ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا وصال مبارک
محترم قارئین : پہلے کھلے رافضی اور اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی یہ جھوٹ بول کر کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا اس طرح یہ کذّاب لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور توہین بھی کرتے ہیں آیئے حقائق کیا ہیں پڑھتے ہیں مستند دلائل کی روشنی میں ۔ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب ، المقصدالثانی ، الفصل الثالث،عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۲)
ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)
جب ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية، لابن کثير، ج : 4، جز : 7، ص : 97)
امام بخاري رحمۃ الله علیہ (المتوفى256) صحیح بخاری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا ۔ (صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753،چشتی)
ترجمہ : ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے ۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔ اس جھوٹ اور بہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو ۔ نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا ۔(صحيح ابن حبان: 16/ 41)
عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔ بلکہ حاکم کی روایت میں ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ : جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی،چشتی)
یہ روایات اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طور پر ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔ آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کا بھی ہے ۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا نے پڑ ھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ (اسد الغابہ،ج:۵/ص:۵۰۴)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment