Thursday 30 March 2017

اسلام میں حسن اخلاق کی اہمیت وفضیلت

0 comments
















اسلام میں غیبت،چغلی،حسد اور جلن کا حکم

0 comments





Wednesday 29 March 2017

ناچ گانے ، ڈھول تاشے اور میزک کے شرعی احکام

0 comments






حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالی نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے۔اور مجھے منہ اور ہاتھ سے بجائے جانے والے مو سیقی اور سازوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔ اوران بتوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے جن کی زمانہ جاہلیت میں پوجا ہوتی تھی اور میرے رب نے اپنی عزت کی قسم کھا کر ارشاد فر مایا کہ:میرے بندوں میں سے جس نے شراب کا ایک گھونٹ پیا اس کو اس کے بدلے میں جہنم کا کھولتا ہوا پانی پلائوں گاخواہ اسے عذاب ہو یا بخشا جائے اور جو شخص کسی بچہ کو شراب پلائے گا اس کو بھی کھولتا ہوا پانی پلائوں گا۔اور گانے والی عورتوں کی خرید وفروخت اور گانے کی تعلیم اور تجارت اور ان کی قیمت سب حرام ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل،جلد:۵؍ ص:۲۵۷،بحوالہ شرح صحیح مسلم سعیدی،جلد :۲؍ص:۶۷۸)

حضرت ابو مالک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:میری امت کے بعض لوگ شراب کا نام بدل کر پئیں گے ان کے پاس آلات موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں ہوں گی۔اللہ تعالی ان کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان کو بندر اور خنزیر بنادے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ،جلد:۸؍ص:۱۰۷)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالی نے میری امت پر شراب،جوا،بانسری،طبل،اور بربط(یعنی گانے بجانے کے سامان)کو حرام کردیا ہے اور وتر کی نماز کو زیادہ کردیاہے۔(مسند امام احمد بن حنبل،جلد:۲؍ص:۱۶۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قیس بن سعد بن عبادہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:میرے رب تبارک وتعالی نے مجھ پر شراب،طبل اور بربط (یعنی آلات موسیقی)کو حرام کردیا ہے اور غبیرا شراب سے بچو کیونکہ وہ تمام جہانوں کے شراب کا تیسرا حصہ ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل،جلد:۳؍ص:۴۲۲)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:اس امت میں زمین میں دھسنا اور شکلوں کا مسخ ہونا اور پتھروں کا برسنا واقع ہوگا،ایک شخص نے عرض کیا کہ:یارسول اللہ ﷺ!یہ کب ہوگا؟آپ ﷺنے فر مایا کہ:جب گانے والی عورتوں اور آلات موسیقی کا رواج ہو جائے اور شرابیں پئے جائیں۔(ترمذی،حدیث :۲۲۱۲)

رسول مکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا،ریشم،شراب،اور باجوں کو حلال قرار دیں گے اور کچھ ایسے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہیں گے کہ جب شام کو وہ اپنے بکریوں کا ریوڑ لے کر لوٹیں گے اور ان کے پاس کوئی فقیر اپنی حاجت لے کر آئے گا تو کہیں گے کہ:کل آنا۔اللہ تعالی پہاڑ گرا کر ان کوہلاک کردے گا اور دوسرے لوگوں(یعنی شراب اور باجوں وغیرہ کو حلال کرنے والوں)کو مسخ کرکے قیامت تک کے لئے بندر اور خنزیر بنادے گا۔(صحیح بخاری،ج:۲؍ص:۸۳۷)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ان تمام حدیثوں سے واضح ہوا کہ ڈھول،تاشے،میوزک اور گانا بجانا ہر گز ہر گز درست نہیں ہے۔اور چونکہ فلم میں گانے بجانے کے علاوہ بے شمار برائیاں ہیں اس لئے وہ بھی سخت ناجائز وحرام اور عذاب الہی کا ذریعہ ہے ۔البتہ دف کے متعلق علماء کرام کا اتفاق ہے کہ عید،شادی اور ولیمہ وغیرہ کے موقع پربجانا درست ہے کیو نکہ حضور اکرم ﷺنے عید کے موقع پر کچھ نابالغ بچیوں کو دف بجاتے اور جنگ بعاث کا نظم گاتے ہوئے دیکھا تو آپ نے انہیں منع نہ فر مایا۔(صحیح مسلم،حدیث:۸۹۲)

اس کے علاوہ لہو ولعب کے طور پر ایسے گانے بجانے جس میں بیہودہ باتیں ، خلاف شریعت الفاظ اورشہوت انگیز جملے ہوں اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔مسلمانوں کو اپنے رب سے ڈرنا چاہئے اور ان تمام تر خرافات سے انتہائی دور رہنا چاہئے۔آج کل کچھ لوگ نہایت شوق سے موسیقی کے ساتھ قوالی سنتے ہیں اور اسے سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ یہ نفس کا دھوکا ہے۔دف کے علاوہ ہاتھ اور منہ سے بجائے جانے والے آلات کی حرمت پر سب کا اتفاق ہے۔حضور اکرم ﷺنے اس پر شدید عذاب کی وعید سنائی جیسا کہ اوپر مکمل حوالہ کے ساتھ گزرا۔اور بزرگوں کی طرف اسے منسوب کرنا صاف جھوٹ اور ان پر غلط الزام ہے۔ان بزرگوں کی کتابوں میں صاف صاف اسے حرام وناجائز بتایا گیاہے ۔تفصیل کے لئے بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص اور محبوب الہی سیدنا نظام الدین علیہ الرحمہ کے خلیفہ محمد بن مبارک بن محمد علوی کرمانی کی کتاب مستطاب’ سیر الاولیاء ‘ باب نہم در بیان وجد وسماع کا مطا لعہ کرے۔
ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سب خرافات سے الگ ہو کر اللہ عزوجل کی شان میں حمد کے کلمات اور نبی دوجہاں ﷺکی نعت مبارکہ اور بزرگان دین کی شان میں منقبت کے اشعار اس کے علاوہ درست اورموافق شریعت اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنا اور سننا بلا شبہ جائز ہے۔ءضروری نوٹ : آج کل نعت نبی ﷺ کو گانوں کی طرز پر اور آلات موسیقی پر پڑھا جا رہا ہے جو کہ توہین نعت بھی ہے اور توہین فرامین مصطفیٰ ﷺ بھی جس بات کو نبی ﷺ مٹانے آئے تھے اسی کو آج کل کے پیشہ ور لوگ نعت کے نام پر آگے بڑھا رھے ہیں اہل اسلام اس کا مکمل بائیکاٹ کریں اور علماء اسلام اس کے خلاف بھر پور آواز اٹھائیں اور حکم شرعی واضح طور پر لکھیں اللہ تعالیٰ ان ناچ گانے کی طرز پر نعت نبی ﷺ کی توہین کرنے والوں سے ہمیں بچائے آمین ۔
تبلیغ دین اور نیکی کے اس کام میں ہمارا ساتھ دیجیئے : آج دین سے دوری کے اس دور میں دین کا کام کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے ہمیں تبلیغ دین کےلیئے قرآن کریم کی اردو عربی تفاسیر ، احادیث مبارکہ کی عربی اردو کتب اور ان کی شروحات ، کتب فقہ و تصوف اور دیگر مذاہب کی کتابوں کی اشد ضرورت ہے وسائل کی کمی کی وجہ سے اتنے مہنگی کتب خریدنا ہماری پہنچ سے باہر ہے اس سلسلہ میں آپ احباب کا تعاون چاہیئے صاحب استطاعت احباب اپنی حیثیت کے مطابق تعاون فرمائیں جن احباب نے تعاون فرمایا ان سب کا شکریہ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔ موبی کیش اکاؤنٹ نمبر 03037555506 ۔

مسلم اور غیر مسلم کو سلام کرنے کے شرعی احکام و مسائل

0 comments
مسلم اور غیر مسلم کو سلام کرنے کے شرعی احکام و مسائل ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

اللہ جل مجدہ الکریم ارشاد فر ماتا ہے:جب تم سے کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ ،جواب میں کہو یا وہی کہہ دو بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔(سورہ ، نساء ،آیت:۸۶)

اور فر ماتا ہے:جب تم گھروں پر جائو تو اپنوں کو سلام کرو ،اللہ کی طرف سے تحیت ہے مبارک پاکیزہ۔(سورہ نور،آیت:۶۱)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:تم جنت میں نہیں جائوگے جب تک ایمان نہ لے آئو اور تم ایمان والے نہیں ہو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو ۔کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگوگے ۔وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام پھیلائو۔(صحیح مسلم،حدیث:۵۴۔ ترمذی،حدیث:۲۶۸۸)

سلام کے تفصیلی مسائل کے لئے بہار شریعت حصہ ۱۶؍کا مطا لعہ کریں ۔ہم یہاں اختصار کے ساتھ اس سے متعلق کچھ مسائل و آداب بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

مسئلہ :سلام کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حقوق ہیں ۔۱:جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرنا۔۲:جب وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہونا۔۳:جب وہ بلائے تو اجابت کرنا یعنی حاضر ہونا۔۴:جب ملے تو سلام کرنا۔۵:جب چھینک آئے تو اس کا جواب دینا ۔۶:سامنے اور پیٹھ پیچھے اس کی خیر خواہی کرنا۔(ابن ماجہ،حدیث:۱۴۳۳)

مسئلہ : سی سے ملاقات کے وقت پہلے سلام کرنا چاہئے،پھر کوئی بات۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے پھر ان دونوں کے درمیان درخت ،دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور پھر ملاقات کرے تو پھر سلام کرے۔(سنن ابو دائود،حدیث:۵۲۰۰)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:سلام بات چیت کرنے سے پہلے ہے۔(تر مذی،حدیث:۲۶۹۹)

مسئلہ: ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ صرف جان پہچان کے ہی لوگوں کو سلام کرے بلکہ ہر مسلمان کو سلام کرنا چا ہئے ۔نانچہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ:ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ :اسلام کی کون سی چیز سب سے اچھی ہے ؟حضور اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:کھانا کھلائو اور جس کو پہچانتے اور نہیں پہچانتے سب کو سلام کرو۔(بخاری ،حدیث :۲۸ ۔ مسلم، حدیث:۳۹)

مسئلہ :جب ایک جماعت کا گزر ہو تو ان میں سے ایک شخص کا سلام کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک کا جواب دینا کافی ہے۔ چنانچہ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:جب ایک جماعت کا گزر ہو تو ان میں سے ایک شخص کا سلام کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے۔(سنن ابو داود،حدیث:۵۲۰۹)یہی حکم مجلس کا بھی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مسئلہ : گھر میں دا خل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کر ناچاہئے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ نے فر مایا کہ: بیٹے! جب گھر والوں کے پاس جائو تو انہیں سلام کرو تم پر اور تمہارے گھر والوں پر اس کی بر کت ہوگی۔(تر مذی، حدیث :۲۶۹۸)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ: سوار پیدل کو سلام کرے ،چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے آدمی زیادہ کو سلام کریں۔(بخاری،حدیث :۶۲۳۱۔مسلم،حدیث:۲۱۶۰)

یعنی ایک طرف زیادہ لوگ ہوں اور دوسری طرف کم تو کم لوگ زیادہ طرف والوں کو سلام کرے۔بخاری شریف کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:چھوٹا بڑے کو سلام کرے ،گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔(بخاری،حدیث :۶۲۳۱)

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑا انتظار کرے کہ چھوٹا ہی مجھے سلام کرے ۔اور خودچھوٹے کو سلام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھے۔ نبی اکرم ﷺجب چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرتے تو خود انہیں سلام کرتے۔(صحیح مسلم،کتاب السلام،حدیث:۲۱۶۸)

اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو پہلے سلام کرے۔(سنن ابو داود،حدیث:۵۱۹۷)

کافر ومشرک،عیسائی ،یہودی اوربد مذہب وغیرہ کو سلام کرنا درست نہیں،اگر وہ کرے تو جواب میںصرف ’ وعلیکم ‘کہنا چا ہئے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جب اہل کتاب(یعنی یہودی اور عیسائی)تم کو سلام کریں تو تم ان کے جواب میں (صرف) وعلیکم کہو۔(بخاری ،حدیث :۶۲۵۸۔ مسلم،حدیث:۲۱۶۳)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:یہود ونصاری کو ابتداء سلام نہ کرو۔(صحیح مسلم،حدیث:۲۱۶۷)

مسئلہ :بہتر یہ ہے کہ سلام کرتے وقت ’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ ‘کہے اور جواب میں وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ بر کاتہ کہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص نبی ﷺکی بارگاہ میں حاضرہوا، اور کہا:السلام علیکم!نبی ﷺنے فر مایا:دس (نیکیاں)دوسرے شخص نے حاضر ہو کر کہا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔نبی ﷺنے فر مایا:بیس (نیکیاں)پھر ایک اور شخص نے آکر کہا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ!نبی ﷺنے فر مایا:تیس (نیکیاں)۔(تر مذی،حدیث:۲۶۸۹)

اس سے زیادہ الفاظ بڑھانا درست نہیں ۔
Good morning اسی طر ح سے بعض لوگ سلام کی جگہ پر

اور اس کے علاوہ بہت سارے الفا ظ استعمال کرتے ہیں ۔اسی طر ح سے بعض لوگ صرف سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے اور جواب دیتے ہیں، یہ سب خلاف سنت ہے ۔مسلمانوں کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اللہ و رسول کا طریقہ چھوڑ کر غیروں کا طریقہ اختیار کریں۔
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے غیر سے مشابہت کرے تم لوگ یہود ونصاری کی مشابہت نہ کرو۔بے شک یہود کا سلام انگلیوں کے اشارے سے ہوتا ہے اور نصرانیوں کا سلام ہاتھ کے اشارے سے۔(تر مذی،حدیث:۲۶۹۵)

مسئلہ : ایک شخص کا سلام دوسرے کو پہونچانے کا وعدہ کر لیا ہو تو اب واجب ہے کہ پہونچائے ۔اور اس طر ح سے جب کسی کا سلام آئے تو جواب دینے والے کو چا ہئے کہ دونوں پر سلامتی بھیجے۔اور اس طر ح سے جواب دے۔علیک و علیہ السلام ورحمۃ اللہ و بر کاتہ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بچوں کی ولادت کے بعد اسلامی احکام

0 comments
کان میں اذان دینا۔چنانچہ جب حضرت سیدنا امام حسن ر ضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو حضور اکرم ﷺنے ان کے کان میں اذان دیا۔(ترمذی،حدیث:۱۵۱۴ )

کسی عالم یابزرگ شخص سے بچوں کو گھٹی دلوانا،یعنی کھجور یا کوئی میٹھی چیز چبوا کر بچے کو چٹا دینا۔عروہ اور فاطمہ بنت منذر بیان کرتے ہیں کہ:جس وقت حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا نے ہجرت کی تو وہ حمل سے تھیں۔اور حضرت عبد اللہ بن زبیر ان کے پیٹ میں تھے۔جب وہ قبا شریف پہونچیں تو حضرت عبد اللہ پیدا ہوئے وہ اس بچے کو گھٹی دلانے کی غرض سے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس بچہ کورسول اللہ ﷺ کی گود میں دے دیا تو آپ ﷺ نے کھجوریں منگائیں اور آپ ﷺنے اس کو چبایا اور بچے کے منھ میں لعاب دہن ڈال دیا ۔جو چیز سب سے پہلے اس بچے کے پیٹ میں پہونچی وہ آپ ﷺکا لعاب دہن تھا ۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:پھر حضور ﷺنے اس بچے پر ہاتھ پھیرا اور اس کے حق میں دعا فر مائی اور ان کانام عبد اللہ رکھا۔(صحیح مسلم،کتاب الا ٰداب ،حدیث:۲۱۴۶)

اچھانام رکھنا۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:قیامت کے دن تم کو تمہارے نام اور تمہارے باپوں کے نام سے بلایا جائے گا اس لئے اچھے نام ر کھو۔(سنن ابو داود ،حدیث:۴۹۴۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت ابی وہب الجشمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:انبیائے کرام کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھو۔اور بے شک تمہارے ناموں میں اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام ’ عبد اللہ اور عبد الر حمن ‘ ہیں اور سچے نام ’ حارث اور ھمام‘ ہیں اور برے نام ’حرب اور مرہ‘ ہیں۔(سنن ابی داود،حدیث:۴۹۵۰،صحیح مسلم،حدیث:۲۱۳۲)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ہم میں سے ایک شخص کے یہاں لڑ کا پیدا ہوا ،اس شخص نے اس کانام ’ محمد‘ رکھا ۔اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ تم نے اپنے بیٹے کانام رسول اللہ ﷺکے نام پر رکھا ہے۔ہم تم کو یہ نام نہیں رکھنے دیں گے۔وہ اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا۔حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:میرے نام پر نام رکھو،مگر میری کنیت (یعنی بلانے والے نام )پر اپنی کنیت نہ رکھو۔(صحیح مسلم،حدیث:۲۱۳۳)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جس کے یہاں لڑ کا پیدا ہوا پھر وہ میری محبت اور میرے نام سے بر کت حاصل کرنے کے لئے اس کانام ’ محمد ‘ رکھا تو وہ اور اس کا لڑکا جنت میں جائے گا۔(ابن عسا کر)

بہتر یہی ہے کہ کسی عالم سے نام رکھوایا جائے کیو نکہ وہ مسائل سے زیادہ آگاہ اور نام کے اچھے برے معانی سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں ۔اور اگر کسی سبب سے برا نام رکھا جا چکا ہو تو اس کو بدلوالینا چا ہئے کہ حضور ﷺبرے ناموں کو بد ل دیا کرتے تھے۔(صحیح مسلم ، حدیث:۲۱۳۹)

اگر بچہ مرا ہوا پیدا ہو تو نام رکھنے کی ضرورت نہیں اور اگر پیدا ہونے کے بعد مرا ہو تودفن کرنے سے پہلے نام رکھ دینا چا ہئے۔(عالمگیری ، رد المحتار،بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب ،ص:۱۵۳)

عقیقہ کرنا۔مستحب یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن لڑکے کی طرف سے دو جانورنر ہو یا مادہ اور لڑ کی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرے ،سر کے بال مونڈوائے اور اس پر زعفران ملے اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرے۔چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے عقیقہ میں بکری ذبح فر مایا اور فر مایا کہ:اے فاطمہ! اس کا سر منڈائو اور بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو۔(ترمذی،حدیث:۱۵۱۹)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺنے سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے میں دو ،دو مینڈھے ذبح فر مایا۔(سنن نسائی،حدیث:۴۲۱۹)

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:ہر لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے ،ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر منڈایا جائے۔(گروی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے۔اور بعض علماء کہتے ہیں کہ بچہ کی سلامتی اور اس کی نشو ونما اور اس میں اچھے اوصاف ہو نا عقیقہ کے ساتھ وابستہ ہے۔)۔(سنن نسائی ،حدیث:۴۲۲۰)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ساتویں دن مستحب ہے اگر اس دن نہ کر سکے تو بعد میں بھی کر سکتا ہے۔(بہار شر یعت،حصہ:۱۵،ص:۷۰۰)
عام طور سے ہندوستان میں لوگ چھٹی کرتے ہیں اور طر ح طرح کے خلاف شرع رسم ورواج انجام دیتے ہیں ۔حالانکہ اگر وہ ساتویں دن عقیقہ کرے تو اتنا ہی خرچ میں سنت بھی ادا ہو جائے گی اور مہمانوں کے لئے گوشت کا بھی انتظام ہو جائے گا۔اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو حضور اکرم ﷺکی سنت مبارکہ کے مطابق ہر کام کرنے کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین۔
ختنہ کرنا۔ختنہ کرنا سنت ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:پانچ چیزیں فطرت سے ہے یعنی پہلے کے انبیاء کرام علیھم السلام کی سنت سے ہیں۔۱:ختنہ کرنا۔۲:ناف کے نیچے کے بال مونڈنا۔ ۳: مونچھیں پست کرنا۔۴:ناخن ترشوانا۔۵:بغل کے بال اکھیڑنا۔(بخاری،حدیث:۵۸۹۱۔مسلم،حدیث:۲۵۷)

ختنہ کی مدت سات سال سے لیکر بارہ سال تک ہے۔اور بعض علماء نے یہ فر مایا کہ:ولادت کے ساتویں دن بھی ختنہ کرنا درست ہے۔(عالمگیری،بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب،ص:۲۳۹)

اگر کوئی جوان شخص اسلام لے آیا تو اگر وہ خود سے کر سکتا ہے تو کرلے نہیں تو ضرورت نہیں۔(عالمگیری،بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب،ص:۲۳۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کی پہچان احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments







نبی کریم ﷺ کے گستاخوں کی پہچان احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ یقول: بعث علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ الی رسول اللہ ﷺ من الیمن بذھیبۃ فی ادیم مقروظ لم تحصل من ترابھا ۔قال:فقسمہا بین اربعۃ نفر بین عیینۃ ابن بدر و اقرع بن حابس و زید الخیل والرابع اما علقمۃ و اما عامر بن الطفیل ،فقال رجل من اصحابہ:کنا نحن احق بھذا من ھٰؤلاء قال:فبلغ ذلک النبی ﷺ فقال: ألا تأ منونی وانا امین من فی السماء یاتینی خبر السماء صباحا و مسائََ ، قال:فقام رجل غائر العینین ،مشرف الوجنتین،ناشز الجبھۃ ،کث اللحیۃ ،محلوق الرأس ،مشمر الازار ،فقال :یارسول اللہ !اتق اللہ ،قال:ویلک أو لست أحق اھل الارض ان یتقی اللہ؟قال: ثم ولی الرجل،قال: خالد بن الولید:یارسول اللہ!ألا اضرب عنقہ قال:لا،لعلہ ان یکون یصلی ،فقال خالد:وکم من مصل یقول بلسانہ مالیس فی قلبہ،قال رسول اللہ ﷺ:انی لم اومر ان انقب عن قلوب الناس ،ولا اشق بطونھم ، قال: ثم نظر الیہ وھو مقف ،فقال: انہ یخرج من ضئضیء ھذا قوم یتلون کتاب اللہ رطبا لایجاوز حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ۔و اظنہ قال: لئن ادرکتھم لأقتلنھم قتل ثمود۔(بخاری ،کتاب المغازی،باب بعث علی بن ابی طالب وخالد بن ولید الی الیمن قبل حجۃ الوداع،حدیث:۴۳۵۱، مسلم،حدیث:۱۰۶۳)و فی روایۃ ابی داود،یقتلون اھل الاسلام ویدعون اھل الاوثان۔(سنن ابی داود،حدیث:۴۷۶۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا ،جس سے ابھی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔حضور ﷺنے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فر مادیا، عیینہ بن بدر،اقرع بن حابس ،زید بن خیل،اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔اس پر آپ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا:ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔جب یہ بات حضور نبی کریم ﷺتک پہونچی تو آپ ﷺنے فرمایا:کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے ؟حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں ،اس کی خبریں تو میرے پاس صبح وشام آتی رہتی ہیں ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :پھر ایک آدمی کھڑا ہوگیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں ،چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئیں ،اونچی پیشانی،گھنی داڑھی ،سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا،وہ کہنے لگا:یارسول اللہ !اللہ سے ڈرئیے،آپ ﷺنے فر مایا: تو ہلاک ہو،کیا میں تمام اھل زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں ؟پھر جب وہ آدمی جانے کے لئے پلٹا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟آپ ﷺنے فر مایا:ایسا نہ کرو ،شاید یہ نمازی ہو،حضرت خالد بن ولید نے عرض کیا:بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگائوں اور ان کے پیٹ چاک کروں ۔راوی کا بیان ہے کہ: وہ پلٹا تو آپ ﷺ نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فر مایا:اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب سے زبان تر رکھیں گے ،لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے،راوی کہتے ہیں :میرا خیال ہے کہ آ پ ﷺنے یہ بھی فر مایاکہ:اگر میں ان لوگوں کو پائوں تو
قوم ثمود کی طرح قتل کردوں۔اور ابوداود کی روایت میں ہے کہ:وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کو پوجنے والوں کو چھوڑیں گے۔
عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قال:بینا النبی ﷺ یقسم جاء عبد اللہ بن ذی الخویصرہ التمیمی فقال: اعدل یا رسول اللہ !قال:ویحک ،ومن یعدل اذا لم اعدل ۔قال عمر بن الخطاب :دعنی اضرب عنقہ ،قال:دعہ فان لہ اصحا با یحقر احدکم صلاتہ مع صلاتہ و صیامہ مع صیامہ یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ ۔(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث:۳۶۱۰،و کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم ،حدیث : ۶۹۳۳،مسلم،حدیث:۱۰۶۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی اکرم ﷺمال غنیمت تقسیم فر مارہے تھے کہ عبد اللہ بن ذو الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا :یارسول اللہ !انصاف سے تقسیم کیجئے ،حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون انصاف کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:یارسول اللہ !اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں ،فر مایا:رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے)کہ ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے ۔لیکن وہ لوگ دین سے اس طر ح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔
عن علی رضی اللہ عنہ قال: انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: یاتی فی آخر الزمان قوم حدثاء الاسنان، سفھاء الاحلام،یقولون من خیر قول البریۃ ،یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ ،لا یجاوز ایمانھم حنا جرھم ،فاینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجرا لمن قتلھم یوم القیامۃ ۔(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث :۳۶۱۱،مسلم،حدیث:۱۰۶۶،ترمذی ، حدیث:۲۱۸۸،سنن نسائی،حدیث:۴۱۰۲،ابن ماجہ،حدیث:۱۶۸)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:میں نے رسول اللہ ﷺکو فر ماتے ہوئے سنا کہ:آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو نو عمر،عقل سے کورے ہوں گے،وہ حضور نبی اکرم ﷺکی حدیث بیان کریں گے ،مگراسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اُترے گا ،پس تم انہیں جہاں کہیں پائو تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن بڑا ثواب ملے گا۔
عن ابی سعید الخدری وانس بن مالک عن رسول اللہ ﷺ قال: سیکون فی امتی اختلاف و فر قۃ ،قوم یحسنون القیل و یسیئون الفعل و یقرئو ن القرآن لا یجاوز تراقیھم ،یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ ،لایر جعون حتی یرتد علی فوقہ ،ھم شر الخلق و الخلیقۃ ،طوبی لمن قتلھم و قتلوہ ،یدعون الی کتاب اللہ و لیسوا منہ فی شیی ء ،من قاتلھم کان اولی باللہ منھم ،قالوا : یارسول اللہ ! ماسیماھم ؟قال:التحلیق۔(سنن ابی داود، کتاب السنۃ،حدیث: ۴۷۶۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفر قہ بازی ہوگی ،ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ بات کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے ،قرآن پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا ،وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے اور وہ واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ تیر کمان میں واپس نہ آجائے ،وہ لوگ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے ،خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کریں گے اور جسے وہ قتل کریں ،وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا ،ان کا قاتل ان کی بہ نسبت اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوگا ،صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ !ان کی نشانی کیا ہے؟فر مایا:سر منڈوانا ۔
عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:ان ما اتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی اذا رُئیت بھجتہ علیہ وکان رِدئا للأسلام غیرہ الی ما شاء اللہ فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ وسعی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک ،قال:قلت ُ یا نبی اللہ !ایھما اولی بالشرک المرمی ام الرامی؟ قال: بل الرامی۔(مسند البزار،جلد :۷،ص :۲۲۰،حدیث:۲۷۹۳)
تر جمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک جس چیز کا مجھے تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا رہا ،پھر وہ اس قرآن سے دور ہوگیا اور اس کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا :ائے اللہ کے نبی ﷺ!ان دونوں میں کون زیادہ شرک کے قریب تھا ،شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا،آپ ﷺنے فرمایا:شرک کا الزام لگانے والا۔
کان ابن عمر رضی اللہ عنہما یراھم شرار خلق اللہ وقال:انھم انطلقواالی آیات نزلت فی الکفار فجعلوھا علی المومنین۔(بخاری، باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیھم ،ص:۸۲۶)
ترجمہ: امام بخاری نے باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی کہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج)کو اللہ تعالی کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے(کیونکہ)وہ لوگ اُن آیتوں کو جو کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے۔
دین کا کام کرنا اور دین کے کام میں تعاون کرنا دونوں کا بہت بڑا اجر ہے آج دین سے دوری کے اس دور میں دین کا کام کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے ہمیں تبلیغ دین کےلیئے قرآن کریم کی اردو عربی تفاسیر ، احادیث مبارکہ کی عربی اردو کتب اور ان کی شروحات ، کتب فقہ و تصوف اور دیگر مذاہب کی کتابوں کی اشد ضرورت ہے وسائل کی کمی کی وجہ سے اتنے مہنگی کتب خریدنا ہماری پہنچ سے باہر ہے اس سلسلہ میں آپ احباب کا تعاون چاہیئے صاحب استطاعت احباب اپنی حیثیت کے مطابق تعاون فرمائیں جن احباب نے تعاون فرمایا ان سب کا شکریہ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ۔ موبی کیش اکاؤنٹ نمبر 03037555506 ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments










ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:لما اقترف آدم الخطیئۃقال: یارب أسألک بحق محمد لما غفرت لی فقال اللہ :یا ٓدم وکیف عرفت محمد ولم اخلقہ ؟قال: یارب لأنک خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک ورفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الی أحب الخلق فقال اللہ :صدقت یا آدم انہ لأحب الخلق الی، ادعنی بحقہ فغفرت لک و لو لا محمد ما خلقتک ۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،حدیث:۴۲۲۸)
تر جمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد ﷺکے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی محبوب ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما: قال: اوحی اللہ الی عیسی علیہ السلام :یا عیسی آمن بمحمد وامر من ادرکہ من امتک ان یومنوبہ فلولا محمد ماخلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار ولقد خلقت العرش علی الماء فا ضطرب فکتبت علیہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ فسکن۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاہ۔(المستدرک علی الصحیحین ،باب ومن کتاب آیات رسول اللہ ﷺ التی ھی دلائل النبوۃ۔جلد:۲؍ص:۶۷۱،حدیث:۴۲۲۷)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہاکہ:اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی : ائے عیسی!محمد ﷺپر ایمان رکھ،اور اپنی امت کو حکم دے کہ جو لوگ ان کے زمانے کو پائے ان پر ایمان لائے،کیونکہ اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام)کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں نہ جنت کو پیدا کرتا اور نہ ہی جہنم کو،اور بے شک میں نے عرش کو پانی پر پیدا کیا تو وہ لرزنے لگا تو میں نے اس پر ’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘لکھا تو وہ پُر سکون ہوگیا۔یہ حدیث صحیح ہے۔

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ،عن رسول اللہ ﷺ،عن جبرئیل علیہ السلام قال: قلبت مشارق الارض و مغاربھا فلم اجد رجلا افضل من محمد ﷺ ولم اربیتا افضل من بیت بنی ہاشم۔(المعجم الاوسط،جلد:۶؍ص:۲۳۷،حدیث: ۲۶۸۵)
تر جمہ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:جبر ئیل علیہ السلام نے کہا: میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔

عن المطلب بن ابی وداعۃ رضی اللہ عنہ قال: جاء العباس الی رسول اللہ ﷺ فکانہ سمع شیئا ،فقام النبی ﷺ علی المنبر فقال:من انا؟ قالوا:انت رسول اللہ ﷺ علیک السلام،قال: انا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ،ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ ،ثم جعلھم فر قتین فجعلنی فی خیرھم فرقۃ،ثم جعلھم قبائل فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ ،ثم جعلھم بیوتا فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسبا ۔وفی روایۃ آخری:فانا خیرھم بیتا وخیرھم نفسا۔(تر مذی،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،حدیث: ۳۵۳۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اس وقت(کافروں سے کچھ نا شائشتہ کلمات )سن کر (غصہ کی حالت میں تھے،اس واقعہ پر مطلع ہوکر)حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فر ما ہوئے اور فر مایا: میں کون ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا :آپ پر سلامتی ہو،آپ اللہ کے رسول ﷺہیں۔فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔اللہ تعالی نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے بہترین خلق (یعنی انسانو ں)میں پیدا کیا ،پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا (یعنی عرب و عجم)تو مجھے بہترین طبقہ میں رکھا ،پھر ان کے مختلف قبیلے بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ میں رکھا اور بہترین نسب والا بنا یا ۔تو میں گھرانے کے اعتبار سے اور ذات کے اعتبار سے بھی سب سے افضل ہوں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ :قال: قالوا:یارسول اللہ !متی وجبت لک النبوۃ،قال:و آدم بین الروح ولجسد۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث: ۳۶۰۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: صحابہ کرام نے عرض کیا :یارسول اللہ !آپ کو نبوت کب عطا کی گئی؟آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا )جبکہ آدم کی تخلیق روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی(یعنی یعنی روح اور جسم کا با ہمی تعلق ابھی نہ ہوا تھا)

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:جلس ناس من اصحاب رسول اللہ ﷺ ینتظرونہ قال: فخرج،حتی اذا دنا منھم سمعھم یتذاکرون فسمع حدیثھم ،فقال بعضھم:عجبا ان اللہ اتخذ من خلقہ خلیلا ،اتخذ ابراہیم خلیلا ،وقال آخر:ماذا باعجب من کلام موسی کلمہ تکلیما ،وقال آخر: فعیسی کلمۃ اللہ وروحہ ،وقال آخر  :آدم اصطفاہ اللہ ،فخرج علیھم فسلم وقال:قد سمعت کلامکم و عجبکم ان ابراھیم خلیل اللہ وھو کذالک و موسی نجی اللہ وھو کذالک و عیسی روح اللہ وکلمتہ وھو کذالک ،وآدم اصطفاہ اللہ وھو کذالک ،الا وانا حبیب اللہ ولا فخر ،وانا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول شافع واول مشفع یو م القیامۃولا فخروانا اول من یحرک حلق الجنۃ فیفتح اللہ لی فید خلنیھا و معی فقراء المومنین ولا فخر و انا اکرم الاولین والاخرین ولا فخر۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث:۳۶۱۶)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:چند صحابہ کرام حضور ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ،اتنے میں حضور نبی کریم ﷺتشریف لے آئے جب ان کے قریب پہونچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا ۔ان میں سے بعض نے کہا :تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا،دوسر ے نے کہا:یہ حضرت موسی علیہ السلام کے کلیم اللہ ہونے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ہے،ایک نے کہا: حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کا کلمہ اور روح ہیں ،کسی نے کہا :اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا،حضور نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے ،سلام کیا اور فرمایا:میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہار تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں ،بے شک وہ ایسے ہی ہیں حضرت موسی علیہ السلام نجی اللہ ہیں،بے شک وہ ایسے ہی ہیں ،حضرت عیسی علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں ،واقعی وہ اسی طرح ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا ،وہ بھی یقینا ایسے ہی ہیں ۔ سن لو!میں اللہ کا حبیب ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے ،قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے ،اور سب سے پہلے جنت کی کنڈی کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں اللہ تعالی میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میر ے ساتھ غریب و فقیر مومنین ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں اولین وآخرین میں سب سے زیادہ عزت والا و شرف والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے۔

عن ابی بن کعب عن النبی ﷺ قال: اذا کان یوم القیامۃ کنت امام النبین ،و خطیبھم ،وصاحب شفاعتھم غیر فخر۔(تر مذی،حدیث: ۳۶۱۳)
تر جمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:قیامت کے دن میں انبیائے کرام علیھم السلام کا امام ،خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر مجھے فخر نہیں۔

عن انس ان النبی ﷺ اتی بالبراق لیلۃ اسری بہ ملجما مسرجا ،فاستصعب علیہ ،فقال لہ جبرئیل ،أ بمحمد تفعل ھذا ؟قال:فما رکبک احد اکرم علی اللہ منہ ۔قال:فارفض عرقا۔(ترمذی،باب ومن سورۃ بنی اسرائیل ،حدیث:۱۳۳۱)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: شب معراج حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت میں براق لا یا گیا جس پر زین کسی  ہوئی اور لگا م ڈالی ہوئی تھی،اس براق کی خرمستیوں کی وجہ سے آپ ﷺ کا اس پر چڑھنا دشوار ہوگیا ،تو حضرت جبرئیل نے اسے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم ﷺکے ساتھ ایسا کر رہاہے؟حالانکہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ ﷺ سے زیادہ معزز و محترم آج تک تجھ پر کوئی سوار نہ ہوا ،یہ سن کر وہ براق پسینہ پسینہ ہوگیا۔

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال: کنت مع النبی ﷺبمکۃ فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھویقول: السلام علیک یارسول اللہ۔(ترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،حدیث:۳۶۲۶)
تر جمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :میں مکہ مکر مہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا ،ہم مکہ کے ایک طرف چلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ ﷺ کے سامنے آتا وہ ’ السلام علیک یارسول اللہ ‘کہتا۔

عن ابی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال:قال رسول اللہ ﷺ:انا اول من تنشق عنہ الارض فأکسی حلۃ من حلل الجنۃ ثم اقوم عن یمین العرش لیس احد من الخلائق یقوم ذالک المقام غیری۔(ترمذی ،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،حدیث:۳۶۱۱)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :نبی اکرم ﷺنے فر مایا:سب سے پہلا شخص میں ہوں جو زمین سے نکلے گا ، پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا ،پھر میں عرش کے دائیں جانب کھڑا ہوں گا ،اس مقام پر مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہوگا۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال:نھی رسول اللہ ﷺ عن الوصال فی الصوم ۔فقال لہ رجل من المسلمین :انک تواصل یا رسول اللہ! قال:وایکم مثلی ،انی ابیت یطعمنی ربی ویسقینِ۔(بخاری،کتاب الصوم،باب التنکیل لمن اکثر الوصال،حدیث :۱۸۶۴،مسلم، حدیث:۱۱۰۳ )وفی روایۃ اخری:انی لست کھیئتکم۔(بخاری،حدیث:۱۸۶۳،مسلم ،حدیث:۱۱۰۵)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے وصال کے روزے (یعنی بغیر افطار کئے ہوئے مسلسل روزے رکھنے)سے منع فر مایا:تو صحابہ میں سے ایک نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فر مایا:تم میں سے میری طرح کون ہے؟اور دوسری روایت میں ہے کہ: فرمایا:میں تم جیسا نہیں ہوں ،بے شک میں رات اس حال میں گزارتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔

عن عبادہ بن الصامت قال:قال رسول اللہ ﷺ:انا سید الناس یوم القیامۃ ولا فخر مامن احد الا وھو تحت لوائی یو م القیامۃ ینتظر الفرج وان معی لواء الحمد انا امشی و یمشی الناس معی حتی آتی باب الجنۃ فاستفتح فیقال:من ھذا؟فاقول :محمد فیقال: مرحبا بمحمد فاذا رأیت ربی خررت لہ ساجدا انظر الیہ.(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الایمان، حدیث:۸۲)
تر جمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایاکہ:قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گااور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ،ہر شخص قیامت کے دن میر ے جھنڈے کے نیچے ہوگا ،کشادگی کا انتظار کرتے ہوئے۔اور بے شک میر ے پاس حمد کا جھنڈا ہوگا ،میں چلوں گا اور لوگ بھی میرے ساتھ چلیں گے یہاں تک کہ میں جنت کے دروازے پر آئوں گا ،تو میں اسے کھولوائوں گا ،کہا جائے گا کون؟ میں کہوں گا :محمد(ﷺ)تو کہا جائے گا خوش آمدیدمحمد(ﷺ)پھر جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو دیکھتے ہی میں سجدہ میں گِر جائوں گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بروز حشر میزان عمل میں سب سے وزنی چیز

0 comments




بروز حشر میزان عمل میں سب سے وزنی چیز

ارشاد باری تعالی ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیۡنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ  فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیۡنَابِہَا ؕ وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ۔(سورۃ الانبیاء:۴۷)

تر جمہ : اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کا ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا  اور اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کر نے کے لئے کافی ہیں ۔

یعنی انسانوں کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی سب کو میزان عمل میں تولا جائے گا۔پھر کیا ہوگا ؟رب تعالی ارشاد فر ماتا ہے۔

فَاَمَّا  مَنۡ  ثَقُلَتْ مَوَازِیۡنُہٗ ، فَہُوَ  فِیۡ عِیۡشَۃٍ  رَّاضِیَۃٍ ، وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیۡنُہٗ ، فَاُمُّہٗ  ہَاوِیَۃٌ ، وَ مَاۤ  اَدْرٰىکَ مَا ہِیَہۡ ، نَارٌ حَامِیَۃٌ ۔ (سورۃ القارعۃ:۶ تا ۱۱)

تر جمہ : تو جن لوگوں کی تولیں بھاری ہوں گی وہ من پسند عیش میں ہوں گے اور جن لوگوں کی تو لیں ہلکی ہوں گی ان کا انجام “ہاویہ” ہوگا ،اور تم کیا جانو کہ “ہاویہ” کیا ہے؟وہ ایک دھکتی ہوئی آگ ہے ۔

اپنے رب کے اِن فرامین کو سننے کے بعد یقینا ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوگی کہ ہم کچھ ایسی نیکیاں کریں جن کا وزن میزان عمل میں خوب  بھاری ہو۔

تو دیر کس بات کی ؟چشم ایمانی کھولئے اور اپنے کریم آقا علیہ السلام کے ان ارشادات کو پڑھئے اور اپنی دنیا و عاقبت کی کشتِ ویراں کوگلِ گلزار بنایئے۔

 حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور  اکرم الاولین والاخرین،سید الانبیاء والمر سلین ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:میزان عمل میں حُسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی بھی چیز نہیں ہوگی۔(یعنی نیکی کے پلے میں جتنے بھی اچھے اعمال رکھے جائیں گے ان میں سب سے زیادہ وزن”اچھے اخلاق”کا ہوگا)۔

(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی حسن الخلق،حدیث:۴۷۹۹)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ بے شک مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنے اور راتوں کو قیام کرنے والے کے درجے کو پا لیتا ہے۔

(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی حسن الخلق،حدیث:۴۷۹۸)

حضرت سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:میں اس شخص کو جنت کے کنارے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جوحق پر رہتے ہوئے بھی جھگڑا کرنا چھوڑ دے،اور جنت کے بیچ میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں اُس شخص کو جوجھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔اور جنت کے اعلیٰ درجہ میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں اس شخص کو جو اپنا اخلاق اچھا کر لے۔

(سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب فی حسن الخلق،حدیث:۴۸۰۰)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:بے شک تم لوگوں میں سے میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جس کا اخلاق سب سے اچھا ہوگا،اور بے شک قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور بک بک کرنے والے اور گھمنڈ کرنے والے لوگ ہوں گے۔

(جامع ترمذی،کتاب البر والصلۃ ،باب ماجاء فی معالی الاخلاق،حدیث:۲۰۱۸)

یاد رکھیں،یہ فائدہ آپ اسی وقت پائیں گے جب کہ پڑھنے کے ساتھ اِن باتوں کو اپنی عملی زندگی میں اُتاریں ۔

 قیامت کے دن فقیر یعنی محتاج کون ہوگا فکر آخرت بھی کیجیئے
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ :کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عر ض کیا کہ : یارسول اللہ  ﷺ ! ہم میں مفلس آدمی وہ ہے جس کے پاس نہ درھم اور نہ ہی کوئی اور سامان  ہو۔ تونبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:نہیں، میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز یں ،روزوں اور زکا توں کے ثوابوں کا ڈھیراپنے ساتھ لے کرآئے گا مگر اس نے دنیا میں کسی کو گالی دیا ہوگا ،کسی پر بہتان لگایا ہو گا ،کسی کا مال کھا یا ہوگا ، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہوگا ۔اس لئے اس کی نیکیاں لے کر مظلوموں میں تقسیم کر دیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور مظلوموں کا حق ابھی باقی ہوگا تو مظلوموں کے گنا ہوں کا بو جھ اس پر لاد ، دیا جائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔

(تر مذی ،کتاب صفۃ القیامۃ،باب ماجاء فی شان الحساب والقصاص،حدیث: ۲۴۱۸۔ مسلم ،کتاب البر والصلۃ والادب،باب تحر یم الظلم ،حدیث:۲۵۸۱ )
(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)