مسلم اور غیر مسلم کو سلام کرنے کے شرعی احکام و مسائل ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی
اللہ جل مجدہ الکریم ارشاد فر ماتا ہے:جب تم سے کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ ،جواب میں کہو یا وہی کہہ دو بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔(سورہ ، نساء ،آیت:۸۶)
اور فر ماتا ہے:جب تم گھروں پر جائو تو اپنوں کو سلام کرو ،اللہ کی طرف سے تحیت ہے مبارک پاکیزہ۔(سورہ نور،آیت:۶۱)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:تم جنت میں نہیں جائوگے جب تک ایمان نہ لے آئو اور تم ایمان والے نہیں ہو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو ۔کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگوگے ۔وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام پھیلائو۔(صحیح مسلم،حدیث:۵۴۔ ترمذی،حدیث:۲۶۸۸)
سلام کے تفصیلی مسائل کے لئے بہار شریعت حصہ ۱۶؍کا مطا لعہ کریں ۔ہم یہاں اختصار کے ساتھ اس سے متعلق کچھ مسائل و آداب بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
مسئلہ :سلام کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حقوق ہیں ۔۱:جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرنا۔۲:جب وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہونا۔۳:جب وہ بلائے تو اجابت کرنا یعنی حاضر ہونا۔۴:جب ملے تو سلام کرنا۔۵:جب چھینک آئے تو اس کا جواب دینا ۔۶:سامنے اور پیٹھ پیچھے اس کی خیر خواہی کرنا۔(ابن ماجہ،حدیث:۱۴۳۳)
مسئلہ : سی سے ملاقات کے وقت پہلے سلام کرنا چاہئے،پھر کوئی بات۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے پھر ان دونوں کے درمیان درخت ،دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور پھر ملاقات کرے تو پھر سلام کرے۔(سنن ابو دائود،حدیث:۵۲۰۰)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:سلام بات چیت کرنے سے پہلے ہے۔(تر مذی،حدیث:۲۶۹۹)
مسئلہ: ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ صرف جان پہچان کے ہی لوگوں کو سلام کرے بلکہ ہر مسلمان کو سلام کرنا چا ہئے ۔نانچہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ:ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ :اسلام کی کون سی چیز سب سے اچھی ہے ؟حضور اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:کھانا کھلائو اور جس کو پہچانتے اور نہیں پہچانتے سب کو سلام کرو۔(بخاری ،حدیث :۲۸ ۔ مسلم، حدیث:۳۹)
مسئلہ :جب ایک جماعت کا گزر ہو تو ان میں سے ایک شخص کا سلام کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک کا جواب دینا کافی ہے۔ چنانچہ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:جب ایک جماعت کا گزر ہو تو ان میں سے ایک شخص کا سلام کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے۔(سنن ابو داود،حدیث:۵۲۰۹)یہی حکم مجلس کا بھی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مسئلہ : گھر میں دا خل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کر ناچاہئے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اکرم ﷺ نے فر مایا کہ: بیٹے! جب گھر والوں کے پاس جائو تو انہیں سلام کرو تم پر اور تمہارے گھر والوں پر اس کی بر کت ہوگی۔(تر مذی، حدیث :۲۶۹۸)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ: سوار پیدل کو سلام کرے ،چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے آدمی زیادہ کو سلام کریں۔(بخاری،حدیث :۶۲۳۱۔مسلم،حدیث:۲۱۶۰)
یعنی ایک طرف زیادہ لوگ ہوں اور دوسری طرف کم تو کم لوگ زیادہ طرف والوں کو سلام کرے۔بخاری شریف کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:چھوٹا بڑے کو سلام کرے ،گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔(بخاری،حدیث :۶۲۳۱)
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑا انتظار کرے کہ چھوٹا ہی مجھے سلام کرے ۔اور خودچھوٹے کو سلام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھے۔ نبی اکرم ﷺجب چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرتے تو خود انہیں سلام کرتے۔(صحیح مسلم،کتاب السلام،حدیث:۲۱۶۸)
اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو پہلے سلام کرے۔(سنن ابو داود،حدیث:۵۱۹۷)
کافر ومشرک،عیسائی ،یہودی اوربد مذہب وغیرہ کو سلام کرنا درست نہیں،اگر وہ کرے تو جواب میںصرف ’ وعلیکم ‘کہنا چا ہئے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جب اہل کتاب(یعنی یہودی اور عیسائی)تم کو سلام کریں تو تم ان کے جواب میں (صرف) وعلیکم کہو۔(بخاری ،حدیث :۶۲۵۸۔ مسلم،حدیث:۲۱۶۳)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:یہود ونصاری کو ابتداء سلام نہ کرو۔(صحیح مسلم،حدیث:۲۱۶۷)
مسئلہ :بہتر یہ ہے کہ سلام کرتے وقت ’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ ‘کہے اور جواب میں وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ بر کاتہ کہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص نبی ﷺکی بارگاہ میں حاضرہوا، اور کہا:السلام علیکم!نبی ﷺنے فر مایا:دس (نیکیاں)دوسرے شخص نے حاضر ہو کر کہا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔نبی ﷺنے فر مایا:بیس (نیکیاں)پھر ایک اور شخص نے آکر کہا:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ!نبی ﷺنے فر مایا:تیس (نیکیاں)۔(تر مذی،حدیث:۲۶۸۹)
اس سے زیادہ الفاظ بڑھانا درست نہیں ۔
Good morning اسی طر ح سے بعض لوگ سلام کی جگہ پر
اور اس کے علاوہ بہت سارے الفا ظ استعمال کرتے ہیں ۔اسی طر ح سے بعض لوگ صرف سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتے اور جواب دیتے ہیں، یہ سب خلاف سنت ہے ۔مسلمانوں کی شان کے لائق نہیں کہ وہ اللہ و رسول کا طریقہ چھوڑ کر غیروں کا طریقہ اختیار کریں۔
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے غیر سے مشابہت کرے تم لوگ یہود ونصاری کی مشابہت نہ کرو۔بے شک یہود کا سلام انگلیوں کے اشارے سے ہوتا ہے اور نصرانیوں کا سلام ہاتھ کے اشارے سے۔(تر مذی،حدیث:۲۶۹۵)
مسئلہ : ایک شخص کا سلام دوسرے کو پہونچانے کا وعدہ کر لیا ہو تو اب واجب ہے کہ پہونچائے ۔اور اس طر ح سے جب کسی کا سلام آئے تو جواب دینے والے کو چا ہئے کہ دونوں پر سلامتی بھیجے۔اور اس طر ح سے جواب دے۔علیک و علیہ السلام ورحمۃ اللہ و بر کاتہ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment