ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
محترم قارئین : ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں ۔ انہیں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پہلی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا جوکہ قریش کے بہت مالدار سردار تھے ۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی ۔ انہوں نے اپنا کاروبار تجارت اور مال اپنی وفات سے پہلے اپنی اس ذہین اور معاملہ فہم بیٹی کے سپرد کردیا تھا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گھر بیٹھے اپنی ذہانت و قابلیت اور معاملہ فہمی کی بدولت اپنی تجارت کو چار چاند لگا دیئے ۔ کبھی کبھار وہ قسمت و مقدر کے بارے میں سوچا کرتیں کہ پتا نہیں اللہ کو کیا منظور ہے ۔ ایک طرف اللہ نے انہیں بھائیوں سے محروم کردیا تو دوسری طرف انہیں ازدواجی زندگی میں پے در پے صدمات برداشت کرنا پڑے ۔ ان کے پہلے خاوند ابو ہالہ بن زرارہ تھے جو شادی کے کچھ ہی عرصے بعد فوت ہوگئے ۔ ان سے ان کے دو بیٹے تھے ۔ ان کی دوسری شادی بنو مخزوم کے بہت خوش خلق نوجوان عتیق بن عابد سے ہوئی لیکن وہ بھی نہایت مختصر عرصے بعد داغ مفارقت دے گئے ۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو صحابیہ بھی ہیں اور ان کانام ہند رضی اللہ عنہا بیان کیا گیا ہے ۔
نسب شریف
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۴،چشتی)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے کل سات بچے عطا فرمائے تھے ۔ ان میں حضرت سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ باقی سب بچے حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ یہ بھی کمال ہے کہ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو بیٹے اور چار بیٹیاں اس عظیم خاتون سے مرحمت ہوئیں لیکن دونوں بیٹے قاسم اور عبداللہ بچپن ہی میں اللہ نے واپس لے لئے جبکہ بیٹیاں حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن جوانی کی عمر کو پہنچیں ۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : خير نسائها خديجة بنت خويلد و خير نسائها مريم بنت عمران ۔
ترجمہ : (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ہیں ، اور (اپنے زمانہ کی عورتوں میں) سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح ، 5: 702،رقم: 3877،چشتی)
اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوا اتنا نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی کسی دوسری زوجہ پر نہیں ہوا ۔ حالانکہ میں نے ان کا زمانہ نہیں پایا ۔ اس رشک کی وجہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا انہیں کثرت سے یاد کرنا ہے ۔ اگر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت کا ہدیہ بھیجتے ۔ (ترمذی، الجامع الصحیح، رقم الحدیث:3876)
نکاح کے بعد پچیس برس نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے نکاح میں رہیں اور نبوت کے دسویں سال پینسٹھ برس کی عمر میں انتقال فرمایا ۔ ان کے انتقال پر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود قبر مبارک میں اتر کر ان کو دفن فرمایا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے باہر جانا بہت کم کردیا اور گھر میں ہی قیام فرمارہے تھے ۔ ادھر قریش کو ایذا رسانی کا وہ موقعہ ہاتھ آگیا جو انہیں کبھی میسر نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ اس کی امید کرسکتے تھے ۔ (الوفاء، امام عبدالرحمن ابن جوزی، ص258)
صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا: اے اللہ عزوجل کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث۲۴۳۲،ص۱۳۲۲)
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہاو صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امراه فرعون ہیں ۔ (المسندللامام احمدبن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث۲۹۰۳،ج۱،ص ۶۷۸)
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح کے خواہشمند تھے لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا۔ سردار دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا ۔ (مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب ...الخ،ج۲،ص۲۷)
بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء...الخ،ذکرخدیجہ بنت خولید،ج۸،ص ۱۳)
جب تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحیات رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا ۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۴،چشتی)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں ۔ (السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید،ج۷،ص۹۱)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً پچیس سال حضور پرنور شافع یو م النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شریک حیات رہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال بعثت کے دسویں سال دس (10) ماہ ِ رمضان المبارک کو ہوا ۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات ج۲،ص۴۶۵)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۳)(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment