Sunday 31 March 2019

جو حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے

0 comments
جو حضرت امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )،(سنیوں کا لبادہ اڑھے جہنمی کتوں کو پہچانیئے)


واقعہ معراج کب اور کس تاریخ کو ہوا ؟

1 comments
واقعہ معراج کب اور کس تاریخ کو ہوا ؟

محترم قارئین : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آسمانی معجزات میں سے معراج کا واقعہ بھی بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے ۔
معراج کا دوسرا نام اسراء بھی ہے ۔ اسراء کے معنی رات کو چلانا یا رات کو لے جانا چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے واقعہ معراج کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے اس لیئے معراج کا نام اسراء پڑ گیا اور چونکہ حدیثوں میں معراج کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عُرِجَ بِیْ (مجھ کو اوپر چڑھایا گیا) کا لفظ ارشاد فرمایا اس لیئے اس واقعہ ک انام معراج ہو گیا ۔

احادیث و سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو بہت کثیر التعداد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان کیا ہے ۔ چنانچہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے 45 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نام بنام گنایا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔ (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، المقصد الخامس فی تخصیصہ...الخ ،جلد نمبر 8، صفحہ 25 تا 27،چشتی)

معراج شریف ایسا عظیم معجزہ اور مرتبہ ہے ، جو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عطا کیا گیا اور کائنات میں آپ کے سواء کسی بھی نبی علیہ السّلام کو ایسا معجزہ نہیں عطا ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعثت کے بعد سے انسان کی خلائی پرواز اور کائینات کی وسعتوں میں جولانی اور ہر نئے دن اس میں ترقی کی مناسبت سے معراج کا معجزہ ، جس کے سامنے ساری طاقتیں عاجز ہیں ، سرفراز کیا گیا اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سیدالاولین والآخرین اور خاتم النبیین ہونے کی صداقت اور دلیل و شہادت ہے ۔

وہ سرورِ کِشورِ رِسالت ، جو عرش پر جلوہ گَر ہو ئے تھے
نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لیے تھے

لفظ ’’ معراج ‘‘ عروج کا اسم آلہ ہے ، اس کے معنی سیڑھی ہے ، مگر شریعت میں معراج سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آسمانوں سے اوپر ، قاب قوسین اور دنیٰ فتدلیٰ میں تعریف لے جانا ہے ، معراج کا مقصد آپ کی شان عظمت کا اظہار ، دیدارِ الہٰی اور آیات خداوندی کا مشاہدہ (لنریہ من آیاتنا) اور آپ کی شان عظمت پر ایمان کا سارے انسانوں سے امتحان ۔ معراج شریف جسم کے ساتھ بیداری میں ایک بار ہوئی اور روحانی معراج 34 مرتبہ ہوئی ۔

معراج کی تاریخ کے بارے میں قول راجح 27 رجب المرجب شب دوشنبہ بعثت کے گیارہویں سال ہے ۔ مزید اس بارے میں علماء کرام کے 10 اقوال موجود ہیں ۔
1: ہجرت سے 6ماہ قبل
2: ہجرت سے 8ماہ قبل
3: ہجرت سے11ماہ قبل
4: ہجرت سے 1 سال قبل
5: ہجرت سے ایک سال اور 2ماہ قبل
6: ہجرت سے ایک سال اور 3ماہ قبل
7: ہجرت سے ایک سال 5ماہ قبل
8: ہجرت سے ایک سال 6ماہ قبل
9: ہجرت سے 3 سال قبل
10: ہجرت سے5سال قبل
یہ دس اقوال علماء سیرت کے موجود ہیں لیکن علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری شریف میں جو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے معراج ہوئی اگر اس بات کو ترجیح دی جائے تو معراج نبوت کے دسویں سال کے بعد اور گیارہ نبوی میں سفر طائف سے واپسی کے بعد ہوئی ۔

معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت زیادہ اختلافات ہیں ۔ لیکن اتنی بات پر بلا اختلاف سب کا اتفاق ہے کہ معراج نزول وحی کے بعد اور ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے جو مکہ معظمہ میں پیش آیا اور ابن قتیبہ دینوری (المتوفی ۲۶۷ ھ) اور ابن عبدالبر (المتوفی ۴۶۳ ھ) اور امام رافعی و امام نووی علیہم الرّحمہ نے تحریر فرمایا کہ واقعہ معراج رجب کے مہینے میں ہوا ۔ اور محدث عبدالغنی مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے رجب کی ستائیسویں بھی متعین کر دی ہے اور علامہ زرقانی نے تحریر فرمایا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے ہے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔ (زرقانی جلد 1 صفحہ 355 تا 358،چشتی)

واقعہ معراج حق ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جو کچھ بیان کیا حق ہے ۔ جمہور علماء کے نزدیک 27 رجب کو ہوا تھا ۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا مقصد تاریخ بتانا نہیں بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی قدر و منزلت اور شان بیان کرنا ہے ۔ اس لیے ضروری نہیں کہ تاریخ کا ذکر حدیث مبارکہ میں ہو ۔ بلکہ جتنے بھی بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں کسی کا ذکر بھی حدیث میں تاریخ کے حوالے سے نہیں ہوا ۔ بلکہ مورخین اور تاریخ دان لوگ بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن مجید میں بڑے بڑے واقعات ذکر کیئے گئے ہیں لیکن تاریخ نہیں بیان کی گئی ، یہاں تک کہ نزول قرآن یا ابتدائے وحی کی تاریخ بھی قرآن میں نہیں ہے ۔ لہٰذا ایسے سوالات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ اصل مقصد کو جانا چاہیئے ۔

معراج کتنی بار اور کیسے ہوئی

جمہور علماء ملت کا صحیح مذہب یہی ہے کہ معراج بحالت بیداری جسم و روح کے ساتھ صرف ایک بار ہوئی جمہور صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین نیز صوفیہ کرام کا یہی مذہب ہے ۔ چنانچہ علامہ حضرت ملا احمد جیون رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ (استاد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ) نے تحریر فرمایا کہ : وَ الْاَصَحُّ اَنَّهٗ کَانَ فِی الْيَقْظَةِ بِجَسَدِهٖ مَعَ رُوْحِهٖ وَعَلَيِْه اَهْلُ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ فَمَنْ قَالَ اِنَّهٗ بِالرُّوْحِ فَقَطْ اَوْ فِي النَّوْمِ فَقَطْ فَمُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ فَاسِقٌ ۔ (تفسيرات احمديه بنی اسرائيل صفحہ 408 ، چشتی)
ترجمہ : اور سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ معراج بحا لت بیداری جسم و روح کے ساتھ ہوئی یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے ۔ لہٰذا جو شخص یہ کہے کہ معراج فقط روحانی ہوئی یا معراج فقط خواب میں ہوئی وہ شخص بدعتی و گمراہ اور گمراہ کن و فاسق ہے ۔

خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی ، کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی ، یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سراپا معجزہ بن کر اس دنیا میں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے جمالات و کمالات اور روشن ترین معجزات تو بے شمار ہیں ، لیکن معراج وہ فضیلت ہے جو ربِّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سوا کسی نبی یا رسول علیہ السّلام کو عطا نہیں کی ، یہی وہ موقع تھا جب رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو نمازوں کا تحفہ عطا کیا ۔

واقعہ معراج کو اسلامی تاریخ میں انتہائی اہمیت حاصل ہے ، ستائیس رجب المرجب کو انوار وتجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کے ہمراہ جنتی براق لئے آسمان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی چچا زاد ہمشیرہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر حاضر خدمت ہوئےاور عرض کی کہ رب العزت آپ سے ملاقات کا مشتاق ہے ، یہی وہ مقدس شب ہے جب انسانیت معراج سے سرفراز ہوئی اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم زمین سے عرش بریں تک جا پہنچے ۔ فضا درود و سلام سے گونج اٹھی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے سفر معراج کا آغاز فرمایا ، چاروں طرف نور پھیل گیا ، کائنات کے پورے نظام کو روک دیا گیا ، پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک اوالعزم انبیاء اور ملائکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا استقبال کیا ۔ جنت کی سیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سدرۃ المنتہیٰ پہنچے تو عرش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا دامن تھام لیا اور تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ۔ یہی وہ وقت تھا جب پروردگارعالم نے اپنی محبوب ترین ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے ملاقات کی اور نماز کا تحفہ عطا کیا ۔ جب تاجدارحرم عرش معلیٰ سے تشریف لائے تو گھر کے دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی ، بستر گرم تھا اور وضو کا پانی بہہ رہا تھا ۔ معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے ہی وقت کوروکا گیا اور پھر اسی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے وقت کو جاری کیا گیا ۔ (معارج النبوۃ)،(مدارج النبوۃ)،(مواہب الدنیہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

واقعہ معراج قرآن و حدیث اور جدید سائنس کی روشنی میں اور اعتراضات کا جواب

0 comments
واقعہ معراج قرآن و حدیث اور جدید سائنس کی روشنی میں اور اعتراضات کا جواب

اسراءاور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا ہے، تاریخ پر ایسے دوررس اثرات ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی ہے۔ چودہ سو سال بعد ذہنِِ انسانی کے ارتقاءنے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے سہارے معراج اور اس سے متعلقہ واقعات کو ایسی حقیقت میں تبدیل کردیا ہے جو ناقابلِ تردید ہے۔ عہد ِ حاضر کا انسان ان کے ماننے میں جھجک اور پس و پیش کا شکار نہیں۔ یہی باتیں جب مخبر ِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور بعید از ممکنات تھیں۔ آج ہم گھر بیٹھے ٹیلی فون کے ذریعے یورپ و امریکہ میں مقیم اُن عزیز واقارب سے باتیں کرتے ہیں جو ہزاروں میل دور بستے ہیں۔ مواصلاتی سیاروں کے ذریعے دوسرے براعظموں میں ہونے والے کرکٹ اور ہاکی کے میچ ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں۔ نیویارک میں ایک سو دو منزلہ امپائر اسٹیٹ کی فلک بوس عمارت میں لفٹ کے ذریعے منٹوں میں اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔نیل آرمسٹرانگ کے چاند کی سطح پر پہنچ کر بلندیوں سے کرہ ارض کی خوبصورتیوں کے بیان پر کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارا یقین متزلزل ہوتا ہے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی قیامت خیز ہولناک تباہیوں کو ثابت کرنے کے لیے کسی عینی شاہد کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ آج کا انسانی ذہن ان تمام باتوں سے مانوس ہے۔ بہ اندازِ دیگر یہی باتیں چودہ سو سال پہلے اُمّی لقب، معلم کتاب و حکمت اور مخبر ِ صادق نے سنائیں تو دنیا ماننے کو تیار نہ تھی۔ وحی، براق، اسراء، معراج، قیامت، حساب و کتاب، جزا و سزا، جنت دوزخ وغیرہ وغیرہ تو یہ سب باتیں ناقابلِِ فہم اور ناقابلِِ یقین تھیں۔ اللہ کا وہ آخری نبی جو نذیر و بشیر بن کر اِس دنیا میں آیا اُس کی باتوں کی صداقت، کلام کی بلاغت، ارشاد کی حکمت کی تصدیق کرنے کے لیے کسی بالغ نظر ابوبکرؓ کی ضرورت تھی، یا پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی، کہ زمانہ قرآن اور ارشادات ِ نبوی کی تصدیق کرتا جارہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج انسانی تاریخ کا اچھوتا اور محیرالعقول واقعہ ہے۔ یہ واقعہ کس مہینے میں ہوا، قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سیرت نگاروں کا عام رجحان یہ ہے کہ ہجرت سے ایک سال یا ڈیڑھ سال پیشتر یہ واقعہ پیش آیا، وہ پیر کا دن اور رجب کی ستائیسویں تاریخ تھی۔ قرآنِ پاک میں تین مقامات پر اس واقعہ کا ذکر ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۔ ﴿سورہ اسریٰ﴾
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کوسیر کرائی، مسجد ِ حرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (بیت المقدس) تک ، اس کے اطراف کو ہم نے بڑی برکت دی ہے، تاکہ اپنی نشانیاں اسے دکھائیں۔ بلاشبہ وہی ذات ہے سننے والی اور دیکھنے والی ۔

دوسرا اشارہ اسی سورت کی 60 ویں آیت اور تیسرا سورہ نجم کی آیات میں ہے۔ مفسرین اور محدثین کے نزدیک جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک براق کا سفر ”اسراء“ کہلاتا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف سدرة المنتہیٰ تک کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے۔ اس موقع پر عام طور سے ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ معراج بحالت ِ جسم تھی یا بحالت ِ خواب؟ سورہ بنی اسرائیل میں لفظ ”سبحان الذی“ سے ابتداءخود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کر واقع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا مقصود تھا۔ لہٰذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیا۔ اور یہ وقت زمان و مکان کی فطری قیود سے آزاد تھا۔ اس بات کا سمجھنا آج کے انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے۔

بیت الحرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (فلسطین) کا زمین کا سفر جسے اسراءکہا جاتا ہے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے براق پر کیا۔ براق، برق (بجلی) سے مشتق ہے جس کی سُرعت ِ رفتار سائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ بتائی ہے۔ جب برق کی یہ سرعت ہوسکتی ہے تو بُراق جو اللہ تعالیٰ کا راکٹ تھا اس کی تیز رفتاری اور سبک سری پر کیوں شک کیا جائے؟ غرض سفرِ معراج اللہ جل جلالہ اور خالقِ کائنات کی غیر محدود قوت اور قدرت ِ کاملہ کا مظاہرہ تھا جس نے انسان کو ایک نیا نظریہ دیا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ آج کی خلائی تسخیر، چاند پر اترنے کی کامیاب کوشش سب واقعہ معراج سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس جانب حکیم الامّت علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

واقعہ معراج اگر خواب ہوتا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثر انسان مافوق الفطرت اور محیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔ خواب کو نہ آج تک کسی نے اس درجہ اہمیت دی اور نہ وہ اس کا مستحق ہے۔ عام روایت کے مطابق حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چچازاد بہن اُمِّ ہانی کے گھر تھےاور بعض روایات میں حطیم کا ذکر ہے کہ آپ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ صبح آپ نے اپنی چچا زاد بہن سے اس بات کا تذکرہ فرمایا۔ اس نے حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین واقعے کو سن کر آپ کی چادر پکڑ کر روکا اور عرض کیا کہ خدارا اسے لوگوں کے سامنے بیان نہ فرمائیے، وہ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پُرعزم لہجے میں فرمایا: میں ضرور بیان کروں گا۔ یہ عزم خود اس بات کی دلیل ہے کہ واقعہ معراج بحالت ِ جسم و جاں ہے۔ پیغمبرِ آخر الزماں کے مشاہدات ِ معراج میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جن کا فیصلہ روزِ جزا پر منحصر ہے، یعنی دنیوی اعمال کی جزا و سزا۔ قیامت سے پہلے انہیں آپ کو ممثّل کرکے دکھلایا گیا۔ اس سے باری تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ جن چیزوں کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اور نذیر بناکر بھیجے گئے ہیں ان کے عینی گواہ بن جائیں۔

مختصراً تفصیلات ِ معراج میں ایک اہم واقعہ جملہ انبیاءکی جماعت کی امامت کا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ میں یہ نماز پڑھائی گئی۔ بعض روایتیں ہیں کہ یہ معراج (آسمانی سفر) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں، اس گھر کے متولی رسول ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام انبیاءنے (حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک) مسجد ِ اقصیٰ میں جمع ہوکر رسولِ آخریں کا استقبال کیا۔ تمام پیغمبروں نے مل کر اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پذیرائی فرمائی کہ اب آپ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ جنہوں نے لکھا ہے کہ انبیاءکی امامت کا شرف آپ کو معراج سے واپسی کے بعد پیش آیا، ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات نے آپ کا شرف اتنا بلند کردیا کہ امام الانبیاءبنادیا ۔ معراج کے سفر میں سید الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام رفیق سفر تھے۔ ہر آسمان میں وہاں کے فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور ہر آسمان میں ان انبیاء علیہم السلام سے ملاقات ہوئی جن کا مقام کسی معین آسمان میں ہے ۔چھٹے آسمان کی سیر کرواتے ہوئے جب ساتویں آسمان پر پہنچے تو اس آسمان کے عجائبات ہی کچھ اور تھے۔ یہاں فرشتوں کا کعبہ بیت المعمور ہے جو کعبة اللہ کے عین اوپر واقع ہے۔ ایک وقت میں ستّر ستّر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں اور ان کی دوبارہ طواف کی باری نہیں آتی ۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ سیدالملائکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے تعارف آپ کے جدامجد کہہ کر کروایا۔ یہاں سے آپ بلند ہوئے تو سدرة المنتہیٰ پر آئے جو ایک بیری کا درخت ہے، اس کی جڑ ساتویں آسمان پر ہے اور یہ بہت بلند ہے۔ سدرة المنتہیٰ عالمِ خلق اور رب السموٰت والارض کے درمیان حدِّفاصل ہے۔ اس مقام پر تمام خلائق کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے آگے جو کچھ ہے وہ عالم الغیب ہے جس کی خبر نہ مقرب فرشتے کو ہے اور نہ کسی پیغمبر کو۔ نیچے سے جو کچھ آتا ہے یہاں وصول کیا جاتا ہے۔ اور اوپر سے جو کچھ صادر ہوتا ہے وہ بھی یہاں وصول کرلیا جاتا ہے۔ اسی مقام پر جنت الماویٰ ہے جس کا سورہ نجم میں ذکر ہے۔ صاحب المعراج کو جنت الماویٰ کا مشاہدہ کروایا گیا۔ اس میں وہ تمام نعمتیں تھیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا۔اسی طرح دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔اسی جگہ آپ نے حضرت جبرئل کو ان کی اپنی اصلی شکل میں دیکھا اور اللہ ربُّ العزّت کا سر کی آنکھوں سے دیدار کیا اور 50 نمازیں بھی فرض ہوئیں جو بالآخر موسیٰ علیہ السّلام کے وسیلہ سے 5 باقی رھیں ۔ یہ خوشخبری بھی ملی کہ شرک کے سوا تمام گناہوں کی بخشش کا امکان ہے ۔

اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا، آپ(ﷺ) براق پر سوار مکۃ المکرمہ تشریف لائے، اس وقت ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، سب سے پہلے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا ذکر ام ہانیؓ سے کیا، احتیاطاً کہنے لگیں کہ یہ اس قدر عجیب واقعہ ہے آپ(ﷺ) اس کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ ورنہ کفار تمسخر اڑائیں گے، لیکن خانہ کعبہ میں نماز کے بعد وہی ہادی برحق، صادق و امین سردار انبیاء اٹھا اور رات کو پیش آنے والے اس واقعہ کا اعلان کر دیا۔ کفار یہ سن کر ہنسنے لگے، تمسخر اڑانے اور تنگ کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا، وہ آپ(ﷺ) کے پیچھے پیچھے آوازیں کستے اور کہتے وہ دیکھو(نعوذ باللہ) حضرت محمد(ﷺ) بہک گئے ہیں، نعوذ باللہ کافروں کی ان باتوں کا کچھ اثر بعض کم عقل مسلمانوں پر بھی ہوا اور کسی نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بہکایا اور بولا دیکھو تمہارا دوست کیا کہہ رہا ہے کیا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتا ہے کہ وہ ایک رات میں اتنے لمبے سفر پر گئے اور واپس بھی آگئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو جواب دیا وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے، آپؓ نے فرمایا کہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات مانتا ہوں کیونکہ حضرت نبی اکرم(ﷺ) ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ(ﷺ) کے پاس آسمانوں سے ہر روز ایک فرشتہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام اور وحی بھی لاتا ہے۔ معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضور نبی اکرم(ﷺ) نے آپؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔

یہ واقعہ معراج النبی(ﷺ) کا ایک اجمالی تعارف تھا، لیکن یہ بحث صدیوں سے اب تک چل رہی ہے کہ معراج جسمانی تھا یا کہ ایک خواب تھا کیا یہ حضور نبی اکرم(ﷺ) کا روحانی سفر تھا، پختہ ایمان والوں کیلئے اس میں کوئی الجھن نہیں رہی اور وہ صدیق اکبرؓ کی پیروی کرتے ہوئے واقعہ معراج کو حضور نبی اکرم(ﷺ) کا شعور کی حالت میں جسمانی سفر مانتے ہیں اور واقعہ معراج النبی(ﷺ) کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ مشکل ان حضرات کی ہے جو اس واقعہ کو اپنی ناقص عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنی حیثیت کا اندازہ نہیں لگاتے کہ وہ کس قدر عالم، سائنس دان یا عقلمند ہیں۔

معراج اور جدید سائنسی تحقیقات

موجودہ صدی میں یوں تو بہت سے سائنسی نظریات پیش ہوئے مگر ان میں سب سے زیادہ معروف نظریہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت (Theory of Relativity) کہلاتا ہے ۔اس نظریے کی آمد نے کائنات اور قوانین کائنات کے بارے میں ہمارے اندازِ نظر کو ایک نیا زاویہ بہم پہنچایا اور ہمارے ذہن کو وسعت دی۔

جب کبھی وقعہ معراج کا تذکرہ ہوتاہے تو ہمارے یہاں سائنسی حلقوں سے لے کر علمائے کرام تک اسی نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا معراج پر جانا اور ایک طویل مدت گزار کر واپس آنا،مگر آپ ﷺ کی غیر موجودگی میں زمین پر وقت کا نہ گزرنا نظریہ اضافیت سے ثابت ہوتا ہے۔مگر میں ا س سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اس کی ٹھوس دلیل چند سطور کے بعد پیش کروں گا۔تاہم پہلے نظریہ اضافیت سے کما حقہ تعارف حاصل کرلیا جائے تاکہ طبیعات سے تعلق رکھنے والوں کے ذہن میں نظریہ اضافیت کے نکات تازہ ہوجائیں اور ایک عام قاری کے لیے نظریہ اضافیت کو سمجھنا آسان ہوجائے۔

کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائنس انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمال کرسکا ہے ۔قدرت کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں ۔ وہ علم جو سو فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو،اُسے پانچ فیصد ی محدود ذہن سے سمجھنا ناممکن امر ہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو سائنسی توجیہ کا محتاج نہیں ہے۔

یہ نظریہ دو حصوں پر مبنی ہے ۔ ایک حصہ ” نظریہ اضافیت خصوصی”(Special Theory of Relativity) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ ” نظریہ اضافیت عمومی ” (General Theory of Relativity) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ خصوصی نظریہ اضافیت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیں گے۔

فرض کیجئے کہ ایک ایسا راکٹ بنا لیا گیا ہے جو روشنی کی رفتار (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سکینڈ)سے ذرا کم رفتار پر سفر کرسکتا ہے ۔ا س راکٹ پر خلا ء بازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے ۔راکٹ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ زمین پر موجود تمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظر آتے ہیں ۔ راکٹ کا عملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتار سے خلاء میں سفر کرنےکے بعد زمین کی طرف پلٹتا ہے اوراسی تیزی سے واپسی کا سفر بھی کرتا ہے مگر جب وہ زمین پر پہنچتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اپنے جن دوستوں کو وہ لانچنگ پیڈ پر خدا حافظ کہہ کر گئے تھے ،انہیں مرے ہوئے بھی پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور جن بچوں کو وہ غاؤں غاؤں کرتا ہوا چھوڑ گئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کا استقبال کررہے ہیں ۔وہ شدید طور پر حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے تو سفر میں دو سال گزارے لیکن زمین پر اتنے برس کس طرح گزر گئے ۔اضافیت میں اسے ” جڑواں تقاقضہ” (Twins Paradox) کہا جاتا ہے اور اس تقاقضے کا جواب خصوصی نظریہ اضافیت “وقت میں تاخیر” (Time Dilation) کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ جب کسی چیز کی رفتار بے انتہاء بڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنےلگے تو وقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑنا شروع ہوجاتا ہے ،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کے لئے ایک سکینڈ گزرا ہو تو زمینی باشندوں پر اسی دوران میں کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔

اسی مثال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہےکہ وقت صرف متحرک شے کے لئے آہستہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی ساکن فرد مذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کا منتظر ہے تو ا س کے لیے انتظار کے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں آکر ہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفر سے واپس آئے تو حجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا اتنے طویل عرصے میں زمین پر ایک لمحہ بھی نہیں گزرا ۔اگر خصوصی نظریہ اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلاً زمین پر آنحضرت ﷺ کی غیر موجودگی میں کئی برس گزر جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

نظریہ اضافیت ہی کا دوسرا حصہ یعنی “عمومی نظریہ اضافیت ” ہمارے سوا ل کا تسلی بخش جواب دیتا ہے ۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت (زمان)اور خلاء (مکان)کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان (Time and Space)کی مخلوط شکل میں پیش کیا ہے اور کائنات کی اسی انداز سے منظر کشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی (Spatial Dimensions) ہیں جنہیں ہم لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی (یاموٹائی )سے تعبیر کرتےہیں ،جب کہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں ۔ اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کو زمان ومکان کی ایک چادر (Sheet)کے طور پر پیش کیا ہے ۔

تمام کہکشائیں ،جھرمٹ ،ستارے ،سیارے ،سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہیں ۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہر کا باشندہ ہے لہٰذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کےکسی بھی حصے کو زمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایا ہےکہ وہ کتنا بے وقعت اور کس قدر محدود ہے ۔

یہاں آکر ہم ایک نقطہ اٹھائیں گے اوروہ یہ کہ کیا کائنات صرف وہی ہے جو طبعی طو ر پر قابلِ مشاہدہ ہے ؟ایسی دیگر کائناتیں ممکن نہیں جو ایک دوسرے سے قریب ،متوازی اور جداگانہ انداز میں پہلو بہ پہلو وجود رکھتی ہوں ؟

اس کاجواب ہے ” ہاں” لیکن اگر ایسا ممکن ہے تو پھر ہم ایسی دیگر کائناتوں کا مشاہدہ کیوں نہیں کر پاتے ؟اس بات کی وضاحت ذرا سی پیچیدہ اور توجہ طلب ہے ۔اس لیے یہاں ہم ایک اور مثال کا سہارا لیں گے جس سے ہمیں اپنی محدود یت کا صحیح اندازہ ہو گا۔

کارل ساگان (Carl Sagan) جو ایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے ،اپنی کتاب “کائنات” (Cosmos) میں ایک فرضی مخلوق کا تصور پیش کرتا ہے جو صرف دو جہتی ( Two Dimensional) ہے۔ وہ میز کی سطح پر پڑنے والے سائے کی مانندہیں ۔ انہیں صرف دو مکانی جہتیں ہی معلوم ہیں ۔ جن میں وہ خود وجود رکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی ۔چونکہ وہ ان ہی دو جہتوں میں محدود ہیں لہٰذا وہ نہ تو موٹائی یا اونچائی کا ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں موٹائی یا اونچائی کا کوئی تصور ہے ۔وہ صرف ایک سطح (Surface) پرہی رہتے ہیں ۔ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی (Three Dimensional) مخلوق کی ملاقات ہو جاتی ہے ۔راہ ورسم بڑھانے کے لئے سہ جہتی مخلوق ،اس دو جہتی مخلوق کو آواز دے کر پکارتی ہے ۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈر جاتی اور سمجھتی ہے کہ یہ آواز اس کے اپنے اندر سے آئی ہے۔

سہ جہتی مخلوق ،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنا دیدار کرا سکے مگر دو جہتی مخلوق کی تمام تر حسیات صرف دو جہتوں تک ہی محدود ہیں ۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پر ہے ۔وہ مزید خوف زدہ ہو جاتی ہے ۔اس کا خوف دور کرنے کے لیے سہ جہتی مخلوق ،دو جہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھا لیتی ہے اور وہ اپنی دینا والوں کی نظر میں “غائب ” ہوجاتا ہے جبکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذرا سا اوپر جاتا ہے ۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اور موٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اور بتاتی ہےکہ یہ ایک اور جہت ہے جس کا مشاہدہ وہ اپنی دو جہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکار دو جہتی مخلوق کو اس کی دنیا میں چھوڑ کر سہ جہتی مخلوق رخصت ہو جاتی ہے ۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کا سفر کیا ہے جسے اونچائی کہتے ہیں ،مگر اپنی دنیا کی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کو یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے ۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرو اور ذہن پر دباؤ نہ ڈالو کیونکہ ان کے خیال میں اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔

ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پر محدود اس مخلوق کی مانند ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری طبعی قفس (Physical Prison) چہار جہتی ہے اور اسے ہم وسیع و عریض کائنات کے طو پر جانتے ہیں ۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہار جہتوں پر چلنے کے پابند ہیں اور ان سے باہر نہیں جا سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالا کی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے او ر اس جہاں دیگر کے مظاہر ہمارے مشاہدات سےبالاتر ہیں ۔

اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔عالم دنیا یعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالا یعنی ہمارے مشاہدے و ادراک سے ماوراء کائنات دو الگ زمانی و مکانی چادریں ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہو سکتی ہیں لیکن بے انتہاء قربت کے باوجود ایک کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دوسری کائنات میں ہونے والے عمل پر نہ اثر پڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیا جائے گا۔

حضور اکرم ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرت ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ ﷺ معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب آنحضرت ﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔

راقم کی ناقص رائے میں واقعہ معراج کی دلیل کے طور پر ” روشنی کی رفتار سے سفر”کے بجائے مختلف زمان ومکان کے مابین سفر والا تصور زیادہ صحیح ،اور سائنسی ابہام سے پاک ہے جس کی مدد سے خصوصی نظریہ اضافیت کے تحت پیدا ہونے والے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جاسکتا ہے۔

واقعہ معراج پر اعتراضات کے جوابات

واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیےنہیں آتا کہ وہ کہتے ہیں کہ : ایک انسان کس طرح کھربوں میلوں کا فاصلہ یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک او رپھر زمین سے آسمانوں تک ، اور پھرسدرۃ المنتہیٰ تک چشم میں زدن میں طے کرکے واپس آجائے اور بستر بھی گرم ہو اور دروازے کی کنڈی بھی ہل رہی ہو اور وضو کا پانی بھی چل رہا ہو۔

ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔

دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔

تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔

اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔

ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلامیں جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔

آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔

ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور ﷺ اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکے ۔

اعتراضات کا جواب

مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور ﷺ غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ ﷺ نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟

مزید بحث میں پڑنے سے پہلے چند ضروری باتیں واضح کردی جائیں تو مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ آئن سٹائن کے مطابق مادی شے کے سفر کرنے کی آخری حد روشنی کی رفتار ہےجو 186000 (ایک لاکھ چھیاسی ہزار)میل فی سیکنڈ ہے دوسری رفتار قرآن حکیم نے امر کی بتائی ہے جو پلک جھپکنے میں پوری کائنات سےگزر جاتی ہے ۔

چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ﴿ القمر: 50﴾
ترجمہ : اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا ۔

سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے میں سے بغیرٹکرائے گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)

ایک اور بات یہ ہے کہ ایٹم (Atom) کے مرکز کے گرد الیکٹرون چکر لگارہے ہوتے ہیں ،ان دونوں کے درمیان مادہ نہیں ہوتا بلکہ وہاں بھی خلا موجود ہوتا ہے۔ایک اور ذرےکے بارے میں تحقیق ہورہی ہے جس کانام (Tachyon) ہے اسکا کوئی وجود ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن تھیوری (Theory)میں اس کا ہوناثابت ہے۔یہ ہیں مادے کی مختلف اشکال اور ان کی رفتاریں۔

جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو ۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔

بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں ۔سوئچ دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔ اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت ایک رات میں کیسے طے ہوگئی ۔اللہ جلّ جلالہ کی قدرتیں لاانتہاء ہیں ،وہ ہر بات پر قادر ہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے ،اگر وہ روکے تو کوئی اس کی ذات پاک کے سوا نہیں جو دن نکال سکے ۔ قرآن پاک میں فرمایا:

قُلْ أَرَأ َيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴿ 71﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖأَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿ القصص: 72 تا 71﴾

“آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگر قیامت تک تم پر رات کو مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ؟ آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ چاہے تو قیامت تک تم پر دن ہی دن رہنے دے تو کون رات لا سکتا ہے اس کے سوا،جس میں تم آرام پاؤ”

تو حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کو روک سکتا ہے پھر جب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند ،زہرہ اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں تو خدائی طاقت اور لا انتہاء قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیا اس کے رسول ﷺ شب معراج میں آسمانوں کو طے کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ؟ہے کوئی سوچنے والا؟پھرایک اور طریقے سے غورکریں کہ جوسواری ،بُراق آپ کے لیے بھیجی گئی تھی ،اس کی تیزرفتاری کا کیا عالم تھا۔روایت میں تصریح کے ساتھ درج ہے کہ اس کا ایک قدم حد نظر تک پڑتا تھاجو روشنی کی رفتار سے ہزارہا درجہ زیادہ ہے ۔ہماری نظروں کی حد نیلگوں خیمہ ہے جو آسمان کے نام سے موسوم ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بُراق کا پہلاقدم پہلےآسمان پر پڑا اور چونکہ آسمان ازروئے قرآن پاک سات ہیں ،اس لیے سات قدم میں ساتوں آسمان طے ہوگئے ،پھر اس سےآگے کی مسافت بھی چند قدم کی تھی ۔

حاصل کلام یہ کل سفررات کے بارہ گھنٹوں میں سے صرف چندمنٹ میں طے ہوگیا اوراسی طرح واپسی بھی ،تو اب بتائیے کہ اس سرعت سیر کےساتھ ایک ہی رات میں آمد ورفت ممکن ٹھہری یا غیر ممکن ؟اب فرمایا جائےکہ کیا اشکال باقی رہا؟

علاوہ ازیں ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں، پنکھے (سیلنگ فین) سے ہوا صاف ہورہی ہے ، ریڈیو سُنا جارہا ہے ، ٹیلی وژن دیکھا جارہا ہے ، ٹیلی فون پر گفتگو ہورہی ہے ، فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈ سے کمرہ ٹھنڈا ہورہا ہے ، ٹیپ ریکارڈر پر گانے ٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مسالے پس رہے ہیں، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں، سی ڈی پلیئرز پر فلمیں دیکھی جارہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا، پھر کیا تھا لمحوں میں ہر چیز نے کام کرنا بند کردیا۔ معلوم ہوا یہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔ یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑا بُنا جارہا ہے ، جیسے ہی بجلی غائب ہوئی تانے بانے بُننے والی کلیں رُک گئیں، جونہی کرنٹ آیا ہر چیز پھر سے کام کرنے لگی۔ آج کا انسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کا ادراک کرسکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے تو بستر کی گرمی اسی طرح باقی تھی، وضو کا پانی ہنوز بہہ رہا تھاکنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سو سال پہلے اس پر یقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ کرنٹ کے کرشمے نے ثابت کردیا کہ لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح معراج کی شب نظامِ زمان و مکان معطل ہوگیا تھا، وقت رُک گیا تھا۔ کیا یہ خالقِ کائنات، نظامِ زمان و مکان کے بنانے والے کے لیے کچھ مشکل تھا؟ جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سفرِ معراج سے واپس ہوئے تو معطل نظام پھر سے روبہ عمل ہوگیا۔ بستر کی گرمی جہاں بند ہوئی تھی پھر سے محسوس ہونے لگی، پانی بہنا جس مقام پر رُک گیا تھا وہاں سے جاری ہوگیاکنڈی جس زاویے پر ہلنے سے تھم گئی تھی اس سے حرکت میں آگئی، جیسے کرنٹ کے آف ہوتے ہی تمام کام رُک گئے تھے اور آن ہوتے ہی حرکت میں آگئے۔

جسم وروح کے ساتھ معراج کا حاصل ہونا آنحضرت ﷺ کا خصوصی شرف ہے،یہ مرتبہ کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا،اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے نبی ورسول ﷺ کی عظمت وبرگزیدگی کا ظاہر کرنےکے لیے یہ خارقِ عادت قدرت ظاہر فرمائی ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے ،بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت وکیفیت کو علم ِ الہٰی کے سپر د کردینا ہی عین عبادت ہےاور ویسے بھی نبوت ،وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہر کی چیزیں ہیں جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل وفہم پر موقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں ا س کو نہیں مانوں گا ،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

ایک گزارش : کچھ دوست یہ سوچ رہے ہونگے کہ ان معاملات کو سائنس کے ساتھ بیان کرنے اور جوڑنے کی آخر کیا ضرورت ہے ۔ کیا اسلام کی سچائی کے لیے سائنس کی تصدیق ضروری ہے۔ تو گزارش ہے کہ : یقیناً دین اسلام ، سائنس کی تصدیق کا محتاج نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ او ر اس کے رسول کی بات پر ہی ایمان و یقین رکھے ، چاہے سائنسی نظریات اس کے الٹ ہی کیوں نہ ہوں ۔جیسے ڈارون کانظریہ ارتقاء وغیرہ سائنسی نظریات کو سچے مسلمانوں کے لیے اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید ، کثیر مقامات پر کائنات کی نشانیوں پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔یا در ہے کہ ” غوروفکر” نہ کہ سرسری نظر سے دیکھنا۔ اور بدقسمتی سے یہ کام مسلمانوں کی بجائے غیر مسلم سرانجام دے رہے ہیں حالانکہ ان کا مقصد صرف مادی تحقیق ہے ۔ تو جب ہم ان کی تحقیقات کو جو کہ اللہ کی عظیم والشان طاقت و ٹیکنالوجی کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں ،پڑھتے ہیں تو ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً اسی واقعہ معراج کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زمین سے باہر سماوٰت میں کچھ اور ہی طرح کےقوانین قدرت روبعمل ہیں جن کو آج کا انسان کسی قدر سمجھنے کی کوشش کررہا ہے مگر قربان جائیے اس قدرتِ خداوندی پر کہ جس نے تقریباً 1500 سال پہلے اس شان سے اپنے محبوب بندے کو زمین و آسمان کی سیر کرائی کہ آج بھی عقل وعلم اس کو کما حقہ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ علاوہ ازیں ان سائنسی معلومات کو بیان کرنے کی غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ نام نہاد مسلمان او ر غیر مسلم جو کہ سائنس کو ہی حرف آخر مانتے ہیں ، سمجھایا جائے کہ آج جن باتوں یا معلومات تک سائنسدان پہنچے ہیں اگروہی قرآن و حدیث سے بھی ملتی ہوں او ر جو تقریباً 1500 سال پرانی باتیں ہیں ،تو پھر سچا کون ہے اور ایڈوانس کون ؟ علاوہ ازیں یہ قرآن مجید کے الہامی ہونے کی بھی تصدیق کرتی ہیں کہ اگرچہ یہ معلومات صدیوں سے قرآن میں موجود تھیں مگر سائنس کی ترقی سے پہلے کبھی کسی مفسرنے ببانگ دہل ان کا ذکر نہیں کیا تھا ، چناچہ اگر یہ کسی انسان کا لکھا ہوتا تو ہمیں ان معلومات کا علم بھی ہوتا ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے

0 comments
معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے

 معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے : میں تو یہ عرض کروں گا کہ اگر فلاسفہ سفر معراج شریف کے استحالہ پر دلائل قائم نہ کرتے تو ہمارا مدعا ثابت نہ ہوتا۔ اس لئے کہ ہم معراج کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معجزہ کہتے ہیں اور معجزہ وہی ہے جس کا وقوع عادتاً محال ہو اور منکرین کو عاجز کرنے کے لئے ضروری تھا کہ پہلے اس کے استحالہ عادیہ کو ثابت کیا جائے تاکہ قدرت ایزدی سے اس کا ظہور وقوع معجزہ قرار پا سکے۔

اب ظاہر ہے کہ یہ کام کسی مسلمان سے تو ممکن نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھنے کے باوجود معراج کے محال ہونے پر دلیلیں قائم کرے۔ لہٰذا جس اللہ نے اپنی قدرت سے معراج جیسے محال کو ممکن نہیں بلکہ واقع کر دیا۔ اسی قادرِ مطلق نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فلاسفہ جیسے ملحدین اور بے دین لوگوں سے اس کے استحالہ پر دلیلیں قائم کرا دیں تاکہ ادعاء استحالہ کے بعد اس کا وقوع اس کے معجزہ ہونے کی دلیل قرار پا سکے۔ وللّٰہ الحجۃ السامیۃ۔

تعجب ہے کہ مادی ترقی کے اس دور میں بھی لوگوں کو مسئلہ معراج میں تردد ہے۔ جب کہ محض مادی اور برقی طاقت کے بل بوتے پر انسان مشرق و مغرب اور جنوب اور شمال کے قلابے ملا رہا ہے۔ زمین سے آسمانوں کی طرف ہوائی جہازوں کی پرواز اور راکٹوں کا ستاروں تک پہنچنے کا ادعاء چند منٹ میں ہزاروں میل مسافت طے کرنے کا زعم اور محض برقی طاقت سے۔ لیکن معراج کے معاملے میں اس حقیقت کو قطعاً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ قیوم اپنی قدرت کاملہ سے اپنے ایسے روحانی، نورانی محبوب کو راتوں رات لے گیا جس کی روحانیت کا مادہ پرست انکار بھی نہیں کر سکے پھر براق پر لے گیا جو برق سے مشتق ہے۔ برق بجلی کو کہتے ہیں جس بجلی کے بل بوتے پر انسان ضعیف البنیان آج منٹوں میں ہزاروں میل مسافت طے کر سکتا ہے۔ فضائے عالم کو چیر کر آسمانوں اور ستاروں کی طرف بلند پروازی کا دعویٰ کر سکتا ہے اگر باقی تمام امور سے قطع نظر کر کے صرف اسی برقی طاقت کو مد نظر رکھ لیا جائے تب بھی مسئلہ معراج میں کسی قسم کا خلجان باقی نہیں رہتا۔

باقی رہا آسمانوں کا خرق و التیام تو اس زمانہ میں لوگوں نے سرے سے آسمانوں ہی کا انکار کر دیا تو خرق والتیام کی کہاں گنجائش رہی۔

ہمارے نزدیک تو آسمان ایسے اجسام لطیفہ ہیں جن میں خرق والتیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ’’قرآن اور آسمان‘‘ ملاحظہ کیجئے جس میں اجسام سماویہ کی لطافت پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔

تصدیق صدیق
جب حضور ﷺ نے قریش مکہ کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو انہوں نے (معاذ اللہ) تمسخر کیا اور ابو جہل نے قریش مکہ کو جمع کر کے مذاق اڑایا۔ ہر طرف آدمی دوڑائے اور زیادہ سے زیادہ آدمی جمع کر کے تکذیب و تمسخر کے لئے واقعہ معراج سنایا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجے اور ان سے کہا کہ تمہارے رسول (ﷺ) فرماتے ہیں کہ میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر پہنچا اور تمام آسمانوں کی سیر کر کے واپس آ گیا۔ کیا ان کی ایسی بات کی بھی آپ تصدیق کریں گے۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ بعید چیزوں میں ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ اگر انہوں نے فرمایا ہے تو اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سید عالم ﷺ سے عرض کیا کہ ’’حضور (ﷺ)‘‘ میں نے بیت المقدس دیکھا ہوا ہے۔ حضور میرے سامنے اس کی صفت بیان فرمائیں۔ بیت المقدس منکشف ہو گیا اور حضور ﷺ نے مسجد اقصیٰ کے در و دیوار، اس کی ہیئت اور کیفیت وغیرہ امور بیان فرمائے۔ (مواہب اللدنیہ جلد ثانی)

کفارِ قریش جو تکذیب و تمسخر کے در پئے تھے کہنے لگے کہ ہم نے آسمان تو دیکھے نہیں لیکن مسجد اقصیٰ دیکھی ہے۔ آپ ہمارے سامنے اس کی پوری ہیئت، نوعیت و کیفت بیان فرمائیں۔ حضور ﷺ بیان فرمانے لگے تو اثنائے بیان میں ایک انقباض کی سی حالت طاری ہو گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب رکھ دیا۔ حضور ﷺ اسے دیکھتے جاتے تھے اور بیان فرماتے جاتے تھے۔ اس مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کا انکار کرنا غلط ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر علم نہ ہوتا تو حضور ﷺ فرما دیتے تھے کہ مجھے ہر بات کا علم نہیں۔ علاوہ ازیں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے سب کچھ بیان فرما چکے تھے۔ پھر علم نہ ہونے کے کیا معنی؟ باوجود علم کے بعض چیزوں کی طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا التفات نہ تھا جس کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ کیفیت لاحق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی اس حالت اور کیفیت کو دور فرمانے کے لئے مسجد اقصیٰ حضور ﷺ کے سامنے رکھ دی۔ اس میں حضور ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمال اعزاز و اکرام ثابت ہوتا ہے کہ معمولی سی عدم توجہ کے باعث جو اضطرابی کیفیت لاحق ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کے ازالہ کے لئے خرق عادت کے طور پر اپنی قدرتِ کاملہ کو ظاہر فرمایا اور جس طرح واقعہ معراج معجزہ تھا بالکل اسی طرح اس کی دلیل میں بھی معجزہ ظاہر فرمایا تاکہ اعجازی شان میںدعویٰ اور دلیل آپس میں مطابق ہو جائیں اور اہل ایمان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ جو قادر و قیوم حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے پل جھپکنے سے پہلے بلقیس کا عظیم تخت لا سکتا ہے وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے اپنے حبیب ﷺ کے سامنے مسجد اقصیٰ کو بھی حاضر کر سکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس صورت میں فلسطین کے رہنے والوں نے مسجد اقصیٰ کو گم کیوں نہیں پایا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی عظیم قدرت سے یہ بعید نہیں کہ ملک شام میں مسجد اقصیٰ دیکھنے والوں کے سامنے اس کی ایسی مثال قائم فرمائے جس کا دیکھنا مسجد اقصیٰ کے حکم میں ہو۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

جب حضور ﷺ مسجد اقصیٰ کے متعلق ہر سوال کا مسکت جواب دے چکے تو کفارِ قریش حیران ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مسجد اقصیٰ نہیں دیکھی۔ مجبوراً انہیں کہنا پڑا کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق جو کچھ حضور ﷺ نے فرمایا سب درست ہے لیکن اس خیال سے کہ شاید کسی سے سن کر بیان کر دیاہو کفارِ قریش کہنے لگے کہ مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بیان فرما دیا لیکن یہ بتائیے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ بھی آپ کو ملا ہے یا نہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہاں (ایک شخص کا نام لے کر ارشاد فرمایا کہ) بنی فلاں کے قافلہ پر مقام روحاء پر میں گزرا۔ ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا وہ اسے تلاش کر رہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ پہلے رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کر کے اپنے پالان کی طرف آئے تھے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی ڈالا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں ٹھیک ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کا نام لے کر فرمایا کہ میں بنی فلاں کے قافلہ پر بھی گزرا اور فلاں اور فلاں (جن کا نام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا لیکن راوی کو یاد نہیں رہا) دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگااور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو دونوں سے یہ بات دریافت کر لینا۔ انہوں نے کہا، اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔ پھر انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک قافلہ کی بابت معلوم کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں اس قافلہ پر مقام تنعیم میں گزرا ہوں۔ انہوں نے کہا اس کی گنتی بتائیے اور وہ قافلہ کیا چیز لاد کر لا رہا ہے۔ اس کی ہیئت کیا ہے اور اس میں کون کون لوگ ہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہاں اس کی ہیئت ایسی اور ایسی ہے اور اس قافلے کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ اس پر دھاری دار دو بوریاں لدی ہوئی ہیں اور سورج نکلتے ہی مکہ میں پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا، یہ تیسری نشانی ہوئی۔ پھر وہ پہاڑ کی گھاٹی کی طرف دوڑے کہتے تھے کہ محمد نے ایک چیز بیان کی ہے۔ پھر وہ کدیٰ پہاڑی پر آ بیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ سورج کب نکلے تاکہ ہم حضور ﷺ کی تکذیب کریں۔ (معاذ اللہ) ناگہاں ان میں سے ایک آدمی بولا خدا کی قسم! یہ سورج نکل آیا۔ دوسری طرف انہی کے ایک آدمی نے اسی وقت کہا۔ خدا کی قسم! یہ قافلہ بھی آ گیا۔ اس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ اس قافلہ میں فلاں فلاں آدمی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے اور یہ کہا کہ (معاذ اللہ) یہ کھلا جادو ہے۔

بیت المقدس میں باب محمد ﷺ
ابن ابی حاتم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ معراج کی رات جب حضور ﷺ کو جبریل علیہ السلام براق پر سوار کر کے بیت المقدس پہنچے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے بابِ محمد ﷺ کہا جاتا ہے تو جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ تھا۔ جبریل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر سوراخ کر دیا اور براق اس میں باندھ دیا۔(تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶)

معراج شریف پر ایلیاء کے بطریق کی شہادت
حافظ ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوۃ میں حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کی طرف بھیجا۔ راوی نے حضرت دحیہ کے جانے اور پہنچنے کا پورا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ قیصر روم نے (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام مبارک سن کر) ملک شام سے عرب کے تاجروں کو طلب کیا۔ حضرت ابو سفیان اور ان کے ہمراہی قیصر روم کے سامنے پیش کئے گئے۔ قیصر روم نے ان سے وہ مشہور سوالات کئے جنہیں بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ (اس وقت) ابو سفیان نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح قیصر روم کے سامنے حضور ﷺ کے امر کو (معاذ اللہ) حقیر و ذلیل کیا جائے۔ اس روایت میں ابو سفیان کا قول ہے میں چاہتا تھا کہ ہرقل قیصر روم کے سامنے کوئی ایسی بات کروں جس سے حضور ﷺ قیصر روم کی نظروں میں گر جائیں۔ مگر مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے جھوٹ کی گرفت کرے اور میری تمام باتوں کو جھٹلا دے۔ اس طرح میں لوگوں میں بدنام ہو جاؤں اور میری سرداری پر دھبہ آئے۔ ابو سفیان نے کہا میں اسی فکر میں تھا کہ مجھے شب معراج کے بارے میں ان کا قول یاد آ گیا۔ میں نے فوراً کہا کہ اے بادشاہ (قیصر روم) کیامیں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جسے سن کر (معاذ اللہ) تو ان کے جھوٹا ہونے کو پہچان لے۔ بادشاہ نے کہا، وہ کیا بات ہے۔ ابو سفیان نے جواب دیا کہ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک رات میں ارضِ حرم (مسجد بیت الحرام) سے چلا اور ایلیاء (بیت المقدس) کی مسجد اقصیٰ میں آیا اور اسی رات صبح سے پہلے مکہ واپس پہنچ گیا۔ ابو سفیان نے کہا کہ جس وقت میں یہ بات کر رہا تھا اس وقت عیسائیوں کا پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بڑا پادری تھا قیصر روم کے پاس کھڑا تھا۔ بیت المقدس کے اس بطریق نے کہا مجھے اس رات کا علم ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تجھے کیا علم ہے؟ اس نے کہا کہ میری عادت ہے کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیا کرتا ہوں۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کر دئیے۔ باوجود انتہائی کوشش کے ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا اور ساری قوت صرف کر دی مگر وہ دروازہ نہ ہلا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا انہوں نے اسے دیکھ کر کہا (ایسا معلوم ہوتا ہے) کہ اوپر کی عمارت نیچے آ گئی ہے اور دروازہ کی چھاؤں (اوپر کی چوکھٹ) کا اس پر دباؤ پڑ گیا ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ صبح دیکھیں گے کہ کس طرف سے یہ خرابی واقع ہوئی ہے۔ بطریق نے کہا دروازہ کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر ہم لوگ واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا۔ یکایک دیکھتا ہوں کہ مسجد کا دروازہ بالکل ٹھیک ہے گوشۂ مسجد کے پتھر میں سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آ رہا ہے۔ (یہ منظر دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج رات باوجود انتہائی کوشش کے دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا پھر اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں) میں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا آج رات اس دروازہ کا کھلا رہنا صرف نبی معظم ﷺ کے لئے تھا۔ یقینا اس نبی معظم ﷺ نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶۴)

حدیث معراج کے راوی
حدیث اسراء اور معراج کو مندرجہ ذیل صحابہ کرام و اسلاف عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے روایت فرمایا۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے حافظ ابو الخطاب سے تفسیر ابن کثیر میں نقل فرمایا

حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صعصعہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت شداد بن اوس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن قرظ، حضرت ابو حبہ، حضرت ابو لیلیٰ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت جابر انصاری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت بریدہ اسلمی، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابو امامہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو الحمراء، حضرت صہیب رومی، حضرت ام ہانی، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶۴)

بعض علماء نے ان حضرات کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ کرام کا اضافہ بھی فرمایا

حضرت صدیق اکبر، حضرت عثمان غنی، حضرت ابو درداء، حضرت بلال بن سعد، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو سفیان، حضرت سیدہ ام کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین

شب معراج شق صدر مبارک
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ فرشتوں نے حضور ﷺ کا سینۂ اقدس اوپر سے نیچے تک چاک کیا اور قلب مبارک باہر نکالا پھر اسے شگاف دیا اور اس سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر پھینکا اور کہا کہ آپ کے اندر یہ شیطان کا ایک حصہ تھا۔

خون کا لوتھڑا یا شیطان کا حصہ
علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں خون کا لوتھڑا پیدا فرمایا ہے اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں شیطان جو کچھ ڈالتا ہے یہ لوتھڑا اس کو قبول کرتا ہے جس طرح قوت سامعہ آواز کو اور قوت باصرہ مبصرات کی صورتوں کو اور قوت شامہ خوشبو، بدبو کو اور قوت ذائقہ ترشی، تلخی وغیرہ کو اور قوت لامسہ گرمی، سردی وغیرہ کیفیات کو قبول کرتی ہے اسی طرح دل کے اندر یہ منجمد خون کا لوتھڑا شیطانی وسوسوں کو قبول کرتا ہے۔ یہ لوتھڑا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک سے دور کر دیا گیا تو حضور ﷺ کی ذاتِ مقدسہ میں ایسی کوئی چیز باقی نہ رہی جو القائے شیطانی کو قبول کرنے والی ہو۔ علامہ تقی الدین فرماتے ہیں اس حدیث پاک سے یہی مراد ہے کہ حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی میں شیطان کا کوئی حصہ کبھی نہیں تھا۔

اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب یہ بات تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مقدسہ میں اس خون کے لوتھڑے کو کیوں پیدا فرمایا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ پہلے ہی ذاتِ مقدسہ میں اسے پیدا نہ فرمایا جاتا؟ تو جواب دیا جائے گا کہ اس کے پیدا فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اجزائے انسانیہ میں سے ہے۔ لہٰذا اس کا پیدا کرنا خلقت انسانی کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کا نکال دینا یہ ایک امر آخر ہے جو تخلیق کے بعد طاری ہوا۔ (انتہیٰ)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی نظیر بدن انسانی میں اشیائے زائدہ کی تخلیق ہے جیسے قلفہ کا ہونا، ناخنوں اور مونچھوں کی درازی اور اسی طرح بعض دیگر زائد چیزیں (جن کا پیدا ہونا بدن انسانی کی تکمیل کا موجب ہے اور ان کا ازالہ طہارت و لطافت کے لئے ضروری ہے) مختصر یہ کہ ان اشیاء زائدہ کی تخلیق اجزائے بدن انسانی کا تکملہ ہے اور ان کا زائل کرنا کمال تطہیر و تنظیف کا مقتضٰی ہے۔ (شرح شفاء لملا علی قاری ج اول ص ۲۷۴) اقول وباللّٰہ التوفیق چونکہ ذات مقدسہ میں حظ شیطانی باقی ہی نہ تھا اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمزاد مسلمان ہو گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’ولٰکن اسلم فلا یاْمرنی الا بخیر‘‘ میرا ہمزاد مسلمان ہو گیا لہٰذا سوائے خیر کے وہ مجھے کچھ نہیں کہتا۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں کہ قلب بمنزلہ میوہ کے ہے جس کا دانہ اپنے اندر کے تخم اور گٹھلی پر قائم ہوتا ہے اور اس سے پختگی اور رنگینی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ منجمد خون قلب انسانی کے لئے ایسا ہے جیسے چھوہارے کے لئے گٹھلی۔ اگر ابتدائً اس میں گٹھلی نہ ہو تو وہ پختہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن پختہ ہو جانے کے بعد اس گٹھلی کو باقی نہیں رکھا جاتا بلکہ نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ چھوہارے کی گٹھلی یا دانہ انگور سے بیج نکال کر پھینکتے وقت کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جو چیز پھینکنے کے قابل تھی وہ پہلے ہی کیوں پیدا کی گئی؟ اس طرح اگر یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ قلب اطہر میں خون کا وہ لوتھڑا اسی طرح تھا جیسے انگور کے دانہ میں بیج یا کھجور کے دانہ میں گٹھلی ہوتی ہے اور قلب اطہر سے اس کو بالکل اسی طرح نکال کر پھینک دیا گیا جیسے کھجور اور انگور سے گٹھلی اور بیج کو نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہو گا کہ اس لوتھڑے کو قلب اطہر میں ابتدائً کیوں پیدا کیا گیا؟ (نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض ج ثانی ص ۲۳۹)

رہا یہ امر کہ فرشتوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ کیوں کہا کہ ’’ہٰذہ حظک من الشیطان‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ (معاذ اللہ) آپ کی ذات پاک میں واقعی شیطان کا کوئی حصہ ہے۔ نہیں اور یقینا نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ذات پاک ہر شیطانی اثر سے پاک اور طیب و طاہر ہے بلکہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں اگر آپ کی ذات پاک میں شیطان کے تعلق کی کوئی جگہ ہو سکتی تو وہ یہی خون کا لوتھڑا تھا جب اس کو آپ کے قلب مبارک سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا تو اس کے بعد آپ کی ذاتِ مقدسہ میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہی جس سے شیطان کا کوئی تعلق ممکن ہو۔ خلاصہ یہ کہ الفاظ حدیث کا واضح اور روشن مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ کی ذاتِ مقدسہ میں شیطان کا کوئی حصہ ہوتا تو یہی خون کا لوتھڑا ہو سکتا تھا مگر جب یہ بھی نہ رہا تو اب ممکن ہی نہیں کہ ذاتِ اقدس سے شیطان کا کوئی تعلق کسی طرح سے ہو سکے۔ لہٰذا حضور ﷺ کی ذاتِ مقدسہ ان تمام عیوب سے پاک ہے جو اس لوتھڑے کے ساتھ شیطان کے متعلق ہونے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔

شق صدر مبارک کے بعد ایک نورانی طشت جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا حضور ﷺ کے سینۂ اقدس میں بھر دیا گیا۔ ایمان و حکمت اگرچہ جسم و صورت سے متعلق نہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر قادر ہے کہ غیر جسمانی چیزوں کو جسمانی صورت عطا فرمائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان و حکمت کو جسمانی صورت میں متمثل فرما دیا اور یہ تمثل رسول اللہ ﷺ کے حق میں انتہائی عظمت و رفعت شان کا موجب ہے۔

شق صدر مبارک کی حکمت
شب معراج حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سینۂ اقدس کے شق کئے جانے میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں جن میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ بالفعل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔

حیات النبی کی دلیل
علاوہ ازیں شق صدر مبارک میں ایک حکمت بلیغہ یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام کے لئے حضور ﷺ کی حیات بعد الموت پر دلیل قائم ہو گئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عادتاً بغیر روح کے جسم میں حیات نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام مقدسہ قبض روح کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں چونکہ روح حیات کا مستقر قلب انسانی ہے۔ لہٰذا جب کسی انسان کا دل اس کے سینہ سے باہر نکال لیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا قلب مبارک سینۂ اقدس سے باہر نکالا گیا پھر اسے شگاف دیا گیا اور وہ منجمد خون جو جسمانی اعتبار سے دل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے صاف کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بدستور زندہ رہے جو اس امر کی روشن دلیل ہے کہ قبض روح مبارک کے بعد بھی حضور ﷺ زندہ ہیں۔ کیونکہ جس کا دل بدن سے باہر ہو اور وہ پھر بھی زندہ ہے اگر اس کی روح قبض ہو کر باہر ہو جائے تو وہ کب مردہ ہو سکتا ہے۔

قلب مبارک میں آنکھیں اور کان
جبریل علیہ السلام نے شق صدر مبارک کے بعد قلب اطہر کو جب زمزم کے پانی سے دھویا تو فرمانے لگے ’’قلب سدید فیہ عینان تبصران واذنان تسمعان‘‘ ’’قلب مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک ہے اور بے عیب ہے اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔‘‘ (فتح الباری جلد ۱۳ ص ۴۱۰)

قلب مبارک کے یہ کان اور آنکھیں عالم محسوسات سے وراء الوراء حقائق کو دیکھنے اور سننے کے لئے ہیں جیسا کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا ’’انی ارٰی مالا ترون واسمع ما لا تسمعون‘‘ ’’میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔‘‘

دائمی ادراک
جب اللہ تعالیٰ نے بطور خرق عادات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب اطہر میں آنکھیں اور کان پیدا فرما دئیے ہیں تو اب یہ کہنا کہ وراء عالم محسوسات کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیکھنا اور سننا احیاناً ہے دائمی نہیں قطعاً باطل ہو گیا۔ جب ظاہری آنکھوں اور کانوں کا ادراک دائمی ہے تو قلب مبارک کے کانوں اور آنکھوں کا ادراک کیونکر عارضی اور احیاناً ہو سکتا ہے؟ البتہ حکمت الٰہیہ کی بنا پر کسی امر خاص کی طرف حضور ﷺ کا دھیان نہ رہنا اور عدم توجہ اور عدم التفات کا حال طاری ہو جانا امر آخر ہے جس کا کوئی منکر نہیں اور وہ علم کے منافی نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ حضور ﷺ کی باطنی سماع اور بصارت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے۔

شق صدر مبارک اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نوری ہونا : علامہ شہاب الدین خفا جی فرماتے ہیں کہ بعض لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ شق صدر مبارک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور سے مخلوق ہونے کے منافی ہے لیکن یہ وہم غلط اور باطل ہے ان کی عبارت یہ ہے کہ ’’وکونہ مخلوقا من النور لا ینافیہ کما توہم‘‘ ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض ج ۲ ص ۲۳۸)،(مقالات کاظمی)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حدیث معراج اور معراج جسمانی یا روحانی

0 comments