Friday, 15 September 2023

حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت

حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ بڑے حلیم ، کریم اور متقی و پر ہیز گار تھے ، انہوں نے اپنی زندگی میں دو بار اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ۔اس کے علاوہ جب بھی راہِ خدا میں مال لٹانے کی باری آئی تو انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے متعدد پیدل حج کیے ۔ وہ کہتے تھے کہ : مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے کہ میں اس سے ملاقات کروں اور اس تک پیدل چل کر نہ جاؤں ۔

حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کے سن وصال میں مؤرخین کا کافی اختلاف ہے ، اشہر یہ ہے کہ سن ۴۹ میں انتقال ہوا اور راجح یہ ہے کہ سن ۵۰ میں ہوا ۔ رہا یہ کہ مہینہ کون سا تھا تو  معتمد روایات میں ہے کہ وہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ تھا اور بعض روایات میں ۵ ربیع الاول بھی بتائی گئی ہے ۔ امام عالی مقام سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی پانچ (5) ربیع الاول ، 50 ہجری اور ایک روایت کے مطابق 49 ہجری ، مدینہ منورہ میں ہوئی ، آپ کو زہر دیکر شہید کیا گيا ، آپ کا مزار مقدس جنت البقیع شریف میں ہے ۔ توفي رضي الله عنه بالمدينة مسموماً۔۔۔۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين وقيل في خامس ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ الخلفاء،جلد 1 صفحہ 78)

حضرت امام سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : كانت وفاته سنة ،49 وقيل في خامس ربيع الأول سنة ۵۰ ، قيل سنة ۵۱ ۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۴۷)

حضرت امام ابن حجر ہیثی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : كانت وفاته سنة 49 أو 50 أو 51 أقوال، والأكثرون على الثاني كما قاله جماعة وغلط الواقدي ما عدا الأول ۔ (الصواعق المحرقة صفحہ ۱۹۸)

حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اختلف في وقت وفاته، فقيل مات سنة 49، وقيل بل مات في ربيع الأول من سنة حمسين". (الاصابة جلد ١ صفحہ ۳۸۹)

البدايہ والنہايہ میں ہے : توفي الحسن وهو ابن ۴۷، وكذا قال غير واحد، هو أصح، والمشهور أنه مات سنة ۴۹ كما ذكرنا، وقال أخرون: مات سنة ۵۰ ۔ (البداية والنهاية جلد ۱۱ صفحہ ۲۱۲)

تاریخِ دمشق میں ہے : مات الحسن في ربيع الأول سنة ۴۹، وهو يومئذ ابن ۴۷ سنة - (تاریخِ دمشق جلد 13 صفحہ ۳۰۰) 
اس میں ہے : مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة ۵۰ ۔ (تاریخِ دمشق جلد ١٣ صفحہ ۳۰۲،چشتی)

الوافی بالوفیات میں ہے : توفي الحسن في شهر ربيع الأول سنة ۴۹ في قول الواقدي، وفي سنة ۵۰ في قول جماعة ۔ (الوافى بالوفیات جلد ١٢ صفحہ ۶۷)

وفیات الاعیان میں ہے : مات في شهر ربيع الأول سنة ۴۹ وله ۴۷ سنة، وقيل : مات سنة ۵۰ ، وهو أشبه بالصواب ۔ (وفيات الاعیان جلد ٢ صفحہ ۲۵)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی سنِ وصال میں مورخین کا اختلاف ہے ، ایک قول یہ ہے کہ سن ۴۹ ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ سن ۵۰ ہجری میں ہوا ، اور سن ۵۱ ہجری کا بھی قول کیا گیا ہے ۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔

علامہ خطیب بغدادی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کا وصال انچاس ہجری ماہ ربیع الاول کو ہوا ۔ وتوفي الْحَسَن بْن عَلِيّ بْن أَبِي طالب في ربيع الأول من سنة تسع وأربعين ۔ (تاریخ بغداد : 1/140)

أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي رحمة اللہ علیہ (المتوفى: 463هـ) نے بھی سال انچاس اور پچاس لکھا مگر مہینہ ربیع الاول تھا ۔ ومات الحسن بن علي رضي الله عنهما بالمدينة واختلف في وقت وفاته فقيل مات سنة تسع وأربعين وقيل بل مات في ربيع الأول من سنة خمسين ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الصحاب : 1/115،چشتی)

محمد بن حبان ، الدارمي، البُستي رحمة اللہ علیہ (المتوفى: 354هـ) اکاون ہجری اور ماہ ربیع الاول لکھتے ہیں : فمات في شهر ربيع الأول سنة إحدى وخمسين ۔ (الثقات لابن حبان :3/68)

ابن عساکر اور ابن جوزی علیہما الرحمہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول لکھتے ہیں : مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة خمسين ۔ (تاریخ دمشق : 13/302)(صفوۃ الصفوۃ :1/762)

امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے پچاس ہجری ربیع الاول میں آپ کا وصال لکھا : تُوُفِّيَ الْحَسَنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلَ سَنَةَ خَمْسِينَ ۔ (تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام:2/397،چشتی)

امام سیوطی رحمة اللہ علیہ نے سن (سال) انچاس ، پچاس اور اکاون لکھے اور کہا کہ ربیع الاول کی پانچ تاریخ تھی ۔ وكانت وفاته سنة تسع وأربعين، وقيل: في خامس ربيع الأول سنة خمسين، وقيل: سنة إحدى وخمسين ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 147])

محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري رحمة اللہ علیہ (المتوفى: 310هـ) ۔ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول کو رخصت ہوئے ۔ مات الحسن بن على عليه السلام سنة 50 في ربيع الاول لخمس خلون منه ۔ (المنتخب من ذيل المذيل صفحہ نمبر 19،چشتی)

مات الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول سنة خمسين ۔ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ پچاس ہجری پانچ ربیع الاول کو رخصت ہوئے ۔ (الجزء المتمم لطبقات ابن سعد :1/354)

بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی در آئی ہے کہ ۲۸ صفر کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت سمجھے ہیں اور اسی مناسبت سے اس دن نیاز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ نعت و منقبت اور تقاریر کی محفلیں سجاتے ہیں ، حالانکہ در حقیقت یہ شیعہ مذہب کی روایت ہے جسے طوسی اور قمی کے استاد مشہور و معروف شیعی مصنف محمد بن محمد بن نعمان معروف به شیخ مفید نے "مسار الشیعة فی مختصر تواریخ الشریعۃ صفحہ ۲۲ پر لکھا ہے اور اس پر ایران کے شیعوں کا عمل ہے ۔ تعجب تو یہ ہے کہ خود شیعی علما اس روایت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مستند روایت ۷ / صفر ہے جیسا کہ مشہور شیعی عالم قاسم بن ابراہیم رسی نے " تنثبیت الامامة " صفحہ ۲۹ پر اور محمد بن مکی عاملی نے "الدروس الشرعية في فقه الامامية " جلد ۲ صفحہ ۷ پر اور ابراہیم بن علی عاملی کفعمی نے " المصباح صفحہ ۵۹۶ پر اور حسین بن عبد الصمد عاملی نے " وصول الاختيار الى اصول الاخبار صفحہ ۵۳ پر لکھا ہے اور نجف و عراق کے شیعوں کا اس تاریخ پر عمل ہے ۔ مگر ہمارے بعض سنیوں کی زبوں حالی اس حد تک ہو گئی ہے کہ جو شیعی روایت خود شیعوں کے نزدیک قوی نہیں ہے ، اس پر کار بند ہیں اور اس کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ۲۸ صفر کو ہر گز حضرت سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کی شہادت نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ شیعوں کے مخترعات میں سے ہے ۔ اہل سنت و جماعت کو چاہیے کہ ہر ربیع الاول کو آپ کا یومِ شہادت قرار دیں تا کہ صحیح تاریخ بھی ہو اور ساتھ ہی شیعوں کارد بھی ہو جاۓ ۔

حضرت سیّدنا امام حسن بن علی رضی الله عنہ کے جنازے میں مہاجرین و انصار نے شرکت کی ۔ (عمدہ القاری شرح صحیح بخاری الجز الثامن صفحہ ١٨٠ مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت)

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت سیدنا سعید بن العاص الاموی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا ۔ (شیعہ کتاب شرح نہج البلاغہ جلد 16 کا صفحہ 220) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...