Saturday, 31 March 2018

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ چہارم

قرب قیامت میں اٹھنے والے فتنے اور موجودہ حالات حصّہ چہارم

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کر رہے ہیں : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَيَأْتِي عَلَی النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيْهَا الْکَاذِبُ وَيُکَذَّبُ فِيْهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيْهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيْهَا الْأَمِيْنُ وَيَنْطِقُ فِيْهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيْلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ .
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔ بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت اور ’’رویبضہ‘‘ یعنی نااہل اور فاسق و فاجر لوگ قوم کی نمائندگی کریں گے۔ عرض کیا گیا : ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ نااہل اور فاسق شخص جو اہم معاملات میں عوام کی نمائندگی اور رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے ۔ (أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، 2 / 1339، الرقم / 4036، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم / 3715، والحاکم في المستدرک، 4 / 512، الرقم / 8439، والبزار في المسند، 7 / 174، الرقم / 2740،.چشتی)

ایک اور حدیث میں ہے : قِيْلَ : وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ ؟ قَالَ: اَلسَّفِيْهُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ .
ترجمہ : عرض کیا گیا: ’رویبضہ‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ (نااہل اور) کم فہم شخص جو عوام کے اہم معاملات میں ان کی رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 291، الرقم / 7899، والحاکم في المستدرک، 4 / 557، الرقم / 8564، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 313، الرقم / 3258، وأيضًا في المعجم الکبير، ولفظه: السفيه ينطق في أمر العامة، 18 / 67، الرقم / 123.چشتی)

یا رسول اللہ! الرُّوَيْبِضَۃُ کون ہیں ؟ فرمایا : اَلسَّفِيْهُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. وہ شخص جو لائق نہیں، جس کے پاس نہ علم ہے نہ فن، نہ ہنر ہے نہ صلاحیت نہ قابلیت، نہ دانائی، نااہل ہے مگر انہیں قوم کا نمائندہ بنا دیا گیا۔ یہ لفظ ہے حدیث پاک کا، قوم کا نمائندہ بن جائیں گے ایسے لوگ تو ایسے لوگوں کو الرُّوَيْبِضَةُ کہتے ہیں۔ فرمایا: جب الرُّوَيْبِضَۃُ نا اہل لوگ عقل، دیانت، قابلیت و صلاحیت سے محروم لوگ ان کے ہاتھ میں قوم کی بھاگ ڈور دے دی جائے، عوام کی نمائندگی دے دی جائے تو فرمایا: اس کو الرُّوَيْبِضَۃُ کہتے ہیں۔ وہ قوم کی بربادی کا زمانہ ہو گا ۔

پھر پوچھا گیا حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے قَالَ : اَلْفُوَيْسِقُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ . ترجمہ : (رویبضہ سے مراد) وہ فاسق شخص ہے جو عوام کے اہم معاملات میں ان کی رہنمائی کا ذمہ دار بن جائے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 220، الرقم / 13322، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم / 3715.چشتی)

الرُّوَيْبِضَۃ ُ کون ہیں؟ فرمایا: اَلْفُوَيْسِقُ يَتَکَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ. اگر فاسق و فاجر لوگ، زانی و شرابی لوگ، بدکار لوگ، کرپٹ لوگ اگر عامۃ الناس کے نمائندے بن جائیں اور عوام انہیں اپنا لیڈر منتخب کر لیں تو ایسے طبقے کو الرُّوَيْبِضَۃُ کہتے ہیں۔ فرمایا : جب الرُّوَيْبِضَۃُ کا زمانہ آجائے تو اللہ کے عذاب کا وہ معاشرہ انتظار کرے ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 220، الرقم: 13322، وأبو يعلی في المسند، 6 / 378، الرقم: 3715.)
ایمان سے بولیے، یہ دور الرُّوَيْبِضَۃُ کا دور ہے کہ نہیں ؟

آقا علیہ السلام نے پھر یہ بھی فرمایا :إِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِيَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ سُمَحَائَکُمْ وَأُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَيْنَکُمْ فَظَهْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَأَغْنِيَاؤُکُمْ بُخَـلَائَکُمْ وَأُمُورُکُمْ إِلٰی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَکُمْ مِنْ ظَهْرِهَا.
ترجمہ : جب تمہارے حاکم نیک اور پسندیدہ ہوں، تمہارے مالدار کشادہ دل اور سخی ہوں، اور تمہارے معاملات باہمی (خیر خواہانہ) مشورے سے طے ہوں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اُس کے پیٹ سے بہتر ہوگی (یعنی مرنے سے جینا بہتر ہوگا) اور جب تمہارے حاکم شریر ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اُس کی پشت سے بہتر ہے (یعنی ایسی زندگی سے مر جانا بہتر ہے)۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4 / 529، الرقم / 2266، وابن جرير الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 929، الرقم / 1325، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 176، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 2 / 190، والمقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 663، الرقم / 303، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 259، الرقم / 3949.چشتی)

عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمَرَةَ قَالَ: إِنَّمَا زَمَانُکُمْ سُلْطَانُکُمْ فَإِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ وَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ .
ترجمہ : حضرت قاسم بن مُخَيْمَرَہ بیان کرتے ہیں: بے شک تمہارے زمانے (کے حالات) کا دار ومدار تمہارے حکمرانوں پر ہے۔ جب تمہارے حکمران نیک اور صالح ہوں گے تو تمہارا زمانہ (بھی حالات کے اعتبار سے) اچھا ہوجائے گا اور جب تمہارے حکمران بُرے ہوں گے تو تمہارا زمانہ بھی بُرا ہو گا ۔ (أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 8 / 162، الرقم / 16429، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 / 42، الرقم / 7442، والمقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 653، الرقم / 298.)

آقا علیہ السلام نے فرمایا : إِنَّمَا زَمَانُکُمْ سُلْطَانُکُمْ فَإِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ وَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ . لوگو! تمہارے زمانے کے حالات، اگر اپنے زمانے کے حالات کو اچھا یا برا دیکھنا ہو تو وہ حکومت کے ذریعے ہو گا۔ جیسی حکومت ہو گی، جیسے تمہارے سلطان ہوں گے، حکمران ہوں گے تمہارے زمانے کے وہی حالات ہوں گے۔ حکومت اور حکمران ہی تمہارا زمانہ ہے۔ اگر حکمران اچھے ہوں گے تو تمہارے دور کے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ اگر حکمران بدکردار، فاسق ہوں گے تو تمہارے زمانے اور دور کے حالات برباد ہو جائیں گے ۔ اگر چاہو کہ حکومت اور اقتدار کرپٹ، بددیانت لوگوں کے ہاتھ میں رہے اور تمہارے گھروں کے اور معاشرے کے حالات سنور جائیں، میرے آقا نے فرمایا : ایسا نہیں ہو گا ۔ چونکہ اس کی مزید وضاحت آقا علیہ السلام نے کی ۔ بڑی خاص بات ۔

عَنْ کَعْبٍ - يَعْنِي الأَحْبَارَ - قَالَ: إِنَّ لِکُلِّ زَمَانٍ مَلِکًا يَبْعَثُهُ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِ أَهْلِهِ، فَإِذَا أَرَادَ اﷲُ بِقَوْمٍ صَـلَاحًا بَعَثَ فِيْهِمْ مُصْلِحًا، وَإِذَا أَرَادَ بِقَوْمٍ هَلَکَةً بَعَثَ فِيْهِمْ مُتْرَفًا، ثُمَّ قَرَأَ: {وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِکَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًاo}.رَوَاهُ الْمُقْرِئُ. وفي رواية : عَنْ أَبِي الْجَلَدِ، قَالَ: يُبْعَثُ عَلَی النَّاسِ مُلُوْکٌ بِذُنُوْبِهِمْ.رَوَاهُ الْمُقْرِئُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.وفي رواية عنه: قَالَ: يَکُوْنُ عَلَی النَّاسِ مُلُوْکٌ بِأَعْمَالِهِمْ.رَوَاهُ ابْنُ حَمَّادٍ.
ترجمہ : حضرت کعب بن اَحبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بے شک ہر زمانہ کا ایک حکمران ہوتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ بندوں کے دلوں پر مبعوث فرماتا ہے (یعنی بندوں پر حکمرانی دیتا ہے)، سو جب اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی اصلاح کا ارادہ فرماتا ہے تو انہی میں سے کسی مصلح کو بھیج دیتا ہے اور جب کسی قوم (کی نافرمانیوں کے باعث ان) کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان میں عیش پرست (نام نہاد لیڈر) بھیج دیتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی:{اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو (کوئی) حکم دیتے ہیں (تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں) تو وہ اس (بستی) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ (عذاب) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیںo}۔
ایک روایت میں حضرت ابو جَلَد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں پر ان کے گناہوں کی پاداش میں (کرپٹ) حکمران بھیجے جائیں گے۔
ایک اور روایت میں حضرت ابو جَلَد رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے: لوگوں پر حکمران ان کے اعمال کے عوض ہوں گے (یعنی جیسے لوگوں کے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکمران ہوں گے) ۔ (أخرجه المقرئ الداني في السنن الواردة في الفتن، 3 / 653-654، الرقم / 299، وأبو نعیم في حلية الأولياء، 6 / 59، وابن حماد في الفتن، 1 / 115، الرقم / 264، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 39 / 477.چشتی)

آقا علیہ السلام نے فرمایا : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يَکُوْنَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُکَعُ ابْنُ لُکَعٍ . وَزَادَ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی الله عنها: ثُمَّ يَصِيْرُ إِلَی النَّارِ.
ترجمہ : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا، وہ دنیا میں سب سے بڑا شریف اور معزز نہ سمجھا جانے لگے ۔ امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا: پھر اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 389، الرقم / 23351، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب: (37) منه، 4 / 493، الرقم / 2209، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 96، الرقم / 427، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 197، الرقم / 628، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 392، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 802، الرقم / 407، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 273، الرقم / 2727، وابن أبي عاصم في الزهد، 1 / 98، الرقم / 196.چشتی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں : لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی تَصِيْرَ لِلُکَعٍ ابْنِ لُکَعٍ … وَقَالَ أَسْوَدُ: يَعْنِي اَلْمُتَّهَمَ ابْنَ الْمُتَّهَمِ .
ترجمہ : اس وقت تک یہ دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کی دولت اور اقتدار بدنام ترین لوگوں کے لیئے مختص نہ ہو جائے اور اسود نے کہا : یعنی بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 326، الرقم / 8303، 8305، وأيضًا، 3 / 466، الرقم / 15869، والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 229، الرقم / 2291، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 141، وابن حماد في الفتن، 1 / 203، الرقم / 553، وتمام الرازي في الفوائد، 1 / 121، الرقم / 275، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 220، 320.چشتی)
اس وقت تک دنیا ختم نہیں ہو گی جب تک یہ دنیا، یہ مال، یہ دولت، یہ عزت، یہ شرافت، یہ اقتدار لکع ابن لکع کے ہاتھ میں، یعنی نسل در نسل جو بدمعاش اور کرپٹ لوگ ہیں ان کے ہاں منتقل ہونے نہ لگ جائے۔ وہ پراسیس لوگو آ چکا ہے۔ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نہ کوئی پہلے حکمران ہوتا تھا نہ اس کا بیٹا بنا نہ اس کا بیٹا بنے گا، جن میں شرافت، امانت، دیانت ہے ان سے سے سوسائٹی کی طاقت ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ ان نسلوں میں طاقت، شرافت، اقتدار منتقل ہو رہا ہے اور دنیا اور اس کی عزت منتقل ہو رہی ہے اور نسل در نسل جو بدمعاش ہیں، غاصب ہیں، جاگیردار ہیں، رسہ گیر ہیں غنڈے ہیں جن سے دنیا ڈرتی ہے اور غریب تھر تھر کانپتے ہیں ۔ اس نظام کو آقا علیہ السلام نے فرمایا: لکع ابن لکع کہ بدنام کا بیٹا بدنام، بدمعاش کا بیٹا بدمعاش، غنڈے کا بیٹا غنڈا اس طریق سے اقتدار ان کے ہاتھ رہے گا۔ دین پر عمل کرنے والا اس کو عزت نہیں ملے گی لکع کو عزت ملے گی، علم والے کو عزت نہیں ملے گی لکع ہو، غنڈا ہونا چاہیے بھلے جاہل ہو، بدمعاش ہونا چاہیئے بھلے جاہل ہو۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: وہ دور آ جائے گا کہ جہاں نظام اس طرح کا سوسائٹی میں رواج پزیر ہو گا ۔

عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ بھی روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام سے فرمایا : لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَمْلِکَهَا لُکَعُ بْنُ لُکَعٍ . یہ دنیا ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ بدنامِ زمانہ شخص جس کا باپ بھی بدنامِ زمانہ تھا، اس پر حکمران ہو گا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 63-64، الرقم / 4677.چشتی)
َوہی لفظ، فرمایا: وہ دور آئے گا کہ دنیا کی ملکیت، لکع ابن لکع بدمعاش کے بیٹے بدمعاش اور نسل در نسل بدمعاشوں کے ہاتھ منتقل ہو جائے گی۔ شرفاء کا کوئی حصہ دنیا کی عزت و شرافت اور اقتدار میں نہیں رہے گا ۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا : حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، امام ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ۔ حدیث صحیح ہے ۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ ذَکَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا - وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ - قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ. فَقُلْتُ: کَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذٰلِکَ جَعَلَنِي اﷲُ فِدَاکَ؟ قَالَ: اِلْزَمْ بَيْتَکَ وَامْلِکْ عَلَيْکَ لِسَانَکَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ . وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَعَوَامَّهُمْ. وفي رواية: قَالَ: وَإِيَاکَ وَالْعَامَّةَ.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ انہوں نے وعدوں کا پاس کرنا چھوڑ دیا ہے اور امانتوں کی پروا نہیں رہی - اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی انگشت ہاے مبارک کو آپس میں پیوست کر کے فرمایا کہ (امانتوں کو لوٹنے والے گروہ) یوں گتھم گتھا ہو جائیں گے - میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ اُس وقت میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت اپنے گھر میں ہی رہنا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، اچھی چیز کو اختیار کرنا اور بری بات کو چھوڑ دینا۔ اور تم پر لازم ہے کہ (اپنے دینی و مذہبی اور معاشرتی و اَخلاقی فرائض کی کامل ادائیگی کے ذریعے) اپنی جان (کو نارِ جہنم سے بچانے) کی خصوصی فکر کرنا اور رائے عامہ کی پیروی کو چھوڑ دینا (بلکہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پیروی کرنا) ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اس وقت) عامۃ الناس کی رائے کی پیروی سے بچنا ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عامۃ الناس کی رائے کی پیروی اِختیار نہ کرنا (بلکہ حق کا ساتھ دینا)۔
( (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 109، الرقم / 4343، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 59، الرقم / 10033، والحاکم في المستدرک، 4 / 315، الرقم / 7758، والطحاوي في شرح مشکل الآثار، 3 / 219. أخرجه المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 363، الرقم / 117، وأيضًا، 3 / 576، الرقم / 256. أخرجه المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 2 / 365، الرقم / 118، وأيضًا، 3 / 574، الرقم / 254.چشتی) ۔ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام آقا علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے تھے حلقہ بنا کر کہ آقا علیہ السلام نے فتنوں کا ذکر فرمایا ، آقا علیہ السلام نے فتنوں کے دور کا ذکر کیا کہ ایسے ایسے فتنے آئیں گے۔ تو ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ فتنے کب آئیں گے؟ آقا علیہ السلام نے پہچان بیان کی کہ فتنوں کا دور یہ ہو گا : إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُوْدُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوْا هٰکَذَا - وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ . اس طرح انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں فرمایا: فتنوں کا دور وہ ہو گا کہ جو لوگوں کے لیڈر ہوں گے، حکمران ہوں گے، نمائندے ہوں گے جن کو امانتیں دی جائیں گی وہ وعدے کریں گے پھر وعدہ خلافی کریں گے ۔ انہیں امانت دی جائے گی وہ امانت کو ہلکا سمجھ کے کھا جائیں گے، کرپشن کریں گے اور سارے کرپشن کرنے والے ٹولے اور جماعتیں اور گروہ ، وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ، ان انگلیوں کی طرح آپس میں جڑ جائیں گے۔ یہ گیا کہ نہیں؟ کرپشن پہ جماعتیں آپس میں مل جائیں گی، ان کا ایجنڈا ایک ہو جائے گا، لوٹ مار، خیانت و کرپشن، آقا علیہ السلام نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر فرمایا : یہ وعدے توڑنے والے اور قوم کی امانتیں کھانے والے اس طرح جیسے انگلیوں میں انگلیاں میں ڈال رہا ہوں ایسے جڑ جائیں گے، ایک ہو جائیں گے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...