Sunday 3 September 2023

قائدِ ملتِ اسلامیہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ

0 comments
قائدِ ملتِ اسلامیہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ
محترم قارئینِ کرام : مبلغِ اسلا م ، قائدِ ملتِ اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ رمضان المبارک 1374ھ بمطابق 31 مارچ 1924میرٹھ (بھارت )میں پیدا ہوئے ۔ 1934میں صرف 8 سال کی عمر میں حفظِ قرآن کی تعلیم مکمل کی اور 1937ء میں 11 سال کی عمر سے تروایح کی نماز میں قرآن حکیم سنانا شروع کیا ۔ آپ کا سلسلہ نسب والد و والدہ کی جانب سے خلیفۂ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔ علامہ نورا نی کا خاندان میرٹھ میں ایک ممتاز اور روحانی و علمی گھرانے کے طور پر متعارف تھا ۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ کے خاندان کے متعدد افراد نے ملی تاریخ میں دینی خدمت کی یادگار اور قابلِ فخر داستانیں چھوڑی ہیں ۔ قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت ایک علمی اور فکر ی خا نوادے میں ہوئی، حفظ قرآ ن کر یم کے بعد میرٹھ میں ہی آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی ثا نو ی تعلیم نیشنل عربک کا لج سے مکمل کی ، جہاں ذریعہ تعلیم عربی زبان تھا ، بعد ازاں الہٰ آباد کالج سے گریجو یٹ کیا ، اسی دوران میرٹھ کے مشہور مدرسہ اسلامی غلام جیلانی میر ٹھ رحمۃُ اللہ علیہ سے درسِ نظامی کی مروجہ و غیر مروجہ کتب پڑھیں ۔ علامہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ کو اپنے والد ماجد رحمۃُ اللہ علیہ سے بیعت و خلافت کا شرف حا صل ہوا ۔

قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں اپنے والد مبلغ اعظم علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کے ہمراہ میرٹھ سے پاکستان ہجرت کر کے کراچی صدر میں سکونت اختیار کی (الحَمْدُ ِلله فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو صدر میں متعدد بار بالکل ساتھ ساتھ ایک ہی صوفے پر بیٹھنے کا شرف حاصل رہا یہ سلسلہ 1986 تا 1999 تک جاری رہا) ۔ 1954ء میں اپنے والد مبلغ اعظم علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی کی مدینہ منورہ میں رحلت اور جنت البقیع میں تدفین کے بعد ان کے مشن عالمی تبلیغی ذمہ داریوں کے فرائض کا آغاز کیا اور اپنی 40 سالہ تبلیغی خدمات کے دوران دنیا کے تمام براعظموں کے تمام ممالک میں دنیا کی 17 زبانوں میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے دوران 40 ہزار سے زائد قادیانیوں کو مشرف بہ اسلام اور ایک لاکھ سے زائد غیر مسلموں کو داخل اسلام کرنے کے علاوہ مختلف ممالک میں سینکڑوں مساجد و مدارس قائم کیے ۔ (چشتی)

قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ نے سب سے پہلے حر مین شریفین کی زیا ر ت گیارہ برس کی عمر میں کی ، آپ کو آ پ کے والد مدینہ منورہ لے گئے تھے اور آپ نے و ہاں ایک سال تک تجوید و قرأت کی تعلیم حاصل کی ، اس کے بعد آ پ وقتاً فوقتاً زیارتِ حرمین شریفین کےلیے حاضر ہوتے رہے ۔ ایک محتا ط اندازے کے مطابق آپ کو کم از کم 16مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ نے لاتعداد عمرے کیے ۔ قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کو مدینہ منورہ سے ایک خاص اُنس و تعلق تھا ، آپ کا سسرال بھی مدینہ منورہ میں تھا ۔

قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ نے خلوت و جلوت اتباعِ رسو ل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں گزاری ۔ آپ کی یہ کو شش ہوتی کہ آپ کا کو ئی عمل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مخالف نہ ہو ۔ آپ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اصل روح کو سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہو تے ، عالم باعمل تھے۔ آپ اپنے افعال و اعمال ، رہن سہن میں بے جا آرائش کے سخت خلاف تھے ۔ آپ کی نجی زندگی انتہائی سادہ اور پروقار تھی اس کا فقیر چشتی عینی شاھد ہے ۔ روپے پیسے مال و دولت جمع کرنا آپ کے مذہب عشق ہی کے خلا ف تھا ۔ سننا زیاد ہ اور بولنا کم ، ایک پیر کامل کی نشانی ہے ، جب کہ سیاست دانوں کاکام بو لنا زیادہ او ر سننا کم ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی پاکیزہ زندگی میں خانقاہی اور سیاسی نظام کو اس قدر خوبصورتی سے جمع کیا ہوا تھا کہ جب آپ مسند ارشاد پر تشریف فر ما ہوتے تو کوئی انجا ن آدمی یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص ملک کا عظیم سیاستدان اور ایک سیاسی پارٹی کا سر برا ہ ہے ۔ 

جب قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ سیاست کی طرف رخ فرما تے تو آپ کے سامنے کو ئی ٹھہر نہیں سکتا تھا ۔ آپ کے سیا سی تجربے وتبصرے اس قدر جا مع او ر حقیقت پرمبنی ہو تے کہ سامنے والا اسے سن کر آپ کی سیاسی بصیرت سے مرعوب ہو جاتا ۔ آپ نے تمام عمر سادگی اور درویشی میں گزاری ۔ اپنی زندگی کے تقر یباً 50 سال کرایے کے سادہ فلیٹ نما مکان میں گزارے جو کہ دورِ جدید کے لحاظ سے تمام سہولتوں سے عار ی تھا ۔ یہ مکان فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہاں متعدد بار ساتھ بیٹھنے کا شرف حاصل رہا ، حالانکہ اگر آپ چاہتے تو آپ محلات میں رہ سکتے تھے ، مگر اس کےلیے آپ کو اپنے اصولوں سے انحراف کرنا پڑتا جو کہ آپ کےلیے قطعاً ًنا قابل قبو ل تھا ۔

قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ نے سب سے پہلا غیر ملکی تبلیغی و مشاہداتی دورہ اپنے وا لد کی و فات کے بعد 1955ء میں علمائے ازہر کی دعوت پر مصر کا کیا جس میں آپ نے مصر میں تاریخ اسلام کی عظیم یونیور سٹی جامعہ ازہر او ر دیگر جامعات کا تفصیلی مشاہدہ کیا اور مختلف مقامات پر علماء کے اجتماعات سے خطاب کیا ۔ 1958ء میں پاکستان میں روسی سفیر کی تحریک اور مفتی اعظم روس مفتی ضیاء الدین بابا خانوف رحمۃُ اللہ علیہ کی خصوصی دعو ت پر علا مہ حامد بدایونی رحمۃُ اللہ علیہ اور دیگر علماء کے ساتھ روس کا دورہ کیا ۔ 1959ء میں آپ نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کا ایک طویل خیر سگالی دور ہ کیا ۔ 1960ء میں آپ ایک بار پھر طویل دورے پر روا نہ ہوئے جس میں آپ نے مشرقی افر یقہ ، مڈغا سکر اور ماریشس کا دو رہ ایک سال میں مکمل کیا ۔ 1962ء میں صومالیہ ، کینیا اور یوگنڈا کا دورہ کیا ، اسی دوران شمالی نائجیریا کے وزیر اعظم احمد ڈبلیو شہید کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے چار ماہ تک تفصیلی دورہ کیا ۔  (چشتی)

اس دوران فراغت کے بعد آپ حج و زیا رت کےلیے مدینہ منورہ حاضر ہوئے ۔ 1963ء میں آپ کی شادی آپ کے والد کے قریبی دوست قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی پوتی سے کروائی ۔ شادی کے فوراً بعد آپ اپنے طے شدہ پرو گرام کے تحت ترکی ، مغر بی جرمنی ، برطانیہ ، نائجیریا ، ماریشس اور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوئے ، اسی سال کے آخر میں آپ نے چین کا اور 1964ء میں آپ نے کینیڈا کا تبلیغی دو ر ہ کیا ۔ 1968ء میں آپ نے یورپ کا تفصیلی دو ر ہ کیا ، اس دورے میں آپ نے قادیانی رسالے اسلامک ریویو لندن کے ایڈ یٹر سے چھ گھنٹے کا طویل مناظرہ کیا اور اپنے حریف کو کتابیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا ۔

1969ء او ر 1970ء کا عرصہ علامہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ نے پاکستان میں گزارا ، اس وقت پاکستان میں سیاسی حالا ت دگر گوں ہو گئے تھے ، اس دوران سنی کانفرنس اور اس کے بعد الیکشن کا دور آیا جس میں جے یو پی کو بھرپور شر کت کرنا تھا ۔ 1972-73ء میں پارلیمانی سیاست ، پاکستان کے آئین ، اور قادیانیوں کے خلا ف تحر یک ختمِ نبوت کی وجہ سے آپ کو پاکستان میں ہی رہنا پڑا ۔

قادیانیت کیا ہے ؟ جواب کچھ یوں ہے کہ قادیانیت نہ ہی کوئی مذہب ہے اور نہ ہی کوئی فلسفہ حیات یہ درحقیقت مرزا غلام احمد قادیانی کی ذاتی اغراض اور مفادات کے حصول کےلیے اپنے وقت کی عالمی طاقت  "برطانیہ "کے مخصوص خفیہ مقاصد کی تکمیل کےلیے کی جانے والی ایک ایسی سازش تھی جو مسلمانوں نے اس وقت بھی ناکام بنادی تھی اور آج بھی تمام مسالک اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کو ختم کر کے ایک نئی نبوت کو تسلیم کرانے کی کوشش کرنے کا نام قادیانیت ہے (ارشاد باری تعالی ہے ) " محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مرد و ںمیں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کا سلسلہ ختم کرنے والے ہیں " اس آیت سے  علم ہوا کہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کےلیے بند ہو گیا ہے اور یہ وہ اعزاز ہے جو کسی نبی یا رسول کو عطا نہیں ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " (لا نبی بعدی)"  میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے " حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرما یا " کہ سب جھوٹ بکیں گے کہ وہ نبی ہیں میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں  آئے گا ۔ قادیانی مرزا کافر کی نبوت پر جتنے دلائل پیش کرتے ہیں وہ سب نہ تو قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی احادیث سے بلکہ یہ سب تو ان کا ایجادہ کردہ ہے ۔ معرکہ حق و باطل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔ باطل جب بھی جس شکل میں بھی آیا اللہ تعالی نے اس کی سرکوبی کےلیے حق کو کسی نہ کسی صورت میں بھیجا ۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب بھی ملک و ملت پر نازک وقت آیا تو علماءِ امت میدان عمل میں نکل آئے اور اپنے فرائض منصبی کے مطابق نمایاں کارنامے انجام دیے ان اکابرین علماءِ امت میں مبلغ اسلام فاتح قادیانیت سپہ سالار اعلی تحریک ختم نبوت قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کا نام سرِ فہرست ہے ۔ علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کی زندگی کا مشن ملکِ خداداد پاکستان میں نظامِ مصطفی کا نفاذ اور مقامِ مصطفی کا تحفظ تھا ۔ آپ آغاز جدوجہد سے لیکر زندگی کی آخری سانس تک اس مقصد کے حصول میں مصروف عمل رہے۔1953 میں آپ نے قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیکر پاکستان میں دینی مذہبی و سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کو قادیانیت سے شدید نفرت تھی اس نفرت نے انہیں زندگی بھر قادیانیت کے خلاف مصروف جہاد رکھا محراب و منبر سے لیکر سینیٹ کے ایوانوں تک اسی مرد قلندر کی ذات سب سے نمایاں اور الگ نظر آئی علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنے خطاب میں ہی آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔یہ کہہ کر کہ جو لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے ہم ان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔قادیانیوں کو کافر اور غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک کا آغاز کر دیا ۔ 30 جون 1974 کی صبح علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کےلیے ایک تاریخ ساز قرار داد پیش کی جسے ایوانوں نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔اس قرارداد کا پیش کرنا تھا کہ حکومت اور قادیانیت کے ایوانوں میں ہنگامہ مچ گیا۔قرار داد کے پیش کرنے پر بھٹو علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ سے خفا ہو گئے 7 ستمبر 1974 کی شب قومی اسمبلی کے ارکان ہی نہیں پوری قوم بے چین تھی کہ کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔آخر وہ وقت بھی آگیا جب وزیر اعظم بھٹو کی موجودگی میں علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ کی قرارداد کو من و عن منظور کر لیا گیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا تاریخ ساز فیصلہ صادر کیا گیا اسوقت کے قومی اخبارات نے قومی اسمبلی کے فیصلہ کو عوامی امنگوں کا آئینہ قرار دیا۔علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے 90 سالہ فتنہ قادیانیت کا اختتام کیا ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ اور مقام مصطفی کا تحفظ اور وطن عزیز پاکستان کا استحکام وسالمیت علامہ شاہ احمد نورانی کی زندگی کی اولین ترجیح رہیں۔علامہ الشاہ احمد نورانی صدیقی کی ذات اور عظمت و کردار کا اعتراف آپ کے بڑے بڑے مخالفین عقائد و نظریات کا ہزار ہا اختلاف کرنے کے باوجود کرتے تھے۔آپ کا یہ کارنامہ امت مسلمہ ہمیشہ یاد رکھے گی ۔

7 ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ، جس کا سہرا دیگر علما کے ساتھ ساتھ امام شاہ احمد نورا نی رحمۃُ اللہ علیہ کے سر ہے ۔ ستمبر 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے بعد آپ نے مولا نا عبد الستار خان نیازی رحمۃُ اللہ علیہ پرو فیسر شاہ فرید الحق رحمۃُ اللہ علیہ اور علامہ ارشد القادری رحمۃُ اللہ علیہ (الحَمْدُ ِلله ان تینوں بزرگ شخصیات کی صحبت میں متعدد بار فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو بیٹھنے کا شرف حاصل رہا) کے ساتھ مختلف ممالک کے طویل دورے کیے ۔ مئی 1978ء میں علامہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ کیپ ٹاؤن (افر یقہ ) کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوئے ۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے وہاں کے میئر کی جانب سے شہریوں کے استقبالیہ میں ـ اسلام بیسویں صدی کے چیلنج کو قبول کرتا ہے کے عنوا ن سے انگریزی میں خطاب کیا ۔ کیپ ٹاؤن کے مئیر نے جوابی خطاب میں علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃُ اللہ علیہ کو "سفیرِ اسلام " کے خطاب سے مخاطب کیا ۔ 1979ء میں علامہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ نے برمنگھم (برطا نیہ) میں منعقدہ عظیم الشان نظام مصطفیٰ کانفرنس میں شرکت کی ۔ فروری 1980ء میں امریکہ کے شہر نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ہال میں "اسلام کی ہمہ گیر یت" کے موضوع پر خطاب کیا ۔ یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر نے علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃُ اللہ علیہ کی تقریر سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ۔ (چشتی)

علامہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ نے ملکی سیاست کی ابتدا جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے کی اور تا دم و اپسیں اسی پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے ۔ آپ نے دوسروں کی طرح جمعیت میں کوئی دھڑا بنایا اور نہ کبھی کسی گروپ بندی کی حوصلہ افزائی کی ۔ مخلص اور بے لوث کارکن و رہنما آپ کےلیے باعث فخر ہوتے تھے ۔ آپ 1973ء میں خانیوال کے کنونشن میں جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ منتخب ہوئے ، اس وقت کے تمام علمائے اہلسنت نے آپ پر ا پنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ۔

آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے جمعیت علما ئے پاکستان کو حکمرانوں کے دربار سے نکال کر عوام تک پہنچایا ۔ علامہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ کے دورِ صدارت سے جمعیت کو اب مجاہدین کی جماعت ، کردا ر و گفتار کے نمازیوں کی تنظیم ملک و ملت پر مرمٹنے والے افراد اور نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شیدائیوں کے نام سے یا د کیا جانے لگا ۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے ’’امام برحق‘‘ کا کردار ادا کیا ۔ اور خادمین کو اپنے اقوال میں افعال سے ہمیشہ متحرک رکھنے کی بھر پور کوشش کی ۔ مگر افسوس سیاسی طور پر آج اہلسنت بکھر چُکی ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنا لی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب اپنی عظیم سیاسی جماعت جمیعت علماۓ پاکستان کے جھنڈے تلے جمع ہوتے مگر ہاۓ قیادت کی بھوک و ہوس نے سنیت کی قوت کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا ۔ نشیمن جل رہا ہے ۔ تنکا تنکا بکھر رہا ہے مگر قاٸد کہلانے کے بھوکوں اور ہوس پرستوں کو اس کی بالکل فکر نہیں ہے ۔ اِس تلخ نواٸی پر فقیر چشتی کو معاف کیجیے گا جس کا دل زخمی اور جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے ۔ کاش اکابرینِ اہلسنت فکر کریں ۔

امام نورانی رحمۃُ اللہ علیہ نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں عقیدۂ ختم نبوت پر اظہار خیال کیا ۔ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ کے بعد قائدِ اہلِ سنت کی ذات گرامی جسے دنیا بھر کے افراد چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ہوں ، ایک سنی امام و رہنما سے جانتے ہیں ۔ آپ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے مدارسِ اہلِ سنت کی نمائندہ تنظیم ، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کو رجسٹرڈ کروایا ۔ (اسے بھی سنیت کے ٹھیکیداروں نے اپنا اپنا الگ بورڈ بنا کر کمزور کر دیا افسوس صد افسوس) جس کی وجہ سے اس کی اسناد کو حکومتی سطح پہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کی اس مساعی کے سبب علماء کو سرکاری ملازمتیں بھی ملنا شروع ہوئیں ۔ (چشتی)

امام نورانی رحمۃُ اللہ علیہ نے جون 1973ء کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں قادیانیوں اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اس ضمن میں مسورہ قانون کی تیاری میں بھی حصہ لیا ۔
1975ء میں ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ کی حیثیت سے مولانا عبدالستار خان نیازی اور دیگر علماء کے ہمراہ دنیا کا طویل ترین تبلیغی دورہ کیا جس میں آسٹریلیا کے علاوہ دنیا کے تمام براعظموں کے مختلف ممالک میں ایک لاکھ میل سے بھی زیادہ طویل سفر کر کے 400 سے زائد تبلیغی اجتماعات سے مختلف زبانوں میں خطاب کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کیا ۔ 1977ء تا 1988ء ضیاء الحق کی آمریت کا بھر پور مقابلہ کیا ۔1973ء کے آئینِ پاکستان کی منظوری اور اسے اسلامی بنانے میں فعال کردار ادا کیا ۔ سقوطِ ڈھاکہ سے قبل جنرل یحییٰ خان کو شراب نوشی پر برملا نشانہ تنقید بنایا ۔ اور وفاقِ پاکستان کو متحد رکھنے کےلیے ذوالفقار علی بھٹو کی دھمکیوں کے باوجود ڈھاکہ تشریف لے گئے اور فوجی کارروائی کے بجائے اقتدار کی منتقلی کےلیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی ۔ 1977ء میں بھٹو آمریت کو روکنے کےلیے پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیا اور تحریک نظامِ مصطفی کی کامیابی کےلیے کلیدی کردار ادا کرنے کے علاوہ طویل اسیری کی صعوبت بھی برداشت کی ۔

بھٹو آمریت کو روکنے اور سندھ میں لسانی سیاست کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے پر کئی قاتلانہ حملوں (لانڈھی اور لیاقت آباد جب آپ پر حملہ ہوا تو اس وقت یہ فقیر چشتی ان جلسوں میں موجود تھا) کا سامنا کیا لیکن آخر وقت تک اپنے مؤقف پر کبھی سودے بازی نہیں کی ۔ 1988ء تا1999ء کے دوران پارلیمنٹ سے باہر رہ کر بھی جے یو پی اور مختلف محاذوں کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور اتحادِ اسلام کےلیے اپنا فعال کردار ادا کرتے رہے ۔ عالمی سازشوں کے تحت پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ کو روکنے کےلیے قومی ملی یکجہتی کونسل اور ملک کے نظریہ اسلام کے تحفظ اور تشخص کو برقرار رکھنے کےلیے دینی جماعتوں کا سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل قائم کے قیام میں حصہ لیا اور تا دمِ رحلت اسی اتحاد کے ذریعے دوسری بار ایوان بالا کے رکن اور پارلیمانی لیڈر رہے ۔ (چشتی)

امام شاہ نورانی رحمۃُ اللہ علیہ پاکستان میں نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیےاپنی آ خری سانس تک مصروفِ عمل رہے ۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے کارکنان کو ہمیشہ تشدد کے راستے سے دور رکھا ۔ مذہبی منافرت کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ۔ انہی خصوصیات اور سحر انگیر شخصیت کی وجہ سے تمام مکاتبِ فکر کے اکابرین ان پر مکمل اعتماد کرتے تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے ملک میں اسلامی نظا م کے نفاذ کی بھر پور جدو جہد کی ۔

انتقال سے چند بر س قبل آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے متحد ہ مجلس عمل کی صور ت میں مذہبی قوتوں کو ایک مرتبہ پھر متحد کیا جس کی قیادت کی ذمہ داری بھی متفقہ طور پر آپ کو سونپی گئی ، آپ رحمۃُ اللہ علیہ کی قیادت میں اس اتحاد کو عوام میں بھر پور پزیرائی حاصل ہوئی اور 2002 کے عام انتخابا ت میں یہ اتحاد ایوانوں میں واضح قوت بن کر سامنے آیا ۔ شوال کے مہینے میں11 دسمبر 2003 کا سورج عالمِ اسلام کو غمگین کر گیا ۔ اس دن علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃُ اللہ علیہ رحلت فرما گئے امام نورانی رحمۃُ اللہ علیہ پاکستان کی سیاست میں قائدِ اہل سنت کی حیثیت سے داخل ہوئے اور قائد ملت اسلامیہ کی حیثیت سے 11 دسمبر 2003 کو اچانک 78 سال کی عمر میں اس دار فانی سے اس وقت رخصت ہوئے جب پارلیمنٹ میں مشرف کو اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کی راہ میں امام نورانی رحمۃُ اللہ علیہ کی شخصیت کو ہمالیہ کی طرح رکاوٹ بنی ہوئی تھی ۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ کا جنازہ پاکستان کی تار یخ کا عظیم بڑاجنازہ تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔