تذکرہ اَصحابِ کہف رضی اللہ عنہم حصّہ اوّل
محترم قارئین کرام اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے : اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ۔ اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَہۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحْمَۃً وَّہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا ۔ (سورہ کہف آیت نمبر 10)
ترجمہ : کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی پھر بولے اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راہ یابی کے سامان کر ۔
یہاں سے اَصحابِ کہف کا واقعہ شروع ہوتا ہے اور اسے اللہ عزوجل نے اپنی عجیب و غریب نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا کیونکہ اس واقعے میں بہت سی نصیحتیں اور حکمتیں ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رقیم اس وادی کا نام ہے جس میں اصحابِ کہف ہیں ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۱۹۸)
ارشاد فرمایا کہ جب ان نوجوانوں نے اپنی کافر قوم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک غار میں پناہ لی اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کی ، اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ، ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہدایت و نصرت اور رزق و مغفرت اور دشمنوں سے امن عطا فرما اور ہمارے لیے ہمارے معاملے میں ہدایت کے اَسباب مہیا فرما ۔ اصحابِ کہف کے متعلق قوی ترین قو ل یہ ہے کہ وہ سات حضرات تھے اگرچہ ان کے ناموں میں کسی قدر اختلاف ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پر جو خازن میں ہے ان کے نام یہ ہیں ۔ (1) مکسلمینا ، (2) یملیخا ، (3) مرطونس ، (4) بینونس ، (5) سارینونس ، (6) ذونوانس ، (7) کشفیط طنونس اور اُن کے کتے کا نام قطمیر ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۲۰۷)
اصحابِ کہف رضی اللہ عنہم کے ناموں کی برکت
اصحاب ِ کہف رضی اللہ عنہم کے نام بڑے بابرکت ہیں اور اَکابر بزرگانِ دین نے ان کے فوائد وخواص بیان کئے ہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ اگریہ اَسماء لکھ کر دروازے پر لگادیئے جائیں تو مکان جلنے سے محفوظ رہتا ہے ، سرمایہ پر رکھ دیئے جائیں تو چوری نہیں ہوتا ، کشتی یا جہاز اُن کی برکت سے غرق نہیں ہوتا ، بھاگا ہوا شخص ان کی برکت سے واپس آجاتا ہے، کہیں آگ لگی ہو اور یہ اسماء کپڑے میں لپیٹ کر ڈال دیئے جائیں تو وہ بجھ جاتی ہے، بچے کے رونے، باری کے بخار، دردِ سر، اُمُّ الصّبیان (خاص قسم کے دماغی جھٹکے اور دورے) خشکی و تری کے سفر میں، جان و مال کی حفاظت، عقل کی تیزی اور قیدیوں کی آزادی کے لئے یہ اسماء لکھ کرتعویذ کی طرح بازو میں باندھے جائیں ۔ (تفسیر جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۴/۴۰۹،چشتی)
واقعہ اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ
اکثر مفسرین کے نزدیک اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد رونما ہوا اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کا ہے اور اس کا ذکر اہلِ کتاب کی مذہبی کتابوں میں موجود ہے اور اسی وجہ سے یہودیوں نے بڑی توجہ کے ساتھ ان کے حالات محفوظ رکھے ۔ بہر حال یہ واقعہ کس زمانے میں رونما ہوا اس کی اصل حقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، البتہ ہم یہاں معتبر مفسرین کی طرف سے بیان کردہ اس واقعے کی بعض تفصیلات کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ مفسرین کے بیان کے مطابق اصحابِ کہف اُفْسُوس نامی ایک شہر کے شُرفاء و معززین میں سے ایماندار لوگ تھے۔ ان کے زمانے میں دقیانوس نامی ایک بڑا جابر بادشاہ تھا جو لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا اورجو شخص بھی بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اسے قتل کر ڈالتا تھا ۔ دقیانوس بادشاہ کے جَبر و ظلم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے اصحابِ کہف بھاگے اور قریب کے پہاڑ میں غار کے اندر پناہ گزین ہوئے، وہاں سوگئے اور تین سوبرس سے زیادہ عرصہ تک اسی حال میں رہے ۔ بادشاہ کو جستجو سے معلوم ہوا کہ وہ ایک غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار کھینچ کر بند کردیا جائے تاکہ وہ اس میں مر کر رہ جائیں اور وہ ان کی قبر ہوجائے، یہی ان کی سزا ہے۔ حکومتی عملے میں سے یہ کام جس کے سپرد کیا گیا وہ نیک آدمی تھا، اس نے ان اصحاب کے نام، تعداد اور پورا واقعہ رانگ کی تختی پرکَنْدَہ کرا کرتا نبے کے صندوق میں دیوار کی بنیا د کے اندر محفوظ کردیا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرا دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا ، زمانے گزرے ، سلطنتیں بدلیں یہاں تک کہ ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا جس کا نام بیدروس تھا اور اس نے 68 سال حکومت کی ۔ اس کے دورِ حکومت میں ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے ۔ بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ یارب! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے مخلوق کو مُردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو جائے۔ اسی زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور (کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر) دیوار کوگرا دیا۔ دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے ۔ اصحابِ کہف اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے فرحاں و شاداں اُٹھے ، چہرے شگفتہ ،طبیعتیں خوش ، زندگی کی ترو تازگی موجود۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ، نماز سے فارغ ہو کر یملیخاسے کہا کہ آپ جائیے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لائیے اور یہ بھی خبر لائیے کہ دقیانوس بادشاہ کا ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ ہے۔ وہ بازار گئے تو انہوں نے شہر پناہ کے دروازے پر اسلامی علامت دیکھی اور وہاں نئے نئے لوگ پائے، یہ دیکھ کر انہیں تعجب ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کل تک تو کوئی شخص اپنا ایمان ظاہر نہیں کرسکتا تھا جبکہ آج اسلامی علامتیں شہر پناہ پر ظاہر ہیں۔ پھر کچھ دیر بعد آپ تندور والے کی دوکان پر گئے اور کھانا خریدنے کے لئے اسے دقیانوسی سکے کا روپیہ دیا جس کارواج صدیوں سے ختم ہوگیا تھا اور اسے دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ان کے ہاتھ آگیا ہے، چنانچہ وہ انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے، وہ نیک شخص تھا ،اس نے بھی ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے۔ یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے۔ حاکم نے کہا :یہ بات کسی طرح قابلِ یقین نہیں، کیونکہ اس میں جو سال لکھا ہوا ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں ،ہم لوگ بوڑھے ہیں ، ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا: میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عُقدہ حل ہوجائے گا۔ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال وخیال میں ہے ؟ حاکم نے کہا، آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں، سینکڑوں برس پہلے ایک بے ایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں اور میرے ساتھی قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہیں ، چلو میں تمہیں ان سے ملادوں ، حاکم اور شہر کے سردار اور ایک کثیر مخلوق ان کے ہمراہ غار کے کنارے پہنچ گئے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے ، جب انہوں نے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز سنی تو سمجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آرہی ہے۔ چنانچہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حمدمیں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں شہر کے لوگ پہنچ گئے اور یملیخا نے بقیہ حضرات کو تمام قصہ سنایا، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اتنا طویل زمانہ سوئے رہے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے موت کے بعد زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی بنیں۔ جب حاکمِ شہر غار کے کنارے پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا ، اس کو کھلوایا تو تختی برآمد ہوئی، اس تختی میں اُن اصحاب کے اَسماء اور اُن کے کتے کا نام لکھا تھا ، یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے اس غار میں پناہ گزین ہوئی، دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کردینے کا حکم دیا ، ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں تاکہ جب کبھی یہ غار کھلے تو لوگ ان کے حال پر مطلع ہوجائیں ۔ یہ تختی پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی حمد و ثناء بجالائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے۔ حاکمِ شہرنے اپنے بادشاہ بید روس کو واقعہ کی اطلاع دی ، چنانچہ بادشاہ بھی بقیہ معززین اور سرداروں کو لے کر حاضر ہوا اور شکرِ الٰہی کا سجدہ بجا لایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی ۔اصحاب ِکہف نے بادشاہ سے مُعانقہ کیا اور فرمایا ہم تمہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کرتے ہیں۔ والسلام علیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکا تہ ،اللّٰہ تعالیٰ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت فرمائے اور جن و اِنس کے شر سے بچائے ۔بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروفِ خواب ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں وفات دیدی، بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اَجساد کو محفوظ کیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے رُعب سے ان کی حفاظت فرمائی کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے ۔ بادشاہ نے سرِغار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک خوشی کا دن معین کردیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں ۔ (تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳/۱۹۸-۲۰۳)( تفسیر ابن کثیر، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۵/۱۳۲-۱۳۳،چشتی)(تفسیر خزائن العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۵۴۹-۵۵۰) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالحین میں عرس کا معمول قدیم سے ہے ۔
فَضَرَبْنَا عَلٰۤی اٰذَانِہِمْ فِی الْکَہۡفِ سِنِیۡنَ عَدَدًا ﴿ۙ۱۱﴾ ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیۡنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ﴿۱۲﴾(سورہ کہف)
ترجمہ : تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا۔پھر ہم نے انھیں جگایا کہ دیکھیں دو گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے ۔
سِنِیۡنَ عَدَدًا : گنتی کے کئی سال ۔ ارشاد فرمایا کہ جب وہ غار میں لیٹے تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک پردہ لگا رکھا یعنی انہیں ایسی نیند سلادیا کہ کوئی آواز بیدار نہ کرسکے ۔ (تفسیر مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۱، ص۶۴۲)
اولیاء کی کرامات برحق ہیں
اس آیت سے معلوم ہواکہ کراماتِ اَولیاء برحق ہیں، اصحابِ کہف بنی اسرائیل کے اولیاء ہیں۔ ان کا کھائے پئے بغیر اتنی مدت زندہ رہنا کرامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کرامت ولی سے سوتے میں بھی صادر ہو سکتی ہے اور اسی طرح بعد ِموت بھی۔ ان کے جسموں کو مٹی کا نہ کھانا یہ بھی کرامتِ اولیاء میں سے ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ ولی اپنے اختیار سے کرامت ظاہر کرے اور اسے علم بھی ہو بلکہ بعض اوقات بغیر ولی کے اختیار کے اور بغیر اس کے علم کے بھی کرامت ظاہر ہوتی ہے جیسے اصحاب ِ کہف کے واقعہ میں ہوا ۔
ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ : پھر ہم نے انہیں جگایا ۔ ارشاد فرمایا کہ پھر ہم نے اصحاب ِ کہف کو (تین سونو سال کی) نیند کے بعد جگایا تاکہ دیکھیں کہ ان کے سونے کی مدت کے بارے میں اختلاف کرنے والے دو گروہوں میں سے کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ درست بتاتا ہے ۔ (تفسیر روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵/۲۲۰)
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالْحَقِّ ؕ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾ وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ اِذْ قَامُوۡا فَقَالُوۡا رَبُّـنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنۡ نَّدْعُوَا۠ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا ﴿۱۴﴾ ہٰۤؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً ؕ لَوْ لَا یَاۡتُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِسُلْطٰنٍۭ بَیِّنٍ ؕ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا ﴿ؕ۱۵﴾ وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوۡہُمْ وَمَا یَعْبُدُوۡنَ اِلَّا اللہَ فَاۡ وٗۤا اِلَی الْکَہۡفِ یَنۡشُرْ لَکُمْ رَبُّکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ و یُہَیِّئْ لَکُمۡ مِّنْ اَمْرِکُمۡ مِّرْفَقًا ﴿۱۶﴾ ۔ (سورہ کہف)
ترجمہ : ہم ان کا ٹھیک ٹھیک حال تمہیں سنائیں وہ کچھ جوان تھے کہ اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت بڑھائی۔اور ہم نے ان کے دلوں کی ڈھارس بندھائی جب کھڑے ہوکر بولے کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے ایسا ہو تو ہم نے ضرور حد سے گزری ہوئی بات کہی۔یہ جو ہماری قوم ہے اس نے اللّٰہ کے سوا خدا بنا رکھے ہیں کیوں نہیں لاتے ان پر کوئی روشن سند تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللّٰہ پر جھوٹ باندھے۔اور جب تم ان سے اور جو کچھ وہ اللّٰہ کے سوا پوجتے ہیں سب سے الگ ہوجاؤ تو غار میں پناہ لو تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلادے گا اور تمہارے کام میں آسانی کے سامان بنادے گا ۔ جن کو یہ پوجتے ہیں ان سے جدا ہوجاؤ تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے کام میں تمہارے لئے آسانی مہیا کردے گا ۔
اِذْ قَامُوۡا فَقَالُوۡا : جب وہ کھڑے ہوگئے تو کہنے لگے ۔ انہوں نے اپنی بات دقیانوس بادشاہ کے سامنے کی جب اس نے انہیں اپنے دربار میں بلا کربتوں کی عبادت نہ کرنے پر باز پُرس کی تھی ۔ (تفسیر مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۶۴۳)
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوۡہُمْ : اور جب تم ان لوگوں سے جدا ہوجاؤ ۔ یہاں سے جو کلام ہے یہ ان حضرات کا آپس میں تھا ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس کافر قوم میں نہ رہو بلکہ ان سے جدا ہوجاؤ اورجا کر کہیں کسی گوشہ میں چھپ جاؤ، جہاں ان کے فتنہ سے بچ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت کیا کریں۔ ہم کو امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں گوشۂ عافیت ضرور دے گا ۔ (تفسیر مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۶۴۴)
فتنوں کے زمانے میں ایمان کی حفاظت کاذریعہ
اس سے معلوم ہوا کہ فتنوں کے زمانہ میں خلقت سے علیحدگی اپنے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ احادیث ِ مبارکہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہوں گی جنہیں لے کر یہ پہاڑ کی چوٹیوں اور برساتی مقامات پر چلا جائے گا کیونکہ وہ اپنے دین کو بچانے کی خاطر فتنوں سے بھاگ رہا ہوگا ۔ (صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب التعرّب فی الفتنۃ، ۴/۴۳۹، الحدیث: ۷۰۸۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنے کھڑے ہوں گے جن میں بیٹھا ہو ا شخص کھڑے سے اچھا رہے گا اور کھڑا ہوا چلنے والے سے اچھا رہے گا۔ اور چلنے والا دوڑنے والے سے اچھا رہے گا۔ جو اس (فتنے) کی طرف جھانکے گا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ان دنوں جس کو بچاؤ کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ ملے تو ا سے اس میں پناہ لے لینی چاہئے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیہا خیر من القائم، ۴/۴۳۶، الحدیث: ۷۰۸۲)
حضرت ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب فتنے ہوں گے ، خبردار پھر فتنے ہوں گے ، پھر وہ فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھا ہوا چلتے ہوئے سے بہتر ہوگا اور چلتا ہوا دوڑتے ہوئے سے بہتر ہوگا۔ آگاہ رہو کہ جب وہ فتنے واقع ہوں تو جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اونٹوں سے مل جائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں چلا جائے اور جس کی زمین ہو وہ اپنی زمین میں پہنچ جائے۔ یہ سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جس کے پاس اونٹ ، بکریاں اور زمین نہ ہو تو وہ کیا کرے ۔ ارشاد فرمایا ’’ وہ اپنی تلوار کی طرف رخ کرے اور اس کی دھار کو پتھر سے کوٹ دے ،پھر اگر الگ ہونے کی طاقت رکھے تو الگ ہو جائے۔ (یعنی اپنی تلوار توڑ دے تاکہ باہمی جنگ و جدال میں حصہ ہی نہ لے سکے)۔(مشکاۃ المصابیح ، کتاب الفتن، الفصل الاول، ۲/۲۷۹، الحدیث: ۵۳۸۵،چشتی)
بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندے تَقیہ نہیں کرتے : اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہ ِ الٰہی تقیہ نہیں کرتے جیسے اصحاب ِ کہف نے علاقہ چھوڑ دیا لیکن تقیہ نہ کیا ۔
وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمْ ذَاتَ الْیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمْ فِیۡ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ ؕ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہۡتَدِ ۚ وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ۔ ﴿٪۱۷﴾(سورہ کہف)
ترجمہ : اور اے محبوب تم سورج کو دیکھو گے کہ جب نکلتا ہے تو ان کے غار سے دہنی طرف بچ جاتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو انہیں بائیں طرف کترا جاتا ہے حالانکہ وہ اس غار کے کھلے میدان میں ہیں یہ اللّٰہ کی نشانیوں سے ہے جسے اللّٰہ راہ دے تو وہی راہ پر اور جسے گمراہ کرے تو ہرگز اس کا کوئی حمایتی راہ دکھانے والا نہ پاؤ گے ۔
وَتَرَی الشَّمْسَ : اور تم سورج کو دیکھو گے ۔ آیت میں فرمایا گیا کہ سورج اصحاب ِ کہف کے دائیں اور بائیں ہوکر گزرتا ہییعنی ان پر تمام دن سایہ رہتا ہے اور طلوع سے غروب تک کسی وقت بھی دھوپ کی گرمی انہیں نہیں پہنچتی ۔ (تفسیر مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۶۴۴)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ان کا غار جنوب رخ (میں) واقع ہوا ہے کہ سورج نکلتے وقت بائیں اور غروب کے وقت داہنے ہو جاتا ہے اور ان پر کسی وقت دھوپ نہیں پہنچتی، یہ ہی تفسیر زیادہ قوی ہے ۔ (نور العرفان، الکہف، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۷۰)
آیت میں مزید فرمایا کہ حالانکہ وہ اس غار کے کھلے حصے میں ہیں گویا ہر وقت انہیں تازہ ہوائیں پہنچتی رہتی ہیں یعنی وہ کھلے میدان میں ہونے کے باوجود دھوپ سے محفوظ ہیں، یا تو ان کی یہ کرامت ہے یا کچھ رخ ہی ایسا ہے ۔
وَ تَحْسَبُہُمْ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمْ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ ؕ لَوِاطَّلَعْتَ عَلَیۡہِمْ لَوَلَّیۡتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّ لَمُلِئْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا ﴿۱۸﴾(سورہ کہف)
ترجمہ : اور تم انھیں جاگتا سمجھواور وہ سوتے ہیں اور ہم ان کی داہنی بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے غار کی چوکھٹ پر اے سننے والے اگر تو انہیں جھانک کر دیکھے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور ان سے ہیبت میں بھر جائے ۔
وَ تَحْسَبُہُمْ اَیۡقَاظًا : اور تم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے ۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم انہیں دیکھو توتم انہیں جاگتے ہوئے خیال کرو گے کیونکہ ان کی آنکھیں کھلی ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم سال میں ایک مرتبہ دس محرم شریف کو ان کی دائیں اور بائیں کروٹ بدلتے رہتے ہیں تاکہ ایک ہی طرح لیٹے رہنے سے ان کے بدن کو نقصان نہ پہنچے اور ان کا کتا غار کی چوکھٹ پراپنی کلائیاں پھیلائے ہوئے ہے اور وہ بھی ان کے ساتھ کروٹ بدلتا ہے یعنی جب اصحاب ِکہف کروٹ بدلتے ہیں تو وہ بھی کروٹ بدلتا ہے ۔ (تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳/۲۰۴-۲۰۵)
کتے کے ضَرَر سے محفوظ رہنے کاوظیفہ
تفسیر ثعلبی میں ہے کہ جو کوئی ان کلمات ’’وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ‘‘ کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے تو کتے کے ضرر سے امن میں رہے گا ۔ (تفسیر ثعلبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۶/۱۶۰)
اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے محبت کی برکت
ابو فضل جوہری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ’’بے شک جس نے نیک لوگوں سے محبت کی وہ ان کی برکتیں پائے گا، ایک کتے نے نیک بندوں سے محبت کی اور ان کی صحبت میں رہا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنی پاک کتاب میں فرمایا۔ ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ جب نیک بندوں اور اولیاءِ کرام کی صحبت میں رہنے کی برکت سے ایک کتا اتنا بلند مقام پا گیا حتّٰی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کا ذکر قرآنِ پاک میں فرما یا تو ا س مسلمان کے بارے میں تیرا کیا گمان ہے جو اولیاء اور صالحین سے محبت کرنے والا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے والا ہے بلکہ اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے تسلی ہے جو کسی بلند مقام پر فائز نہیں ۔ (تفسیر قرطبی، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۵/۲۶۹، الجزء العاشر) یعنی ان کیلئے تسلی ہے کہ وہ اپنی اس محبت و عقیدت کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخ رُو ہوں گے ۔
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قیامت کب قائم ہو گی؟ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز ادا کی اور ا س کے بعد فرمایا ’’قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس شخص نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں ہوں۔ ارشاد فرمایا: تم نے ا س کی کیا تیاری کی ہے؟ عرض کی : میرے پاس بہت زیادہ نمازیں اور روزے تو نہیں ہیں البتہ میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کرتا ہوں۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مرد اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اے شخص! تم ان کے ساتھ ہو گے جن سے محبت کرتے ہو۔‘‘ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں: میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے زیادہ مسلمانو ں کو خوش نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا تھا ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء انّ المرء مع من احبّ، ۴/۱۷۲، الحدیث: ۲۳۹۲،چشتی)
لَوِاطَّلَعْتَ عَلَیۡہِمْ : اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے ۔ آیت میں مزید فرمایا کہ اے سننے والے ! اگر تو انہیں جھانک کر دیکھ لے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور ان کی ہیبت سے بھر جائے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ایسی ہیبت سے ان کی حفاظت فرمائی ہے کہ ان تک کوئی جا نہیں سکتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ ِروم کے وقت کہف کی طرف گزرے تو انہوںنے اصحابِ کہف کے غار میں داخل ہونا چاہا، حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے انہیں منع کیا اور یہ آیت پڑھی پھر ایک جماعت حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکم سے داخل ہوئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہوا چلائی کہ سب جل گئے ۔ (تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳/۲۰۵)
وَکَذٰلِکَ بَعَثْنٰہُمْ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمْ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْہُمْ کَمْ لَبِثْتُمْ ؕ قَالُوۡا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ؕ فَابْعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمْ ہٰذِہٖۤ اِلَی الْمَدِیۡنَۃِ فَلْیَنۡظُرْ اَیُّہَاۤ اَزْکٰی طَعَامًا فَلْیَاۡتِکُمۡ بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلۡـیَؔؔتَلَطَّفۡ وَلَا یُشْعِرَنَّ بِکُمْ اَحَدًا ﴿۱۹﴾ اِنَّہُمْ اِنۡ یَّظْہَرُوۡا عَلَیۡکُمْ یَرْجُمُوۡکُمْ اَوْ یُعِیۡدُوۡکُمْ فِیۡ مِلَّتِہِمْ وَلَنۡ تُفْلِحُوۡۤا اِذًا اَبَدًا ﴿۲۰﴾ (سورہ کہف) ۔
ترجمہ : اور یوں ہی ہم نے ان کو جگایا کہ آپس میں ایک دوسرے سے احوال پوچھیں ان میں ایک کہنے والا بولا تم یہاں کتنی دیر رہے کچھ بولے کہ ایک دن رہے یا دن سے کم دوسرے بولے تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے تو اپنے میں ایک کو یہ چاندی لے کر شہر میں بھیجو پھر وہ غور کرے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ ستھرا ہے کہ تمہارے لیے اس میں سے کھانے کو لائے اور چاہیے کہ نرمی کرے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے۔بیشک اگر وہ تمہیں جان لیں گے تو تمہیں پتھراؤ کریں گے یا اپنے دین میں پھیر لیں گے اور ایسا ہوا تو تمہارا کبھی بھلا نہ ہوگا ۔
وَکَذٰلِکَ بَعَثْنٰہُمْ : اور یوں ہی ہم نے انہیں جگایا ۔ یہاں سے اب بقیہ واقعے کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، تفسیرات کی روشنی میں آیت کا خلاصہ یوں ہے کہ فرمایا ’’ جیسا ہم نے انہیں سلایا ویسا ہی ایک مدت ِ دراز کے بعد ہم نے انہیں جگایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے حالات پوچھیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی قدرتِ عظیمہ دیکھ کر ان کا یقین زیادہ ہو اور وہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ چنانچہ جب وہ بیدار ہوئے تو ان میں سے ایک کہنے والے یعنی مَکْسِلْمِینَا جو اُن میں سب سے بڑے اور ان کے سردارتھے کہنے لگے: تم یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ چند افراد نے کہا: کہ ہم یہاں ایک دن رہے ہیں یا ایک دن سے کچھ کم وقت۔ کیونکہ وہ غار میں طلوعِ آفتاب کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب اُٹھے تو آفتاب قریب ِغروب تھا، اس سے انہوں نے گمان کیا کہ یہ وہی دِن ہے۔ بقیہ لوگوں نے کہا: تمہارا رب خوب جانتا ہے جتنا تم ٹھہرے ہوکہ تھوڑا عرصہ ہوا ہے یا زیادہ ،تو اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی دے کرشہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ جاکر دیکھے کہ وہاں کون سا کھانا زیادہ عمدہ ہے جس میں حرمت کا کوئی شبہ نہ ہو پھر وہی کھانا لے آئے اور جانے والے کو چاہیے کہ آنے جانے میںنرمی سے کام لے اور ہرگز کسی کو تمہاری اطلاع نہ دے ۔ اصحاب ِ کہف اپنے ساتھ دقیانوسی سکے لے کر گئے تھے اورسوتے وقت انہیں اپنے سرہانے رکھ لیا تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسافر کو خرچ ساتھ میں رکھنا طریقۂ تَو کل کے خلاف نہیں ہے ۔ اسباب ساتھ رکھے اور بھروسہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ پر رکھے ۔ (مدارک ، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۶۴۵، خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳/۲۰۵، )
اِنَّہُمْ اِنۡ یَّظْہَرُوۡا عَلَیۡکُمْ : بے شک اگر انہوں نے تمہیں جان لیا ۔ اصحاب ِ کہف نے آپس میں کہا کہ اگر انہوں نے تمہیں جان لیا تو تمہیں پتھر ماریں گے اور بری طرح قتل کریں گے یا جبروستم سے تمہیں اپنے دین میں پھیر لیں گے اور اگر ایسا ہوا تو پھر تم کبھی بھی فلاح نہ پاؤگے۔
وَکَذٰلِکَ اَعْثَرْنَا عَلَیۡہِمْ لِیَعْلَمُوۡۤا اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا ۚ٭ اِذْ یَتَنَازَعُوۡنَ بَیۡنَہُمْ اَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوۡا عَلَیۡہِمۡ بُنْیَانًا ؕ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿۲۱﴾
ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے ان کی اطلاع کردی کہ لوگ جان لیں کہ اللّٰہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کچھ شبہ نہیں جب وہ لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑنے لگے تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے۔
وَکَذٰلِکَ : اور اسی طرح ۔ ارشاد فرمایا کہ جیسے ہم نے اصحاب ِ کہف کو جگایا تھا اسی طرح ہم نے لوگوںکو دقیانوس کے مرنے اور مدت گزر جانے کے بعداصحاب ِ کہف کے بارے میں مطلع کردیا تاکہ تمام لوگ اور بالخصوص بیدروس بادشاہ کی قوم کے منکرین ِقیامت جان لیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کچھ شبہ نہیں ۔ پھر اصحاب ِ کہف کی وفات کے بعد ان کے اردگرد عمارت بنانے میں لوگ باہم جھگڑنے لگے تو کہنے لگے : ان کے غار پر کوئی عمارت بنادو۔ ان کا رب عَزَّوَجَلَّانہیں خوب جانتا ہے جو لوگ اپنے اس کام میں غالب رہے تھے یعنی بیدروس بادشاہ اور اس کے ساتھی، انہوں نے کہا: ہم ضرور ان کے قریب ایک مسجد بنائیں گے جس میں مسلمان نماز پڑھیں اور ان کے قرب سے برکت حاصل کریں۔(خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳/۲۰۶، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۱، ص۶۴۶)
بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا جائز ہے
اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے مزارات کے قریب مسجدیں بنانا اہلِ ایمان کا قدیم طریقہ ہے اور قرآنِ کریم میں اس کا ذکر فرمانا اور اس کو منع نہ کرنا اس فعل کے درست ہونے کی قوی ترین دلیل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بزرگوں کے قرب میں برکت حاصل ہوتی ہے اسی لئے اہلُ اللّٰہ کے مزارات پر لوگ حصولِ برکت کے لئے جایا کرتے ہیں ۔قبروں کی زیارت سنت اور مُوجِب ِثواب ہے ۔
سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبْعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ ؕ قُل رَّبِّیۡۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡہِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیۡہِمۡ مِّنْہُمْ اَحَدًا ﴿۲۲﴾ (سورہ کہف) ۔
ترجمہ : اب کہیں گے کہ وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا اور کچھ کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا بے دیکھے الاؤتکا بات اور کچھ کہیں گے سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا تم فرماؤ میرا رب ان کی گنتی خوب جانتا ہے انہیں نہیں جانتے مگر تھوڑے تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو مگر اتنی ہی بحث جو ظاہر ہوچکی اور ان کے بارے میں کسی کتابی سے کچھ نہ پوچھو ۔
سَیَقُوۡلُوۡنَ : اب لوگ کہیں گے ۔ واقعہ کے آخر میں ان کی تعداد کے متعلق لوگوں کے اختلاف کا بیان فرمایا اور اس کا حل بھی ارشاد فرما دیا اور وہی حل ہر اس مسئلے کا ہے جو اہم نہ ہو اور جس کے جاننے سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا کہ اب لوگ کہیں گے یعنی عیسائی جیسا کہ ان میں سے سیّدنامی آدمی نے کہا کہ وہ تین ہیں جبکہ چوتھا ان کا کتا ہے اور عاقب نامی آدمی نے کہا کہ وہ پانچ ہیں اور چھٹا ان کا کتا ہے۔ یہ سب بغیر دیکھے اندازے ہیں یعنی یہ دونوں اندازے غلط ہیں وہ نہ تین ہیں نہ پانچ ۔ اور کچھ کہیں گے: وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے اور یہ کہنے والے مسلمان ہیں اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے قول کو ثابت رکھا کیونکہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے علم حاصل کرکے کہا۔ تم فرماؤ! میرا رب ان کی تعداد خوب جانتا ہے کیونکہ تمام جہانوں کی تمام تفصیلات اور گزشتہ و آئندہ کی کائنات کا علم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو ہے یا جس کو وہ عطا فرمائے ۔ مزید فرمایا کہ اصحاب ِ کہف کی تعداد کو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ میں انہیں قلیل میں سے ہوں جن کا آیت میں اِستثناء فرمایا ۔ آیت کے آخر میں مزید فرمایا کہ ان کے بارے میں اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر اتنی ہی جتنی ظاہر ہوچکی ہے اور ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ نہ پوچھو ۔ (تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳/۲۰۶-۲۰۷)
وَلَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾ اِلَّا اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ ۫ وَاذْکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَقُلْ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا ﴿۲۴﴾ (سورہ کہف) ۔
ترجمہ : اور ہر گز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گا۔ مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے اور یوں کہہ کہ قریب ہے میرا رب مجھے اس سے نزدیک تر راستی کی راہ دکھائے ۔
اِلَّا اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ : مگر یہ کہ اللّٰہ چاہے ۔ یہاں دو آیتوں میں اسلامی تعلیمات کی ایک بنیادی چیز بیان فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے ارادے میں اِنْ شَاءَ اللّٰہ ضرور کہا کرے ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اور ہر گز کسی چیز کے متعلق نہ کہنا کہ میں کل یہ کرنے والا ہوں مگر ساتھ ہی یہ کہا کرو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ چاہے تو میں کرلوں گا ، مراد یہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ اِنْ شَاءَ اللّٰہ ایسا کروں گا، بغیر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کے نہ کہے ۔اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ اہلِ مکہ نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جب روح،اَصحاب ِکہف اور حضرت ذوالقر نین کے بارے میں دریافت کیا تھا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا اور اِنْ شَاءَ اللّٰہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۳/۲۰۷)
وَاذْکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ:اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرلو۔حضرت عبدا للّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہنا یاد نہ رہے تو جب یاد آئے کہہ لو۔ یاد آنے کی مدت کے بارے میں حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ اگرچہ ایک سال بعد یاد آئے اور امام حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے کہ جب تک اس مجلس میں رہے ، اِنْ شَاءَ اللّٰہ کہہ لے۔(تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳/۲۰۷)
اس آیت کے معنی سے متعلق تفسیروں میں کئی قول مذکور ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیت کا معنٰی یہ ہے ’’اگرکسی نماز کو بھول گیا تو یاد آتے ہی ادا کرلے ۔ (تفسیر مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۶۴۸) ، نماز کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو نماز پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہئے کہ جب یاد آئے (اس وقت) نماز پڑھ لے، اس کا یہی کفارہ ہے ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصلّ اذا ذکرہا۔۔۔ الخ، ۱/۲۱۷، الحدیث: ۵۹۷)
وَقُلْ عَسٰی : اور یوں کہو کہ قریب ہے ۔ارشاد فرمایا ’’ یوں کہو کہ قریب ہے کہ میرا رب میری نبوت پر دلائل کیلئے اصحابِ کہف کے اس واقعے سے زیادہ قریب ہدایت کا کوئی راستہ دکھائے یعنی ایسے معجزات عطا فرمائے جو میری نبوت پر اس سے بھی زیادہ ظاہر دلالت کریں جیسے کہ اَنبیاء ِسابقین کے اَحوال کا بیان اور غیوب کا علم اور قیامت تک پیش آنے والے واقعات کا بیان اور چاند کا دو ٹکڑے ہونا اور حیوانات کا حضور ِ اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دینا، وغیرہ۔(تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳/۲۰۸)(تفسیر جمل، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴/۴۱۰-۴۱۱)
وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾ قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ اَبْصِرْ بِہٖ وَ اَسْمِعْ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّلَا یُشْرِکُ فِیۡ حُکْمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾ (سورہ کہف) ۔
ترجمہ : اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نو اوپر۔ تم فرماؤ اللّٰہ خوب جانتا ہے وہ جتنا ٹھہرے اسی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کے سب غیب وہ کیا ہی دیکھتا اور کیا ہی سنتا ہے اس کے سوا ان کا کوئی والی نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔
قُلْ : تم فرماؤ ۔ اصحاب ِ کہف کے قیام کی مدت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اگر لوگ اس مدت میں جھگڑا کریں تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا فرمانا برحق ہے لہٰذا تم ان سے کہہ دو کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ وہ لوگ کتنا ٹھہرے تھے ، خواہ وہ ان کے غار میں سونے والی مدت ہو یا تب سے لے کر اب تک کی مدت ہو، بہرحال اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ آسمانوں اور زمین کے سب غیبوںکا علم اسی کوہے ،کوئی ظاہر اور کوئی باطن اس سے چھپا نہیں ۔ اِس حصے کا شانِ نزول یہ ہے کہ نجران کے نصرانیوں نے کہا تھا کہ تین سو برس تک ٹھیک ہیں اور نو کی زیادتی کیسی ہے ، اس کا ہمیں علم نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳/۲۰۸)
وَاتْلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَلَن تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلْتَحَدًا ﴿۲۷﴾ ۔ (سورہ کہف) ۔
ترجمہ : اور تلاوت کرو جو تمہارے رب کی کتاب تمہیں وحی ہوئی اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور ہرگز تم اس کے سوا پناہ نہ پاؤ گے ۔
وَاتْلُ : اور تلاوت کر ۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے واقعے پر مشتمل آیات نازل فرما دیں تو ا س آیت میں اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا کہ آپ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے رہیں اور کفار کی ان باتوں کی پروا نہ کریں کہ آپ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیں یا اسے تبدیل کر دیں۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی باتوں کو بدلنے پر کوئی قادر نہیں ۔ (تفسیر ابوسعود، الکہف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳/۳۷۶-۳۷۷) ۔ اس آیتِ مبارکہ میں تلاوت کا بیان اصحاب ِ کہف کے واقعے کے اختتام کے طور پر ہے لیکن قرآنِ پاک کے عمومی الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مُطْلَقاً بھی قرآنِ پاک کی تلاوت کرنی چاہیے ، سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment