Saturday 24 March 2018

انفاس العارفین شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حاصل مطالعہ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

0 comments
انفاس العارفین شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ حاصل مطالعہ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

شیخ اللہ دِیا کی دعوت : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مندرجہ ذیل واقعہ میں جو حضرات موجود تھے میں نے ان سے سنا کہ : میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ حضرت مخدوم اللہ دیا رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ شریف پر زیارت کیلئے قصبہ ڈاسنہ تشریف لے گئے۔ رات کا وقت تھا۔ وہاں حضرت نے فرمایا کہ حضرت مخدوم اللہ دیا رحمۃ اللہ علیہ ہماری دعوت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کچھ کھا کر جانا۔ سب حضرات نے توقف کیا۔ یہاں تک کہ رات زیادہ گزر جانے کی وجہ سے درگاہ شریف پر آنے جانے والے آدمیوں کا بھی کوئی نام و نشان باقی نہ رہا۔ تمام احباب سخت ملول اور نہایت پریشاں خاطر تھے کہ اچانک ایک عورت دودھ چاول کی پکی ہوئی کھیر کا ایک طبق سر پر اٹھائے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ میں نے نذر مانی تھی کہ میرا خاوند آجائے تو میں اسی وقت یہ کھانا پکا کر حضرت مخدوم اللہ دیا رحمۃ اللہ علیہ کے درگاہ نشینوں کو پہنچاؤں گی۔ میرا خاوند ابھی آگیا۔ میں نے اسی وقت نذر پوری کی۔ چونکہ رات زیادہ گزر چکی تھی اس لئے دِل میں یہ تمنا لئے ہوئے تھی کہ خدا کرے درگاہ شریف پر اس وقت کوئی موجود ہو جو یہ کھانا کھالے۔ الحمدللہ تمنا پوری ہوئی۔ انفاس العارفین ص ۴۶ )(مترجم ص ۱۱۲)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم فرماتے تھے کہ اسم ذات کا شغل جو حضرت زکریا علیہ السلام سے میں نے پایا تھا مجھ پر غالب ہو جاتا تھا۔ میں اس سے بہت لذت پاتا تھا لیکن نفی اور اثبات نہ کرسکتا تھا۔ اگر کرتا تو لذت محسوس نہ ہوتی تھی۔ مجھے اس وجہ سے بہت شرمندگی تھی۔ حضرت سید عبداللہ قدس سرہٗ سے اس کے علاج کی درخواست کی۔ حضرت سید عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے چند بار توجہ فرمائی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ فرمانے لگے جو چیز انبیاء کرام علیہم السلام کے انفاس طیبہ سے پختہ ہوگئی ہو ہم اس کو نہیں بدل سکتے۔ بارگاہ خاتم النبیین ﷺکی طرف رجوع کیجئے، وہیں سے اس کا علاج ہوگا۔ میں نے بارگاہِ محمدیت ﷺمیں التجا کی تو نفی اثبات کا شغل غالب آگیا اور بہت ہی آسان ہوگیا اور ایسا آسان ہوا کہ میں اس عمر میں باوجود اشتغال تحصیل اور بے شمار رکاوٹوں کے ایک سانس کے اندر دو سو مرتبہ نفی اثبات کا ذِکر کرسکتا ہوں۔ کسی طالب راہ سلوک میں ایسا انجذاب میں نے نہیں دیکھا۔ نہ ایسی کشش کسی میں پائی ۔ (انفاس العارفین ص ۶)
اس بیان سے مندرجہ ذیل فوائد معلوم ہوئے۔
(۱) انبیاء سابقین علیہم السلام سے اب بھی فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔
(۲) اسم ذات کا شغل اور نفی و اثبات کا طریقہ پسندیدہ اور محمود ہے۔
(۳) نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد حضور کے امتی بارگاہ نبوت میں التجائیں پیش کرتے ہیں اور اپنی حاجات پاتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حضرت سید عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ دراصل کھیڑی کے رہنے والے تھے جو بارہہ کے نواح میں ہے۔ ان کے والد ماجد نے وہیں اپنا وطن بنالیا تھا اور بچپن کی عمر میں ان کے والد وفات پا چکے تھے۔ حضرت سید عبداللہ کو اسی وقت سے خدا طلبی کا شوق تھا۔ جا بجا اولیاء اللہ کی تلاش میں پھرتے تھے۔ یہاں تک کہ پنجاب کے علاقہ میں ایک بزرگ کے پاس پہنچے جو فن قرأت میں ید ِطولیٰ رکھتے تھے۔ بیابان میں ایک مسجد تھی جس میں وہ رہتے تھے۔ آدمیوں کی آمد و رفت اور اختلاط سے بے تعلق اور بہت ہی متوکل تھے۔ حضرت سید عبداللہ ان کی خدمت میں رہنے لگے اور سلوکِ معرفت کی راہ کے طالب ہوئے۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ تمہاری تلقین و ارشاد ایک اور بزرگ کے سپرد ہے۔ ان شاء اللہ تم ان کی خدمت میں پہنچو گے لیکن حفظ ِ قرآن کی نعمت مجھ سے حاصل کرلو۔ حضرت سید عبداللہ اس جنگل میں مدتوں رہے۔ پورا قرآن مجید حفظ کرلیا اور اس بزرگ کی صحبت سے تجرید اور ترکِ دنیا کے آداب اور نفس و شیطاں کے مکرو فریب سے بچنے کے طریقے سیکھ لئے۔ شاہ عبدالرحیم صاحب فرماتے تھے کہ ایک دِن وہ بزرگ اور حضرت سید عبداللہ دونوں قرآن مجید کا دور کررہے تھے کہ سبز پوش عربی شکل کے آدمی فوج در فوج ظاہر ہوئے۔ ان کا سردار مسجد کے قریب کھڑا ہوگیا اور قرأت سننے لگا۔ قرأت سننے کے بعد ان سبز پوش عربیوں کے سردار نے کہا بارک اللہ اَدَّیْتَ حق القراٰن اللہ برکت فرمائے تو نے قرآن کا حق ادا کردیا۔ یہ کہہ کر مراجعت فرمائی۔ ان بزرگ کی عادت یہ تھی کہ تلاوت قرآن مجید کے وقت وہ اپنی آنکھوں کو بند کرلیا کرتے تھے اور کسی چیز کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے۔ جب قرآن مجید کی سورت پڑھ چکے تو انہو ں نے سید عبداللہ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ تھے۔ ان کی ہیبت سے میرا دِل لرزتا تھا مگر تعظیم قرآن کی وجہ سے میں اٹھ نہ سکا۔ سید عبداللہ نے بتایا کہ وہ ایسے ایسے آدمی تھے۔ جب ان کا سردار پہنچا تو میں بیٹھ نہ سکا۔ بے ساختہ اٹھا اور ان کی تعظیم کی۔ سید عبداللہ اور یہ بزرگ ابھی آپس میں باتیں کر رہی رہے تھے کہ ایک دوسرا آدمی اسی وضع کا آیا اور کہنے لگا کہ حضرت پیغمبر ﷺ گزشتہ رات اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے اور اس حافظ کی تعریف فرما رہے تھے جو اس جنگل میں رہتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ علی الصباح ہم اس حافظ کو دیکھیں گے اور اس کی قرأت بھی سنیں گے۔ حضور ﷺ تشریف لائے تھے یا نہیں۔ اگر تشریف لائے تھے تو کہاں تشریف لے گئے۔ حضرت سید عبداللہ اور اس بزرگ نے جب یہ بات سنی تو دائیں بائیں دوڑے۔ مگر کوئی نشان نہ دیکھا۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے تھے مجھے گمان ہے کہ میرے حضرت نے بھی یہ فرمایا تھا کہ اس واقعہ کے بعد مدتوں تک اس جنگل میں خوشبو محسوس ہوتی رہی۔ میرے حضرت فرماتے تھے جب حفظ ِ قرآن سے فراغت ہوگئی تو اس بزرگ نے حضرت سید عبداللہ کو رخصت کردیا اور فرمایا کہ جاؤ جہاں کوئی صاحب ولایت ہو اس کی خدمت میں رہ کر حصولِ مقصد کے لئے کوشش کرو۔ حضرت سید عبداللہ اس بزرگ کے فرمانے کے مطابق چل پڑے۔ یہاں تک کہ مقام سامانہ میں حضرت شیخ ادریس سامانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچے۔ وہ ایک متوکل آدمی تھے۔ لوگوں کی آمد و رفت کا دروازہ بند کئے ہوئے نہایت تنگی کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ سلسلہ قادریہ میں منسلک تھے۔ پہلی دفعہ جب حضرت شیخ کے پاس پہنچے تو شیخ نے فرمایا کہ بہت سے فقیر ہیں کسی اور کے پاس چلے جایئے۔ میرے پاس آپ نہیں رہ سکتے۔ ہاں اس شرط کے ساتھ رہ سکتے ہیں کہ طعام و لباس کی خواہشات اور لوگوں کے ملنے جلنے سے بالکل منقطع ہوکر رہیں۔ بغیر حاجت ضروریہ کے میرے دروازے سے بھی باہر نہ جائیں۔ حضرت حافظ سید عبداللہ نے اس شرط کو قبول کرلیا اور ان کے پاس رہ کر سلوک حاصل کرنے لگے اور مردانِ خدا کی طرح اس موت اختیاری پر صابر بلکہ راضی رہے۔ شیخ نے جب ان کی ثابت قدمی دیکھی تو ان کے حال پر بہت توجہ فرمائی۔ اسی اثناء میں شیخ کا لڑکا ان سے قرآن مجید یاد کرنے لگا۔ اس وجہ سے شیخ کی توجہ اور بھی دوبالا ہوگئی۔ یہ بھی شیخ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے تھے۔ حضرت حافظ سید عبداللہ فرماتے تھے کہ ان دنوں میں نے یہ عادت اختیار کرلی تھی کہ فقیروں کے استنجا کرنے کے ڈھیلے پتھروں سے رگڑا کرتا تھا۔ ایک دِن اپنی اس نیکی کی وجہ سے میں نے اپنے دل میں خوشی اور خود پسندی کا اثر محسوس کیا۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ میرے دِل کے اس حال پر مطلع ہوگئے اور فرمایا کہ تم میر چہرے اور بدن پر کچھ تغیر اور نشان دیکھتے ہو۔ میں نے کہا ہاں! فرمانے لگے ابتدائی دورِ طلب میں مَیں ایک بزرگ کے پاس پہنچا تو ان کے استنجا کرنے کے لئے مٹی کے ڈھیلوں کو اپنے چہرے اور بدن پر رگڑتا ملا کرتا تھا۔ اس رگڑنے اور ملنے کی بہت لذت پاتا تھا۔ یہ زخم کے نشانات وہی ہیں۔ پھر حضرت حافظ سید عبداللہ نے فرمایا کہ ان دنوں میری عادت تھی کہ شیخ اور ان کے اہل بیت کے کپڑے ہر جمعرات کو ایک ندی کے پانی پر لے جاکر اپنے ہاتھ سے دھویا کرتا تھا تاکہ سفید کپڑے پہن کر جمعہ کی نماز پڑھیں۔ ایک دِن جمعرات کو مجھے فاقہ تھا اور میں حسب دستور کپڑے لیکر ندی کے پانی پر پہنچا اور ایک کنارے پر جو آدمیوں سے خالی تھا بیٹھ کر کپڑے دھونے میں مشغول ہوگیا۔ جب سورج بہت گرم ہوا اور بھوک پیاس مجھ پر غالب ہوگئی تو میں بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ اس وقت ایک آدمی برقعہ پوش میرے پاس پہنچا اور مجھے ہوش میں لاکر برقع کے اندر سے گرم روٹیاں نکال کر مجھے دیں اور کہا کہ قرآن مجید میں تونے نہیں پڑھا "وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ" اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مَیں ڈرا کہ کہیں شیطان مجھے فریب دینے نہ آیا ہو۔ میں نے وہ روٹی قبول نہ کی۔ وہ بزرگ میرے دِل کے خیال پر مطلع ہوگیا اور فرمایا کہ اے فلاں یہ گمان نہ کر۔ یہ لفظ سنتے ہی وہ خیال میرے دِل سے دور ہوگیا۔ میں نے روٹی لے لی اور سیر ہوکر کھائی۔ پھر میرے دِل میں خیال آیا کہ ندی کا پانی بہت گرم ہے۔ کاش یہاں ٹھنڈا پانی ہوتا تو میں پی لیتا۔ میرے اس خیال پر بھی وہ بزرگ مطلع ہوگئے۔ اسی وقت برقع سے ٹھنڈا پانی نکال کر مجھے پلادیا۔ اس کے بعد میں نے کپڑے دھوئے اور دھلے ہوئے کپڑے شیخ کی خدمت میں لایا۔ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ سید صاحب آج آپ نے حضرت خضر علیہ السلام کے ہاتھ سے روٹی لی ہے۔ محمدیوں کو چاہئے کہ خضر علیہ السلام کا احسان نہ اٹھائیں۔ (انفاس العارفین ص ۶، ۷، ۷۸)
اس بیان سے حسب ذیل فوائد معلوم ہوئے۔
(۱) اولیاء اللہ کی تلاش میں گھومنا عشقِ خداوندی اور اشتیاقِ معرفت ِ ایزدی کا نشان ہے۔
(۲) بزرگانِ دین جو لوگوں کی آمدو رفت سے بے تعلق رہتے ہیں وہ صحیح معنی میں متوکل علی اللہ ہوتے ہیں۔
(۳) بزرگوں کی صحبت آدابِ معرفت کے حصول کا ذریعہ اور پاکیزگی ٔ نفس کا وسیلہ ہے۔
(۴) حضور ﷺ زندہ ہیں اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے انوار و برکات سے صحابہ کرام بھی زندہ ہیں۔ جب حضور ﷺ چاہتے ہیں اپنے رب کریم کے اذن سے اپنے وجود اقدس کے ساتھ اس عالم میں جاگتے ہوئے تشریف لاتے ہیں اور حضور ﷺ کے ساتھ روحانی و معنوی نسبت رکھنے والے غلام بحالت ِ بیداری حضور ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیض پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات حضور ﷺ کے وجودِ مبارک کی خوشبو بھی اس عالم رنگ و بو میں محسوس ہوتی ہے۔
(۵) توکل بزرگ کی نشانی ہے۔ بزرگانِ دین طالبانِ حق کو اپنے فیوض و برکات اس وقت عطا فرماتے ہیں جب ان کی ثابت قدمی اور اہلیت ظاہر ہوجائے۔ فقراء اور اہل اللہ کی خدمات بجالانا خواہ وہ بظاہر حقیر نوعیت کی کیوں نہ ہو موجب سعادت ہے۔
(۶) ریاضت اور مجاہدہ تکمیل سلوک کا زینہ ہے۔
(۷) شیخ کی خدمت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
(۸) اولیاء اللہ لوگوں کے دِلوں کے حالات کو جانتے ہیں۔
(۹) اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبوں کو یہ قدرت دی ہے کہ وہ جنگلوں میں بھوکے پیاسے فقراء کو خرق عادت کے طور پر کھلاتے پلاتے اور باذن اللہ ان کی دستگیری فرماتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ : میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم ؒ فرماتے تھے کہ جب میں حضرت خواجہ قطب الدین قدس سرہ العزیز کے روضۂ منور کی زیارت کے لئے دوبارہ حاضر ہوا تو ان کی روح مبارک ظاہر ہوئی، اور فرمایا کہ تیرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا، اس کا نام قطب الدین احمد رکھنا۔ یہاں تک کہ میری بیوی سن ایاس کو پہنچ گئی تھیں۔ اس لئے میں نے گمان کیا کہ شاید پوتا مراد ہوگا۔ حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ میرے دِل کے خیال پر مطلع ہوئے اور فرمایا کہ یہ میری مراد نہیں جو تونے گمان کیا، یہ لڑکا بلا واسطہ تیری صلب سے پیدا ہوگا، ایک عرصہ کے بعد نکاح ثانی کا سبب پیدا ہوا، اور اس کے بعد راقم الحروف فقیر ولی اللہ متولد ہوا۔ میری پیدائش کے بعد ابتداء میں والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ واقعہ فراموش ہوگیا۔ اس لئے میرا نام ولی اللہ رکھ دیا۔ پھر ایک مدت کے بعد آیا اور میرا نام قطب الدین احمد مقرر فرمایا۔(انفاس العارفین ص ۴۴۔۴۵ مطبع مجتبائی)
بیان ہذا کی روشنی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا حسب ذیل مسلک واضح ہوا :
(۱) قبور اولیاء اللہ رضی اللہ عنہم کی زیارت کے لئے جانا جائز ہے۔
(۲) ارواحِ اولیاء کرام بعدالوصال اس عالم میں ظاہر ہوتی ہیں۔
(۳) اولیاء کرام کو بعدالوفات بھی علم ہوتا ہے، بلکہ علم مافی الارحام ہوتا ہے، اور یہ علم استقرارِ حمل سے بھی پہلے ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس علم کی نفی غیر اللہ سے جو قرآن و حدیث میں وارد ہے وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ ذاتی کی قید سے مقید ہے۔
(۴) اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ ایسا علم عطا فرماتا ہے کہ وہ بعد الوفات لوگوں کے دِلوں کا حال بھی جانتے ہیں۔
اسی انفاس العارفین میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ:میر والد ماجد شاہ عبدالرحیم ؒ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وضو فرماکر نماز کی تیاری کر رہے ہیں، میں نے عرض کیا یہ عالم تکلیف نہیں ہے، وضو اور نماز کیا معنی رکھتا ہے۔ فرمایا، جب دنیا میں ہم بکثرت اس سے لذت اندوز ہوتے تھے تو اب ان کاموں کا ادا کرنا لذت کی خاطر ہے، تکلیف کے باعث نہیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو ارواح جمع ہوگئیں اور مجلس منعقد فرمائی۔ مجھ سے بھی فرمایا کہ تم بھی بیٹھو، میں نے عرض کیا حضور میں مجلس میں نہیں بیٹھا کرتا۔ ارشاد فرمایا کہ ہماری مجلس دوسروں کی مجلسوں کی طرح نہیں۔ بالآخر میں اس مجلس میں حاضر ہوا، وہاں وجد بھی تھا... ہم کیف اندوز ہوئے) (انفاس العارفین ص ۴۵)
بیان ہذا کی روشنی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا حسب ذیل مسلک واضح ہوا۔
(۱) اولیاء اللہ بعد الوفات وضو اور نماز و دیگر عبادات بجا لاتے ہیں۔
(۲) برزخ میں ان کی عبادات مکلف ہونے کی جہت سے نہیں بلکہ لذت و سرور کی بناء پر ہیں۔
(۳) عالم برزخ میں اولیاء کرام کی مجالس مبارکہ منعقد ہوتی ہیں اور ان پر وجد و کیف طاری ہوتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ : میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت سیر کرتے ہوئے میں ایک نہایت مصفا مقبرے میں پہنچا۔ تھوڑی دیر ٹھہرا۔ اس وقت میرے دِل میں خیال آیا کہ یہاں میرے سوا کوئی بھی خدا کا ذِکر کرنے والا نہیں۔ اس خیال کے آنے کے فوراً بعد ایک مرد دو گیسوؤں والا کوزہ پشت ظاہر ہوا اور اس نے پنجابی زبان میں گانا شروع کیا۔ جس کا اصل یہ تھا کہ دیدار یار کی آرزو مجھ پر بہت غالب ہے۔ میں اس کے نغمہ سے متاثر ہوکر اس کی طرف دوڑا۔ ہر چند میں اس سے نزدیک تر ہوتا تھا لیکن وہ مجھ سے دور تر جاتا تھا۔ اس وقت اس نے کہا کہ آپ کے دِل میں یہ خیال آیا کہ یہاں آپ کے سوا اللہ کا ذِکر کرنے والا کوئی نہیں۔ میں نے کہا، میری مراد یہ تھی کہ جو لوگ زندہ ہیں ان میں ذِکر کرنے والا صرف میں ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ اس وقت تو آپ کا خیال مطلق تھا۔ اب آپ زندوں کی قید لگا رہے ہیں۔ یہ کہہ کر غائب ہوگیا۔ (انفاس العارفین ص ۴۶)
بیان ہذا کی رشنی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا حسب ذیل مسلک واضح ہوا۔
(۱) اولیاء کرام عالمِ برزخ میں دنیا والوں کے دِلوں میں آنے والے خیالات کو جانتے ہیں۔
(۲) اولیاء کرام کی ارواح دنیا میں ظاہر ہوتی ہیں، ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں۔ وہ نغمہ سرائی بھی کرتی ہیں اور دنیا میں اہل کمال ان کی آوازیں بھی سنتے ہیں۔
(۳) ارواحِ اولیاء کی یہ شان ہے کہ دنیا والوں کے دِلوں میں جو خیالات آتے ہیں ان کے مقید و مطلق ہونے کا بھی علم ہوتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ: -
میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حضرت شیخ بایزید اللہ گو رحمۃ اللہ علیہ نے حرمین طیبین کا ارادہ کیا۔ ان کے ساتھ بہت سے بوڑھے،بچے، عورتیں بھی شامل ہوگئے۔ کسی کے پاس کوئی زادِ راہ نہ تھا، نہ سواری۔ میرے برادرم مخدوم اور میں نے مل کر چاہا کہ انہیں واپس لے آئیں۔ جب ہم تغلق آباد کے قریب پہنچے تو سورج بہت گرم ہوچکا تھا۔ ہم ایک درخت کے سائے کے نیچے اترے، سب ساتھی سو گئے۔ میں ان کے کپڑوں کی حفاظت کی خاطر جاگ رہا تھا۔ اس اثناء میں مَیں نے قرآن پاک کی چند سورتیں تلاوت کیں۔ وہاں چند قبریں تھیں۔ ایک قبر والا بولنے لگا کہ ایک زمانہ دراز سے قرآن نہ سنا تھا اور مجھے قرآن سننے کا بہت اشتیاق تھا۔ اگر آپ کچھ اور پڑھیں تو بہت ہی احسان ہوگا۔ میں نے پھر تلاوت قرآن کی۔ جب میں خاموش ہوا تو اس نے پھر کہا۔ میں نے پھر قرآن پڑھا۔ اس کے بعد میرے برادر مخدوم کی خواب میں وہ صاحب قبر ظاہر ہوا اور کہا کہ میں نے آپ کے عزیز بھائی سے قرآن پڑھنے کی دو دفعہ درخواست کی، اس نے دونوں دفعہ میری درخواست قبول کرکے مجھے قرآن مجید سنایا، اب تیسری دفعہ ان سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے اور شوق ابھی باقی ہے، آپ ان سے کہیں کہ یہ پہلے سے کچھ زیادہ قرآن مجید مجھے سنائیں۔ میرے برادر مخدوم بیدار ہوئے اور مجھ سے فرمایا، میں نے کچھ زیادہ قرآن مجید پڑھا، یہاں تک کہ میں نے اس صاحب قبر میں انتہائی خوشی اور مسرت دیکھی۔ اس نے کہا جزاک اللہ عنی خیر الجزاء۔ اس کے بعد اس صاحب ِ قبر سے عالمِ برزخ کے واقعات پوچھے۔ اس نے کہا کہ میں باقی قبروں والوں کے حالات سے تو واقف نہیں، لیکن اپنا حال بیان کرتا ہوں، کہنے لگا کہ میں نے جب سے دنیا سے انتقال کیا ہے، اگرچہ انتہائی خوش عیشی میسر نہیں ہے، لیکن کوئی عتاب اور عذاب بھی یہاں نہیں دیکھا۔ میں نے کہا کہ کچھ جانتے ہو کس عمل کی برکت سے عتاب و عذاب سے تم نے نجات پائی۔ اس نے کہا میںہمیں ہمیشہ یہ نیت رکھتا تھا کہ دنیاوی تعلقات اور موانع سے خالی ہوکر اللہ تعالیٰ کی طاعت اور ذِکر جاری رکھوں، اگرچہ تمام عمر اپنی نیت کے مطابق مجھے طاعت و ذِکر کا موقع نہیںملا، لیکن حق سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی عنایت سے میری اس نیت کو قبول فرماکر مجھے نجات دے دی۔ قیلولہ سے فارغ ہوکر ہم شیخ بایزید رحمۃ اللہ علیہ کو واپس لے آئے۔ (انفاس العارفین ص ۴۶)
بیان ہذا کی روشنی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا حسب ذیل مسلک واضح ہوا۔
(۱) اہل قبور سنتے ہیں اور دنیا والوں سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہل قبور کا کلام اپنے محبین اہل دنیا کو سنا دیتا ہے۔
(۲) اہل برزخ دنیا والوں سے بلا واسطہ بھی کلام کرسکتے ہیں اور خواب میں آکر بھی اپنا منشاء ظاہر کرنے کی قدرت بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔
(۳) اہل قبور صالحین سماع قرآن سے لذت حاصل کرتے ہیں، اس لئے قبور مومنین پر کلام مجید خوش آوازی سے تلاوت کرنا صالحین مقبورین کے لئے لذت و سرور کا موجب ہے۔
(۴) مومنین کی نیک اور پاکیزہ نیت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ اگرچہ موانع کی وجہ سے اس کے مطابق عمل کا موقع نہ ملا ہو۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ :میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک دِن میں خواجہ قطب الدین قدس سرہٗ العزیز کے مزار شریف کے قریب سیر کر رہا تھا، وہاں مجھے ایک قبر نظر آئی جس کے ذِکر سے زمین کے تمام اجزاء ساتویں آسمان تک اور فضائے آسمان کے تمام اجزاء عرشِ عظیم تک سب ذاکر ہیں۔ میں سخت متعجب ہوا۔ فضائل دستگاہ حضرت شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ اس وقت میرے ساتھ تھے، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ بھی اس قبر میں تامل فرمائیں۔ تامل کے بعد انہوں نے بھی وہی فرمایا جو میں نے دیکھا تھا۔ وہاں ایک بوڑھا دہقان تھا، میں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک بزرگ کی قبر ہے، وہ دہقان کہنے لگا کہ میری عمر اسی سال ہے، اور میرے باپ کی عمر سو سال تھی اور میرے دادا کی عمر ایک سو بیس یا اس کے قریب تھی۔ میں نے اپنے باپ سے سنا، اور میرے باپ نے اپنے باپ سے سنا کہ اس قبر پر آدمیوں کا بہت ہجوم رہتا تھا اور آدمی بہت سی نذریں لاتے تھے اور زیارت کے لئے دور دور سے آتے تھے، اور اس مزار پر مزوّر (زیارت کرنے والے) لوگ بھی رہتے تھے، جیسا کہ آج خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر رہتے ہیں، اس زمانہ کے بعد اب ایسا وقت آیا کہ اس صاحب قبر ولی اللہ پر خمول (یکسوئی) کا حال غالب آگیا، جس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بھی ادھر نہ رہی۔(انفاس العارفین ص ۴۶۔۴۷)
بیان ہذا کی روشنی میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا حسب ذیل مسلک واضح ہوا:-
(۱) اہل اللہ اپنے مزارات میں ذکرِ الٰہی کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات زمین و آسمان حتیٰ کہ عرشِ عظیم تک پہنچتے ہیں۔
(۲) اولیاء اللہ دنیا میں ہوتے ہوئے مقبورین صالحین کا حال معلوم کرلیتے ہیں۔
(۳) مزارات اولیاء اللہ پر زائرین کا دور دور سے آنا اور ان کی نذریں لانا مسلمانوں میں قدیم الایام سے رائج ہے۔ اسی طرح مزارات اولیاء اللہ پر خدام و مزوّرین و مجاورین کا ٹھہرنا بھی پرانے زمانے سے صالحین کا طریقہ ہے۔
(۴) اولیاء اللہ پر بعد الوفات بھی مختلف حالات طاری ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور ان کی توجہ لوگوں کے لئے ان کے مزارات کی طرف کشش کا موجب ہوتی ہے، اور بعض اوقات وہ خود عالم استغراق میں یکسو ہوتے ہیں۔ جب ان پر یکسوئی کا حال طاری ہوتا ہے، تو اہل دنیا کے لئے موجب کشش نہ رہنے کے باعث ان کے مزارات پر آمد و رفت نہیںرہتی۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میرے والد علیہ الرحمۃ شہید ہوگئے تھے۔ وہ میرے لئے کبھی کبھی جسمانیت کے ساتھ ظاہر ہوتے تھے اور موجودہ اور آئندہ واقعات کی خبریں دیتے تھے۔ ایک میری بھتیجی کریمہ بیمار ہوگئی اور اس کی بیماری لمبی ہوگئی۔ میں ان دِنوں دوپہر کے وقت حجرے میں تنہا سو رہا تھا کہ اچانک والد موصوف ظاہر ہوئے اور فرمانے لگے کہ میں کریمہ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن اس جگہ عورتیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس لئے وہاں جانا مجھے بارِ خاطر محسوس ہوتا ہے۔ ان عورتوں کو وہاں سے اٹھا دو۔ میرے لئے ان کا اٹھانا ممکن نہ تھا۔ اس لئے میں نے وہاں ایک پردہ ڈال دیا۔ حضرت والد صاحب ممدوح کریمہ کے سرہانے اس طرح تشریف لائے کہ انہیں میرے اور کریمہ کے سوا کوئی اور نہ دیکھتا تھا۔ کریمہ حضرت کو دیکھ کر ہوشیار ہوئی اور کہنے لگی۔ بڑا تعجب ہے۔ لوگ انہیں شہید کہتے ہیں۔ یہ تو زندہ موجود ہیں۔ فرمانے لگے۔ ان باتوں کو چھوڑو پیاری بیٹی! تم نے بہت بیماری اٹھائی ہے۔ ان شاء اللہ علی الصبح اذان فجر کے وقت شفائے کلی پاؤ گی۔ یہ فرماکر اٹھے اور دروازہ کا راستہ لیا۔ میں بھی پیچھے چلا۔ فرمایا تم ٹھہرو۔ یہ کہہ کر غائب ہوگئے۔ جب فجر کی اذان ہوئی تو کریمہ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ قصبہ پھُلت میں تھے۔ کسی بزرگ کے عرس کی تاریخ آگئی۔ قوالوں نے سرور بجانا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے کہ شیخ ابوالفتح قدس سرہٗ کی روح مبارک ظاہر ہوکر رقص کر رہی ہے۔ قریب ہے کہ اس کا اثر اس مجلس میں بھی سرایت کرے۔ ابھی ایک لمحہ نہ گزرا تھا کہ اہل مجلس کا حال متغیر ہوگیا اور ہائے ہو کا عجب شور بلند ہوا۔ (ص ۴۷)
نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی كتاب انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ جب مخدومی شیخ محمد قدس سرہٗ کی قبر کے پاس بیٹھتے تھے تو فرماتے تھے کہ ان کی روح نماز میں میری اقتداء کرتی ہے اور مجھ سے معارف سنتی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ والد ماجد نے ایک مرتبہ میری طرف متوجہ ہوکر مجھ سے بعض معارف بیان فرمائے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان کی روح نے کہا تھا کہ فلاں (یعنی شاہ ولی اللہ) کو کچھ معارف تعلیم کیجئے۔ لا محالہ تعمیل ارشاد کی خاطر معارف کی یہ باتیں تم سے کہی گئیں۔(انفاس العارفین ص ۴۷ مطبع مجتبائی دہلی)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اسی انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک دِن میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اچانک ایک آدمی بہت ہی دراز قامت، نہایت باہیبت ہاتھ میں کمان اور چند تیر لئے ہوئے آیا اور سلام کیا۔ میں نے جواب دیا۔ وہ کہنے لگا ہم وباء پر مؤکل ہیں۔ آپ کی ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا۔ ہماری فوج اسی راستہ سے جارہی تھی۔ ہمارا دِل چاہا کہ آپ کو دیکھ لیں۔ آج ہم لوگ فلاں جگہ سے اٹھ کر فلاں جگہ جانے پر مامور ہوئے ہیں۔ آپ کو خوشخبری سناتے ہیں کہ آپ کے دوستوں اور مخلصوں میں سے کوئی شخص اس وباء میں نہ مرے گا۔اس کے بعد اس نے سلام کیا اور چلا گیا۔ بعد ازاں وباء کا منتقل ہونا وہیں پر ظاہر ہوا جہاں کی اس نے نشان دہی کی تھی۔ نیز دوستوں اور مخلصوں کا اس بلا سے محفوظ رہنا بھی ظہور پذیر ہوا۔ (انفاس العارفین، ص ۴۸)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ابتدائی حال میں مجھے (اپنے نانا جان) حضرت شیخ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف سے الفت پیدا ہوگئی۔ میں وہاں جاتا اور ان کی قبر مبارک کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا۔ اکثر بیشتر غیب کا ایسا حال طاری ہوتا کہ گرمی سردی کا بھی کچھ پتہ نہ چلتا تھا۔
(انفاس العارفین ص ۳، ۴)
فائدہ: معلوم ہوا کہ مزارات اولیاء اللہ پر جانا او ران کی طرف متوجہ ہونا اور اس توجہ کے حال میں مستغرق ہوجانا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اسلاف کے معمولات سے تھا۔ اس کو ناجائز اور بدعت کہنا غلط ہے۔

شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار فرماتے تھے کہ (میرے نانا جان) حضرت شیخ رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنا اثاث البیت (گھر کاسامان) جمع کرکے اپنے ورثاء کو تقسیم فرمایا۔ اولاد میں سے ہر ایک کو اس کے حسب حال دیا۔ جب شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ کی باری آئی جو سب اولاد میں چھوٹی تھیں تو انہیں کاغذ کے چند اجزاء دیئے جن میں فوائد طریقت اور اپنے پیروں کے اوراد اور ان کے شجرے تھے۔ حضرت شیخ کی اہلیہ مکرمہ نے فرمایا کہ یہ لڑکی کنواری ہے۔ اسے شادی کا سامان جہیز وغیرہ دیجئے۔ یہ کاغذات اس کے کیا کام آئیں گے؟ فرمایا یہ اوراق ہمارے بزرگوں سے ہمیں میراث میں ملے ہیں۔ اس لڑکی سے ایک ایسا لڑکا پیدا ہوگا جو ہماری معنوی میراث کا مستحق ہوگا۔ یہ اوراق اسے دینا۔ رہا جہیز اور شادی کا سامان تو ہمیں اس کی فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود کارساز ہے۔ وہ آسان کردے گا۔ عرصۂ دراز کے بعد جب مَیں پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ہماری نانی مکرمہ کے دل میں بات ڈالی اور انہو ںنے ہماری امانت ہمیں سپرد فرمائی جس سے ہمیں بہت نفع ہوا۔ (انفاس العارفین ص ۴)
فائدہ: معلوم ہوا کہ اپنا اثاث البیت اپنی زندگی میں ورثاء کو تقسیم کردینا اور امانتیں ادا کرکے فارغ البال اور ذمہ داریوں سے بری ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہونے کی تیاری کرنا بزرگان دین کے آداب سے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اولیاء کرام کو آنے والے واقعات کا علم ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اولیاء کرام کو مدتوں پہلے معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں عورت کے شکم میں لڑکا ہوگا! نیز فوائد طریقت اور بزرگانِ دین کے اوراد و شجروں کا مفید ہونا بھی معلوم ہوگیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ نو یا دس سال کا تھا کہ سلسلۂ نقشبندیہ کے ایک بزرگ خواجہ ہاشم نامی بخارا سے تشریف لائے۔ وہ ہمارے محلہ میں ساکن تھے۔ مجھ پر بہت التفات فرماتے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا میں ایسا درود جانتا ہوں جو اسے پڑھے بہت مالدار ہوجائے۔ میرا دِل اس وقت تمام تعلقات سے منقطع تھا۔ میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ میرے والد کی وساطت سے ضرورت کے موافق مجھے رزق عطا فرمادیتا ہے۔ زائد کی مجھے حاجت نہیں۔ وہ بزرگ میری یہ بات سن کر چپ ہورہے۔ پھر چند دِن کے بعد فرمایا مجھے ایسی دُعا یاد ہے کہ اگر اسے کوڑھی پر دَم کیا جائے تو اس کا کوڑھ جاتا رہے۔ میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مرض سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر کوئی جذامی ملا تو اسے آپ کی طرف رہنمائی کردوں گا۔ حضرت خواجہ پھر خاموش ہوگئے۔ چند دِن کے بعد فرمایا صاحبزادے! درود اور دُعا سے ہمارا مقصد تو صرف یہ تھا کہ آپ جیسے بلند استعداد حضرات کو قابو کیا جائے لیکن آپ بڑے ہی بلند ہمت ہیں۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ اشغال صوفیہ میں سے آپ کوئی شغل حاصل کرلیں۔ میں نے عرض کیا حضور! بسر و چشم حاضر ہوں۔ چنانچہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسم ذات کا شغل مجھے تلقین فرمایا۔ الخ(انفاس العارفین ص ۵)
فائدہ : معلوم ہوا کہ درود شریف اور دُعاؤں سے فوائد اخرویہ کے علاوہ دنیوی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ مال و دولت، شفاء امراض کا حصول، دُعاؤں اور درود سے ہوتا ہے۔ اس کا انکار جہالت اور بے دینی ہے۔
نیز یہ کہ استقامت اور قناعت بہت بڑا کمال ہے اور اشغال صوفیہ برحق ہے۔
نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین صفحہ ۸ میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت خواجہ ادریس سامانی رحمۃ اللہ علیہ حجرہ میں حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھے۔ ان کے گھر والوں کی عادت تھی کہ جانوروں کا چارہ و بھوسا وغیرہ اس حجرہ میں ہر سال ذخیرہ کردیا کرتے تھے۔ اتفاقاً اسی وقت چارہ بھرنا شروع کیا اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے اس حجرہ میں مشغول ہونے کی کسی کو خبر نہ تھی۔ حضرت شیخ کو بھی ایسی قوی غیبت تھی کہ انہیں اس حجرہ میں چارہ وغیرہ بھرے جانے کا کچھ احساس نہ ہوا۔ گھر والوں نے چارہ بھر کر حجرہ کا دروازہ بند کردیا۔ بہت دیر کے بعد شیخ کو ڈھونڈا۔ مسجد میں تلاش کیا لیکن نہ پایا۔ آنے جانے والوں سے دریافت کیا، کچھ پتہ نہ چلا۔ بالآخر مایوس ہوگئے اور تلاش چھوڑ دی۔ چھ مہینے کے بعد جانوروں کا چارہ نکالنے کی جب ضرورت ہوئی تو حجرہ کھول کر چارہ نکالا۔ چارہ نکالنے والے کا ہاتھ حضرت شیخ پر پڑ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ یہاں کوئی ہے۔ جب اچھی طرح دیکھ بھال کی تو شیخ مل گئے اور انہیں پہچان لیا گیا۔ لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور اس وقت شیخ کو بھی غیبت سے افاقہ حاصل ہوا۔ مگر انہیں چھ مہینہ کی طویل مدت بالکل محسوس نہ ہوئی اور اتنے عرصہ تک نہ کھانے پینے کی وجہ سے جسم پر ضعف و ناتوانی کا کوئی اثر بھی نہ پایا گیا۔ یہ واقعہ نوادر واقعات سے ہے ۔ (انفاس العارفین ص ۸)
فائدہ : معلوم ہوا کہ بزرگوں پر مشغولی بحق تعالیٰ ایسی قوی ہوتی ہے کہ ماسوا اللہ کی طرف التفات نہیں رہتا۔ نیز یہ کہ جسمانی غذاؤں کی حاجت روحانی لوگوں کو نہیں ہوتی۔ جب اولیاء امت کی روحانیت کا یہ حال ہے کہ چھ مہینہ تک کھانے پینے اور دیگر ضروریات بشری و لوازمات سے بالکلیہ بے نیاز ہوجاتے ہیں تو سید عالم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی کیا شان ہوگی، جن کی روحانیت اور نورانیت تمام اولیاء بلکہ جملہ انبیاء علیہم السلام حتیٰ کہ ملائکہ مقربین سے بھی افضل اور اعلیٰ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انفاس العارفین میں فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جن دِنوں اورنگزیب اکبر آباد میں تھے میں مرزا زاہد ہروی کوتوال لشکر کے پاس علم دین حاصل کیا کرتا تھا۔ اس سلسلہ میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ میں اکبر آباد گیا۔ حضرت سید عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی سید عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت کی وجہ سے وہاں تھے۔ انہیں اس جگہ ایک شدید مرض عارض ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ وصال فرما گئے۔ وصال سے پہلے حضرت سید عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے وصیت فرمائی کہ مجھے گورِ غریباں میں دفن کیا جائے تاکہ کوئی نہ پہچانے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں بھی ان دِنوں سخت بیمار ہونے کی وجہ سے بہت کمزور ہوگیا اور جنازہ کے ساتھ نہ جاسکا۔ جب تندرست ہوا اور چلنے کی قوت حاصل ہوگئی تو ایک دوست کو ساتھ لیا جو حضرت سید عبداللہ کے دفن میں حاضر تھا اور ان کے مزار شریف پر حاضر ہوا۔ ان کا روحانی تصرف ایسا تھا کہ میرے ہمراہی نے سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک ہر چند تلاش کیا اور تامل سے کام لیا لیکن نہ پایا۔ بالآخر اس نے اندازہ سے ایک قبر کی طرف اشارہ کردیا۔ میں وہیں بیٹھا رہا اور قرآن پاک پڑھتا رہا۔ اسی اثناء میں حضرت سید عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے میری پشت کے پیچھے اپنی قبر مبارک سے ندا فرمائی کہ فقیر کی قبر اس جگہ ہے لیکن جو کچھ شروع کیا ہے اسی جگہ ختم کرو اور اس کا ثواب اسی صاحب قبر کو دو اور جلدی نہ کرو۔ میں نے جو شروع کیا تھا وہیں ختم کیا اور اپنے ساتھی سے کہا اچھی طرح غور کرو حضرت عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر اسی جگہ ہے جہاں تو نے اشارہ کیا یا میری پیٹھ کے پیچھے ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے غلطی کی۔ ان کی قبر مبارک واقعی آپ کی پیٹھ کے پیچھے ہے۔ میں اسی طرف بیٹھ گیا اور میں نے قرآن پڑھا۔ میں اس وقت صدمہ اور غم کی وجہ سے اکثر قواعد ِ قرأت کی رعایت نہ کرسکا۔ حضرت سید عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے قبر کے اندر سے فرمایا کہ فلاں فلاں جگہ آپ نے اپنی قرأت میں سستی سے کام لے کر آدابِ تجوید میں کوتاہی کی ہے۔ قرأت قرآن میں پوری احتیاط کے ساتھ قواعد تجوید و قرأت کی پوری رعایت کرنی چاہئے ۔ (انفاس العارفین ص ۱۴۔۱۵)
فائدہ: معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کا روحانی تصرف برحق ہے اور اولیاء اللہ اپنی قبور میں زندہ ہیں اور وہ دنیا والوں کو ندا بھی فرماتے ہیں اور انہیں علم و ادراک بھی ہے۔ منکرین سماع موتیٰ اس واقعہ کو غور سے پڑھیں۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔