Thursday, 23 May 2019

مختار ثقفی ملعون کا دعویٰ نبوت


مختار ثقفی ملعون کا دعویٰ نبوت

محترم قارئین : مختار بن عبید ثقفی نے حضرت امام حسین علیہ السّلام کے قاتلین کے بارے میں بڑا شاندار کارنامہ انجام دیا لیکن آخر میں وہ دعویٔ نبوت کر کے مرتد ہو گیا ۔ (العیاذ باﷲ تعالیٰ) کہنے لگا کہ میرے پاس جبریل امین آتا ہے اور مجھ پر خدائے تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں ۔ مختار ثقفی ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا دعویٰ نبوت کے بعد یہ ملعون مرتد ہو گیا جس طرح یزید ملعون قاتل اہلبیت ہو کر ملعون ٹھہرا اور اسے عظیم المرتبت صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا اسی طرح مختار ثقفی بھی ملعون و مرتد ٹھہرا جب اس نے دعویٰ نبوت کیا تو اسے جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا مگر آج کل بعض سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اس ملعون و مرتد کو اپنا رہنما مانتے ہیں ان کےلیئے وہی حکم ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹے نبوت کے دعوے دار کے پیروکاروں کا ہے آیئے اب ہم مختار ثقفی ملعون کے بارے میں تفصیل دلائل کے ساتھ پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے بچائے آمین ۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہما کے دور میں مختار ثقفی ملعون نے دعویٰ نبوت کیا تو آپ کو جب اس کے دعویٔ نبوت کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سر کوبی کیلئے لشکر روانہ فرمایا جو مختار پر غالب ہوا اور ماہ رمضان67 ہجری میں یہ بد بخت ملعون و کذاب مارا گیا ۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 215 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی،چشتی)

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ میزان الاعتدال میں تحت الترجمۃ مختار بن ابو عبید ثقفی لکھتے ہیں کہ یہ کذاب ہے ، ایسے شخص سے کوئی بھی روایت نقل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نا صرف خود گمراہ شخص تھا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا تھا ۔ یہ کہتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اس پر نازل ہوئے تھے ۔ ( میزان الاعتدال جلد ششم تحت الترجمہ مختار بن ابو عبید ثقفی)

تفسیر ابن ابی حاتم میں جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1379 میں قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ کی تفسیر کے تحت امام ابن ابی حاتم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا صحیح سند سے قول لائے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لابْنِ عُمَرَ: إِنَّ الْمُخْتَارَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. قَالَ : صَدَقَ فَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ ۔
ترجمہ : ابو اسحاق نے کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک بندے نے کہا کہ مختار اس غلط فہمی میں ہے کہ اس پر وحی آتی ہے ، اس پر عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا مختار سچ کہہ رہا ہے اور ساتھ یہ آیت بھی پڑھی کہ شیاطین اپنے ساتھیون پر وحی کرتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اِنَّ فِی ثَقِیفَ کَذَّابًا وَمُبِیرًا ۔
ترجمہ : بے شک قبیلۂ ثقیف میں ایک بڑا جھوٹا اور ایک ظالم ہو گا ۔ (صحیح مسلم)

کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی ہے جس نے نبوت والوہیت وغیرہ کا دعوی کیا تھا جبکہ مبیر(ظالم) سے مراد حجاج بن یوسف ہے جیساکہ اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔

جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 2220 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ
باب : قبیلہ بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک ہلاک کرنے والا ہو گا ۔

حدثنا علي بن حجر، حدثنا الفضل بن موسى، عن شريك بن عبد الله، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في ثقيف كذاب ومبير "، قال ابو عيسى: يقال الكذاب: المختار بن ابي عبيد، والمبير: الحجاج بن يوسف، ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ”بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہو گا ۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہا جاتا ہے کذاب اور جھوٹے سے مراد مختار بن ابی عبید ثقفی اور ہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۔ (تحفة الأشراف: 7283 ، صحیح ،چشتی)

مختار بن ابوعبید بن مسعود ثقفی کی شہرت اس وقت ہوئی جب اس نے شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان محض اس غرض سے کیا کہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کر سکے ، اور امارت (حکومت) کے حصول کا راستہ آسان بنا سکے ، علم و فضل میں پہلے یہ بہت مشہور تھا ، آگے چل کر اس نے اپنی شیطنت کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ اس کے عقیدے اور دین کا بگاڑ لوگوں پر واضح ہو گیا ، یہ امارت اور دنیا کا طالب تھا ، بالآخر 67 ہجری میں حضرت مصعب بن زبیر رضی الله عنہما کے زمانے میں مارا گیا ۔ حجاج بن یوسف ثقفی اپنے ظلم ، قتل ، اور خون ریزی میں ضرب المثل ہے ، یہ عبدالملک بن مروان کا گورنر تھا ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنہما کا اندوہناک حادثہ اسی کے ہاتھ پیش آیا ۔ مقام واسط پر 75 ہجری میں اس کا انتقال ہوا ۔

جامع ترمذی حدیث نمبر حدیث نمبر : 3944 باب مَا جَاءَ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ ۔ حدثنا علي بن حجر، اخبرنا الفضل بن موسى، عن شريك، عن عبد الله بن عصم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " في ثقيف كذاب ومبير ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہو گا ۔

مشکوۃ شریف جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق حدیث 593 بنوثقیف کے دو شخصوں کے بارے میں پیش گوئی : وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " في ثقيف كذاب ومبير " قال عبد الله بن عصمة يقال : الكذاب هو المختار بن أبي عبيد والمبير هو الحجاج بن يوسف وقال هشام بن حسان : أحصوا ما قتل الحجاج صبرا فبلغ مائة ألف وعشرين ألفا . رواه الترمذي وروى مسلم في " الصحيح " حين قتل الحجاج عبد الله بن الزبير قالت أسماء : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا " أن في ثقيف كذابا ومبيرا " فأما الكذاب فرأيناه وأما المبير فلا إخالك إلا إياه . وسيجيء تمام الحديث في الفصل الثالث ۔
ترجمہ : اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا " قبیلہ ثقیف میں انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک انتہا درجہ کا مفسد وہلاکو " حضرت عبداللہ عصمہ تابعی (اس جھوٹے شخص کے تعین کے بارے میں ) کہتے ہیں کہ علماء کا کہنا ہے " جھوٹے شخص سے مراد مختار ابن عبید اور مفسدوہلاکو" سے مراد حجاج ابن یوسف (مشہور ظالم ') ہے ۔" اور ہشام ابن حسان (جو اونچے درجہ کے فقیہہ اور علم حدیث میں زبردست ادرک ومہارت رکھنے والے ایک مشہور متقی وبزرگ ہیں اور جن کا شمار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے) کا بیان ہے کہ حجاج ابن یوسف نے جس قدر لوگوں کو (جنگ ومعرکہ میں نہیں بلکہ) یوں ہی پکڑ پکڑ کر قید خانہ میں ڈال کر قتل کیا ہے ان کی تعداد لوگوں نے شمار کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ : حجاج ابن یوسف نے حضرت عبد اللہ ابن زبیر کو شیہد کردیا تو حضرت اسماء نے ( جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی والدہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں رضی اللہ عنہم) کہا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان کیا ہے کردیا تھا کہ قبیلہ ثقیف میں ایک انتہادرجہ کا جھوٹا شخص پیدا ہوگا اور ایک بڑا مفسد وہلاکو پس جہاں تک جھوٹے شخص کا تعلق ہے تو اس کو دیکھ چکے اب رہی مفسد و ہلاکو کی بات ، تو میرا خیال ہے کہ اے حجاج وہ مفسد و ہلاکو تو وہی ہے یہ پوری حدیث فصل میں آرہی ہے ۔

مختار ثقفی ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوعبید ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا مختار ثقفی کی ولادت ہجرت کے پہلے سال ہوئی اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت وروایت یعنی صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوا ، ابتدا میں یہ شخص علم وفضل اور نیکی وتقوی کے ساتھ مشہور تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ خبث باطن کا شکار ہے اور محض دنیا سازی کے لئے علم وتقوی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا پہلے یہ شخص اہل بیت نبوت سے سخت بغض وعناد رکھتا تھا پھر اچانک اس میں ایسا انقلاب آیا کہ اہل بیت نبوت کی محبت کا دم بھرنے لگا اور اس بارے میں صحیح فکر وعقیدے کا حامل نظر آنے لگا اہل بیت کے تئیں اس کی یہ ظاہری محبت اتنی بڑھی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزیدیوں کا کھلم کھلا دشمن ہوگیا اور ان میں سے بہت لوگوں کو اس نے خون حسین کے قصاص میں موت کے گھاٹ بھی اتارا ، غرضیکہ اس نے طلب دنیا اور حب جاہ میں بہت چولے بدلے ، اپنی نت نئی حرکتوں سے طرح طرح کے فتنے جگائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے خلاف عراق میں علم بغاوت بلند کیا مکروفریب اور عیاریوں کے ذریعہ جاہل اور کمزور عقیدہ لوگوں پر اپنی نام نہاد روحانی بزرگی و کر امت کا ایسا سکہ جمایا کہ اس کے حامیوں کی اور معتقدوں کی ایک بہت بڑی جماعت اس کے گرد جمع ہوگئی اس کا حلقہ اثر جوں جوں بڑھتا گیا اتنا ہی وہ عقیدہ کی خرابی رائے وخیال کی گمراہی اور نفس کی خواہشات کا شکار ہوتا گیا جھوٹ اور فریب کاری کے سہارے اس نے پوری خلافت اسلامیہ پر قبضہ کر لینے کا منصوبہ بنایا اور اپنی فتنہ انگیزیوں کے ذریعہ کوفہ پر قابض بھی ہوگیا ، نبوت کا مدعی بھی بنا اور اس بات کا دعویٰ کرنے لگا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس وحی لے کر آتے ہیں آخر کار حضرت مصعب ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی طرف بصرہ کے گورنر تھے اپنی فوج لے کر کوفہ پر چڑھائی کی مختار نے بھی مقابلہ کیا مگر شکست کھا گیا اور مقتول ہوا مختار کے انہی فریب اور جھوٹ سے بھرے حالات کی بناء پر علماء نے اس کو کذابوں میں سے ایک بڑا کذاب شمار کیا ہے اور حدیث کے الفاظ یخرج من ثقیف کذاب ومبیر (قبیلہ ثقیف میں ایک انتہا درجہ کا جھوٹا اور ایک انتہادرجہ کس مفسد وہلاکو کو پیدا ہوگا ) کا مصداق ومحمول مختار اور حجاج کو قرار دیا ہے ۔

محترم قارئین : دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخیر میں مختار بن ابی عبید ثقفی نے دعویِ نبوت کیا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس سے جنگ کی اور اسے اور اس کے اتباع کو موت کے گھاٹ اتروا دیا ۔ (البدایۃ۸/۲۸۹)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہر دور میں مدعیان نبوت کے ساتھ امت کا معاملہ ایسا ہی رہا ، مدعیان نبوت میں جن لوگوں میں بھی انہوں نے سنجیدگی محسوس کی انہیں کیفر کردار کو پہنچا دیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

2 comments:

  1. ابن حجر نے بہت سے مردوں اور عورتوں کا شمار صحابہ میں کیا ہے اور انھوں نے مختار بن عبید کا نام بھی ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ مختاار ہجرت کے پہلے سال پیدا ہوے اسی وجہ سے عبد البر نے انکوصحابہ میں شمار کیا ہے اسلیے کہ اکثر و بیشتر یہ اس بات پہ دلات کرتا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کو دیکھا ہے۔
    العسقلاني الشافعي، لسان الميزان، ج6، ص6، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ – 1986م.
    اس اعتبار سے مختار تو صحابی رسول اللہ ہوہے اور اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق تمام صحابہ عادل ہیں
    جیسا کہ قرطبی جو ہت مشہور مفسر قران ہیں وہ لکھتے ہیں کہ سارے صحابہ عادل ہیں اور اللہ کے اولیاٴ میں سے ہیں اور انبیا اور رسولون کے بعد انکا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور یہ ایسا نظریہ ہے کہ تمام اہل سنت کے اماموں نے اس بات کی تایید کی ہے
    القرطبي، الجامع لأحكام القرآن، ج16، ص299، ناشر: دار الشعب – القاهرة.

    ابن حزم اندلسى لکھتے ہیں کہ میں نے کسی صحابہ کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ اسنے مختار کی اقتدا میں نماز ادا کی ہو
    إبن حزم الأندلسي، المحلي، ج4، ص214، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربي، ناشر: دار الآفاق الجديدة - بيروت.
    فاسق کے پیچھے نماز کیوں ؟

    ابوصالح کہتے ہیں کہ
    وقد روی عن ابن عباس انه ذکر عنده المختار، فقال: صلی علیه الکرام الکاتبون
    ابن عباس کے سامنے مختار کا ذکر ہوا تو انھوں نے کہا فرشتوں کا درود ہو مختار پہ
    انساب الاشراف ، بلاذری، ج 6 ص 464

    ReplyDelete
  2. حضرت صاحب کم از کم پوسٹ اور اوپر سے اپنے نام اسٹیمپ تو ہٹا دیں تا کہ اصل پوسٹ درست طرح سے سمجھ آسکے شکریہ

    ReplyDelete

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...