نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرمائیں مجھ سے مانگو اور تم شرک کہو نجدیو
حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْلُ ابْنُ زِیَادِ نِالسَّکْسَکِیُّ نَا الْاَوْزَاعِیُّ عَنْ یَحْیَی ابْنِ اَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَبِیْعَۃَ بْنَ کَعْبِ نِالْاَسْلَمِیَّ یَقُوْلُ کُنْتُ اَبِیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٰتِیْہِ بِوَضُوْئِہٖ وَبِحَاجَتِہِ فَقَالَ سَلْنِی فَقُلْتُ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ اَوْغَیْرُ ذٰلِکَ قُلْتُ ہَوَ ذَاکَ قَالَ فَاَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ ۔
ترجمہ: ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک رات میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں گزاری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے وضو اور قضائے حاجت کے لئے پانی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ مجھ سے مانگ لو۔ پس میں عرض گزار ہوا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت فرمایا کہ اس کے سوا اور کچھ؟ عرض کی کہ یہی کافی ہے۔ فرمایا کہ زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرتے رہنا ۔ (ابو داؤد‘ عربی‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب وقت قیام النبی من اللیل‘ حدیث نمبر 1320‘ ص 197‘ مطبوعہ دارالسلام ‘ ریاض سعودی عرب)۔(ابو داؤد ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ باب وقت قیام النبی من اللیل‘ حدیث نمبر1306‘ ص 491‘مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)
مختصر تشریح : یہ روایت سنن ابو دائود کے علاوہ صحیح مسلم‘ سنن ابن ماجہ اورمعجم کبیر طبرانی میں بھی موجود ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پروردگار عالم جل جلالہ‘ کے خلیفہ اعظم محبوب اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دریائے کرم جوش میں آیا تو حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ سل سنن ابودائود میں سلنی ہے یعنی مجھ سے مانگ لو۔ طبرانی میں ہے۔ سلنی فاعطیک مجھ سے مانگ لو میں عطا کردوں گا۔ موجودہ شرک فروش ٹولے کے بقول تو یہ فرمانا تھا کہ جو کچھ مانگنا ہو خدا سے مانگو اور ہم بھی دعا کریں گے بلکہ اس کے برعکس فرمایا کہ ہم سے مانگو میں عطا فرمادوں گا۔ گویا یہ خلافت عُظمیٰ کا اظہار فرمایا جارہاہے اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہمارے کاشانہ اقدس میں نظر آئے اس میں سے جو جی چاہے مانگ لو۔ بلکہ فرمایا کہ جو جی میں آئے ہم سے مانگو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی یہی عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ باری تعالیٰ جل جلالہ‘ کے خلیفہ اعظم اور ماذون و مختار ہیں لہذا دنیا و آخرت کی ہر چیز دے سکتے ہیں۔ اسی لئے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف جنت مانگی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت مانگی۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مانگنا شرک ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود ایسا کیوں فرماتے؟ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کیوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مانگتے ؟ محدثین کرام کیوں ایسی حدیثوں کو کتب احادیث میں درج کرتے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو شرک کی تعلیم دی۔ کیا حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنت میں رفاقت مانگ کر شرک کیا؟ کیا محدثین کرام نے ایسی حدیثوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے کر شرک کی نشرواشاعت کی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اگر توحید کے نام نہاد علمبرداروں کے نزدیک یہ شرک نہیں ہے تو ان مہربانوں کو بھولے بھالے مسلمانوں پر ترس کھاتے ہوئے توحید اور شرک کی تعریفوں پر نظرثانی کرلینی چاہئے جبکہ ایسا کرنے سے مسلمانوں کو مشرک ٹھہرا کر ان کے خرمن اتحاد میں آگ لگانے کا ابلیسی منصوبہ دریا برد ہوجائے گا اور بڑی حد تک اتفاق و اتحاد کی جانفرا ہوائیں چلنے لگیں گی ۔
اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ کے اندر اس حدیث کی شرح لکھتے ہوئے خاتم المحققین شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی ۱۰۵۲ھ / ۱۶۴۲ئ) نے اہل حق کی ترجمانی کا فریضہ یوں ادا کیا ۔
از اطلاق سوال کرد کہ فرمود سل بخواہ تخصیص
نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ہمہ بدست
ہمت و کرامت اوست صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
ہر چہ خواہد وہرکہ راخواہد باذن پروردگار خود دہد
ترجمہ : مطلق سوال کرنے کے لئے فرمانا کہ مانگ لو اور کسی خاص مطلوب چیز کی تخصیص نہ کرنا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دست مبارک کی ہمت وکرامت سے وابستہ ہیں کہ جو چیز چاہیں اور جس چیز کے لئے چاہیں اپنے پروردگار جل جلالہ‘ کے حکم سے عطا فرمائیں۔
اسی حدیث کی شرح لکھتے ہوئے گیارہویں صدی کے مجدد برحق اور اہلسنت و جماعت کے مایہ ناز محقق و محدث علامہ علی قاری علیہ رحمتہ اللہ علیہ (۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ئ) نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حقیقت کے چہرے سے یوں نقاب ہٹائی ہے۔
یُؤْخَذُ مِنْ اِطْلَاقِہ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اﷲَ تَعَالٰی مَکَّنَہٗ مِنْ اِعْطَآئِ کُلِّ مَا اَرَادَمِنْ خَزَائِنِ الْحَقِّ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس مطلق حکم فرمانے سے معلوم ہورہاہے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں مقرر فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے خزانوں سے جس کو جو چیز چاہیں عطا فرمائیں ۔
اس لئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲعلیہ نے مسلمانوں کو یوں فہمائش کی ہے۔
اگر خیریت دنیا و عقبی آرزو داری
بدرگاہش بیاوہرچہ می خواہی تمنا کن
امام محمد بوصیری رحمتہ اﷲ علیہ نے قصیدہ بردہ شریف میں اس عقیدے کو یوں نظم فرمایا۔
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا
وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ
ماضی قریب کے ایک عاشق صادق امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عقیدہ یوں بیان فرمایا ہے ۔
مانگیں گے‘ مانگے جائیں گے‘ منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ ثَنَا اَبُو اُسَامَۃَ وَعَبْدُاﷲِ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اَبِیْ سَعِیْدِ نِالْمَقْبُرِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَ مَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ ۔
ترجمہ: ابوبکر بن ابی شیبہ‘ ابو اسامہ ‘ عبداﷲ بن نمیر‘ عبیداﷲ بن عمر‘ سعید بن ابی سعید المقبری‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ اگر اُمَّت کا مشقت میں پڑنا مجھ پر گراں نہ ہوتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا ۔ (سنن ابن ماجہ‘ عربی‘ باب السواک‘ حدیث نمبر 287‘ص 44‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب) ۔ (سنن ابن ماجہ ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ باب السواک‘ حدیث نمبر304‘ ص 113‘مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)
رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ میں مسواک کو ہر نماز کے وقت ضروری قرار دے دیتا اس عقیدے کو ثابت کرتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شریعت کا مختار بنایا ہے۔
وَحَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ اَخْبَرَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ بْنُ یَزِیْدَ الدِّمَشْقِیُّ عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَامِرٍ الْیَحْصُبِیّ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ یَقُوْلُ اِیَّاکُمْ وَاَحَادِیْثَ اِلَّاحَدِیْثًا کَانَ فِیْ عَہْدِ عُمَرَ فَاِنَّ عُمَرَ کَانَ یُخِیْفُ النَّاسَ فِی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُوْلُ مَنْ یُّرِدِ اﷲُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّمَا اَنَا خَازِنٌ فَمَنْ اَعْطِیْتُہٗ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ فَمُبَارَکٌلَّہٗ فِیْہِ وَمَنْ اَعْطِیْتُہٗ عَنْ مَّسْاَلَۃٍ وَ شَرَہٍ کَانَ کَالَّذِیْ یَاْکُلُ وَلَایَشْبَعُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تم صرف وہی احادیث روایت کرو جو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں روایت کی جاتی تھی۔ اور دیگر تمام روایات (کو نقل کرنے) سے گریز کرو۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اﷲ تعالیٰ کے معاملے میں لوگوں کو ڈرنے کی تلقین کیاکرتے تھے۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس شخص کے لئے بھلائی کا ارادہ کرلے‘ اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا کردیتا ہے اور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ میں خزانے کا نگران ہوں۔ میں اپنی خوشی سے کسی کو کچھ دیتا ہوں۔ تو اس میں اس شخص کے لئے برکت ڈالی جائے گی۔ اور اگر میں کسی کے مانگنے یا اس کے لالچ کی وجہ سے کسی کو کچھ دیتا ہوں تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کھانے کے باوجود سیر نہیں ہوتا ۔ (مسلم شریف‘ عربی‘ کتاب الزکوٰۃ‘ حدیث نمبر 2379‘ ص 417‘مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(مسلم شریف ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ کتاب الزکوٰۃ‘حدیث نمبر 2285‘ ص 784‘ مطبوعہ شبیر برادرز ‘ لاہورپاکستان،چشتی)
رسو ل اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے خزانے کا نگران بنایا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جسے جو چاہیں‘ جب چاہیں عطا فرماسکتے ہیں ۔
کنجی تجھے دی اپنے خزانے کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ اَبِیْ شِیْبَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ مَّنْصُورٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنَّ الٰاخِرَوَقَعَ عَلَی امْرَاَتِہٖ فِی رَمَضَانَ فَقَالَ اَتَجِدُ مَاتُحَرِّرُ رَقَبَۃً قَالَ لَاقَالَ فَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تَصَوْمَ شَہْرَینِ مُتَتَا بِعِیْنَ قَالَ لاَقَالَ اَفْتَجِدُ مَاتُطْعِمُ بِہٖ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا قَالَ لَا قَالَ فَاُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیْہِ تَمْرٌ وَّہُوَ الزَّبِیْلُ قَالَ اَطْعِمْ ہٰذَا عَنْکَ قَالَ عَلَی اَحْوَجَ مِنَّا مَابَیْنَ لَا بَتَیْہَا اَہْلُ بَیْتٍ اَحْوَجُ مِنَّا قَالَ فَاَطْعِمْہٗ اَہْلَکَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی (سلمان بن صحر بیاض) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذلیل نے رمضان المقدس میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ کیا تمہارے پاس غلام ہے جس کو تم آزاد کرو۔ اس شخص نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا مسلسل دو مہینے روزہ رکھنے کی استطاعت ہے۔ اس شخص نے عرض کیا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اتنا کھانا رکھتے ہو جو ساٹھ مسکینوں کو کھلا سکو؟۔ اس نے عرض کیا نہیں۔ راوی نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں اور عرق بمعنی زنبیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا یہ اپنی طرف سے (مسکینوں کو) کھلا دے۔ اس شخص نے عرض کیا جو ہم سے زیادہ محتاج ہو اس پر صدقہ کروں۔ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں (یعنی جانب شرقی اور جانب غربی) کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اپنے گھر والوں کو کھلا دو ۔ (بخاری شریف‘ عربی‘ کتاب الصوم‘ حدیث نمبر1937‘ ص 311‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(بخاری شریف‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ کتاب الصوم‘ حدیث نمبر 1809‘ ص 774‘ مطبوعہ شبیر برادرز لاہورپاکستان،چشتی)
شریعت کا قانون ہے کہ اپنی بیوی سے حالت روزہ میں جماع کرنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے مگر رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب جل جلالہ کی عطا سے قانون شریعت بدل دیا۔ لہذا معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار کل ہیں ۔
حَدَّثَنَا مُوْسٰی بْنُ اِسْمٰعِیْلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِحَدَّثَنَا اَبُوْبُرْدَۃَ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بُرْدَۃَ قاَلَ حَدَّثَنَا اَبُوْبُرْدَۃَ بْنُ اَبِیْ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا جَآئَ ہ‘ السَّآئِلُ اَوْطُلِبَتْ اِلَیْہِ حَاجَۃٌ قَالَ اشْفَعُوْا تُوْجَرُوا وَیَقْضِی اللّٰہُ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَاشَآئ ۔
ترجمہ : حضرت ابو بردہ (عامر) بن ابو موسیٰ نے اپنے باپ حضرت ابو موسیٰ اشعری (عبداﷲ بن قیس) سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس کوئی سائل آتا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی حاجت طلب کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے (ان کی) سفارش کرو تم کو ثواب دیا جائے گا۔ اور اﷲ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک پر جو چاہے فیصلہ کرتا ہے۔ (حاجت مند کی حاجت پوری کرنے کے لئے کوشش کرنے والا ماجور ہے۔ اگرچہ وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے) ۔ (بخاری شریف‘ عربی‘ کتاب الزکوٰۃ‘ حدیث نمبر 1432‘ص 231‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض‘ سعودی عرب) ۔ (بخاری شریف‘ عربی اردو‘ جلد اول، کتاب الزکوٰۃ ‘حدیث نمبر 1341‘ ص585، مطبوعہ شبیر برادرز لاہورپاکستان،چشتی)
معلوم ہوا کہ زبان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہوتی ہے اور فیصلہ رحمن جل جلالہ کا ہوتا ہے ۔
مصطفی ﷺ کلام کریں مصطفی ﷺ کی زبان سے
خدا تعالیٰ بھی کلام کرے تو مصطفی ﷺ کی زبان سے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْاَعْلَی الصَّنْعَانِیُّ نَاعُمَرُ بْنُ عَلِّی الْمَقْدَمِیُّ عَنْ اَبِیْ حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ لِیْ مَابَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ اَتَوَکَّلُ لَہٗ بِالْجَنَّۃِ وَفِی الْبَابِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَابْنِ عَبَّاسٍ ۔
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جوآدمی مجھے اپنی داڑھوں اور ٹانگوں کے درمیان والی چیزوں (زبان اور شرم گاہ) کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اﷲ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں ۔
(ترمذی ‘ عربی‘ ابواب الزہد‘ حدیث نمبر 2408‘ ص 548‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(ترمذی ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ ابواب الزہد‘ حدیث نمبر 296‘ ص 129‘مطبوعہ فرید بک لاہورپاکستان،چشتی)
جنت کی ضمانت وہی دے سکتا ہے جسے جنت عطا کرنے کا اختیار ہو ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جنت کا بھی مالک بنایا ہے ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَیْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا اَبُوالنَّضْرِ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ حُنَیْنِ عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍِالْخُدْرِیِّ قَالَ خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ خَیَّرَ عَبْدًا بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ مَاعِنْدَہ‘ فَاخْتَارَ مَاعِنْدَ اللّٰہِ فَبَکٰی اَبُوْبَکْرٍ فَقُلْتُ فِیْ نَفْسِیْ مَایُبْکِیْ ہٰذَا الشَّیْخَ اِنْ یَکُنِ اللّٰہُ خَیَّرَ عَبْدًا بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ مَاعِنْدَہ‘ فَاخْتَارَ مَاعِنْدَاللٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَالْعَبْدُ وَکَانَ اَبُوْبَکْرٍ اَعْلَمَنَا فَقَالَ یَااَبَابَکْرٍ لاَّتَبْکِ اِنَّ اَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِہٖ وَمَالِہٖ اَبُوْبَکْرٍ وَّلَوْکُنْتُ مُتَّخِذًاخَلِیْلًا مِّنْ اُمَّتِیْ لَاتَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍ وَّلٰکِنْ اُخُوَّۃَ الْاِسْلَامِ وَمَوَدَّتَہ‘ لَایُبْقَیَنَّ فِی الْمَسْجِدِ بَابٌ اِلَّاسُدَّ اِلَّا بَابُ اَبِیْ بَکْرٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ راوی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا و آخرت میں (رہنے) کا اختیار عطا فرمایا اور اس بندے نے آخرت کو پسند کرلیا ۔ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اشکبار ہوئے (حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں) میں نے اپنے دل میں خیال کیا ۔ اس بوڑھے (ابوبکر صدیق) کو کس نے رلایا ۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے بندے کو دنیا و آخرت کا اختیار دیا تو اس بندے نے آخرت کو پسند کرلیا تو (کیا ہوا) (جب ابہام دور ہوا) تو پتہ چلا وہ بندہ (جس کو اختیار دیا گیا ہے) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے ابوبکر رضی اﷲ عنہ مت روئو‘ تمام لوگوں میں مصاحبت اور مال کے لحاظ سے مجھ پر زیادہ احسانات حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے ہیں اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے کسی کو خلیل بنانا چاہتا تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اپنا خلیل بناتا لیکن امت کی اخوت و محبت (خلعت سے بہتر ہے) اور فرمایا مسجد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دروازے کے علاوہ کسی کا دروازہ نہ رہنے دیا جائے ۔ (بخاری شریف‘ عربی‘ کتاب الصلوٰۃ‘ حدیث نمبر 466‘ص 80‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب) ۔ (بخاری شریف‘ عربی اردو‘ جلد اول کتاب الصلوٰۃ‘ حدیث نمبر 449‘ ص 247‘ مطبوعہ شبیر برادرز لاہور پاکستان)
اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ اختیار عطا فرمایا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے رب سے ملاقات کریں یا دنیا میں جلوہ گر رہیں ۔
حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ ثَنَا اَبِیْ عَنْ اَیُّوْبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنُ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَلْیَفْعَلْ فَاِنِّیْ اَشْہَدُ لِمَنْ مَّاتَ بِہَا
ترجمہ : بکر بن خلف‘ معاذ بن ہشام‘ ہشام‘ ایوب‘ نافع ابن عمر رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی خدا کے سامنے شہادت دوں گا ۔ (ابن ماجہ‘ عربی‘ کتاب المناسک‘ حدیث نمبر 3112‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(سنن ابن ماجہ ‘عربی اردو‘ جلد دوم باب فضل المدینہ حدیث نمبر897‘ ص 260مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)
علامہ دمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت سب سے بڑی فضیلت ہے ۔ دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کی مجھ پر شفاعت واجب ہے ۔ نیز ابن ابی المکی نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ جو میری زیارت کے لئے آیا اور اسے کوئی حاجت نہ لائی تو مجھ پر فرض ہے کہ میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں تو وہ مقام جہاں ہمہ وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قرب رہتا ہو تو وہ مقام موت کے زیادہ لائق ہے اور مقصد یہ ہے کہ اپنی جانب سے مدینہ چھوڑ کر نہ چلا جائے۔ بلکہ کوشش اسی بات کی کرے کہ مدینہ میں رہے ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے اے اللہ مجھے شہادت عطا فرما اور مدینہ میں عطا فرما۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے جب لوگوں کو اختلاف ہوا اور ان سے یہ کہا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ دارالخلافہ تبدیل کردیں تو انہوں نے فرمایا میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مدینہ چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ نیز ترمذی میں یہ حدیث بھی ہے جو مکّہ یا مدینہ میں مرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا ۔ نیز یہ حدیث بھی ہے کہ سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی اور پھر میرے ساتھ اہل بقیع اٹھائے جائیں گے اور میں انہیں لے کر مکہ آئوں گا پھر اہل مکہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔
حَدَّثَنَا اَبُوْ مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِیُّ ثَنَا عَبْدُالْعَزِیْزِ بْنُ اَبِیْ حَازِمٍ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیْمِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَللّٰھُمَّ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلُکَ وَ نَبِیُّکَ وَاِنَّکَ حَرَّمْتَ مَکَّۃَ عَلٰی لِسَانِ اِبْرَاہِیْمَ اَللّٰھُمَّ اَنَا عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَ اِنِّیْ اُحَرِّمُ مَابَیْنَ لاَبَتَیْہَا قَالَ اَبُوْ مَرْوَانَ لاَبَتَیْہَا حَرَّتَیَ الْمَدِیْنَۃِ ۔
ترجمہ : ابو مروان محمد بن عثمان‘ عبدالعزیز بن ابی حازم‘ علاء بن عبدالرحمن‘ عبدالرحمن‘ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا اے اﷲ تعالیٰ تیرے دوست اور تیرے نبی ابراہیم علیہ السلام اور تونے خود مکہ کو ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے حرام قرار دیا۔ اے اﷲ تعالیٰ میں تیرا بندہ اور تیرا نبی مدینہ کو ان دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان حرام قرار دیتا ہوں ۔
(ابن ماجہ‘ عربی‘ کتاب المناسک‘ حدیث نمبر 3113‘ ص 453‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(سنن ابن ماجہ ‘عربی اردو‘ جلد دوم ‘باب فضل المدینہ ‘حدیث نمبر 898‘ مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)
غیر مقلد وہابی علماء غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شرک نہیں ہے
غیرُ اللہ سے مدد مانگنا کہ اللہ کے اذن (یعنی عطاء) سے مدد کرتے ہیں یہ شرک نہیں ہے ۔(ہدیۃ المہدی صفحہ 20 علامہ نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)
قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( نفخ الطیب صفحہ نمبر 63 غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان صاحب،چشتی)
قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 23 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)
نواب صدیق حسن خان کا امام شوکانی سے مدد مانگنا اور غیر مقلد عالم رئیس ندوی کی تاویل
غیر مقلدین کی یہ عادت ہےکہ وہ بات بات پہ دوسروں کے اوپر شرک کا فتوی لگائیں گے اور اگر ویسا ہی حوالہ ان کے علماء کا نکل آئے تو یا تو اپنے عالم کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیں گے یا پھر اس کی تاویل شروع کر دیں گے۔
غیر مقلدکے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ''نفخ الطیب'' میں علامہ شوکانی سے مدد مانگی تو اس کی تاویل میں علامہ رئیس ندوی صاحب کہتے ہیں کہ '' اشعار میں بڑی نازک خیالی پیش کرنے کی شعراء کی عادت ہے، یہاں نواب صاحب کی بات کا مطلب ہے کہ اہلحدیث فرقہ کے ساتھ اہل رائے فتنہ پردازی میں مصروف ہے ان کے مقابلہ کے لئےہمیں امام شوکانی جیسے حامی سنت کی کتابوں سے مدد لینے کی ضرورت پیش ہے''(مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ،868/869)
نواب صدیق حسن خان کے اس شعر کی ایک تاویل مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بھی کی ہے۔غیر مقلد شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کے رسالہ اہلحدیث امرتسر میں ایک قادیانی نے اعتراض کیا کہ نواب صدیق حسن خان فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کے قائل تھے ان کا شعر ہے کہ ''ابن قیم مددے قاضی شوکانی مددے'' اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ''نواب صاحب کا اس سے مقصود حقیقی استمداد نہیں بلکہ اظہار محبت ہے'' (رسالہ اہلحدیث امرتسر،3 جون 1938،صفحہ 7)
اس کے علاوہ نواب صدیق حسن خان صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بھی مدد مانگتے تھے ۔ (مآثر صدیق،حصہ دوم صفحہ 30/31) ۔ بات بات پر ایلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لاگانے والے غیر مقلد وہابی حضرات کیا ؟ اپنے غیر مقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کےامام شوکانی، ابن قیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے سے مدد مانگنے کے ان حوالوں کو مانیں گے یا اپنے نواب صاحب کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ان پربھی شرک کا فتوئ لگائیں گے ؟ ( طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment