مجدد کی تعریف و ضرورت اہمیت اور مجدد الف ثانی کا مطلب
محترم قارئینِ کرام : مجدد الف ثانی سے مراد ہے دوسرے ہزار سال یعنی گیارہویں صدی سے بیسویں صدی کے مجددین ہیں ۔ جن میں گیارہویں صدی کے پہلے حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور مجدد الف اول سے مراد پہلے ہزار سال یعنی پہلی صدی سے دسویں کے مجددین ہیں ان میں پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت شاہ ولی الله صاحب رحمۃ اللہ علیہ تفہیمات الہیہ میں مجدد کی تعریف میں فرماتے ہیں : مجدد وہ شخص ہو گا جس کو الله تعالیٰ نے قرآن وحدیث کے علم میں خاص مقام عطا فرمایا ہو اور اس کو وقار اور سکینت سے مزین کیا ہو ، وہ حرام و وجوب ، مکروہ ، استحباب و اباحت سب کو ان کے مقامات پر رکھے ، شریعت کو احادیثِ موضوعہ سے اور غلط قیاس کرنے والوں کے قیاس سے پاک صاف فرما دے ، وہ ہر افراط و تفریط سے پاک کرے، الله تعالیٰ اس کی طرف لوگوں کے قلوب کو متوجہ کر دے، اس سے لوگ آکر اپنی علمی پیاس بجھائیں ، حضرت شاہ ولی الله رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”مأة“ کا لفظ تخمین کےلیے ہے ، تعیین کےلیے نہیں ہے ، پھر اس کا اعتبار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے کیا جائے گا ، مجددیت سے سب سے قریب قدماء محدثین کی جماعت ہے ، جن میں امام بخاری وامام مسلم علیہم الرحمہ اور ان جیسے محدثین شامل ہیں ۔ (التفہیمات الالہیہ جلد 1 صفحہ 40)
ابتدائے اسلام سے آج تک ہر صدی کے آخر میں بڑے بڑے فتنے ظاہر ہوئے جن پر قابو پانے کےلیے اللہ پاک نے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اپنے مخصوص بندوں کو بھیجا جنہوں نے دینِ اسلام کی تعلیمات کو نئے سِرے سے تر و تازہ کرکے مسلمانوں تک پہنچایا ۔ صدی کے آخر میں تشریف لاکر دینِ اسلام کو باطل کی آمیزش سے پاک کرنے والی مخصوص صِفات کی حامل ان شخصیات کو مُجَدِّد کہا جاتا ہے ۔
مُجَدِّد کی تعیین کیسے ہوتی ہے ؟
امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کسی بزرگ کے مُجَدِّد ہونے کا فیصلہ ان کے ہم زمانہ عُلما کے بیان سے ہوتا ہے جو ان بزرگ کی دینی خدمات اور ان کے علم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر اپنے غالب گمان کے مطابق انہیں مُجَدِّد قرار دیتے ہیں ۔ (التنبیہ بمن یبعثہ الله علی رأس کل مائة صفحہ 62)
مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کسی (مخصوص فرد) کے مُجَدِّد ہونے پر اب کوئی دلیلِ مَنصُوص (یعنی قرآن و حدیث کی دلیل) نہیں ہو سکتی ، وحی کا سلسلہ مُنْقَطِع ہے ۔ اب یہی دلیل ہے کہ اس عَہْد کے علما ، عوام ، خَواص جسے مُجَدِّد کہیں وہ مُجَدِّد ہے ۔ (فتاویٰ شارحِ بخاری جلد 3 صفحہ 350)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود زبان رسالت سے مجدد کی تعریف ‘ اس کا زمانہ تجدید اور اس کے کام کے اثرات کو بیان فرمایا : ⬇
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ ﷲَ عزوجل يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا ۔ (سنن ابو داٶد کتاب الملاحم باب ما يذکر فی قرن المائة جلد 4 صفحہ 190 رقم : 4291،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس (علم) میں سے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھا روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کےلیے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کےلیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَدْنَی الرِّيَاءِ شِرْکٌ وَأَحَبَّ الْعَبِيْدِ إِلَی ﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْأَتْقِيَاءُ الْأَخْفِيَاءُ الَّذِيْنَ إِذَا غَابُوْا لَمْ يُفْتَقَدُوْا وَإِذَا شَهِدُوْا لَمْ يُعْرَفُوْا أُوْلَئِکَ أَئِمَّةُ الْهُدَی وَمَصَابِيْحُ الْعِلْمِ ۔ (الحاکم فی المستدرک، 3 / 303، الرقم : 5182)(الطبرانی فی المعجم الأوسط، 5 / 163، الرقم : 4950)
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : معمولی سا دکھاوا بھی شرک ہے اور بندوں میں سے محبوب ترین بندے اللہ تعالیٰ کے نزدیک متقی اور خشیت الٰہی رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو موجود نہ ہوں تو تلاش نہ کیے جائیں اور موجود ہوں تو پہچانے نہ جائیں، وہی لوگ ہدایت کے اِمام اور علم کے چراغ ہیں ۔
عَنِ الْحَسَنِ بِنْ عَلِيٍّ رضي ﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِي بِهِ الإِسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّيْنَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ۔ (الدارمی فی السنن، باب : فی فضل العلم والعالم، 1 / 112، الرقم : 354،چشتی)
ترجمہ : حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : دورانِ حصولِ علم اگر کسی شخص کو موت آ جائے اور وہ اس لئے علم حاصل کر رہا ہو کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو زندہ کرے گا تو اس کے اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہو گا ۔
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْفَرْيَابِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رضی الله عنه : إِنَّ ﷲَ يُقَيِّضُ لِلنَّاسِ فِيکُلِّ رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُعَلِّمُهُمُ السُّنَنَ وَيَنْفِي عَنْ رَسُوْلِ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْکِذْبَ ۔ (المزی فی تهذيب الکمال، 24 / 365،چشتی)(عسقلاني فی تهذيب التهذيب، 9 / 25)
ترجمہ : حضرت ابو سعید فریابی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر پر لوگوں کےلیے ایک ایسی شخصیت کو بھیجتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹ کی نفی کرتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إن الله یبعث لھذہ الأمة علی رأس کل مائة سنة من یجدد لھا دینھا ۔ (اخرجہ أبوداود:4291)
عام طور پر لوگوں کے ذہن میں اس طرح آتا ہے کہ ”من“ سے مراد علمائے امت سے کوئی ایک شخصیت ہو گی جو اپنے زمانے میں دین کی تجدید و نصرت میں امتیازی شان رکھتی ہو گی ، اسی طرح سنت کو رائج کرنے اور اس کو طاقت پہنچانے میں اور بدعت کا قلع قمع کرنے میں اور اس کے راستے بند کرنے میں غیر معمولی کام انجام دے گی ، وہ علم دین کی اشاعت کرے گی ، ان کارناموں کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے یہ مقرر کیا کہ فلاں شخصیت پہلی صدی کی مجدد ہے ، لیکن صاحب جامع الاصول نے لفظ ”من“ کو ایک شخص کے بجائے پوری جماعت پر اطلاق کرنے کو بہتر قرار دیا اور کہتے ہیں : اگرچہ لفظ ”من“ واحد وجمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ، اس لیے مجدد کا اطلاق صرف فقہاء ہی پر نہیں ، بلکہ اس سے قراء و محدثین و زہاد وغیرہ بھی مراد لیے جائیں گے ، ان میں سے جس عالم نے اپنے فن میں غیر معمولی خدمت کی ہو ، صحیح و سنت کا راستہ پیش کیا ہو ، لیکن اگر اس کو تمام عالم کےلیے عام کر دیا جائے کہ ہر زمانے میں ایک مجدد یا کئی مجددین رہتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے : ”علی رأس کل مائة سنة“ ہر صدی کے اخیر میں ، اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ یہ مدت ختم ہو جانے کے بعد دوسرا مجدد آئے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے ، لہٰذا اس دین کی بقا کےلیے ، قیامت تک محفوظ رکھنے کےلیے الله تعالیٰ کی طرف سے انتظامات کر دیے گئے ہیں اور امتِ اسلامیہ کو اس پیشین گوئی کے ذریعہ آگاہ کر کے مطمئن کر دیا گیا ، بعض اہم انتظامات کی خبر قرآن کریم میں ہے ، بعض کی احادیث صحیحہ میں آیا ہے ۔ مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں علماء نے مستقل تصانیف کی ہیں ، حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ کی کتاب : ”الفوائد الجمة فیمن یجدد الدین لھذہ الأمة“ اور علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب:”التنبیہ بمن یبعثہ الله علی رأس کل مائة“ موجود ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہر صدی کے شروع یا اخیر میں مجددین پیدا ہوں گے تو درمیان صدی میں کیا ہو گا ؟ اس میں اگر باطل پرست اسلام کے خلاف سازش کرنے لگیں یا بدعتوں کو پھیلانے لگیں اور سنتوں کو مٹانے لگیں ، حدیث شریف میں آیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس میں بھی اس مجدد کے تلامذہ اور اس سے وابستہ جماعت باقی رہے گی جو دین کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی : لا تزال طائفة من أمتی ظاہرین علی الحق لا یضرھم من خذلھم ۔ (صحیح مسلم:1920) ،یعنی ہر زمانے میں ایک جماعت موجود رہے گی جو دین کی حفاظت کرتی رہے گی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدی کے اندر بھی سلف کے خلف یعنی جانشین موجود رہیں گے ، صدی کے اندرونی حصے اور درمیانی حصے میں کوئی ایسا زمانہ نہیں ہو گا کہ امت کے سلف کے نمونہ نہ ملیں ، بلکہ ضرور ملیں گے، جو مؤید من الله ہیں، جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے ۔ یہ اس نبی کی امت ہے ، جس کے دین کی بقا کا قیامت تک وعدہ ہے ۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر آیت نمبر 9)
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو جس طرح شریعت کو آپ پر ختم کر دیا گیا تو ہر زمانے میں الله تعالیٰ فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسی شخصیتیں پیدا کرتا رہے گا جو دین کے چشمہٴ صافی کو گرد وغبار سے صاف کرکے اصلی صورت میں باقی رکھیں گے، اس لیے جس زمانے میں مجدد یا مصلح کی ضرورت ہو گی الله تبارک وتعالیٰ پیدا کرتا رہا ہے، وہی اس دین کا محافظ وپاسبان ہے، اس پر اسلام کی تاریخ شاہد ہے۔
ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : یحمل ھذا العلم من کل خلفٍ عدولہ ، ینفون عنہ تحریف الغالین ، و انتحال المبطلین ، و تأویل الجاھلین ۔ (اخرجہ البیہقی:10/209)
ترجمہ : اس علم کے ہر نسل میں ایسے عادل و متقی حامل و وارث ہوں گے جو اس دین سے غلو پسند لوگوں کی تحریف ، اہلِ باطل کے غلط انتساب و دعوے اور جاہلوں کی دور ازکار تاویلات کو دور کرتے رہیں گے ۔
یعنی اسلام کو تحریف و غلط انتساب ، جاہلانہ تاویلات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے ، یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری وصال مبارک کے بعد سے ہر صدی اور عالمِ اسلام کے بڑے بڑے ملکوں میں جار ی ہے اور جاری رہے گا ان شاء اللہ ۔
بے شک جتنا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہری زمانے سے دور ہوتا جائے گا وہ پہلے کے مقابلے میں بد تر زمانہ ہو گا ، جیسا کہ حضرت انس رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت وارد ہے : لا یأتی علی أمتی زمان إلا الذی بعدُ شر منہ ۔ (صحیح بخاری:7068،چشتی) ، یعنی : میری امت پر جو زمانہ آئے گا اس سے گزرے ہوئے زمانے سے بدتر ہو گا۔
اسی طرح حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں : آنے والے سالوں میں کوئی ایسا سال نہیں ہو گا جس میں لوگ بدعت جاری نہیں کریں گے ، سنتیں مٹائیں گے اور بدعت کو زندہ کریں گے ؛ اس لیے الله عزوجل ان بدعتوں کو مٹانے کےلیے او راسلام پر جو گرد و غبار آجائے گا اسے صاف کرنے کےلیے مجددین و مصلحین پیدا کرتا رہے گا ۔ (المعجم الکبیر:4/50، رقم:11962)
امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ مرقاة میں یہ فرماتے ہیں : ”بمن یجدّد“ سے مراد شخص واحد نہیں ہے ، بلکہ ان سب کی ایک جماعت مراد ہے ؛ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجددین کی ایک جماعت ایک ہی زمانے میں موجود رہے ۔ ان میں سے ہر شخص کسی شہر میں علومِ شرعیہ میں سے کسی خاص فن کی تجدید کرتا ہو اور علومِ شرعیہ میں سے جس کی ضرورت تھی تحریراً تقریراً رواج دے رہا ہو اور یہ شخص علوم شرعیہ کے بقا کا سبب بن جائے ، تاکہ دین کم زور نہ ہو سکے او رنہ اسے کوئی مٹا سکے ، یہاں تک کہ الله تعالیٰ کا فیصلہ آجائے ۔ بے شک دین کی تجدید اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے ہوتی رہی ہے ؛ کیوں کہ علمِ شرعی زوال پذیر ہے اور جہالت میں اضافہ و ترقی ہے ، زمانہ میں علماء کی ترقی کا معیار زمانے میں علم کے زوال سے وابستہ رہے گا ، بے شک متقدمین اور متاخرین کے علم و فضل اور تحقیق و تدقیق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بُعد زمانہ کی وجہ سے بہت دوری رہے گی ۔ متقدمین کے فضل و مقام کا اعتراف کرنا اور ان کی برکات کو تسلیم کرنا ضروری ہے ، انہوں نے ہمارے لیے علومِ شرعیہ کو محفوظ کر دیا ، الله تعالیٰ ان سے راضی ہو ۔ (مرقاة المفاتیح جلد 1 صفحہ 507)
لیکن اس زمانے کے لحاظ سے مجددین ومصلحین کا سلسلہ باقی رہے گا ۔ دین کی تجدید یہ امراضافی ہے ، کیوں کہ علم میں ہر ساعت تنزلی ہے اور جہل میں ہر ساعت ترقی ہے ، موجودہ زمانے کے علماء کی ترقی کا اس اعتبار سے لحاظ کیا جائے گا جس طرح سے علم میں گراوٹ ہے ، اس دور کے اعتبار سے ان کے تجدیدی کام کا اعتبار کیا جائے گا ، جیسے روشنی کے مرکز سے جتنی دوری ہو گی اسی لحاظ سے اندھیرا نظر آئے گا ، جیسا کہ بخاری شریف میں روایت ہے ۔ یہاں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد پیدا ہوتا ہے ، لیکن جیسا کہ ہم نے بتایا کہ محققین کے یہاں لفظ ”من“ میں عموم ہے ، اس سے ایک دو اور چند بھی سمجھے جا سکتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں کئی بزرگوں کو مجدد مانا جائے اور حدیث ”علی رأس کل مائة سنة“ ہر صدی کے سرے پر ، ابتدا اور انتہا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ صدی کے سرے پر مجدد کی پیدائش کا ہونا ضروری نہیں ، بلکہ اس وقت اس کے تجدیدی مشن کا آغاز ہوتا ہے ، جسے حدیث میں بعث کے لفظ سے بتایا گیا ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی پیدائش کے 40 سال بعد مبعوث ہوئے اور اس کا واضح کرنا ضروری ہے کہ حدیث کا لفظ ”یجدد“ دین سے رسوم و بدعات اور فسادات کو دور کر کے اصل دین کو چمکا دے گا ، اس لیے مجدد کی بڑی پہچان یہ ہے کہ خواص اس کو پہچان لیں اور عوام علماء کے بتانے سے جان لیں ، اس کی تعلیم و تلقین ، جد و جہد اور اس کے کارنامے خود شہادت دیں گے کہ یہ مجدد ہیں ۔
نبی اور مجدد کی دعوتوں میں نوعیت کا فرق ہے ، نبی ہر شخص کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے ، نبی پر ایمان لانا جزء ایمان ہے ، جس کے بغیر کوئی مومن نہیں ہو سکتا ، لیکن مجدد اپنی شخصیت کی دعوت نہیں دیتا ، یہاں تک کہ مجدد کو مجدد ماننا ایمان کا ادنیٰ جز بھی نہیں ہے ، اس لیے نبی کو اپنا نبی ہونا یقینی اور قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے ، اس کو الله عزوجل کی تعلیم وحی کے ذریعے دی جاتی ہے ، مجدد کا اپنا مجدد ہونا ظن اور تخمین سے زیادہ معلوم نہیں ہوتا ، بلکہ اگلے زمانے کے مجددین کا مجدد ہونا بالعموم ان کی وفات کے بعد ان کے کارناموں اور مساعی سے خواص امت پر ظاہر ہوا ، اس کے بعد لوگوں نے مانا ۔ البتہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کو ان کا منصب نبوت الله عزوجل کی طرف سے دہبی ہوتا ہے ، جس کےلیے غیبی انتخاب سے افراد چنے جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے انبیاءِ کرام علیہم السلام کے لیے بعث من الله کا لفظ استعمال کیا ہے، جیسے : ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ ۔ (سورة الجمعة آیت نمبر 2) ۔ اسی طرح حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجددین کےلیے بھی بعث من الله کا لفظ استعمال کیا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ نبوت اصل ہے اور تجدید اس کا ظل ہے ، یہاں الہام قطعی ہے ، اس کو وحی کہتے ہیں ، وہاں ظنی ہے ۔ نبی علیہ السلام کا منکر خارج عن الاسلام ہے ، مجدد کا منکر خارج عن الاصلاح والتقویٰ ہے ، مجدد علم اور عمل کے لحاظ سے نبی علیہ السلام کا پرتو ، اخلاق و عمل کے اعتبار سے نبی علیہ السلام کا نمونہ ہوتا ہے ، بہر حال مجددیت نبوت کا ایک نہایت روشن و درخشاں پرتو ہے ۔
امت میں مختلف ادوار وزمانہ گزرتے رہے ہیں ، جس قسم کے فتنوں کا ظہور ہوتا رہا اسی قسم کے اصلاحی طریقوں کےلیے مجددین مبعوث ہوتے رہے ، بہرحال ہر مجدد کے متعلق اس کے کارناموں کو دیکھ کر کہ اس کی تعلیم و تلقین کس قدر موثر او رمفید ہوئی ، اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا گیا ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ نے پہلی صدی ہجری کی خاتمہ کا مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة الله المتوفی101ھ کو اور دوسری صدی کا حضرت امام شافعی رحمة الله متوفی204ھ کو مجدد مانا ہے ۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمة الله فرماتے ہیں : مجدد میں سارے خیر کی صفات کا جمع ہونا ضروری نہیں ، یہ ضرور ی نہیں کہ ایک ہی شخص میں سارے کمالات پائے جائیں ، اس سے مستثنیٰ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة الله ہیں ، جو ساری صفات کے حامل تھے ، وہ پہلی صدی میں حکومت کے امیر المؤمنین تھے ، عدل وانصاف کا نظام قائم کیا تھا ، ان کے بعد امام شافعی علیہ الرحمہ کا دور آیا ، اگرچہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف تھے ، لیکن وہ کسی حکومت کے حاکم نہیں تھے کہ جہاد کا حکم دیتے اور عدل کا نظام قائم کرتے ۔ علیٰ کل حال جس کی شخص میں کوئی ایک صفت ان صفات میں سے پائی جائے جو مجدد کےلیے بتائی گئی ہیں اس کا شمار بھی مجددین میں ہو گا ، خواہ ایک شخص ہو یا کئی اشخاص ہوں ۔
ہزار سالہ مجدد کا مقام اور مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی مجددیت پر ایک نظر
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : انّ اللّہ عزوجل یبعث لھذہ الامت علی راس کلّ مائت سنت من یجددلھا دینھا ۔ (مکمل حوالہ اوپر گذر چُکا ہے) ، یعنی اللہ اس امت کی اصلاح کے لیے ہرصدی کے سرے پر مجدد بھیجتا رہے گا جو اس کےلیے اس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے ۔
تاریخ ہند کے تاریک ترین دور میں حضرت مجدد رحمة اللہ علیہ نے جو اصلاحی کارہائے نمایاں انجام دے وہ ان کی عظمت پر شاہد ہیں ، مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمہ نے حضرت مجدد رحمة اللہ علیہ کو مجدد الف ثانی قرار دیا یعنی دوسرے ہزارہ ہجری کا مجدد اور ملت اسلامیہ نے ایک زبان ہو کر اس کی تائیدکی ۔ (مجدد الف ثانی حالات افکار و خدمت از مسعود ملت علامہ مسعود احمد رحمة اللہ علیہ،چشتی)
خود حضرت مجدد رحمة اللہ علیہ نے دعویٰ مجددیت نہیں کیا آپ نے کسی مکتوب میں بھی خود کو مجدد نہیں لکھا،بلکہ معاصرین اور متاخرین علماء و صوفیہ نے آپ کو ”مجددالف ثانی“ لکھا ہے ۔ (مجدد الف ثانی حالات،افکاروخدمات، مسعود ملت علامہ مسعود احمدرحمتہ اللہ علیہ)
امام ربانی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کی ذات امتِ مسلمہ کے مجددین میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے کیونکہ آپ رحمة اللہ علیہ ہزار سالہ پہلے مجدد ہیں ۔
صدی کے مجدد کے علاوہ ہزار سال کے بعد اولوالعزم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قائم مقام اولوالعزم مجدد کا ہونا بھی لازمی تھا تاکہ جس طرح جس طرح صدی کے مجددین کی خدمات کے اثرات ایک صدی تک کےلیے ہوتے ہیں ہزار سال کے مجدد کے اثرات آئندہ ایک ہزار سال تک باقی رہیں ، چنانچہ اللہ عزوجل نے حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہ کو الفِ ثانی کا مجدد بنا کر اس دنیا میں بھیجا ، آپ سے پہلے مجدد ہوا کرتے تھے الف (ہزار) کا مجدد کوئی نہیں ہوا تھا اور الفِ اول میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس واطہر موجود تھی ۔ (حضرت مجدد الف ثانی سید زوار حسین شاہ)
مکتوبات شریف میں امام ربانی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ خود سوسالہ اور ہزار سالہ مجدد کے مقام کا فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : واضح ہو کہ ہر صدی کے سرے کا مجدد ہوا ہے لیکن صدی والا مجدد اور ہے اور الف (ہزار سالہ) مجدد اور ہے چنانچہ صدی اور ہزار میں جو فرق ہے ان مجددوں میں بھی اسی قدر فرق ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور مجدد وہ ہے کہ جو کچھ اس مدت میں امتوں کوفیوض و برکات پہنچتے ہیں اسی کے توسط سے ہوتے ہیں ۔ اگرچہ کہ اقطاب و اوتاد بھی اس وقت میں ہوتے ہیں اوربابدال ونجبائبھی ہوا کرتے ہیں ۔ (مکتوبات امام ربانی دفتر دوئم مکتوب نمبر ۴،چشتی)
اس ہی مکتوب میں مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ مزید ہزار سالہ مجدد کا مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ فقیر عین الیقین اور حق الیقین کی نسبت کیا بیان کرے اور اگر بیان کرے تو کیا کوئی سمجھے گا اور کیا معلوم کرے گا ۔ یہ معارف احاطہ ولایت سے خارج ہیں ۔ اربابِ ولایت علماءِ ظاہر کی طرح ان کے ادراک سے عاجز اور ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ یہ علوم انوارِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشکوٰة سے مقتبیس ہیں جو الف ثانی کی تجدید کے بعد تبعیت و وراثت کے طور پر تازہ ہوئے ہیں اور ترو تازہ ہو کر ظاہر ہوئے ہیں۔ان علوم ومعارف کا صاحب اس الف کا مجدد ہے ۔ (مکتوبات امام ربانی دفتر دوئم مکتوب نمبر ۴)
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے کہ تیرا فیض ہو عام اے ساقی
تو میری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
(اقبال)
ہمیں اس زمانے کے تمام حالات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس وقت کے بادشاہ کے عقائد و اعمال کیا تھے اور اس وقت علماءکے حالات کیا تھے ، صوفیاء کس رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور بیچارے عوام کس پرسی میں مبتلا تھے ، تب کہیں آپ کی دعوت اسلام اور تجدیدی کارناموں کا اندازہ ہو سکتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ان اصلاحی کوششوں اور کارناموں سے جن کا تعلق علم وعمل اور اخلاص سے ہے نہ صرف ہندوستان کے مسلمان بلکہ تمام اسلامی ممالک متاثر ہوئے بغیر نہ رہے سکے ، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سلسلہ مجددیہ کی ایک بڑی شاخ ”خالدیہ“ سلسلہ کے نام سے عراق و شام و عرب خصوصا ترکی وغیرہ ممالک میں بہت زیادہ مقبول ہے ، نیز آپ کے فارسی مکتوبات شریفہ کے تراجم اردو ، عربی اور ترکی (انگلش) زبان میں ہوکر تمام ممالک میں شائع ہوچکے ہیں ۔ (حضرت مجدد الف ثانی سید زاور حسین شاہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment