اے ایمان والو یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ ۔ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورہ الماٸدہ آیت نمبر51)
ترجمہ : اے ایمان والو یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔
امام ابو محمد عبدالملک بن ہشام متوفی ٢١٣ ھ علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ولید بن عبادہ بن الصامت نے بیان کیا کہ جب بنو قینقاع نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کی تو عبداللہ بن ابی ابن سلول نے بنو قینقاع کا ساتھ دیا اور ان کی حمایت میں کھڑا ہوا ۔ حضرت عبادہ بن الصامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور وہ بھی بنو عوف کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے عبداللہ بن ابی کی طرف سے ان کی حمایت کرنے کا حلف اٹھایا ہوا تھا ۔ انہوں نے اس حلف کو توڑ دیا اور اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر ان کے حلف سے بری ہو گئے ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اللہ ‘ اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی رکھتا ہوں اور ان کافروں کے حلف اور ان کی دوستی سے بری ہوتا ہوں ۔ سو حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ابی کے متعلق سورة المائدہ : ٥٣ ۔ ٥١ کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (السیرۃ النبویہ جلد ٣ صفحہ ٥٥‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ جامع البیان ‘ جز ٦ ص ٣٧٣ دارالفکر بیروت)(اسباب النزول القرآن اللواحدی صفحہ ٢٠١ ۔ ٢٠٠ دارالکتب العلمیہ بیروت)(تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)
ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر مسلمانوں کو کفار کے ساتھ دوستی رکھنے سے منع فرما دیا ہے اور حسب ذیل آیتوں میں بھی اس پر دلیل ہے : ⬇
ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ۔ (ھود : ١١٣)
ترجمہ : ظالم لوگوں سے میل جول نہ رکھو ورنہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ پہنچے گی ۔
لا یتخذالمؤمنون الکافرین اولیآء من دون المؤمنین ۔ (آل عمران : ٢٨)
ترجمہ : ایمان والے مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔
لا تتخذوا بطانۃ من دونکم ۔ (آل عمران : ١١٨)
ترجمہ : اپنے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ ۔
یایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیآء تلقون الیھم بالمودۃ وقد کفروا بماجآء کم من الحق ۔ (الممتحنہ : ١)
ترجمہ : اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوستت نہ بناؤ تم انہیں دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ انہوں نے اس حق کے ساتھ کفر کیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے ۔
لا تحد قوما یؤمنون باللہ والیوم الاخر یوآدون من حآد اللہ ورسولہ ولو کانوا ابآء ھم اوابنآء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم ۔ (المجادلۃ : ٢٢)
ترجمہ : جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ‘ آپ انہیں اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھنے والوں کے ساتھ محبت کرنے والا نہ پائیں گے ‘ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ‘ یا ان کے بھائی ہوں یا قریبی رشتہ دار ۔
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہود اور نصاریٰ کو ابتداء سلام نہ کرو ‘ جب تم ان میں سے کسی سے راستہ میں ملو تو اسے تنگ راستے پر چلنے میں مجبور کرو ۔ (صحیح مسلم ‘ السلام ‘ ١٣‘ (٢١٦٧) ٥٥٥٧)،چشتی)(سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٠٨)(صحیح ابن حبان ٥٠٠)(مسند احمد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٧٦٢١)(مصنف عبدالرزاق ‘ رقم الحدیث :‘ ١٩٤٥٧)(الادب المفرد ‘ رقم الحدیث :‘ ١١١)(سنن کبری للبیہقی ج ٩‘ ص ٢٠٣)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کے سوا کسی کو ساتھ نہ بناؤ اور متقی کے علاوہ اور کوئی تمہارا کھانا نہ کھائے ۔ (سنن ترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٤٠٣)(سنن ابو داؤد ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٤٨٣٢)(مسند احمد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٣٦)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث :‘ ٩٣٨٢)
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشرکین کے ساتھ ٹھہرا ‘ اس کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ (شعب الایمان ج ٧ ص رقم الحدیث : ٩٣٧٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ١٤١٠)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اپنی انگوٹھیوں میں عربی کو نقش نہ کرو ‘ اور مشرکین کی آگ سے روشنی حاصل نہ کرو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر میں فرمایا یعنی تم اپنی انگوٹھیوں میں محمد نہ لکھواؤ اور اپنے معاملات میں مشرکین سے مشورہ نہ کرو ۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٣٧٥)
عیاض اشعری بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نصرانی کاتب تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی کتابت سے بہت خوش ہوئے ۔ حضرت ابو موسیٰ نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور میری ران پر ضرب لگائی اور فرمایا : اس کو نکال دو اور یہ آیت پڑھی اے ایمان والو ! اپنے اور میرے دشمن کو دوست نہ بناؤ (الممتحنہ : ١) اور یہ آیت پڑھی : اے ایمان والو : یہود اور نصاری کو دوست نہ بناؤ‘ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں ‘ تم میں سے جو انکو دوست بنائے گا وہ ان ہی میں سے (شمار) ہوگا ، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (المائدہ : ٥١) ۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا بخدا میں اس سے دوستی نہیں رکھتا ‘ یہ صرف کتابت کرتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں مسلمانوں میں کوئی کاتب نہیں ملا تھا ؟ جب اللہ نے ان کو دور کردیا ہے تو تم ان کو قریب نہ کرو ‘ اور جب اللہ نے ان کو خائن قرار دیا ہے تو تم ان کو امین نہ بناؤ ؟ اور جب اللہ نے ان کو ذلیل کیا ہے تو تم ان کو عزت مت دو ۔ سنن کبری کی آداب القضاء میں ہم نے اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٣٨٤،چشتی)
ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کے دشمنوں یہود اور نصاری سے ان کی عید اور ان کے اجتماع کے دنوں میں ان سے اجتناب کرو ‘ کیونکہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ‘ مجھے خدشہ ہے کہ تم پر بھی وہ غضب نہ آجائے ‘ اور ان کو اپنے راز نہ بتاؤ۔ ورنہ تم بھی ان کے اخلاق اختیار کرلو گے ۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٣٨٥)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا جس شخص نے عجمیوں کے ملک میں نشو و نما پائی ‘ اور ان کے نو روز اور مہرجان کو منایا اور ان کی مشابہت اختیار کی اور اسی طریقہ پر مرگیا تو وہ قیامت کے دن اسی طرح اٹھایا جائے گا ۔ (شعب الایمان ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث : ٩٣٨٧)
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خشعم کی طرف ایک لشکر بھیجا ‘ وہاں کے لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لینی شروع کردی ‘ لشکر نے ان کو جلدی جلدی قتل کرنا شروع کردیا ‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کے لیے آدھی دیت کا حکم فرمایا اور فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہے ‘ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! کس لیے ؟ آپ نے فرمایا ان دونوں کے (چولہوں کی) آگ اکٹھی نہ دکھائی دے ۔ حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مشرکین کے ساتھ سکونت نہ کرو ‘ نہ ان کے ساتھ جمع ہو ‘ جس نے ان کے ساتھ سکونت رکھی یا ان کے ساتھ جمع ہوا وہ ان کی مثل ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٦١١‘ ١٦١٠،چشتی)(سنن ابو داؤد ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٤٥)(سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٧٩٤)
علامہ تفتازانی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے ایک قوم اسلام لانے کے بعد مکہ میں مشرکین کے ساتھ رہتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرک کے ساتھ رہتا ہو۔ پوچھا گیا ‘ کیوں ؟ تو آپ نے فرمایا : ان دونوں کی آگ ایک ساتھ دکھائی نہ دے ‘ یعنی یہ واجب ہے کہ جب ایک آگ جلائے تو دوسرا نظر نہ آئے ‘ وہ دونوں ایک دوسرے سے اتنی دور رہیں۔ علامہ ابن اثیر جزری نے کہا ہے کہ واجب ہے کہ مسلمان کا گھر مشرک کے گھر سے دور ہو ‘ اور جب اس کے گھر جلے تو اس سے مشرک کا گھر نظر نہ آئے ‘ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ رہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا وہ ان ہی میں سے (شمار) ہوگا ۔ (المائدہ : ٥١)
اس آیت میں یہود و نصاری سے دور اور الگ رہنے پر تشدید کی گئی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود جو شخص کافروں سے دوستی رکھے گا ‘ وہ کافروں کی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرے گا ۔ لہٰذا کافروں کی طرح اس سے عداوت رکھنا بھی واجب ہے اور وہ بھی دوزخ کا مستحق ہو گا جیسے کافر دوزخ کے مستحق ہیں اور وہ کافروں کے اصحاب سے شمار کیا جائے گا اور یا اس لیے کہ کافروں اور یہود و نصاری سے دوستی رکھنے والے منافق تھے اور ان کا شمار بھی کافروں میں ہوتا ہے ۔
اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا ، اُن سے مدد چاہنااور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے ۔ (تفسیر مدارک صفحہ ۲۸۹)
لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے ۔ (تفسیر مدارک صفحہ ۲۸۹،چشتی)(تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)
رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے : ھو مشرک مثلھم وہ انہیں کی طرح کا مشرک ہے ۔ (تفسیر ابن عباس)
امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ : کافر مثلہم - وہ اُنہی کی طرح کافر ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : أي : کافر منافق - وہ کافر اور منافق ہے ۔ (تفسیر مظہری)
علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : یہاں ﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان یہود ونصاری کے ساتھ موالات رکھنے سے جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ، ممانعت فرمائی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہو سکتے ہیں ۔ اس کے بعد ﷲ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو تنبیہ اور وعید فرمائی ہے ۔ چنانچہ فرمایا ومن یتولھم منکم فانہ منھم یعنی جو تم میں سے ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہوگا ۔ علاّمہ ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ (والیٔ بصرہ) کو اس بات پر سرزنش فرمائی کہ انہوں نے ایک عیسائی انشا پرداز کو محض اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنا مکتوب نگار کیوں رکھ لیا اور اپنی اس بات کی تائید میں یہی سورۂ مائدہ کی آیت پڑھی جو کہ اس مسئلہ کے ثبوت میں شروع کے اندر یہاں بیان ہوئی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء.... یعنی: اے اہل ایمان تم یہود اور نصاریٰ کو اپنا رفیق نہ بناؤ ۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یہ حوالہ دینے کے بعد فرمایا : اس کو نکال دو ۔ (تفسیر ابن کثیر)
علاّمہ ابن حزم نے المحلی میں لکھا : صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ، ترجمہ : اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے ، وہ انہی میں سے ہے ۔ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کفار کے جیسا کافر ہے ۔ یہ ایسی حق بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی دو مسلمانوں کا اختلاف نہیں ہے ۔
علاّم ابن تیمیہ نے کفار کا ساتھ دینے والے حکام کے متعلق لکھا : کیا ان حکام نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لاتتخذواالیھودوالنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔
ترجمہ : تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوا ، ان دو آیات میں اللہ نے بتایا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والا مومن نہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان سے دوستی کرنےوالا انہی میں سے ہے ۔ (مجموع الفتاوی 18/7)
علاّمہ ابن القیم نے لکھا : ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔
ترجمہ : تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا
اللہ سبحانہ نے فیصلہ فرمادیا اور اس سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کسی کا نہیں ہوسکتا کہ جو بھی یہودونصاری کو دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا جب قرآن کی صراحت کے مطابق ان سے دوستی کرنے والے انہی میں سے ہیں تو ان (یعنی دوستی کرنے والوں) کا حکم بھی وہی ہوگا جو ان (یہودونصاری) کا ہے اور یہ عام ہے جو بھی ان سے دوستی کرے اور اسلام کی پابندی کرنے کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے تو وہ نص اور اجماع کی رو سے مرتد ہوگیا اور اس سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ یاتو اسلام لائے یا پھر تلوار ۔ (احکام اھل الذ مة195/1)
علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : جو تاتار کے لشکر میں کود پڑے اور ان سے مل جائے وہ مرتد ہوگیا اور اس کی جان اور اس کا مال حلال ہوگیا ۔ (الاختیارات الفقہیہ از علاّمہ ابن تیمیہ)
لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود و نصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہر مخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے ۔ (تفسیر مدارک صفحہ ۲۸۹،چشتی)(تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳،چشتی)
اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔
لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَۚ وَمَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنْہُمْ تُقٰىۃًؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہٗؕ وَ اِلَی اللہِ الْمَصِیۡرُ ۔ (سورہ آلِ عمران نمبر 28)
ترجمہ : مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کچھ علاقہ نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے ۔
لَا مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے جنگِ اَحزاب کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں ، میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد حاصل کروں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی ۔ (تفسیر جمل اٰل عمران جلد ۱ صفحہ ۳۹۳،چشتی)
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ
اور جو کوئی بھی ایسا کرے
فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ
تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں
اس آیتِ مبارکہ کی تشریح میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یعني بذلک ۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مراد ہے . فقد بريئ مِنَ اللَّهِ ۔ کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا ، وہ اللہ سے بری ہو گیا ، وبرئ اللہ منہ ، اور اللہ اس سے بری ہوگیا ، بارتدادہ عن دینہ ، کیونکہ یہ اس فعل کی وجہ سے دین سے مرتد ہو گیا ، ودخولہ في الکفر ۔ اور کفر میں داخل ہو گیا ۔ (تفسیر طبری)
دیگر مفسرین کے اقوال بھی دیکھیں تواسی طرح بالکل واضح تصریح کی گئی ہے ۔ شاید کم ہی مقامات ہیں کہ جہاں کسی قول یا کسی فعل پرمفسرین نے اتنی صراحت سے کفر کی بات یا تصریح کی ہے ۔
دین اور امت کا غدّار بے شک نماز روزہ کرتا ہو ، کافر ہو جاتا ہے
ﷲ عزّ و جل اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اہل ایمان کا وفادار بن کر رہنا اور ﷲ و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اس اُمت کے دشمن سے دشمنی رکھنا ایمان کا بنیادی فرض ہے ۔ یہ نہیں تو قرآنِ مجید کا وہ ایک خاصا بڑا حصہ کچھ معنیٰ ہی نہیں رکھتا جو کہ آج تک برابر تلاوت ہوتا ہے اور جو کہ ان منافقین کا بار بار کفر بیان کرتا ہے جو نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں گانٹھتے تھے ۔
اسلام محض عقائد یا نماز روزہ ایسی عبادات کا مجموعہ نہیں ۔ حتی کہ یہ محض کوئی سیاسی اور معاشی ہدایات پر مشتمل سماجی نظام بھی نہیں ، جیسا کہ ہمارے بہت سے نکتہ داں طویل لیکچر دیا کرتے ہیں ۔ اسلام دراصل انسان کی وفاداریوں کا تعین بھی ہے اور اس کے تعلقات کی حدود کا دائرہ بھی اور اللہ عزّ و جل و رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ و امت کےلیے غیرت کا امتحان بھی ۔
تعلق اور وفاداری اور مدد ونصرت کے معاملہ میں بھی دراصل آدمی کے ایمان کو امتحان سے گزارا جاتا ہے ۔ کفار جو اسلام اور اہل اسلام سے برسر جنگ ہوں یا دین اسلام کے خلاف یا اس کی کامیابی کے خلاف بغض رکھتے ہوں ایک مسلمان کیلئے دشمن ہی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو آدمی کو اپنے ایمان کی فکر ہو جانی چاہیے ۔
اسلام کے دشمنوں سے دلی ہمدردی رکھنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی فتح مندی چاہنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی نصرت اور اعانت کرنا ، یا حتی کہ مسلمانوں کے خلاف محض ان کا حلیف بن کر رہنا صریحاً کفر ہے ۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا ۔
بنا بریں ہر وہ اتحاد alliance (تحالف) جو کسی مسلم ملک یا مسلم قوت یا مسلم جماعت کے خلاف آمادۂ جنگ ہو اس کا حصہ بننا ، اس کی معاونت کرنا ، اس کا پرچم اٹھانا ، اس کیلئے جاسوسی کرنا یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح اس کی مہم آسان کرنا محض کوئی گناہ نہیں ، یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کو متنبہ ہو جانا چاہیئے وہ اگر اپنے اس عمل سے تائب ہوئے بغیر مر جاتا ہے تو وہ کفر کی حالت پر مرتا ہے ، جس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم یقینی ہے ۔
کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہوجائے یہ عمل کفریہ نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالى نے آپس میں قتال کرنے والے مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو مؤمن قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے "وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا" ۔ اور یہ غلط فہمی , یا کسی بھی دیگر وجوہات کی بناء پر ہونے والی لڑائیوں میں ہے ۔
ہاں جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہو کفار کی معاونت میں تو یہ عمل کفریہ عمل ہے ۔
لیکن اس کفریہ عمل کے مرتکب پر ہم فتوى کفر اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک تکفیر کی شروط اس میں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ گو لوگ جب کفار کی صفوں میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں تو ان کا قتل پھر کیونکر جائز ہوگا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو میدانوں میں اہل اسلام کے خلاف لڑنے کےلیے کفار کے ساتھ مل کر آتے ہیں ہم ان کا قتل اس لیئے درست قرار دیتے ہیں کیونکہ انکا یہ عمل کفر والا ہے اور تکفیر معین کی چھان بین کا موقع میدانوں میں نہیں ہوتا کہ جس کے ذریعہ حقیت حال کو معلوم کیا جائے لہٰذا مسلمان ان کے ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے ان کے ساتھ کفار والا سلوک روا رکھتے ہیں ۔
کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے ، انہیں راز دار بنانا ، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے ۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے ۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاؤ کی اجازت دی گئی ہے ، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدنا امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا ۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے ۔
اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment