Saturday 31 March 2018

نبی کا مطلب غیب کی خبردینے والا

0 comments
نبی کا مطلب غیب کی خبردینے والا








نبی کا مطلب غیب کی خبردینے والا

لفظ نبی کا معنیٰ ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں
چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمتہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ۔
ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے ۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم الجزء الاول صفحہ ١٥٧ القاضی ابی الفضل عیاض مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥٤٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)(النسختہ الثانیہ صفحہ ١٦٩ مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ (مصر)(کتاب الشفاء (اردو) جلد اول صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور (پاکستان)۔(دوسرا نسخہ حصہ اول صفحہ 178 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور (پاکستان)
شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین خفاجی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : (والمعنیٰ) ای معنیٰ النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ ۔
ترجمہ : علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ : اﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔(نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الجزء الثالث صفحہ ٣٤١ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری (متوفی ١٠٦٩) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ نے جو لفظ نبی کا ترجمہ : غیب کی خبریں بتانے والا ۔ کیا ہے یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کا لغوی معنیٰ ہی غیب کی خبریں دینے والا ہے توپھر نبی کے علم غیب سے کیسے انکارکیاجا سکتاہے نبی کے علم غیب کا انکارکرنا نبوت کی بنیاد سے انکارکرناہے جب کہ اس موضوع پر بکثرت احادیث موجود ہیں جو نبی کے عالم غیب ہونے پر دلالت کرتی ہیں ملاحظہ کریں ۔
صحابہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہم نے ایک شخص کی تعریف کی کہ جہاد میں ایسی قوت رکھتاہے اورعبادت میں ایسی کوشش کرتا ہے ،اتنے میں وہ سامنے سے گزراحضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس کے چہرے پرشیطان کا داغ پاتاہوں اس نے پاس آکرسلام کیا،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے دل کی بات بتائی کہ کیوں تونے اپنے دل میں کہا کہ اس قوم میں تجھ سے بہتر کوئی نہیں ۔کہا ہاں۔پھر چلا گیا اور ایک مسجد مقرر کرکے نمازپڑھنے کھڑا ہوا ،حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ایسا ہے جو اٹھ کر جائے اور اسے قتل کردے؟ صدیق اکبررضی اللہ عنہ گےٗدیکھاوہ نمازپڑھتاہے واپس آئے اورعرض کیا کہ میں نے اسے نماز میں دیکھامجھے قتل کرتے خوف آیا حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے کہ اٹھ کرجائے اور اسے قتل کردے ؟ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ گےٗ اورنمازپڑھتا دیکھ کر چھوڑ آے اوروہی عذر کیا حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے جو اٹھ کر جاے اور اسے قتل کردے ؟ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ نے عرض کی میں حضور نے فرمایا ہاں تم اگر اسے پاوٗ یہ گیےء وہ جاچکا تھا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا یہ میری امت سے پہلا سینگ نکلا تھا اگر یہ قتل ہو جاتاتو مستقبل میں امت میں کچھ اختلاف نہ پڑتا۔[دلائل النبوت للبہیقی باب ماروی فی اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلّم الیٰ آخرہٖ دارالکتب العلمیہ بیروت جلد 6 صفحہ 287 و288]
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک چور لایا گیا آپ نے فرمایا اس کو قتل کر دو عرض کی گیٗ کہ اس نے چوری ہی تو کی ہے فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دو پھر اسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس اس حال میں لایا گیاکہ اس کے تمام ہاتھ پاوٗں کاٹے جا چکے تھے ۔تو آپ نے فرمایا میں اس کے بغیر تیرا علاج نہیں جانتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے تیرے بارے میں فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کو قتل کر دو وہ تیرا حال خوب جانتے تھے ۔چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔[کنزالعمال جلد 5 صفحہ 538]
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ایک بار ہم میں کھڑے ہوکرابتداے آفرینش سے قیامت تک جوکچھ ہونے والا تھا سب بیان فرما دیا،کویٗ چیز نہ چھوڑی ،جسے یاد رہایادرہا اور جو بھول گیا بھول گیا۔[مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن الفصل الاول صفحہ 461 مطبع مجتبای دہلی]
دس صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث مروی یے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایامیں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دست قدرت میری پشت پر رکھاکہمیرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہویٗ اسی وقت ہرچیز مجھ پر روشن ہو گیٗ اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔[سنن ترنذی کتاب التفسیر حدیث نمبر 3246 دارالفکربیروت]
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آ گیا۔
[سنن ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر 3244 دارالفکر بیروت]
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں بیشک میرے سامنے اللہ عزوجل نے دنیا اٹھا لی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسا دیکھ رہاہوں جیسے اپنی ہتھیلی کودیکھ رہاہوں اس روشنی کے سبب جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کےلےٗ روشن فرمایاجیسے محمد سے پہلے انبیاء کے لے روشن کی تھی صلی اللہ علیہ وسلّم۔۔[حلیۃ الاولیاء جلد 6 صفحہ 101 دارالکتاب العربی بیروت]
جو ہوچکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا ہمارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم جانتے ہیں
مخالفین اہلسنت کے اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !"خلق الانسان علمہ البیان" اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا (ترجمہ جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)
ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں :
مشہور مفسّر امام بغوی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں:خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔ ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی (معالم التنزیل) صفحہ ١٢٥٧) ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥١٦ھ)
اسی طرح قدیم مفسّر امام قرطبی رحمتہ ﷲعلیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلیﷲعلیہ وسلم صلی اﷲعلیہ وسلم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣) ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٦٧١ھ)
ایک اور مفسّر امام ابن عادل حنبلی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔
( اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣-٢٩٤)ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٨٨٠ھ)
اسی طرح امام ثعلبی علیہ الرحمتہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلیﷲ علیہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔
( الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨)
العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٤٢٧ھ)
الحمد للہ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ علم غیب متقدمین مفسرین اکابرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر اور عقائد و نظریات کے مطابق ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عقیدۂ علم غیب اور امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : " عَالِمُ الغَیبِ فَلَا یُظہِرُ عَلیٰ غَیبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ الرتَضیٰ مِن الرَسُول " (سورہ جنّ آیت ٢٦ ٢٧)
ترجمہ : وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا
سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ۔ (مولوی محمد جوناگڑھی وھابی)
اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسّر "امام قُرطبی" علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں :
" کان فیہ دلیل علیٰ انّہ لا یعلم الغیب احد سواہ , ثم استثنیٰ من ارتضاہ من الرسل "
ترجمہ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا پھر ان رسولوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا جن پر وہ راضی ہے ۔
( الجامع الاحکام القران صفحہ ٣٠٨الجزء الحادی والعشرون مؤلف ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبیؒ (متوفی ٦٧١) مطبوعہ بیروت لبنان )( تفسیر قرطبی (اردو) جلد دہم صفحہ ٣٩ مطبوعہ ضیاء القران لاہور )
معلوم ہوا کہ ﷲ پاک اپنے پسندیدہ رسولوں کو "علمِ غیب" عطا فرماتا ہے اور بحمدﷲ قران کی مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے!یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ "اہلسنت وجماعت" نے قران کو اسی طرح سمجھا ہے جیسے اکابرین و سلف صالحین (رحمھم اﷲ) نے سمجھا تھا ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

وما ھو علی الغیب بضنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم غیب بتانے میں بخیل نہیں

0 comments
وما ھو علی الغیب بضنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم غیب بتانے میں بخیل نہیں


وَمَا ھُوَ عَلَی الغَیبِ بِضَنِینِ : یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
القــرآن الکــریــم ( سورة التکویر آیت نمبر 24 )

عطائی اور ذاتی علم غیب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم غیب بتانے میں بخیل نہیں

(1) عطائی اور ذاتی کی تقسیم کے منکر بعض اجہل دیوبندیوں کو ان کے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کا جواب پڑھیئے وہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو عطائی علم حاصل تھا ۔ (تفسیر عثمانی صفحہ 475)

(2) یہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلّم ) ہر قسم کے غیب کی خبر دیتا ہے ماضی ہو یا مستقبل ، اللہ کی صفات ہوں ، یا مابعد الموت ، یا احوال قیامت ۔ (تفسیر عثمانی صفحہ 849 شیخ الاسلام دیوبندعلامہ شبیر عثمانی )

(3) تفسير البغوي میں آیت کے تحت لکھا ہے : يقول إنه يأتيه علم الغيب فلا يبخل به عليكم بل يعلمكم ويخبركم به ، ولا يكتمه كما يكتم الكاهن ما عنده حتى يأخذ عليه حلوانا ، تقول العرب : ضننت بالشيء بكسر النون أضن به ضنا وضنانة فأنا به ضنين أي بخيل ۔
ترجمہ : وہ کہتے ہیں کہ بے شک ان کے ساتھ غیب کا علم آتا ہے تو وہ تہمارے معاملے میں اس میں بخل نہیں فرماتے بلکہ تمہیں اس کی خبر دے دیتے ہیں اور نہ ہی غیب کو چھپاتے ہیں جس طرح کاہن اپنے پاس موجود علم کو چھپاتے ہیں جب تک وہ کاہن اس پر اجرت نہ لے لے ۔ (4) یہی بات محی دین شیخ زادہ نے تفسیر بیضاوی کے حاشیہ میں لکھی ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اب آیئے اس آیت کریمہ کا ترجمہ مختلف مکاتب فکر کے علماء نے کیا کیا ہے پڑھیئے

(1) "اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے میں بخیل بھی نہیں."
(احسن البیان - محمد جونا گڑھی، سعودی آل سعودحکومت اسی قرآن مجید کے ترجمہ کو حاجیوں کیلئےہرسال مفت تقسیم کرتی ہے)

(2) "اور یہ پیغمبر مخفی(بتلائی ہوئی وحی کی)باتوں پر بخل کرنے والے بھی نہیں."
(بیان القرآن - اشرف علی تھانوی)

(3) "اور یہ(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) غیب(یعنی وحی) کی باتیں بتانے پر بخیل بھی نہیں ہے.(ترجمان القرآن - ابوالکلام آزاد)

(4) "وہ اس بارے میں جسے اس نے وحی سے حاصل کیا بخیل نہیں ہے.
(تفسیر نمونہ، جلد15، ترجمہ: مولانا سید صفدر حسین نجفی(اہل تشیع)

(5) "اور وہ غیب کی باتوں کے ظاہر کرنے میں بخیل نہیں."
(قرآن الکریم - (فتح محمد جالندھری دیوبندی)

(6) "اور نہیں ہے یہ(رسول)غیب(کی بات بتانے)میں ذرا بھی بخیل."
(قران حکیم - مترجم سید شبیر احمد)

(7) "اور وہ غیب پر بخیل نہیں."
(بیان القرآن - محمد علی)

(8) "اور یہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں . (تفسیر عثمانی - مترجم مولانا محمود الحسن دیوبندی، مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی، تشکیل نو مولانا محمد ولہ رازی)

(9) "اور نہیں وہ غیب بتانے میں بخیل."
(قران مجید - مترجم میر محمد اسحٰق)

(10) "اور وہ غیب(کے اس علم کو لوگوں تک پہنچانے)کے معاملہ میں بخیل نہیں ہیں."
(تفہیم القرآن - ابوالاعلی مودودی)

(11) "اور وہ غیب کی باتوں کے بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں."
(آسان ترجمہ قرآن - مفتی محمد تقی عثمانی)

(12) "اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں .
(کنزالایمان - اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی)

(13) "اور وہ(یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) غیب(کے بتانے)پر بالکل بخیل نہیں ہیں(مالک عرش نے ان کیلئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)."
(عرفان القرآن - ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)
............
(14) "And He (Muhammad صلی اللہ علیہ وسلم) withholds not a knowledge of the Unseen."
(The Nobel Quran - By Dr. Mohammad Taqi-ud-Din Al-Hilali and Dr. Muhammad Muhsin Khan; Printed and Distributed By King Fahad Complex Madina, Kingdom of Saudi Arabia)

(15) "And He Does Not withhold purposely any knowledge of UNSEEN."(The Quran - By Dr. Syed Vickar Ahmad)

(16) "Neither doth he withhold grudgigly a knowledge a knowledge of the Unseen."(The Meanings of the Holy Quran - By Abdullah Yusuf Ali)

(17) "And Muhammad is not a withholder of [knowledge of] the Unseen ."(Translation of Meaning of Glorious Quran - By AbulQasim Publishing House, 1997 (Al-Muntada Alislami), King Fahad National Library)

(18) "And He is not niggardly with respect to the Unseen."
(The Holy Quran - By Molvi Sher Ali)

(19) "And he is not niggardly as to the disclosing of Unseen."
(Kanz-ul-Iman - By Aala Hazrat Imam Ahmad Raza Khan, English Translation By Prof. Shah Farid-ul-Haque)

(20) "And He (The Glorious Messenger) is not at all miserly in (disclosing) the Unseen. (The Lord of the Throne has not left for him any)
(The Glorious Quran - By Shaikh-ul-Islam Dr. Mohammad Tahir-ul-Qadri)
............
محترم قارئین : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے حتی الوسع کوشش کی کہ ان 20 تراجم میں ہر مکاتب فکر کے مترجمین آجائیں تاکہ کسی ایک مکتب فکر کی بھی گنجائش اور عذر باقی نہ رہ جائے،ہندی اور مراٹھی زبان والے مجھے معاف فرمائیں کہ میری ان زبانوں کی ٹائپنگ(Typing)کمزور ہے.

ان تمام تراجم میں ایک بات مشترک (Common)جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ کہ ہر کوئی ترجمہ میں یہ اظہار کر رہا ہے کہ "غیب یا مخفی باتیں بتانے میں بخیل نہیں . ان تراجم کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ :
(1) بتاتا تو وہی ہے جو جانتا ہو، اور جب میرے آقا علیہ السلام بتانے والے ہیں تو ظاہر ہے سارے مترجمین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ جانتے ضرور ہیں."
(2) میرے آقا علیہ السلام بتانے میں بھی بخیل نہیں اسکا مطلب جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ کہ : ارے تم میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاننے پر بحثیں کرتے ہو وہ تو غیب بتاتے اور سکھاتے ہیں، جس سے انکا غیب جاننا بھی میرے نزدیک ثابت ہوا جنھیں میرے آقاعلیہ السلام نے براہ راست تعلیم دی .(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

منافقین کا گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کے علم مبارک پر طعن کرتے

0 comments
منافقین کا گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کے علم مبارک پر طعن کرتے

منافقین کا ایک گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کے علم مبارک پر طعن کرتے اور یہ کہتے دیکھو یہ نبی (علیہ السلام) آسمانی خبریں دیتا ہے مگر اونٹنی کے بارے میں نہیں جانتا۔ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک مقام پر رسول اللہ علیہ السلام نے آرام فرمایا۔ صبح کے وقت آپ علیہ السلام کی اونٹنی گم ہوگئی صحابہ تلاش میں نکلے وہاں ایک شخص زید بن الصیت تھا جو پہلے یہودی تھا بظاہر اسلام لایا مگر منافق تھا اس نے یہ کہنا شروع کردیا ۔

محمد یزعم انہ نبی و ھو یخبرکم عن خبرالسماء وھو لایدری این ناقتہ ؟
محمد علیہ السلام کا دعویٰ ہے میں نبی ہوں اور وہ تمہیں آسمانی خبریں دیتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اسکی اونٹنی کہاں ہے ؟

آپ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کی قسم میں وہی جانتا ہوں جو مجھے میرا اللہ بتاتا ہے ۔ یعنی میں ذاتی طور پر کچھ نہیں جانتا مجھے اللہ تعالیٰ ہی بتاتا ہے۔ میرے رب نے مجھے اونٹنی کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے وہ فلاں جگہ ہے اور اسکی نکیل درخت کے ساتھ پھنس گئی ہے۔ صحابہ کو بھیجا اور وہاں سے اسے لے آئے۔ (بحوالہ سبل الھدیٰ والرشاد، 5، 449 ، چشتی)

یہ واقعہ احادیث اور تاریخ کی متعدد کتب میں آیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے علوم و غیوب بعطائے الٰہی پر شک کرنا اور ان کا طعن و تمسخر اڑانا صرف منافقین کا شیوہ تھا اور ہے۔ اور آج بھی اگر کوئی علم نبوت کا انکار کرتا ہے تو وہ انہیں منافقین کی پیروی کرتا ہے جن کا ذکر احادیث میں بیان ہوچکا ۔

منافقین علم نبوی پر طعن کے ساتھ ساتھ اسکا مذاق اڑاتے

امام بخاری نے (یا ایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء) کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا : کان قزم یسئالون رسول اللہ علیہ السلام استھزا فیقول الرجل من ابی و یقول الرجل تضل ناقتہ این ناقتی فانزل اللہ فیھم ھذہ الایۃ ۔
ترجمہ : کچھ لوگ رسول اللہ علیہ السلام سے بطور تمسخر و مذاق سوالات کرتے ہوئے پوچھتے بتائیں میرا والد کون ہے؟ اونٹنی گمشدہ کے بارے میں پوچھتے میری اونٹنی کہاں ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر)

جبکہ بعض اوقات حضور علیہ السلام منبر پر تشریف فرما ہوکر اعلان فرماتے کسی نے جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے ۔ فواللہ لا تسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ما دمت فی مقامی ھذا ۔ ترجمہ : اللہ کی قسم تم جو بھی مجھ سے پوچھو گے میں اسی مقام پر کھڑے کھڑے بتاؤں گا ۔ بلکہ آپ علیہ السلام بار بار یہ اعلان فرماتے : سلونی سلونی ۔ مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھ لو (بحوالہ بخاری 2/183)۔

اسی طرح امام بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ شارح بخاری شیخ مہلب کے حوالہ سے آپ کے خطبہ، اعلان، اور ناراضگی کا سبب ان الفاظ میں لکھتے ہیں : لانہ بلغہ ان قوماً من المنافقین یسالون منہ ویعجزونہ عن بعض مایسالونہ فتغیظ وقال لاتسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ۔
ترجمہ : کچھ منافقین کے بارے میں آپ علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ انہوں نے آپ علیہ السلام سے سوالات کیئے اور کہا یہ ہمارے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہیں ، اس پر آپ ناراض ہوئے اور برسر منبر تشریف لاکر اعلان فرمایا مجھ سے پوچھو ، جو تم پوچھو گے میں اسکا جواب دوں گا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 /27)

یعنی منافقین کہتے تھے کہ نبی کریم علیہ السلام ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے اس طرح وہ آپ کے وسیع علم پر طنز کرتے تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ علم غیب کی بنا پر اعلان فرمایا کہ آؤ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو ۔

اب صرف اتنا غور کیجے کہ آج کے دور کے منافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی اور یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خارجی اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔

ان کے نزدیک بھی شیطان کا علم (معاذاللہ) نبی علیہ السّلام کے علم سے زیادہ ہے اور یہ کہ نبی نبی علیہ السّلام کو تو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں (بحوالہ تفویۃ الایمان، صراط مستقیم براھین وغیرہ) ۔ لہٰذا آپ خود فرق تلاش کریں کہ ماضی کے منکرین اور حال کے منکرین میں کیا فرق رہا ؟۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اﷲ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کو غیب کا علم عطا کیا ۔ ان آیات کا کیا جواب دو گے ؟

0 comments
اﷲ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کو غیب کا علم عطا کیا ۔ ان آیات کا کیا جواب دو گے ؟

وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ۔ (النساٗ، 4 : 113)
ترجمہ : اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔

مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ۔(آل عمران، 3 : 179)
ترجمہ : اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ۔ (الجن، 72 : 26۔ 27)
ترجمہ : (وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی(عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوںکے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لیے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے۔
نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں : وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ۔ (التکویر، 81 : 24)
ترجمہ : اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔

اطلاع علی الغیب ،اخبار علی الغیب دیابنہ اور وہابیہ کے فریب کا جواب

0 comments
اطلاع علی الغیب ،اخبار علی الغیب دیابنہ اور وہابیہ کے فریب کا جواب

اطلاع علی الغیب ،اخبار علی الغیب دیابنہ اور وہابیہ کے فریب کا جواب

اطلاع علی الغیب ،اخبار علی الغیب (یعنی غیب پر اطلاع دینا یا خبر دینا ) تو ثابت ہوتا ہے جو کہ ہم بھی مانتے ہیں اختلاف تو اس میں ہے کہ اس کو علم غیب کہنا جائز ہے یا نہیں ?علم غیب اللہ تعالٰی کا خاصہ ہے اور خاصہ کہتے ہی اسے ہیں جو اپنے غیر میں نہ پایا جائے لہذا اللہ کے علاوہ کسی کے لئے علم غیب ثابت کرنا شرک ہے ۔ (معاذاللہ)

تفسیر بیضاوی میں جس غیب کا ذکر ہوا اس کو علم غیب کہا گیا ہے ۔

دیابنہ اور وہابیہ کا یہ کہنا کہ علم غیب اللہ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی کے لئے علم غیب مانے تو یہ شرک ہے معاذاللہ بہت سخت حکم ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ وہابی ویوبندی مولوں کے اس فتوے کی زد میں کون کون آتا ہے

تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري (ت 310 هـ) اس میں سورہ کہف سورہ نمبر 18 آیت نمبر 64 میں : حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ : إنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعَيَ صَبْراً ۔
کے تحت امام ابن جریر اطبری لکھتے ہیں : وكان رجلاً يعلـم علـم الغيب قد علِّـم ذلك،
وہ حضرت خضر علیہ السلام علم غیب جانتے تھے کہ انہوں نے جان لیا ۔

تفسير روح البيان في تفسير القرآن/ اسماعيل حقي (ت 1127 هـ)
وعلمناه من لدنا علما ۔ کے تحت لکھا ہے کہ : خاصا هو علم الغيوب والاخبار عنها باذنه تعالى على ما ذهب اليه ابن عباس رضى الله عنهما ا
ترجمہ : حضرت خضر علیہ السلام کو جو لدنی علم سکھایا گیا وہ علم غیب ہے اور اس غیب کے متعلق خبر دینا ہے خدا کے حکم سے جیسا کہ اس طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما گئے ہیں ۔

تفسير انوار التنزيل واسرار التأويل/ البيضاوي (ت 685 هـ) مصنف و مدقق
سورہ کہف کی آیت 65 کے تحت لکھا ہے ، وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ، مما يختص بنا ولا يعلم إلا بتوفيقنا وهو علم الغيوب.
ترجمہ : ہم نے ان کو اپنا علم لدنی عطا کیا ،حضرت خضر کو وہ علم سکھائے جو ہمارے ساتھ خاص ہیں بغیر ہمارے بتائے کوئی نہیں جانتا اور وہ علم غیب ہے ۔

اب امام ابن کثیر کا حوالہ ملاحظہ ہو جن کی تفسیر دیوبندی وہابی حضرات کے نزدیک بہت ہی مستند مانی جاتی ہے ۔ تفسير تفسير القرآن الكريم/ ابن كثير (ت 774 هـ) قال : إنك لن تستطيع معي صبراً، وكان رجلاً يعلم علم الغيب، قد علم ذلك ،
یہاں امام ابن کثیر بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت لائے جس کو امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں پیش کیا اور امام اسمعیل حقی علیہ الرحمہ نے جس کو اپنی تفسیر میں ذکر کیا ۔ (طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مفسّرین قرآن علیہم الرّحمہ اور لفظ علم غیب کا اطلاق

0 comments
مفسّرین قرآن علیہم الرّحمہ اور لفظ علم غیب کا اطلاق

مفسّرقرآن امام قاضی البيضاوي (المتوفى: ۶۸۵هـ) اور لفظ علم غیب کا اطلاق
امام قاضی البيضاوي رحمتہ اللہ علیہ سورة الكهف ( 65 ) وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً کی تفسیر میں فرماتے ہیں، ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے علم دیا ہے جس کو ہمارے دیے بغیر کوئ نہی جان سکتا اور وہ ” علم غیب ہے “.
خضرعلیہ اسّلام جنکے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے.
ایک منافق منکر نے اسکا یہ جواب دیا کہ یہاں پر صرف خضرعلیہ اسّلام کے علم غیب کا ذکر ہے حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کا ذکر نہی ہے..میں نے جواب دیا ہزار افسوس ہو تیری منافقت پر خضرعلیہ اسّلام کے لئے ِاستشناء کی دلیل کیا ہے ؟؟؟ خضرعلیہ اسّلام کے لیے شرک جائز ہے ؟؟ تم حضور محمّد ﷺ کے خلاف بغض و عناد میں اتنے اندهے ہو چکے ہو کی حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فضائل کا ذکر تمہارے نزدیک وبال جان ہو گیا ؟ ہزار افسوس ہو تیری منافقت پر ۔

نوٹ : ہمارا عقیدہ : انبیاء علیہم اسّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کا اطلاق سلف سے تواتر کے ساتهه مروی ہے . جبکہ لفظ “عالم الغیب” کا اطلاق صرف الله ربّ العزّت پر جائز ہے اور یہ خاصہ ربّ العزّت ہے. مخلوق کے علم پر “عالم الغیب” کا اطلاق منع ہے.(طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ” مجهے تمام چیزوں کا علم ہو گیا جو کہ آسمانوں اور زمینوں میں تهیں : حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکها رب ذوالجلال نے مجهہ سے فرمایا کہ ملائکہ مقربّین کس بات پر جهگڑا کرتے ہیں ؟؟؟ میں نے عرض کیا مولا تو ہی خوب جانتا ہے. حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پهر میرے رب نے اپنی رحمت کا ہاتهہ میرے دونوں شانوں کے درمیان رکهہ دیا میں نے اس کی ٹهنڈک اپنی دونوں چهاتیوں کے درمیان پائی “””پس مجهے ان تمام چیزوں کا علم ہو گیا جو آسمانوں و زمینوں میں تهیں . اور آپ نے یہ تلاوت کی ” اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمان کی بادشاہت دکهائی تا کہ وہ یقین کرنے والوں سے ہو جائیں . ( سنن الدارمي تعليق المحقق إسناده صحيح , حدیث صحیح بشواہد ).

حافظ ابن کثیر ( المتوفى: 774ه ) اور علم غیب کا اطلاق : حافظ ابن کثیر سورة الكهف ( 60 تا 65 ) کی تفسیر میں خضرعلیہ اسّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير ابن كثير ت سلامة (۵ / ۱۷۹ )” وَكَانَ رَجُلًا يَعْلَمُ عِلْمَ الْغَيْبِ ” یعنی حضرت خضرعلیہ اسّلام ” علم غیب جانتے تهے .

خضرعلیہ اسّلام جنکے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے ۔

امام القرطبي رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: 671 هـ) اور علم غیب کا اطلاق : امام القرطبي رحمتہ اللہ علیہ سورة الكهف کی تفسیر میں خضرعلیہ اسّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں : تفسير القرطبي (16/11) (وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً) أَيْ عِلْمَ الْغَيْبِ ” ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے علم دیا یعنی علم غیب ۔

خضرعلیہ اسّلام جن کے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے ۔

امام أبي السعود حنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: 982 هـ) اور علم غیب کا اطلاق

امام أبي السعود حنفی رحمتہ اللہ علیہ سورة الكهف (65) {وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} کی تفسیر میں خضرعلیہ اسّلام کے حوالے سے لکهتے ہیں.
(تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم (234/5 )
{وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا} خاصاً لا يُكتنه كُنهُه ولا يُقادَرُ قدرُه وهو علمُ الغيوب.)

ترجمہ – ( خضرعلیہ اسّلام ) کو ہم نے ( الله ربّ العزّت نے ) اپنے پاس سے خاص علم دیا جسکی حقیقت و مرتبہ کو کوئی نہی جانتا اور وہ ” علم غیوب ہے .

خضرعلیہ اسّلام جنکے نبی ہونے پر اختلاف ہے جب ان کے علم پر علم غیب کا اطلاق جائز ہے تو امام الانبیاء حضور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر بدرجہ اولَی جائز ہے ۔ منکرین اب کیا فرماتے ہیں ؟ ۔ (طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدي رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: ۳۳۳هـ) کا عقیده علم غیب

0 comments
امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدي رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: ۳۳۳هـ) کا عقیده علم غیب

امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدي رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: ۳۳۳هـ) کا “عقیده علم غیب : إذ علم الغيب آية من آيات رسالته ۔
ترجمہ : یعنی علم غیب کا جاننا رسولوں کی رسالت کی دلیل ہے.
(تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة (۲ /۵۴۱)

علمائے دیوبند نے فخریہ طورپرخودکوعقائدمیں الماتريدي تسلیم کیاہے. (عقائدعلمائےدیوبند 213)

علمائےدیوبند کو نمک حلالی کاثبوت دیتےہوئےامام اہلسنّت أبو منصور الماتريدي رحمتہ اللہ علیہ کاعقیدہ علم غیب قبول کرناچاہئے ۔

انبیاء علیہم اسّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کا اطلاق سلف سے تواتر کے ساتهه مروی ہے.جبکہ لفظ “عالم الغیب” کا اطلاق صرف الله ربّ العزّت پر جائز ہے اور یہ خاصہ ربّ العزّت ہے. مخلوق کے علم پر “عالم الغیب” کا اطلاق شرک ہے.
مگر فریق مخالف اہلِ سنّت پر جهوٹ ،کذب ، بہتان لگاتے ہوے پراپیگنڈہ کرتاہے کہ اہلِ سنّت اللہ کے نبی ﷺ کو عالم الغیب مانتے ہیں ۔ ( اختلاف امت اور صراط مستقیم . مولانا یوسف لدهیانوی 38 ).

انبیاء علیہم اسّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کے اطلاق پر فریق مخالف کا ناقوس اعظم مولاناسرفرازگکهڑوی مغالطہ دیتے ہوئے لکهتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالی نے غیب کی خبروں سے وافر حصّہ عطا فرمایا ہےلیکن یہ سب ،اخبار غیب،انباءغیب،ہے “علم غیب نہی ہے”. ( ازالتہ الریب مولاناسرفرازگکهڑوی ).

جبکی امام اہلسنّت أبو منصور الماتريدي رحمتہ اللہ علیہ (المتوفى: ۳۳۳هـ) نے انبیاء علیہم اسّلام کے علوم پر لفظ علم غیب کا اطلاق کیاہے ۔
حضورمحمّدصلی اللہ علیہ وسلم کے علمِ غیب کا انکارکرنا اور علم پر تنقید کرنا “منافقین کا شیوہ ہے”. (تفسير ابن أبي حاتم، الأصيل ء مخرجا (۶ / ۱۸۳۰)

امام المفسرین امام مجاهد رحمتہ اللہ علیہ (وفات 104 هجری ) اس آیت “{ولئن سألتهم ليقولن إنما كنا نخوض ونلعب} [التوبة: ۶۵]” کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک منافق نے کہا محمّدصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حدیث سناتے ہیں کہ فلاں شخص کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں ہے ” بهلا وہ (محمّدصلی اللہ علیہ وسلم) غیب کی باتیں کیا جانیں ؟؟؟”.( اسنادہ صحیح )۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ چہارم

0 comments
قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ چہارم

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کر رہے ہیں : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَيَأْتِي عَلَی النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيْهَا الْکَاذِبُ وَيُکَذَّبُ فِيْهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيْهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيْهَا الْأَمِيْنُ وَيَنْطِقُ فِيْهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيْلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ .
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔ بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور ’’رویبضہ‘‘ یعنی نااہل اور فاسق و فاجر لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔ عرض کیا گیا : ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ نااہل اور فاسق شخص جو اہم معاملات میں عوام کی نمائندگی اور رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، 2 / 1339، الرقم / 4036، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم / 3715، والحاکم في المستدرک، 4 / 512، الرقم / 8439، والبزار في المسند، 7 / 174، الرقم / 2740،.چشتی)

ایک اور حدیث میں ہے : قِيْلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ ؟ قَالَ: اَلسَّفِيْهُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ .
ترجمہ : عرض کیا گیا: ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ (نااہل اور) کم فہم شخص جو عوام کے اہم معاملات میں ان کی رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 291، الرقم / 7899، والحاکم في المستدرک، 4 / 557، الرقم / 8564، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 313، الرقم / 3258، وأيضًا في المعجم الکبير، ولفظه: السفيه ينطق في أمر العامة، 18 / 67، الرقم / 123.چشتی)

یا رسول اللہ! الرُّوَيْبِضَۃُ کون ہیں ؟ فرمایا : اَلسَّفِيْهُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. وہ شخص جو لائق نہیں، جس کے پاس نہ علم ہے نہ فن، نہ ہنر ہے نہ صلاحیت نہ قابلیت، نہ دانائی، نااہل ہے مگر انہیں قوم کا نمائندہ بنا دیا گیا۔ یہ لفظ ہے حدیث پاک کا، قوم کا نمائندہ بن جائیں گے ایسے لوگ تو ایسے لوگوں کو الرُّوَيْبِضَةُ کہتے ہیں۔ فرمایا: جب الرُّوَيْبِضَۃُ نا اہل لوگ عقل، دیانت، قابلیت و صلاحیت سے محروم لوگ ان کے ہاتھ میں قوم کی بھاگ ڈور دے دی جائے، عوام کی نمائندگی دے دی جائے تو فرمایا: اس کو الرُّوَيْبِضَۃُ کہتے ہیں۔ وہ قوم کی بربادی کا زمانہ ہو گا ۔

پھر پوچھا گیا حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے قَالَ : اَلْفُوَيْسِقُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ . ترجمہ : (رویبضہ سے مراد) وہ فاسق شخص ہے جو عوام کے اہم معاملات میں ان کی رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 220، الرقم / 13322، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم / 3715.چشتی)

الرُّوَيْبِضَۃ ُ کون ہیں؟ فرمایا: اَلْفُوَيْسِقُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. اگر فاسق و فاجر لوگ، زانی و شرابی لوگ، بدکار لوگ، کرپٹ لوگ اگر عامۃ الناس کے نمائندے بن جائیں اور عوام انہیں اپنا لیڈر منتخب کر لیں تو ایسے طبقے کو الرُّوَيْبِضَۃُ کہتے ہیں۔ فرمایا : جب الرُّوَيْبِضَۃُ کا زمانہ آجائے تو اللہ کے عذاب کا وہ معاشرہ انتظار کرے ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 220، الرقم: 13322، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم: 3715.)
ایمان سے بولیے، یہ دور الرُّوَيْبِضَۃُ کا دور ہے کہ نہیں ؟

آقا علیہ السلام نے پھر یہ بھی فرمایا :إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِيَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ سُمَحَائَکُمْ وَأُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَيْنَکُمْ فَظَهْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ بُخَـلَائَکُمْ وَأُمُورُکُمْ إِلٰی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ ظَهْرِهَا.
ترجمہ : جب تمہارے حاکم نیک اور پسندیدہ ہوں، تمہارے مالدار کشادہ دل اور سخی ہوں، اور تمہارے معاملات باہمی (خیر خواہانہ) مشورے سے طے ہوں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اُس کے پیٹ سے بہتر ہوگی (یعنی مرنے سے جینا بہتر ہوگا) اور جب تمہارے حاکم شریر ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اُس کی پشت سے بہتر ہے (یعنی ایسی زندگی سے مر جانا بہتر ہے)۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4 / 529، الرقم / 2266، وابن جرير الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 929، الرقم / 1325، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 176، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2 / 190، والمقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 663، الرقم / 303، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 259، الرقم / 3949.چشتی)

عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمَرَةَ قَالَ: إِنَّمَا زَمَانُکُمْ سُلْطَانُکُمْ فَإِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ وَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ .
ترجمہ : حضرت قاسم بن مُخَيْمَرَہ بیان کرتے ہیں: بے شک تمہارے زمانے (کے حالات) کا دار ومدار تمہارے حکمرانوں پر ہے۔ جب تمہارے حکمران نیک اور صالح ہوں گے تو تمہارا زمانہ (بھی حالات کے اعتبار سے) اچھا ہوجائے گا اور جب تمہارے حکمران بُرے ہوں گے تو تمہارا زمانہ بھی بُرا ہو گا ۔ (أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 8 / 162، الرقم / 16429، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 / 42، الرقم / 7442، والمقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 653، الرقم / 298.)

آقا علیہ السلام نے فرمایا : إِنَّمَا زَمَانُکُمْ سُلْطَانُکُمْ فَإِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ وَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ . لوگو! تمہارے زمانے کے حالات، اگر اپنے زمانے کے حالات کو اچھا یا برا دیکھنا ہو تو وہ حکومت کے ذریعے ہو گا۔ جیسی حکومت ہو گی، جیسے تمہارے سلطان ہوں گے، حکمران ہوں گے تمہارے زمانے کے وہی حالات ہوں گے۔ حکومت اور حکمران ہی تمہارا زمانہ ہے۔ اگر حکمران اچھے ہوں گے تو تمہارے دور کے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ اگر حکمران بدکردار، فاسق ہوں گے تو تمہارے زمانے اور دور کے حالات برباد ہو جائیں گے ۔ اگر چاہو کہ حکومت اور اقتدار کرپٹ، بددیانت لوگوں کے ہاتھ میں رہے اور تمہارے گھروں کے اور معاشرے کے حالات سنور جائیں، میرے آقا نے فرمایا : ایسا نہیں ہو گا ۔ چونکہ اس کی مزید وضاحت آقا علیہ السلام نے کی ۔ بڑی خاص بات ۔

عَنْ کَعْبٍ - يَعْنِي الأَحْبَارَ - قَالَ: إِنَّ لِکُلِّ زَمَانٍ مَلِکًا يَبْعَثُهُ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِ أَهْلِهِ، فَإِذَا أَرَادَ اﷲُ بِقَوْمٍ صَـلَاحًا بَعَثَ فِيْهِمْ مُصْلِحًا، وَإِذَا أَرَادَ بِقَوْمٍ هَلَکَةً بَعَثَ فِيْهِمْ مُتْرَفًا، ثُمَّ قَرَأَ: {وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِکَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًاo}.رَوَاهُ الْمُقْرِئُ. وفي رواية : عَنْ أَبِي الْجَلَدِ، قَالَ: يُبْعَثُ عَلَی النَّاسِ مُلُوْکٌ بِذُنُوْبِهِمْ.رَوَاهُ الْمُقْرِئُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.وفي رواية عنه: قَالَ: يَکُوْنُ عَلَی النَّاسِ مُلُوْکٌ بِأَعْمَالِهِمْ.رَوَاهُ ابْنُ حَمَّادٍ.
ترجمہ : حضرت کعب بن اَحبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بے شک ہر زمانہ کا ایک حکمران ہوتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ بندوں کے دلوں پر مبعوث فرماتا ہے (یعنی بندوں پر حکمرانی دیتا ہے)، سو جب اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی اصلاح کا ارادہ فرماتا ہے تو انہی میں سے کسی مصلح کو بھیج دیتا ہے اور جب کسی قوم (کی نافرمانیوں کے باعث ان) کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان میں عیش پرست (نام نہاد لیڈر) بھیج دیتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی:{اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو (کوئی) حکم دیتے ہیں (تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں) تو وہ اس (بستی) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ (عذاب) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیںo}۔
ایک روایت میں حضرت ابو جَلَد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں پر ان کے گناہوں کی پاداش میں (کرپٹ) حکمران بھیجے جائیں گے۔
ایک اور روایت میں حضرت ابو جَلَد رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے: لوگوں پر حکمران ان کے اعمال کے عوض ہوں گے (یعنی جیسے لوگوں کے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکمران ہوں گے) ۔ (أخرجه المقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 653-654، الرقم / 299، وأبو نعیم في حلية الأولياء، 6 / 59، وابن حماد في الفتن، 1 / 115، الرقم / 264، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 39 / 477.چشتی)

آقا علیہ السلام نے فرمایا : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يَکُوْنَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُکَعُ ابْنُ لُکَعٍ . وَزَادَ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی الله عنها: ثُمَّ يَصِيْرُ إِلَی النَّارِ.
ترجمہ : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا، وہ دنیا میں سب سے بڑا شریف اور معزز نہ سمجھا جانے لگے ۔ امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا: پھر اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 389، الرقم / 23351، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب: (37) منه، 4 / 493، الرقم / 2209، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 96، الرقم / 427، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 197، الرقم / 628، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 392، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 802، الرقم / 407، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 273، الرقم / 2727، وابن أبي عاصم في الزهد، 1 / 98، الرقم / 196.چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں : لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی تَصِيْرَ لِلُکَعٍ ابْنِ لُکَعٍ … وَقَالَ أَسْوَدُ: يَعْنِي اَلْمُتَّهَمَ ابْنَ الْمُتَّهَمِ .
ترجمہ : اس وقت تک یہ دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کی دولت اور اقتدار بدنام ترین لوگوں کے لیئے مختص نہ ہو جائے اور اسود نے کہا : یعنی بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 326، الرقم / 8303، 8305، وأيضًا، 3 / 466، الرقم / 15869، والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 229، الرقم / 2291، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 141، وابن حماد في الفتن، 1 / 203، الرقم / 553، وتمام الرازي في الفوائد، 1 / 121، الرقم / 275، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 220، 320.چشتی)
اس وقت تک دنیا ختم نہیں ہو گی جب تک یہ دنیا، یہ مال، یہ دولت، یہ عزت، یہ شرافت، یہ اقتدار لکع ابن لکع کے ہاتھ میں، یعنی نسل در نسل جو بدمعاش اور کرپٹ لوگ ہیں ان کے ہاں منتقل ہونے نہ لگ جائے۔ وہ پراسیس لوگو آ چکا ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نہ کوئی پہلے حکمران ہوتا تھا نہ اس کا بیٹا بنا نہ اس کا بیٹا بنے گا، جن میں شرافت، امانت، دیانت ہے ان سے سے سوسائٹی کی طاقت ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ ان نسلوں میں طاقت، شرافت، اقتدار منتقل ہو رہا ہے اور دنیا اور اس کی عزت منتقل ہو رہی ہے اور نسل در نسل جو بدمعاش ہیں، غاصب ہیں، جاگیردار ہیں، رسہ گیر ہیں غنڈے ہیں جن سے دنیا ڈرتی ہے اور غریب تھر تھر کانپتے ہیں ۔ اس نظام کو آقا علیہ السلام نے فرمایا: لکع ابن لکع کہ بدنام کا بیٹا بدنام، بدمعاش کا بیٹا بدمعاش، غنڈے کا بیٹا غنڈا اس طریق سے اقتدار ان کے ہاتھ رہے گا۔ دین پر عمل کرنے والا اس کو عزت نہیں ملے گی لکع کو عزت ملے گی، علم والے کو عزت نہیں ملے گی لکع ہو، غنڈا ہونا چاہیے بھلے جاہل ہو، بدمعاش ہونا چاہیئے بھلے جاہل ہو۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: وہ دور آ جائے گا کہ جہاں نظام اس طرح کا سوسائٹی میں رواج پزیر ہو گا ۔

عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ بھی روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام سے فرمایا : لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَمْلِکَهَا لُکَعُ بْنُ لُکَعٍ . یہ دنیا ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا، اس پر حکمران ہو گا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 63-64، الرقم / 4677.چشتی)
َوہی لفظ، فرمایا: وہ دور آئے گا کہ دنیا کی ملکیت، لکع ابن لکع بدمعاش کے بیٹے بدمعاش اور نسل در نسل بدمعاشوں کے ہاتھ منتقل ہو جائے گی۔ شرفاء کا کوئی حصہ دنیا کی عزت و شرافت اور اقتدار میں نہیں رہے گا ۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا : حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، امام ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ۔ حدیث صحیح ہے ۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ ذَکَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا - وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ - قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ. فَقُلْتُ: کَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذٰلِکَ جَعَلَنِي اﷲُ فِدَاکَ؟ قَالَ: اِلْزَمْ بَيْتَکَ وَامْلِکْ عَلَيْکَ لِسَانَکَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ . وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَعَوَامَّهُمْ. وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَالْعَامَّةَ.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ انہوں نے وعدوں کا پاس کرنا چھوڑ دیا ہے اور امانتوں کی پروا نہیں رہی - اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگشت ہاے مبارک کو آپس میں پیوست کر کے فرمایا کہ (امانتوں کو لوٹنے والے گروہ) یوں گتھم گتھا ہو جائیں گے - میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ اُس وقت میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت اپنے گھر میں ہی رہنا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، اچھی چیز کو اختیار کرنا اور بری بات کو چھوڑ دینا۔ اور تم پر لازم ہے کہ (اپنے دینی و مذہبی اور معاشرتی و اَخلاقی فرائض کی کامل ادائیگی کے ذریعے) اپنی جان (کو نارِ جہنم سے بچانے) کی خصوصی فکر کرنا اور رائے عامہ کی پیروی کو چھوڑ دینا (بلکہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پیروی کرنا) ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اس وقت) عامۃ الناس کی رائے کی پیروی سے بچنا ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عامۃ الناس کی رائے کی پیروی اِختیار نہ کرنا (بلکہ حق کا ساتھ دینا)۔
( (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 109، الرقم / 4343، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 59، الرقم / 10033، والحاکم في المستدرک، 4 / 315، الرقم / 7758، والطحاوي في شرح مشکل الآثار، 3 / 219. أخرجه المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 363، الرقم / 117، وأيضًا، 3 / 576، الرقم / 256. أخرجه المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 365، الرقم / 118، وأيضًا، 3 / 574، الرقم / 254.چشتی) ۔ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام آقا علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے تھے حلقہ بنا کر کہ آقا علیہ السلام نے فتنوں کا ذکر فرمایا ، آقا علیہ السلام نے فتنوں کے دور کا ذکر کیا کہ ایسے ایسے فتنے آئیں گے۔ تو ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ فتنے کب آئیں گے؟ آقا علیہ السلام نے پہچان بیان کی کہ فتنوں کا دور یہ ہو گا : إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا - وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ . اس طرح انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں فرمایا: فتنوں کا دور وہ ہو گا کہ جو لوگوں کے لیڈر ہوں گے، حکمران ہوں گے، نمائندے ہوں گے جن کو امانتیں دی جائیں گی وہ وعدے کریں گے پھر وعدہ خلافی کریں گے ۔ انہیں امانت دی جائے گی وہ امانت کو ہلکا سمجھ کے کھا جائیں گے، کرپشن کریں گے اور سارے کرپشن کرنے والے ٹولے اور جماعتیں اور گروہ ، وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ، ان انگلیوں کی طرح آپس میں جڑ جائیں گے۔ یہ گیا کہ نہیں؟ کرپشن پہ جماعتیں آپس میں مل جائیں گی، ان کا ایجنڈا ایک ہو جائے گا، لوٹ مار، خیانت و کرپشن، آقا علیہ السلام نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا : یہ وعدے توڑنے والے اور قوم کی امانتیں کھانے والے اس طرح جیسے انگلیوں میں انگلیاں میں ڈال رہا ہوں ایسے جڑ جائیں گے، ایک ہو جائیں گے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)