Sunday, 12 May 2019

خواتین کی امامت ، نمازِ عید و اعتکاف کے شرعی احکام

خواتین کی امامت ، نمازِ عید و اعتکاف کے شرعی احکام
محترم قارئین کرام : جمعہ ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں پر واجب نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا ، ادھر عورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی ، اس لیے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی ، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں ، میلی کچیلی جائیں ، زینت نہ لگائیں ، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ۔ ابتدائے اسلام میں عورتوں کو دین کے بنیادی احکامات ، مسائل اور آداب سے روشناس کرنے کےلیے مختلف اجتماعات مثلاً فرض نماز ، جمعہ ، عیدین وغیرہ میں شرکت کی اجازت تھی ۔ جب یہ ضرورت پوری ہوئی اور عورتیں بنیادی مسائل واحکام سے واقف ہو گئیں تو انہیں ان اجتماعات سے روک دیا گیا ۔ مندجہ ذیل روایات اس پر شاہد ہیں ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لا تمنعوا نسائکم المساجد ، وبیوتھن خیر لھن ۔
ترجمہ : اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو ، اور ان کے گھر ان کےلیے زیادہ بہتر ہیں ۔ (رواہ ابوداوٴد ، مشکوٰة صفحہ ۹۶،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا ، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا ۔
ترجمہ : عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا ، اپنے گھر کی چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔ (رواہ ابوداوٴد ، مشکوٰة صفحہ ۹۶)

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَوْاَدْرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَااَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 120 باب خروج النساء الی المساجد)(صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 183 باب خروج النساء الی المساجد)
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں کو مسجد جانے سے ضرور روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَا یُخْرِجُ نِسَاءَ ہٗ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی بیویوں کو نماز عیدین کےلیے نہیں جانے دیتے تھے ۔

عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہٗ کَانَ لَایَدَعُ اِمْرَأۃً مِّنْ اَھْلِہٖ تَخْرُجُ اِلٰی فِطْرٍ وَلَااَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین،چشتی)
ترجمہ : ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر بن عوام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھنے کےلیے نہیں جانے دیتے تھے ۔

عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ القَاسِمِ قَالَ کَانَ الْقَاسِمُ اَشَدَّ شَیْئٍ عَلَی الْعَوَاتِقِ ، لَایَدَعُھُنَّ یَخْرُجْنَ فِی الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : حضرت عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہم نوجوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے کہ انہیں عیدُالفطر اور عیدُالاضحیٰ میں نہیں جانے دیتے تھے ۔

عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ یُکْرَہُ خُرُوْجُ النِّسَائِ فِی الْعِیْدَیْنِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 4 صفحہ 234 باب من کرہ خروج النساء الی العیدین)
ترجمہ : جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نمازوں کےلیے جانا مکروہ ہے ۔

اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارشاد ہے : لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ۔
ترجمہ : عورتوں نے جو نئی رَوش اختراع کرلی ہے ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے ، جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا ۔ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴،چشتی)

عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي ۔
ترجمہ : حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) نماز پڑھوں'' نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا''مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نمازپڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے (اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنانے کا) حکم دیا چنانچہ ان کے لئے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا (یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بناگیا) اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ رب العالمین سے جا ملیں ۔ (رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال و صحیح الترغیب والترہیب حدیث:٣٣٨)

عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر برپا ہونے والے فتنہ کے متعلق یہ حديث صحيح ہے ، اسے ترمذی نے اس لفظ کے ساتھہ ذکر کیا ہے عورت پوشیدہ رکھنے کی چیز ہے ، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے ۔ (سنن ترمذی، جلد 3، صفحہ 476، حدیث نمبر 1173)(صحیح ابنِ خزیمہ، جلد 3، صفحہ 93،94 حدیث نمبر 1687-1685)(صحیح ابنِ حبان، جلد 12، صفحہ 412،413، حدیث نمبر 5599-5598)(طبرانی نے اسے المعجم الکبیر کی جلد 8، صفحہ 101، حدیث نمبر 10115،چشتی)(المعجم الاوسط میں جلد 8، صفحہ 101 حدیث نمبر 8096)(مسند بزار، البحر الزخار، جلد 5، صفحہ 428-427، حدیث نمبر 2061، 2062 ، 2065 )(ابنِ عدی نے کتاب الکامل، جلد 3، صفحہ 423 سوید بن ابراہم کی سوانح عمری میں نقل کیا)

مختصر شرح حدیث : عورت جب تک پردہ میں رہے گی یہ اس کے لئے زیادہ بہتر اور حفاظت کا باعث ہے، اور وہ اپنے فتنے اور اپنے ذریعہ دوسروں کو فتنے میں ڈالنے سے دور رہے گی، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس میں راغب ہوتا ہے تو وہ اسے گمراہ کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے، مگر اللہ جس پر رحم کر دے ، اس لیے کہ اسی نے شیطان کو اپنے اوپر غالب آنے کے اسباب میں سے ایک سبب دیا، اور وہ اس کا اپنے گھر سے نکلنا ہے ، مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے حق میں مشروع ہے کہ وہ اپنے گھر کو لازم پکڑے رہے، اور گھر سے کسی ضرورت کی بنا پر اپنے پورے جسم کا مکمل پردہ کرکے نکلے ، اور زینت اور خوشبو استعمال نہ کرے ، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 33)
ترجمہ : ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎؤ کا ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ ۔ پر عمل ہوجائے ۔

اور الله سبحانه و تعالى كا فرمان : وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 53)
ترجمہ : ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ کےلیے ﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ ۔ ورنہ وہ فاسق و فاجر لوگوں کے جال میں پھنس جائیگی ، بالخصوص بازاروں اور پارکوں اور مخلوط جگہوں میں ، اور اس زمانے میں تو ایسی جگہیں بہت ہیں : مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ ۔
ترجمہ : میں نے اپنے بعد مرد حضرات کےلیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔ (صحيح البخاري ومسلم)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیویاں نماز عید کےلیے عید گا نہیں جاتی تھیں : (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5845 )

حضرت عروہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی گھر کی کسی عورت کو نماز عید کےلیے عید گاہ نہیں جانے دیتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5846 ،چشتی)

حضرت قاسم بن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے انہیں عیدین کی نماز کےلیے عید گاہ نہیں جانے دیتے تجھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5847 )

جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عورتوں کو عیدین کی نماز کےلیے جانا مکروہ ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر 5844 )

امتدادِ زمانہ کی وجہ سے جب حالات بدل گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مشورہ سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا ۔ (یعنی اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم ہے)

غور کیا جائے تو آج کا زمانہ نہ تو سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک کے جیسا ہے اور نہ ہی احکامِ شریعت کی پابندی و پاسداری اُس عہد مبارک جیسی ہے ۔ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے فتنہ کو اپنے عہد مبارک میں ہی جان لیا سو عورتوں کی مسجدوں میں نماز پر پابندی لگا دی ۔

ان احادیث مبارکہ سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا ، محض رخصت و اباحت کی بنا پر تھا ، کسی تاکید یا فضیلت و استحباب کی بنا پر نہیں ، اس رخصت و اباحت کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعلیم اور ارشاد ، ان کے لیئے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے ، تو میں نماز عشاء قائم کرتا ، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگا دیں ۔(رواہ أحمد، مشکواة)

غور کریں اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے ، آگ سے جلا دینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں ، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا ، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں ، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی ، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اور اسی سزا کی مستوجب ہوتیں ۔

مندرجہ بالا احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز ، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز ، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے ، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اور مسجدِ نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا ، بلکہ محض مباح تھا ۔ کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اور جماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں ۔ اگر عورتوں کےلیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے ۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کےلیے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا ، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم ؟ اور کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے ؟
شاید یہ لوگ اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں ۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے ، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا ، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے ، عورتوں کو چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری حیات مبارکہ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا ، تو اس اباحت و رخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انہیں حاصل تھا ؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو ، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی ، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں ۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں ۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : لا تجب الجمعة على العبید والنسوان والمسافرين والمرضى كذا في محيط السرخسي ۔
ترجمہ : غلاموں ، عورتوں ، مسافروں اور مریضوں پر نماز جمعہ واجب نہیں ۔
مزید اسی میں ہے : تجب صلوة العيد على كل من تجب عليه صلوة الجمعة كذا في الهدايه ۔
ترجمہ : جن لوگوں پر نماز جمعہ واجب ہے انہیں لوگوں پر نماز عید بھی واجب ہے جیسا کہ ھدایہ میں ہے ۔ مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ عورتوں پر نماز عید واجب نہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ 74 اور صفحہ 77،چشتی)

رہا جواز کا سوال تو عورتوں کےلیے عیدین کی نماز جائز بھی نہیں اس لیے کہ عید گاہ میں اختلاط مردم ہو گا ، اور عورتیں جماعت کریں تو یہ بھی نا جائز اس لیے کہ صرف عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے ، اور فرداً فرداً پڑھیں تو بھی نماز جائز نہ ہوگی اس لیے کہ عیدین کی نماز کےلیے جماعت شرط ہے وإذا فات الشرط فات المشروط ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد اول صفحہ 426 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

مختصر یہ کہ شریعت نہیں بدلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو شریعت کے بدلنے کا اختیار نہیں ، لیکن جن قیود و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی ، جب عورتوں نے ان قیود و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا تو اجازت بھی باقی نہیں رہے گی ، اس بنا پر فقہائے اُمت نے ، جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں ، عورتوں کی مساجد میں حاضری کو مکروہ قرار دیا ، گویا یہ چیز اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے ، مگر کسی عارضے کی وجہ سے ممنوع ہوگئی ہے ۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ وبا کے زمانے میں کوئی طبیب امرود کھانے سے منع کردے ، کھانے سے منع کر دے ، اب اس کے یہ معنی نہیں کہ اس نے شریعت کے حلال و حرام کو تبدیل کر دیا ، بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک چیز جو جائز و حلال ہے ، وہ ایک خاص موسم اور ماحول کے لحاظ سے مضرِ صحت ہے ، اسی لیے اس سے منع کیا جاتا ہے ۔

مسئلہ عورت کا امامت کروانے کا شرعی حکم : ⏬

ہمارے ایک محترم قاری جوکہ خود ایک جگہ خطیب ہیں اور عالمِ دین ہیں انہوں نے اس مسئلہ پر لکھنے کےلیے خصوصی حکم فرمایا کہ اس مسئلہ پر لازمی لکھیں بہت ہی کم وقت میں جتنا ممکن ہو سکا فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مکمل حوالہ جات کے ساتھ اس موضوع پر یہ مختصر مضمون لکھا ہے اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو ضرور اصلاح بھی فرمائیں اور فقیر کو بھی مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کی جا سکے ۔

عورت کا دیگر عورتوں کی امامت کرانا خواہ پنجگانہ نمازیں یا جمعہ ہو یا عیدین ہوں خواہ نماز تراویح ہو یا عظمت والی راتوں ۔ (لیلۃ القدر ، شب برأت ، شب معراج وغیرہ) کے نوافل کی ہو مکروہ تحریمی ہے ۔ امامت کا حق دراصل مرد کےلیے ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے نزدیک عورت کی امامت درست نہیں ، شریعت کا یہ حکم عورت کی حاجات و ضروریات کی مناسبت سے دیا گیا ہے (اس میں عورت کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں) عورت کےلیے پنجگانہ فرض نمازیں گھر میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ، جب فرض نماز کےلیے ان کی جماعت نہیں رکھی گئی تو سنت و نفل کےلیے ان کی جماعت کیسے درست ہو گی ؟ عورتوں کےلیے جماعت کا مقرر نہ کیا جانا ان کےلیے اللہ کی ایک رحمت ہے اور اس میں بے شمار فوائد و مصالح ہیں ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس نے معاشرے کے ہر فرد کےلیے حدود اور علیحدہ دائرہ کار متعین کر دیا ہے ، خواتین کےلیے تدبیرِ منزل ، امور خانہ داری اور تربیت اولاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور مرد کو من جملہ اس کی ذمہ داریوں کے ایک منصب امامت بھی دیا گیا ہے ۔ جہاں تک خواتین کی امامت کا مسئلہ ہے توچونکہ عورتوں کےلیے امامت اصلاً نہیں ہے اسی لیے خواتین کی امامت مرد حضرات کےلیے درست نہیں اور خواتین کےلیے کسی خاتون کی امامت خواہ فرائض میں ہو یا نوافل میں مکروہ تحریمی ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 75 میں ہے : ویکرہ امامۃ المراءۃ للنساء فی الصلوۃ کلھامن الفرائض والنوافل اورفتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 75میں ہے : وصلو تھن فرادی افضل ترجمہ : عورتوں کےلیے نماز باجماعت ادا کرنے سے بہتر و افضل ہے کہ وہ تنہا بغیر جماعت ادا کریں ۔

اگر عورت کا مردوں کی امامت کرنا جائز ہوتا ، تو کم از کم ایک آدھ مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیانِ جواز کے طور پر ثابت ہونا چاہیے تھا ، حالانکہ ایسا نہیں ہے (مذکورہ بالا روایت سے جواز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ واضح ہو چکا) نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح کی بات ثابت ہوتی ، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں کوئی تواس پر عامل پایا جاتا ۔ اس کے بالمقابل حسبِ ذیل روایات سے معلوم ہوتا ہے ، کہ عورت ، مردوں کی امامت نہیں کر سکتی یا عورت کو مردوں کی امامت نہیں کرنا چاہیے : ⏬

عن عبد اللّٰہ (بن مسعود) عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال : صلوة المرأة فی بیتہا افضل من صلوتہا فی حجرتہا، وصلوتہا فی مخدعہا افضل من صلوتہا فی بیتہا ۔ (سنن ابی داود جلد ١ صفحہ ۸۴،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : عورت کا صحنِ کمرہ میں نماز پڑھنے سے کمرہ کے اندر نماز پڑھنا بہتر ہے ، اور بڑے کمرہ میں نماز پڑھنے سے کوٹھری میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔

اس روایت سے مستفاد ہوتا ہے کہ عورتوں کو امامت نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ کوٹھری بہت تنگ و مختصر جگہ ہوتی ہے ، جس میں عادةً جماعت قائم کرنا متعذر اور دشوار ہوتا ہے ۔

ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے : لو ادرک النبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ما حدث النساء ، لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ․ (صحیح بخاری جلد ١ صفحہ ۱۲،چشتی)
ترجمہ : اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ صورتِ حال ہوتی ، جو اب عورتوں نے نئی پیدا کی ہے ، تو آپ ان کو ضرور مسجد میں آنے سے روک دیتے ، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا ۔

روایتِ بالا کی دلالت مدعا پر نہایت واضح ہے ۔

عن ابی ہریرة عن النبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم قال : التصفیق للنساء والتسبیح للرجال ․۔(صحیح بخاری جلد صفحہ ۱۶۰،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کےلیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کےلیے ہے ۔

حضرات محدثین علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ نماز میں امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کےلیے عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے اس لیے منع کیا گیا تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے ۔ جب امام کو غلطی پر متنبہ کرنے میں صرف سبحان اللہ کہنے میں اس قدر لحاظ کیا گیا ، تو مردوں کی امامت میں تکبیراتِ انتقالات کہنے اور جہری نمازوں میں قرأت کرنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے ؟ ماٰل اس کا یہ ہے کہ وہ مردوں کی امامت نہ کریں ۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں ۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے : انها کانت تؤذن وتقيم وتؤم النساء ، فتقوم وسطهن ۔ (المستدرک جلد 1 صفحہ 320 رقم الحدیث 731،چشتی)
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اذان دیتی تھیں ، نماز کےلیے اقامت کہتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر عورتوں کی امامت کراتی تھیں ۔

اس روایت کی رُو سے ثابت ہے کہ دینی تربیت اور عبادت الہٰی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کےلیے اگر عورتیں جمع ہو کر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہے ۔ اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی ۔ عیدین کے موقع پر خطبہ عید بھی پڑھے گی کیونکہ عورت کا عورتوں کے سامنے خطبہ پڑھنا درست ہے ۔

فقہا کرام علیہم الرّحمہ نے لکھا ہے کہ : عورت عورتوں کی اور نابالغ نابالغوں کا امام ہو سکتا ہے ۔ (فتاویٰ عالمگيری جلد 1 صفحہ 84،چشتی)

جمعہ ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں کے ذمہ نہیں ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا ، ادھر عورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی ، اس لیے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی ، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں ، میلی کچیلی جائیں ، زینت نہ لگائیں، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا تمنعوا نسائکم المساجد، وبیوتھن خیر لھن ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة صفحہ ۹۶،چشتی)
ترجمہ : اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو ، اور ان کے گھر ان کےلیے زیادہ بہتر ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا ۔ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة صفحہ ۹۶،چشتی)
ترجمہ : عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا ، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔

مسندِ احمد میں حضرت اُمِّ حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی وصلٰوتک فی بیتک خیر لک من صلٰوتک فی حجرتک ، وصلٰوتک فی حجرتک خیر من صلٰوتک فی دارک، وصلٰوتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک ، وصلٰوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلٰوتک فی مسجدی۔ قال: فأمرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شٸ من بیتھا واظلمہ ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عز وجل ۔ (مسندِ احمد جلد ۱ صفحہ ۳۷۱،چشتی)(وقال الھیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الأنصاری ، وثقہ ابن حبان ، مجمع الزوائد جلد ۲ صفحہ ۳۴)
ترجمہ : مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے ، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ : حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دُور اور تاریک ترین کونے میں ان کےلیے نماز کی جگہ بنادی جائے ، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی ، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں ۔

وفی خلاصۃ الفتاوی جلد ۱ صفحہ ۱۴۷ امامۃالمراہ للنساء جائزہ الا ان صلاتھن فرادی افضل ، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار جلد1 صفحہ 565) ۔ (و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة) ، فلو انفردن تفوتهن بفراغ إحداهن؛ ولو أمت فيها رجالا لا تعاد لسقوط الفرض بصلاتها إلا إذا استخلفها الإمام وخلفه رجال ونساء فتفسد صلاة الكل، طحطاوي علي الدرر صفحہ 245 جلد 1 ۔ قوله ؛ويكره تحريما جماعة النساء، لان الامام ان تقدمت لزم زيادة الكشف وان وقفت وسط السف لزم ترك المقام مقامه وكل منهما مكروه كما في العناية وهذا يقتضي عدم الكراهة لو اقتدت واحدة محاذية لفقد الامرين ۔

ان عبارات کا مفہوم و خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کی نماز با جماعت كے بارے اصل حكم یہی ہے کہ ان کی جماعت نا جائز اور مکروہِ تحریمی ہے اگرچہ نمازِ تراويح کی جماعت ہو ، اس لیے عورتوں کو تراویح اور وتر کی نماز بغیر جماعت کے الگ الگ پڑھنی چاہیے ۔

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : (وکرہ جماعۃ النساء) تحریم للزوم احد المحظورین ،قیام الامام فی الصف الاول وھو مکروہ ،او تقدم الامام وھو ایضاً مکروہ ‘‘یعنی،’’ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس سے دو ممنو ع چیزوں میں سے ایک ضرورصادر ہو گی ایک امام عورت کا پہلی صف میں ہونا یا امام عورت کا آگے امام کی جگہ پر کھڑا ہونا بھی مکروہ تحریمی ہے ۔  (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ ۳۰۴ مطبوعہ قدیمی کتبخانہ کراچی،چشتی)

الجوھرۃ النیرہ میں ہے : (یکرہ للنساء ان یصلین وحدھن جماعۃ )یعنی بغیر رجال ،وسواء فی ذلک الفرائض والنوافل والتراویح‘‘یعنی،’’ اکیلے عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے فرائض ،نوافل اور تراویح سب کا ایک حکم ہے ۔ (الجوھرۃ النیرۃ جلد ۱ صفحہ ۱۶۲ مکتبہ رحمانیہ لاہور،چشتی)

فتح القدیر میں ہے : (یکرہ للنساء ان یصلین جماعۃ لانھن فی ذلک لا یخلون عن ارتکاب محرم )ای مکروہ لان امامتھن اما ان تتقدم علی القوم او تقف وسطھن ،وفی الاول زیادۃ الکشف وھی مکروھۃ ،وفی الثانی ترک الامام مقامہ وھو مکروہ والجماعۃسنۃ وترک ماھو سنۃ اولی من ارتکاب مکروہ ۔
ترجمہ : اکیلی عورتوں کی جماعت حرام(کراہت تحریمی) کے ارتکاب سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ امام عورت تما م نماز پڑھنے والیوں کے آگے ہوگی یا صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی ۔ پہلی میں تو بے پردگی ہے اور وہ مکروہ ہے اور دوسری میں امام کی جگہ کو چھوڑ دینا ہے وہ بھی مکروہِ تحریمی ہے ۔ جماعت سنت ہے اور مکروہِ تحریمی کے ارتکاب کے وقت سنت کو چھوڑ دینا افضل ہے ۔ (فتح القدیر جلد ۱ صفحہ ۳۶۲ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

اگر عورت کے امام بننے سے مراد مرد کی امامت کرانا ہے تو وہ کسی صورت میں بھی مرد کی امام نہیں بن سکتی کیونکہ امام بننا مرد کا کام ہے عورت کا نہیں فتاوی عالمگیری میں ہے : لایجوز اقتداء رجل بامرأۃ ھکذا فی الھدایۃ ۔
ترجمہ : مرد کسی عورت کی اقتدء نہیں کر سکتا اسی طرح ھدایہ میں ہے ۔ (فتاوی عالمگیری جلد ۱ صفحہ ۹۴ قدیمی کتبخانہ کراچی) ۔

خواتین اعتکاف کہاں کریں : ⏬

محترم قارئینِ کرام : خواتین کے لیے بھی اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے ، عورتوں کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ تحریمی ہے ، ان کے لیے اعتکاف کی جگہ  وہ ہے جسے گھر میں نماز ، ذکر ، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو ، اور عورتوں کے کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے ، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے  تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے پھر اس جگہ اعتکاف کرے ، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی ، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ . (سورۃ البقرہ:187)
ترجمہ : اور تم مسجدوں میں اعتکاف کیا کرو ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ متوفی 370ھ فرماتے ہیں : وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء ۔
ترجمہ : مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے) صرف مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے ۔  (احکام القرآن للجصاص  جلد نمبر1صفحہ نمبر333)

خواتین کے لیے بھی اعتکاف کرنا سنت ہے اور ثواب کا باعث ہے ، خواتین کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ تحریمی ہے ، ان کے لیے اعتکاف کی جگہ  وہ ہے جسے گھر میں نماز ، ذکر ، تلاوت اور دیگر عبادت کے لیے خاص اور متعین کرلیا گیا ہو ، اور عورتوں کے کے لیے یہ خاص جگہ ایسی ہے جیسے مردوں کے لیے مسجد ہے ، اگر گھر میں عبادت کے لیے پہلے سے خاص جگہ متعین نہیں ہے تو اعتکاف کے لیے گھر کے کسی کونے یا خاص حصے میں چادر یا بستر وغیرہ ڈال کر ایک جگہ مختص کرلے پھر اس جگہ اعتکاف کرے ، اور وہ جگہ عورت کے حق میں مسجد کے حکم میں ہوگی ، اعتکاف کی حالت میں طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر وہاں سے باہر نکلنا درست نہیں ہوگا ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دے دی ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو ، انہوں نے اجازت دلا دی ۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا ۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے : یہ خیمے کیسے ہیں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ "فامر بخبائہ فقوض" پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا ۔ (صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج) یہی روایت صحیح مسلم میں بهی موجود ہے ۔

اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے ۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی عرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عورتوں کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے ۔ (حاشیہ ابن عابدین جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 440)

علامہ ابن عابدین شامی عرحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں بدائع الصنائع کے حوالہ سے مزید لکھتے ہیں : صرح فی البدائع بأنہ خلاف الأفضل ۔
ترجمہ : البدائع و الصنائع میں علامہ کاسانی نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا خلافِ افضل ہے ۔ (ابن عابدين شامی، رد المحتار، 2 :  441) ۔ یعنی مسجد کی نسبت عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے ۔

اسی طرح فقہاء شوافع علیہم الرّحمہ بهی فرماتے ہیں کہ جوان خاتون کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے ۔ (الموسوعة الفقهية الکویتیة جلد 5 صفحہ 210،چشتی)

جو علماء خواتین کے مسجد میں اعتکاف کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک بهی گهر میں اعتکاف کرنا افضل اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے تو کیوں غیر افضل کو افضل پر ترجیح دی جائے ؟

عورت گھر کی مسجد (یعنی نماز کی مخصوص جگہ) میں اعتکاف کرے اور یہ جگہ اس کے حق میں بمنزلی مسجد کے ہوگی ، یعنی کھانا، پینا ، لیٹنا اسی جگہ ہوگا اور کسی طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر اس جگہ سے باہر نکلنے پر اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ اگر گھر میں پہلے سے نماز کی مخصوص جگہ موجود ہو تو اسی میں اعتکاف کرے، اس سے ہٹ کر گھر میں دوسری جگہ اعتکاف جائز نہیں اور پہلے سے کوئی جگہ نماز کے لئے مخصوص نہیں ہے تو اب مخصوص کرلے اور اسی میں اعتکاف کرے، گھر کی بجائے مسجد میں اعتکاف کرنا عورت کے لئے مکروہ ہے ۔ “و المرأة تعتکف فی مسجد بیتها… و لو لم یکن فی بیتها مسجد، تجعل موضعاً منه مسجداً” (ھندیہ:۱؍۲۱۱)

عورت کا دورانِ اعتکاف گھر کا کام کرنا

بیت الخلاء کے تقاضے اور وضوء کے علاوہ اعتکاف کی جگہ سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، لہذا ایسی عورت جس کے گھر میں کوئی اور کام کاج کیلئے نہ ہو وہ مسنون اعتکاف کے لئے نہ بیٹھے ، البتہ اپنے کاموں سے فارغ ہوکر اس مخصوص جگہ پر ذکر و تلاوت و عبادت کے ذریعے اس مقدس مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ فی الهندیة : “و إذا اعتکفت فی مسجد بیتها، فتلک البقعة فی حقها کمسجد الجماعة فی حق الرجل ، لاتخرج منه إلا لحاجة الإنسان” (۱؍ ۲۱۱)

عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے

عورت کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لئے خاوند سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اور خاوند اسے اعتکاف سے منع بھی کرسکتا ہے ، لیکن جب ایک بار اجازت دے دی تو اب منع نہیں کرسکتا ۔ “فیصح من المرأة…. بإذن الزوج إن کان لها زوج” (ھندیہ: ۱؍۲۱۱)

اجازت کے بعد شوہر بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا

خاوند نے جب اجازت دے دی تو اب اس کے لئے بیوی سے ہم بستر ہونا ، بوس و کنار کرنا یا اس ارادہ سے بیوی کی اعتکاف گاہ میں داخل ہونا جائز نہیں ، تا ہم اس نے ہم بستری کرلی تو بیوی کا اعتکاف فاسد ہوگا ، ہم بستری کے سوا دوسری باتوں سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ۔ ” فإن أذن له الزوج بالاعتکاف، لم یکن له أن یمنعها بعد ذلک، و إن منعها، لا یصح منعه” (ھندیہ: ۱؍۲۱۱،چشتی)

عورت کومسجد میں اعتکاف مکروہ ہے ، بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اس جگہ کرے جو اُس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے جسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ کی طرح بلند کرلے ۔ بلکہ مرد کو بھی چاہیے کہ نوافل کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لے کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔ (""الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۴)

اگرعورت نے نماز کے لیے کوئی جگہ مقرر نہیں کر رکھی ہے تو گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ، البتہ اگر اس وقت یعنی جب کہ اعتکاف کا ارادہ کیا کسی جگہ کو نماز کے لیے خاص کر لیا تو اس جگہ اعتکاف کر سکتی ہے ۔ (الدرالمختار"" و ""ردالمحتار""، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج۳، ص۴۹۴)

عورت نے اعتکاف کی منت مانی تو شوہر منت پوری کرنے سے روک سکتا ہے اور اب بائن ہونے یا موتِ شوہر کے بعد منت پوری کرے ۔ یوہیں لونڈی غلام کو ان کا مالک منع کر سکتا ہے، یہ آزاد ہونے کے بعد پوری کریں ۔ (""الفتاوی الھندیۃ""، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱،چشتی)

شوہر نے عورت کو اعتکاف کی اجازت دے دی اب روکنا چاہے تو نہیں روک سکتا اور مولیٰ نے باندی غلام کو اجازت دیدی جب بھی روک سکتا ہے اگرچہ اب روکے گا تو گنہگار ہوگا ۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)

شوہر نے ایک مہینے کے اعتکاف کی اجازت دی اور عورت لگاتار پورے مہینے کا اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو شوہر کو اختیار ہے کہ یہ حکم دے کہ تھوڑے تھوڑے کر کے ایک مہینہ پورا کر لے اور اگر کسی خاص مہینے کی اجازت دی ہے تو اب اختیار نہ رہا ۔ (الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ج۱، ص۲۱۱)

عورت کا غسل کیلئے مسجدِ بیت سے نکلنا

مرد اصلِ مسجد (یعنی وہ جگہ جو نماز پڑھنے کے لئے خاص کرکے وقف ہوتی ہے) سے متصل وقف جگہ جو ضرویات و مصالحِ مسجد کے لئے وقف ہوتی ہے جسے فنائے مسجد کہا جاتا ہے اس  میں بنے ہوئے غسل خانہ میں دورانِ اعتکاف بغیر ضرورت کے بھی غسل کرسکتا ہے فنائے مسجد  میں جانے سے اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا جبکہ عورت گھر میں متعیّن کردہ جگہ میں اعتکاف کرتی ہے ، جو ”مسجدِ بیت“ کہلاتی ہے اور مسجدِ بیت میں فناکا کوئی تصور نہیں ہوتا اس لئےعورت مسجدِ بیت سے باہر بلا ضرورت نہیں نکل سکتی ، صورتِ مسئولہ میں عورت اگرفرض غسل کے علاوہ کسی غسل مثلاً گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے نکلے گی تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔

صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : فِنائے مسجد جو جگہ مسجدسے باہَراس سے مُلحَق ضروریاتِ مسجدکیلئے ہے، مَثَلًاجوتااتارنے کی جگہ اور غُسْل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتِکاف نہیں ٹوٹے گا۔“مزیدآگے فرماتے ہیں : ”فنائے مسجداس مُعامَلہ میں حکمِ مسجد میں ہے ۔ (فتاوی امجدیہ،کتاب الصوم،۱/۳۹۹،چشتی)

امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب وہ مدارس متعلّقِ مسجد ، حدودِ مسجد کے اندرہیں اُن میں اور مسجد میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل سے صحنوں کا امتیاز کردیاہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی نہیں یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کوجانا جائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے ۔ وھذا ما قال الامام الطحاوی انّ حجرۃ امّ المؤمنین من المسجد، فی ردّ المحتار عن البدائع لو صعد ای : المعتکف المنارۃ لم یفسد بلاخلاف لانّھا منہ لانّہ یمنع فیھا من کلّ مایمنع فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد۔ یعنی یہی بات امام طحاوی نے فرمائی کہ اُمُّ المؤمنینرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا  کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے ۔ردالمحتار میں بدائع سے ہے اگر معتکف منارہ پرچڑھا تو بالاتفاق اس کا اعتکاف  فاسد نہ ہوگا کیونکہ منارہ مسجد کاحصہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر وہ عمل مثلاً بول وغیرہ منع ہے جومسجد میں منع ہے تویہ مسجد کے دیگر گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا ۔ (فتاوی رضویہ،باب الوتر والنوافل،۷/۴۵۳،چشتی)

علامہ علاؤ الدّین حصکفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریرفرماتے ہیں : ( الخروج الّا لحاجة الانسان) طبيعيّة كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر ۔
ترجمہ : معتکف مسجد سے نہ نکلے مگر حاجت ِ طبعیہ کی وجہ سے جیسے پیشاب ، پاخانہ اور  احتلام ہوتو غسل کیلئے جبکہ اُسے مسجد میں غسل کرنا ممکن نہ ہو۔جیسا کہ نہر میں ہے ۔ (در مختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۱)

عورت کا گھر میں ہی مسجدِ بیت سے باہر کسی کام کیلئےجانا

عورت اعتکاف کیلئے مخصوص کی گئی جگہ سے حاجتِ شرعی و طبعی کے علاوہ نہیں نکل سکتی ، اگر نکلے گی اگرچہ گھر ہی کے کسی دوسرے حصے کی طرف تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ خیال رہے کہ جس طرح مرد کا اعتکاف بلا عذرِ شرعی مسجد سے نکلنے سے ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح عورت بھی اگر بلا عذرِ شرعی اس مسجدِ بیت (گھر میں نماز پڑ ھنے کیلئے مخصوص کی گئی جگہ جہاں اعتکاف کیا جا تا ہے) سے نکلے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔
درمختار و ردالمحتار میں ہے : (وحرم علیہ الخروج)ای: من معتَکفہ ولو مسجد البیت فی حقّ المرأ ۃ فلو خرجت منہ ولو الی بیتھا بطل اعتکافھا لو واجباً(الّا لحاجۃ الانسان) ترجمہ : معتکف کاحاجتِ انسانیہ کے علاوہ اپنی اعتکاف کی جگہ سے نکلنا حرام ہے اگر چہ وہ عورت کیلئے مسجدِ بیت ہو،اگر عورت اپنی مسجدِ بیت سے نکلے گی اگر چہ گھر کے دوسرے حصوں ہی کی طرف تو اس کااعتکاف باطل ہو جا ئے گا جبکہ وہ اعتکاف واجب ہو ۔ (در مختار وردّ المحتار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۰-۵۰۱،چشتی)
اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے : اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ ی حقّہا کمسجد الجماعۃ فی  حقّ الرجل لاتخرج منہ الّا لحاجۃ الانسان.....ولا تخرج المرأۃ من مسجد بیتہا الی المنزل ھکذا فی محیط السرخسی“۔
ترجمہ :  جب کو ئی عورت مسجدِ بیت میں اعتکاف کر لے تو وہ بُقْعۂ زمین اس عورت کے حق میں مرد کیلئے مسجدِ جماعت کی طرح ہے وہ اس سے حاجتِ انسانیہ کے علاوہ نہ نکلے گی.....اور عورت مسجدِ بیت سے گھر کے دوسرے حصوں کی طرف نہیں نکلے گی اسی طرح محیط سرخسی میں ہے ۔ (فتاوی ہندیۃ، کتاب الصوم، الباب السابع فی الاعتکاف، ۱/۲۱۱،۲۱۲)

اعتکاف میں بیٹھنے کیلئے مانعِ حیض ادویات کا استعمال کرنا

عورت کامانعِ حیض گولیوں کا استعمال چاہے اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے ہویا کسی اوروجہ سے دونوں صورتوں میں شرعی اعتبار سے جائز ہے ۔ البتہ طبّی اعتبار سے اگر ان کے استعمال سے عورت کو نقصان ہوتا ہو تو پھر اس سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ اوردورانِ اعتکاف حیض آنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گاجس کی بعد میں قضاواجب ہے ۔ واضح رہے کہ گولیوں کی وجہ سے حیض نہ آئے توحائضہ شمار نہ ہوگی حکمِ طہارت باقی رہے گا ،روزہ رکھ سکتی ہے اور اعتکاف بھی کرسکتی ہے ۔
طحطاوی علی الدرمیں درِّ مختارکے اس قول”فیقضیہ“کے تحت ہے : ’’سواء فسد بصنعہ بغیر عذر کالخروج والجماع، والاکل والشرب فی النہار او فسد بصنعہ لعذر کما اذا مرض فاحتاج الی الخروج فخرج او بغیر  صنعہ رأساً کالحیض والجنون والاغماء الطویل بحر‘‘یعنی اعتکاف کافاسدہونا برابرہےکہ قصداًبغیرعذر کے ہوجیسے مسجد سے باہرنکلنا،جماع کرنا،دن میں کھاناپینا ۔ یافاسدکرناقصداًہوعذرکی وجہ سے جیسے بیمارہوا اور مسجدسے نکلنے کی طرف محتاج ہے تووہ مسجدسے نکلا۔یافاسد کرنااصلاًاس کے قصدسے نہ ہوجیسے حیض آجانا ،جنون،اورطویل بے ہوشی طاری ہوجانا ۔ بحر ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۱/۴۷۵)              

فتاویٰ شامی میں ہے :” وامّا حکمہ اذا فات عن وقتہ المعیّن، فان فات بعضہ قضاہ لا غیر ولا یجب الاستقبال، او کلّہ قضی الکلّ متتابعاً“ یعنی اس کا حکم(یعنی اعتکاف کو فاسدکرنے یاہوجانے کا حکم ) یہ ہے کہ اگریہ وقتِ معین میں فوت ہوجائے تو اگربعض فوت ہواتوصرف بعض کی قضا کرناہوگی اور دوبارہ نئے سرے سے اعتکاف کی حاجت نہیں اوراگر کُل فوت ہواتولگاتارکُل کی قضاکرناہو گی ۔ (ردّ المحتار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۳-۵۰۴،چشتی)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اعتکاف توڑنے کی صورت میں اس کی قضا کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اعتکافِ نفل اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں ،کہ وہیں تک ختم ہوگیا اور اعتکافِ مسنون کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا، اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرے ، پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں اورمنّت کا اعتکاف توڑا تو اگر کسی معیّن مہینے کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضاکرے، ورنہ اگرعلی الاتّصال واجب ہوا تھا تو سِرے سے اعتکاف کرے اور علی الاتصال واجب نہ تھا تو باقی کا اعتکاف کرے ۔
اعتکاف کی قضاصرف قصداً توڑنے سے نہیں بلکہ اگرعذرکی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمارہوگیا یا بلا اختیار چھوٹا مثلاً عورت کو حیض یا نفاس آیا یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی ، ان میں بھی قضا واجب ہے ۔ (بہارِ شریعت،حصہ پنجم، اعتکاف کا بیان،۱/۱۰۲۸-۱۰۲۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عورت کے گھر کو ہی عورت کی مسجد بتلایا ہے مزید برآں  مفسرِقرآن ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۳۷۰؁ھ) نے فرمایا ہے کہ مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم فقط مردوں کیلئے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے اس کا بھی حوالہ ھذر چکا ہے ۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں بھی کسی عورت کا عملاً مسجد میں اعتکاف کرنا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم دینا کہ عورت مسجد میں اعتکاف کرے کسی صحیح، صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔

لیکن اس کے باوجو د عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے بخاری ج۱ص۲۷۱ ،۲۷۳ سے دو حدیثیں دکھاتے ہیں کہ :

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد آپ کی گھر والیوں نے اعتکاف کیا
(2) حضرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لئے خیمے لگائے ۔

کاش کہ یہ لوگ ضد اور تعصب سے بالا تر ہو کر حدیث کو پڑھیں تو بات بہت آسان ہے حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر رمضان میں مسجد نبوی میں مخصوص جگہ بنا کر اعتکاف کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی اجازت لی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اعتکاف کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ انھوں نے بھی اپنا خیمہ لگایا پھر ان کی دیکھا دیکھی حضرت حفصہ ، حضرت زینب رضی اللہ عنہما نے بھی اپنا اپناخیمہ لگا لیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب مسجد میں خیمے دیکھے تو تعجباً سوال کیا :
یہ کیوں لگائے گئے ہیں ؟ اور کس چیز نے ان (یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) کو اس نیکی (یعنی مسجد نبوی میں اعتکاف) پر اُبھارا ہے ؟
اور دوسری روایت میں ہے کہ ، یہ خیمے لگا کر اعتکاف کو تم نیکی سمجھتی ہو ؟
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان خیموں کے اکھاڑنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ تو مسجد نبوی سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے (دوران اعتکاف ہی) اکھاڑ دئے گئے اور اس ناراضگی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا اعتکاف بھی توڑ دیا پھر شوال میں اس قضاء فرمائی ۔ اگر عورت کے لئے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے با وجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے اہل بیت کو مسجد میں اعتکاف کیوں نہ کرنے دیا ؟ اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم کیوں دیا ؟ اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے ؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا ؟ اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا ؟ اتنی عام فہم حدیث کے باوجو د بھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ اطاعت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل کی خلاف ورزی ہے ۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری حضرت ابراھیم بن علیۃ رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری نہیں اور مزید لکھتے ہیں : عورت کے لیے افضل بات یہ ہے کہ مسجد میں اعتکاف نہ کرے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔

مردوں کی طرح خواتین بھی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اس عبادت کی فضیلت حاصل کرسکتی ہیں ، لیکن عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف کریں اور اس مقصد کے لیے گھر میں اس جگہ کو مخصوص کرلیں جہاں نماز یں پڑھی جاتی ہیں ، اگر گھر میں کوئی ایسی جگہ نہ ہو تو کسی کونے میں بیٹھ جائیں اور اسی جگہ کو اعتکاف کے لیے مخصوص کرلیں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کے لئے اعتکاف کی سنت ادا کرنا زیادہ سہل ہے ، وہ بیٹھے بیٹھے گھر کے کاموں کی نگرانی بھی کرسکتی ہیں اور اعتکاف بھی جاری رکھ سکتی ہیں ، اس کے باوجود عورتیں اعتکاف کا اہتمام نہیں کرتیں اور ایک عظیم سنت سے محروم رہ جاتی ہیں ، یہ بڑے افسوس کا مقام ہے ، روایات میں ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اپنے حجروں میں اعتکاف فرمایا کرتی تھیں ، ایک حدیث میں ہے کہ عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے  ۔ (مسند احمد بن حنبل: ۶/۲۹۷، رقم الحدیث: ۲۶۵۸۴، صحیح ابن خزیمہ: ۳/ ۹۲، رقم الحدیث: ۱۶۸۳،چشتی)

فقہاء علیہم الرّحمہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ لکھا ہے کہ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں اعتکاف کرنا افضل ہے ۔ (الہدایہ: ج 1ص209)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۔ (سورۃ البقرہ:187)
اس آیت کی تفسیر میں امام ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ متوفی 370ھ فرماتے ہیں : وأما شرط اللبث في المسجد فإنه للرجال خاصة دون النساء۔
ترجمہ : مسجد میں ٹھہرنے کی شرط (اعتکاف کے لیے) صرف مردوں کے لیے نہ کہ عورتوں کے لیے ۔ (احکام القرآن للجصاص :ج1ص333)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےایک مرتبہ فرمایا کہ میں رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کروں گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اجازت طلب کی (کہ وہ بھی اعتکاف کریں گی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اجازت دے دی ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے بھی اجازت دلا دو ، انہوں نے اجازت دلا دی ۔ جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی (خدام کو خیمہ لگانے کا) حکم دے دیا ۔ چنانچہ ان کا بھی خیمہ لگادیا گیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھ کر اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے تو بہت سارے خیموں کو دیکھ کر فرمانے لگے : یہ خیمے کیسے ہیں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے لگائے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کیا انہوں نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ “فامر بخبائہ فقوض” پهر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا ۔ (صحیح البخاری: ج1ص274 باب من أراد أن يعتكف ثم بدا لہ أن يخرج)

محترم قارئینِ کرام : اس حدیث مبارک سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف نہیں کرنا چاہیے ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کا حکم نہ دیتے ۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو جو اجازت ملی وہ ان کے ساتھ خاص ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...