ناچ گانوں کی طرز پر پڑھنے والے پیشہ ور نعت خوان و خطیب ایک ناسور
محترم قارئینِ کرام : ان شکم پرور پیشہ ور نعت خوانوں و خطیبوں اور نقیبوں سے اب ناموسِ الوہیت عزوجل ، ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ناموسِ مقدَّساتِ دین محفوظ نہیں رہیں ، علماء پر لازم ہے کہ ان کا مواخذہ کریں اور سادہ لوح اہلسنت و جماعت کو ان کی زبان درازی اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ کریں ۔ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی ۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لیے بغیر تقریر کرنے اور نعت پڑھنے کو تیار نہیں ، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ) ۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں ۔ گانے کی طرز پر نعت پڑھنا جائز نہیں ۔ جیسا کہ فتاویٰ غوثیہ میں ہے کہ نعت پاک کو گانوں کی طرز میں پڑھنا اور سننا دونوں ناجائز ہے کیونکہ جب وہ گانے کی طرز پر نعت پڑھے گا جو کہ ذکر رسول ہے تو لامحالہ اس کا ذہن گانے کی طرف جائے گا۔تو یقیناً یہ غلط فعل ہے۔بلکہ یہ نعت کی توہین ہے فساق کا طریقہ ہے ۔ (فتاویٰ غوثیہ جلد ۱ صفحہ ۱۶۵)
حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ قوالی کی طرح پڑھنے سے اگر یہ مراد کہ ڈھول ستار کے ساتھ جب تو حرام اور سخت حرام ہے۔ اور اگر صرف خوش الحانی مراد ہے تو کوئی امر مورث فتنہ نہ ہو تو جائز بلکہ محمود ہے اور اگر بے مزامیر گانے کے طور پر راگنی کی رعایت سے ہو تو ناپسند ہے کہ یہ امر ذکر شریف کے مناسب نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ۶۶۴)
نعت کو ایسے مشہور و مَعروف گانے کی طرز پر پڑھنا کہ نعت سُنتے ہی فوراً ذہن اس گانے کی طرف چلا جائے اس سے بچنا چاہیے اور اگر کبھی اِتفاقاً طرز میں کچھ مُمَاثَلَت ہو بھی جائے تو نعت خواں کو چاہیے کہ تھوڑی بہت تبدیلی کر لے ۔ فی زمانہ یہ اِمتیاز کرنا بہت مشکل ہے کہ نعت گانے کی طرز پر پڑھی جا رہی ہے یا گانا نعت کی طرز پر گایا جا رہا ہے ، اَلبتہ پہلے والی طرزوں میں پڑھی جانے والی نعتوں میں جو رِقَّت اور سوز و گداز ہوا کرتا تھا وہ اب نئے اَنداز پر پڑھی جانے والی نعتوں میں نہیں ہے ۔ بہرحال موجودہ دور میں سب نعتیں گانوں کی طرز پر پڑھی جاتی ہوں یہ ضَروری نہیں کیونکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ گلوکار نعتوں کی طرز پر گانے گاتے ہوں لہٰذا موجودہ دور میں پڑھی جانے والی سب نعتوں کو گانوں کی طرز پر کہنا اور نعتیں سننے سے بچنا یا بچنے کےلیے کہنا خود کو نعت خوانی کی بَرکتوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نعت خوانی سے متنفر بھی کر سکتا ہے ۔ نعتوں کے گانوں کی طرز پر ہونے کے وَساوِس بھی انہیں کو آئیں گے جو گانے سُننے کے شوقین ہوں گے ، جو سِرے سے گانے ہی نہیں سُنتے ان کےلیے ہر طرز نعت ہی کی طرز ہو گی ، لہٰذا اِن وَساوِس کی بِنا پر نعتیں سننا چھوڑنے کے بجائے گانے چھوڑنے میں عافیت ہے ۔ نعت شریف پڑھنے اور سُننے والا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعریف و توصیف ہی کی نیت سے اسے پڑھتا اور سُنتا ہے ، نہ اس لیے کہ وہ کسی گانے کی طرز پر ہے ۔
فقیر چشتی کے ذاتی مشاہدہ میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں ۔ دین کے ان علمبرداروں نے باقاعدہ سیکرٹری رکھے ہوئے ہیں جو ایڈوانس روپۓ لینے کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘ کا وقت دیتے ہیں جن میں ان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ سروں پر عمامے باندھے ہوئے ہیں ، گلے میں رنگ برنگے پٹے ہیں ، عربی جبے پہنتے ہیں اور فیشن ایبل سوٹ ہیں ، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کا نام لیتے ہیں ، پیر ، علماء اور نعت خوان کہلاتے ہیں ، مگر ٹکے ٹکے کے ساتھ خطبہ جمعہ اور دین کی تقریریں بیچتے اور اسٹیجوں پر ایکٹنگ و ڈانس کرتے ہوۓ ان لوگوں کو شرم نہیں آتی ۔ اگر دین کا نام لینے والوں کا عمل یہ ہو گا تو پھر لوگ انہیں بلائیں گے یا گلوکاروں کو بلائیں گے ۔ گانے والوں اور ان کے درمیان کیا فرق رہ گیا ۔ اس نے گانا سنانے سے پہلے پیسے طے کئے اور تم نے قرآن و سنت اور نعت شریف سنانا تھا ، مگر پہلے ریٹ طے کر رہے ہو ۔ افسوس ! یہ وبا ہمارے مسلک اہل سنت و جماعت میں زیادہ پھیلی ہے ۔ دوسرے مسالک کے لوگ بھی لیتے ہوں گے لیکن شاید اتنا نیچے نہیں گرے ہوں گے اب تو دوسرے مسالک کے لوگ بھی اہلسنت کا لبادہ اوڑھے نعت کے نام پر یہ فیشن اپناۓ ہوۓ ہیں ۔ پردہ داری میں لیتے ہوں گے ۔ افسوس ہم لوگ تو منگتے بن گئے ہیں ۔ ریٹ طے کرتے ہیں ۔ جتنا بڑا نعت خواں ہے پہلے ریٹ طے کرتا ہے ، پھر نعتیں سنا کر عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کرتا ہے ۔ ان لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ۔
یہ کون سا عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سنانے کےلیے تم ایک گھنٹے دو گھنٹے کے ہزاروں ، لاکھوں روپے لیتے ہو ۔ مرنے کے بعد ان سطحی اعمال کی حیثیت معلوم ہوگی جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ سامنے ہو گا ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں گے کہ بدبخت میری نعت سنانے اور میرے دین کو پھیلانے کے لئے لوگوں سے پیسے مانگتا تھا ۔ افسوس! ہمارے مسلک میں اس عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلقین ہو رہی ہے۔ حتی کہ قرآن کی قرات کے ریٹ بھی لگتے ہیں ۔ کیا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہی تلقین کی تھی ؟ کیا صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا ؟ تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم کا یہ طریق تھا ؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں ۔ اس وجہ سے ہمارے اندر سے برکتیں اٹھ گئی ہیں ۔ ہم نے لباس کے ڈھونگ رچا رکھے ہیں۔ پٹکے دوہرے کر کے گلے میں ڈال لیے ہیں ۔ داڑھیاں لمبی رکھ لیتے ہیں ۔ ان بڑی سائز کی داڑھیوں سے کیا ملے گا کہ داڑھی کا دکھلاوا بھی پیسے کا ریٹ بنانے کے لیے ہے ۔ اس گلے سے کیا لو گے جو فری حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت نہیں پڑھتا ۔ اس تقریر سے کیا لو گے جو پیسے لیے بغیر نہیں ہوتی ۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
حتی کہ تقریریں کرنے والوں ، نعت پڑھنے والوں نے سیکرٹری اور مینیجر رکھے ہوئے ہیں ۔ جن کے پردے میں یہ اپنے مالی معاملات طے کرتے ہیں ۔ سیکرٹری کے کنفرم کرنے کے بعد ’’صاحب بہادر‘‘ اللہ اور اس کے رسول کے نام کی اشاعت کے لئے چلتے ہیں ۔ کیا یہ اولیاء و صوفیاء کی پیروکاری ہے ؟ کیا یہ اللہ والوں کا طرز عمل ہے ؟ اس چیز نے مسلک کو برباد کر دیا ہے اور نوجوان نسلوں کو بیزار کر دیا ہے ۔ وہ عقیدے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہم کبھی غور نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جس کا نام لو وہی دین کا سوداگر ہے ۔ ان حالات میں قوم اور نوجوان نسل کو دین کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنا ہوگا ۔ (چشتی)
جن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہمیں دنیا سے کیا مطلب دعوتِ دین ہے مشن اپنا ۔ اللہ نے کسی کو مال و و زر تو ہمیں علم وفقہ بخشا ، ہمارا شغل ہے شب و روز تعلیم و تعلم کا ۔ نہیں مقصد ہمارا کسب دولت دین و ملت سے ، لگانا ہے رفاہ عام میں یہ علم و فن اپنا ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج دین کے نام پہ کیا جانے والا عمل صرف اور صرف حصول مال و زر اور اور حصول جاہ و منصب کےلیے ہونے لگا ہے ۔ وہ تقریر کرتے ہیں ، تحریک چلاتے ہیں یا تبلیغ و ارشاد کا کام کرتے ہیں ، حتی کہ وہ بیعت بھی کرتے ہیں تو پیسوں کے لیے ۔إلاماشاءالله ۔
مقصود ہے اس بزم میں اصلاحِ مفاسد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا
اگر میں غلط ہوں تو معذرت خواہ ہوں ، لیکن حقیقت حال اگر میرے شک کو یقینی بناتی ہے تو سب سے پہلے اصلاح ان کی ہی ہونی چاہیے ۔ اور یہ اعلان ہونا چاہیے کہ ائمۂ مساجد اور دین و ملت کا درد رکھنے والے علمائے کرام ان پیشہ ور نعت خوانوں جن میں اب اکثر بدمذھب و گویے مراثی شامل ہو گۓ ہیں اور جاہل پیروں کو ہرگز ہرگز دعوت نہ دیں جو عام مسلمانوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ لیکن ایسا اعلان نہیں ہوتا ۔ کیا ایسا ہونا ممکن بھی ہے ؟ کہ سنی مسلمان ایسا کریں اور ہماری آنکھیں یہ دیکھیں ۔
جب قرآن و سنّت کی روشنی میں یہ سچ ہے کہ پیشگی رقم لے کر یا رقم کی ڈیمانڈ کے ساتھ مقرروں اور نعت خوانوں کا جلسہ کرنا اور پیروں کا مشرق و مغرب کا پیٹ پرور دورہ کرنا اور ان سب کا گروپ در گروپ اشتہار چلانا تاکہ زیادہ سے زیادہ قوم کو اپنے پالے میں لایا جاسکے ۔ آخر یہ سب دنیاوی مفاد کے کام بھی تو ناجائز وحرام ہیں پھر اعلان یہ بھی ہونا چاہیے کہ جلسہ کرانے والے ، تیجہ ، چالیسواں وغیرہ کا اہتمام کرنے والے ائمۂ مساجد ہوں کہ علمائے کرام ، ان مقررین و نعت خواں اور پیرانِ طریقت کا یک لخت بائیکاٹ کریں جن کی نظر عوام کی جیب پہ ہوتی ہے ، اور اصلاح معاشرہ کے نام پر وہ لوگوں کو لوٹتے ہیں ۔ جبکہ بہت ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور عوام ان جلسوں میں نہ جائیں جہاں اس طرح کے دنیا دار مبلغ اور نام نہاد پیر تشریف لاتے ہوں ۔
موجودہ حالات اور ان دنیادار مبلغین کے بارے میں نبی کرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشادِ پاک پڑھیں : عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ منْ عِنْدَهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ. كما أورده ابن عدي في الكامل 4/227، وغيرهما ۔ (شعب الإيمان جلد نمبر ١ صفحہ نمبر 317،چشتی)
ترجمہ : حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ کہ لوگوں پہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ حقیقی اسلام (لوگوں میں) باقی نہیں ہوگا مگر صرف اس کا نام ہوگا ۔ اور قرآن میں سے بھی کچھ باقی نہیں رہے گا (یعنی مقصد قرآن جو سمجھنا اور عمل کرنا تھا) بلکہ صرف اس کا رسم الخط باقی رہے گا ۔ (یعنی رسم الخط دیکھ کر صرف پڑھنا ہے ، نہ سمجھنا ہے اور نہ ہی عمل کرنا ہے) ۔ مسجد یں آباد ہوں گی ۔ مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے زیادہ برے لوگ ہوں گے ۔ انہیں سے فتنے اٹھیں گے اور انہیں کی طرف لوٹیں گے ۔
ابن عدی نے الکامل جلد نمبر ٤ صفحہ نمبر ٢٢٧ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے : السنة فیھم بدعة والبدعة فیھم سنة ۔ یعنی سنت کو بدعت کی طرح لوگ چھوڑیں گے اور بدعت کو سنت کی طرح اصرار کے ساتھ عمل کریں گے ۔
الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ کچھ اور ائمہ حدیث نے اس کی روایت کی ہے جبکہ کچھ محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ تاہم مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث موجودہ زمانے کے اکثر علمائے ، پیرانِ عظام اور نعت خوان حضرات پر منطبق ہوتی ہے کہ ان کی زندگیاں زہد و تقوی سے خالی ہیں ، ان کے زبان و قلم سے فتنہ و فساد ہی پیدا ہوتے ہیں ، اور وہ سنتوں کے تارک ہیں ۔ بدعتوں اور فسق و فجور پہ ان کا اصرار ہوتا ہے -
دیلمی نے اپنی مسند میں اور ابن حجر عسقلانی علیہما الرحمہ نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے : يأتی علی الناس زمان ھمهم بطونھم، شرفھم متاعھم، قبلتھم نساؤھم، ودینھم دراھمهم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب ان کی زندگی کا اہم مقصد شکم پروری ہوگا ۔ ان کے نزدیک شرف وبزرگی دنیا کی دولت ہوگی ۔ ان کی بیویاں ان کی آقا ہوں گی ۔ اور ان کا مذہب درہم و دینار ہوگا ۔
یعنی روپے کے عوض میں نیکیاں بیچیں گے ۔ ہمارے اندریہ بیماریاں آچکی ہیں ۔ قریب قریب علماء ، پیر و گدی نشین اور نعت خوان اس مرض میں مبتلا ہیں ۔ إلاماشاء الله!)
کیا یہ ممکن ہے کہ خالص دنیا دار مقرر ، نعت خوان اور پیرانِ طریقت کا بائیکاٹ کیا جائے ؟ اور ایسے لوگوں کے جلسوں کے اشتہار کو بھی گروپ یا کہیں بھی شیر نہ کیا جائے ؟ اور اپنی محافل میں نہ بلایا جاۓ ۔ کیا ایسا ہوگا شاید بہت مشکل ہے ، لیکن ایسا ہونا چاہیے کہ یہی اسلام کا تقاضا ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : زید نے جو اپنی مجلس خوانی خُصوصاً را گ سے پڑھنے کی اُجرت مقرّر کر رکھی ہے ناجائز وحرام ہے اس کا لینا اسے ہر گز جائز نہیں ، اس کا کھاناصَراحۃً حرام کھانا ہے ۔ اس پر واجِب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کرکے سب کو واپَس دے ، وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو پھیرے ، پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدُّق کرے اور آیَندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے تو گناہ سے پاک ہو ۔ اول تو سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر ِپاک خود عمدہ طاعات واَجَلّ عبادات سے ہے اور طاعت وعبادت پر فیس لینی حرام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثانِیاً بیانِ سائل سے ظاہر کہ وہ اپنی شعِر خوانی وزَمْزَمہ سَنْجی (یعنی راگ اور تَرَنُّم سے پڑھنے) کی فیس لیتا ہے یہ بھی محض حرام ۔ فتاوٰی عالمگیری میں ہے : گانا اور اشعار پڑھنا ایسے اعمال ہیں کہ ان میں کسی پر اُجرت لینا جائز نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۷۲۴ ۔ ۷۲۵ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)
جو نعت خوان و مقرر طۓ کر کے T.V. یا محفلِ نعت میں نعت شریف پڑھنے یا بیان کرنے کی فیس وُصول کرتے ہیں اُن کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہا ، اہلسنّت کے امام ، ولیٔ کامِل اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عاشقِ صادِق کا فتویٰ جو کہ یقینا حکمِ شریعت پر مَبنی ہے ، وہ آپ تک پہنچانے کی جَسارت کی ہے ، حبِّ جاہ و مال کے باعث طیش میں آکر ، تِیُوری چڑھا کر ، بل کھا کر الٹی سیدھی زبان چلا کر عُلَمائے اہلسنّت کی مخالَفت کرنے سے جو حرام ہے ، وہ حلال ہونے سے رہا ، بلکہ یہ تو آخِرت کی تباہی کا مزید سامان ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ بات آئے کہ یہ فتویٰ تو اُن کیلئے ہے جو پہلے سے طے کر لیتے ہیں ، ہم تو طے نہیں کرتے ، جو کچھ ملتا ہے وہ تبرُّکاً لے لیتے ہیں ، اس لئے ہمارے لئے جائز ہے ۔ اُن کی خدمت میں سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ایک اور فتویٰ حاضِر ہے ، سمجھ میں نہ آئے تو تین بار پڑھ لیجئے : تلاوتِ قراٰنِ عظیم بغرضِ ایصالِ ثواب وذِکر شریف میلادِ پاک حُضُور سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ضَر ور مِنْجملہ عبادات وطاعت ہیں تو ان پر اِجارہ بھی ضَرور حرام ومَحْذُور(یعنی ناجائز) ۔ اور اِجارہ جس طرح صَریح عَقْدِ زَبان (یعنی واضِح قول و قرار) سے ہوتا ہے ، عُرفاًشَرْطِ مَعْرُوف ومَعْہُود (یعنی رائج شدہ انداز) سے بھی ہوجاتا ہے مَثَلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دیناہوگا (اور) وہ (پڑھنے والے بھی) سمجھ رہے ہیں کہ ’’کچھ ‘‘ ملے گا ، اُنہوں نے اس طور پر پڑھا ، اِنہوں نے اس نیَّت سے پڑھوایا ، اجارہ ہوگیا ، اور اب دو وجہ سے حرام ہوا ، (۱) ایک تو طاعت (یعنی عبادت) پر اِجارہ یہ خود حرام ، (۲) دوسرے اُجرت اگر عُرفاً مُعَیَّن نہیں تو اس کی جَہالت سے اجارہ فاسِد ، یہ دوسرا حرام ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص ۴۸۶ ، ۴۸۷،چشتی) ۔ لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوں گے ۔ (فتاوٰی رضویہ ص۴۹۵)
اِس مبارَک فتوے سے روزِ روشن کی طرح ظاہِر ہو گیا کہ صاف لفظوں میں طے نہ بھی ہو تب بھی جہاں UNDERSTOOD ہو کہ چل کرمحفل میں قراٰنِ پاک ، آیتِ کریمہ ، دُرُود شریف یا نعت شریف پڑھتے ہیں ، کچھ نہ کچھ ملے گا رقم نہ سہی’’ سوٹ پیس‘‘ وغیرہ کا تحفہ ہی مل جائے گا اور بانیِ محفل بھی جانتا ہے کہ پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا ہی ہے ۔ بس ناجائز و حرام ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ یہ ’’ اُجرت ‘‘ ہی ہے اور فَریقَین (یعنی دینے اور لینے والے ) دونوں گنہگار ۔
سوال : بے نمازی مسلمان کے گھر میلاد شریف کی محفل میں شریک ہونا یا پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : مجلس میلاد شریف نیک کام ہے اور نیک کام میں شرکت بری نہیں ، ہاں اگر اس کی تنبیہہ کیلئے اس سے میل جول یک لخت چھوڑ دیا ہو تونہ شریک ہوں یہی بہتر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر23صفحہ736،چشتی)
اس فتوی میں’’بے نمازی‘‘ کوسبق سکھانے کے لئے اُس سے میل جول چھوڑنے کا حُکم دیا جا رہا ہے کیونکہ بے نمازی میلادی کا ’’میلاد‘‘ منانے کا حق نہیں بنتا ۔
بے نمازی ، داڑھی کتروانے یا منڈوانے والے سے نعت نہیں پڑھوانی چاہئے اور نہ ہی منبر رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس کو بٹھانا چاہئے بلکہ اس کی توہین کرنی چاہئے ۔
سوال : مخالفِ شرع مثلاََ ڈاڑھی کترواتا یا منڈواتا ہو ، تارکِ صلوۃ ہو اس سے میلاد (نعت) پڑھوانا کیسا ہے ؟
جواب ارشاد فرمایا : افعال مذکورہ سخت کبائر ہیں اور ان کا مرتکب اشد فاسق و فاجر مستحق عذاب یزداں و غضب رحمن اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذلت و ہوان ، خوش آوازی خواہ کسی علتِ نفسانی کے باعث اسے منبر و مسند پر کہ حقیقتہََ مسندِ حضور پُر نور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے تعظیماََ بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھو انا حرام ہے ، فاسق (گندے) کو آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ بوجہ فسق (گناہ) لوگوں پر شرعاََ اس کی توہین (ذلیل) کرنا واجب اور ضرور ی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 734)
اس شرط پر بھی عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عوام معروف نعت خوانوں کی آواز پر جھومتی ہے اور کسی کو اُس کی نماز یا داڑھی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا سینکڑوں ، ہزاروں ایسے نعت خوان ہیں جنہوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی ، کیا کوئی ان معزز ہستیوں کو ذلیل کرنے کا سوچ سکتا ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ میں لکھا ہے ۔
پیسے لینے والے نعت خواں کو اور کھانے کا لالچ دے کر میلاد کرانے کا ثواب نہیں ہوتا
سوال : میلاد شریف جس کے یہاں ہو وہ پڑھنے والے کی دعوت کرے تو پڑھنے والے کو (کھانا) چاہئے یا نہیں ؟ اور اگر کھایا تو پڑھنے والے کو کچھ ثواب ملے گا یا نہیں ؟
آپ نے فرمایا : پڑھنے کے عوض کھانا کھلاتا ہے تو یہ کھانا نہ کھلانا چاہئے ، نہ کھانا چاہئے اور اگر کھائے گا تو یہی کھانا اس کا ثواب ہو گیا اور ثواب کیا چاہتا ہے بلکہ جاہلوں میں جو یہ دستور ہے کہ پڑھنے والوں کو عام حصوں سے دونا دیتے ہیں اور بعض احمق پڑھنے والے اگر ان کو اوروں سے دو نانہ دیا جائے تو اس پر جھگڑتے ہیں یہ زیادہ لینا دینا بھی منع ہے اور یہی اس کا ثواب ہوگیا ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر21صفحہ نمبر662،چشتی)
اس فتوی پر عمل کرتے ہوئے اگر ’’لنگر کا وسیع انتظام ہے‘‘ نہ لکھا جائے ، عُمرے کے ٹکٹ نہ رکھے جائیں ، نعت خوانوں کو پیسے نہ دئے جائیں (دینے کے انداز پر بھی اعتراض ہے) تو ’’میلاد‘‘ کیسے ہو گا جس کا مطلب ہے کہ کھانا ، عُمرے کے ٹکٹ وغیرہ نہ ہوں تو عوام کو میلاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
نعت خواں اکثر نعتیں کفریہ پڑھتے ہیں جس پر گناہ ہوتا ہے ثواب نہیں
سوال : منکراتِ شرعیہ پر مشتمل میلاد کیسا ہے ؟
جواب : وہ پڑھناسننا جو منکراتِ شرعیہ پر مشتمل ہو ، ناجائز ہے جیسے روایات باطلہ و حکایاتِ موضوعہ و اشعار خلاف شرع خصوصاََ جن میں توہینِ انبیاء و ملائکہ علیھم الصلٰوۃ و السلام ہو کہ آجکل کے جاہل نعت گویوں کے کلام میں یہ بلائے عظیم بکثرت ہے حالانکہ وہ صریح کلمہ کفر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر23صفحہ722،چشتی)
اس لیے نعت کے رُوپ میں کُفر بھی بَک کر گناہ کمایا جا رہا ہے اورعوام کےلیے یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کونسی نعت کے اشعار کُفر پر مبنی ہیں کیونکہ عوام حقیقی اور مجازی معنوں کو نہیں سمجھتی اوربہت سی جگہوں پر علماء کرام موجود ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی زیادہ ترعوام نے علماء کرام سے پوچھنا ہوتا ہے ۔
بے نمازی کا وظیفہ (درود ، کلمہ ، میلاد نعت خوانی) اس کے منہ پر ماراجائے گا
سوال : ایک شخص وظیفہ پڑھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے یہ جائز ہے یا نا جائز ؟
جواب ارشاد فرمایا : جو وظیفہ پڑھے اور نماز نہ پڑھے فاسق و فاجر مرتکب کبائر ہے اُس کا وظیفہ اس کے منہ پر مارا جائے گا ، ایسوں ہی کو حدیث میں فرمایا ہے ، بہتیرے قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن انہیں لعنت کرتا ہے و العیاذ باللہ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 223)
گانے کی طَرز پر نعت پڑھنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : نعت کو ایسے مشہور و مَعروف گانے کی طرز پر پڑھنا کہ نعت سُنتے ہی فوراً ذہن اس گانے کی طرف چلا جائے اس سے بچنا چاہیے اور اگر کبھی اِتفاقاً طرز میں کچھ مُمَاثَلَت ہو بھی جائے تو نعت خواں کو چاہیے کہ تھوڑی بہت تبدیلی کر لے ۔ فی زمانہ یہ اِمتیاز کرنا بہت مشکل ہے کہ نعت گانے کی طرز پر پڑھی جا رہی ہے یا گانا نعت کی طرز پر گایا جا رہا ہے ، اَلبتہ پہلے والی طرزوں میں پڑھی جانے والی نعتوں میں جو رِقَّت اور سوز و گداز ہوا کرتا تھا وہ اب نئے اَنداز پر پڑھی جانے والی نعتوں میں نہیں ہے ۔
نعت پاک کو گانوں کے طرز پر پڑھنا یا پھر سنا دونوں جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر نعت کے ساتھ موسیقی تو نہیں ہے لیکن وہ ہے گانے کی طرز پر تو جب اس نعت کو سنا جائے گا تو وہ گانا بھی یاد آئے گا ۔ تو نعت کے ساتھ ساتھ دماغ میں گانا بھی بج رہا ہو گا ۔ تو کیسی بری بات ہے ۔ بلکہ یہ نعت کی توہین ہے اور فساق کے ساتھ مشابہت کی بات بذات خود ایک مستقل جرم ہے ۔
امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو ،گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 363،چشتی)
لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نہ ہم گانوں کے طرز پر نعت پاک پڑھیں اور نہ سنیں کیونکہ یہ فعل جائز نہیں ہے ۔
بہرحال موجودہ دور میں سب نعتیں گانوں کی طرز پر پڑھی جاتی ہوں یہ ضَروری نہیں کیونکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ گلوکار نعتوں کی طرز پر گانے گاتے ہوں لہٰذا موجودہ دور میں پڑھی جانے والی سب نعتوں کو گانوں کی طرز پر کہنا اور نعتیں سننے سے بچنا یا بچنے کے لیے کہنا خود کو نعت خوانی کی بَرکتوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نعت خوانی سے متنفر بھی کر سکتا ہے ۔
نعتوں کے گانوں کی طرز پر ہونے کے وَساوِس بھی انہیں کو آئیں گے جو گانے سُننے کے شوقین ہوں گے ، جو سِرے سے گانے ہی نہیں سُنتے ان کے لیے ہر طرز نعت ہی کی طرز ہو گی ، لہٰذا اِن وَساوِس کی بِنا پر نعتیں سننا چھوڑنے کے بجائے گانے چھوڑنے میں عافیت ہے ۔ نعت شریف پڑھنے اور سُننے والا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعریف و توصیف ہی کی نیت سے اسے پڑھتا اور سُنتا ہے ، نہ اس لیے کہ وہ کسی گانے کی طرز پر ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قرآن کریم کو گانے کی دھن کے مطابق پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے ۔ (معجم اوسط طبرانی حدیث نمبر ۷۲۲۳،چشتی)
اس حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نعت کو (جوکہ ایک عبادت ہے) گانے کے انداز پر نہیں پڑھنا چاہیے ، البتہ کسی گانے کی دھن کو نقل کرنے کی بجائے صرف آواز اچھی کر کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پڑھا جائے ، اور اس میں کسی قسم کی موسیقی وغیرہ کا استعمال نہ ہو جیسا کہ عام طور پر اشعار پڑھے جاتے ہیں تو جائز ہوگا ۔
گانے کے طرز پر نعت پڑھنا اور سننا منع ہے ، اس سے یہ مراد نہیں کہ عربی اوزان اور عربی بحور پر اشعار یا نعت پڑھنا منع ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر اپنے ارادہ و اختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بناکر گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے ، یا لہجے میں فنِّ موسیقی کے قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اشعار پڑھنا حمد و نعت کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے ، اور چوں کہ ایساکرنے میں فاسق لوگوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے ، اس لیے ایسا کرنا اوربھی زیادہ قبیح ہے ، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تو یہ فی نفسہ جائز ہے، لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے ۔ البتہ حمد و نعت کے اشعار پڑھنے میں خوش آوازی اور اچھی آواز پیدا کرنے کے لیے آواز میں مناسب اتار چڑھاؤ ، ترنم ، آواز کو باریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاً مباح ہیں ، ان میں کچھ حرج نہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو عربی اشعار پڑھے ہیں وہ گانے کے طرز پر نہیں پڑھے، ان حضرات سے اس چیز کا گمان بھی نہیں ہوسکتا، وہ حضرات اپنے طبعی اور فطری انداز اور طرز پر اشعار پڑھاکرتے تھے، گو ترنم سے پڑھنا بھی ان حضرات سے ثابت ہے ، لیکن ان کے اشعار میں نہ کوئی موسیقی ہوتی تھی اور نہ کوئی ساز وغیرہ، اب وہ اشعار عربی بحور پر ہوں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
تفسیر قرطبی میں ہے : فأما ما ابتدعه الصوفية اليوم في الإدمان على سماع الأغاني بالآلات المطربة من الشبابات و الطار و المعازف و الأوتار فحرام ۔ (تفسیر القرطبی، ج:14، ص:40، س:لقمان، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
البحرالرائق میں ہے : في المعراج: الملاهي نوعان: محرم وهو الآلات المطربة من غير الغناء كالمزمار سواء كان من عود أو قصب كالشبابة أو غيره كالعود والطنبور لما روى أبو أمامة أنه عليه الصلاة والسلام قال إن الله بعثني رحمة للعالمين وأمرني بمحق المعازف والمزامير ولأنه مطرب مصد عن ذكر الله تعالى ۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق (7/ 88،چشتی)
حمد ونعت کے اشعار پڑھنےمیں خوش آوازی اور حسنِ صوت پیدا کرنے کے لیے آوازمیں مناسب اتارچڑھاؤ ، ترنم ، آواز کوباریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاًمباح ہیں ان میں کچھ حرج نہیں ، لیکن جان بوجھ کر اپنے ارادہ واختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بنا کر اسی گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے ، حمد و نعت کے مقدس کام کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے ، اور چونکہ ایسا کرنے میں تشبہ بالفساق بھی ہے اس لیے اور بھی زیادہ قبیح ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تویہ فی نفسہ جائز ہے لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے ۔ اگر کوئی ایک مصرعہ اتفاقاً گانے کی طرز پر ہو باقی ساری نعت کی اپنی علیحدہ طرز ہو تو اس کی گنجائش ہے تاہم اس سے بھی بچنا بہتر ہے ۔ (التبویب بتغیر 18/869،چشتی)۔(الدر المختار 6/348)
نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نعتِ پاک بلا شبہ لکھنا بھی سعادت ، پڑھنا بھی اور سننا بھی سعادت ہے ۔ مگر آجکل یہ تینوں departments یعنی نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عجیب بلکہ افسوس ںاک صورتحال کا شکار ہیں ۔ سستی شہرت حاصل کرنے کےلیے وہ لوگ نعتیہ کلام لکھتے ہیں جنہیں الفاظ و معنی کا سرے سے معلوم ہی نہیں ، نعت خوان آداب سے نا آشنا ہیں اور گمشدہ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھتے ہیں اور سننے والے عاشقان بھی عجیب انداز میں داد دیتے ہیں ۔ تینوں میں سب سے زیادہ خراب کام نعت خوان حضرات نے کیا ہے ۔ کئی تو ایسے ہیں کہ شاعروں سے مخصوص گانوں پر کلام لکھواتے ہیں ۔ صرف ایک مثال شہباز قمر فریدی کی دیکھ لیں ۔ بہت مشہور ہیں TV اور محافل پر اکثر جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ اس جوان نے انڈین اور پاکستانی گانوں اور غزلوں پر اچھی خاصی ریسرچ کر کے ان کی طرز پر نعتیں پڑھنے کو عادت بنا لیا ہے ذرا غور کیجیے گا ۔
“نوری مکھڑا تے زلفاں نے کالیاں ” کی طرز نور جہاں کے گانے ” تو میرا یار میرا پیار میرے ہاںڑ یاں” پر ہے ۔ ”میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں” کی طرز نصرت فتح کی غزل “پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ” پر ہے ۔ “ایک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے” کی طرز نصرت فتح کی غزل “کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آجاتے” پر ہے ۔ فقیر نے ایک بار ایک محفل میں موصوف سے کوئی آدھ گھنٹہ اسی موضوع پر بات کی سمجھایا مگر ۔ پہلے پکڑائی نہ دی ، پھر ثبوت مانگنے لگے اور آخر میں ساری ذمہ داری audience پر دال دی کہ لوگ جس طرح کی فرمائش کرتے ہیں ہم اسی طرح سے نعت پڑھتے ہیں ۔ تین ماہ بعد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ موصوف نے ایک اور شہکار market میں متعارف کرا دیا ۔ ” آقا میریا ں اکھیاں مدینے وچ رہ گیاں” اس کی طرز عنایت حسین بھٹی کے گاۓ ہوۓ گانے “بابل میریا ں گڈیاں تیرے گھر رہ گیاں” پر ہے آجکل یہی گا نا انڈین لڑکی ہرشدیپ نے بھی گا یا ہوا ہے ۔
اسی طرح کئ ایک لوگ ہیں جنہوں نے گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھی ہیں ۔ یہ گھٹیا حرکت صرف نعتیہ کلام لکھنے والوں تک ہی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مرثیہ خوانوں اور نوحہ خوانوں نے بھی یہی طریقہ اپنا رکھا ہے ۔ نا صرف گانوں کی طرز اپنائی جاتی ہے بلکہ موسیقی اور چھنکار کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔ کیا یہ عجیب معاملہ نہیں ہے کے مدح سرائی میں دفلی کا سہارا لیا جاۓ ؟ واقعہ کربلا کو مرثیہ یا نوحے کی شکل میں بیان کرنے ک لیے موسیقی استعمال کی جاۓ ؟ یا نعت کےلیے گانوں کی طرز اپنائی جاۓ ؟ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اسی محفل میں موجود مفسرِقران ، پیرِ طریقت حضرات بھی نہیں بولیں گے اور نہ ہی کوئی ذاکر اس پر اعتراض کرے گا ۔ (چشتی)
کیا ان لوگوں کو منصبِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ سمجھ آئی ہے کے پوری کائنات کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور گلدستہ عقیدت گانوں کی طرز پر پیش کیا جاۓ ؟ یا خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ غم کا اظھار موسیقی کی چھنکار میں کیا جاۓ ؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس کے تدارک کےلیے کیا کرنا چاہیے ۔
حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں ۔ ان سے پہلے بھی کچھ جگہوں پر نعتیہ کلام ملتا ہے لیکن آپ پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں ۔ جب کفار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں تضحیک آمیز اشعار لکھا کرتے تو حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں قصیدے لکھتے اور کافروں کا منہ بند کر دیتے ۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت حسان پر بہت خوش ہوتے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت حسن کا لکھا ہوا کلام مستند بھی ہوتا اور با وزن بھی ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان میں اب بھی ایسے نعت خوان لوگ موجود ہیں جنہوں نے نعتیہ کلام کے انتخاب ، اسلوب اور ادائیگی پر پہلے بہت کام کیا اور اس کے بعد نعت کو پڑھا ۔ جن کی پڑھی ہوئی نعتیں آج بھی بڑی قدر و منزلت رکھتی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ سستی شہرت کے پجاریوں نے محافلِ نعت کا ماحول بھی تبد یل کر دیا اور اسے ذریعہ معاش بنا لیا ۔ (چشتی)
کیا اس کے ذمہ دار عوام ہیں؟ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہ نعت یا مرثیہ کسی خاص گانے کی طرز پر ہے ۔ گا نا گانے کے گرُ چونکہ بڑی محنت کے بعد آتے ہیں اور بڑی ریاضت کے بعد اس کی لے بنتی ہے لہٰذا اس کا اثر سامعین پر کافی گہرا ہوتا ہے اس لیے جس شخص نے گانا نہیں سنا تھا بلکہ اس کی طرز پر براہ راست نعت سنی وہ تو واہ واہ کیے بغیر نہیں رہ سکے گا اور نعت خوان کو خوب داد دے گا ۔ اس حرکت کے خالق ہی اس کے اصل ذمہ دار ہیں مگر انہیں کون روکے گا ؟ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فرض ہے کے وہ اس پر توجہ دیں ۔ نا تو معاملہ فرقہ واریت کا ہے اور نہ ہی اسلامیات کی کتاب کا بلکہ معاملہ ادبِ منصب کا ہے ۔ تحریر اور تقریر کی آزادی اپنی جگہ لیکن ہر شخص نعت خوان نہیں ہو سکتا اور نا ہی صرف نعت خوانی سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملتا ہے ۔ نعت لکھنا بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے پڑھنا اور سننا بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ علماۓ کرام و مفتیانِ عظام اور اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہئے کہ حمد ، نعت ، نوحے ، اور دیگر عارفانہ کلام کے لئے الگ شعبہ بناۓ تا کہ مندرجہ بالا لا یعنی اور نچلے درجے کی حرکتوں پر قابو پایا جاسکے ۔
آج کل کی اکثر نعتوں کی لے گانوں کی طرح ہوتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان نعتوں کو پڑھنے والے اور انہیں سننے والے بھی اسی طرح ہاتھ لہراتے ہوئے جھومتے ہیں ، جس طرح کسی میوزیکل پروگرام کے شرکا کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے جذبات پر اس لے کا ایک خاص اثر ہو رہا ہوتا ہے ۔ صاف لگتا ہے کہ یہ لوگ بمشکل اپنے آپ کو رقص کرنے سے روک رہے ہیں ۔
پھر سب سے بڑھ کر میوزک کا تاثر دینے کے لیے اللہ عزوجل کے نام کو جس طرح استعمال کیا جاتا ہے ، وہ سُر تا سُر ربّ کے بابرکت نام کی بے حرمتی ہے ۔ مگر بدقسمتی سے یہاں کسی کو اللہ سے دلچسپی نہیں ہے ، اس لیے یہ توہین نظر نہیں آتی ۔ کسی کو ہماری بات کی سنگینی کا اندازہ کرنا ہے تو ان نعت والوں سے فرمائش کرے کہ اللہ کے نام کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام استعمال کریں اور آپ کے مبارک نام کے ذریعے سے میوزک کی آواز کا تاثر دینے کی کوشش کریں ۔ پھر دیکھیں کہ علما اور عوام ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔ ہر طرف سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا شور اٹھے گا ۔ احتجاج شروع ہوگا ۔ اخباری بیانات شاٸع ہوں گے ۔ جلوس نکلیں گے ۔ مقدمے درج ہوں گے ۔ نعت خواں اور نعت کو نشر کرنے والے چینل کو جان بچانا مشکل ہوجائے گا ۔ جو علما و مفتیانِ کرام موسیقی کی قطعی حرمت کے قائل ہیں ان کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ فطرت کے آگے بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ موسیقی کے حوالے سے جتنی کچھ اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ہے ، اگر علماۓ کرام و مفتیانِ عظام نے اتنی اجازت بھی نہ دی تو لوگ بہرحال موسیقی سے باز نہیں آئیں گے ۔ وہ موسیقی کے شوق میں اللہ عزّ و جلّ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نام کی بے حرمتی کرتے رہیں گے ۔ اللہ عزوجل ہمیں توہینِ شریعت اور شریعتِ مطہرہ کی توہین کرنے والوں کے شر و فتنہ سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment