اہلسنت کی تنظیم دعوتِ اسلامی کی تاریخ و تذکرہ بانیان حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے حصہ اول پڑھ لیا ہو گا جس میں فقیر نے عرض کیا تھا کہ اس تحریک کو بنانے میں ہمارے اکابرینِ اہلسنت کا اہم کردار ہے جس میں سرِ فہرست جس عظیم المرتبت شخصیت کا نام شامل ہے وہ رئیس القلم مناظر اسلام مصنف کتب کثیرہ حضرتِ علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ذات بابرکات ہے علاوہ ازیں دیگر بھی کئی بزرگ شامل ہیں اُن میں سے اہم شخصیات کا تذکرہ پیشِ خدمت : ⬇
خلیفہ قطب مدینہ،تلمیذ صدر الشریعہ، قائد ملت، رئیس القلم ،مناظر اسلام علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ
نام : غلام رشید تخلص ارشد ہے اور یہ تخلص اتنا مشہور ہوا کہ لوگوں اصل نام ہی نہ جان سکے ۔
ولادت باسعادت : آپ کی پیدائش بتاریخ 5 / مارچ 1925ء ضلع بلیا اترپردیش کے ایک معمولی مگر بزرگوں کا عقیدت مند گاؤں “رشید پورہ” کےایک دینداراورعلم دوست گھرانے میں ہوئی.والد بزرگ وار حضرت مولانا شاہ عبد اللطیف رشیدی علیہ الرحمہ کی آغوش محبت میں پروان چڑھے ۔ جد امجد حضرت مولانا عظیم اللّٰہ علیہ الرحمہ کی تربیتوں کی گھنیری چھاوں میں آپ کا علمی جوہر خوب نکھرا ۔ والد ماجد سلسلہ رشیدیہ کے بزرگ حضرت شاہ عبد العلیم آسی علیہ الرحمہ سے شرف ارادت رکھتے تھے.شاید اسی وجہ سے آپ نے اپنے فرزند ارجمند کانام غلام رشید رکھا جو بعد میں ارشد القادری بن کر خلق خدا کی رشد وہدایت کا روشن منارہ ثابت ہوا ۔
تعلیم و تربیت : 1930ء میں رسم بسم اللّٰہ خوانی ہوئی.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی .اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے الٰہ آباد, بریلی شریف اور ناگپور کا سفر کیا .علمی اضطراب بڑھا تو مرکز علم وفن ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رخ کیا اور تقریبا آٹھ سالوں تک بڑی عرق ریزی ,جگر کاوی اور جاں سوزی کے ساتھ ابو الفیض حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ,حضرت علامہ سلیمان بھاگل پوری علیہ الرحمہ ,علامہ عبد المصطفٰی ازہری علیہ الرحمہ اور دوسرے متبحر علما کے خرمن علم وفضل سےخوشہ چینی کی ۔
دستاربندی : 1944ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سالانہ جلسہ میں عباقر اہل سنت کے مقدس ہاتھوں آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی.
درس و تدریس : چشمہ علم و حکمت سے اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد آپ نے تدریسی میدان میں قدم رنجہ فرمایا اور باستثناے تبلیغی اسفار 1945ء تا2001ء مختلف مدارس میں نہایت ذمہ داری,تندہی اور کمال مہارت کے ساتھ تشنگان علوم نبوت کو سیراب کرتے رہے.جن درس گاہوں کی مسند درس وتدریس پر جلوہ فگن ہوکر آپ نے علم وحکمت کے موتی لٹاے ان میں سرفہرست شمس العلوم ناگ پور،مہاراشٹر اور مدرسہ فیض العلوم جمشید پور ، جھارکھنڈ ہیں ۔ شہر آہن جمشید پور کو جب سے آپ کی قدم بوسی نصیب ہوئی ،دین وسنت اور علم وفضل کے لحاظ سےاس کا بخت خفتہ بیدار ہوا.آپ کی نگاہ کیمیا اثر نے اس کی تقدیر ہی بدل دی.جہاں لادینیت اور بد مذہبیت پنپ رہی تھی,آپ کی مساعی جمیلہ اور بے پناہ تگ ودو کی برکتوں سے ہر طرف سنیت کی بہاریں قائم ہو گئیں . آپ کی محنتوں کا ثمرہ مدرسہ فیض العلوم دانش وبینش کا ایسا درخشندہ سورج ہے جس کی تجلیوں سے بے شمار افراد کی جہالتوں کے پردے چاک ہوے اور تا ہنوز ہو رہے ہیں ۔ اس کے خوانِ علم و عرفان سے مستفیض افراد ملک و بیرون ملک میں پورے علمی طنطنہ اورفنی ہمہمہ کے ساتھ تدریسی ، تنظیمی اور دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں اور علم وعمل کی کرنوں سے حیات سنیت اور کائنات محبت وعقیدت کو منور وتاباں کر رہے ہیں ۔
تلامذہ : نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں حضور قائد اہل سنت علیہ الرحمہ کی بافیض بارگاہ سے شعور وآگہی اور فکروفن کی دولت حاصل کرنے والے تلامذہ کی تعداد بقول خلیل احمد رانا آٹھ ہزار کے قریب ہے.فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جیسی عبقری اورقد آورشخصیت آپ کے تلامذہ کی صف میں شامل ہیں ۔
بیعت و خلافت :خلیفہ اعلی حضرت صدر الشریعہ مصنف بہار شریعت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے آپ کو ارادت کا شرف حاصل ہوا.قطب مدینہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت مولانا ضیاء الدین مہاجر مدنی علیہ الرحمہ اور سرکار پٹنہ حضرت سید شاہ فدا حسین علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت ملی ۔
مساجد ومدارس اور تنظیموں کا قیام : خالق کائنات ومالک شش جہات نے آپ کو بے پناہ تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا.دین وملت کے فروغ واستحکام اور بکھری ہوئی قوم مسلم کی شیرازہ بندی کا جذبہ بے کراں آپ کی شریانوں میں لہو کے ساتھ گردش کرتا تھا ۔ آپ آفاقی فکر و نظر کے حامل , پُرعزم حرکت وعمل کی چلتی پھرتی تصویر,جہد مسلسل کے خوگر,سعی پیہم کے عادی , اخلاص و وفا کے پیکر جمیل , علم وحکمت کے بحر نا پیدا کناراور عمل وکردار کے سیل رواں تھے.آپ کے دل میں مسلک حق کی ترویج واشاعت اور دین پاک کی دعوت وتبلیغ کا جذبہ فراواں موجزن تھا ۔ ہر وقت اسلام کے ارتقا اور مسلمانوں کی زبوں حالی کوخوش حالی میں بدلنےکی فکر میں مصروف رہتے.آٹھوں پہر اپنوں کے لیے سوچتے رہتے.ملت کی تعمیر وترقی کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے.جماعت کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو روتے اور مذہب ومسلک کی زلف برہم کی مشاطگی کے لیے ہمیشہ فکرمند اور سرگرم عمل رہتے ۔ آپ نے قوم وملت کی تعمیر وترقی کے لیے نہ صرف افکار ونظریات پیش کیے بلکہ مختلف ممالک کا سفر کرکے تعلیمی اور تبلیغی ضروریات کی تکمیل کےلیے متعدد مساجد و مدارس اور تنظیوں کی طرح ڈالی اور ہچکولے کھاتی کشتی ملت کو ساحل مراد سے ہم کنار کرایا ۔
آپ کا شمار ان سربر آوردہ شخصیات میں ہوتا تھا جھنوں نے بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں اپنی لازوال اور بے لوث خدمات سے گلشن ملت کو سرسبز وشاداب بنایا اور جن کی سعی جمیل اور خدمات جلیلہ کے بطن سے ملک وبیرون ملک میں کئی ایک تبلیغی مراکز اور ایسے مدارس ومساجد وجود میں آئیں جن کی عطر بیز خوشبووں سےروح اسلام وجد کر اٹھی اور جن کی خدمات دین متین کی رعنائیوں کو دیکھ کر دنیاے اہل سنت جھوم اٹھی ۔ آپ کے قائم کردہ مدارس ومساجد اور تنظیوں کی مجموعی تعداد تین درجن سے زائد ہے .ان میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی,جامعہ مدینة الاسلام ہالینڈ,اسلامک مشنری کالج انگلینڈ,دارالعلوم علیمیہ ,سرینام امریلکا,مدرسہ فیض العلوم,جمشید پور,دارالعلوم ضیاء الاسلام ہوڑہ کولکاتا,الجامعةالقادریہ اسلامی مرکز رانچی ,ادارہ شرعیہ پٹنہ,ادارہ شرعیہ رانچی,ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ,علمی دعوتی واصلاحی تحریک دعوت اسلامی ,مکہ مسجد,مدینہ مسجد ,جمشید پور,مسجد غوثیہ رانچی سرفہرست ہیں ۔
تالیف و تصنیف : قسام ازل نے جہاں آپ کو خطابت,ردومناظرہ,درس وتدریس اور تدبیروتنظیم کا ملکہ عطا فرمایا تھا وہیں انشاپردازی اور تالیف وتصنیف کا جوہر بھی عطا فرمایا تھا.آپ ایک عدیم النظیر مفکر,بے مثال مناظر,عظیم دانشوراور باشعور قائد ہونے کےساتھ ساتھ بلند پایہ ناقد,مستند ادیب,دیدہ ور محقق اور صاحب طرز انشا پرداز تھے ۔ آپ کے قلم حق رقم سے علوم ومعارف کے ایسےچشمے ابلے جن سے فکر وآگہی کے پژمردہ چمن” لالہ زار”بن گئے.باطل پرستوں کے ایوانوں میں”زلزلہ” “آیااورشان الوہیت ورسالت میں گستاخیاں کرنے والوں کی بنیادیں “زیرو زبر”ہوگئیں”دہلی سے سہارن پور کا سفر”کر کے بد عقیدوں کی قلعی کھول دی.” جماعت اسلامی”اور” تبلیغی جماعت”کے چہروں سے تلبیس کی چادر ہٹاکر قوم مسلم کو” دعوت انصاف “دیا ۔
عقیدہ توحید”,” عقیدہ علم غیب”اور” رسالت محمدی” کے ثبوت پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار لگاکر ” دور حاضر کےمنکرین رسالت*”کا ناطقہ بند کردیا.قرآن کی روشنی میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ورفعت کے بیان پر مشتمل رسالہ محمد رسول اللّٰہ قرآن میں”لکھ کر سچے عاشق رسول ہونے کا ثبوت پیش کیا ۔
” تفسیر ام القرآن”اور فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام”تحریرفرما کر اس فن شریف میں دل چسپی رکھنے والوں کےلیے معلومات کا بیش بہا خزانہ پیش کیا. تاریخ فقہ حنفی”اور” تاریخ فن حدیث”کی صورت میں تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو گراں قدر علمی سرمایہ عطا کیا ۔
مختصر یہ کہ آپ کے قلم سیال نے جس وادی کارخ کیا اسے خوب عمدگی سے سیر کیا.جس حق کو چاہا اس کا چہرہ نکھار کر رکھ دیا اور جس باطل پر کمند ڈالی اس کے پرخچے اڑادیے.زلف وزنجیر,انوار احمدی,دل کی مراد,جلوہ حق,نقش کربلا,لسان الفردوس,مصباح القرآن,سرکار کا جسم بے سایہ اور تعزیرات قلم کے پیکر میں علوم ومعارف کا گنجینہ قوم کو عطا کیا ۔ آپ کی نگارشات علم وادب کی شاہکار,فکروآگہی کا سنگم,پرکشش زبان وبیان کا مخزن,تنقیدو تبصرہ کی دستاویز,تحقیق وتدقیق کا سر چشمہ,ملی دردو کرب کا آئینہ,احقاق حق اور ابطال باطل کا خوب صورت نمونہ ہیں ۔ انشا پردازی میں آپ کا وہ ہنر جس نے علمی اور ادبی حلقوں میں آپ کو نمایاں مقام عطاکیا اور ارباب علم ودانش سے خوب دادو تحسین کے تمغے حاصل کیے , وہ ہے آپ کی سحر انگیز ,جاب فکر ونظر اور دلربا طرز تحریر.آپ کے رشحات قلم اس قدردل کش اور ادبی محاسن وکمالات سے آرستہ ہوتے ہیں کہ پڑھیے تو پڑھتے ہی رہیے,اکتاہٹ ارو اچاٹ پن کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ آپ نے معانی ومفاہیم کو اس دل آویزی اور ادبی پیراے میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ خشک سے خشک مضمون بھی دل برداشتگی اور تنگئ خاطر کا سبب نہیں بنتاہے.قوت استدلال ,بلندئ فکر,اسلوب نگارش,شعور کی پختگی,مذہب وملت کے تئیں اخلاص ووفا اور معانی ومفاہیم کی کثرت وفراوانی کے لحاظ سے آپ کا زرنگار قلم اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے.آپ کی تحریریں جہاں اپنوں کے لیے نسیم سحر کی سی ٹھنڈک فراہم کرتیں وہیں دشمنوں کے لیے شمشیر براں,برق تپاں اور سوہان روح ہوا کرتی تھیں ۔
نعتیہ شاعری : حضور قائدِ اہلِ سنت کی شخصیت گوناگوں خوبیوں کی حامل تھی ۔ جہاں آپ فقید المثال نثر نگار,نادر روزگار انشاپرداز اور صاحبِ طرز ادیب تھے وہیں آسمان شعروسخن کے بدر منیر بھی تھے.جہاں آپ نے نثری صنف سخن کے زلف برہم کو سنوارااور اس کے عارض تاباں پر غازہ ملا وہیں اپنی قندیل شعور وآگہی سے جہان شعروسخن کو بھی روشنی بخشی اور شریعت طاہرہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شاعری کے ذریعہ گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطا کی ۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا طرہ امتیاز اور نشان افتخار تھا.محبت مصطفوی کی آپ نے ایسی بادہ خوری کی تھی کہ ہر وقت اس کی سرمستیوں سے سرشاراور بے خودرہا کررتے تھے.اسی بے لوث محبت اور عشق صادق کا فیضان تھا کہ آپ ہر محاذ پر نہایت پامردی اور ثبات قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے.سد سکندری بن کر باطل قوتوں سے پنجہ آزمائی کی اور ہر جگہ فتح وکامرانی کا پرچم لہرایا ۔ آپ نےعشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی شاعری کا مرکز ومحور قراردیاتھا.آپ کاقلم عشق رسول صلی اللہ علیہ کے شعلہ سوزاں میں تپ کر کندن ہوچکا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے نوک قلم سے نکلا ہوا ایک ایک شعر بزم عشاق کی جھلملاتی شمع کو فروزاں کرتاہے.آپ نے اپنی شاعری میں جذبہ محبت وعقیدت کا ایسا پھول کھلایا جس کی نکہت اور دل کشی نے تشنہ کام محبت کے لیے متاع تسکین فراہم کیا ۔
آپ نے ایک عاشق دل گیر کے پیکر میں سرور عاشقاں علیہ التحیة والثناء کی بارگاہ میں نذرانہ محبت وگلہاے عقیدت نچھاور کرتے ہوے عشق وایمان کی ایسی جوت جگائی ہے کہ ایک ایک شعر کو پڑھنے اورسننے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم مدینہ طیبہ کی پر بہار فضاوں میں سانس رہے ہیں.ہر طرف رحمت ونور کی جھماجھم بارش ہو رہی ہے اور ہم جلوہ محبوب کی یادوں میں نہارہے ہیں ۔ آپ کی شاعری زبان وبیان کی نزاکت ولطافت,خوب صورت الفاظ کی بندش,سحر طرازی,طلاقت لسانی,سلاست زبانی,تغزل کا بانکپن,طرزادا کی دل آویزی,اسلوب بیان کی دل کشی,مضامین کی آوردگی وروانی,اور مطالب کی شگفتی وبرجستگی جیسی اعلی خصوصیات کی حامل ہے.آپ کی نعتوں کا مجموعہ آپ کے فرزند علامہ غلام زرقانی مدظلہ العالی کی کاوش سے بنام” اظہار عقیدت”زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے ۔
ردومناظرہ : یوں تو رئیس القلم علیہ الرحمہ کو شاعری , درس و تدریس , تصنیف وتالیف,تبلیغ وارشاد سب میں اعلی دست گاہ حاصل تھی مگر فن مناظرہ میں آپ کو جو نشان امتیازاور نمایاں مقام حاصل تھاماضی قریب میں اس کی نظیر نہیں ملتی.اس فن میں آپ یکتاےروزگار اور درنایاب تھے.حضور حافظ ملت,حضور مجاہدملت اور دیگر بزرگوں کی دعاے سحرگاہی اور نگاہ پر تاثیر نے آپ کو اس میدان کا ماہر شہ سوار بنا دیا تھا ۔ فن مناظرہ سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی خارداراور دل سوز وادی کی آبلہ پائی کے لیے صرف علوم اسلامیہ اورفنون دینیہ میں مہارت کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تجربہ کاری,دقیق نظری,حاضردماغی,حاضر جوابی ,ژرف نگاہی,وسعت مطالعہ,غیر معمولی قوت حافظہ,تاریخ واحوال زمانہ سے آگہی,اپنے اور مد مقابل کے علما کی تصانیف پر گہری نظر,معقولات ومنقولات میں تبحر,زبان وبیان پر کامل قدرت,حریف کی شاطرانہ چالوں سے باخبری,اس کی کمزوری پر نظر , تحقیقی و الزامی جواب کا ملکہ,حملہ ودفاع کا بر وقت فیصلہ , استحضار علمی اور بیدار قلبی جیسے اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مناظر اہل سنت علامہ موصوف علیہ الرحمہ کی کتاب حیات میں یہ تمام اوصاف وکمالات بدرجہ اتم موجود تھے.یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر محاذ پر جماعت اہل سنت کی کامیاب نمائندگی اور پر زور وکالت کرتے ہوے میدان مناظرہ کے جاں گسل اور جاں گداز مراحل کونہایت کامرانی اور شیر دلی کے ساتھ طے کیا ۔
باطل قوتوں کے مقابل سینہ سپر ہوکر ان کے ہفوات,گمراہ کن افکارونظریات اوران کےمزعومات باطلہ کا دنداں شکن جواب دیا اور بتوفیق ایزدی حق کا چہرہ آفتاب سے زیادہ روشن کیا.مسلک حق مسلک اعلی حضرت پر کیے جانے والے اعتراضات اور حملوں کا نہ صرف دفاع اور مقابلہ کیا بلکہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوے مخالفین ومعترضین کو ان کے گھر کا آئینہ بھی دکھایا ۔ فقیر چشتی کی معلومات کے مطابق آپ نے آٹھ مناظرے کیے اور سب میں فتح مبیں کا تاج آپ کے سر پر سجا.باطل جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی اور راہ فرار کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی ۔
آپ کے مناظرےکی اجمالی فہرست درج ذیل ہے : ⬇
(1) 1954ءمیں مناظرہ جمشید پور ۔
(2) مناظرہ چھپرہ , بہار ۔
(3) مناظرہ امراوتی , مہاراشٹر ۔
(4) 1966ء میں مناظرہ بولیا , راحستھان ۔
(5) 22,23,24/اپریل 1978ء میں مناظرہ جھریا,دھنباد ۔
(6) 23/دسمبر1978میں مناظرہ کٹک ,اڑیسہ ۔
(7) مناظرہ برار,ضلع ایوت,مہاراشٹر ۔
(8) مناظرہ اربڑا,ضلع مالدہ,بنگال ۔
نوٹ : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو حضرت سے دارالعلوم امجدیہ کراچی پاکستان جب آپ تشریف لاۓ اس وقت فقیر 1990 ، 1997 صدر میں خطیب متعدد بار شرفِ ملاقات حاصل رہا جس میں حضرت نے کچھ کتب کا فرمایا ان میں قاری طیب دیوبندی کی خطبات حکیم الاسلام قدیم حضرت کو مطلوب تھی حوالہ جات کےلیے اور وہ فقیر کے پاس موجود تھی فقیر نے مکمل جلدیں پیش کیں تو حضرت دو سے تین دن میں مطالعہ فرما کر یہ ارشاد فرماتے ہوۓ واپس فرما دی کہ مطالعہ کر کے مطلوبہ حوالہ جات لے لیے ہیں اس سے آپ ان کی قوتِ مطالعہ و حافظہ کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
وصال پر ملال : 15/صفر1423ھ مطابق29/اپریل2002ءبروز پیر دہلی میں شام 4/بج کر 35/منٹ پر علم وفن اورعزیمت واستقامت کا یہ آفتاب ہمیشہ کےلیے غروب ہو گیا ۔
ممتاز قادرالکلام شاعر محمد عبد القیوم طارق نے” جمیل گلشن رضا”سے عیسوی سن وصال (2002ء)اخذ کیاہے اور قطعہ کے پیکر میں ہجری سن وصال یوں بیان کیا ہے : ⬇
وہ خوش نصیب تھا,اخلاص تام سے اس نے
تمام عمر گزاری بہ پاس فکر رضا
اس ارشد چمن رضویت کا طارق نے
سن وصال کہا ہے”اساس فکر رضا”(1423ھ)
(بحوالہ رئیس القلم نمبر جام نور دہلی)
استاذ المکرم غزالیِ زماں، رازی دوراں ، مترجم قرآں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی علیہ الرحمہ
نام و نسب
اسم گرامی: سید احمد سعید شاہ کاظمی۔
کنیت :ابوالنجم۔
لقب : غزالیِ زماں، رازی دوراں، امام اہل سنت۔
سلسلۂ نسب : اس طرح ہے: غزالیِ زماں سید احمد سعید شاہ کاظمی بن حضرت سید مختار احمد کاظمی بن حافظ سید یوسف علی شاہ چشتی قادری بن مولانا سید وصی نقشبندی مجددی قادری بن محمد مولانا سید شاہ صبغت اللہ نقشبندی مجددی چشتی صابری بن مولانا سید شاہ سیف اللہ چشتی قادری بن مولانا سید میرمحمد اشرف دہلوی ثم امروہی۔الیٰ آخرہ۔ علیہم الرحمہ۔
آپ کا سلسلہ نسب 44 واسطوں سے سرورعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے ۔ (حیاتِ غزالیِ زماں:33)۔
آپ حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللّٰه عنہ کی اولاد سے ہیں۔ اس لئے’’کاظمی‘‘ کہلاتے ہیں۔
غزالیِ زماں، رازی ِدوراں کی وجہ تسمیہ
محدث اعظم ہند ، وحید العصر، قدوۃ العلماء حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللّٰه علیہ نےعلماء کرام کی مجلس جس میں کثیر علماء کرام و دانشوران کی تعداد، اور عوام کا ایک جم غفیر موجودتھا، میں ’’غزالیِ زماں، رازیِ دوراں‘‘ کا خطاب عطاء فرمایا۔ علماء کرام اور عوام نے فلگ شگاف نعروں کے ساتھ حضرت محدث کچھوچھوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قول کی تصدیق کی، اس وقت سے آج تک یہ القاب حضرت علامہ کاظمی رحمۃ اللّٰه علیہ کا عرف قرار پائے ہیں ۔ (حیاتِ غزالیِ زماں صفحہ 86،چشتی)
تاریخِ ولادت
آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 4؍ربیع الثانی 1331ھ،مطابق 13؍مارچ 1913ء ،بوقت صبح چار بجے، محلہ کٹکوئی شہر امروہہ، ضلع مرادآباد (انڈیا) میں ہوئی۔ (اب امروہہ ایک مستقل ضلع بن چکا ہے ۔ (انسائیکلوپیڈیا)
تحصیلِ علم
آپ ایک علمی خاندان کے روشن چراغ ہیں۔ آپ کا خاندان علم و فضل، زہد و تقویٰ میں پورے ہندوستان میں معروف تھا۔ بچپن میں والد گرامی کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔ تمام تر تعلیم وتربیت اپنے برادر بزرگ، محدث جلیل حضرت علامہ مولانا سید محمد خلیل محدث امروہوی علیہ الرحمہ سے حاصل کی۔ وہ مدرسہ بحرالعلوم شاہ جہاں پور میں مدرس تھے، اور حضرت علامہ کاظمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ امام اہل سنت نے 16سال کی عمر میں 1348ھ مطابق 1929ء میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ امروہہ سے سند فراغ حاصل کی۔ شیخ المشائخ، ہم شکل غوث الاعظم حضرت شاہ علی حسین اشرفی رحمۃ اللّٰه علیہ نے دستار فضیلت باندھی، اس تقریبِ سعید میں حضرت صدرالافاضل حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللّٰه علیہ، مناظر اسلام حضرت مولانا نثاراحمد کانپوری بن علامۂ زماں مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللّٰه ودیگر جید علماء شریک تھے۔جنہوں نے آپ کو خصوصی دعاؤں سے نوازا۔
بیعت و خلافت
اپنے برادر بزرگ، محدثِ شہیر، عالمِ کبیر، استاذ العلما الراسخین حضرت مولانا سید محمد خلیل چشتی صابری محدث امروہوی رحمۃ اللّٰه علیہ کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے
تصنیف و تالیف
آپ کی مایہ ناز تصانیف میں سے
میلادالنبی
توحید اور شرک
حیات النبی
خطبات کاظمی
مقالات کاظمی ۳ جلد
گستاخ رسول کی سزا کو آج بھی نقش دوام کا درجہ حاصل ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کا قرآن کریم کا ترجمہ بنام ترجمہ البیان آپ کی علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے
قومی ملی خدمات
ملت اسلامیہ کو جب بھی کوئی مشکل مرحلہ پیش آیا۔غزالئی زماں نور اللہ مرقدہ نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا
۔1946ء میں “آل انڈیا کانفرنس“میں علما و مشائخ کے وفد کے ساتھ شریک ہوئے اور مطالبہ پاکستان پر پرزور حمایت کی علما و مشائخ اہل سنت کی حمایت پر پاکستان معرض وجود میں آیا قائد اعظم محمد علی جناح سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا
آپ نے تحریک پاکستان ،تحریک آزادی ،تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حصہ لیا ۔تمام عمر مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفط اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نفاذ کے لیے کوشاں رہے
وصال
بروز بدھ ۲۵ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ بمطابق 4 جون 1986ء کو افطاری کے بعد واصل باللہ
مزار گوہربار
شاہی عیدگاہ مدینہ الاولیاء ملتان شریف میں مرجع خلائق
استاذ المکرم شہزادہ و جانشین صدر الشریعہ ،خلیفہ مفتی اعظم ہند، استاذ العلماء ،شیخ الحدیث والتفسیر علامہ مفتی عبد المصطفی الازہری قادری رضوی علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث جامعہ امجدیہ کراچی پاکستان
اسمِ گرامی
علامہ محمد عبد المصطفیٰ الازہری۔
القاب شیخ الحدیث، نائبِ صدر الشریعہ تخلص : ماجد۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: فاضلِ اجل حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری بن صدر الشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی (صاحبِ بہارِ شریعت) بن علامہ جمال الدین بن مولانا خدا بخش (رحمہم اللہ)
تاریخِ ولادت
آپ کی ولادت باسعادت ابتداءِ ماہِ محرم الحرام 1334ھ مطابق ماہِ نومبر1915ء کو’’بریلی شریف‘‘ انڈیا میں ہوئی۔
بارگاہ اعلیٰ حضرت میں
جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت حضرت صدر الشریعہ ’’منظرِ اسلام‘‘ بریلی میں مدرس تھے۔ولادت کے ساتویں دن عقیقے کے موقع پر حضرت صدرالشریعہ آپ کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں لےگئے،نام تجویز کرنے اور دعا کی درخواست کی۔اعلیٰ حضرت نے نومولود کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا۔آپ نے بچے کی پیشانی پر بوسہ دیااور دم فرمایا۔بچے کےنام میں ’’عبد المصطفیٰ‘‘ کا اضافہ تجویز فرمایا، اور حضرت صدرالشریعہ کو پیش گوئی فرمائی کہ تمھارا یہ بیٹا بہت ہی ذہین اور بہت ہی عظیم ہوگا،اور انشاء اللہ یہ تمھارا نائب،عالم وفاضل بنے گا،اور جہاں تک نام کا تعلق ہے تو میں اپنا نام آپ کے بیٹے کو دیتا ہوں۔(شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ الازہری: 105)
تحصیلِ علم
آپ نے قرآن مجید اپنے مولِد بریلی شریف کے دارالعلوم منظرِ اسلام میں مولانا محدث احسان علی مظفر پوری علیہ الرحمہ سے پڑھا۔پھر والد ماجد علیہ الرحمہ کے جامعہ عثمانیہ اجمیر شریف میں مدرس مقرر ہونے پر علامہ ازہری نے اپنے آبائی وطن قصبہ گھوسی اعظم گڑھ میں محلہ کریم الدین کے مکتب میں اُردو سیکھی۔
حضرت علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو 1926ء میں آپ کے والد مکرم نے جامعہ عثمانیہ (اجمیر شریف) بلالیا۔ جہاں آپ نے کتب فارسی مولانا عارف بدایونی سے پڑھیں۔علومِ عربیہ اسی مدرسہ میں مولانا حکیم عبدالمجید، مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئی سواتی سے حاصل کی، اور اکثر علوم و فنون ابتدا سے انتہا تک اپنےوالد مکرم سے پڑھے۔ جب حضرت صدر الشریعۃ علیہ الرحمہ دوبارہ بریلی شریف جانے لگے تو علامہ ازہری علیہ الرحمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ازہر قاہرہ (مصر) بھیج دیا۔ چنانچہ حج کی ادائیگی اور زیارت روضۂ رسول علیٰ الصلوٰۃ والسلام سے فراغت کے بعد جامعہ ازہر تشریف لے گئے، اور تین سال جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے جامعہ کی طرف سے دو سندیں ’’شہادۃ الاہلیۃ، وشہادۃ العالیہ‘‘ حاصل کیں۔(مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء:462)۔
بیعت وخلافت
علامہ ازہری نے بچپن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان محدث بریلوی نور اللہ مرقدہ کے دست پاک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیاتھا اور جوانی میں مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان بریلوی اور صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی کی طرف سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و خلافت حاصل کی۔
سیرت وخصائص
آپ یادگارِ اسلاف،اور شریعتِ محمدیہ کا نمونہ تھے۔آپ کے تمام امور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سانچے میں ہوتےتھے۔ عظیم باپ کے عظیم فرزند ِ ارجمند تھے۔آپ نے حضرت ِ صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی نور اللہ مرقدہ کی نیابت و جانشینی کا صحیح حق ادا کیا۔حضرت شیخ الحدیث مملکتِ پاکستان کے بطلِ جلیل، اسلام کے عظیم سپاہی،دین ومسلک کے شاندار قائد، قرآن وحدیث، فقہ، علوم ِ عربیہ، اور فنونِ اسلامیہ کے بحرِ ذخار، صوفی و درویش صفت، فاضلِ مدینہ، بغداد،اجمیر، بریلی اور جامعہ ازہر کی بارگاہوں اور درس گاہوں کے طالب ِ علم و خوشہ چیں،سلفِ صالحین کے کردار کا عکسِ جمیل، عاشقِ محبوبِ خدا،شیدائے غوث اعظم، و امام اعظم،محبِ اعلیٰ حضرت،محبوبِ مفتیِ اعظم تھے۔
پچاس سال تک مسندِ درس وتدریس پرقال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے رہے (فقیر چشتی کو تین سال تک شرفِ تلمذ کی سعادت نصیب ہوٸی) ۔اسی طرح آپ دارالعلوم امجدیہ کے شیخ الحدیث، جماعتِ اہل سنت پاکستان کے صدر،جماعتِ اہل سنت اور جمعیت علماء پاکستان کے بانی رکن،ممبر قومی اسمبلی، رکن مجلس شوریٰ، اور بے شمار دینی ومذہبی انجمنوں، اداروں کے سرپرستِ اعلیٰ تھے۔آپ کی پوری زندگی ہوش سنبھالنے سے حیاتِ مستعار کی آخری سانس تک ایک تحریک، ایک انجمن، انقلابِ مصطفوی، عشقِ محمدی، اور ترویج و اشاعت مذہبِ حق کی ایک عظیم کاوش اور جہد ِ مسلسل سے عبارت ہے۔
عادات و خصائل
خوش مزاج، ظریف الطبع، سادگی، تواضع، وقار علمی،مگر درویشی و استغنا لیے ہوئے، قناعت پذیر، ہر دم مسلک کی اشاعت کی دھن، کوہِ استقامت، باہمت، اور بڑے باحوصلہ،خود نمائی سے گریز مگر علم کی بے عزتی ناگوار،گھریلو معاملات کے ہر جز سے با خبر،اور اہل خانہ کی ضروریات کا انتظام خود فرماتے،مہمان نواز،بات میں بات پیدا کرنا اور وہ بھی ندرت کے انداز میں حاضر جوابی کےساتھ ان کی ذہانت کا زندہ ثبوت تھا۔بہت ہی با اخلاق شریف النفس، بڑوں میں بڑے،چھوٹوں میں چھوٹے،لیکن خود دار ایسے کہ اپنے علم و کردار،فضل وکمال ، اور دین ومسلک کو کبھی چند ٹکوں میں فروخت نہیں کیا۔
آپ علما کے قدردان، چھوٹوں پر مشفق و مہربان ، سادگی میں سلفِ صالحین کے نقش قدم پر تھے۔ مساکین کے دکھ درد ، خوشی و غمی میں ساتھی تھے ۔ حقوق العباد کی فکر تھی ، پڑوسیوں سے اخلاق و مروت سے پیش آتے تھے۔ سماجی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ تدریس کو عبادت سمجھتے تھے۔ لہذا طلبہ کی تعلیم و تربیت پر نہایت توجہ فرماتے تھے۔ وقت کی قدر ٹائم کی پابندی رکھتے تھے ۔ درس تدریس میں ناغہ نہیں کرتے روزانہ بلا ناغہ وقت سے پہلے پہلے پہنچ جاتے تاکہ پورا وقت طلبہ کی تعلیم پر صرف کیا جائے ۔
سیاسی کردار
آپ ساری زندگی نفاذِ نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے کوشاں رہے۔عام علما کی طرح صرف مسجد ودرس گاہ تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کوتخت پر لانے کےلئے مصروفِ عمل رہے۔حضرت مذہب کی طرح سیاست اور ملکی وبین الاقوامی حالات و معاملات پر گہری نظر رکھتےتھے۔ایک مرتبہ دورانِ تقریر فرمایا: ’’سیاست ہمارے لئے کوئی اجنبی یا انوکھا شعبہ نہیں،یہ تو دین ہی کا ایک شعبہ ہے،جس کی طرف ہم نے عملی توجہ کی ضرورت نہیں سمجھی،لیکن اس شعبۂ زندگی کے جو قائد بنے تھےوہ دین سے بیزار ی اور دوری کے باعث ناکام ہوچکے ہیں۔لہذا اب ہمیں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا، اور دستور ساز اسمبلی میں پہنچ کر نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا درس دینا ہوگا‘‘۔
دینی خدمات
قائدِ ملتِ اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ نے 1978ء کی ملتان سنی کانفرنس میں خطاب کرتےہوئے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کے متعلق فرمایا: ’’حضرت شیخ الحدیث،جانشین ِ صدرالشریعہ، سیاسی ہیں۔شکل و صورت دیکھ لیں، لمبا کرتا دیکھ لیں،عمامہ دیکھ لیں، اگر دل دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بھی دیکھ لیجئے،ان کے جسم کے ہر حصے سے عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نکلے گا۔بلکہ ان کے خون کے ہر قطرے میں محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روانگی ہوگی۔اگر یہ سیاست ہے تو ہم اس الزام کو قبول کرتےہیں‘‘۔(روئداد سنی کانفرنس)۔
آپ دومرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ملک و قوم کے لئے عظیم خدمات انجام دیں۔جن میں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردلوانے، قانون توہینِ رسالت،اور قانون شہادت، اسی طرح جمعۃ المبارک کی تعطیل اہم ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ممبر قومی اسمبلی بننے کے بعد بھی آپ کے رہن سہن میں کوئی فرق نہیں آیا۔آج بھی لوگ گواہ ہیں،جس مکان میں حضرت پہلے رہتےتھے ،بعد میں بھی اسے میں رہے۔اسی طرح آپ نے کسی قسم کی رعایت،کسی قسم کا لین دین،اور نہ ہی مراعات حاصل کیں۔ہمیشہ کی طرح روزانہ سعود آباد سے بذریعہ بس یا وگن دارالعلوم امجدیہ آیا کرتےتھے۔
تاریخِ وصال
16/ربیع الاول 1410ھ مطابق 18/اکتوبر 1989ء،بروز منگل،بوقتِ فجر، یہ جلالۃ العلم واصل باللہ ہوئے۔دارالعلوم امجدیہ کراچی میں آپ کا مزار مقدس ہے ۔ (بحوالہ حیات محدث کبیر)
استاذ المکرم خلیفہ صدرالشریعہ یادگار اسلاف مفتی اہل سنت استاذ العلما علامہ مفتی ظفر علی نعمانی بانی جامعہ امجدیہ علیہ الرحمہ
ولادت باسعادت
حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سید پور ضلع بلیا (بھارت) میں تولد ہوئے ۔
وجہ تسمیہ نعمانی
امام الامہ کاشف الغمہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ قدس سرہ سے محبت و نسبت کے سبب ’’ نعمانی ‘‘ اپنے نام کے ساتھ لکھتے تھے جو کہ نام کا حصہ بن گیا۔
خاندانی وجاہت
آپ کا خاندان متوسط درجہ کا علمی گھرانہ تھا اور مشغلہ تجارت رکھتے تھے ۔
تعلیم و تربیت
آپ نے پرائمری تعلیم سید پور میں حاصل کی ۔ اس کے بعد خلیفہ اعلی حضرت مولانا رحیم بخش رضوی علیہ الرحمہ کے مدرسہ فیض الغرباء شاہ پور صوبہ بہار میں داخلہ لیا ، قابل ترین اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں شرح جامی تک کتابیں پڑھ لیں ، اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے اہل سنت و جماعت کی نامور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مصباحالعلوم مبارکپورضلعاعظم گڑھ کا رخ کیا، وہیں داخلہ لے کر نصابی کتب کی تکمیل کے بعد ۱۳۵۱ھ ؍ ۱۹۴۲ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس درسگاہ میں دیگر علماء کے علاوہ حافظ ملت علامہ حافظ عبدالعزیز محدث مرادآبادی قدس سرہ سے خصوصی طور پر استفادہ کیا۔
بیعت و خلافت
آپ خلیفہ اعلی حضرت ، صدر الشریعۃ، علامہ مفتی امجد علی اعظمی ( صاحب بہار شریعت ) سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں دست بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے ۔
دارالعلوم امجدیہ کا قیام
حضرت صدر الشریعۃ (متوفی ۱۹۴۹ء ) کے حکم پر ۱۹۴۸ء کو کراچی تشریف لے آئے یہاں امامت و خطابت درس و تدریس اور اشاعت دین کے اہم کام میں مصروف و مشغول ہوگئے ۔ اس کے ساتھ اسی سال گاڑی کھاتہ فیروز اسٹریٹ آرام باغ میں ایک مکان خرید کر مرشد کی یاد میں مدرسہ قائم کر کے دارالعلومامجدیہ” کا ایک بورڈ لگا دیا، چنانچہ ابتدا میں ااپ خود ہی مہتمم ، مدرس ، منتظم اور نگران سب کچھ تھے ۔
ایک عرصہ تک یہ مدرسہ اسی مکان میں مذہبی خدمات انجام دیتا رہا مگر یہ جگہ نا کافی ہونے کی وجہ سے مفتی صاحب نے حاجی ہارون میمن صاحب سے عالمگیر روڈ جگہ حاصل کر کے دارالعلوم امجد یہ وہاں منتقل کر دیا، بعد میں مزید جگہ لی گئی ، جستہ جستہ تعمیر ہوتی رہی۔ آج دارالعلوم کی پر شکوہ عمارت خوبصورت شکل میں مسجد امجدی کے متصل کراچی کے دل میں موجود ہے ۔
جہاں سے سینکڑوں علما خطبا حفاظ اور قراٗ حضرات فارغ ہو کر ملک اور بیرون ملک میں تبلیغ و اشاعت دین کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ آپ نے دارالعلوم امجدیہ کے علاوہ پنجاب کے شہر سانگلہ ہل (ضلع شیخو پورہ ) میں ایک بہت بڑی قطعہ اراضی لے کر مدرسہ اسلامیہ برکات القرآن‘‘ کی داغ بیل ڈال دی ، آج جس کی عمارت کئی کمروں اور کانفرنس ہال پر مشتمل ہے ۔ جہاں درس و تدریس کی شمع روشن ہے۔ مدرسہ کے تمام اخراجات مفتی صاحب اور آپ کے بھائی محترم مظہر علی نعمانی اپنی جیب سے برداشت کرتے رہے ۔
مدرسہ حافظ قاری فضل الرحمن نقشبندی کی نگرانی میںسر گرم عمل ہے ۔ مفتی ظفر علی نے لگایا ہے باغ جو کافی انہیں بہ پیش حق اس کا ثواب ہے مدرس کے علاوہ آپ اعلی منتطم بھی تھے آپ نے دارالعلوم امجدیہ کو چار چاند لگانے کے لیے ۱۹۶۱ء میں ہارون آباد ( ضلع بہاولنگر ) سے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کو مدعو کیا اور دارالعلوم میں شیخ الحدیث مقرر کیا ۔ مولانا قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی اور حضرت مولانا قاری مصلح الدین صدیقی آپ ہی کی کوششو ں سے کراچی تشریف لائے ۔آپ کا ابتدائی عرصہ قیام پاکستان کے دور میں کراچی میں مسجد کے تعمیرات و حصول میں انتہائی اہم کردار رہا بیشتر مساجد اور مدرسوں کے سر پرست اور ٹرسٹی رہے۔ دارالعلوم امجد یہ کے سالانہ جلسہ دستار فضیلت میں ہندو پاک کے نامور علماء و مشائخ کو مدعو کیا جاتا تھا ابتدا میں ہر سال ’’ مجلس مشاعرہ ‘‘ کا بھی اہتمام ہوتا تھا اور اس میں پیش کردہ نعتیہ اشعار کے مجموعے بھی شائع ہوتے رہے ۔ پاکستان میں ’’عرس اعلی حضرت ‘‘ کی ابتدا ء کراچی میں مفتی صاحب نے فرمائی
درس و تدریس
فارغ التحصیل ہوتے ہی مادر علمی جامعہ اشرفیہ میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے ۔ تقریبا ڈیڑ سال اساتذہ کرام کی نگرانی میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد پیر و مرشد حضرت صدر الشریعۃ کے حکم پر کاٹھیاواڑ چلے گئے جہاں مدرسہ دارالعلوم اہل سنت میں صدر مدرس اور مفتی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے لگے ۔ تقریبا ساڑ ھے چار سال کام یابی سے خدمات انجام دینے کے بعد پاکستان تشریف لے آئے۔ کراچی میں ساری زندگی ’’ دارالعلوم امجدیہ ’’ میں بحیثیت مہتمم خدمات عظیمہ سر انجام دیتے رہے ۔
شادی و اولاد
علامہ مفتی ظفر علی نعمانی نور اللہ مرقدہ کا نکاح صدر الشریعہ کے بڑے صاحبزادے مولانا حکیم شمس الہدیٰ اعظمی کی صاحبزادی سے ۱۹۵۱ء ؍ ۱۳۷۰ھ کو کراچی میں انعقاد پذیر ہوا ۔ قاضی نکاح خواں کے فرائض برادر نسبتی علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے انجام دیئے ۔ اس محفل میں
کراچی کے علماے کرام مشائخ عظام اور نامور شخصیات نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ نے آ پ کو پانچ صاحب زادے اور پانچ صاحب زادیاں عطا فرمائی جن میں سے تین صاحب زادے وفات پا چکے ہیں ۔ بحمدہ تعالیٰ دو صاحب زادے (۱) ریحان نعمانی فقیر چشتی کے ہم سبق (۲) ذیشان نعمانی بقید حیات ہیں اور بر سر روز گار ہیں ۔ حافظ سرور المصطفیٰ ابن مولانا قاری رضا ء المصطفیٰ اعظمی (خطیب نیو میمن مسجد بولٹن مارکیٹ کراچی) ناظم اعلیٰ مکتبہ رضویہ کراچی آپ کے داماد ہیں ۔
ذریعہ معاش تمام دینی مصروفیات کے باوجود آپ کا رپٹ ایکسپو رٹر کا کاروبار اپنے بھائی کے ساتھ کرتے تھے ۔
دینی وسیاسی سرگرمیاں
تحریک پاکستان میں اپنے اساتذہ کے ساتھ خدمات انجام دیں بعد میں استحکام پاکستان کے لیے سر گرم رہے۔ فیصل آباد میں دارالعلوم رضویہ مظہر اسلام اور سنی رضوی جامع مسجد کی تعمیر و ترقی میں مفتی صاحب اور کراچی کے برکاتی رضوی میمن سیٹھ صاحبان نے بھر پور تعاون کیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد عظیم الشان سنی کانفرنس میں دامے قدمے سخنے تعاون فرمایا ۔ تحریک ختم نبوت کے دوران آپ نے علماءاہل سنت کے ساتھ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔
کراچی میں ’’ تنظیم ائمہ مساجد اہل سنت ‘‘ قائم فرمائی اس کے بعد تنظیم سازی کا عمل جاری رکھا۔ جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے دوبار انتخابا ت میں حصہ لیا ۔ ایک بار قومی اسمبلی کے حلقہ سانگلہ ہل پنجاب سے انتخابات میں حصہ لیا لیکن ۳۰ ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ ۱۹۷۲ء میں ایک بار سینٹ کا انتخاب لڑا جس میں کامیابی ہوئی اور سینٹیر منتخب ہوئے ۔
سینٹ کے ریکارڈ میں ان کی تقار یر انتہائی جامع اور مدلل ہوا کرتی تھیں ، انتہائی خدا ترس انسان تھے دین کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی گہری نظر تھی ۔ اسلامی نظر یاتی کونسل آف پاکستان کے ممبر بھی رہے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین بھی رہے ۔ جماعت اہل سنت پاکستان ، تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان ، تحریک نفاذ فقہ حنفیہ ، تحریک نظام مصطفی، نظام مصطفی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ۔
نشر و اشاعت
آپ نے ابتدائی دنوں میں لٹر یچر کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی جس کے سبب آپ نے کراچی سے مکتبہ رضویہ سے اعلی حضرت امام احمدرضا خان بریلوی کے مشہور زمانہ نعتیہ کلام پر مشتمل کتاب ’’حدائق بخشش ‘‘ کو پاکستان میں پہلی بار شائع کیا۔ فاضل بریلوی کے شہر آفاق ترجمہ قرآن کنز الا یمان پاکستان میں سب سے پہلے مفتی صاحب کو طبع کرانے سعادت حاصل ہوئی ۔ ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری کی تصنیف ’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ (جلد اول،چشتی) بھی سب سے پہلے آپ نے ۱۹۶۰ء کو شائع کرائی ۔
صحافت
مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے ابتدائی دور میں ایک ماہنامہ الاسلام ‘‘ آرام باغ سے جاری کیا تھا جس میں ملک کے جید علماء اور قلم کار دانش وروں کے پر مغز تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ ملک بھر سے آنے والے استفار کے جوابات بھی الاسلام میں شائع ہوتے تھے۔ استفار کے جوابات وقت کے مایہ ناز عالم دین، مفتی اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی کے رشحات قلم کے مرہون منت تھے ۔
ارشد تلامذہ
آپ کے تلامذہ میں سے بعض کے نام معلوم ہو سکے وہ درج ذیل ہیں
مولانا مفتی ابوالخیر محمد حسین قادری مرحوم بانی جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر سندھ
مفتی ابوالحماد احمد میاں برکاتی مہتمم دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد سندھ
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی بھی آپ کے ادنیٰ شاگردوں میں سے ہے اور بہت سے علما آپ کے فیض یافتہ ہیں ۔
وصال
مولانا مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمہ نے ۲۰ ، رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ بمطابق ۱۶، نومبر ۲۰۰۳ء بروز اتوار صبح ۵ بجے ۸۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اتوار ہی کے روز بعد نماز ظہر دارالعلوم امجد یہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد عالمگیر روڈ کراچی میں آپ کی نماز جنازہ ہوئی ۔ نماز جنازہ دارالعلوم امجد یہ کے شیخ الحدیث فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کے شفیق استاد مولانا محمد اسماعیل رضوی میمن دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی ۔ ماہ رمضان المبارک کے باوجود ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔
دارالعلوم امجد یہ میں علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، مفتی وقار الدین قادری کی مزارات کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے ۔بروز منگل دارالعلوم امجد یہ میں فاتحہ سوئم کی تقریب منعقد ہوئی ۔ شہر بھر کے علماء مشائخ ، مشاہیر ، دانشور ، اور دینی سیاسی تنظیم کے ذمہ داران نے شرکت کی۔اور اس تقریب میں صاحبزادہ ریحان نعمانی کو ان کا جانشین اور دارالعلوم امجد یہ کا مہتمم مقرر کیا ۔ (انوار علما اہل سنت سندھ، مفتی ظفر علی نعمانی کا انٹرویو، رفیق علم سالنامہ جامعہ امجدیہ کراچی)۔(مزید حصہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment