Monday 25 September 2023

بدعت کی تعریف و شرعی حیثیت اور اقسامِ بدعت

0 comments
بدعت کی تعریف و شرعی حیثیت اور اقسامِ بدعت
محترم قارئینِ کرام : بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے ۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ ، اَصل ، مثال ، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ، یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں ۔

بدعت کا لغوی معنی : بدعت عر بی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہو تا ہے ۔ کسی سابقہ نمونہ کے بغیر کو ئی نئی چیز ایجاد کر نا ۔ چنانچہ عر بی لغت کی مشہور کتاب’المنجد‘میں بدعت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے’اختر عہ وصنعہ لا علی مثال‘یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر کو ئی نئی چیز بنا نا اور ایجاد کر نا ۔

بدعت کا شرعی معنیٰ : شر یعت میں بد عت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہ ہوا ، چنا نچہ اما م یحییٰ بن شر ف نووی علیہ الرحمہ بد عت کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں : البدعۃ ھی احداث ما لم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کر نا ہے جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو ۔ (تہذیب الاسماء واللغت جلد ۳ صفحہ ۲۲)

کچھ لوگ بدعت کی تعریف اس طر ح سے کرتے ہیں کہ : وہ کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نہ ہوا وہ بدعت ہے ۔ حالانکہ یہ تعریف خود ساختہ ہے جسے کسی عالم یا محدث نے نہیں بیان کیا ۔ اور صحیح حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں تراویح کے نمازکی با ضابطہ جماعت قائم کرنے کے بعد ارشاد فر مایاکہ : یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ اب آپ خود ہی غور کریں کہ جو کام خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد ہو وہ بدعت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کیسے بدعت کہا جو خود ان کے زمانے میں ہوا ؟ کیا نعوذباللہ وہ بدعت کی تعریف نہیں جانتے تھے ؟ یقیناً ایسا نہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ تعریف بالکل صحیح نہیں ۔ صحیح وہی ہے جو اوپر امام نووی علیہ الرحمہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ۔

ہر بدعت بری نہیں ہوتی : ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہو تی،کیو نکہ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہو تی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو ئی ایسا کام نہیں کرتے جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا ، مگر بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق بہت سارے ایسے کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں نہ ہوا تھا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم اجمعین نے کیا اور اسے اچھا بھی سمجھا ، یہاں پر مختصراََ چند مثالیں حاضر خدمت ہیں : ⬇

مثال نمبر 1 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں تراویح کی نماز با قاعدہ رمضان المبارک میں ہر رات کو نہیں ہوتی تھی ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے با قاعدہ تراویح کی جماعت قائم کی ۔اور جب یہ جماعت قائم ہو گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’نعم البدعتہ ھٰذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب صلاۃالتراویح باب فضل من قام رمضان حدیث۱۹۰۶،چشتی)

غور کریں ! اگرہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ کبھی استعمال نہ فرماتے مگر آپ نے ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔ معلوم ہوا کہ ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی ۔

مثال نمبر 2 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانہ مبارک میں جمعہ کے د ن صرف دو اذان ہوتی تھی ۔ پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھ جاتے تھے او ر دوسری اذان (یعنی اقامت) نماز کے شروع ہونے سے پہلے ہوتی تھی ۔ مگر جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا توآپ نے بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق ایک ’’اذان‘‘ کا اضافہ کیا اور مقام ’’زورا‘‘ پر دینے کا حکم دیا ۔ اس طرح سے جمعہ کے دن بشمول ’’اقامت‘‘ کے تین اذانیں ہو گئیں ۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ حدیث نمبر ۹۱۲،چشتی)

سو چنے کی بات ہے ۔ اگر ہر بد عت بری اور گمراہی ہو تی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ وہ کا م کیسے کرتے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا ۔ مزید یہ کہ اس وقت کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین باحیات تھے کسی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ آپ ایک ایسا کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں نہ ہوا ۔ اسے آپ نے کیوں کیا ؟ بلکہ تمام صحابہ و تا بعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے اسے قبول کیا اور آج تک تمام مسلمانون کا اسی پر عمل ہے ۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں ! کیا وہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین اور آج تک کے تمام مسلمان ، اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گمراہ اور جہنمی ہیں ؟ ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) ۔ یا وہ جہنمی ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم اور عام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر اپنا الگ راستہ بناتے ہیں ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کو جائے تو اُس کو ہم پھیر دیں گے ، جدھر وہ پھرا ۔ اور اُسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کیا ہی بُری جگہ ہے پھر نے کی ۔ (سورہ نسا آیت نبر ۱۱۵)

مثال نمبر 3 : یہ اس وقت کی بات ہے جب قرآن مجید کتابی صورت میں جمع نہیں ہوا  تھا ، جنگِ یمامہ میں کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان شہید ہوچکے تھے ۔ خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ایک میٹینگ کےلیے بلواتے ہیں اور اسی محفل میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں ۔ اس میٹینگ کی تفصیل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبانی پڑھیے : قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عمر میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگِ یمامہ میں کتنے ہی قاری قرآن شہید ہو چکے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ قاریوں کے مختلف مقامات پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ محفوظ نہیں رہ سکے گا ۔ لہٰذا میری رائے ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیجیے ۔
قُلْتُ لِعُمَرَ:كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟
ترجمہ : حضرت ابوبکر کہتے ہیں کہ میں نے عمر سے کہا : آپ وہ کام کیسے کرسکتے ہیں  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟
قَالَ عُمَرُ: هَذَا وَاللهِ خَيْرٌ ۔
ترجمہ : عمر فاروق نے جواب دیا : (اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا) مگر خدا کی قسم یہ کام پھر بھی اچھا ہے ۔
فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي ۔
ترجمہ : (حضرت ابوبکر کہتے ہیں) عمر مجھ سے اس بارے میں مسلسل بحث کرتے رہے ۔
حَتَّى شَرَحَ اللهُ صَدْرِي لِذَلِكَ ۔
ترجمہ : یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس بارے میں میرا سینہ کھول دیا ۔
وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ ۔
ترجمہ : اور میں بھی عمرکی رائے سے متفق ہو گیا ۔
قَالَ زَيْدٌ : قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ ۔
ترجمہ : زید بن ثابت کہتے ہیں ، ابوبکر نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا :  تم نوجوان  اور سمجھدار شخص ہو اور تمہاری قرآن فہمی پر کسی کو بھی کلام نہیں ہے ۔ اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے ۔ پس بھرپور کوشش کرو اور قرآن مجید کو جمع کر دو ۔
فَوَاللهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ ۔
ترجمہ : (زید بن ثابت اپنی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں) خدا کی قسم ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو وہ مجھے اتنا بھاری نہیں لگتا  جتنا یہ حکم بھاری لگا کہ قرآن کو جمع کروں ۔
قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟
ترجمہ : زید بن ثابت ، ابوبکر سے عرض کرتے ہیں : آپ لوگ وہ کام کیوں کررہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ۔
قَالَ: هُوَ وَاللهِ خَيْرٌ ۔
ترجمہ : ابوبکر نے کہا : (اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا) مگر خدا کی قسم یہ کام پھر بھی اچھا ہے ۔
فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي ۔
ترجمہ : (زید بن ثابت کہتے ہیں) ابوبکر مجھ سے مسلسل بحث کرتے رہے ۔
حَتَّى شَرَحَ اللهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا ۔
ترجمہ : یہاں تک کہ اللہ تعالی نے میرا  سینہ بھی اس رائے کی جانب کھول دیا جس طرف ابوبکر و عمر کا کھول دیا تھا ۔ (صحيح البخاري، كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، ٦/١٨٣)۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن حدیث نمبر ۴۹۸۶)

مذکورہ بالا حدیث شریف کو دوبارہ پڑھیں اور سوچیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک ایسے کام کے بارے میں جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کیا ، قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ غلط نہیں بلکہ اچھا کام ہے اور صرف اچھا ہی نہیں بلکہ بہت اچھا کام ہے ۔ مگر کچھ لوگ اپنی جہالت  کی بنیاد پر ہر بدعت کو گمراہی سمجھتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہی ہدایت نصیب کر نے والاہے ۔ اس حدیثِ مبارکہ کا ایک ایک لفظ اس دور میں ہونے ہونے والے کثیر بحث و مباحثہ کا یقینی حل پیش کرتا ہے ۔ فقیر چشت کا دل چاہتا ہے اس حدیث سے حاصل ہونے والی مہکتے موتی ، چمکدار اصول ، روشن ضابطے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کےلیے بیان کروں مگر کہیں "اپنے مطلب کی بات" کا عنوان نہ دے دیا جائے اس لیے قلم روک کر آپ ہی کو دعوتِ فکر دیتا ہوں ۔ پڑھیے ، غور کیجیے اور سمجھیے ۔ اگر ہم چاہیں تو اکثر جھگڑے اس ایک حدیثِ مبارکہ سے ختم ہو سکتے ہیں ۔

بدعت کے دورے میں مبتلا لوگ کہتے ہیں : حدیث شریف میں ہے ’کل بدعۃ ضلالۃو کل ضلالۃ فی النار‘کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔اس سے تو ثابت ہواکہ ہر بدعت گمر اہی ہے ۔
اس کا جواب : اس حدیث شریف میں بدعت سے مراد ’بد عت سئیہ ‘ہے یعنی ’بری بدعت‘اور اس حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہر وہ نیا کام جو دین کے خلاف ہوشر یعت کے مزاج کے مخالف ہو وہ سب کے سب غلط اور گمراہی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نیا کام چاہے وہ اچھا ہو یا برا سب کے سب غلط اورگمراہی ہے۔کیو نکہ اگر ایسا ہی ہو تا تو مدرسے بنانا ،مساجدکو مزین کرنا ،قرآن حکیم پر اعراب لگانا،پورے رمضان المبارک میں تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا،جمعہ کے دن اذان اول دینا اور اس کے علاوہ بے شمار باتیں گمراہی ہو تیں۔ حالانکہ ایسا کوئی نہیں مانتا ،لہذا معلوم ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعتیں گمراہی ہیں جو دین و شریعت کے مخالف ہیں ۔

مسلمانوں کو بدعتی کہنے والے کہتے ہیں : کیا بدعت کا حسنہ (یعنی اچھی) اور سئیہ (یعنی بری) ہوناحدیث شریف سے ثابت ہے ؟
اس کا جواب : بدعت کا اچھی اور بری ہونا حدیث شریف سے ثابت ہے ۔حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ سے مر وی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’من سنَّ فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجر ھا و اجر من عمل بھا بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شئی و من سن سنۃ سئیۃ کان علیہ وزرھا و وزر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی ‘‘ جس نے اسلام میںکسی اچھے طر یقے کو رائج کیا تو اس کو اپنے رائج کر نے کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کر تے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کو ئی کمی نہ ہو گی ، اور جس شخص نے اسلام میں کو ئی برا طریقہ رائج کیا تو اس شخص کو اس کے رائج کر نے کا گناہ ہو گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی بھی نہ ہو گی ۔ (صحیح مسلم،کتاب الزکوۃ ،باب الحث علی الصدقہ حدیث نمبر ۱۰۱۷)

اس حدیثِ مبارکہ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ نئے کام کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کا حکم صاف صاف لفظوں میں بتا دیا ، اور اسی حدیث شریف کو مد نظر رکھتے ہوئے امام غزالی ، امام نووی ، امام بدرالدین عینی ، علامہ ابن حجر عسقلانی ، میر سید شریف جر جانی ، علامہ ابن اثیر جزری ، علامہ ابو اسحاق شاطبی ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہم الرحمہ نے بدعت کی تقسیم کی ۔ اور سب نے یہ تسلیم کیا کہ بعض بدعتیں اچھی ہو تیں ہیں اور بعض بری (یہاں پر سب کے اقوال الگ الگ پیش کرنے کی گنجائش نہیں تفصیل کےلیے مطالعہ کیجیے ’شرح صحیح مسلم مصنفہ میرے استاد بھائی علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ جلد نمبر ۲،صفحہ ۵۳۹تا ۵۶۴،چشتی)

ان تماتر حقیقتوں سے آنکھیں بند کر کے اگر کو ئی صرف یہیں رٹتا رہے کہ کوئی بھی بدعت اچھی نہیں ہوتی(یعنی کوئی بھی نیا کام اچھا نہیں ہوتا) بلکہ سب غلط اور گمراہی ہے ۔ تو یقیناً ایسے شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افکار و نظریات اور علمائے کرام کے اقوال سے کو ئی مطلب نہیں وہ فقط اپنے نفس کی پیر وی کر نے والا ہے ایسے شخص سے مسلمانوں کو دور رہنے ہی میں بھلائی ہے ۔

علامہ ابنِ حجر عسقلان رحمۃ اللہ علیہ ، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں : البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق ۔
ترجمہ : بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو ۔ (فتح الباری ، 4 : 253)

قرآن مجید میں آنے والے بدعت کے مختلف مشتقات سے ان معانی کی توثیق ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو کسی مثال کے بغیر وجود عطا کیا تو لُغوی اعتبار سے یہ بھی ’’بدعت‘‘ کہلائی اور اس بدعت کا خالق خود اللہ تعالی ہے جو اپنی شانِ تخلیق بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے : بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ۔
ترجمہ : وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے ۔ (سورۃ البقره، 2 : 117)

اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل اور نظیر پہلے سے موجود نہ ہو ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً اِیصال ثواب ، میلاد اور دیگر سماجی ، روحانی اور اخلاقی اُمور ، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو ۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کےلیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے : ⬇

(1) دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو ۔

(2) نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے ۔

بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : ⬇

امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ ﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا ۔
ترجمہ : محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں ۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ ۔ (فتح الباری جلد 13 صفحہ 253۔چشتی)

امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ متوفی 1014 ھ مرقات شرح مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں امام نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں  : قال النووی البدعۃ کل شئے عمل علی غیر مثال سبق ۔
ترجمہ : یعنی بدعت وہ کام ہے جو بغیر گذری مثال کے کیا جائے ـ

نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی ـ بدعت اعتقادی ، اور بدعت عملی ، بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے اور بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد ایجاد ہوا ـ

مرقات شرح مشکوۃ میں امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم ۔
ترجمہ : یعنی بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں نہ ہو ـ

بدعت دو طرح کی ہے ـ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ـ پھر بدعت حسنہ تین طرح کی ہے ، بدعت جائز ، بدعت مستحب ، بدعت واجب ، اور بدعت سیئہ دو طرح کی ہے ـ بدعت مکروہ ، اور بدعت حرام ، اس تقسیم کے لئے حوالہ ملاخطہ ہو ـ

مرقات شرح مشکوۃ میں امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص منہ البعض ہے ـ شیخ عز الدین بن عبد السلام " کتاب القوائد " کے آخر میں لکھتے ہیں کہ :  بدعت یا تو واجب ہے جیسے علم نحو کا پڑھنا (تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھا جا سکے) اور اصول فقہ کا جمع کرنا ، اور حدیث کے راوی میں جرح و تعدیل کرنا ، اور یا حرام ہے ـ جیسے جبریہ و قدریہ وغیرہ کا مذہب ، اور ایسے نو ایجاد گمراہ فرقوں کا رد کرنا بھی بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کو ان بدعات اور نئے مذہبوں سے بچانا فرض کفایہ ہے ، اور یا مستحب ہے ، جیسے مسافر خانے ، اور مدرسے بنانا، اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی ، اور جیسے عام جماعت سے نماز تراویح پڑھنا ، اور صوفیاء کرام کی باریک باتوں میں کلام کرنا ، اور یا مکروہ ہے ـ جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا مباح ہے ، جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ، اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں اور مکانوں کو وسعت دینا ـ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ : جو نیا کام کتاب و سنت یا اثر و اجماع کے مخالف ہو تو وہ گمراہی ہے ، اور جو ایسا اچھا کام نیا ایجاد کیا جائے کہ کتاب و سنت ، اثر و اجماع کے خلاف نہ ہو ، تو وہ مذموم و برا نہیں ـ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے باجماعت تراویح ادا کرنے کے بارے میں بارے میں فرمایا تھا ـ کہ یہ کام ہے تو نیا مگر اچھا ہے ـ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ
ترجمہ : جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لئے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ (صحیح مسلم جلد 2 ، صفحہ نمبر 341،چشتی)

اس حدیث شریف کی شرح میں امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ دونوں حدیثوں اس بات پر رغبت دلانے میں صریح ہیں کہ اچھے کاموں کا ایجاد کرنا مستحب ہے ـ اور برے کاموں کا ایجاد کرنا حرام ہے ـ اور یہ کہ جو کوئی کسی اچھے کام کو ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے اجر کی مثل اس ایجاد کنندہ کو ملے گا ، اور جو کوئی برا کام ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے گناہ کی مثل اسکے نامہ اعمال میں درج ہوگا ـ

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد محترم عارف باللہ علامہ عبد الغنی نابلسی متوفی 1143 ھ مطابق 1730 ء رحمۃ اللہ علیہ " الحدیقۃ الندیّہ شرح الطریقۃ المحمدیّہ " میں فرماتے ہیں : بعض علماء سے ان عمارتوں کے متعاق سوال کیا گیا جو کہ کعبہ کے اردگرد تعمیر کی گئی ہیں جن میں چاروں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھا کرتے ہیں کہ یہ طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ تھا یو نہی تابعین ، تبع تابعین ، اور ائمہ اربعہ کے عہد میں بھی نہ تھا اور ان حضرات نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کو طلب کیا تھا ـ تو انہوں نے جواب دیا کہ : یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے سیئہ نہیں ، کیونکہ سنت (طریقہ) حسنہ میں داخل ہے ـ کہ اس سے مسجد اور نمازیوں اور عام اہل سنت و جماعت کو کوئی ضرر اور حرج نہیں ـ بلکہ بارش اور گرمی و سردی میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے ـ اور جمعہ وغیرہ میں یہ امام سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے ـ تو یہ بدعت حسنہ ہے اور لوگوں کے اس فعل کو " سنّۃ حسنہ " کہا جائے گا ـ اگرچہ یہ اہلسنت کی بدعت ہے ، مگر اہل بدعت کی بدعت نہیں ـ کیونکہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ سنّۃ حسنۃ الخ ـ تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نےاس کی ایجاد کردہ حسنہ کو سنت میں داخل اور شمار فرمایا ـ مگر اس کے ساتھ " بدعت " کو بھی ملایا اور اگرچہ وہ نو پیدا اچھا کام حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے فعل میں تو وارد نہیں ہوا مگر اس حدیث کی وجہ سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے قول میں تو وارد ہو چکا ہے ـ لہذا کسی ایسے اچھے کام کا ایجاد کرنیوالا سنّی ہے بدعتی نہیں ـ کیونکہ وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ایسے کام کو " سنّۃ " قرار دیا ہے ـ

مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل ، شرعی اصل ، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو ۔

اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے ، مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی کا قول اہلحدیث عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها، والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة، بل هی مباح الأصل ۔
ترجمہ : بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ (ھدية المهدی صفحہ 117) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 24 September 2023

تیسری عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہاں سے آئی کا جواب

0 comments
تیسری عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہاں سے آئی کا جواب






محترم قارئینِ کرام : عیدِ میلادُالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطلب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے وقت یا زمانے کی خوشی ۔ اسلام میں شرعا دو عیدیں ہی ہیں جنہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی کہتے ہیں ۔ کسی اور دن کے ساتھ لفظ عید لگانے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ۔ اگر ممانعت ہے تو آپ وہ ممانعت قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی اور دن کو عید کا دن کہتے تھے ؟ ۔ تو اس کا جواب غیرمقلدین وہابی حضرات کے علامہ وحیدالزمان بخاری کی شرح بنام تیسیرالبخاری کی جلد 6 صفحہ 104 پر ایک حدیث لکھی ہےجو اصل کتاب بخاری شریف کی جلد 2 صفحہ 662 پر موجود ہے ۔ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں یہودی لوگ (مثلاً کعب احبار) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے ۔ تم (اپنے قرآن مجید میں) ایک ایسی آیت پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید (خوشی کا دن) مقرر کرلیتے ۔ حضرت عمر نے پوچھا وہ کون سے آیت ہے ، انہوں نے کہا ۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًاحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں خوب جانتا ہو ں یہ آیت مبارکہ کب اتری اور کہاں اتری ؟ اور جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہاں تھے ؟ یہ آیت مبارکہ عرفہ کے دن نازل ہوئي اس وقت اللہ تبارک و تعالی کی قسم ۔ ہم میدان عرفات میں تھے ۔ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مجھ کو شک ہوا اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن ۔ اس حدیث کو لکھنے کے بعد وحید الزماں نے لکھا ہے قیس بن سلمہ کی روایت میں بالیقین مذکور ہےکہ وہ جمعہ کا دن تھا تو اس دن دوہری عید ہوئی ۔ (تیسیر البخاری جلد 6 صفحہ 104 من و عن)

دوہری سے مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ہے یعنی جمعۃ المبارک بھی "عید" کا دن ہے ۔

مشکوۃ ص 121، رواہ الترمذی۔میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت موجود ہے۔جس میں آپ نے یہودی کو جواباً ارشاد فرمایا کہ اس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ مراد "یوم عرفہ" اور" یوم جمعہ" ۔ حضرت عبداللہ کے جواب کا مقصد یہودی کو یہ بات سمجھانا اور باور کروانا تھا کہ تم ایک"عید" کی بات کرتے ہو جب یہ آیت نازل ہوئی ان دن ہماری دو عیدیں تھیں ۔ یعنی یوم عرفہ اور جمعہ ۔

حضرت عبید بن سباق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جمعوں میں ایک جمعہ میں فرمایا : "اے مسلمانوں کے گروہ یہ وہ دن ہے جسے اللہ تعالی نے "عید" بنایا ہے ۔ تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو اسے لگانے میں کوئی نقصان نہیں ۔ مسواک لازم پکڑو ۔ (مشکوۃ صفحہ 123)(سنن ابن ماجہ صفحہ 7)

ہمارے نزدیک تو تمام "عیدیں" عیدِ میلادُ النّبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صدقہ ہیں ۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیدا نہ ہوتے تو نہ عیدُالفطر ہوتی اور نہ عیدُالاضحیٰ ہوتی ۔ یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت کی "عید" کے صدقہ میں ہمیں عطا ہوئيں ۔

معترضین حضرات ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیا ہوتا تو ایسی باتیں نہ کرتے ۔ عید کی تعریف اور جشنِ میلاد کو عید کہنے کی وجہ : ابوالقاسم امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے ، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کےلیے خاص نہیں ہے ۔ عید کا دن خوشی کےلیے مقرر کیا گیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کےلیے ہیں‘‘ اس لیے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو ، اس دن کےلیے عید کا لفظ مستعمل ہو گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کےلیے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو ۔ علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں : جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو ۔ جس میں اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو ۔ جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو ۔ الحمدﷲ عزوجل جل علی احسانہ ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں ۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایک مسلمان کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہو سکتی ہے ؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی  ، ایمان کی لازوال دولت ملی  ، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے ؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کےلیے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام دیں اور عید منائیں ۔

کہتے ہیں کہ کسی معتبر کتاب میں یومِ میلاد کو عید نہیں لکھا گیا ۔ حوالہ پیشِ خدمت ہے اور اس حوالے کے اعتبار کےلیے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی دیوبندی نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کےلیے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کےلیے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں ۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب لدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی علیہ الرحمہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے ۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبداللہ امام محمد زرقانی علیہ الرحمہ نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں : جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ ۔ جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند ۔ جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند ۔ جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند * جناب محمد انور معلم دارالعلوم دیوبند ۔ اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری ، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے ۔ معتبر کتاب سے مطلوبہ لفظ ’’عید‘‘ ملاحظہ فرما لیا ۔ اگر امام قسطلانی کی تحریر سے اتفاق نہیں تو مذکورہ علمائے دیوبند کو ملامت کیجیے جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اور اس کے ترجمہ کو بہت بڑی نیکی لکھا ہے ۔

لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے ، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں ، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ۔ آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ رضی اللہ عنہ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے ، فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ ۔ (سورہ المائدۃ آیت نمبر 03) ۔ پڑھی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ۔ (صحيح بخاری کتاب الإيمان باب زيادة الإيمان و نقصانه)

آپ رضی اللہ عنہ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لیے وہ دن عید ہے ۔

سنن ترمذی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔ (سنن الترمذی کتاب تفسيرآن باب و من سورة المائدة)

یوں عیدُ الفطر اور عیدُ الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں ، 52 جمعہ اور ایک یوم عرفہ ، تو ان 53 عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟

جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا ۔
ترجمہ : اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کےلیے) عید بن جائے ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 91)

معلوم ہوا کہ نزولِ نعمت کے دن کو عید کہنا اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے ، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمتِ کُل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کا دن امت مسلمہ کےلیے یوم عید ہے ۔ عید کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ ایک ہے عید شرعی اور عید واجب اور دوسری عید فرحت ، عید مسرت اور عید تشکر ہے ۔ یہ مستحب اور مستحسن ہوتی ہے ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دن کو عید کہنا یا سمجھنا اس لیے درست نہیں کہ اسلام میں عیدیں صرف دو ہیں اور وہ ہے عیدالفطر اور عیدالاضحی ۔ ان دو عیدوں کے ہوتے ہوئے بعض احباب کسی تیسری عید کو عید کہنا بھی جائز نہیں سمجھتے ۔ اس کی وضاحت صحاح ستہ کی کتب احادیث سنن ابی داٶد سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے ۔ 

جمعۃ المبارک یوم عید ہے تو سال میں کتنی عیدیں ہوئیں اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہی ضد آخر کیوں ؟

 فضیلتِ جمعۃ المبارک کا سبب یومِ تخلیقِ آدم علیہ السلام ہے ۔ جمعۃ المبارک کے دن کی خاص اَہمیت اور فضیلت کی بناء پر اسے سیّدُالایام کہا گیا ہے ۔ اس دن غسل کرنا ، صاف ستھرے یا نئے کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا اور کاروبارِ زندگی چھوڑتے ہوئے مسجد میں اِجتماع عام میں شریک ہونا اُمورِ مسنونہ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کا بھی حکم دیا ہے ۔

حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة ، وفيه الصعقة ، فأکثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتکم معروضة علي ۔
ترجمہ : تمہارے دنوں ميں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے ، اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی (یعنی اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا)، اس روز اُن کی روح قبض کی گئی، اور اِسی روز صور پھونکا جائے گا۔ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531،چشتی)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085)

امام اِبن ماجہ 209۔ 273ھ علیہ الرحمہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن هذا يوم عيد ، جعله اللہ للمسلمين ، فمن جاء إلي الجمعة فليغتسل ، وإن کان طيب فليمس منه، وعليکم بالسواک ۔
ترجمہ : بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔ پس جو کوئی جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے ، اور اگر ہو سکے تو خوشبو لگا کر آئے ۔ اور تم پر مسواک کرنا لازمی ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلٰوة، باب في الزينة يوم الجمعة، 1 : 349، رقم : 1098،چشتی)(طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 7355)(منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 1 : 286، رقم : 1058)

امام احمد بن حنبل 164۔ 241ھ علیہ الرحمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن يوم الجمعة يوم عيد، فلا تجعلوا يوم عيدکم يوم صيامکم إلا أن تصوموا قبله أو بعده ۔
ترجمہ : بے شک یومِ جمعہ عید کا دن ہے ، پس تم اپنے عید کے دن کو یومِ صیام (روزوں کا دن) مت بناؤ مگر یہ کہ تم اس سے قبل (جمعرات) یا اس کے بعد (ہفتہ) کے دن کا روزہ رکھو (پھر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں) ۔ (أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 303، 532، رقم : 8012، 10903)(ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 315، 318، رقم : 2161، 2166)(ابن راهويه، المسند، 1 : 451، رقم : 524)(حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 603، رقم : 1595)

امام اِبن حبان 270۔ 354ھ علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں کہ ابو اوبر بیان کرتے ہیں : کنت قاعدًا عند أبي هريرة إذ جاء ه رجل فقال : إنک نهيت الناس عن صيام يوم الجمعة ؟ قال : ما نهيت الناس أن يصوموا يوم الجمعة، ولکني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لاتصوموا يوم الجمعة، فإنه يوم عيد إلا أن تصلوه بأيام ۔
ترجمہ : میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے اُن کے پاس آ کر کہا : آپ نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے لوگوں کو جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے نہیں روکا بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تم جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو کیوں کہ یہ عید کا دن ہے، سوائے اس کے کہ تم اس کو اور دنوں کے ساتھ ملا کر (روزہ) رکھو ۔ (ابن حبان، الصحيح، 8 : 375، رقم : 3610)

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضیلتِ جمعۃ المبارک کا سبب کیا ہے اور اسے کس لیے سب دنوں کا سردار اور یومِ عید قرار دیا گیا ؟ اس سوال کا جواب اوپر بیان کی گئی حدیثِ مبارکہ میں موجود ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا : فيه خلق آدم ’’ (یومِ جمعہ) آدم علیہ السلام کے میلاد کا دن ہے (یعنی اس دن آدم علیہ السلام کی خلقت ہوئی اور آپ کو لباسِ بشریت سے سرفراز کیا گیا) ۔ جمعہ کے دن ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی جس کی بناء پر اِسے یوم عید کہا گیا ہے اور اس دن کی تکریم کی جاتی ہے ۔ اگر یومِ جمعۃ المبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے باعث عزت و اِحترام کے ساتھ منائے جانے کا حق دار ہو سکتا ہے تو یومِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بناء پر عیدُ الاعیاد (تمام عیدوں کی عید) کے طور پر اسلامی کیلنڈر کی زینت کیوں نہیں بن سکتا ۔ اب کوئی کہے کے میلادِ آدم علیہ السلام کی تقریب کا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ ان کی تخلیق معروف طریقے سے عمل میں نہیں آئی۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی۔ لہذا یوم الجمعہ کو یوم العید بنا دیا گیا کہ یہ بنی نوع انسان کے جد اَمجد اور پہلے نبی کا یومِ تخلیق ہے۔ اِسی بناء پر وجہ تخلیقِ کائنات اور تمام انبیاء کے سردار سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت تمام عیدوں کی عید ہے ۔

جمعۃ المبارک کے سلسلہ میں کیے جانے والے تمام تر اِنتظامات وہ ہیں جو میلاد کے حوالہ سے بھی کیے جاتے ہیں ، مثلاً غسل کرنا ، خوشبو لگانا ، ایک جگہ جمع ہونا ، کاروبار ترک کرنا اور مسجد میں حاضری دینا ۔ ان کے علاوہ بھی بعض امور کا تذکرہ کتب حدیث میں موجود ہے ۔ جمعۃ المبارک کے دن یہ سارا اہتمام درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام بھیجنے کے حوالہ سے ہے اور اس دن کو کثرتِ درود و سلام کےلیے اس لیے چنا گیا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کا یومِ میلاد ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادگرامی ہے : فأکثروا عليّ من الصلاة فيه ’’ پس اس روز کثرت سے مجھ پر درود شریف بھیجا کرو ۔ اِس دن عاشقانِ رسول درود شریف کا اِجتماعی ورد کرتے ہیں اور اس دن محفل میلاد اور محفلِ صلوٰۃ و سلام کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔ سو یہ دن جہاں ایک طرف میلادِ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے خاص ہے تو دوسری طرف درود و سلام کے ذکر کی نسبت سے میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے بھی ہے ۔ اس طرح بہ یک وقت یہ دن جدماجد اور فرزند اَمجد دونوں کے لیے اِظہارِ مسرت کا مژدہ بردار بن گیا ہے ۔

حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول اللہ وَکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت ؟ ’’ یا رسول اللہ ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن اللہ عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء ۔ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے ۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب تفريع أبواب الجمعة وفضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1 : 275، رقم : 1047)(أبو داؤد، السنن، أبواب الوتر، باب في الاستغفار، 2 : 88، رقم : 1531)(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1 : 345، رقم : 1085،چشتی)(نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب إکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 3 : 91، رقم : 1375)(نسائي، السنن الکبري، باب الأمر بإکثار الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم الجمعة، 1 : 519، رقم : 1666)(دارمي، السنن، 1 : 445، رقم : 1572)(ابن ابي شيبة، المصنف، 2 : 253، رقم : 8697)(طبراني، المعجم الکبير، 1 : 216، رقم : 589)(بيهقي، السنن الکبري، 3 : 248، رقم : 5789)(بيهقي، السنن الصغري، 1 : 372، رقم : 634)(هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان، 1 : 146، رقم : 550)

اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ میں اِس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی اپنے جسم کے ساتھ زندہ رہوں گا ، اور تمہیں چاہیے کہ مجھ پر جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا اپنا معمول بنا لو ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے صرف دو عیدیں کہنے کا تصور کہاں گیا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی زبان مبارک سے فرمایا : جمعہ کا دن بھی ہماری عید ہے اس سے معلوم ہوا دو عیدوں کے علاوہ بھی اسلام میں عید کا تصور ہے ۔ وہ دو عیدیں واجب ہیں ۔ وہ عیدیں احکام اور مناسک کی ہیں اور یہ عید تعلق اور محبت کی ہے ۔ یہ فرحت اور مسرت کی عید ہے ۔ اس لیے فقیر نے اس کو عید فرحت ، عید مسرت اور عید تشکر کا نام دیا اور وہ دو عیدیں عید شرعی ہیں اور واجب ہیں ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جمعہ کو ہماری عید کا دن کیوں فرمایا ؟ اس کا جواب بھی حدیث پاک میں ہے ۔ یہ بھی سنن ابی داٶد کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ان يوم الجمعة من افضل الايام ۔ (صحيح ابن خزيمه جلد 3 صفحہ 115 حديث1728)
ترجمہ : بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل دن ہے ۔

عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ سب دنوں سے افضل کیسے ہوگیا ؟ فرمایا : فی خلق آدم ، اس لیے کہ اس دن آدم علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی ۔ آپ کے ماں باپ نہیں تھے ۔ آپ کی پہلی تخلیق عمل میں آئی ۔ (ولادت بمعنیٰ پیدائش) ۔ فرمایا : جمعہ سب دنوں سے افضل اس لیے ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے ۔ یہ بات حدیث پاک سے طے ہے تو دوستو ! جو دن سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ہو وہ تو ہو جائے یومِ عید اور افضل الایام اور جو دن ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہو اس پر کتنے جمعے قربان ہو جائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش جمعہ کو عید بنادے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آدم علیہ السلام کی بھی ایک نسبت اور تعلق ہے وہ یہ ہے : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے کہ آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر اتار دیے گئے تو طویل مدت تک آپ گریہ و بکا میں رہے پھر آپ نے ایک روز اللہ کے حضور دعا کی اور جب توبہ کےلیے ہاتھ اٹھائے تو عرض کیا : اللهم مغفرلی وتقبل توبة بحق محمد نبی آخرالزمان ۔ (المستدرک، علی الصحيحين جلد 2 صفحہ 272 حديث 4228،چشتی)
ترجمہ : اے اللہ مجھے معاف کردے اور میری توبہ قبول کر (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) جو سب سے آخری نبی تشریف لانے والے ہیں ان کے صدقے اور وسیلے سے معاف کردے ۔

جب آپ نے یہ دعا کی تو اللہ رب العزت نے فرمایا : اے آدم ! توبہ تو قبول کرلوں گا ، معاف بھی کردوں گا مگر یہ بتا تمہیں میرے اس محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خبر کیسے ہوئی ؟ تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ ! جب تو نے مجھے پیدا کیا اور جنت میں رکھا تو میں نے اپنا سر اٹھا کر جنت کو دیکھا تو میں نے عرش کے ہر پائے پر اور جنت کے ہر درخت ہر ہر پتے اور محلات پر اور جنت کے ہر دروازے پر یہ لکھا دیکھا تھا ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ میں اس دن سمجھ گیا تھا یہ کوئی خدا کا بڑا ہی محبوب ہے کہ جنت کے ایک ایک پتے پر جس کا نام ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر لکھ رکھا ہے ۔ سو میں نے اس دن جان لیا تھا اور آج وہ جاننا میرے کام آگیا ۔ اس کا واسطہ دے کر تجھ سے معافی مانگی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلے سے معافی عطا فرمادی ۔ یہ آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق ہے ایک نسبت ہے اور پھر حضرت حوا علیہا السلام جب پیدا ہوئیں تو اللہ نے چاہا کہ آدم و حوا کے درمیان نسبت زوجیت قائم کر دی جائے ۔ حضرت حوا کو آدم علیہ السلام کی بیوی بنادیا جائے تو فرمایا تمہارا آپس میں نکاح کرتے ہیں ۔ نکاح ہوا تو آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ نکاح کے وقت حوا کو میں مہر کیا ادا کروں ؟ اللہ پاک نے فرمایا : تم دونوں مل کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بیس مرتبہ درود پڑھ لو ۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام نے مل کر بیس مرتبہ درود پڑھا ۔ اس مہر سے عقد اور نکاح ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر درود و سلام کے نتیجے میں اس عقد سے ہم سارے پیدا ہوئے ۔ یہ ساری کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے مہر کی اولاد ہے ۔ سب نبی ولی سب انسان اولاد ہیں اس نکاح کی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام سے منعقد ہوا ۔ اگر ہم اولاد ہی درود و سلام والے نکاح کی ہوں تو اس درود و سلام سے دوری ہمیں زیب نہیں دیتی ۔ یہ آدم علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے تعلق ہے ۔ سمجھانا مقصود یہ ہے جن کے توسل سے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہو ۔ ان کی پیدائش کا دن افضل الایام اور یوم العید ہو جائے اور جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت ہو ۔ اس دن کی عظمت اور افضلیت کا عالم کیا ہو گا ۔ اس لیے کل جمعوں اور کل افضل دنوں کی فضیلتیں یومِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی فضیلت پر قربان ہو جاتی ہیں ۔ آپ اس میلاد پاک کی خوشیاں منارہے ہیں ۔ اس میلاد کے جشن منارہے ہیں ۔ جمعہ چونکہ پیدائش آدم علیہ السلام کا دن ہے ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاکثروا عليه من الصلوة فی ۔ (القول البديع جلد 1 صفحہ 158، 159،چشتی)
ترجمہ : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھا کرو ۔

پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی ہے اور درود و سلام مجھ پر کثرت سے پڑھا کرو ۔ اس لیے جب مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھو گے ۔ اس سے میرا سینہ ٹھنڈا ہوگا بلکہ یہ ٹھنڈک آدم علیہ السلام تک جائے گی ۔ جن کا نکاح درود و سلام سے منعقد ہوا ۔ گویا کل نبیوں کے سینے ٹھنڈے ہو جائیں گے ۔ اب جمعہ کی الگ سے کوئی فضیلت نہ تھی ۔ اس کی فضیلت حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی نسبت سے بنی باقی فضیلتیں اس نسبت سے بعد میں ایڈ ہوئیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس دن کو اللہ پاک جشن منوا رہا ہے ۔ اس دن منبر سجادیے جاتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جمعہ کا دن ہو تو نہایا کرو ۔ یہ آدم علیہ السلام کے میلاد کا دن ہے ۔ جس کے پاس خوشبو ہے وہ خوشبو لگایا کرے اور سج دھج کے مسجدوں میں اس طرح آیا کرو ۔ پھر مسجد میں اجتماع ہو، منبر پر کھڑے ہو کر خطبے ہوں ۔ سب کاروبار ، معاش اور روزگار بند کردیے جائیں ساری کائنات میں اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبر کی ولادت کا اہتمام کروایا ہے ۔ اس دن کے بارے میں فرمایا کہ اس دن بطور خاص جو مجھ پر درود و سلام پڑھتا ہے ۔ اس کا درود و سلام براہِ راست مجھ تک پہنچتا ہے ۔

یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ پھر درود و سلام پہنچانے کےلیے فرشتہ کیوں مقرر کر رکھا ہے ؟ وہ فرشتہ اس لیے مقرر نہیں کر رکھا کہ حضور تک پہنچتا نہیں ہے اور صرف اسی کے ذریعے پہنچ سکتا ہے نہیں بلکہ پہنچتا تو یہ براہِ راست ہے مگر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ادب ہے کہ کوئی ادب کے ساتھ پیش کرے ۔ یہ اسی طرح مقرر کر رکھا ہے ۔ جس طرح رب تعالیٰ نے اپنے لیے دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں ۔ جیسے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ براہِ راست دیکھتا ہے مگر براہِ راست دیکھنے کے باوجود دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو نامہ اعمال اللہ تعالیٰ کو پہنچاتے ہیں اور پیش کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارگاہ جب بڑی ہوتی ہے تو اس کے آداب دربار یہ ہوتے ہیں کہ ہرکارے پیش کرتے ہیں ۔

اسی طرح ساری کائنات کے درود و سلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود سنتے ہیں ۔ مگر ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے خدام پیش کریں ۔ اللہ نے جو قانون اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے بنا رکھا ہے ۔ وہی قانون اپنے لیے بنا رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو بھی نامہ اعمال فرشتے پیش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو پیش کرنے کےلیے دو فرشتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پیش کرنے کےلیے ایک ہے ۔ اب کیا کہیں گے اگر وہ دو فرشتوں کے پہنچانے کے باوجود وہ دیکھتا ہے تو اسی طرح ایک کے فرشتے کے پہنچانے کے باوجود مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سنتے ہیں ۔ ان فرشتوں کے مقرر کرنے کا مطلب سننے نہ سننے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق آدابِ بارگاہ سے ہے کہ کوئی ادب سے پیش کرے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : وما من احد يسلم علی الا رد الله علی روحي حتی ارد عليه السلام ۔ (سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 175 حدیث 2041،چشتی)

مشرق سے مغرب تک اس کائنات میں کوئی شخص ایسا نہیں جو مجھ پر سلام پڑھے اور میں اس کا جواب نہ دوں ۔ فرمایا : جو شخص مجھ پر سلام پڑھتا ہے ۔ (الا رد اللہ علی روحی) اللہ نے میری روح مجھ میں واپس لوٹادی ہوئی ہے (حتی ارد علیہ السلام) حتی کہ میں اس کے سلام کا خود جواب دیتا ہوں ۔ حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے ہیں ۔ اب کوئی سن لیتے ہیں کوئی نہیں سنتے ہیں ۔

حضرت عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں 17 مرتبہ حاضر ہوئے اور آخری بار جب سلام عرض کرکے پلٹے تو اندر سے آواز آتی تھی خوش روی جامی باز آید خوش رہنا اور اگلی بار پھر آنا ۔ جب سترھویں بار حاضری دی سلام عرض کیا : جواب آیا جامی خوش رہنا حضرت جامی رو پڑے ۔ خدام نے عرض کیا : حضرت رو کیوں رہے ہیں ، کہنے لگے : یہ میری آخری حاضری تھی کیونکہ جب میں نے اگلی بار آنا ہوتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے تھے کہ پھر آنا اب صرف خوش رہنا کی دعا کی ہے ۔ پلٹ کے آنا نہیں فرمایا پھر حضرت جامی گئے اور بعد میں وفات پا گئے ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو آج بھی ہیں اور قیامت تک ہوں گے کہ وہ نماز میں تشہد کے وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتے اور کہتے ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم ! سلام عرض کر کے اس وقت تک اگلا کلمہ نہیں پڑھتے تھے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ سے جواب نہیں آتا تھا ۔ یہ تو تعلق کی بات ہے ۔ اگر ہم نہ سن سکیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جواب نہیں دیا ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر کیا ۔ میلاد کہتے ہیں ولادت کو اور جس دن نبی کی ولادت ہوئی وہ یوم میلاد ہے ۔ سورہ مریم کو پڑھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کےلیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ۔ (سورہ مريم ، 19: 15)
ترجمہ : اور یحییٰ پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ۔

مذکورہ آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہالسلام کی ساری زندگی میں سے تین خاص دنوں کو سلامتی کےلیے چن لیا ۔ کیا ان تین دنوں کے علاوہ اللہ رب العزت اپنے نبی کی زندگی میں سلامتی نہیں بھیجتا ۔ وہ تو ہر روز بھیجتا ہے پھر جب پیغمبر کی زندگی کے ہر دن وہ سلامتی ، رحمت اور اپنی برکت بھیجتا ہے ۔ تو پھر ان تین دنوں کے انتخاب کا کیا مطلب ہوا ۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ رب العزت نے اعلان کر دیا ہے ۔ یوں تو پیغمبر کی زندگی کا ہر دن میری سلامتی کا دن ہے ۔ مگر ان سب دنوں میں خصوصیت کا دن ہے جس دن میرے پیغمبر کا میلاد ہوا ۔

اگر بعض لوگوں کے ذہن میں خیال آئے ۔ ولادت کا دن آپ کیوں مناتے ہیں ؟ کیونکہ Birthday تو انگریزوں نے بنا رکھا ہے ۔ لہٰذا اس کی کوئی اہمیت اسلام میں نہیں ہے ۔ اگر کسی کے ذہن میں نادانی اور کم علمی کے باعث یہ خیال آئے تو اسے دور کرلینا چاہیے کیونکہ پیدائش کے دن کی اہمیت تو اللہ عزوجل نے مقرر کی ہے ۔ جیسے مذکورہ آیت میں فرمایا گیا : سلام علیہ یوم ولد ‘‘ سلام ہوا میرا اس دن جس دن (یحییٰ علیہ السلام) کا میلاد ہوا ۔

پھر کوئی یہ کہے کہ چلو میلاد تو ثابت ہوا پھر آپ وفات کا دن بھی مناتے ہو ؟ اس کا بھی جواب یہ ہے کہ ہم کیا کریں اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت بھی قرآن میں مقرر کردی ہے ۔ جیسے فرمایا : ’’یوم یموت‘‘ (اور اس دن بھی سلام ہو جس دن ان کی وفات ہوئی) ۔ گویا اللہ والوں کےلیے دو دن خاص ہو گئے ۔ ایک میلاد کا دن ایک وفات کا دن ۔ اب اسی سورہ مریم میں آگے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے کلام ہیں ۔ آپ خود باری تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں : وَالسَّلٰمُ عَلَيَ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا ۔ (سورہ مريم ، 19: 33)
ترجمہ : اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن ، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا ۔

فرمایا : سلام ہو مجھ پر جس دن میرا میلاد ہوا ۔ اللہ نے فرمایا سلام ہو یحییٰ پر جس دن اس کا میلاد ہوا ۔ گویا پیغمبر کے میلاد کے دن سلام پڑھنا ، اللہ عزوجل کی سنت ہو گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ خود سلام بھیج رہا ہے ۔ (سلام علیہ یوم ولد) اور پھر اگلی آیت میں پیغمبر کے یوم میلاد پر سلام پڑھنا پیغمبر کی اپنی سنت بھی ہوئی کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بارے میں فرمایا : السلام علی یوم ولدت سلام ہو مجھ پر جس دن میرا میلاد ہوا ۔ گویا میلاد کے دن نبیوں پر سلام پڑھنا خدا کی بھی سنت ہے ۔ انبیاء کی بھی سنت ہے ۔ جب دوسرے نبیوں کی بات تھی تو ان کے میلاد اور ولادت کا ذکر اللہ رب العزت نے صرف سلام سے کیا اور جب میلاد کے دن کی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات آئی تو فرمایا : ان کی ولادت کے دن الصلوۃ والسلام پڑھتا ہوں۔ اپنے محبوب کی زندگی کا ہر دن یوم ولادت بنادیا ۔ یہ فرما کر کہ : اِنَّ ﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ۔ (سورہ الاحزاب ، 33: 56)
ترجمہ : بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔

کیونکہ محبوب کا ہر دن یومِ میلاد ہے ۔ باری تعالیٰ نے دیگر انبیاء پر ان کی ولادت کے دن سلام پڑھا تھا جبکہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ولادت کے دن کی قسم اٹھاتا ہے ۔ فرمایا : لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۔ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِ ۔ وَوَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۔ (سورہ البلد ، 90: 1-3)
ترجمہ : میں اس شہر (مکہ) کی قَسم اٹھاتا ہوں ۔ اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں ۔ (اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی ۔

میلاد کے سلسلے میں یہ تیسری آیت جس میں فرمایا : میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں ۔ باری تعالیٰ کیوں ؟ اس لیے کہ وَ اَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِ ۔ اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شہر مکہ کی قسم اس لیے اٹھاتا ہوں کہ آپ کی جائے سکونت ہے ۔ اس لیے تو قسم اٹھاتا ہوں ۔ دوسرا فرمایا : ما ولد ، کہ تیرا شہر سکونت ہی نہیں یہ تیرا شہر ولادت بھی ہے ۔ لہٰذا اس مکہ شہر کی قسم اٹھاتا ہوں ۔ دو نسبتوں سے تیرا شہر سکونت ہے اور تیرا شہر ولادت ہے ۔ شہر سکونت کی قسم اٹھا کر اگلی آیت میں اپنے حبیب کے نسب کی بھی قسم اٹھائی گئی اور فرمایا کہ دیگر انبیاء کی قسم اٹھائی جو اپنی کی ذات تک محدود تھی مگر اے حبیب قسم ہے ہر اس ولد کی جو آدم علیہ السلام سے اسماعیل تک تیرے آباٶ اجداد کی نسل میں آیا ۔ جس جس کی پشت میں تیرا نور منتقل ہوتا چلا گیا اور تیرے آباٶ اجداد میں جس جس کو بھی تیرے ساتھ نسبت اور ولدیت عطا ہوئی ۔ محبوب تیرے ساتھ اس نسبت رکھنے پر تیرے ہر والد کی قسم ۔ کسی نے کہا ولد سے مراد حضرت ابراہیم ہیں ۔ فقیر نے کہا کوئی اعتراض نہیں کسی نے کہا اس سے مراد حضرت آدم ہیں فقیر نے کہا اس میں کوئی اعتراض نہیں ۔ کوئی کہتا ہے اس سے مراد حضرت اسماعیل ہیں ۔ فقیر چشتی کہتا ہے اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ کوئی کہتا ہے حضرت عبداللہ ہیں فقیر کہتا ہے اس میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو تنوین کے ساتھ فرمایا وولد یہ تنوین دو فائدے دے رہی ہے ۔ تکریم کا بھی اور عموم بھی کہ محبوب تیرے آباٶ اجداد کا ہر فرد لائق تعظیم ہے ۔ یہ تنوین دوسرا فائدہ عموم کا دے رہی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حضرت آدم علیہ السلام تک سب کی قسم ! یعنی میرے محبوب کے والد کی قسم ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ وہ والد کسی اور کا نہیں وہ والد تو میرے محبوب کا ہی ہے ۔ خواہ حقیقی والد کرلیں خواہ دادا کرلیں خواہ پردادا کرلیں خواہ شکر دادا کرلیں 40 پشت اوپر کرلیں یا 70 پشت اوپر کرلیں پھر بھی کسی اور کے والد کی قسم نہیں ، قسم ہے تو والدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے ۔ کوئی اگر یہ کہے کہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کا کہاں ذکر ہے ؟ تو فقیر کہتا ہے کہ اچھا چلو آپ بتادیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کی نہیں تو کس کے والد کی قسم اٹھائی جارہی ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ عام لوگوں کے والدوں کی قسم اٹھاتا پھرتا ہے ۔ وہ تو اپنے مکہ شہر کی بھی اپنے کعبہ کی وجہ سے قسم نہیں اٹھاتا ۔ اس نے کہا کہ میں شہر مکہ کی قسم اس لیے نہیں اٹھائی کہ میرا گھر ہے بلکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی وجہ سے اٹھائی ہے ۔ فرمایا : حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مکہ شہر میں دو گھر ہیں ۔ حرم آٶ تو میرا گھر ہے اور سارا جہاں میرے گھر کے طواف کےلیے آتا ہے ۔ جبکہ صحنِ کعبہ سے نکل کر سوقُ الیل میں آمنہ رضی اللہ عنہا کی گلی میں چلے جاٶ وہاں تیرا گھر ہے ۔ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے مکہ کی قسم اٹھائی ہے ۔ گھر میرا بھی یہیں تھا مگر اپنے گھر کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’وانت حل بھذا البلد‘‘ بلکہ اس لیے کہ تیرا گھر اس شہر میں ہے ۔ اب وہ شہر کی قسم تو اٹھا رہا ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی وجہ سے تو یہاں کس کے والد کی قسم اٹھا رہا ہے ۔ اب (نعوذ باللہ) اللہ کا اپنا والد تو ہے نہیں کیونکہ لم یلد ولم یولد ۔ (الاخلاص، 112: 3) ’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ نہ اس کا والد ہے نہ اس کی اولاد ہے ۔ نہ باپ نہ بیٹا لہٰذا اگر کوئی انکار کرے کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد نہیں ہیں تو پھر اس سے پوچھ لو کہ کس کے والد کی قسم ہے کیونکہ اگر قسم ہوتی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی تو سیدھا نام لے لیا جاتا کہ قسم ہے اسماعیل کی یا قسم ہے ابراہیم کی یا قسم ہے موسیٰ کی یا قسم ہے آدم کی ۔ اگر ان کی قسم ان کی وجہ سے ہوتی تو ان کا نام لیتے ان کا والد کیوں کہا جاتا اور والد کوئی ہوتا کیونکر ہے جس کا کوئی بیٹا ہی نہ ہو ۔ کوئی اس کو والد کہتا ہے ؟ والد کون بناتا ہے ۔ جیسے ماں باپ کی طرف سے بیٹا بنا۔ بیوی کی نسبت سے شوہر بنا ۔ بہنوں کی نسبت سے بھائی بنا ۔ پھوپھی کی وجہ سے بھتیجا کہلایا ۔ خالہ کی نسبت سے بھانجا کہلایا۔ اسی طرح باپ بیٹے کی وجہ سے کہلایا ۔ بیٹا ہوا تو والد ہوا ۔ ولد ہو تو والد ہوتا ہے لہذا کسی نبی کا نام لے کر نہیں فرمایا بلکہ فرمایا : ’’ووالد‘‘ اور قسم ہے کسی والد کی ۔

اب ہمیں تو عمر بھر والدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور نظر نہ آیا خواہ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ وہ والد تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں اور اس میں ایک اشارہ بھی ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کر لیا ۔ جوں جوں دیواریں اونچی ہونے لگیں تو ایک پتھر اٹھا کر لے آئے اور اس پتھر پر کھڑے ہو گئے تو ساتھ ساتھ پتھر بھی اونچا ہوتا چلا گیا ۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ساتھ ساتھ تعمیر کا سامان مہیا کرتے رہے جب کعبہ تعمیر ہو گیا تو جس پتھر پر کھڑے تھے وہاں آپ کے دونوں قدم اس کے سینے پر ثبت ہوگئے اور نقش ہو گئے ۔ اب اسی پتھر پر کھڑے تھے کعبہ کی تعمیر مکمل کرلی تھی تو بارگاہ الہٰی سے عرض کیا : رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ۔ (سورہ البقرة، 2: 127)
ترجمہ : کہ اے ہمارے رب ! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے ۔

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰهيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ ۔ (سورہ البقرة، 2: 127)
ترجمہ : اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) ۔

ہم نے دیواریں کھڑی کرلی ہیں لہٰذا ہماری محنت اور مزدوری قبول فرما ۔ اور تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے بس ایک ہی اجرت مانگتے ہیں اور اس مزدوری میں وہ عطا کر دے ۔ پتھر پر کھڑے دعا کر رہے ہیں ۔ فرمایا : ابراہیم کیا مانگتے ہو ۔ عرض کی : رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيَتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَکَ ۔ (البقرة، 2: 128)
ترجمہ : اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا ۔

باری تعالیٰ جو امت مسلمہ آنی ہے وہ ہماری نسل سے پیدا کر ۔ باری تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ اصل چاہتے کیا ہو ؟ پھر عرض کی : رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِکَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَيُزَکِّيْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ ۔ (البقرة، 2: 129)
ترجمہ : اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی باری تعالیٰ تو اس کعبہ کی تعمیر پر کوئی اجرت یا مزدوری اگر دینا چاہتا ہے تو یہ مزدوری دے دے کہ مجھے اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا باپ بنادے اور میری نسل اور ذریت سے اس نبی آخرالزماں کو پیدا کر دے ۔ لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد ہونا اجرت میں مانگا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد کر دے ۔ (فقیر کو تو یہ لگتا ہے اور یہ بات کسی کی سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو ۔ کسی نے ان دو نکتوں کو جوڑ کر لکھا ہو یا نہ لکھا ہو ۔ مگر فقیر چشتی کے فہم و ادراک اور معرفت میں یہی نقش ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ باری تعالیٰ تیرے کعبے کی مزدوری کی اگر کوئی اجرت بنتی ہے تو یہ دے دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد کر دے اور میری نسل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کر دے ۔ اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے ۔ جب پیدا ہو گئے تو یہ اس دعا کا جواب ہے کہ ’’ووالد و ما ولد‘‘ قسم ہے اس والد کی جو دعا مانگ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد بنا جو میرا کعبہ تعمیر کرکے اس تعمیر کعبہ پر اجرت مانگ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا والد بنا تھا ۔ لہذا والد کی قسم ولد کی وجہ سے ہی ہے ولد کہتے ہیں جس کا میلاد ہوا ۔ فرمایا اس والد کی قسم جس نے مزدوری میں والد ہونا مانگا اور اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم جس کا میلاد ہوا اور اس نے ابراہیم علیہ السلام کو والد بنا دیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے والد کی قسم اٹھائی گئی ۔ آپ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلادِ پاک کا تذکرہ اللہ رب العزت نے کتنے حُسِین پیرائے میں کیا ۔

خالصتاً دینی چیز ہے ۔ یہ کیا ڈھکوسلا ہے ؟ دینی اور غیر دینی ؟ جب قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنی ہوتی ہیں تو پمفلٹ پر لکھتے ہو ۔ میرا سب کچھ اللہ کےلیے ہے ۔ میرا جینا ، میرا مرنا ، سونا جاگنا سب کچھ اللہ کےلیے ہے ۔ اور جب مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے تو دینی اور غیر دینی الگ الگ کر دیتے ہو ۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ بے شک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللّٰہ کےلیے ہے جو رب سارے جہان کا ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوۡا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِؕ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو  بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

مسلمان کا ہر عمل دین میں داخل ہے ۔

غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ آپ نے کسی کافر کو فرمایا کہ مسلمان کو اس کے ہر عمل پر ثواب ملتا ہے ۔ چاہے استنجاء کرے ، چاہے بیوی سے صحبت کرے ۔ اچھی نیت کے ساتھ اور سنّت پر عمل کرنے کےلیے کرے گا تو اس پر ثواب دیا جائے گا ۔ اور بروز قیامت مسلمان اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہے ۔ پاکستان کاجشن آزادی منانا کیا کوئی عمل نہيں ؟ اگر کوئی عمل نہیں تو لہوولعب میں شمار ہوگا ۔ اگر عمل ہے پھر یا اچھا ہوگا یا برا ۔اگر برا ہے تو سزا دیا جائے گا اور اگر اچھا ہے تو جزا دیا جائے گا ۔ یہ اچھا عمل دین میں داخل نہیں ؟ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کا عمل دین میں داخل نہیں ؟ تو اگر کوئی فوجی ملک پاکستان کےلیے سرحد پر اپنی جان قربان کرتا ہے تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ؟ تمہارے نزدیک ثواب اسی خود کُش بمبار کو ملے گا جو جشنِ میلاد کے جلوس میں بمب باندھ کر خود کو اڑا لے ؟ اور پچاس ساٹھ مسلمانوں کو شہید کر دے ۔ اور اسے ملے گا جو محرم کے جلوس میں بمب باندھ کر اپنے آپ کو اڑا لیتا ہے ؟ اور وہ تمہارے عقیدے کا ہے اس لیے اس کےلیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ حوریں خدمت کےلیے آجاتی ہیں ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کےلیے ہر وہ کام سر انجام دینا شرعی طور پر جائز ہے جو خوشی ومسرت کے اظہار کےلیے درست اور رائج الوقت ہو ۔ میلاد کی روح پرور تقریبات کے سلسلے میں انتظام وانصرام کرنا ، درود وسلام سے مہکی فضاؤں میں جلوس نکالنا ، محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا ، نعت یا خطاب و بیان کی صورت میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس بیان کرنا اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرچے کرنا سب قابل تحسین ، قابل قبول اور پسندیدہ اعمال ہیں ۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کو حرام قرار دینا حقائق سے لاعلمی ، ضد اور ہٹ دھرمی کے سواء کچھ نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 23 September 2023

جشنِ دیوبند و جشن سعودیہ منانا جاٸز اور جشنِ میلاد ناجاٸز آخر کیوں ؟

0 comments
جشنِ دیوبند و جشن سعودیہ منانا جاٸز اور جشنِ میلاد ناجاٸز آخر کیوں ؟
محترم قارٸینِ کرام : ایک ہندو عورت کو بلا کر صد سالہ جشن دیوبند 1980 میں 100 سالہ جشن دیوبند ہوا جس میں دیو بند کے سب بڑے مفتی موجود تھے . جن میں مفتی محمود ان کو دیو بند والے اپنا روحانی باپ مانتے ہیں ، علاوہ مولوی محمد اجمل خاں ، مولوی عبدالقادر آزاد ، مولوی عبدالرحمن جامعہ اشرفیہ . مولوی اسعد مدنی ، انہوں نے ایسے مہمان خصوصی کا انتخاب کیا جو ہمارے اسلام کا دشمن ہے اور ہمارے پیارے نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن اندرا گاندھی اور نائب وزیر اعظم بھارت جگ جیون رام کو بلایا ، ان کفار کو بلا کر تقریریں کروائی ، کیونکہ دیوبند والوں کا اصل کنکشن انہی لوگوں سے ہے یا انگریزوں سے ۔

دیوبند کے اصول بدعت کے مطابق جشن دیوبند بدعت ہے مگر منایا گیا آخر کیوں ؟

دنیا جانتی ہے کہ علماے دیوبند نے اپنے دار العلوم دیوبند کا صد سالہ جشن منایا ،اور اس میں ہندو عورت اِندرا گاندھی کو اسٹیج پر بیٹھایا:’’روزنامہ جنگ کراچی بدھ ۸؍جمادی الاول ۱۴۰۰ھ ؁ مطابق ۲۶؍ مارچ ۱۹۸۰ء ؁ کے مطابق مدرسہ دار العلوم دیوبند میں ایک ہندو عورت اِندرا گاندھی ساڑھی پہن کر صدارت کیلئے آئی ۔ اورایک ہندوں جگ جیون رام نے دیوبندی اجلاس سے خطاب کیا۔ ’’روز نامہ ایکسپرس ہفتہ ۱۷؍ ربیع الثانی۱۴۲۰ھ/ ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ء ؁ کے مطابق ایک ہندو عورت سونیا گاندھی نے اجلاس کنونشن میں خطاب کیا ۔ نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ،اے آئی آر)دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسز اِندرا گاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا ۔ (روزنامہ مشرق ۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء)

اس پر ہمارے سوال ؟

کوئی ایک آیت و حدیث ایسے جشن کے جواز پر پیش کرو جس میں ایک غیر مسلم بے پردہ عورت شامل ہو،لیکن اس کے باوجود ایسے جشن کو جائز قرار دیا گیا ہو ؟

ہم پوچھتے ہیں کہ کیا [معاذاللہ عزوجل] نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

کیا [معاذاللہ عزوجل] صحابہ[ کرام علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

کیا [معاذاللہ عزوجل] تابعین[ علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

کیا [معاذاللہ عزوجل] تابع تابعین[ علہیم الرضوان اجمعین] نے ایسا جشن منایا جس میں غیر مسلم بے پردہ عورت اسٹیج یا اجتماع کی زینت بنی ہو ؟

اچھا چلو اسے عورت کو بھی نکال باہر کرو 

صرف اتناہی بتا دوکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وصحبہ وسلّم نے مدرسہ صفاء قائم فرمایا تھاتو بعد میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس کا کسی قسم کا جشن منایا تھا ؟

چلو کسی تبع تابعین ہی کا حوالہ پیش کر دو کہ انہوں نے صدسالہ جشن منایا ؟

کوئی ایک حوالہ بتا دو۔ لیکن ان شاء اللہ اپنے اس جشن کو اپنے اصول بدعت کی موجودگی میں ہرگز ہرگز ثابت نہیں کر سکتے ۔

بعض علمائے دیوبند نے جشن دیوبند کو بدعت کہا

علمائے دیوبند کے علامہ عبد الحق خان بشیر چیئر مین حق چار یار اکیڈمی گجرات کی کتاب میں اپنے ہی دیوبندی مولوی بندیالوی کو کہتے ہیں کہ : ’’بندیالوی صاحب کی طبع نازک پر اگر گراں نہ گزرے تو ہم ان سے پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ آپ نے دار العلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے اپنی جماعت کے نائب امیر حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب ؒ کا تذکرہ تو کیا لیکن اپنی جماعت کے امیر سید عنا یت اللہ شاہ صاحب بخاری کا تذکرہ نہیں کیا جنہوں نے اپنی متعدد تقاریر میں ان تقریبات کی مخالفت کرتے ہوئے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ ہم جشن میلاد کی مخالفت کرتے ہیں اور قاری طیب جشن دیوبند کی بدعت اختیار کر رہا ہے ۔ (علماء دیوبند کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور مولانا عطا اللہ بندیالوی صفحہ 70،چشتی)

معلوم ہوا کہ خود بعض دیوبندی علمائے نے بھی جشن دیوبند کی مخالفت کی اور اس کو بدعت قرار دیا، لیکن سوال تو یہ ہے کہ دیوبند جو کے علماے دیوبند کا مرکز ہے وہاں اس بدعت کو کس دلیل سے جائز قرار دے کر داخل کیا گیا تھا ؟

یہاں دیوبندی حکیم الامت تھانوی صاحب کا حوالہ دوبارہ یاد کریں کہ ’’جو لوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت [دیوبندی] کے ہیں اُن کے یہاں بھی بس یہی دو چار چیزیں تو بدعت ہیں جیسے مولد کا قیام ۔ عرس ۔ تیجا ۔دسواں ۔اس کے علاوہ جو اور چیزیں بدعت کی ہیں اُنہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے ۔ چاہیے وہ بدعت ہونے میں اُن سے بھی اشد ہوں۔(الافاضات الیومیہ جلد ۱۰ ملفوظ نمبر ۱۱۹ ) 

معلوم ہوا کہ جہاں ، جس چیز کو چاہیں یہ علماء جائز قرار دیں اور جہاں چاہیں بدعت و گمراہی کہہ کر انکار کر دیں ، ذات مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معاملہ آتا ہے تو ان کو خوابوں میں بھی بدعت نظر آتی ہے لیکن خود جو مرضی ہے کرتے ہیں ۔ لاحول ولاقو ۃ الاباللہ ۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہ آفاق کلام و اشعار میں : زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است فرما کر دیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ : بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است

اس اجمال کی یہ ہے : کہ شان رسالت و جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے مرکز اور کانگرس کی حمایت و مسلم لیگ و پاکستان کی مخالفت کے گڑھ دارالعلوم دیوبند کا 21، 22، 23۔ مارچ 1980ء کو صد سالہ جشن منایا گیا اور اس موقع پر اندداگاندھی کی کانگریسی حکومت نے جشن دیوبند کا کامیاب بنانے کے لئے ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات۔ ریلوے وغیرہ تمام متعلقہ ذرائع سے ہر ممکن تعاون کیا۔ بھارتی محکمہ ڈاک و تارنے اس موقع پر 30 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا: جس پر مدرسہ دیوبند کی تصویر شائع کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اندرادیوبندی نے"بنفس نفیس" جشن دیوبند کی تقریبات کا افتتاح کیا۔ اپنے دیدار و آواز و نسوانی اداؤں سے دیوبندی ماحول کو مسحور کیا: اور دیوبند کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں اپنے خطاب سے جشن دیوبند کو مستفیض فرمایا: بانیءدیوبند کے نواسے اور مدرسہ دیوبند کے بزرگ ،مہتمم قاری محمد طیب صاحب نے اندرادیوی کو 'عزت مآب وزیراعظم ہندوستان' کہہ کر خیر مقدم کیا اور اسے بڑی بڑی ہستیوں میں شمار کیا: اور اندرادیوی نے اپنے خطاب میں بالخصوص کہا کہ' ہماری آزادی اور قومی تحریکات سے دارالعلوم دیوبند کی وابستگی اٹوٹ رہی ہے': علاوہ ازیں جشن دیوبند کے اسٹیج سے پنڈت نہروکی رہنمائی و متحدہ قومیت کے سلسلہ میں بھی دیوبند کے کردار کو اہتمام سے بیان کیا گیا : بھارت کے پہلے صدر راجند پرشاد کے حوالہ سے دیوبند کو 'آزادی (ہند) کا ایک مضبوط ستون قرار دیا گیا۔ (ماہنامہ 'رضائے مصطفٰے' گوجرانوالہ جمادی الاخریٰ 1400ھ مطابق اپریل 1980 ء،چشتی)

یادگار اخباری دستاویز : نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ) اے آئی آر) دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسزاندراگاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء)

تقریر : مسز اندراگاندھی نے کہا دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل جل کر آزادی کی جدوجہد کوآگے بڑھایا۔ انھوں نے دارالعلوم کا موازنہ اپنی پارٹی کانگریس سے کیا (روزنامہ جنگ راولپنڈی 23 مارچ ۔

تصویر : روزنامہ جنگ کراچی 3 اپریل کی ایک تصویر میں مولویوں کے جھرمٹ میں ایک ننگے منہ ننگے سر برہنہ بازو۔ عورت کو تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ 'مسز اندراگاندھی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تقریر کر ہی ہیں ۔

روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور۔9۔اپریل کی تصویر میں ایک مولوی کو اندراگاندھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔'مولانا راحت گل مسزاندراگاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد واپس آ رہے ہیں۔'

دیگر شرکاء : جشن دیوبند میں مسزاندراگاندھی کے علاوہ مسٹر راج نرائن، جگ جیون رام، مسٹر بھوگنا نے بھی شرکت کی۔(جنگ کراچی 11۔اپریل)

سنجے گاندھی کی دعوت : اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے کھانے کا وسیع انتظام کر رکھا تھا۔ سنجے گاندھی نے تقریبا پچاس ہزار افراد کو تین دن کھانا دیا۔ جو پلاسٹک کے لفافوں میں بند ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت کے علاوہ وہاں کے غیر مسلم باشندوں ہندواؤں اور سکھوں نے بھی دارالعلوم کے ساتھ تعاون کیا۔ (روزنامہ امروز لاہور 9۔اپریل)

ہندوؤں کا شوق میزبانی : کئی مندوبین (دیوبندی علماء) کو ہندو اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں وہ چار دن ٹھہرے۔ (روزنامہ امروز لاہور27۔ مارچ 1980ء)

حکومتی دلچسپی : اندراگاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کی ذاتی دلچسپی کے علاوہ اندرا حکومت نے بھی جشن دیوبند کے سلسلہ میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس جشن کے خاص انتظام و اہتمام کے لئے ملک و حکومت کی پوری مشیزی حرکت میں آ گئی اور بڑے بڑے سرکار حکام نے بہت پہلے سے اس کو ہر اعتبار سے کامیاب بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنےآرام و سکون کو قربان کر دیا۔ اور شب و روز اسی میں لگے رہے ریلوے، ڈاک، پریس، ٹی وی، ریڈیو اور پولیس کے حفاظتی عملہ نے منتظمین جشن کے ساتھ جس فراخدلی سے اشتراک و تعاون کیا ہے۔اس صدی میں کسی مذہبی جشن کے لئے ا سکی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔(ماہنامہ فیض رسول براؤن بھارت۔مارچ 1980ء،چشتی)

ڈیڑھ کروڑ : جشن دیوبند کے مندوبین نے واپسی پر بتایا کہ جشن دیوبند کی تقریبات پر بھارتی حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے اور ساٹھ لاکھ روپے دارالعلوم نے اس مقصد کےلیے اکٹھے کیے ۔ (روزنامہ امروز لاہور 27مارچ 1980ء)

30 لاکھ : مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل 1980ء)

کسٹم : ہنگامی طور پر جلسہ کے گرد متعدد نئی سڑکوں کی تعمیر کی گئی اور بجلی کی ہائی پاور لائن مہیا کی گئی بھارتی کسٹم اور امیگریشن حکام کا رویہ بہت اچھا تھا۔ انھوں نے مندوبین کو کسی قسم کی تکلیف نہیں آنے دی۔ (روزنامہ امروز لاہور 9 اپریل 1980ء)

اخراجات جشن : تقریبا جشن کے انتظامات وغیرہ پر 75 لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی،: پنڈال پر چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔ کیمپوں پر ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔: بجلی کے انتظام پر 3 لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہوا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل مروز لاہور 9 ۔اپریل 1980ء،چشتی)

اندرا سے استمداد : مفتی محمود نے اسٹیج پر مسز اندراگاندھی سے ملاقات کی اور ان سے دہلی جانے اور ویزے جاری کرنے کے لئے کہا۔ اس پر اندراگاندھی نے ہدایت جاری کی کہ اسے ویزے جاری کردئیے جائیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے دیوبند میں ویزا آفس کھول دیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 26مارچ1980ء)

دیوبند کے تبرکات : زائرین دیوبند و جشن دیوبند میں شرکت کے علاوہ واپسی پر وہاں سے بےشمار تحفے تحائف بھی ہمراہ لائے ہیں ان میں کھیلوں کا سامان ہاکیاں طور کرکٹ گیندوں کے علاوہ سیب، گنے، ناریل، کیلا، انناس، کپڑے، جوتے، چوڑیاں، چھتریاں اور دوسرا سینکڑوں قسم کا سامان شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند ایک زائرین اپنے ہمراہ لکڑی کی بڑی بڑی پارٹیشنین بھی لاہور لائے ہیں۔ (روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت 26 مارچ 1980ء)

تاثرات : احتشام الحق تھانوی دیوبندی : کراچی 22 ۔مارچ مولانا احتشام الحق تھانوی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس جو مذہبی پیشوا اور علماءو مشائخ کا خالص مذہنی اور عالمی اجتماع ہے اس کا افتتاح ایک (غیر مسلم اور غیر محرم خاتون) کے ہاتھ سے کراکرنہ صرف مسلمانوں کی مذہبی رویاات کے خلاف ہے بلکہ ان برگزیدہ مذہنی شخصیتوں کے تقدس کے منافی بھی ہے جو اپنے اپنے حلقے اور علاقوں سے اسلام کی اتھارٹی اور ترجمان ہونے کی حقیقت سے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ ایشیاکی دینی درسگاہ کے اس خالص مذہبی صد سالہ اجلاس کو ملکی سیاست کے لئے استعمال کرنا ارباب دارالعلوم کی جانب سے مقدس مذہبی شخصیتوں کا بدترین استحصال اور اسلاف کے نام پر بدترین قسم کی استخوان فروشی ہے ہم ارباب دارالعلوم کے اس غیر شرعی اقدام پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کی ذمہ داری دارالعلوم دیوبند کے مہتمم پر ہے۔ جنہوں نے دارالعلوم کی صد سالہ روشن تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ (روزنامہ امن کراچی 24۔ مارچ 1980ء،چشتی)

وقار انبالوی : مولانا احتشام الحق صاحب کا یہ کہنا : (بہ دیوبند مسز اندرا ایں چہ بوالعجبی است) ۔ کی وضاحت ہی کیا ہو سکتی ہے ۔ یہ تو اب تاریخ دیوبند کا ایک ایسا موڑ بن گیا ہے کہ ماؤرخ ا سے کسی طرح نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے دامن سے یہ داغ شاید ہی مٹ سکے۔ وقتی مصلحتوں نے علمی غیرت اور حمیت فقر کو گہنا دیا تھا۔ اس فقیر کو یا د ہے کہ متحدہ و قومیت کی تارنگ میں ایک مرتبہ بعض علماءسوامی سردہانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھانے کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں لیکن دو برس بعد اسی سردہانند نے مسلمانوں کو شدھی کرنے یا بھارت سے نکالنے کا نعرہ بھی لگایا تھا ۔ (سرراہے نوائے وقت 29۔ مارچ 1980ء)

ہم مہمان خصوصی کسی بزرگ کو بلائیں تو بڑی تکلیف ان کو ہوتی ہے کہتے ہیں پیر صاحب  کو بلانا ضروری تھا ، دوستوں فیصلہ کرنا جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کو بلاتا ہے ہمیں بزرگوں سے محبت ہے ان کو بلاتے ہیں ان کو کفار سے محبت ہے یہ ان کو بلاتے ہیں(جس کا ثبوت ساتھ اسکن میں دیا جا رہا ہے) جشنِ صد سالہ دیوبند منانا بغیر دلیل شرعی کے جائز ہے اور یہی لفظ اگر میلاد کے ساتھ لگا کر جشن میلاد کہا جائے تو بدعت بدعت کے فتوے کیوں جناب ؟

ہم نے  صد سالہ جشن دیوبند و جشن جمیعت علمائے اسلام  اور ایام صحابہ رضی اللہ عنہم منانے اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ناجائز و بدعت کہنے والوں سے کچھ سوال کیے تھے تقریباً جتنے جواب آئے اسی طرح کے تھے ، ہم دین سمجھ کر نہیں مناتے ، ہم ثواب سمجھ کر نہیں مناتے،تو سوال یہ ہے کہ کیا دین نا سمجھ کر اور ثواب کی نیت  نہ کر کے بدعتیں کرنا جائز ہے  ؟ معلوم ہوا ان کے سب کام دین سے باہر  ، گناہ ہیں اور جائز بھی ؟

مسلمانانِ اہل سنت و جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جشن ولادت بارہ (12) ربیع الاول کو منائیں تو شرک و بدعت کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں آخر کیوں ؟

وہابی دیوبندی یہ بتائیں کہ : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیرت کانفرنس کتنی بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جشن بخاری کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دفاع پاکستان کانفرنس کتنی بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جشن نزول قرآن کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جلوس مدح صحابہ کتنی بار نکالا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم صحابہ کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےجشن دیوبند کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اہلحدیث کانفرنس کتنے بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یوم احسان الٰہی ظہیر کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم نانوتوی کتنی بار منایا تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاد کانفرنس کتنی بار منائی تھی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم شھداء کتنی بار منایا تھا ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کتنی مسجدوں کے مینار بنائے تھے ؟

یہ سعودی ڈے کہاں سے آیا ہے ؟

کیا یہ ضلالت اور بربادی کی طرف لے جانے والی بدعت نہیں ؟

عید میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شرک وبدعت قرار دینے والوں کےلیے سعودی ڈے کا اہتمام کس طرح ایمان اور اسلام بن جاتا ہے ؟

ان کے یہ بڑے بڑے مدارس کہاں سے آئے ہیں ؟

کیا ان مدارس کا نصاب اور قیام کل کا کل بدعت نہیں ؟

مکہ شریف اور مدینہء منورہ کی مساجد پر لگائے گئے یہ لاکھوں کروڑوں روپیوں کے مینار اورگنبد کہاں سے آئے ہیں ؟

کیا یہ کھلی ہوئی بدعت نہیں ؟

سعودی کرنسی پر یہ گمراہ وہابی نجدی حکمرانوں کی تصاویر کہاں سے آئی ہیں ؟

کیا یہ جہنم میں لے جانے والی نجدی بدعت وہابیوں کی پیداوار نہیں ؟

یہ سعودی عرب کانام کہاں سے آیا ہے ؟

کیا یہ مقدس ترین ملک ۔ نجدیوں وہابیوں کے باپ داداوں کی ملکیت تھی جو اسے ظالم وجابر سعود نامی بدنام زمانہ غاصب حکمراں کے نام منسوب کردیا گیا ؟

یہ وہابیوں کے اخبارات اور رسائل کہاں سے آئے ہیں ؟ ۔ کیا یہ بدعت نہیں ؟

یہ پرنٹ کیا ہوا کاغذ پر قرآن کہاں سے آیا ہے ؟

کیا اس طرح قرآن کو چھاپنے کی ہدایت اللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نےدی ہے ؟

یہ پریس سے چھپی حدیث کی کتابیں کہاں سے آئی ہیں ؟

کیا یہ حدیث کی کتابوں کا جدید انداز میں چھاپنا اور منظرعام پر لانا بدعت نہیں ؟

یہ سیرت کے جلسے اور اہلحدیث کانفرنسوں کی بدعات کا سلسلہ کہاں سے آیا ہے ؟

یہ اہل حدیث اور سلفی نام کا بدعتی فرقہ کہاں سے آیا ہے ؟

یہ شوشل میڈیا کے ذریعے وہابی فر قہ کے گمراہ کن عقائد و نظریات کی تبلیغ و اشاعت کی اجازت کہاں سے آئی ہے ؟

یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو سعودی حکومت کے ذریعے دیے جانے والے سعودی ایوارڈ کی بد عت کہاں سے آئی ہے ؟

صد سالہ جشنِ دیوبند اور صد سالہ جشنِ جمیعت علمائے اسلام دیوبند کس دلیل سے جائز ہیں ؟

کیا یہ جشن منانا بدعت و گمراہی نہیں ہے ؟

تمام سوالات کے جوابات قرآن و حدیث اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں ثابت کریں اگر یہ ثابت نہیں کر سکتے تو سب سے پہلے تم وہابی دیوبندی خود بدعتی ہو ۔ یہ دہرا میعار نہیں چلے گا ۔

مسلمانانِ اہلسنت و جماعت بارہ (12) ربیع الاول یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منائیں تو مشرک و بدعتی اور تم وہابی دیوبندی سعودیہ کا دن مناؤ اور کیک کاٹو تو پکے مسلمان آخر کیوں ؟

دین اور دنیا کو الگ کرنا اسلام دشمنوں کی سازش ہے ۔ مسلمان کی دنیا ہی اس کا دین ھے : آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ھے کہ ہم نے دین اور دنیا کو الگ الگ کردیا جسکی وجہ سے سب معاملہ خراب ہوگیا کیونکہ مسلمان کی دین میں دنیا ہے اور دنیا میں دین ہے ۔ آج ہم سے کوئی ہماری مصروفیت پوچھے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کون سی دینی تو نماز روزہ بتاتے ہیں دنیاوی دکان ملازمت یا کاروبار بتاتے ہیں : ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تھا کہ آپ عبادت کتنی دیر کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا چوبیس گھنٹے تو سائل پریشان ہوگیا اور سوال کیا کہ کیا کھاتے پیتے سوتے کماتے آتے جاتے نہیں ہو ؟ تو فرمایا کہ ہمارا کھانا پینا سونا بیت الخلاء جانا بھی اگر ہم اس طریقے پر کریں جس طرح ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں تو وہ بھی عبادت بن جاتا ہے ۔

دنیا میں چار قسم کے لوگ اور ان کا انجام : ⬇

(1) ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ علم بھی رکھتا ھے یعنی دین اور دنیا کو ساتھ چلا رہا ہے اس کےلیے دنیا بھی اچھی اور آخرت میں بھی آرام سکون راحت ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں خوش بختی خوش نصیبی کی علامات ہیں (اللہ جسے چاہے دے) نمبر ایک کھلا گھر ، جسکا صحن کھلا ہو ، نمبر دو اچھی سواری یعنی سرکش نہ ہو ، نمبر تین فرمانبردار نیک بیوی ۔ (مشکوۃ المصابیح۔چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لے کر آئے کہ :  مال والے ہم سے آخرت میں بھی آگے بڑھ گئے نماز روزہ باقی عبادات تو ہم بھی ان کے ساتھ ادا کرتے ہیں مگر ہم صدقہ خیرات نہیں کرسکتے وہ کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کر سکتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وضیفہ بتاتا ہوں کہ تم ان سے بھی بڑھ جاؤ گے فرض نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمد للہ چونتیس مرتبہ اللہُ اکبر جب مال دار صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم ہوا تو وہ بھی پڑھنے لگے تو پہلے والے پھر حاضر ہوئے کہ جی وہ تو سب کرنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔ ترجمہ : اللہ کا فضل ھے جسے چاھے جتنا دے ، صحابہ کرام دین دنیا کو اکٹھا کرتے تھے ۔ (الترغیب والترہیب ، کنز العمال،چشتی)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت بخاری شریف میں ہے : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دوسرے صاحب سے معاملہ کر رکھا تھا کہ ایک دن میں کماؤں گا اس دن آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنا مال کو اکٹھا کرکے اس پر اللہ کے احکامات کو لاگو نہ کرنا اصل مسئلہ ھے وبال جان ھے اسی لئے اللہ تعالی نے انبیاء کو بادشاہ بنا کر بھی بھیجا تاکہ لوگ یہ دیکھ لیں اور حجت تام ہوجائے مال داری میں اللہ کے احکامات پورے کرو تو کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ ناکام ۔ ہجرت کر کے مدینے پہنچے انصاری صحابی نے کہا کہ گھر مال ودولت سب آدھا آدھا لے لیں دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں ایک سے آپ شادی کرلیں ۔ فرمایا کہ آپ کی اس پیشکش پر اللہ آپ کو اجر دے مجھے بس بازار کا راستہ بتا دیں پھر کچھ عرصہ گزرا کہ مالداروں میں سر فہرست انکا نام آتا تھا ۔

(2) دوسرا وہ کہ جو کہے کہ میرے پاس مال نہیں ھے اگر ہوتا تو میں بھی اللہ کے راہ خرچ کرتا اس کیلئے آخرت میں آسانیاں اور اسکا ملے اجر ۔ عبد اللہ ابن مبارک فوت ہوگئے ایک شخص کوخواب آیا پوچھا کیا بنا فرمایا کہ الحمد للہ اللہ کی رحمت رہی مجھ پر لیکن گلی کی نکر پر جو لوہار رہتا تھا اس کو جو ملا وہ مجھے بھی نہیں ملا یہ سن کر صاحب خواب کو تجسس ہوا کہ پتہ کیا جائے اگلے روز جا کر پتہ کِیا کہ کیا کرتا تھا ۔ بیوی نے سن کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ صبح سے شام تک لوہا کوٹتا تھا لیکن دو کام کرتا تھا ۔ جب اذان ہوتی تو لوہے کو پھینک دیتا نماز پڑھنے چل دیتا ، اور جب رات کو تھک کر لیٹتا تو سامنے گھر میں بالا خانے میں عبداللہ ابن مبارک کو نماز پڑھتا دیکھتا تو کہتا کہ کاش میرے پاس بھی وقت ہوتا تھکاوٹ نہ ہوتی تو میں بھی ان کی طرح نماز پڑھتا ۔

(3) تیسرا جس کو اللہ نے دنیا دی لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ھے اس کے لئے یہ وبال جان ھے ۔ اس کی ساری توانائیاں دنیا پر خرچ ہورہی ہوں اور وہ پیسے کو ناحق خرچ کررہا ھے غلط کاموں میں گناہوں میں نافرمانی کے کاموں پر ناچ گانوں پر تو یہ پیسہ بھی اس کیلئے وبال جان بن جائے گا ۔

(4) چار وہ جس کے پاس نہ پیسا ھے نہ علم ھے مگر اس کی چاہت یہ ھے کہ اگر میرے پاس پیسے ہوتے تو میں تیسرے شخص کی طرح اسے ضائع کرتا اللہ کے حق ادا نہ کرتا زکوٰۃ نہ دیتا غرباء کو نہ دیتا تو یہ خواہش ہی اس کےلیے وبال جان بن جائے گی ہمیں ہر صورت میں اپنے ارادے نیک اور نیکی کیلئے تیار ہونا چاہئے کیونکہ مسلمان کی دین دنیا ایک ہی ہے دونوں میں مقصود اللہ کی رضا ہے ہر حال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی نمونہ ہے ۔

دین اور دنیا کی تقسیم نے مسلمانوں کو دنیاوی لحاظ سے تو بہت پیچھے چھوڑ ہی دیا ، اس کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی مسلم امہ کے کردار اور اعمال کا بیڑا غرق کر دیا. اسلام نے مذہب اور دنیا کو الگ نہیں کیا. اسلام نے تو ہمیں بتایا تھا کہ اگر دنیا میں امامت کرنی ہے ، اور آخرت میں کامیاب ہونا ہے تو دینی اور دنیاوی دونوں علوم و فنون کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا ہوگا. دینی علوم سے راہنمائی حاصل کرو اور دنیاوی اسباب کو پوری طرح استعمال کرو، دنیا تمہارے زیر نگیں ہوگی. اسلام کا نقطہ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے. یہاں معاشرت، تمدن ، عدالت ، سیاست ، معیشت ، تعلیم غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبوں کے ساتھ ساتھ روحانیت کا نور بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں روحانی ترقی کےلیے جنگلوں ، پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ یہاں روحانی قدروں کو معاشرے میں رہ کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں تو رشتہ ازدواج سے منسلک ہو کر بھی روحانی بلندیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ ہمارے اذہان میں عام تاثر یہی ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں نوافل پڑھتا ہے ، قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے یا پھر ذکر و اذکار میں مشغول رہتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نیک کام کر رہا ہے، اپنی آخرت سنوارنے کی فکر میں لگا ہوا ہے ، اور ایسا آدمی نیک اور دیندار شمار ہوتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کےلیے کوئی ایسا پیشہ اختیار کرتا ہے جس میں شرعا کوئی قباحت نہ بھی ہو ، تب بھی اس کے بارے میں یہ تصور ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا کما رہا ہے. دین اور دنیا کی یہ تقسیم اصولی طور پر درست نہیں ہے ، اس لیے کہ بندہ مؤمن کا ہر وہ عمل جو شریعت کے مخالف نہ ہو وہ دین ہی ہے ۔ دین و دنیا کی سیکولر تقسیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان اسلام کو نکاح و طلاق ، وضو و غسل عبادات واخلاق تک محدود سمجھنے لگے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظریہ حیات ہے جو عبادات و تسبیحات ، معاشرت و معیشت، سیاست و عدالت ، تعلیم و ثقافت ، اخلاق و اقدار ، اجتماعیت و انفرادیت غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی دیتا ہے ۔ اسلامی نظریہ کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ دین و دنیا کی تقسیم کو ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کرتا ہے، یہاں نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی اجازت ہے ، نہ دنیا پرستی اور پرستش زر کی ۔ اسلام دین و دنیا کی تقسیم کو غیر الٰہی نظریہ قرار دیتا ہے ۔ تجارت ہی کو لے لیں جو عام سوچ کے مطابق بظاہر دنیاوی کام ہے لیکن جب شرعی اصولوں پر ہو تو حدیث پاک میں بشارت آئی ہے کہ سچا اور امانت دار تاجر آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا. جب اتنی بڑی بشارت ہے تو نیکی ہے، جب نیکی ہے تو عبادت ہے، جب عبادت ہے تو معرفت، پھر محبت کا ذریعہ بھی ، امانت اور صداقت کی بنا پر اس کو دنیاوی مفادات اور ظاہری فوائد کو قربان کرنا پڑے گا اور قربانی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے اور یہ صرف تجارت پر موقوف نہیں ہے بلکہ اسلام کی جو نعمت ہمیں نصیب ہوئی ہے ، یہ تو جینے کا ایسا مبارک اور دو آتشہ نظام ہے کہ اس نہج پر زندگی کو ڈالو تو پانچوں انگلیاں گھی میں ، دنیا کے کام بھی ہوتے رہیں گے اور نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ بھی ہوتا رہے گا ۔ اپنی ضروریات پوری کرتے جاؤ ، قرب الہی کے زینے چڑھتے جاؤ ، حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ بیوی کے منہ میں لقمہ رکھنا صدقہ ، بیوی کا بوس و کنار صدقہ ، الغرض اسلام کا معاشی نظام عبادت ، عدالتی نظام عبادت ، تعلیمی نظام عبادت ، اور سیاسی نظام بھی عبادت، دین ہی دین ، دنیا تو صرف وہ ہے جو شرعی نہج پر نہ ہو ۔ البتہ فرق مراتب کا لحاظ ضروری ہے ، آج اگر تجارت کو عبادت اور قرب کا ذریعہ بنایا جاتا تو حرام خوری ، سود خوری اور دھوکہ دہی کی وہ کیفیت نہ ہوتی جو اب ہے ، نوکری ، سیاست اور عدالت کو عبادت کا عنوان ملتا تو شاید کرپشن رستا ہوا ناسور نہ بن پاتا ، ہم نے فرق کیا تو دین اور دنیا کی تفریق نے یہ گل کھلائے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عشق ، محبت اور ادب عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 21 September 2023

صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بدعت ہے آخر کیوں ؟

0 comments
صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بدعت ہے آخر کیوں ؟
محترم قارئینِ کرام : آج ہر طرف بدعت بدعت کی پکار ہے صرف اور صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف وہی کام خود کرتے ہیں مگر خود پر فتویٰ نہیں لگاتے صرف فریقِ مخالف پر ہی فتوے کیوں ؟ خیر یہ ایک سوال ہے چشتی کی طرف سے ۔ فقیر آپ کی خدمت میں بدعت کا صحیح تصوّر آئمہ محدّثین کرام علیہم الرحمہ اور کچھ فریقِ مخالف کے پیشواؤں سے بھی مستند حوالہ جات و دلائل کی روشنی میں پیش کر رہا ہے ان شاء اللہ جو بھی تعصّب کی عینک اتار کر پڑھے گا حق و سچ تک ضرور پہنچ جائے گا مگر تعصّب کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث میں صاف صاف دو ٹوک الفاظ میں میلاد منانے یا نا منانے کا حکم نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل اور صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے اقوال و عمل میں غور کیا تو واضح ہوا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے اچھے ، جائز طریقوں سے شکر ادا کرنا، ذکرِ نبی کرنا، صحیح طریقے سے خوشی کا اظھار کرنا میلاد کہلاتا ہے ۔ (حول الاحتفال صفحہ 13تا35)(حسن المقصد صفحہ 196)

جلسے جلوس جھنڈے عمدہ لباس ، عبادت ذکر اذکار درود کی کثرت ، روزہ نوافل عبادت ذکر حمد نعت تحریر تقریر صدقہ خیرات وغیرہ اگر " نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے ہوں صحیح طریقے سے ہوں تو یہ سب میلاد میں شامل ہیں ۔ (ماخذ حول الاحتفال ص13تا35)

سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میلاد منایا ۔ (حول الاحتفال صفحہ16)

میلاد کی اصل سنت ہے ، مروجہ طریقے سے میلاد مستحب ہے جائز و ثواب ہے فرض واجب نہیں ، کسی ایک طریقے یا مختلف طریقوں سے میلاد منا سکتے ہیں تو اگر کوئی ایک طریقے سے میلاد مناے اور جلوس وغیرہ باقی طریقوں میں شرکت نا کرے مگر توہین اور بے ادبی بھی نا کرے تو اسے گستاخ یا گناہ گار یا محبت نا کرنے والا نہیں کہہ سکتے ۔ (حول الاحتفال صفحہ 63)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کثرت سے درود و سلام پڑھا جاے تو بھی کافی ہے ۔ (جواہر البحار 3/340)

 موجودہ قابض نجدی حکومت سے پہلے حرمینِ مقدسہ  مدینہ میں میلاد نہیں منایا جاتا تھا ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جو علماءِ دیوبند کے مرشد ہیں فرماتے ہیں : تمامی حرمین کے لوگ میلاد مناتے ہیں ہمارے لیے یہی حجت کافی ہے ۔ (شمائم امدادیہ صفحہ 87)

محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ اچھا عمل (یعنی میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ ، مصر ، یمن و شام تمام بلادِ عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبی ﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ (المیلاد النبوی ص 35-34)

حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے ۔ (الدرالمنظم ص 89)

 میلاد ایک طریقے سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ کرام تابعین اولیاء علماء اسلاف نے منایا ہے ، لہٰذا میلاد دور نبوی میں بھی تھا ، دور صحابہ میں بھی تھا ، دور تابعیں میں بھی تھا ، خلفاء راشدین کے دور مین تھا ، میلاد کی اصل قران احادیث سنت سے ثابت ہے اور میلاد کا کوئی ایک طریقہ مقرر نہیں اس لیے میلاد کے مروجہ نئے طریقے بھی جائز و ثواب کہلائیں گے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ : وما سكت عنه فهو مما عفا عنه ۔
ترجمہ : جس چیز کے متعلق (قرآن و حدیث میں) خاموشی ہو (مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو) وہ معاف ہے ، جائز ہے ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 3368) ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے ۔

حدیث پاک میں ہے : من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شٸ ۔
ترجمہ : جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی ۔ (صحیحمسلم حدیث نمبر1017)

یہ حدیث سنن ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جس کا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان مین نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں ۔ جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطِ کہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں ۔ دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی ، جو لوگ یہ کہتے ہین کہ جو کام صحابہ کرام نے نہین کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہین کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نا کیا ہو ۔ چیلنج ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے ، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے ، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے ، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے ۔ سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے ۔ آیات و احادیثِ مبارکہ میں غور کر کے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ : المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع ،، ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ ۔
ترجمہ : بدعت اس نئی چیز کو کہتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل نا ہو ،، شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے اور جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائی کرے وہ تو بدعت نہیں ، بدعت شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے " با خلاف لغت کے ۔ (فتح الباری 13/253)(حاشیہ اصول الایمان ص126)(اصول الرشاد ص64)(مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار فتح المبین) ۔ دیگر بہت سی کتب میں بھی یہی تعریف ہےجن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر غیرمقلد حضرات کےلیے اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام احمد رضا کے والد علیہما الرحمہ کی کتاب ہے ۔

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فتویٰ : یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 707) ۔ یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے سنی وہابی نجدی شیعہ غیرمقلد وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئی "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ۔ اس کو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے ۔ اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں ۔ اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے ۔ بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتاً بدعت ہی نہیں ، بدعت کی تعریف میں "بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے ۔

علماء کرام نے باقاعدہ میلاد پر کتابیں لکھی ہین اور قرآن و سنت سے کئی دلائل پیش کیے ہیں ، یہاں تمام دلائل کا احاطہ مقصود نہیں ۔ چند دلائل پیش ہیں تفصیل ہم لکھ چُکے ہیں ۔

ترجمہ : اپنے رب کی نعمت کا چرچا کرو ۔ (سورہ والضحی آیت نمبر 11)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں ۔ (بخاری2/41)

میلاد میں اللہ عزوجل کی عظیم نعمت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چرچہ ہی تو ہوتا ہے ۔

ترجمہ : کہہ دیجیے اللہ کے فضل و رحمت اور اسی پر خوشی کرنا چاہیے ۔ (سورہ یونس آیت نمبر 58)

میلاد میں اللہ عزوجل کی عظیم رحمت اور  اللہ عزوجل کی عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی بار ایک طریقے سے میلاد منایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ دن میری ولادت کا دن ہے ۔ (صحیح مسلم1/368) ۔ یہ حدیث دیگر کتب میں موجود ہے ۔

صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھ کر میلاد منایا ہے ۔ (ابو داود 1/331)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر عقیقہ ہوا تھا اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ  اپنا عقیقہ کیا جو کہ میلاد کی دلیل ہے ۔ (سنن کبری 9/300)(فتح الباری 9/595)

صحابہ کرام ایک دن محفل سجائے بیٹھے تھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے حمد کر رہے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد و بعثت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اللہ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے تو نبی پاک نے صحابہ کرام سے فرمایا : اللہ فرشتوں سے تم پر فخر کر رہا ہے ۔ (صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 5426) ۔ مسند احمد طبرانی وغیرہ کتب مین بھی یہ واقعہ درج ہے اور بھی بہت دلائل علماء کرام نے کتابوں میں لکھے ہیں ، عربی اردو میں میلاد پر کتابیں لکھی گئی ہیں ، دو چار کتب تو ضرور پڑھنی چاہیے ۔

فقیر نے فیس بک پر ایک صاحب کی تحریر پڑھی ، خلاصہ یہ تھا کہ میلاد پر گلی گلی کوچہ کوچہ ہزاروں لاکھوں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلتے ہیں مگر مسجدیں ویران ۔ یہ میلادی عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بدعتی ٹھگ ہیں ۔
جواب : ایک صحابی تھے جن کا لقب حمار رضی اللہ عنہ تھا ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی محبت و عقیدت رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان سے بڑا پیار کرتے تھے وہ صحابی شراب مکمل چھوڑ نہ پائے ، ایک بار شراب پینے کے جرم و گناہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے گئے تو ایک صحابی کہنے لگے : اللَّهُمَّ العَنْهُ ، مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ ۔ ترجمہ : اے اللہ اس پر لعنت فرما ، کتنی بار یہ شراب پینے کے جرم مین لایا گیا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۔ ترجمہ : تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لعنت مت کرو ، اللہ کی قسم میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث 6780)
 
شراب نوشی کتنا بڑا جرم و گناہ ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر 90)

شراب کی مذمت میں بہت سی آیات و احادیث ہیں حتی کہ ترمذی کی ایک حدیث میں اسے لعنتی عمل تک کہا گیا حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی : (1) شراب بنانے والے پر۔ (2) شراب بنوانے والے پر۔ (3) شراب پینے والے پر۔ (4) شراب اٹھانے والے پر۔ (5) جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر۔ (6) شراب پلانے والے پر۔ (7) شراب بیچنے والے پر۔ (8) شراب کی قیمت کھانے والے پر۔ (9) شراب خریدنے والے پر۔ (10) جس کےلیے شراب خریدی گئی اس پر ۔ (سنن ترمذی کتاب البیوع باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً ، ۳ / ۴۷ ، الحدیث : ۱۲۹۹)

مگر یہی بدعمل برا عمل اگر ایسے شخص سے ہو جس میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار ہوں تو اسے لعنتی مردود کہنے کے بجائے محبِ رسول کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ انداز یقینا شراب نوشی کی حمایت میں نہین تھا بلکہ آپ نے اس عاشقِ رسول شراب پینے والے صحابی کو سزا بھی دی اور یقینا سمجھاتے بھی رہے، منع بھی کرتے رہے مگر عاشقِ رسول پھر بھی کہا جعلی عاشق ٹھگ منافق نہ کہا ۔ گناہ بدعملی کی وجہ سے عشقِ الہی اور عشقِ رسول کی نفی نہیں کی جاسکتی ، جعلی عاشق منافقت و ڈھونگ نہیں کہہ سکتے بلکہ محب رسول ہی کہا جائے گا اور عمل کرنے کے لیے سمجھایا جایا جائے گا کچھ میلاد منانے والے بے عمل ، بدعمل ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں مگر میلادی عاشقِ رسول ضرور ہیں ، بدعتی ٹھگ جعلی عاشقِ رسول نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ میلاد عشقِ نبی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ، ایسے بدعمل عاشقِ رسول کو سمجھایا جاٸے مگر ان سے عشقِ رسول کی نفی نہیں کرسکتے ۔ ہرگز نہیں ۔

نوٹ : کسی صحابی کو شرابی گناہ گار نہیں کہہ سکتے کیونکہ صرف اور صرف دو چار صحابہ کرام سے اگر گناہ ہو بھی گئے تو انہوں نے توبہ کرلی ، مجتنب رہے ، اور جراٸم و گناہ پر حد و سزا پا کر پاک پاکیزہ ہو گئے ۔ توبہ و سزا سے پاک ہو جانے کے بعد انکا کوئی گناہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا وہ توبہ و سزا پاکر پاک ہو گئے ۔ توبہ و سزا کے بعد انہیں گناہ گار فاسق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ان فضائل کے بیان کے حقدار ہین کہ جو صحابہ کرام کے متعلق آئے ۔ صحابہ کرام کی تفسیق و مذمت جائز نہیں بلکہ تعریف و بیان تطہیر لازم و فرض ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان کےلیے منبر (اسٹیج) رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہوکر  شانِ مصطفی بیان کرتے ، نعتِ نبی بیان کرتے ، کافروں مشرکوں کی مذمت بیان کرتے تھے ، نبی پاک کا دفاع بیان کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری حدیث 3212،چشتی)(ترمذی حدیث2846)

ترجمہ : مجھ (حضرت عیسی علیہ السلام) پر سلام ہو میری ولادت کے دن ۔ (سورہ مریم آیت33)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت عظیم الشان جلوس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا گیا ، طلع البدر علینا اور دیگر نعت پڑھی گئی ، جھنڈا نہیں تھا تو ایک صحابی نے اپنے عمامے کو اتار کر بڑا جھنڈا بنا لیا ، یا محمد یا رسول اللہ کے نعرے لگائے گئے ۔ (الوفا صفحہ 247)(بخاری 1/555)(مسلم2/419)

میلاد کا لنگر عوام کی طرف پھینکنا بےادبی ، ضیاع کا خطرہ اس لیے منع و گناہ ہے ! ایسا نہ کریں لنگر سلیقے سے بانٹیں ۔ (احکام شریعت 1/88)

عن علي قال : أتيت النبي - صلى الله عليه وسلم - وجعفر وزيد، قال: فقال لزيد: أنت مولاي، فحجل! قال: وقال لجعفر: أنت أشبهت خلقى وخلقي، قال: فحجل وراء زيد! قال لي: أنت مني وأنا منك، قال: فحجلت وراء جعفر ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنہم اجمعین تینوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید کہا "انت مولائی" (یہ سن کر حضرت زید خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری صورت اور سیرت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو (یہ سن کر حضرت جعفر خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر حضرت زید کے پیچھے جھومنے لگے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ (حضرت علی) سے کہا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں (تو یہ سن کر خوشی سے) میں حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگا ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 857،چشتی)

امام بیہقی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَالرَّقْصُ الَّذِي يَكُونُ عَلَى مِثَالِهِ يَكُونُ مِثْلَهُ فِي الْجَوَازِ ۔
ترجمہ : اس قسم سے ملتا جلتا (غیرِ فحش) رقص و جھومنا جائز ہے ۔ (سنن کبری بیھقی1/382)

حمد و نعت ، نثر و بیان میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت و تذکرے میں اور خاص کر میلاد کے مواقع پر معتاد بلاترتیبِ رقاصِ مذموم محض جھومنا جائز و ثواب ہے مگر فرض واجب نہیں ، ایسا نہیں کہ جو نہ جھومے وہ محب نہیں ۔ ہرگز نہیں ، اور اسی طرح بلادلیل و شواہد جھومنے والوں پر دکھاوے جہالت و مذمت کے فتوے لگانا بھی ٹھیک نہیں ۔ ہم معتدل جھومنے کو جاٸز کہتے ہیں مگر ڈھول دھماکے ناچ گانے اور عورتوں مردوں کے اختلاط کو ہر گز جائز نہیں سمجھتے ۔ ہم اہلسنت و جماعت ہمیشہ لکھتے اور بیان کرتے رہتے ہیں ، کہتے رہتے ہیں کہ میلاد گناہوں خرافات سے پاکیزہ ہونا ضروری ہے ۔ کچھ جاہل لوگ یا سازشی لوگ میلاد پے ایسی خرافات کرتے ہیں تو ان خرافات کی مذمت کیجیے میلاد کی مزمت و تردید مت کیجیے بلکہ میلاد کو پاکیزہ رکھنے کی ہدایات و تلقین کیجیے ۔

مخالفین اور ہمارے معتبر عالمِ دیں ، عظیم شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : اس موقعہ (میلاد ، جلوس محافل) پر جو "بری بدعتیں" پیدا کر لی گئی ہیں اور آلاتِ محرمہ کے ساتھ گانا باجا ہوتا ہے ان سے محفل خالی ہو ۔ (مدارج النبوۃ 2/19)

آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبا کے نعرے

معراج کی رات آسمانوں پر آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پے انبیاء کرام علیہم السلام نے یہ کہتے ہوئے استقبال فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد مرحبا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 2968)

اسی ادا کی یاد تازہ کرتے ہوئے ، انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہینے دن کی مناسبت سے آمد مصطفی مرحبا مرحبا کے نعرے جائز و ثواب ہیں ، بدعت نہیں ۔ ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ میلاد کی محفل و جلوس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں اس لیے امد پر مرحبا ایسا عقیدہ ہرگز نہیں ، بلکہ ہمارا عقیدہ حاضر ناظر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب جانتے ہیں دیکھتے ہیں اور جب چاہیں جس جگہ چاہیں جا سکتے ہیں ۔ لہٰذا میلاد کی محفل و جلوس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ضروری نہیں مگر ممکن ضرور ہے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے دیکھتے ضرور ہیں ۔
 
جب بھی غیب کا سوال ہوتا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال فرماتے تو صحابہ کرام حضور کی بارگاہ میں جواب اس طرح عرض کرتے کہ " الله ورسوله اعلم ۔ ترجمہ : اللہ کو اور اسکے رسول کو علم ہے "اللہ اور رسول جانے" کہنا ایک دو دفعہ کا واقعہ نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام تابعین عظام کی عادت مبارکہ تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کہا کرتے تھے مگر کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر شرک و بدعت کا فتوی نہین دیا ، بخاری مسلم میں کم و بیش ساٹھ سے زائد مقامات پر اللہ ورسولہ اعلم جملہ آیا ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ تھا نظریہ تھا کہ اللہ کو علم ہے اور اللہ کے بتانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی علم ہے ۔ (صحیح مسلم حدیث 159،چشتی)(بخاری حدیث3199)

مجھ پر میری امت کے تمام اچھے برے اعمال پیش کیے گئے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1120 سند صحیح ہے)

تمہارے تمام اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ (مجمع الزوائد جلد9 صفحہ 24 سند صحیح ہے)

بے شک اللہ نے میرے لیے دنیا کو اس طرح مرتفع کر دیا کہ مین اسے اور اس مین ہونے والے تمام معاملات قیامت تک ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 287) ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اوپر والی احادیث کی تائید کی وجہ سے ضعیف ہونے سے فرق نہیں آئے گا ۔

ان تینوں احادیثِ مبارکہ میں صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اعمال و افعال جانتے ہیں ، دنیا انکی نظر میں ایسے ہے جیسے جیسے دنیا ان کے ہاتھ کی ہتیھلی پر رکھی ہوئی ہو ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : علماء میں کثرت اختلاف اور بہت سے مذاہب ہیں لیکن اس کے باوجود سب کا اس میں اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وصال کے بعد) حقیقتاً بلا شک و شبہ بلا توھم و تاویل کے زندہ ہیں ،بدائم ، و باقی ہیں ۔ امت کے تمام اعمال پر حاضر و ناظر ہیں ، حقیقت کے طلبگاروں اور متوجہ ہونے والوں کو فیض پہنچاتے ہیں ۔ (مکتوبات علی ہامش اخبار الاخیار صفحہ 155،چشتی)

منکرین کے معتمد عالم قاضی شوکانی لکھتے ہیں : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی بعد وفاتہ وانہ یسر بطاعات امتہ ۔
 ترجمہ : بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات کے بعد زندہ ہیں اور وہ امت کی نیکیوں سے خوش ہوتے ہیں ۔ (نیل الاوطار جلد 4 صفحہ 183)

اَئمہ و محدثین علیہم الرحمہ نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں ، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے : ⬇

حضرت اِمام شافعی علیہ الرحمہ (150۔204ھ) بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں کرتے ہیں : المحدثات من الأمور ضربان : ما أحدث يخالف کتاباً أو سنة أو أثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، وما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضی الله عنه فی قيام رمضان : نعمت البدعة هذه ۔
ترجمہ : محدثات میں دو قسم کے اُمور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے اُمور ہیں جو قرآن و سنت، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم یا اِجماعِ اُمت کے خلاف ہوں ۔ پس یہ بدعتِ ضلالہ ہیں ۔ اور دوسری قسم میں وہ نئے اُمور ہیں جن کو بھلائی کےلیے اَنجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس یہ نئے اُمور ناپسندیدہ نہیں ہیں ۔ اِسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ (سير أعلام النبلائ، 10 : 70)(الحاوی للفتاوی : 202)(حسن المقصد فی عمل المولد : 52، 53)

شیخ عز الدین بن عبدالسلام سلمی (577۔660ھ) اپنی کتاب ’’قواعدالاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں فرماتے ہیں : البدعة فعل ما لم يعهد فی عهد النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، وتنقسم إلی خمسة أحکام يعنی الوجوب والندب … الخ. وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشرع فأی حکم دخلت فيه فهی منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذی يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة، ومن البدع المکروهة زَخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب ۔
ترجمہ : بدعت ایسا فعل ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اَحکام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب وغیرہ۔ اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعدِ شرعیہ پر پرکھا جائے گا۔ پس وہ جو حکم شرعی پر پورا اترے گا اسی قسم میں سے ہوگا۔ پس نحو کا علم سیکھنا جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بدعتِ واجبہ میں سے ہے۔ اور قدریہ جیسے نئے مذہب بنانا بدعتِ محرمہ میں سے ہے۔ اور مدارس بنانا اور نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا بدعتِ مندوبہ میں سے ہے۔ اور نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ میں سے ہے۔ اور سونا اِستعمال کیے بغیر مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ میں سے ہے ۔ (الفتاوی الحديثية : 203)

امام ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں لکھتے ہیں : قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام فی آخر کتاب القواعد : البدعة : أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اللہ ورسوله وکتدوين أصول الفقه والکلام فی الجرح والتعديل. وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة. والرد علی هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية. وأما مندوبة کإحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد فی الصدر الأول وکالتراويح أی بالجماعة العامة والکلام فی دقائق الصوفية. وأما مکروهة کزخرفة المساجد وتزوين المصاحف يعنی عند الشافعية، وأما عند الحنفية فمباح. وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أی عند الشافعية أيضًا وإلا فعند الحنفية مکروه، والتوسّع فی لذائذ المأکل والمشارب والمساکن وتوسيع الأکمام ۔
ترجمہ : شیخ عز الدین بن عبد السلام ’’القواعد‘‘ کے آخر میں بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں : اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اُصولِ فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و تعدیل کا حاصل کرنا بدعتِ واجبہ ہے، جب کہ بدعتِ محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا ردّ بدعتِ واجبہ سے کیا جائے گا کیوں کہ اِسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ سرائیں اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کے فروغ کے کام جو اِسلام کے اِبتدائی دور میں نہ تھے جیسے باجماعت نمازِ تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا بدعتِ مندوبہ میں شامل ہیں۔ شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ ہے، جب کہ اَحناف کے ہاں یہ اَمر مباح ہیں۔ اور شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ ہے، جب کہ اَحناف کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہیں؛ اور اِسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں کو و سیع کرنا (جیسے اُمور بھی بدعتِ مباحہ میں شامل) ہیں ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216)

امام ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ فی الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد فی المصحف وجدد فی عهد عثمان رضی الله عنهم ۔
ترجمہ :  ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا ۔ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216)(شبير احمد ديوبندی، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406)

امام ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وفی الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة فی النار. وهو محمول علی المحرّمة لا غير ۔
ترجمہ : اور جو حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی ۔ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں ۔ (الفتاوی الحديثية : 203)

بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے ۔

مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتاً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں : ⬇

بدعتِ حسنہ
بدعتِ سیئہ

ان میں سے ہر ایک کی پھر مزید اقسام ہیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : ⬇

1 ۔ بدعتِ حسنہ کی اَقسام

بدعتِ حسنہ کی مزید تین اَقسام ہیں : ⬇

بدعتِ واجبہ
بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
بدعتِ مباحہ
بدعتِ واجبہ

وہ کام جو اپنی ہیئت میں توبدعت ہو لیکن اِس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اِسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو ۔ جیسے قرآنی آیات پر اعراب ، فہمِ دین کےلیے صرف و نحو کی درس و تدریس ، اُصولِ تفسیر ، اُصولِ حدیث ، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام ، دینی مدارس کا قیام ، درسِ نظامی کے نصابات اور ان کی اِصطلاحات سب ’’بدعتِ واجبہ‘‘ ہیں ۔

(2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)

جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے ، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ۔ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے ، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت ، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان ، محافلِ میلاد ، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرے والا گناہ گار نہیں ہوتا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فما رآه المؤمن حسناً فهو عند اللہ حسن ، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند اللہ قبيح ۔
ترجمہ : جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے ۔ (بزار، البحر الزخار المسند ، 5 : 212، 213، رقم : 1816)(طيالسی، المسند، 1 : 33، رقم : 246،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465)(ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد 1 : 177، 178 میں کہا ہے کہ اِسے احمد ، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں ۔ )(عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے)

اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتِ مستحسنہ ہے ، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں ۔

بدعتِ مباحہ

وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اِختیار کرلیں ۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ عمدہ جدید کھانے اور مشروبات کے استعمال کو ’’بدعتِ مباحہ‘‘ کہا ہے ۔

بدعتِ سیئہ کی اقسام

بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں : ⬇

1۔ بدعتِ محرّمہ

2 ۔ بدعتِ مکروہہ

بدعتِ محرّمہ

وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد ، اِختلاف اور اِنتشار واقع ہو مثلاً قدریہ ، جبریہ ، مرجئہ اور مرزائی و قادیانی وغیرہ جیسے نئے مذاہب کا وجود میں آنا ۔ اِسے بدعتِ ضلالہ بھی کہتے ہیں ۔ اِن مذاہبِ باطلہ کی مخالفت بدعتِ واجبہ کا درجہ رکھتی ہے ۔

(2) بدعتِ مکروہہ

جس نئے کام سے سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ چھوٹ جائے وہ بدعتِ مکروہہ ہے۔ اِس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلاضرورت فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے ۔

بدعت کے مذکورہ تصوّر اور تقسیم کی مزید وضاحت کےلیے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ فی الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شیء. ومن سن فی الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شیء ۔
ترجمہ : جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کےلیے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے ، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے ۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے ، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلی هدی أوضلالة، 4 : 2059، رقم : 1017،چشتی)(نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554)(ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203، 206، 207)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359)

اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنیٰ ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی ۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے ۔ اِسی طرح ’’من سنّ فی الإسلام سنة سيئة‘‘ سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اللہ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی ؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہو سکتی ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا ؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے ۔

بدعت کی مندرجہ بالا اَقسام اور تفصیلات متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء علیہم الرحمہ نے اپنے اپنے انداز میں اپنی کتب میں بیان کی ہیں ۔

مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اِس ڈھب پر نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کےلیے عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر ۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں ؟ کیا بِلاواسطہ یا بِالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے ؟ یا پھر وہ کام اس لیے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب ، سنت یا مستحب پر زَد پڑتی ہے ۔ اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے ۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو ۔

قرآن و حدیث میں جشنِ میلاد کی اَصل موجود ہے : اَصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو اللہ تعاليٰ کی نعمت اور اُس کا اِحسانِ عظیم تصور کرتے ہوئے اِس کے حصول پر خوشی منانا اور اسے باعث مسرت و فرحت جان کر تحدیثِ نعمت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے بہ طور عید منانا مستحسن اور قابلِ تقلید عمل ہے ۔ مزید برآں یہ خوشی منانا نہ صرف سنتِ اِلٰہیہ ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی سنت بھی قرار پاتا ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی ثابت ہے اور اِس پر مؤید سابقہ امتوں کے عمل کی گواہی بھی قرآن حکیم نے صراحتاً فراہم کر دی ہے ۔ اب بھی اگر کوئی اس کے جواز اور عدم جواز کو بحث و مناظرہ کا موضوع بنائے اور اس کو ناجائز، حرام اور قابلِ مذمت کہے تو اسے ہٹ دھرمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا کہا جائے گا ۔

شریعتِ مطہرہ نے بہت سے معاملات کی تہ میں کار فرما اَساسی تصورات اور اُصول بیان کر دیے ہیں لیکن ان کی تفصیل اور ہیئت کا اِنحصار اُمتِ مسلمہ کے علماء اور اَکابر پر چھوڑ دیا کہ اُمت کے علماء حق اور اَئمہ دین کی اکثریت جس اَمر پر متفق ہو جائے ، اوپر دیے گئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول قول کے مطابق بالکل درست اور قرآن و سنت کے تابع ہے ۔ اِس کی تائید مرفوع صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے ، جن کے مطابق فی الحقیقت اُمت کی اکثریت یعنی سوادِ اَعظم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا ، گمراہ ہمیشہ اَقلیت (سوادِ اَعظم سے الگ ہونے والی جماعت) ہوتی ہے ۔ وقتاً فوقتاً جو چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور جماعتیں بنتی رہتی ہیں ، جن کے عقائد و نظریات امت کی بھاری اکثریت کے عقائد و نظریات کے خلاف ہوتے ہیں اور جو اُمت کے سوادِ اَعظم کو گمراہ ، کافر ، مشرک ، جاہل اور بدعتی کہتی ہیں دراصل خود گمراہ ہوتی ہیں ۔ اِسی لیے فتنہ و فساد اور تفرقہ و انتشار کے دور میں اُمت کو سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کا دامن پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن أمتی لا تجتمع علی ضلالة، فإذا رأيتم اختلافا، فعليکم بالسواد الأعظم ۔
ترجمہ : بے شک میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔ پس اگر تم اِن میں اِختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اِختیار کرو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب السواد الأعظم، 2 : 1308، رقم : 3950)(ابن ابی عاصم، السنة : 41، رقم : 84)(طبرانی، المعجم الکبير، 12، 447، رقم : 13623،چشتی)(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 411، رقم : 1662) ۔ امام جلال الدین سیوطی نے ’’حاشیۃ سنن ابن ماجہ (ص : 283)‘‘ میں سوادِ اَعظم سے طبقہ اہلِ سنت مراد لیا ہے اور یہی حدیث کا مدّعا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کی تفرقہ پروری کی پیشین گوئی کرتے ہوئے سوادِ اعظم (اُمت کی اکثریتی جماعت) کے سوا تمام گروہوں اور جماعتوں کے جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تفرقت بنو إسرائيل علی إحدی وسبعين فرقة، وتفرقت النصاری علی اثنتين وسبعين فرقة، وأمتی تزيد عليهم فرقة، کلها فی النار إلا السواد الأعظم ۔
ترجمہ : بنی اسرائیل اِکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور نصاری بہتر (72) فرقوں میں تقسیم ہوئے ، جب کہ میری اُمت ان پر ایک فرقہ کا اضافہ کرے گی ۔ وہ تمام فرقے جہنمی ہوں گے سوائے سوادِ اَعظم (اُمت کے اکثریتی طبقہ) کے ۔ (طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 176، رقم : 7202)(ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892)(حارث، المسند، 2 : 716، رقم : 706،چشتی)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 188)(هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 7 : 258)

سوادِ اعظم کی اَہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إثنان خير من واحد، وثلاثة خير من اثنين، وأربعة خير من ثلاثة، فعليکم بالجماعة، فإن اللہ لن يجمع أمتی إلا علی هدی ۔
ترجمہ : دو (شخص) ایک سے بہتر ہیں ، اور تین (اَشخاص) دو سے بہتر ہیں، اور چار (اَشخاص) تین سے بہتر ہیں۔ پس تم پر لازم ہے کہ (اَکثریتی) جماعت کے ساتھ رہو ، یقیناً اللہ تعالیٰ میری امت کو کبھی بھی ہدایت کے سوا کسی شے پر اِکٹھا نہیں کرے گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5 : 145، رقم : 21331)(هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 177)(هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5 : 218)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں بیان کیے گئے لفظ - الجماعۃ - سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے ۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا : والذی نفس محمد بيده! لتفترقن أمتی علی ثلاث وسبعين فرقة، واحدة فی الجنة وثنتان وسبعون فی النار. قيل : يارسول اﷲ! من هم؟ قال : الجماعة ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول اللہ ! من هم ؟ ’’ یارسول اللہ ! وہ جنتی گروہ کون ہے ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الجماعة ۔ ’’وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم : 3992)(لالکائی، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149)

درج ذیل حدیث شریف میں ’’جماعت‘‘ سے مراد اُمت کی سب سے بڑی جماعت اور اُس پر محافظت ہونا صراحتاً بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع اللہ هذه الأمة علی الضلالة أبدا ، يد اللہ علی الجماعة ، فاتبعوا السواد الأعظم ، فإنه من شذ شذ فی النار ۔
ترجمہ : اللہ تعاليٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا، اللہ کی حفاظت کا ہاتھ (سب سے بڑی) جماعت پر ہے، پس تم سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کی اِتباع کرو کیوں کہ جو اِس سے جدا ہوا یقینا وہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ (حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 199.201، رقم : 391.397)(ابن أبي عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80)(لالکائی، إعتقاد أهل السنة، 1 : 106، رقم : 154،چشتی)(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 5 : 258، رقم : 8116)(حکيم ترمذی، نوادر الأصول فی أحاديث الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 422)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن اللہ لا يجمع أمتی (أو قال : أمة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد اللہ مع الجماعة ، ومن شذ شذ إلی النار ۔
ترجمہ : اللہ تعاليٰ میری اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا)۔ اور جماعت پر اللہ (تعاليٰ کی حفاظت) کا ہاتھ ہے ، اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 466، رقم : 2167)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 200، رقم : 394)(دانی، السنن الوارده فی الفتن، 3 : 748، رقم : 368)

اِس تصور کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کے اَکثریتی طبقہ میں کوئی خرابی یا بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا ۔ یہ اَمرِ واقع ہے کہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق اَکثریتی طبقہ کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے یعنی سوادِ اَعظم سے منسلک رہتے ہوئے ہی اُمت کی اصلاح کی جد و جہد کرنی چاہیے ۔ اہلِ ایمان سوادِ اَعظم کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اِس سے خارج ہو کر اپنے لیے نئی راہ بنانا ہی دَرحقیقت گمراہی اور منافقت ہے ، اور اسی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ یومِ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اُن بعض اُمور میں سے ایک ہے جن پر اِس وقت جمہور اُمت جواز کے شرعی دلائل کی روشنی میں عامل ہے۔ آج اگر کوئی اُمت کے اِس اکثریتی طبقہ کو گمراہ کہتا ہے تو درحقیقت وہ خود ہی گمراہ ہے اور دوزخ کی راہ پر گامزن ہے ۔
دین کی اَصل روح کو سمجھنا ضروری ہے ۔ یہ ایک اَلمیہ ہے کہ اِسلام کے حاملین ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین کی اَصل روح اور کار فرما حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل جن کے سامنے دین کی اصل روح نہیں رکھی جاتی بلکہ فہمِ دین کی بجائے لفظوں کی ہیر پھیر سے دین کو متعارف کرایا جاتا ہے ، روز بروز اسلام سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ (الا ما شاء اﷲ) کہیں تو ذاتی مفادات کے پیشِ نظر اور کہیں نادانی کی بناء پر مذہبی ذمہ داروں نے لفظی موشگافیوں سے دین کو دشوار بنا دیا ہے ، جس سے نوجوان نسل اور بالخصوص نیا تعلیم یافتہ طبقہ جو پہلے ہی مغربی تہذیب و ثقافت اور اِستعماری ذہنیت و فکری یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے ، دور ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر ہم صدقِ دل سے دین کے اصول و قوانین اور شریعتِ اِسلامیہ کے دلکش پہلو پیشِ نظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ پھر سے عظمتِ اِسلام کے سنہری اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر شوکت و عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے کمربستہ نہ ہو جائیں ۔

ظاہر پرست منکرین محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صرف اِس لیے اِسے ناجائز اور (نعوذ باﷲ) حرام قرار دیتے ہیں کہ اِس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اَوائل دورِ اِسلام میں منعقد نہیں ہوئیں ۔ اِس بحث کے تناظر میں بدعت کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت پر جید اَئمہ حدیث و فقہ کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اِسے لغت کی رُو سے بدعت کہنا صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اِسے ہدفِ تنقید بنانا اور ناپسندیدہ قرار دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ہر دور میں ہر چیز کی ہیئت اور صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے انداز اور ذرائع آمد و رفت بہ تدریج بدلتے رہے ہیں ، آج لوگ پیدل یا اونٹ، گھوڑوں پر سوار ہوکر حج کے لیے نہیں جاتے ، پہلے جو فاصلے مہینوں میں طے ہوتے تھے اب جدید ذرائع آمد و رفت سے گھنٹوں میں طے ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر اَرکانِ اِسلام کی ادائیگی کی صورتِ حال بھی اب پہلے جیسی نہیں۔ اس میں کئی جدتیں اور عصری تقاضے شامل ہو چکے ہیں مگران کی ہیئت اَصلیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اِسی پس منظر میں اگر جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ صورت دیکھی جائے تو یہ اپنی اَصل کے اِعتبار سے بالکل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ۔ جس طرح ہم محافلِ میلاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے نعت کا اہتمام کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں ، جو فی الواقعہ ہمارے جشنِ میلاد منانے کا مقصد ہے ، اِسی طرح کی محفلیں جن میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا ذکر ہوتا تھا ، ظاہری عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی منعقد ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے حتی کہ اپنی محفلِ نعت خود منعقد کرواتے تھے ۔

مذکورہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اُس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی۔ جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے ۔ مختصراً یہ کہ کسی بھی عمل کو اِس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کےلیے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ لہٰذا کوئی بھی نیا کام صرف اُس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)