درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ ہفتم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
محب طبری پر غلط بیانی
٭ پھلواروی صاحب کی یہ کتنی بڑی علمی خیانت ہے کہ انہوں نے طبری کی ان دونوں روایتوں کو چھوڑ دیا اور محمد بن مسلمہ کے بارے میں جو ایک روایت طبری نے لکھی اسی کو طبری کا بیان قراردے دیا اور سارا زور قلم اسی پر لگا دیا کہ ’’مرحب کے قاتل صرف حضرت محمد بن مسلمہ ہیں مرحب کے قتل کا کوئی تعلق حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نہیں۔ یہ چوتھی صدی ہجری کا اختراع ہے‘‘ حالانکہ وہی امام طبری متوفی310ہجری ہیں جن کا سہارا پھلواروی صاحب نے لیا وہی حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مرحب کا قاتل ظاہر کرنے کے دو روایتیں اپنی کتاب میں درج فرما رہے ہیں۔
٭ پھر انہوں نے صحیح مسلم کو بھی نظر انداز کردیا جس کے مؤلف کی وفات 261ہجری میں ہوئی اور انہوں نے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مرحب کو قتل کرنے کا واقعہ اپنی’’صحیح‘‘ میں روایت کیا ۔ جسے پھلواروی صاحب چوتھی صدی ہجری کا اختراع قرار دے رہے ہیں۔ فیا للعجب۔
٭ پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’طبری کے بیان کے مطابق مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں اور یہ صحیح بھی ہے‘‘ قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے طبری کا کوئی ایسا بیان موجود نہیں اگر طبری کی ایک روایت کو وہ انکا بیان سمجھتے ہیں تو اس کے خلاف دو روایتوں کو طبری کا ڈبل اور مکرر بیان سمجھنا چاہئے جن کے مطابق حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی مرحب کے قاتل ہیں میں عرض کروں گا صحیح بھی یہی ہے۔ پھلواروی صاحب نے اپنے دعوی صحت کی جو دلیل لکھی ہے وہ قطعاً غلط ہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’کیونکہ ان کے بھائی محمود بن مسلمہ کو مرحب نے قتل کیا تھا لہذا محمد بن مسلمہ کی خواہش پر حضورﷺ نے انہی کو مرحب کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیجا‘‘
٭ محض مرحب تو محمود بن مسلمہ کا قاتل نہیں۔ ان کو قتل کرنے والی پوری جماعت ہے جنہوں نے اپنے ایک قلعہ کی دیوار سے حضرت محمود بن مسلمہ پر چکی کا ایک بھاری پتھر گرایا اور وہ اس سے قتل ہوگئے۔(طبری جز۳ص۹۲۔ البدایہ والنہایہ ج۲ جز۴ص۱۹۲) اسی لئے کسی نے بھی مرحب کو ان کا قاتل نہیں لکھا بلکہ روایات میں ’’قَتَلُوْا‘‘کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جو جمع کا صیغہ ہے یعنی یہود کی ایک جماعت نے حضرت محمود بن مسلمہ کو قتل کیا(البدایہ والنہایہ ج۲ جز۴ ص۱۸۹ ‘ طبری ج۲جز۳ص۹۲)
٭ غزوہ خیبر کے قصہ میں خیبر کے یہودی کنانہ کے متعلق طبری کی ایک روایت ہے’’ثُمَّ دَفَعَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلیٰ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ فَضَرَبَ عُنُقَہٗ بِاَخِہْہِ مَحْمُدْدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ‘‘ رسول اللہﷺ نے کنانہ کو محمد بن مسلمہ کے حوالے فرمادیا جسے انہوں نے اپنے بھائی محمود بن مسلمہ کے بدلے میں قتل کردیا۔(طبری ج ۲جز۳ ص۹۵ طبع بیروت)
٭ طبری کی اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ محمود بن مسلمہ کا قاتل کنانہ تھا جس سے واضح ہوگیا کہ مرحب کو محمود بن مسلمہ کا قاتل قراردینا صحیح نہیں ہے البتہ یہ ممکن ہے کہ یہود کی جس جماعت نے محمود بن مسلمہ پر قلعے کی دیوار سے پتھر گرایا جس سے وہ قتل ہوگئے مرحب بھی اس میں شامل ہو اور اس طرح وہ دونوں بھی محمود بن مسلمہ کے قاتل قرار پائے۔ کیونکہ کسی کے قتل میں جتنے آدمی شامل ہوں گے وہ سب اس کے قاتل قرار پائیں گے لیکن ان میں سے محض کسی ایک کو قاتل قرار دینا درست نہ ہوگا۔
٭ محمدبن مسلمہ کے مرحب کو قتل کرنے کی جس روایت کا سہارا پھلواروی صاحب نے لیا ہے وہ مرجوح ہے‘ جمہور محدثین اور علماء سیر کا قول یہی ہے کہ مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں وہ اسی کو صحیح کہتے ہیں۔
٭ محمد بن مسلمہ کے مرحب کے قاتل ہونے کا قول ضعیف ہے اسی لئے علماء نے اسے لفظ تیْلَ کے ساتھ بصیغہ تمریض نقل کیا ہے علامہ ابن اثیر نے فرمایا’’تِیْلَ اِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیٰ قَتَلَ مَرْحَبَ الْیَھُوْدِیَّ وَالصَّحِیْحُ الَّذِیْ عَلَیْہِ اَکْثَرُ اَھْلِ السِّیَرِ وَالْحَدِیْثِ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ قَتَلَ مَرْحَبَ‘‘(اسد الغابہ ج۴ص۳۳۱ طبع ایران)یعنی ایک (ضعیف) قول یہ ہے کہ مرحب کو محمد بن مسلمہ نے قتل کیا اور صحیح یہی ہے کہ مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔ اکثر اہل سیر وحدیث اسی کے قائل ہیں(انتہیٰ)
٭ حضرت علی کے مرحب کو قتل کرنے کی حدیث کی شرح میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اصح یہی ہے کہ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی مرحب کے قاتل ہیں اور ایک (ضعیف) قول یہ ہے کہ مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں۔ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الدرر میں محمد بن اسحق کا یہ قول نقل کیا کہ مرحب کے قاتل محمد بن مسلمہ ہیں اسے نقل کرنے کے بعد ابن عبدالبر نے فرمایا کہ محمد بن اسحق کے علاوہ دوسروں کا قول یہ ہے کہ مرحب کے قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں اور ہمارے نزدیک صحیح بھی یہی ہے۔ پھر اپنی اسناد سے یہی بات انہوں نے سلمہ اور بریدہ سے روایت کی‘ علاوہ نووی فرماتے ہیں ابن اثیر کا قول یہ ہے کہ جمہور علمائے حدیث اور علمائے سیرت اسی مسلک پر ہیں کہ مرحب کو حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے قتل کیا۔انتہیٰ(ملحضاً) ۔(نوری شرح مسلم بھامش ارشاد الساری ج۷ص۴۷۲‘۴۷۳ طبع مصر)
٭ مخفی نہ رہے کہ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ واقدی نے ذکر کیا کہ محمد بن مسلمہ نے مرحب کے دونوں پائوں کاٹ دیئے شدت تکلیف کی حالت میں اس نے کہا کہ مجھے جلدی قتل کردے محمد بن مسلمہ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کروں گا کہ تجھے جلدی قتل کردوں اب تو موت کا مزہ اسی طرح چکھتا رہ جیسے محمود بن مسلمہ موت کا مزہ چکھتے رہے۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم اس پر گذرے انہوں نے مرحب کا سر کاٹ دیا۔(البدایہ و النہایہ ج۲ جز۴ص۱۸۹)
٭ واقدی کا یہ قول اگرثابت ہو تو دونوں روایتوں میں تطبیق کا یہ پہلو نکل سکے گا کہ محمد بن مسلمہ اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ دونوں کو مرحب کا قاتل کہنا صحیح ہے جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ ایک شخص کے قتل میں جتنے آدمی شریک ہوں سب کو اس کا قاتل کہا جائے گا اگرچہ اصل قاتل ایک ہی ہو جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ محمد بن مسلمہ نے مرحب کے صرف پائوں کاٹے اور حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس کا سر کاٹ دیا اصل قاتل حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی رہے اگرچہ محمد بن مسلمہ کو بھی شریک قتل ہونے کی وجہ سے قاتل کہا جاسکتا ہے جیسا کہ مرحب اور کنانہ دونوں کو محمود بن مسلمہ کا قاتل کہنا صحیح ہوسکتا ہے مگر دوسرے سے قتل کی نفی کرکے محض ایک کو قاتل کہنا صحیح نہیں۔
تینتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
استمداد کی شرعی حیثیت
٭ بیشک اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معین اور مددگار حقیقی سمجھنا شرک خالص ہے مگرکمال قرب الہی کے باعث اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو مظاہر عون الہی سمجھنا یقینا حق ہے قرآن و حدیث میں یہ مضمون وارد ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث پیش کررہا ہوں۔ بصیرت و انصاف کی نظر سے غور کیاجائے تو آسانی سے بات سمجھ میں آسکتی ہے دیکھئے حدیث قدسی میں ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے میرے ولی سے عداوت کی میری طرف سے اسے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ میری کسی پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا وہ قرب حاصل نہیں کرتا جو میرے فرائض کے ذریعہ حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کی سمع بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی بصر ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکا پائوں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور دوں گا اور اگر وہ مجھ سے میری پناہ طلب کرے تو اسے میں ضرور اپنی پناہ دوں گا۔ الحدیث(بخاری ج ۲ ص ۹۶۳‘ مشکوۃص۱۹۷) بخاری شریف کی اس حدیث قدسی کے بعض دیگر طرق میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں’’وَفُوَادَہُ الَّذِیْ یَعْقِلُ بدٖ وَلِسَانَہُ الَّذِ یَ یَتْکَلّمُ بِہٖ‘‘ یعنی میں اسکا دل ہوجاتا ہوں جس سے وہ سمجھتا ہے اور اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔(اشعتہ اللمعات ج۲ص۱۹۴ طبع مجتبائی)
٭ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کے ایک طریق روایت میں لِسَانَا اور قَلْبًا کے الفاظ نقل کئے ہیںﷺتفسیر کبیر ج۵ص۶۸۷ طبع مصر) اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ مقربان بارگاہ الوہیت کامظہر عون الہی ہونا درحقیقت ثابتہ ہے۔ اس حدیث کو صرف اس بات پر محمول کردینا کہ قرب نوافل حاصل کرنیوالے بندے کو جب اللہ تعالیٰ اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اس کا سننا‘ دیکھنا‘ کام کرنا‘ چلنا پھرنا‘ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے احکام شریعت کے مطابق ہوجاتا ہے یعنی مقرب بندہ اپنی آنکھ کان وغیرہ کسی عضو سے معصیت کا مرتکب نہیں ہوتا۔ ہرگز صحیح نہیں کیونکہ ’’کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا‘‘ کامقام اس بندے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونے کے بعد ملا ہے اور وہ محبوب اسی وقت ہوگا جب وہ گناہ چھوڑ دے گا اور اپنی آنکھ کان ہاتھ وغیرہ کو احکام شرعیہ کے تابع بنا دے گا اگر اس کے بغیر ہی وہ محبوب ہوجائے تو سب عاصی اور گنہگار اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے پھر سوچئے کہ محبوبیت کے بعد کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا کا مقام اسے حاصل ہوا ہے اب اگر اسے بھی ہم گناہوں سے بچنے کے معنی پر محمول کردیں تو اس کی حیثیت رجعت قہقری سے زائد کیاہوگی؟ بلکہ اسے تحصیل حاصل کہنا پڑے گا جو صراحتًا باطل ہے اس لئے حدیث کو معنی سابق پر محمول کرنا صحیح نہیں بلکہ حدیث کے صحیح معنی یہی ہیں کہ بندہ مقرب اللہ تعالیٰ کی سمع و بصر و دیگر صفات کا مظہر ہوجاتا ہے جیسا کہ اسی حدیث کے پیش نظر امام فخری الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
وَکَذٰلِکَ الْعَبْدُ اِذَا وَاَظَّبَ عَلیَ الطَّاعَاتِ بَلَغَ اِلیٰ الْمَقَامِ الَّذِی یَقُوْلُ اللّٰہُ کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَّبَصَرًا فَاِذاصَارَنُوْرُجَلاَلِ اللّٰہِ سَمْعًالَہٗ سَمِعَ الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَوَاِذَا صَارَ ذٰلِکَ النُّوْرُ بَصَرً الَّہٗ وَائَی الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَ ذٰلِکَ النُّوْرُ یَدً الَّہٗ قَدَرَ عَلَی الَتَّصَرُّفِ فِی الصَّعْبِ وَالسَّھْھِل وَالْبَعِیْدِ وَالْقَرِیْبِ
ترجمہ٭ بندہ جب گناہوں سے بچ کرنیکی کے کاموں پر ہمیشگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی سمع اور اسکی بصر ہوجاتا ہوں توجب اللہ تعالیٰ کے جلال کا نور اس کی سمع ہوجائے تو وہ قریب اور دور کی بات سن لیتا ہے اور جب یہ نور اس کی بصر ہوجائے تو وہ قریب اور دور کی چیز کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہ نور اسکا ہاتھ ہوجائے تووہ قریب اور دور کی چیز کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہ نور اسکا ہاتھ ہوجائے تو وہ مشکل اور آسان اور دور اور قریب پر قادر ہوجاتا ہے۔(تفسیر کبیر للرازی ج۵ص۶۸۸‘۶۸۹ طبع مصر)
٭ جن لوگوں نے اس حدیث کو عقیدہ توحید کیخلاف سمجھا وہ غلطی پر ہیں کیونکہ حدیث میں یہ نہیں آیا کہ معاذ اللہ وہ ’’بندہ مقرب‘‘ اللہ ہوجاتا ہے یا اللہ بندے میں حلول کرلیتا ہے بلکہ حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ کمال قرب مظہر ہوجاتا ہے انسانیت کا کمال قرب الہی ہے قرآن و حدیث اور شریعت اسلامیہ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوجائے اگر یہ کفر و شرک ہے تو اسلام ا ور توحید کا کیا مفہوم ہوگا؟ کمال انسانیت کے معیار کو کفر و شرک کہنا کتاب و سنت سے ناواقفیت اور روح اسلام سے بے گانگی کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو مقرب بندے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ اس کی دی ہوئی قدرت کے باوجود اذن الہی کے بغیر کوئی کام ان سے سرزد نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے ارادے اور مشیت کو بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت کے تابع کردیتے ہیں۔
٭ بظاہر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ قدرت اور اختیار نہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت اور اختیار کے باوجود اس کی حکمت اور مشیت کے تابع رہتے ہیں۔رسول اللہﷺ اگر چاہتے تو سونے کے پہاڑ حضورﷺ کے ساتھ چلتے۔ حضورﷺنے فرمایا
یَاعَائِشۃُ لَوْشِئْتُ لَشیارَتُ مَعِیَ جِبَالُ الذَّھَبِ
ترجمہ٭ اے عائشہ! اگر میں چاہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلتے۔(مشکوۃ ص۵۲۱)
٭ اور فقر و فاقہ کی کبھی نوبت نہ آتی لیکن حضورﷺ نے خود فقر کو اختیار فرمایا۔ بیشک تمام انبیاء و اولیاء علیہ السلام اور کل مخلوقات اللہ تعالیٰ کے محکوم اور مقدور ہیں۔ اس کے حکم اور قدرت سے کوئی باہر نہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ بہ نسبت خلائق مجبور محض ہوں بلکہ مظاہر عون الہی ہوکر اللہ تعالیٰ کے اذن سے وہ اپنی اور ہماری سب کی مدد کرتے اور کرسکتے ہیں۔ ان کا بعض اوقات ہماری مددنہ کرنا اس لئے نہیں کہ وہ ہماری مدد نہیں کرسکتے بلکہ وہ بتقاضائے کمال عبدیت اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔ دلائل اور تفصیل کا یہ موقع نہیں سمجھنے کیلئے اتنی بات پیش نظر رکھ لیں کہ بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے والا روزے دار جسے اللہ تعالیٰ نے سب نعمتیں عطا فرمائی ہیں روزے کی حالت میں کھانے پینے کی طاقت رکھتا ہے مگر رضائے الہی کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کرتا نمازی نماز کی حالت میں لوگوں سے کلام کرسکتا ہے مگر بندگی کا تقاضا اسے روکتا ہے ایک طاقتور مظلوم ظالم سے انتقام لے سکتا ہے مگر کمال حلم اس کیلئے مانع ہے۔
٭ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مظہر عون الہی ہونے میں کوئی شک نہیں اگر وہ چاہتے تو باذن الہی اپنی مدد کرسکتے تھے مگر اپنے رب کی حکمت و رضا کے تحت انہوں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور حکمت الہیہ کے مطابق عمل کرنا سنت الہیہ ہے غور فرمائیے اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لوگ بہت سے کام اس کی مرضی کے خلاف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں روک سکتا ہے مگر نہیں روکتا شیطان کی سرکشی دور کرنے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے مگر اپنی حکمتوں کی بنایٔ پر ایسا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے سنت الہیہ کا مظہر ہوتے ہیں اپنے اوپر ان کا قیاس کرکے انہیں اپنے جیسا سمجھنا نادانی اور نا انصافی ہے۔
کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر
چونتیسواں اعتراض اور اسکا جواب
لِیْ خَمْسَۃٌ اُطْفِیْ بِھَا حَرَّالْوَبَائِ الْحَاطِمَہ اَلْمُصْطَفٰی وَالْمُرْتَضٰی وَابْنَا ھُمَا وَالْفَاطِمَۃُ
٭ اس کے بعد لِیْ خَمْسَۃٌ پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’معلوم نہیں کس بے علم نے یہ شعر بنایا ہے؟ ْ بِھَا کی ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بھم ہوتا تو کچھ بات بھی بن جاتی پھر وَبَائِ مونث نہیں مگر یہاں اس کی صفتحَاطِمَہ لائی گئی ہے پھرفَاطِمَۃُپر الف لام نہیں آتا اور یہاں بے تکلف داخل کردیا گیا‘‘(ص۲۱)
٭ پھلواروی صاحب نے یہاں تین اعتراض کئے ہیں۔
(۱)٭ وہ فرماتے ہیں ’’بِھَا‘‘ کی ضمیر کو مرجع کون ہے؟ ’’بِھمْ‘‘ ہوتا تو کچھ بات بھی بن جاتی۔
٭ پھلواروی صاحب کی کم فہمی پر حیرت ہے وہ اتنا بھی نہ سمجھ سکے کہ ضمیر ’’بِھَا‘‘ کا مرجع لفظ خَمْسَۃٌ کے ضمن میں موجود ہے تقدیر عبارت ہے’’خَمْسَۃُ اَشْخَاصٍ‘‘ ایسی صورت میں جمع مذکر غائب اور بتاویل جماعت واحد مؤنث غائب بلکہ جمع مؤنث غائب کی ضمیر بھی لانا جائز ہے۔ تینوں استعمال احادیث سے ثابت ہے۔
نمبر۱٭ ثَلَا ثَۃٌ مَّنْ قَالَھُنَّ (مسند امام احمد ج۳ص۱۴ طبع بیروت)
نمبر۲٭ ثَلَاثَۃٌ یُحِبُّھَا اللّٰہُ (مجمع الزوائد جز دوم ج اول ص۱۰۵طبع بیروت)
نمبر۳٭ ثَلَاثَۃٌ کُلُّھُمْ ضَامِنٌ غَلیَ اللّٰہِ (ابودائود ج ۱ ص ۳۳۷ طبع اصح المطابع کراچی)
٭ پھلواروی صاحب کا ایک کے سوا باقی دو کی نفی کرنا ان کی لا علمی پر مبنی ہے۔
(۲)٭ فرماتے ہیں’’وَباء مؤنث نہیں مگر یہاں اس کی صفت حَاطِمَہ لائی گئی ہے‘‘
٭ پھلواروی صاحب کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ یہاں اَلْوَبَائِ کی صفت اَلْحَاطِمَۃ صرف رعایت قافیہ کی وجہ سے ہے جو رعایت سجع سے کم نہیں اور رعایت سجع میں یہ اختلاف کلام عرب اور حدیث میں وارد ہے۔
٭ حدیث ام زرع میں گیارہ عورتوں سے ایک عورت کا قول مروی ہے ’’وَاَرَحَ عَلَیَّ نِعَمًا ثَرِیًّا‘‘ شارحِ شمائل اس مقام پر ارقام فرماتے ہیں وَکَانَ الظَّاھِرُ اَنْ تِقُوْلَ ثَرِیَّۃً لَکِنَّھَا ارْتَکَبَتْ ذٰلِکَ لِاَجْلِ السَّجْعِ یعنی یہاں اسے ’’نِعَمًا ثَرِیَّۃً‘‘ کہنا چاہیئے تھا لیکن رعایت سجع کی وجہ سے اس نے ’’ثَرِیَّۃَ‘‘ کی بجائے مذکر کا لفظ ’’ثَرِیًّا‘‘ بول دیا(شرح شمائل ترمذی ص۱۹۴طبع مصر)
(۳)٭ فرماتے ہیں’’پھر فاطمہ پر الف لام نہیں آتا اور یہاں بے تکلف داخل کردیا‘‘
٭ پھلواروی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ لفظ فاطمہ صفت کا صیغہ چونکہ علم ہے اس لئے اس پر الف لام داخل ہونے کو وہ ناجائز سمجھ رہے ہیں۔ یہ ان کی لا علمی اور کم فہمی ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ الف لام زائدہ ہے جس کا لفظ فاطمہ اور اس جیسے دیگر اعلام پر داخل ہونا اگرچہ ضروری نہیں مگر اس کا جائز ہونا بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔دیکھئے شرح ابن عقیل میں ہے
وَاَکْثَرُ مَاتَدْ خُلُ عَلیَ الْمَنْقُوْلِ مِنْ صِفَۃٍ کَقَوْلِکَ فِیْ حَارِثٍ
٭ ‘‘اَلْحَارِث‘‘ یعنی صفت کا صیغہ جب اسمیت کیطرف منقول ہو تو اکثر اس پر الف لام داخل ہوتا ہے جیسے لفظ حارث کو ’’الحارث‘‘ کہنا۔(ابن عقیل شرح ابن مالک ص۱۸۴ج۱ول طبع مصر)
٭ اورا لنحو الوافی میں ہے
اَلَ الزَّائِدَۃُ ھِیَ الَّتِیْ تَدْخُْلُ عَلیَ الْمَعْرِفَۃِ الْمَعُرِفَۃِ ’’اَلْمَاّْمُوْنٌ وَرَشِیْدِ مِنْ اَشْھَرِ خُلَفَائِ بَنِی الْعَبَّاس‘‘ فَالُکَلِمَاتُ مِّاْ مُوْنٌ وَ رَشِیْدٌ وَ عَبَّاسٌ مَعَارِفُ بِالْعَلْمِیَّۃِ قَبْلَ دُخُوْلِ اَلَ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْھَالَمْ تُحْدِثْ تَغْیِیْرًا فِیْ تَعْرِیْفِھَا زلَمْ تُفِدْھَاتَعْرِیْفًا جَدِیْدًا
٭ یعنی الف لام زائد ہ جو معرفہ یا نکرہ پر داخل ہوتا ہے وہ اس کی تعریف یا تنکیر کو متغیر نہیں کرتا معرفہ پر اس کے داخل ہونے کی مثال اس جملے میں ہے ’’اَلْمَاّْمُوْنٌ وَرَشِیْدِ مِنْ اَشْھَرِ خُلَفَائِ بَنِی الْعَبَّاس‘‘مامون‘ رشید اور عباس تینوں نام الف لام داخل ہونے سے پہلے علمیت کے ساتھ معرفہ ہیں۔ الف لام نے ان پر داخل ہوکر ان کے علم معرفہ ہونے میں کوئی نئی بات پیدا نہیں کی نہ کسی تعریف جدید کا فائدہ دیا(النحوالوافی ج ۱ ص ۴۲۹ طبع مصر)
٭ علاوہ ازیں پھلواروی صاحب نے ضرورت شعری کے قانون کو بھی نظر اندازفرما دیا نحو کے جن قواعد کو وہ یقینی فرما رہے ہیں خود ان پر یقین نہیں رکھتے۔(مضمون جاری ہے )۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment