمل ہوجائے: اور الله سبحانه و تعالى كا فرمان:وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ۔(الاحزاب آیت 53)ترجمہ: ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ۔  ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ ۔ورنہ وہ فاسق و فاجر لوگوں کے جال میں پھنس جائیگی، بالخصوص بازاروں اور پارکوں اور مخلوط جگہوں میں، اور اس زمانے میں تو ایسی جگہیں بہت ہیں:مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ ۔ (صحيح البخاري ومسلم) میں نے اپنے بعد مرد حضرات کےلیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیویاں  نماز عید کےلیے عید گا نہیں جاتی تھیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5845)

حضرت عروہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی  گھر کی کسی عورت کو نماز عید کےلیئے عید گاہ نہیں جانے دیتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5846)

حضرت قاسم بن حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے انہیں عیدین کی نماز کےلیے عید گاہ نہیں جانے دیتے تجھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5847 )

جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  عورتوں کو عیدین کی نماز کےلیے جانا مکروہ ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5844،چشتی)

امتدادِ زمانہ کی وجہ سے جب حالات بدل گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے مشورہ سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا ۔(یعنی اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم  ہے) ۔ غور کیا جائے تو آج کا زمانہ نہ تو سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد مبارک کے جیسا ہے اور نہ ہی احکامِ شریعت کی پابندی و پاسداری اُس عہد مبارک جیسی ہے۔ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے فتنہ کو اپنے عہد مبارک میں ہی جان لیا سو عورتوں کی مسجدوں میں نماز پر پابندی لگا دی ۔

مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیئے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔(رواہ أحمد، مشکواة)

غور کریں اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اور اسی سزا کی مستوجب ہوتیں ۔

مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب و فضیلت کی وجہ سے نہ تھا ، بلکہ محض مباح تھا ۔ کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اور جماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں ۔ اگر عورتوں کےلیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیئے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے ؟
شاید یہ لوگ اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں ۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے ، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا، مستحب یا سنت مٶکدہ ہے ، عورتوں کو چونکہ آپ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا، تو اس اباحت ورخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انھیں حاصل تھا؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں ۔

مختصر یہ کہ شریعت نہیں بدلی ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو شریعت کے بدلنے کا اختیار نہیں ، لیکن جن قیود و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی ، جب عورتوں نے ان قیود و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا تو اجازت بھی باقی نہیں رہے گی ، اس بنا پر فقہائے اُمت علیہم الرحمہ نے ، جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں ، عورتوں کی مساجد میں حاضری کو مکروہ قرار دیا، گویا یہ چیز اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے ، مگر کسی عارضے کی وجہ سے ممنوع ہوگئی ہے ۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ وبا کے زمانے میں  کوئی طبیب امرود کھانے سے منع کر دے ، اب اس کے یہ معنی نہیں کہ اس نے شریعت کے حلال و حرام کو تبدیل کر دیا ، بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک چیز جو جائز و حلال ہے ، وہ ایک خاص موسم اور ماحول کے لحاظ سے مضرِ صحت ہے ، اسی لیے اس سے منع کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ احکامِ شرع کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday 28 June 2023

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ دوم

0 comments

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ دوم

دوسرا موقف : ارشادِ باری تعالیٰ ہے ہے : اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ ۔وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (سورة الممتحنہ : 9)
ترجمہ : اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے مخالفین کی) مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ظالم ہیں ۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں کفار کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا ، یہاں ان سے دوستی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو : ⬇

مُوالات (یعنی کفار کے ساتھ دوستی) کی دو قسمیں  ہیں  :

(1) ۔ حقیقی موالات : اس کی ادنیٰ صورت قلبی میلان ہے ، یہ تمام صورتوں میں ہر کافر سے مُطْلَقاً ہر حال میں حرام ہے البتہ طبعی میلان جیسے ماں باپ ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف غیر اختیاری طور پر ہوتا ہے یہ اس حکم میں داخل نہیں پھر بھی اس تَصَوُّر سے کہ یہ اللّٰہ و رسول کے دشمن ہیں اور ان سے دوستی حرام ہے ، اپنی طاقت کے مطابق اس میلان کو دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کر دینا لازم ہے ، اس میلان کا آنا بے اختیار تھا اور اسے زائل کرنا قدرت میں  ہے تو اسے رکھنا دوستی کو اختیار کرنا ہوا اور یہ حرامِ قطعی ہے اسی لئیے جس غیر اختیاری چیز کے ابتدائی اُمور کسی شخص نے اپنے اختیار سے پیدا کیے تو اس میں  اس کا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا جیسے شراب سے عقل زائل ہو جانا اختیار میں نہیں  لیکن جب اختیار سے پی تو عقل کا زوال اور اس پر جو کچھ مُرَتَّب ہوا سب اسی کے اختیار سے ہو گا ۔

(2) ۔ صورۃً مُوالات : اس کی صورت یہ ہے کہ بندے کا دل کافر کی طرف اصلاً مائل نہ ہو لیکن اس سے برتاؤ ایسا کرے جو بظاہر محبت و میلان کا پتا دیتا ہو ۔ یہ ضرورت اور مجبوری کی حالت میں صرف ضرورت و مجبوری کی مقدار مُطْلَقاً جائز ہے اور بقدرِ ضرورت یہ کہ مثلاً صرف عدوات کااظہار نہ کرنے سے کام نکلتا ہو تو اسی قدر پر اِکتفاء کرے اور اظہارِ محبت کی ضرورت ہو تو حتّی الامکان پہلودار بات کہے ، صراحت کے ساتھ اظہار کرنے کی اجازت نہیں ، اور اگر اس کے بغیر نجات نہ ملے اور دل ایمان پر مطمئن ہو تو صراحت کے ساتھ اظہار کی رخصت ہے اور اب بھی عزیمت یہی ہے کہ  ایسا نہ کرے ۔ (فتاوی رضویہ ، رسالہ : المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۷،چشتی)

تفسیر دونوں  آیات کا خلاصہ ملاحظہ ہو ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ تمہیں  ان کافروں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں  کرتا جنہوں نے تم سے دین میں  لڑائی نہیں کی اورنہ تمہیں  تمہارے گھروں سے نکالا ، بیشک اللّٰہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں  سے محبت فرماتا ہے اور وہ تمہیں  صرف ان کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں  نے تمہیں  تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں  نکالنے پر تمہارے مخالفین کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ (تفسیر خازن، الممتحنۃ الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۲۵۸)

قربانی کا گوشت مسلمانوں میں سے جسے چاہیں دیں اس کے مصارف کوئی محدود ومتعین نہیں ہیں ہاں کفار حربی کو دینا جائز نہیں کیونکہ قربانی کا گوشت غریبوں کے علاوہ متعلقین ہی کو دیاجاتاہے ، یہ آپس میں محبت و انسیّت کو بڑھانےکا ایک اہم ذریعہ ہے اور کفار حربی سے ایسے تعلقات ناجائز حرام ہیں ۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ ۔وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (سورة الممتحنہ : 9)
ترجمہ : اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے مخالفین کی) مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ظالم ہیں ۔

کافر کی تین قِسمیں ہیں : ⬇

(1) حربی (2) مستامن (3) ذِمی

حربی : وہ کافر جس نے مسلمانوں سے جزیہ کے عِوَض عقد ذمہ ( یعنی اپنی جان اور مال کی حفاظت کا عہد) نہ کیا ہو ۔(الموسوعۃ الفقہیة، جلد7، صفحہ 104، مطبوعہ بیروت،چشتی)

مستامن : وہ جو غیر قوم کی سلطنت میں اَمَان لیکر گیا جیسے حربی دار الاسلام میں اَمَان لیکر گیا تو مستامن ہے ۔ (الدُّر المختار، کتاب الجھاد، بابُ المستامن، جلد 6، صفحہ 262، مطبوعہ بیروت)(بہارِشریعت، جلد 2، صفحہ 443,، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی شریف)

ذِمی : اس کافر کو کہتے ہیں جس کی جان و مال کی حفاظت کا بادشاہِ اسلام نے جزیہ کے بدلے ذِمہ لیا ہو ۔ (فتاویٰ فیضُ الرّسول، جلد 1،صفحہ 501، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

ان میں سے صرف ذِمی کو گوشت دینا جائز ہے جیسا کہ فتاویٰ ھندیہ میں ہے : یھب منھا ماشاء للغنی والفقیر والمسلم و الذِمی ۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد5، صفحہ 2644، مطبوعہ مصر،چشتی)
ذِمی کو گوشت دینا جائز ہے ۔ پاکستان دار السلام ضرور ہے مگر یہاں کے سارے کافر شرائط مفقود ہونے کی وجہ سے حربی ہیں کوئی بھی کافر ذِمی نہیں لہذا ان حربی کافروں کو قربانی گوشت دینا جائز نہیں ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں وہ خاص مسلمانوں کا حق ہے : الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ - (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 457، مطبوعہ رضا فاؤنڈیش لاھور،چشتی)(تلخیص فتاویٰ رضویہ، صفحہ 3077، ناشر اکبربکسیلز لاھور)

مزید لکھتے ہیں کہ : لہذا انہیں(گوشت) دینا خلافِ مستحب ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 456، مطبوعہ رضا فاؤنڈیش لاھور)(تلخیص فتاویٰ رضویہ، صفحہ 3077، ناشر اکبربکسیلز لاھور)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ : کسی کافر کو اصلاً نہ دے کہ یہ کفّار ذِمی نہیں تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ کوئی صدقہ اصلاً کچھ ثواب نہیں رکھتا جیسا کہ دُرِّ مختار میں ہے : امّا الحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لا تجوز لہ اتّفاقاً بحر عن الغایة وغیرھا ۔ الخ ۔ (فتاویٰ افریقہ، صفحہ 19,20 ، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لاھور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں  (بہارِ شریعت، جلد 3، صفحہ 345، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی شریف،چشتی)

فتاویٰ حنفیہ میں ہے کہ : قربانی کا گوشت کافر کو دینا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ حنفیہ، صفحہ 261، اکبر بُکسیلرز لاھور)

اسی طرح فقیہِ ملت میں ہے : یہاں کافر کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فقیہِ ملت، جلد 1، صفحہ501، مطبوعہ شبیر برادز لاھور)

یہی بات فتاویٰ امجدیہ میں مرقوم ہے : غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ہے ۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 3، صفحہ 318، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

فقیہِ ملت حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ : قربانی کا گوشت کافر کو دینا شرعاً جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فیضُ الرّسول، جلد 2، صفحہ 457, 468، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور،چشتی)

مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف میں درج ہے کہ : انما ینھٰکم اللہ عن الذین قتلوا کم ۔ (سورة الممتحنہ : 9) ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ : انہیں قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ۔ (مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف، صفحہ 251، مطبوعہ اکبر بکسیلرز لاھور)

قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو نہیں دے سکتے ۔ (جن کو دے سکتے ہیں وہ قسم پائی ہی نہیں جاتی لہٰذا ان حربیوں کو دینا ناجائز ٹھہرا) ۔ ہاں اگر کافر مسلمان کا نوکر ہے اور اس کی اجرت میں قربانی کا گوشت دے دے تو حرج نہیں کہ وہ اس کے اپنے ہی صرف میں آیا ہے ۔ یونہی اگر اسے بطورِ انعام اس اُمید پر دے کہ مزدور خوش دل کندکار بیش تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ مصطفویہ، صفحہ 450، مطبوعہ شبیر برادرز لاھور)

درمختار میں ہے : وأما الحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا ۔ (الدر المختار مع حاشية ابن عابدين ,2/352)
یعنی حربی کافر اگرچہ دار الاسلام میں امان لے کر داخل ہوا ہو مگر اسے کوئی بھی صدقہ دینا جائز نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ بحر العلوم، كتاب الاضحية، ج:5، ص: 203)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کفار حربی کو تحفہ دینا جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ مترجم جلد 14 صفحہ 121)

مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تو حربی کافر کو قربانی کا گوشت دینا چاہیے نہ کوئی اور شئی ۔ (فتاوی مصطفویہ صفحہ 450 )۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ اوّل

0 comments
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیناحصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اس مسٸلہ کے بارے میں علما کے دو موقف ہیں جواز اور عدمِ جواز فقیر نے کچھ عرصہ قبل اس پر لکھا تھا ۔ اب احباب کے حکم پر دوبارہ مضمون کو ترتیب دے کر دونوں موقف پیش کر دیے تاکہ فیصلہ کرنا آسان ہو ۔ مشرکین کو قربانی کا گوشت دینا نا جائز ہونے کے سلسلے میں "شعب الایمان" اور "کنز العمال" میں ایک حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین کو قربانی کا گوشت دینے سے منع فرمایا اس کی عبارت یہ ہے : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ، نُطْعِمُهُمْ مِنْ نُسُكِنَا، قَالَ : لَا تُطْعِمُوا الْمُشْرِكِينَ شَيْئًا مِنَ النُّسُكِ ۔ سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَطَاءٍ ، وَأَبُوهُ ضُعَفَاءُ ، غَيْرَ أَنَّهُمْ غَيْرُ مُتَّهَمِينَ بِالْوَضْعِ ۔ امام بیہقی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب "شعب الایمان" میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھتے ہیں اس کی سند میں تین راوی ضعیف ہیں ۔ لہٰذا یہ حدیث ثبوت کے اعتبار سے "ظنی" ثابت ہوئی ، اور چونکہ عبارت کے مفہوم میں کوئی تاویل نہیں لہٰذا دلالت کے اعتبار سے "قطعی" ثابت ہوئی ، یعنی یہ حدیث "ظنی الثبوت" اور "قطعی الدلالة" ہے اور اس نوعیت کی حدیث سے "واجب اور "مکروہ تحریمی" ثابت ہوتی ہے ۔ لہٰذا مطلق طور پر مشرکین کو قربانی کا گوشت دینا مکروہ تحریمی ثابت ہونے کےلیے مذکورہ حدیث کافی تھی ۔ لیکن علماء کرام سے یہ بات مخفی نہیں کہ "ذمی کافر و مشرک" کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ۔ پتہ چلا مذکورہ حدیث اپنے معنی میں مطلق نہیں بلکہ مقید ہے ، کیونکہ اس کے مقابلے میں قرآن کی آیت موجود ہے : لَّیۡسَ عَلَیۡكَ هُدَىٰهُمۡ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ یَهۡدِی مَن یَشَاۤءُۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنۡ خَیۡرࣲ فَلِأَنفُسِكُمۡۚ ۔
ترجمہ : انہیں راہ دینا تمہارے ذمہ لازم نہیں ، ہاں اللہ راہ دیتا ہے ، اور تم جو اچھی چیز دو تو تمہارا ہی بھلا ہے ۔ (یعنی ان کفار کو صدقۂ نافلہ دو ۔ (سُورَةُ البَقَرَةِ آیت نمبر ٢٧٢)

جیساکہ "البانیہ شرح الہدایہ" میں ذمی کو صدقۂ نافلہ دینا جائز ہونے پر اسی آیت کریمہ کو دلیل بنایا گیا ہے ۔ اور یہاں پر "ذمی" کا ذکر قیدِ احترازی نہیں بلکہ قید اتفاقی ہے کیونکہ "مستامن" کو بھی صدقۂ نافلہ دینا جائز ہے ۔ جیساکہ عالمگیری میں لکھا ہے : وَأَمَّا الْحَرْبِيُّ الْمُسْتَأْمَنُ فَلَا يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ وَالصَّدَقَةِ الْوَاجِبَةِ إلَيْهِ بِالْإِجْمَاعِ وَيَجُوزُ صَرْفُ التَّطَوُّعِ إلَيْهِ كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاج ۔ (فتاویٰ عالمگیری ١٨٨/١،چشتی)

اور قربانی کا گوشت تقسیم کرنا صدقۂ نافلہ ہی ہے جیساکہ شامی میں لکھا ہوا ہے : وَالتَّصَدُّقِ بِاللَّحْمِ تَطَوُّعٌ ۔ (الدر المختار و رد المحتار، ٣٢٨/٦)

"شعب الایمان" اور "کنز العمال" کی مذکورہ حدیث کے مقابلے میں صرف یہی آیت نہیں بلکہ ایک اور آیت موجود ہے : لَّا یَنۡهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِینَ لَمۡ یُقَـٰتِلُوكُمۡ فِی ٱلدِّینِ وَلَمۡ یُخۡرِجُوكُم مِّن دِیَـٰرِكُمۡ أَن تَبَرُّوهُمۡ وَتُقۡسِطُوۤا۟ إِلَیۡهِمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلۡمُقۡسِطِینَ ۔
ترجمہ : اللّٰہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاو کرو ۔ (سُورَةُ المُمۡتَحنَةِ آیت نمبر ٨)

یعنی وہ کفار و مشرکین جو مسلمانوں سے لڑتے نہیں ان کے ساتھ رواداری اور بہتر سلوک کرنے سے اللہ تعالیٰ منع نہیں فرماتا ۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں بھی وضاحت کے ساتھ یہ بات لکھی ہوئی ہے : إذَا كَانَ حَرْبِيًّا فِي دَارِ الْحَرْبِ وَكَانَ الْحَالُ حَالَ صُلْحٍ وَمُسَالَمَةٍ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَصِلَهُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة ۔
ترجمہ : دار الحرب میں حربی کافر کا حال جب مصالحت اور مسالمت ہو تو ان سے صلہ رحم کے طور پر کچھ دینے میں حرج نہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری ٣٤٧/٥،چشتی)

اور قربانی کا گوشت دینا جب صدقۂ نافلہ ہے تو اس سے بھی کوئی حرج نہیں ۔

پتہ چلا مذکورہ حدیث صرف ان مشرکین کے متعلق ہے جو مسلمانوں سے جھگڑتے اور لڑتے ہیں اور یہ بھی قران ہی میں موجود ہے سورۂ ممتحنہ کی مذکورہ آیت کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا : إِنَّمَا یَنۡهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِینَ قَـٰتَلُوكُمۡ فِی ٱلدِّین ۔
ترجمہ : یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں ان کفار و مشرکین کے ساتھ موالات قائم کرنے سے روکتا ہے جو دین کے معاملے تم سے لڑتے ہیں ۔

مذکورہ بالا حدیث کی تمام شقیں خود قرآن میں موجود ہے اس لیے فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے اس حدیث کی طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو فتاویٰ رضویہ میں نقل کیا ہے ۔ ورنہ مطلق طور پر کفار کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ثابت کرنے کےلیے یہی حدیث سب سے زیادہ موزون تھی ، اس کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے فتویٰ میں اس کو نقل نہیں کیا ۔

واضح رہے کہ قربانی میں واجب اراقہ دم (خون بہانا) ہے ، جو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے ادا ہوجا تا ہے ، گوشت تقسیم کرنا واجب نہیں ، بلکہ قربانی کرنے والا خود بھی استعمال کرسکتا ہے اور دوسرے کو بھی ہدیہ کر سکتا ہے ، اور ہدیہ غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے ، جب کہ صدقات واجبہ کا مصرف مسلمان فقیر ہے ، لہٰذا غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ، یہی وجہ ہے کہ قربانی کی نذر ماننے کی صورت میں قربانی کا گوشت واجب التصدق ہو جاتا ہے اور اسے امیر یا غیر مسلم کو نہیں دے سکتے ۔

لما في التنوير مع الدر : (وركنها) ذبح (ما يجوز ذبحه) من النعم لا غير .... (فتجب) التضحية: أي إراقة الدم من النعم عملا لا اعتقادا ۔ (كتاب الأضحية: ۵۲۱/۹: دار المعرفة بيروت)

وفي رد المحتار : (قوله:أي إراقة الدم) قال في الجوهرة: والدليل على أنها الإراقة لو تصدق بين الحيوان لم يجز، والتصدق بلحمها بعد الذبح مستحب وليس بواجب.١ھ ۔ (رد المحتار كتاب الأضحية : ٩/٥٢١: دار المعرفة بيروت)
وفيه : (قوله: ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحيه الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي.١ھ ۔ رد المحتار كتاب الأضحية : ٩/۵۴۱: دار المعرفة، بيروت لبنان،چشتی)

وفي اعلاء السنن : وللمضحي أن يهب كل ذالك أو يتصدق أو يهدية لغني أو فقير أو كافر ۔ (كتاب الأضحية: باب بيع جلد الأضحية: ٧/٣٥٨: إدارة القرأن والعلوم الإسلامية كراتشي)

قربانی کا گوشت کچا یا پکا ہوا جس طرح سے غریبوں کے علاوه امیروں کو دینا جائز ہے اسی طرح سے قربانی کا گوشت کچا یا پکا ہوا (ہندو یا غیر مسلم) کو دینا جائز ہے ۔ کیونکہ گوشت کا صدقہ کرنا واجب نہیں بلکہ ( ہدیه ، تحفہ ) ہے یا نفلی صدقہ ہے اور یہ دونوں ( کافر و غیرمسلم ) کو دینا درست اور صحیح ہے ۔ ولمافی فتاوی عالمگیریه : ویهب منها ( ای من الاضحیه ) ماشاء للغنی والفقیر والمسلم والذمی ۔

قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے : ⬇

قال الله تعالى : وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ۔ (سورة الحج: ٢٨)

وللمضحي أن یهب کل ذٰلک أو یتصدق به أو یهدیه لغني أو فقیر مسلم أو کافر ۔ (إعلاء السنن/ باب بیع جلد الأضحیة 17/ 262 إدارة القرآن کراچی)

ویهب منها ما شاء للغني والفقیر والمسلم والذمي ۔ (الفتاویٰ الهندیة/ الباب الخامس في بیان محل إقامة الواجب 5/ 300 زکریا)

یجوز أن یطعم من الأضحیة کافرًا ۔ (إعلاء السنن 7/ 288 کراچی)

ویطعم الغني والفقیر، ویهب منها ما شاء لغني ولفقیر ولمسلم وذمي، ولو تصدق بالکل جاز. ولو حبس الکل لنفسه جاز ۔ (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار/ کتاب الأضحیة 4/ 166 کراچی،چشتی)

قربانی کا گوشت صدقاتِ نافلہ سے ہے کیوں کہ وجوب اور اصل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہا دینے سے ہی ادا ہو چکی ہے ۔ صدقات واجبہ یا نافلہ کا کافرِ حربی ، ذمی یا مستامن پر خرچ کرنے کے سلسلے میں علما کے نزدیک یہاں کچھ تفصیل ہے ، پہلے یہاں ان تفصیلات کا ذکر کیا جاتا ہے : ⬇

صاحب الدر علاء الدین حصکفی حنفی علیہ الرحمہ (۱۰۸۸ھ) نے اپنا مذہب اس طرح بیان کیا ہے : (وَجَازَ) دَفْعُ (غَيْرِهَا وَغَيْرِ الْعُشْرِ) وَالْخَرَاجِ (إلَيْهِ) أَيْ الذِّمِّيِّ وَلَوْ وَاجِبًا كَنَذْرٍ وَكَفَّارَةٍ وَفِطْرَةٍ خِلَافًا لِلثَّانِي وَبِقَوْلِهِ يُفْتِي حَاوِي الْقُدْسِيِّ وَأَمَّا الْحَرْبِيُّ وَلَوْ مُسْتَأْمَنًا فَجَمِيعُ الصَّدَقَاتِ لَا تَجُوزُ لَهُ اتِّفَاقًا بَحْرٌ عَنْ الْغَايَةِ وَغَيْرِهَا، لَكِنْ جَزَمَ الزَّيْلَعِيُّ بِجَوَازِ التَّطَوُّعِ لَهُ ۔ (الدر المختار، ۲/۳۸۵)

زکات ، عشر اور خراج کے علاوہ دوسرے صدقات واجبہ جیسے نذر ، کفارہ ، فطرہ وغیرہ اور صدقاتِ نافلہ ذمی کو دینا جائز ہے ۔ لیکن امام ابو یوسف کا مذہب امام ابو حنیفہ اور امام محمد سے الگ ہےاور امام ابو یوسف کے مذہب کو حاوی القدسی نے مفتیٰ بہ قرار دیا ہے ۔ اگرچہ اکثر متون میں اس کے بر خلاف قول کو مفتی بہ قرار دیا گیا ہے ۔

کافر حربی کو اگرچہ مستامن ہو کسی بھی طرح کے صدقات خواہ نافلہ ہو کہ واجبہ ، دینا باتفاق جائز نہیں ہے ۔ لیکن امام زیلعی نے مستامن کو صدقات نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے ۔

علامہ شمس الدين شربينی شافعی علیہ الرحمہ (۹۷۷ھ) کا قول بھی اسی سے قریب ہے ، آپ لکھتے ہیں : قَضِيَّةُ إطْلَاقِهِ الْكَافِرَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْحَرْبِيِّ وَغَيْرِهِ، وَهُوَ مَا فِي الْبَيَانِ عَنْ الصَّيْمَرِيِّ. وَالْأَوْجَهُ مَا قَالَهُ الْأَذْرَعِيُّ مِنْ أَنَّ هَذَا فِيمَنْ لَهُ عَهْدٌ أَوْ ذِمَّةٌ، أَوْ قَرَابَةٌ، أَوْ يُرْجَى إسْلَامُهُ، أَوْ كَانَ بِأَيْدِينَا بِأَسْرٍ وَنَحْوِهِ، فَإِنْ كَانَ حَرْبِيًّا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مِمَّا ذُكِرَ فَلَا ۔ (مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنهاج، 4/ 195،چشتی)

صاحب کتاب کا ہر قسم کے کافر کو صدقہ نہ دینے سے منع کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کے نزدیک کافر حربی اور غیر حربی میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اور بیان میں بھی صمیری کے حوالے سے یہی منقول ہے لیکن زیادہ راجح وہی ہے جو امام اذرعی نے کہا کہ صدقہ سے مطلق منع ان کا فروں کے لیے ہے جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہ ہو ، نہ ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو اور نہ کوئی قرابت یا رشتہ داری ہو ، نہ جن کے اسلام لانے کی امید ہو ، نہ وہ ہمارے قید میں ہوں ۔ یعنی وہ خالص حربی ہو ، مذکورہ بالا اوصاف میں سے کوئی وصف اس کے اندر نہ ہو تو انھیں کچھ نہیں دیا جائے گا نہ صدقہ واجبہ ، نہ نافلہ ۔

انقاق فی سبیل اللہ چوں کہ ثواب کا کام ہے اور کافرِ حربی پر خرچ کرنے سے ثواب نہیں ملے گا ،اس لیے ان فقہا نے ذمی کےلیے تو جائز قرار دیا ہے لیکن حربی کافر پر مال کے خرچ کرنے کو بے مقصد ہونے کی وجہ سے خلافِ مستحب قرار دیا ہے ، نہ کہ حرام ، اسی بے مقصد اور خلافِ مستحب عمل کو بعض لوگوں نے ناجائز ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ لیکن متقدمین فقہا علیہم الرحمہ کی ایک جماعت نے تالیفِ قلب ، صلہ رحمی اور دعوتِ حق کے مدِ نظر کافر کو مطلقاً صدقاتِ نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے ، اس میں انھوں نے حربی اور ذمی کا فرق نہیں کیا ہے ۔ مدون و ترجمان فقہ حنفی امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ (۱۸۹ھ) لکھتے ہیں : لَا بَأْسَ بِأَنْ يَصِلَ الْمُسْلِمُ الْمُشْرِكَ قَرِيبًا كَانَ أَوْ بَعِيدًا ، مُحَارِبًا كَانَ أَوْ ذِمِّيًّا لِحَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ : صَلَّيْت الصُّبْحَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْت مَسَّ كَفٍّ بَيْنَ كَتِفِي ، فَالْتَفَتّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : هَلْ أَنْتَ وَاهِبٌ لِي ابْنَةَ أُمِّ قِرْفَةَ ؟ قُلْت : نَعَمْ . فَوَهَبْتهَا لَهُ. فَبَعَثَ بِهَا إلَى خَالِهِ حَزَنَ بْنِ أَبِي وَهْبٍ ، وَهُوَ مُشْرِكٌ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ . وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ إلَى مَكَّةَ حِينَ قَحَطُوا ، وَأَمَرَ بِدَفْعِ ذَلِكَ إلَى أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ لِيُفَرِّقَا عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ مَكَّةَ . فَقَبِلَ ذَلِكَ أَبُو سُفْيَانَ ، وَأَبَى صَفْوَانُ وَقَالَ : مَا يُرِيدُ مُحَمَّدٌ بِهَذَا إلَّا أَنْ يَخْدَعَ شُبَّانَنَا وَلِأَنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحْمُودٌ عِنْدَ كُلِّ عَاقِلٍ وَفِي كُلِّ دِينٍ ، وَالْإِهْدَاءَ إلَى الْغَيْرِ مِنْ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ . وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { بُعِثْت لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ فَعَرَفْنَا أَنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ جَمِيعًا . (السیر الكبیر، باب صلۃ المشرك، 1/ 96،چشتی)
ترجمہ : امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلمان مشرک کے ساتھ صلہ رحمی کرے چاہے و ہ مشرک قریب کا رہنے والا ہو یا دور کا ، حربی ہو یا کہ ذمی ہو جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی ، پھر مجھے اپنے کاندھے پر کسی ہتھیلی کے مس ہونے کا احساس ہوا تو میں پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم مجھے ام قرفہ کی بیٹی کےلیے کچھ ہدیہ دوگے میں نے عرض کیا جی ہاں ، اس کے بعد میں نے آپ کو اس کےلیے ہدیہ دیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہدیہ لے کر اس کےمامو حزن بن ابی وہب کے پاس بھیجا جو کہ اس وقت مشرک تھا اور ام قرفہ کی بیٹی بھی اس وقت تک مشرک ہی تھی ۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ میں قحط سالی کے وقت پانچ سو دینار بھیجا اور حکم دیا کہ وہ دینار ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو دے دیا جائے تاکہ وہ دونوں مکہ کے فقراء کے درمیان اس دینار کو تقسیم کردیں ، ابو سفیان نے اسے قبول کر لیا اور صفوان نے انکار کر دیا اور کہا : محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کے ذریعہ ہمارے جوانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ اور کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دینار کے ذریعہ ہمارے جوانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس لیے بھی دینا جائز ہے کہ صلہ رحمی ہر مذہب میں اور ہر عقل مند انسان کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے ، نیز دوسرے کو ہدیہ دینا مکارمِ اخلاق میں سے ہے ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارم اخلاق کو پورا کرنے کےلیے بھیجا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ ہدیہ کا لین دین مسلم غیر مسلم دونوں کے حق میں یکساں پسندیدہ عمل ہے ۔

علامہ ابن قدامہ حنبلی علیہ الرحمہ نے بھی کافر کو صدقاتِ نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے : وَكُلُّ مَنْ حُرِمَ صَدَقَةَ الْفَرْضِ مِنْ الْأَغْنِيَاءِ وَقَرَابَةِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْكَافِرِ وَغَيْرِهِمْ، يَجُوزُ دَفْعُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ إلَيْهِمْ، وَلَهُمْ أَخْذُهَا، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا} [الإنسان: 8] . وَلَمْ يَكُنْ الْأَسِيرُ يَوْمَئِذٍ إلَّا كَافِرًا، وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -، قَالَتْ: «قَدِمْتُ عَلَى أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَقُلْت: يَا رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، صِلِي أُمَّك» .وَكَسَا عُمَرُ أَخًا لَهُ حُلَّةً كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَعْطَاهُ إيَّاهَا ۔ (المغنی لابن قدامۃ،2/ 492)
ہر وہ مالدار ، قرابت دار ، کافر وغیرہ جنہیں صدقہ واجبہ سے محروم کیا گیا ہے انھیں صدقہ نافلہ دینا اور ان کا صدقہ نافلہ لینا جائز ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وہ یتیم ، مسکین ، اور قیدی کو اللہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں ۔ اور اس وقت قیدی کافر ہی ہوا کرتا تھا ۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ : میری والدہ جس وقت مشرکہ تھی میرے پاس آئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ،تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی ( جب کہ وہ مشرک تھا) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عطا کردہ جبہ پہنایا ۔

ان عباراتِ علما اور نصوصِ شرعیہ سے واضح ہوتا ہے کہ صدقاتِ نافلہ ذمی کافر کو دینا جائز ہے اور دار الحرب میں مقیم ان کافروں کو بھی از راہِ مصلحت جیسے تالیف و دعوت کے طور پر دینا جائز ہے ، ہاں ! ایسے حربی کافر کو کسی بھی طرح کا تعاون کرنا ناجائز ہے جو اس وقت یا مستقبل قریب میں مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ۔ (سورہ الممتحنہ: ۸،۹)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان وسلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے ، اور تمھیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے ، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں سے حسنِ سلوک اور دوستی کرنے سے منع کرتا ہے ، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی کی ، تمھیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر لوگوں کی مدد بھی کی ، تو منع کرنے کے باوجود جنہوں نے ان سے دوستی کی وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ۔

یہاں کے کافر حربی نہیں ہیں اور نہ اس ملک کو دار الحرب کہا گیا ہے ۔ آج کی تحقیق کے اعتبار سے تمام جمہوری ممالک کو دار الدعوۃ ، دار المیثاق ، دار المعاہدہ وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ان کے باشندے معاہد کے حکم میں ہوں گے ، کسی ایک فرد یا چند جماعت کی شرکشی کو حکومت کا دستور نہیں مانا جائے گا ۔ اس لیے قربانی کا گوشت جو کہ نفلی صدقہ کے درجہ میں ہے ، غیر مسلم کو بھی دیا جا سکتا ہے ۔ اور خاص طور سے اس غیر مسلم کو جو پڑوسی یا رشتہ دار بھی ہو تو اس کو گوشت دینے سے حسن سلوک کا ثواب ملنے کی بھی امید ہے ۔ اور آج کے دور میں خاص طور سے غیر مسلموں کی وقتاً فوقتاً تالیف کرتے رہنا چاہیے ، تاکہ ان کے دل نرم ہو اور مسلمانوں سے حسنِ ظن پیدا ہو ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خصی جانور کی قربانی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

0 comments

خصی جانور کی قربانی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے



Tuesday 27 June 2023

ایامِ تشریق و تکبیرِ تشریق کے فضائل و مسائل

0 comments

ایامِ تشریق و تکبیرِ تشریق کے فضائل و مسائل

محترم قارئینِ کرام : ایام تشریق وہ یاد گار دن ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے شہزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیئے ہیں جب جب عید الاضحٰی منائی جائے گی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا اللہ جب اپنے محبوب بندوں سے خوش ہوتا ہے تو امت کےلیے ایڈیل (پہچان) بنا دیا جاتا ہے ۔ ہر دن کسی عبادت کے ساتھ خاص ہے اور یومُ النحر ایسی عبادت کے ساتھ خاص ہے جسےحضرت ابراہیم علیہ السلام نےادا کیا یعنی قربانی کرنااورتکبیرپڑھنا (یعنی تکبیرات تشریق)اور اگر انسان کےفدیہ میں کوئی چیز جانور کو ذبح کرنے سے زیادہ افضل ہوتی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کے فدیہ میں اسے(یعنی جانور کو) ذبح نہ فرماتے ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے :وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِۚ-وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِۙ-لِمَنِ اتَّقٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ۔ (البقرة آیت نمبر 203)
ترجمہ : اور اللہ کی یاد کرو گنے ہوئے دنوں میں توجو جلدی کر کے دو دن میں چلا جائے اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو رہ جائے تو اس پر گناہ نہیں پرہیزگار کےلیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اسی کی طرف اٹھنا ہے ۔

کے دنوں سے مراد اَیّام تَشریق ہیں اور ذکراللہ سے نمازوں کے بعد اور جَمرات کی رمی کے وقت تکبیر کہنا مراد ہے۔   (صاوی ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۳، ۱ / ۱۷۱)

اور مراد یہ ہے کہ منیٰ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہو ۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضوان الله علیهم اجمعین قَالَ: الْأَيَّامُ الْمَعْلُومَاتُ الَّتِي قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ وَيَوْمِ التَّرْوِيَةِ وَيَوْمِ عَرَفَةَ، وَالْمَعْدُوْدَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيْقِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ سے مراد یومِ ترویہ سے قبل کے ایام ، یوم ترویہ اور یومِ عرفہ ہیں جبکہ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ سے مراد ایامِ تشریق ہیں ۔ (أخرجه المقدسي في الأحاديث المختارة، 10: 78، الرقم: 70،چشتی )(والبيهقي في السنن الكبرى، 5: 228، الرقم: 9925)(والبيهقي في فضائل الأوقات: 413، الرقم: 219)(وابن عبد البر في التمهيد، 12: 130)(والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2: 292)

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الأَيَّامُ الْمَعْلُومَاتُ الْعَشْرُ، وَالأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ ۔
ترجمہ :حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ سے مراد (ذی الحجہ کے) دس دن ہیں جبکہ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ سے مراد ایامِ تشریق ہیں ۔ (أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، باب الأيام المعلومات والأيام المعدودات، 5: 228، الرقم: 9927)(البيهقي في شعب الإيمان، 3: 359، الرقم: 3770)

عَنْ نُبَيْشَةَ الْهُذَلِيِّ رضی اللہ عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : أَيَّامُ التَّشْرِيْقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ۔
ترجمہ : حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: ایامِ تشریق (عید الاضحی کے بعد تین دن) کھانے پینے کے دن ہیں ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب تحريم صوم أيام التشريق، 2: 800، الرقم: 1141،چشتی)(وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 75)(والنسائي في السنن الكبرى، 2: 463، الرقم: 4182)(وابن أبي شيبة في المصنف، 3: 94، الرقم: 15268)

عَنْ سَعْدِ بْن أَبِي وَقَّاصٍ رضی اللہ عنه ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم أَنْ أُنَادِيَ أَيَّامَ مِنيً: إِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ، وَلَا صَوْمَ فِيْهَا، يَعْنِي: أَيَّامَ التَّشْرِيقِ ۔
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایامِ منٰی میں مجھے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ یہ اَیامِ تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اور ان میں روزہ نہیں ہوتا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1: 169، الرقم: 1456)(أحمد بن حنبل في المسند، 1: 174، الرقم: 1500،چشتی)(والحارث بن أسامة في المسند، 1: 434، الرقم: 350)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عرفہ کا دن ، قربانی کا دن اور ایام تشریق اہل اسلام کےلیے عید اور کھانے پینے کے دن ہیں ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، كتاب الصوم، باب صيام أيام التشريق، 2: 320، الرقم: 2419)(والترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب في كراهية الصوم في أيام التشريق، 3: 143، الرقم: 773،چشتی)(والنسائي في السنن، كتاب مناسك الحج، باب النهي عن صوم يوم عرفة، 5: 252، الرقم: 3004)(والدارمي في السنن، كتاب الصوم، باب في صيام يوم عرفة، 2: 37، الرقم: 1764)(وابن أبي شيبة في المصنف، 3: 394، الرقم: 15270)(وابن خزيمة في الصحيح، 3: 292، الرقم: 2100)

عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نَهَى عَنْ صَوْمِ خَمْسَةِ أَيَّامٍ فِي السَّنَةِ: يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ النَّحْرِ، وَثَلَاثَةِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنه سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سال میں پانچ دن روزوں سے منع فرمایا ہے: عید الفطر کے روز، عید قربان کے روز اور ایام تشریق کے تین دن ۔ (أخرجه الدار قطني في السنن، باب طلوع الشمس بعد الإفطار، 2: 212، الرقم: 34)(وأبو يعلى في المسند، 7: 149، الرقم: 4117)

ایامِ تشریق اور تکبرِ تشریق کتنے ہیں

نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں ، وہ یہ ہے :
اللہُ اکبراللہُ اکبر لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ ُوَاللہُ اکبراللہُ اکبر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔ (تنویر الابصار وغیرہ) ۔۔۔۔۔۔ ”تنوير الأبصار”، کتاب الصلاۃ، باب العيدين، ج۳، ص۷۱، ۷۴)

حضرت اِبراہِیم علیہ السلام نے جب حضرت اِسمٰعِیل علیہ السلام کو ذَبح کرنے کےلیے زمین پر لِٹایا  تو اللہ عزوجل کے حکم سے حضرتِ جبرئیل علیہ السلام بَطورِ فِدیہ جَنت سے ایک مینڈھا (یعنی دُنْبہ) لیے تشریف لائے اور دُور سے اُونچی آوازمیں فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہ ُاَکْبَر ، جب حضرت اِبراہِیم علیہ السلام نے یہ آواز سُنی تو اپنا سر آسمان کی طر ف اُٹھایا اور جان گئے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وَقْت گُزر چُکا ہے اور بیٹے کی جگہ فِدیے میں مینڈھا بھیجا گیا ہے ، لہٰذا خُوش ہوکر فرمایا : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر ، جب حضرت اِسْمٰعِیل علیہ السلام نے یہ سُنا تو فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْد ، اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے اِن مُبارَک اَلْفاظ کی اَدائیگی کی یہ سُنَّت قیامت تک کےلیے جاری و ساری ہو گئی ۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۰) ۔

ان مُبارک کلمات کو تکبیرِ تشریق کہتے ہیں اوریہ نویں (9) ذُوالحِجۃُ الْحَرام کی نمازِ فَجر سے تیرھویں(13) کی نمازِ عصر تک پانچوں وَقْت کی فرض نمازیں جو مسجد کی جماعتِ مُسْتَحَبَّہ کے ساتھ اَدا کی گئیں ان میں ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے اور 3 بار افضل ہے ۔ تکبیرِ تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً کہنا واجِب ہے ۔ تکبیرِ تشریق یہ ہے : اللہُ اَکْبَرُ ، اللہ ُاَکْبَرُ  ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ ، اللہُ اَکْبَرُ ، وَلِلّٰہِ الْحَمْد ۔ (بہارِ شریعت جلد ۱ صفحہ ۷۸۴)(تَنوِیرُ الْاَبصار جلد ۳ صفحہ ۷۱،چشتی)(دُرِّ مُختار و رَدُّالْمُحتار جلد ۳ صفحہ ۷۳)

تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کر سکے ، اگر مسجد سے باہر ہو گیا یا قصداً وضو توڑ دیا یا کلام کیا اگرچہ سہواً تو تکبیر ساقط ہو گئی اور بلا قصد وضو ٹوٹ گیا تو کہہ لے ۔ (الدرالمختار” و ”ردالمحتار” کتاب الصلاۃ باب العيدين، مطلب: المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۳)

تکبیرِ تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے اس کی اقتدا کی اگرچہ عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا اور اگر اس کی اقتدا نہ کریں تو ان پر واجب نہیں ۔ (الدرالمختار کتاب الصلاۃ باب العيدين جلد ۳ صفحہ ۷۴،چشتی)

نفل پڑھنے والے نے فرض والے کی اقتدا کی تو امام کی پیروی ميں اس مقتدی پر بھی واجب ہے اگرچہ امام کے ساتھ اس نے فرض نہ پڑھے اور مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو مقیم پر واجب ہے اگرچہ امام پر واجب نہیں ۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب العيدين مطلب المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۴)

نفل و سنت و وتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے اور نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔ (الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب العيدين مطلب المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۳)

اور دِنوں میں نماز قضا ہو گئی تھی ایّامِ تشریق میں اس کی قضا پڑھی تو تکبیر واجب نہیں ۔ يوہيں ان دنوں کی نمازیں اور دنوں میں پڑھیں جب بھی واجب نہیں ۔ يوہيں سال گذشتہ کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایّام تشریق میں پڑھے جب بھی واجب نہیں ، ہاں اگر اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انھيں دنوں میں جماعت سے پڑھے تو واجب ہے ۔ (ردالمحتار کتاب الصلاۃ باب العيدين مطلب المختار أن الذبيح إسماعيل جلد ۳ صفحہ ۷۴،چشتی)

ماہِ ذُوالْحِجَّۃِالْحَرام وہ مُبارَک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ عزوجل کے خلیل حضرت اِبْراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اِسْمٰعِیْل ذَبِیْحُ اللہ علیہ السلام کے ساتھ مِل کر صَبْر و رِضا کا ایسا مَنْظر پیش فرمایا کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ حضرت اِبْراہیم علیہ السلام نے ذُوالْحَج کی آٹھویں (8) رات خواب دیکھا جس میں کوئی کہنے والایہ کہہ رہا ہے : بے شک اللہ عزوجل تمہیں اپنے بیٹے کو ذَبْح کرنے کا حُکم دیتا ہے ۔ نَویں (9) رات پھر وہی خواب دیکھا ، دَسویں (10) رات پھر وہی خواب دیکھنے کے بعد آپ علیہ السلام نےصُبح اس خواب پرعمل کرنے یعنی بیٹے کی قُربانی کا پَکّا اِرادَہ فرمالیا ۔ (تفسیرِ کبیر ، ۹/۳۴۶)

جب حضرت اِبْراہیم علیہ السلام نے یہ سارا ماجرا اپنےکم عُمر بیٹے حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام کو بھی بتادیا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ میں تمہیں ذَبح کروں ، اب تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے ۔ حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام خُود بھی اللہ عزوجل کے ہر حکم پر سَرِتسلیم خَم کرنے والے تھے ، آپ علیہ السلام نے جو جواب دیا اسے قرآنِ پاک نے پارہ 23 سُوْرَۃُ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 102میں ان الفاظ سے بیان کیا ہے : قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ۔
تَرجَمہ : کہا اے میرے باپ ! کیجیے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے ، خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابرپائیں گے ۔

تَفسیرِ خازِن میں ہے کہ حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام نے اپنے والدِ مُحْترم سےعرض کی : ابا جان ! ذَبْح کرنے سے پہلے مجھے رَسّیوں سے مَضْبُوط باندھ دیجیے تاکہ میں ہِل نہ سکوں ، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے ثواب میں کمی نہ ہو جائے اور میرے خُون کے چھینٹوں سے اپنے کپڑے بَچا کر رکھیے تاکہ انہیں دیکھ کر میری اَمّی جان غمگین نہ ہوں ۔ چُھری خُوب تیز کر لیجیے تاکہ میرے گلے پر اچھی طرح چل جائے (یعنی گلا فوراً کٹ جائے) کیونکہ موت بَہُت سخت ہوتی ہے ، آپ مجھے ذَبْح کرنے کےلیے پیشانی کے بَل لِٹائیے (یعنی چہرہ زمین کی طرف ہو) تاکہ آپ کی نظر میرے چہرے پر نہ پڑے اور جب آپ میری اَمّی جان کے پاس جائیں تو انہیں میرا سَلام پہنچا دیجیے اور اگر آپ مُناسِب سمجھیں تو میری قمیص انہیں دے دیجیے ، اس سے ان کو تَسلّی ہوگی اور صَبْر آ جائے گا ۔ حضرتِ اِبْراہِیْم علیہ السلام نے اِرْشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم اللہ عزوجل کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کیسے عُمدہ مَدَدْگار ثابت ہو رہے ہو ! پھر جس طرح حضرتِ اِسْمٰعِیْل علیہ السلام نےکہا تھا ان کو اُسی طرح باندھ دیا ، اپنی چُھری تیز کی ، حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام کو پیشانی کے بَل لِٹا دیا ، ان کے چِہرے سے نظر ہَٹالی اور ان کے گلے پرچُھری چلا دی ، لیکن چُھری نے اپنا کام نہ کیا یعنی گَلا نہ کاٹا ۔ (تفسیر خازن،۴/۲۲)

تکبیر تشریق کی وجہ تسمیہ

حضرت اِبْراہِیْم علیہ السلام نے جب حضرت اِسْمٰعِیْل علیہ السلام کو ذَبْح کرنے کےلیے زمین پر لِٹایا تو اللہ عزوجل کے حکم سے حضرتِ جبرئیل علیہ السلام بَطورِ فِدْیہ جَنَّت سے ایک مینڈھا (یعنی دُنْبہ) لیے تشریف لائے اور دُور سے اُونچی آوازمیں فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکْبَر ، جب حضرت اِبْراہِیْم علیہ السلام نے یہ آواز سُنی تو اپنا سر آسمان کی طر ف اُٹھایا اور جان گئے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے آنے والی آزمائش کا وَقْت گُزر چُکا ہے اور بیٹے کی جگہ فِدیے میں مینڈھا بھیجا گیا ہے ، لہٰذا خُوش ہوکر فرمایا : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر ، جب حضرتِ اِسْمٰعِیْل علیہ السلام نے یہ سُنا تو فرمایا : اَللّٰہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْد، اس کے بعد سے اِن تینوں پاک حضرات کے اِن مُبارَک اَلْفاظ کی اَدائیگی کی یہ سُنَّت قیامت تک کےلیے جاری و ساری ہو گئی ۔ (بِنایَہ شرح ہِدایَہ ج۳ص:۱۳۰)

تکبیر تشریق کی اصلیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا تو اللہ عزوجل نے حضرت جبرئیل  علیہ السلام کو حکم دیا کہ فدیہ لے کر جاؤ ۔ لیکن یہ فدیہ لے کر آئے تو اس ڈر سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل  علیہ السلام کو ذبح کر ڈالیں  گے ، اللہ اکبر اللہ اکبر پکارنے لگے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام  نے جب یہ آواز سنی تو بشارت سمجھ کر پکار اٹھتے ’’ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر‘‘ حضرت اسمعیل علیہ السلام  سمجھے کہ فدیہ آگیا تو اللہ اکبر و للہ الحمد کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنے لگے ۔ (شامی جلد ۱ صفحہ ۵۸۵)

تکبیرِ تشریق کب سے کب تک ہے ؟

تکبیرِ تشریق نویں ذی الحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد مردوں کےلیے بآواز بلند اور عورتوں کےلیے ایک مرتبہ آہستہ کہنا واجب ہے ۔

اجْتَمَعَ عُمَرُ وعَلِىٌّ وابْنُ مَسْعُودٍ عَلَى التَّكْبِيرِ فِى دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَأمَّا ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَأَمَّا عُمَرُ وَعَلِىٌّ قَالَا: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ۔(الجامع الكبير15/ 290)

عن عبيدةَ قالَ : قَدِمَ عَلينَا علىُّ بنُ أبِى طالبٍ فَكَبَّر يَومَ عرفةَ من صلاةِ الغداةِ إلى صلاةِ العصرِ من آخرِ أيَّامِ التشريقِ يقولُ: أكبرُ، أكبرُ، لاَ إِلَهَ إلاَّ الله، و أَكْبَرُ أكبرُ وِلله الحمدُ ۔ (الجامع الكبير 17/ 631)

أوله من فجر عرفة إلی عصر الیوم الخامس آخر أیام التشریق وعليه الاعتماد (شامی زکریا ۳؍۶۴)

تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں : ⬇

أکبر أکبر لا إله إلا و أکبر أکبر ولله الحمد ۔

تکبیرِ تشریق کتنی مرتبہ پڑھی جائے ؟

تکبیرِ تشریق ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے ، تاہم کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ لے تو بھی حرج نہیں ۔ و یجب تکبیر التشریق فی الأصح للأمر به مرة وإن زاد عليها یکون فضلاً ۔ (درمختار 2/177)

تکبیرِ تشریق کن لوگوں پر واجب ہے ؟

تکبیرِ تشریق مقیم ، مسافر ، منفرد ، جماعت ، عورت ، اہلِ شہر اور دیہات کے رہنے والوں پر واجب ہے ۔ ووجوبه علی إمام مقیم بمصر و علی مقتد مسافر أو قروی أو امرأة لکن المرأة تخافت ویجب علی مقیم اقتدی بمسافر، وقالا بوجوبه فور کل فرض مطلقاً ولو منفرداً أو مسافراً أو امرأة لأنه تبع للمکتوبة ۔ (رد المحتار ، زکریا ۳؍۶۴)

تکبیرِ تشریق بھول جانا

تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے اگر کوئی مانع فعل صادر ہو جائے مثلاً مسجد سے باہر نکل گیا یا کوئی بات چیت کرلی یا عمداً وضو توڑ دیا ، تو ان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق ساقط ہو جائے گی لیکن سہواً وضو ٹوٹ جائے تو تکبیر کہہ لے اور اگر قبلہ سے سینہ پھر گیا تو اس میں دو روایتیں ہیں ؛ لہٰذا احتیاطاً تکبیر کہہ لی جائے ۔ عقب کل فرض عینی بلا فصل یمنع البناء فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساهیاً أو أحدث عامداً سقط عنه التکبیر وفی استدبار القبلة روایتان ولو أحدث ناسیاً بعد السلام الأصح أنه یکبر ولایخرج للطهارة ۔ (شامی زکریا ۳؍۶۳)

مسبوق پر تکبیرِ تشریق

مسبوق پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے وہ اپنی بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد پڑھے گا۔ والمسبوق یکبر وجوباً کاللاحق ۔ (شامی زکریا ۳؍۶۵)(ہندیہ ۱؍۱۵۲)

عورتوں پر تکبیرِ تشریق

عورتوں پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے ، لیکن وہ بالکل آہستہ آہستہ پڑھیں گی ۔ یجب علی المرأة والمسافر، والمرأة تخافت بالتکبیر ۔ (ہندیہ ۱؍۱۵۲)(شامی زکریا ۳؍۶۴)

واقعۂ قربانی میں ہمیں ، سب سے پہلے تویہ معلوم ہوا کہ حضرت اِبْراہیم اور حضرت اِسْمٰعِیْل علیہما السلام میں اطاعتِ الٰہی کا کیسا جذبہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رِضائے اِلٰہی کی خاطر اپناوہ بچہ جس کو بڑی دُعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا ، جو آپ کی آنکھوں کا نُور اور دل کا سُرُور تھا ، مگر آپ علیہ السلام اللہ عزوجل کی رِضا کی خاطر اس كی قربانی کےلیے تیار ہو گئے اور بیٹا ہو تو ایسا کہ وہ بھی اللہ عزوجل کا حکم سُن کر غمگین اور خوفزدہ ہونے کے بجائے فَرحَت و مُسرَّت سے گویا جُھومنے لگا کہ میری خُوش قِسمَتی کہ اللہ عزوجل نے میری قُربانی کو طَلَب فرمایا ہےاور بَخُوشی اللہ عزوجل پر قربان ہونے کےلیے تَیار ہو گیا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے ، جو جس قدر مُقرَّب و محبوب ہوتا ہے اس پر آزمائش بھی زیادہ آتی ہے ، تاکہ یہ نُفُوسِ قُدْسِیہ اس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے آنے والی آزمائش پر صبر کر کے بطورِ انعام اللہ عزوجل کی بارگاہ سے بُلند مَراتِب حاصل کر سکیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مبارک ہے : جب بندے کا اللہ عزوجل کے ہاں کوئی مرتبہ مقرر ہو اور وہ اس مرتبے تک کسی عمل سے نہ پہنچ سکے تو اللہ عزوجل اسے جسم ، مال يا اولاد کی آزمائش ميں مبتلا فرماتا ہے ، پھر اُسے اِن تکاليف پر صبر کی توفيق عطا فرماتاہے يہاں تک کہ وہ اللہ عزوجل کے ہاں اپنے مقرر درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔ نیز واقعۂ قربانی سے تربیتِ اَولاد اور والدین کی اِطاعت کا بھی درس ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نُورِ نظر کی تربیت کی تو آزمائش کے وَقْت حضرت اسمعیل علیہ السلام بھی اپنے والد کی اطاعت کرتے ہوئے بخوشی قربانی کےلیے تیار ہو گئے ۔ ہمیں بھی اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سُلُوک کرتے ہوئے ان کی اطاعت میں زندگی بسر کرنی چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 24 June 2023

داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت حصّہ چہارم

0 comments

داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت حصّہ چہارم

شرعاً ایک مشت تک داڑھی بڑھانا واجب ہے چونکہ اس کا وجوب سنت سے ہے اس لیے عام طور پر لوگ اسے سنت کہہ دیتے ہیں در مختار میں ہے یحرم علی الرجل قطع لحیتہ ۔ یعنی مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے اور بہار شریعت جلد شانزدہم صفحہ نمبر  ١٩٧ میں ہے داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین علیہم السلام سے ہے منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے ۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمة اللہ علیہ تحریر فرما تے ہیں : حلق کردن لحیہ حرام ست و رَوِش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں را قلندریہ گویند و گزاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست و آں کہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین ست ۔ یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ :  داڑھی منڈانا حرام ہے اور انگریزوں ۔ ہندوں اور قلندریوں کا طریقہ ہے ۔ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے اور یا تو اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے نماز عید کو مسنون فرمایا
(حالانکہ نماز عید واجب ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ نمبر ٢١٢
اور در مختار مع شامی جلد دوم صفحہ نمبر ١١٦)(رد المحتار جلد دوم صفحہ نمبر ١١،چشتی)(بحرالرائق جلد دوم صفحہ نمبر ٢٨٠)(فتح القدیر جلد دوم صفحہ نمبر ٢٧۰)

اور طحطاوی صفحہ نمبر ٤١۱ میں ہے : واللفظ للطحاوی الاخذ من اللحیت و ھو دون ذلک (ای القدر المسنون و ھو القبضہ) کما یفعلہ بعض المغاربت و مخنثت الرجال لم یجہ احد اخذ کلھا فعل یھود الھند و مجوس الاعاجم ۔
ترجمہ : داڑھی جبکہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جس طرح بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں ۔ اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایران کے مجوسیوں کا ہے ۔

ارشاداتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ⬇

اوفروااللحی ؛ داڑھیاں کثیرو وافر رکھو ۔ بخاری و مسلم شریف
اعفوااللحی ؛؛ داڑھیاں بڑھاؤ ۔ مسلم ؛ ترمذی و ابن ماجہ ؛ طحاوی
ارخوااللحی ؛ داڑھیاں بڑھنے دو ؛  مسند احمد ؛ مسلم ؛ شرح معنی الاثار
اوفوااللحی ؛ داڑھیاں پوری کرو ؛ طبرانی کبیر ۔

لہٰذا مذکورہ احادیثِ مبارکہ قبضہ کے وجوب پر دال ہیں ۔ مذکورہ بالا احادیث کتب فقہ و فتاوی و اقوال علما سے یہ ثابت ہو گیا کہ داڑھی رکھنا واجب ہے ۔

داڑھی کم ازکم ایک مٹھی رکھنا واجب ہے اور کتروا کر ایک مٹھی سے کم کرنا ناجائز و گناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم ارشاد فرمایا : انھکوا الشوا رب واعفوا اللحی ۔
ترجمہ : مونچھیں مٹاؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔ (صحیح البخاری جلد 20 نمبر 875)

دو جلیل القدر صحابہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم نے ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ کر اس مجمل کی تفسیر کر دی کہ احادیث میں جو داڑھی بڑھانے کا امر فرمایا گیا وہ کم از کم ایک مٹھی تک ہے ۔ سنن ابو داؤد میں مروان بن سالم سے مروی ہے فرماتے ہیں : اللهم رایت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقبض علی لحیتہ فیقطع مازادعلی الکف ۔
ترجمہ :میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے ۔ (سنن ابو داود جلد 1 صفحہ نمبر 321 مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور)

یہ حدیث پاک صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ ہے : عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین و فروا اللحی واحفوا الشوارب وکان ابن عمر اذاحج اواعتمر قبض علی لحیتہ فمافضل اخذہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ نمبر 396 مکتب مطبوعہ لاہور)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : کان ابوھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یاخذ مافضل عن القبضۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کتر ڈالتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 8 صفحہ نمبر 374 ادارۃ القرآن کراچی،چشتی)

یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقدار کا بیان غیر قیاسی ہے یعنی قیاس و عقل سے بیان نہیں ہو سکتا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایسا قول یا فعل جو غیر قیاسی ہو حدیث مرفوع کے حکم میں ہے گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ داڑھی کو بڑھاؤ اور دوسرے مقام پر اس کی تفسیر کر دی کہ یہ بڑھانے کا حکم ایک مٹھی تک ہے بلکہ ایک مٹھی سے زائد کو کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے جیسا کہ ان آثار کو نقل کرنے کے بعد صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں : انہ روی عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے ۔ (فتح القدیر جلد 2 صفحہ نمبر 270 مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

حاصل یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گویا ایک مٹھی داڑھی رکھنے کا امر ارشاد فرمایا اور الامر للوجوب یعنی امر وجوب کےلیے آتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالاحوالہ جات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ ایک مشت داڑھی رکھنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے اب لوگوں کو یہ کہنا کہ ایک مٹھی کی قید صرف شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے لگائی بے سرو پا اور بے بنیاد ہے ۔

ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعفو االحیۃ و قصوا الشوارب ۔ یعنی تم لوگ داڑھی کو معافی دو یعنی داڑھی مت تراشو اور مونچھیں تراشو ۔

صحیح مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے : جزوا الشوارب وارخواللحیۃ و خالفو ا المجوس ۔
ترجمہ : تم لوگ مونچھیں تراشواور داڑھی کو لمبی کرو اور مجوس کی مخالفت کرو ۔

دوسری روایت میں ہے : خالفوا المجوس جزوا الشوارب واوفروا اللحی ۔
ترجمہ : مجوس کی مخالفت کرو، مونچھیں تراشواور داڑھیاں بڑھاؤ ۔

احادیثِ مذکورہ میں اعفوا ، ارخو ا ، اور اوفروا ، امر کا صیغہ ہے جس کا مقتضیٰ وجوب ہے اور یہاں وجوب سے پھیرنے والا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا داڑھی بڑھانا واجب ہے ۔ اگرچہ احادیث مذکورہ میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیاگیا ہے لیکن داڑھی بڑھانے کی مقدار مجہول ہے ۔ ان احادیث میں اس طرح داڑھی بڑھانا مراد نہیں ہے کہ داڑھی کو بالکلیہ تراشا نہ جائے ۔ اس لیے کہ داڑھی بہت زیادہ دراز ہونے کے بعد بد نما ہو جاتی ہے اور اس سے چہرہ کا حسن ختم ہو جاتا ہے ۔ حالاں کہ داڑھی چہرہ کا جما ل ہے ۔

البحرالرائق میں ہے : لان اللحیۃ فی اوانھا جمال فیلزمہ منہ کما ل الدیۃ کما لو قطع الاذنین الشاخصین و الدلیل علیٰ انہ جمال قولہ علیہ الصلوٰۃ و السلام: ان للہ ملٰئکۃ تسبیحھم ”سبحٰن من زین الرجال باللحاء والنساء بالقدود و الذوائب ۔
ترجمہ : اس لیے کہ داڑھی اپنے وقت میں جما ل ہے ۔ پس اس کو کاٹنے سے پوری دیت لازم آئے گی جیسا کہ اگر دونوں کان کی لو کاٹ دی جائے ۔ داڑھی کے جمال ہونے پر دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جن کی تسبیح یہ ہے ۔ اس ذات کےلیے پاکی ہے جس نے مردوں کو داڑھیوں سے اور عورتوں کو بال کی چوٹی اور گیسو سے مزین فرمایا ۔

اگر چہ مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں داڑھی بڑھانے کی مقدار مجہول ہے لیکن اس کا بیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل ہے ۔ کیوں کہ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی تراشتے تھے ۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بھی داڑھی تراش کر ایک مشت سے کم نہیں کیا ہے ۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ فعل احادیث مذکورہ میں داڑھی بڑھانے کی اجمالی مقدار کا بیان ہے ۔

مواھب لدنیہ میں مذکور ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داڑھی مبارک سینہ انور تک دراز تھی ۔

شرعۃ الاسلام میں ہے : کان یاخذ لحیتہ طولا و عرضا علیٰ قدر القبضۃ ۔
ترجمہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم داڑھی مبارک کو طول اور عرض میں قبضہ کی مقدار تراشتے تھے ۔

مصنف ابن ابو شیبہ میں حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان ابو ھریرۃ یقبض علیٰ لحیتہ ثم یاخذ ما فضل عن القبضۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے تھے اور مٹھی سے زائد داڑھی کا کاٹ دیتے تھے ۔

بخاری شریف میں ہے : کان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض علیٰ لحیتہ فما فضل اخذ منہ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑتے اور مشت سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مذکورہ فعل کو داڑھی بڑھانے کے خلاف قرینہ قرار دیا ہے جو کہ اُن کا تساہل ہے ۔ اس لیے کہ ان کے قول سے لازم آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی نہیں بڑھایا کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قول ”اعفوا اللحیۃ“ ”اوفروا اللحیۃ“ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود داڑھی نہیں بڑھاٸی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے داڑھی بڑھاٸی ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کا فقہائے کرام کے قول ”والسنۃ فیہ القبضۃ“ اور اس جیسی عبارت سے مشت بھر داڑھی رکھنے کو سنتِ غیر مؤکدہ ہونے پر استدلال کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس عبارت کا تعلق ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے کے مسنون ہونے سے ہے ۔ نہ کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کے مسنون ہونے سے ہے جیسا کی اس پر فقہائے کرام کی عبارت دلالت کر رہی ہے : ⬇

در مختار میں ہے : ولا باس بنتف الشیب و اخذ اطراف اللحیۃ ،، یعنی سفید بال کو اکھاڑنے اور داڑھی کے اطراف کو تراشنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داڑھی کے اطراف کو کتنی مقدار میں تراشنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس کوصاحبِ درمختار نے اپنے قول ”والسنۃ فیہ القبضۃ“ سے واضح کیا ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ”و السنۃ فیہ القبضۃ“ کی تشریح میں لکھتے ہیں : و ھو ان یقبض الرجل لحیتۃ فما زاد علیٰ قبضۃ قطعہ کذ ا ذکرہ محمد فی الآثار عن الاما م وقال بہ ناخذ ۔
ترجمہ : و السنۃ فیہ القبضۃ یہ ہے کہ آدمی اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑے اور جو داڑھی مٹھی سے زائد ہے اس کو کاٹ دے ۔

اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح ذکر کیا ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسنون ہونے کا تعلق ایک مشت داڑھی کے رکھنے سے نہیں ہے بلکہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو تراشنے سے ہے ۔

الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : اما اللحیۃ قد ذکر محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الآثار عن الامام ان السنۃ ان یقطع مازاد علی قبضۃ یدہ ۔
ترجمہ : رہی داڑھی تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنا سنت ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری کی عبارت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسنون ہونے کو تعلق ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے سے ہے نہ کہ ایک مشت دارھی رکھنے سے ہے ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : والسنۃ فیہ القبضۃ وھو ان یقبض الرجل لحیتہ فان زاد منھا علیٰ قبضۃ قطعہ کذا ذکرہ محمد فی کتاب الآثار عن ابی حنیفۃ وقال بہ ناخذکذا فی محیط السرخسی ۔
ترجمہ : دارھی میں مسنون ایک مشت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑے اور اس کے مشت جو داڑھی زائد ہے اس کو کاٹ دے ۔ اسی طرح امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں ذکر کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ ایسا ہی محیط السرخسی میں ہے ۔

چوں کہ ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کو کاٹنے کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ بعض فقہائے کرام نے ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کے کاٹنے کو واجب قرار دیا ہے ، بعض نے مکروہ لکھاہے ، اور بعض نے حرام کہا ہے ۔ فقہائے احناف کے نزدیک مختار یہ ہے کہ ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کا کاٹنا مسنون ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کو کاٹا کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے القدر المسنون فیہ القبضۃ لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کی مقدار جو سنت سے ثابت ہے وہ ایک مشت ہے ۔

فقہائے کرام کی اس جیسی عبارت سے ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کا سنت غیر مؤکدہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یہی موقف شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے مشکوٰۃ شریف اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں : وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است وآنکہآنرا سنت گویند بمعنی سلوک در دین است یا بجہت آں کہ ثبوت آں بسنت است چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ جو لوگ ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت کہتے ہیں وہ اس بنا پر کہ ایک مشت داڑھی رکھنا دین رائج ہے یا اس بنا پر کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے ۔ جیسا کہ فقہائے کرام نماز عید کو سنت کہتے ہیں (حالانکہ عید کی نماز واجب ہے) ۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ جلد سوم میں ہے : والمسنون فی اللحیۃ القبضۃ اما الاخذ من دون ذالک او اخذھا کلھا فلا یجوز ۔
ترجمہ : داڑھی میں مسنون ایک مشت ہے ۔ رہا داڑھی کو تراش کر ایک مشت سے کم کرنا یا پوری داڑھی تراشنا تو یہ جائز نہیں ہے ۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ کی مذکورہ عبارت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا سنت غیر مؤکدہ نہیں ہے بلکہ واجب ہے ۔ اس لیے کہ اگر ایک مشت داڑھی رکھنا سنتِٖٖ غیر مؤکدہ ہوتا اور داڑھی کو تراش کر ایک مشت سے کم رکھنا جائز ہوتا تو تو داڑھی تراش کر ایک مشت سے کم رکھنا جائز ہوتا ، اس لیے کہ سنتِ مؤکدہ کا ترک جائز ہے ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ مطلقاً داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنتِ غیر مؤکدہ اور مستحب قرار دیتے ہیں ۔ وہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں : چوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے داڑھی منڈانے پر انکار کیا ہے اور داڑھی منڈانے سے داڑھی بڑھانے کے حکم کی بالکلیہ مخالفت ہوتی ہے اس لیے ہمارے نزدیک داڑھی منڈانا مکروہ تحریمی یا حرام ؓظنی ہے اور مطلقاً داڑھی رکھنا واجب ہے ۔

جب علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان میں مذکورہ ”اعفوا اللحیۃ“ اوفروا اللحیۃ وغیرہ کے امر کے صیغہ کو وجوب کےلیے نہیں مانتے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فعل یعنی ایک مشت داڑھی رکھنے کو ایک مشت داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کی دلیل نہیں مانتے ہیں تو کیا ان پر مطلقاً داڑھی رکھنے کے واجب ہونے پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان ”اعفوا اللحیۃ ٗ اوفروا اللحیۃ“وغیرہ سے اگر ایک مشت داڑھی رکھنے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ہے تو اس سے مطلقاً داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت نہیں ہوگا ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ وہ اتنی مقدار داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں جسے عرفاً و عادتاً داڑھی رکھنا تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کے نزدیک خشخشی یا فرنچ کٹ داڑھی رکھنا شرعی داڑھی رکھنا نہیں ہے ۔ کیا ان کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک مشت داڑھی رکھنا اور فقہائے کرام کا ایک مشت داڑھی رکھنے کو مسنون قرار دینا عرف و عادت کے خلاف ہے ۔ انہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات سے قطع نظر کرتے ہوئے شریعتِ مطہرہ پر مکمل طور پر عمل نہ کرنے والے چند لوگوں کے عمل کو عرف و عادت کا معیار بنا لیا ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ انہوں نے نور الانوار کی عبارت ”ولا یثبت الوجوب الا من الامر دون الفعل“ سے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی فعل سے بھی کسی صورت میں وجوب ثابت نہیں ہو سکتا ہے ۔ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ فعل موجب ہے جس پر آپ نے مداومت فرمائی ہے ۔ اور اس کے ترک سے انکار فرمایا ہے ۔

البحر الرائق جلد اول میں ہے : والذی ظھر للعبد الضعیف ان السنۃ ما واجب النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ لٰکن ان کا ن لا مع الترک فھی دلیل السنۃ المؤکدۃ وان کانت مع الترک احیانا فھی دلیل غیر المؤکدۃ وان قرنت بالانکار علیٰ امر فعلہ فھی دلیل الوجوب فافھم ۔
ترجمہ : وہ چیز جو اس کمزور بندے کےلیے ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سنت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی ہے ۔ لیکن اگر ترک نہ کرنے کے ساتھ ہے تو وہ سنتِ مؤکدہ ہونے کی دلیل ہے ۔ ا گر کبھی ترک کرنے کے ساتھ ہے تو وہ سنتِ غیر و مؤکدہ ہے ۔ اگر اس فعل کو ترک کرنے سے انکار کرنا شامل ہے تو یہ وجوب کی دلیل ہے۔ پس تم اچھی طرح سمجھ لو ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مشت داڑھی رکھنے پر مداومت فرمائی ہے اور اپنے فرما ن ”اوفروا اللحیۃ“ وغیرہ داڑھی رکھنے کو ترک کرنے سے انکار بھی فرمایا ہے ۔ داڑھی کاٹنے کا حکم دینا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ پس ایک مشت داڑھی رکھنے اور مشت بھر داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کا انکار کرنا جس دلیل پر مبنی تھا اس کا باطل ہونا ظاہر ہو گیا ۔

علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور علمائے کرام علیہم الرحمہ کو اپنی رائے سے شریعت گڑھنے والا کنایۃً قرار دیا ہے جو ایک مشت داڑھی رکھنے کے وجوب کے قائل ہیں اور وجوب پر ان لوگوں نے بہت سی دلیلیں قائم کی ہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مسلم شریف کی شرح میں ایک مشت داڑھی رکھنے والوں کے قول کو رد اور باطل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے ۔ یاد رکھیے ! ہم مبلغ ہیں شارع نہیں ہیں ۔ ہمارا کام احکامِ شریعت کو جوں کا توں پہنچانا ہے اور پس ہم اپنی طرف سے کسی حکم کو وضع کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)