Monday 4 September 2023

اہلسنت کی تنظیم دعوتِ اسلامی کی تاریخ و تذکرہ بانیان حصّہ اوّل

0 comments
اہلسنت کی تنظیم دعوتِ اسلامی کی تاریخ و تذکرہ بانیان حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : دعوتِ اسلامی کسی ایک فرد و شخصیت کا نام نہیں بلکہ یہ سبھی اہلسنت کی جماعت اور اکابرینِ اہلسنت کی مشترکہ فکر و سوچ کا نتیجہ و ثمر ہے فقیر کو اچھی طرح یاد ہے دو 2 ستمبر 1981ء سے ایک تاریخی اور سنہرا باب وابسطہ ہے وہ بایں طور کہ اس مبارک تاریخ کو دنیاے سنیت کی عظیم الشان عالم گیر تحریک دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور تا حین حال یہ تنظیم اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے ۔ اس تحریک کو بنانے میں ہمارے اکابر کا اہم کردار ہے ۔ اجتماعی طور پر ایک ایسی تنظیم کی شدت سے ضرورت تھی جو تمام امتیازات سے بالاتر ہوکر تبلیغی طرز پر مسلمانوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دے ، ان میں فکرِ آخرت اوراتباعِ رسول کا جذبہ بیدار کرے ، اسلام کی تعلیمات اور اس کے عملی و انقلابی پہلو پر زور دے اور دین کی دعوت کو، مسلکی کشمکش پر غالب رکھے ۔ ان مقاصد کے حصول کےلیے دو 2 ستمبر 1981ء میں بھارت کے ممتاز عالم دین اور ورلڈ اسلامک مشن کے سیکریٹری جنرل علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ (مارچ 1925ء ۔ اپریل 2002ء) کی تحریک پر کراچی میں ”دعوتِ اسلامی“ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس کےلیے علامہ ارشد القادری اگست1981ء میں پاکستان تشریف لائے ۔ اس موقع پر اُن کے اعزاز میں مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے استقبالیے دیے گئے (ان میں یہ فقیر چشتی بھی بطور طالبِعلم شامل تھا) ، جن میں بھارت کے ممتاز عالم محدثِ کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ بھی شریک ہوئے ۔ (روزنامہ امن، کراچی 22 اگست 1981 روزنامہ جنگ کراچی، 23 اگست 1981ء)

21 اگست 1981ء کو دارالعلوم امجدیہ کراچی میں دیئے گئے استقبالیے میں علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ نے اپنے خطاب میں اس بات کا اظہار کیاکہ ”پاکستان میں ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو صرف تبلیغی مشن کو جاری رکھے ۔ (روزنامہ امن کراچی 22 اگست 1981ء)

اِس تقریب سے علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی، علی گڑھ یونی ورسٹی کے پرفیسر سید ظہیر احمد زیدی، دارالعلوم امجدیہ کے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری اور مہتمم علامہ محمد حسن حقانی نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں مفتی ظفر علی نعمانی، مفتی محمد وقار الدین، علامہ قاری مصلح الدین صدیقی، قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی، پروفیسر شاہ فرید الحق ، سندھ کے وزیرِ اطلاعات، سید احد یوسف، وزیر ٹرانسپورٹ دوست محمد فیضی، حاجی محمد حنیف طیب، مولانا سید شاہ تراب الحق قادری، مفتی محبوب رضا بریلوی، پیر مخدوم نیک محمد، ڈاکٹر اشرف شیخ، سید محمد حسن قادری، مولانا ابراراحمد رحمانی، مفتی شجاعت علی قادری، مولانا جمیل احمد نعیمی، مفتی منیب الرحمن اور دیگر علماء کرام اور ممتاز شخصیات نے شرکت کی ۔(روزنامہ امن کراچی،22اگست1981ء،چشتی)

23اگست 1981ء کو بزم غلامانِ رسول،برنس روڈ، کی جانب سے ورلڈ اسلامک مشن کے صدر علامہ شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں استقبالیہ دیا گیا، جس سے علامہ نورانی سمیت، مولانا عبدالستار خان نیازی، شبیر احمد اظہری علیہم الرحمہ اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ ”لادینیت کے خاتمے کے لیے جامع تبلیغی کاوشوں کی ضرورت ہے ۔ (روزنامہ جنگ کراچی،24اگست1981ء)۔ مولانا نورانی کا یہ خطاب بھی اشاعتِ دین کےلیے ایک تبلیغی جماعت کی طرف ایک واضح اشارہ تھا ۔

اِن ہی دنوں علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے دارالعلوم امجدیہ کے ایک کمرے میں کئی روز قیام کرکے ”دعوتِ اسلامی“کا ”لائحہ عمل“ تیار کیا ۔ ڈاکٹر محمد مسعود احمد رقم طراز ہیں، ”دارالعلوم امجدیہ کراچی میں اُن (علامہ ارشد القادری) سے پہلی بار شرفِ نیاز حاصل ہوا جب کہ وہ اہلسنّت کےلیے ایک تبلیغی جماعت کا لائحہ عمل تیار فرما رہے تھے ، وہ دستور العمل آج ”دعوت ِ اسلامی“ کے روپ میں ہمارے سامنے ہے ۔ (حجاز ِ جدید، ستمبر1991ء، صفحہ 50، عکس دستور، بقلم علامہ ارشد القادری، ماہنامہ جام نور، دہلی، مارچ تا مئی2012ء، صفحہ59،چشتی)

تبلیغی تنظیم کے قیام کے سلسلے میں علماء کا ایک اور اجلاس 2 ستمبر1981ء کو ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی کی قیام گاہ، صدر کراچی میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہما الرحمہ نے کی ۔ اجلاس کی خبر مع تصویر کراچی کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوئی۔

روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ نوائے وقت کراچی کی،3 ستمبر کی اشاعت میں مذکورہ اجلاس کے شرکا کے جو نام شائع ہوئے وہ یہ ہیں: ۔ ”علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ سید احمد سعید کاظمی، علامہ ارشد القادری، مولانا عبدالستار خاں نیازی، پیر صوفی فاروق رحمانی، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری،مفتی وقار الدین، مفتی ظفر علی نعمانی،مولانا جمیل احمد نعیمی (بانی رکن انجمن طلبہ اسلام)، مفتی محمد حسین قادری (سکھر)، مولانا محمد حسن حقانی، ابوالخیرمحمد زبیر (حیدر آباد)،مفتی احمد میاں برکاتی(حیدر آباد)، مفتی غلام قادر کشمیری، مفتی سید شجاعت علی قادری، مولانا قاری نثار الحق، مولانا محمد حسن قادری، مولانا شبیر احمد اظہری،مولانا عبدالتواب اچھروی(لاہور) اور مولانا محمد یوسف ۔ (ان میں سے اکثر فقیر چشتی کے اساتذہ کرام ہیں)

اخبارات نے اس اجلاس کی خبرمع تصویر اس سرخی کے ساتھ شائع کی، ”لادینیت کے سیلاب کو روکنے کےلیے عالمی پیمانے پر تبلیغ کی ضرورت ہے“، ”علامہ ارشد القادری، مولانا شاہ احمد نورانی اور علامہ عبد المصطفیٰ ازہری کا عشائیے سے خطاب ۔ (روزنامہ جنگ، کراچی،3ستمبر1981ء، روزنامہ نوائے وقت کراچی، 3ستمبر1981ء،چشتی)

مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کے گھر منعقد ہونے والے مذکورہ اجلاس کو دعوتِ اسلامی کا تاسیسی اجلاس قرار دیا جاتا ہے ۔

علامہ ارشد القادری ، علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہما الرحمہ کے تذکرے میں رقم طراز ہیں، ”پہلی بار حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کے دولت کدے پر اُس تاریخی اجتماع میں اُن (علامہ سید احمد سعید کاظمی) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا،جس میں ”دعوتِ اسلامی“ کے نام سے اہلسنّت کی ایک تبلیغی اور اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی گئی ۔ اور جس میں پاکستا ن کے اکثراکابر ِ اہلسنت تشریف فرما تھے ۔ ان کے سامنے مجھے ”دعوتِ اسلامی“ کا لائحہ عمل پیش کرنا تھا، جسے میں نے استاذ العلماء حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، بحر العلوم حضرت علامہ مفتی وقار الدین رضوی اور رئیس الا فاضل حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی کے اصرار پر مرتب کیا تھا۔ مفتی صاحب موصو ف کی نظر میں لائحہئ عمل کی اتنی زبردست اہمیت تھی کہ انھوں نے مجھے اس کام کی تکمیل کے لیے دارالعلوم امجدیہ کے ایک کمرے میں کئی دنوں تک نظر بند کر دیا تھا ۔ (ماہنامہ جامِ نور، دہلی مارچ تا مئی 2012ء صفحہ53 بحوالہ”شخصیات“از علامہ ارشد القادری ، مرتب ڈاکٹر غلام زرقانی، صفحہ نمبر 79،چشتی)

پروفیسر شاہ فرید الحق علیہ الرحمہ کہتے ہیں، ”اِس اجلاس میں مولانا رجب علی نعیمی، مولانا محمد الیاس قادری کو لائے تھے اور مولانا نورانی نے ”دعوتِ اسلامی“ کا نام تجویز کیا تھا ۔ ( انٹرویو: پروفیسر شاہ فرید الحق، ماہنامہ افق، کراچی، مئی 2008ء) ۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری شاید اس اجلاس میں شر یک نہ تھے ۔

ورلڈ اسلامک مشن پاکستان کے صدر قاری رضا المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ اس تبلیغی تنظیم کا نام ”ورلڈ اسلامک مشن“ (الدعوۃ الاسلامیہ العالمیہ) کے اردو ترجمے سے اخذ کرکے ”دعوت ِ اسلامی“ رکھا گیا ۔ (ذاتی انٹرویو: قاری رضا المصطفیٰ اعظمی، صدر ورلڈ اسلامک مشن پاکستان، کراچی،چشتی)

اجلاس کی رپور ٹ جلال الدین احمد نوری کے قلم سے ورلڈ اسلامک مشن کے ماہانہ رسالے The Message، الدعوۃ کے شمارے اکتوبر 1981ء بمطابق ذوالحجہ1401ھ میں بھی مع تصویر موجود ہے ۔ (International,Karachi, October, 1981 TheMessage ۔ الدعوۃ، ذوالحجہ1401ھ،چشتی)

مولانا شاہ حسین گردیزی بتا تے ہیں کہ اس اجلاس میں، ”سب سے پہلے علامہ ارشد القادری صاحب کھڑے ہوئے اور ایک عالمی تبلیغی تحریک ”دعوتِ اسلامی“ کا مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس تحریک کا نام بھی انہوں نے ہی رکھا اور ”اسلامی بھائی“کی اصطلاح بھی انہوں نے ہی پیش کی۔ ان کے بعد علامہ سید احمد سعید کاظمی کھڑے ہوئے اور کہا کہ ”یہ فقیر دعوتِ اسلامی کا تبلیغی نصاب تیار کرے گا۔“ پھر علامہ ازہری نے اس کی تائید کی اور عوام اہلسنّت سے اس تبلیغی پروگرام کو کامیاب بنانے میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔ آخیر میں علامہ شاہ احمد نورانی نے فرمایا کہ ”دعوت اسلامی کو میری پوری تائید و حمایت حاصل رہے گی،لیکن بظاہر میں اس سے دور رہوں گا“۔ شاہ حسین گردیزی کے بقول،”اس اجلاس میں دعوت اسلامی کے امیر کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، یہ فیصلہ بعد میں ہوا ہوگا“۔(انٹرویو: مولانا شاہ حسین گردیزی، ماہنامہ جامِ نور دہلی، جون 2011ء ،صفحہ42)

بعدازاں علماء کرام کا ایک اجلاس دارالعلوم امجدیہ میں ہوا، جس میں علامہ ارشد القادری، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مفتی ظفر علی نعمانی، مفتی محمد وقار الدین، قاری رضا المصطفیٰ اعظمی اور قاری مصلح الدین صدیقی نے کافی غور وخوض کے بعد مولانا محمد الیاس قادری کو دعوت اسلامی کا امیر منتخب کیا(مضمون: ”علامہ ارشد القادری اور دعوتِ اسلامی“، ڈاکٹر غلام زر قانی، مشمولہ: ماہنامہ جام ِ نور،دہلی، شمارہ مارچ تامئی2012ء، صفحہ55،چشتی)

دعوت اسلامی کا سرپرست استاذ المکرم مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ کو اور نگران مولانا محمد الیاس قادری کو مقرر کیا گیا ۔ نگراں کےلیے مولانا محمد الیاس قادری کا نام مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ کا ہی تجویزکردہ تھا ۔ اس ضمن میں مولانا محمد الیاس قادری بیان کرتے ہیں ”جب علامہ ارشد القادری نے مجھے امارت سونپنی چاہی تو میں نے عرض کیا ”میں اِس قابل نہیں ہوں“، جس پر علامہ ارشد القادری نے از راہِ تفنن فرمایا ”مجھے زیادہ قابل آدمی کی ضرورت نہیں“ ۔ (مضمون: دعوت اسلامی کا بانی کون ؟، مولانا محمد الیاس قادری، ماہنامہ جہانِ رضا،لاہور،دعوتِ اسلامی نمبر، اپریل2011ء،صفحہ182،چشتی)

بقول علامہ ارشد القادری”مولانا محمد الیاس قادری کی بطور امیر نامزدگی میں تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کا نام سبب نہ تھا ۔ ناموں کی یہ مماثلت محض اتفاق تھی ۔ (ذاتی انٹر ویو: علامہ ارشد القادری 29 جنوری 2001 ء، کراچی ہمراہ عبدالصمد مجاہد، کراچی،چشتی)

اُس وقت مولانا محمد الیاس قادری نور مسجد، کاغذی بازار،اولڈ ٹاؤن کراچی کے خطیب اور ایک تنظیم انجمن اشاعتِ اسلام سے وابستہ تھے۔ اپنے دور طالب علمی میں وہ انجمن طلبہ اسلام کے بھی کارکن رہے تھے،جس کا ذکر اُن کی کتاب ”نماز کا جائزہ“کے ابتدائی ایڈیشن میں شامل، اُن کے تعارف میں اِن الفاظ کے ساتھ موجودہے : کچھ عرصے تک انجمن طلبہ اسلام کے اہم کارکن کی حیثیت سے نوجوانوں میں مسلک ِ اہلسنّت کی اشاعت میں مصروف رہے“۔ مورخہ 7 ذیقعدہ1401ھ (6 ستمبر 1981ء) کومفتی محمد وقار الدین اور علامہ ارشد القادری نے اس کتاب کےلیے اپنی تقاریظ تحریر کیں، جو اس کتاب میں موجود ہیں (نماز کا جائزہ“، امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری، خطیب نور مسجد اولڈ ٹاؤن، کراچی، شائع کردہ دعوت ِ اسلامی، 1982ء،چشتی) ۔ دعوت اسلامی سے قبل مولانا محمد الیاس قادری سبز مسجد میٹھادر کراچی میں انجمن طلبہ اسلام کے اجتماعات سے بھی خطاب کیا کرتے تھے اور کئی افراد سے کی جانے والی گفتگو کی روشنی میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ُانہوں نے تقریر کرنا ہی انجمن طلبہ اسلام کے اجتماعات کے ذریعے سیکھا ۔

دعوتِ اسلامی کا امیر منتخب ہونے کے بعد ابتداء میں مولانا محمد الیاس قادری نے علامہ ارشد القادری کے ساتھ رابطہ رکھا اور اُنہیں تحریر ی طورپر دعوت اسلامی کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے (خطوط: مولانا محمد الیاس قادری، مشمولہ: ماہنامہ جام نور، دہلی، شمارہ مارچ تا مئی2012ء، صفحہ59-55) ۔ دعوت اسلامی کےلیے علامہ ارشد القادری نے لاہور میں بھی علماء کرام کا اجتماع کیا ، جس میں پیر زادہ اقبال احمد فاروقی علیہ الرحمہ (متوفی19دسمبر2013ء) (جن سے فقیر چشتی کی کٸی طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں) کو دعوتِ اسلامی پنجاب کا امیر منتخب کیا گیا تاہم وہ اس امارت کے فرائض سر انجام نہ دے سکے ۔ (ماہنامہ جہانِ رِضا،لاہور، اپریل 2011ء صفحہ نمبر 12)

علماء ومشائخ اور عوام الناس نے دعوت اسلامی کو وقت کی اہم ضرورت خیال کیا اور اس کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ۔ علامہ شاہ احمد نورانی نے مساجد میں دعوتِ اسلامی کا اجتماع منعقد کرانے کے لیے اہلسنّت کے آئمہ مساجد کے نام خط تحریر کیا ۔ علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہما الرحمہ اور دیگر علماء نے اجتماع کےلیے اپنی مساجد کو پیش کیا ۔ دعوتِ اسلامی کے پہلے مرکزی اجتماع منعقدہ 26-25نومبر1982ء بمقام ککری گراؤنڈ،کا اشتہار 26نومبر1982ء کے روزنامہ جنگ کراچی میں تحریکِ عوام اہلسنّت، انجمن اشاعتِ اسلام، بزمِ قاسمیہ رضویہ اور کراچی یارن مرچنٹس کے مشترکہ تعاون سے شائع ہوا۔

انجمن طلبہ اسلام نے دعوت اسلامی کے سینئر رفیق عبدالقادر باپو شریف کو ملک گیر رابطے کےلیے اپنے ریکارڈ سے نام اور پتہ جات فراہم کیے اور ملک بھر میں دعوتِ اسلامی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ دعوت اسلامی کے ایک مرکزی اجتماع کے موقع پر اخبارات میں مضمون چھپوانے کےلیے اے ٹی آئی کراچی کے ناظم (1982-1981ء) عبدالجبار اور کارکنان نے اخبارات میں رابطہ کیا اور عبدالجبار کا تحریر کردہ مضمون اخبارات میں شائع کرایا (ذاتی انٹرویو : ڈاکٹر عبدالرحیم (ناظم اے ٹی آئی کراچی 1985-1984ء)، 8ستمبر2013ء، کراچی) ۔ دعوتِ اسلامی کے امیرمولانا محمد الیاس قادری نے انجمن کے بانی رکن محمد حنیف حاجی طیب سے اس بات کا اعتراف کیا کہ”دعوت ِ اسلامی کے فروغ میں سب سے زیادہ تعاون اے ٹی آئی نے کیا ہے ۔ (ذاتی انٹرویو محمد حنیف حاجی طیب 21 جون 2010ء کراچی،چشتی)

انجمن طلبہ اسلام و دیگر علماۓ اہلسنت کی جانب سے دعوتِ اسلامی کو کامیاب بنانے کےلیے وقتاً فوقتاً سرکلر اور اخبارات کو جاری کردہ پریس ریلیز کے ذریعے کارکنان کو ہدایات جاری کی گئیں۔1985ء میں جب سرکاری سطح پر گروپ کے تحت حج اسکیم متعارف ہوئی تو دعوتِ اسلامی کے پہلے حج گروپ میں انجمن طلبہ اسلام کراچی کے ناظم (1985-1984) ڈاکٹر حاجی عبدالرحیم نے اہم ذمہ داری انجام دی۔

دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور میں انجمن طلباء اسلام اور دیگر ہم خیال تنظیموں کو دعوتِ اسلامی کی اجتماعات گاہوں پر اپنے کیمپ لگانے کی اجازت تھی ۔ دعوت اسلامی کی اپنی ابتدائی تنظیمی پریس ریلیز میں بھی انجمن طلبہ اسلام کا ذکر ملتا ہے ۔ (روزنامہ جنگ،کراچی، 14نومبر 1983ء) ۔ انجمن طلبہ اسلام نے کئی مرتبہ اخبارات کے ذریعے بھی دعوت اسلامی کے اجتماعات کا خیر مقد م کیا ۔ (روزنامہ جنگ، کراچی،20اکتوبر1991ء)

دعوتِ اسلامی کے فروغ کےلیے مختلف تنظیموں ، علماۓ کرام اور شخصیات کا یہ مخلصانہ تعاون شخصیت پرستی اور پیر پرستی سے بالاتر ، ایک اجتماعی کاز کی بنیاد پر تھا ۔ کاش دونوں طرف سے یہ سلسلہ جاری رہتا ۔

ابتدا ء میں مولانا محمد الیاس قادری کےلیے ”امیر دعوت اسلامی“کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا (نمازکاجائزہ، 1982ء؛ روزنامہ جنگ کراچی 24 اور 26 نومبر1982ء)۔ بعد میں دیگر القابات کا اضافہ ہوتا گیا اور غالباً 2006- 2005ء میں اُنہیں دعوت اسلامی کا بانی قرار دینے کا آغاز ہوا ۔ اس حوالے سے مولانا محمد الیاس قادری لکھتے ہیں، ”ظاہر ہے سنار کو انگوٹھی بنانے کا حکم کرنے والے کو ”بانی“ نہیں بلکہ سنار کو ”بانی انگوٹھی“ قرار دیا جائے گا“ ۔ (ماہنامہ جہانِ رِضا، لاہور، اپریل2011 ء، صفحہ 189،چشتی)

علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے فرزند ڈاکٹر غلام زرقانی القادری اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ عبارت میری نا قص سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر اسی فلسفہ قیام و بناء کو تسلیم کر لیا جائے تو نہ ”تاج محل“ کا بانی شاہجہاں کو قرار دیا جاسکے گا اور نہ ”لال قلعہ“ کا ، بلکہ اس سے بڑی مصیبت تو ہم اہلِ ہند کو پیش آئے گی کہ یہاں مساجد کی تعمیر میں جن مزدوروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ، وہ زیادہ تر غیر مسلم ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس فکر کو اگر بعینہٖ تسلیم کر لیا جائے تو پھر تعمیرِ مسجد کے حوالے سے ساری بشارتوں کے اہل وہ (غیر مسلم) ہوجائیں گے ۔ (مضمون: ”علامہ ارشد القادری اور دعوتِ اسلامی“، ڈاکٹر غلام زر قانی، مشمولہ: ماہنامہ جام ِ نور، دہلی، شمارہ مارچ تامئی2012ء،چشتی)

دعوت ِ اسلامی پر بعض علماۓ کرام کے تحفظات اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اپنی جگہ ، مگر یہ حقیقت ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری کی سربراہی میں دعوتِ اسلامی نے خاصی بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔ اس وقت یہ تنظیم اہلسنّت و جماعت کا ایک مؤثر اور بڑا ادارہ بن چکی ہے ۔ بلاشبہ پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ اہلسنّت کی بڑی ممتازاور فعال تنظیم ہے جو اپنے طریقہ کار اور وسیع نیٹ ورک کے ذریعے شب و روز سرگرمِ عمل ہے ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔