Friday, 16 March 2018

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ دہم

درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ دہم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

خرق عادت یا غرق عادت
٭ یہ وہ عنوان ہے جس پر پھلواروی صاحب نے اپنے اس مضمون کا اختتام فرمایا ہے اللہ والوں کے خلاف وظائف و اعمال کے بہانے زہرافشانی میں انہوں نے پہلے ہی کوئی کمی نہ چھوڑی تھی لیکن اس عنوان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سینہ عداوت اولیاء کا گنجینہ ہے معجزات و کرامات اور اہل اللہ کے خوارق عادات کی توہین تضحیک میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خوارق انبیاء‘ اولیاء کرام کا ذکر کتاب و سنت میں اس کثرت اور وضاحت کیساتھ وارد ہے کہ کوئی ادنی مسلمان بھی اس میں متردد نہیں ہوسکتا معجزہ صدق نبوت کی دلیل ہے اور کرامت ولی کی بزرگی کا نشان جس کی نظر میں نبی‘ ولی کی وقعت نہ ہو اس کے نزدیک معجزہ اور کرامت کی کیا وقعت ہوسکتی ہے؟
٭ بیشک معجزہ فضیلت ہے لیکن نبی کی افضلیت کا معیار نہیں۔ اسیطرح کرامت بھی بزرگی ہے مگر بزرگی کا مدار نہیں معجزہ کا صدور غیر نبی سے نہیں ہوسکتا ۔ کرامت کا ظہور بھی صرف ولی سے ہوتا ہے۔ اسلئے معجزہ ہو یا کرامت مسلمان دونوں کی حرمت و عظمت کا قائل ہے۔
٭ حضرات انبیائے کرام اور اولیاء عظام کے خوارق عادات کو ان کی حرمت و فضیلت کے معنی سے خالی سمجھنا مسلمان کی فہم نہیں لفظ کرامت کے معنی ہی بزرگی ہیں۔ پھر اسے بزرگی سے غیر متعلق سمجھنا کیوں کر صحیح ہوگا؟

اکتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
کرامت کو قے کہنے کا مطلب
٭ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ کسی بزرگ نے کرامت کو قے کہا ہے تویہ قول محض بطور استعارہ ہوگا یعنی اظہار کرامت اسطرح مکروہ اور ناپسندیدہ ہے جس طرح قے ناپسندیدہ اور مکروہ ہے پھلواروی صاحب کا کرامت کو حقیقتاً قے سمجھنا ایسا ہی جیسے کسی بہادر انسان کو دیکھنے والا رَاَّیْتُ اَسَدًا کہے اور سننے والا اسد کے معنی درندہ سمجھ لے اسمیں شک نہیں کہ اہل اللہ نے اظہار کرامت کو ہمیشہ ناپسند کیا ہے۔

بیالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
سادھو سے کرامت کا ظہور
٭ کرامت صرف ولی سے ظاہر ہوتی ہے پھلواروی صاحب کرامات اولیاء کے منکر ہونے کے باوجود سادھو سے بھی ظہور کرامت کے قائل ہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا’’ کرامت کی وساطت سے جو ارادت ایمانی پیدا ہوتی ہے وہ مستحکم نہیں ہوتی آج اگر ایک مسلمان بزرگ کی دو کرامتیں دیکھ کر کوئی معتقد ہوگا تو کل وہی کسی سادھو کی چار کرامتیں دیکھ کر اس کا دم بھرنے لگے گا‘‘(ص۳۰) کرامتیں اگر سادھو سے بھی ظاہر ہوسکتی ہیں تو پھر ان کے کرامت ہونے کا کیا مفہوم رہا؟ دراصل پھلواروی صاحب یہی کہنا چاہتے ہیں کہ کرامت لغو اور بے معنی ہے۔

تینتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
حضرت یحییٰ منیری کے قول کی وضاحت
٭ پھلواروی صاحب لکھتے ہیں’’دنیا کرامات کی پجاری ہے مگر خود مخدوم الملک کرامت کو بت پرستی قرار دیتے ہیں جی ہاں صاف لفظوں میں بت پرستی فرماتے ہیں وہ کرامات کو انسانی سطح سے بہت گری ہوئی اور گھٹیا چیز قرار دیتے ہیں۔ مخدوم الملک کی ایک مسجع عبارت سنیئے فرماتے ہیں۔ اگر برآب روی خسی وگربرہوا پری مگسی آں کربکن کہ گویند کسی‘‘ (ص۲۸) انتہیٰ
٭ سلف صالحین سے لے کر آج تک کتاب و سنت کے مطابق یہی عقیدہ ہے کہ اولیاء کی کرامتیں حق ہیں۔ اس اعتقاد کو کرامت کی پوجا کہنا پوری امت مسلمہ کو مشرک قرار دینے کے مترادف ہے العیاذباللہ‘ مخدوم الملک حضرت احمد یحییٰ منیری کا مسجع کلام جو پھلواروی صاحب نے نقل کیا ہے اس کے کسی ایک لفظ کا بھی یہ مفہوم نہیں کہ کرامت بت پرستی ہے وہ تو صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ خوارق عادات کا ظہور مثلاً پانی پر چلنا یا ہوا میں اڑنا سالک راہ معرفت کیلئے منتہائے کمال نہیں یہ تو ایسی باتیں ہیں جو تنکے اور مکھی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ انسانیت کا کمال تو یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے قرب و معرفت کا وہ مقام حاصل کرے جسے وصول اِلے اللہ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

غرق عادت کی اصطلاح
٭ خرق عادت کی اصطلاح تو متقدمین اسلاف کرام سے منقول ہوتی چلی آرہی ہے لیکن غرق عادت کا لفظ کبھی سننے میں نہیں آیا۔ یہ صرف پھلواروی صاحب کی اختراع ہے ہمیں اس سے بحث نہیں کہ خرق عادت کے مقابلے میں غرق عادت کا لفظ انہوں نے کیوں بولا لیکن ہم اب تک یہ نہ سمجھ سکے کہ اس لفظ سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر امور عادیہ مراد ہیں تو غرق عادت سے ان کا کیا تعلق ایسی صورت میں وہ عادت اور خرق عادت بولتے غرق عادت کا لفظ تو اس مقام پر قطعاً بے معنی اور مہمل ہے۔

معجزہ و کرامت اسباب سے متعلق نہیں ہوتے
٭ ہم نے مانا کہ اسباب عادیہ ظاہرہ کے علاوہ اسباب خفیہ بھی ہوتے ہیں لیکن محقیقین سلف صالحین کا مسلک یہی ہے کہ خوارق انبیاء و اولیاء کرام یعنی معجزات و کرامات جس طرح اسباب عادیہ ظاہرہ سے متعلق نہیں ہوتے بالکل اسی طرح ان کا تعلق اسباب خفیہ سے بھی نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کے اسباب کے بغیر اللہ تعالیٰ انہیں ظاہر فرماتا ہے اور یہی خرق عادت ہے۔

چونتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
خر ق عادت کو ناممکن کہنا
٭ اہل اللہ کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’خرق عادت ممکن ہی نہیں‘ قانون قدرت اٹل ہوتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی‘‘لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ۔ وَلَنْتَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً‘‘ (انتہیٰ کلامُہٗ)
٭ پھلواروی صاحب نے اس حقیقت کو بھی نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا خارق عادت فعل جو نبی کی تصدیق کیلئے نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا معجزہ کہلاتا ہے(دیکھئے شرح مواقف ج۸ص۲۲۳ں۲۲۴ طبع مصر) ولی کی کرامت بھی اس کے نبی کا معجزہ ہوتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جوخرق عادت کے طورپر ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے کرامت کہاجاتا ہے۔ دونوں خارق عادت فعل اللہ تعالیٰ کے ہیں پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’خرق عادت ممکن ہی نہیں‘‘ معجزات و کرامات کی نفی صریح ہے صرف یہی نہیں بلکہ یہاں انتہائی افسوس ناک اور غارت گرایماں پہلو یہ ہے کہ خرق عادت کو ناممکن کہہ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بھی انکار کردیا گیا۔ بندے کے کسی فعل کو ناممکن کہہ سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فعل واقعی کو ناممکن کہنا بندے کیلئے ممکن نہیں کیونکہ وہ خرق عادت کام اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔
٭ قانون قدرت یقیناً اٹل ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن کس کی طرف سے؟ ہمارا ایمان ہے کہ بندوں کی طرف سے تبدیلی ناممکن ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے قانون کو بتقاضائے حکمت بدل سکتا ہے وہ قانون عام ہویا خاص کیونکہ قانون بنانے والا اپنے قانون کو بدلنے کا حق رکھتا ہے۔

پینتالیسواں اعتراض اور اس کا جواب
قدرت خداوندی کا انکار
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’انسان نئے نئے قوانین دریافت تو کرتا ہے بناتا نہیں اور جب بناتا نہیں تو توڑ بھی نہیں سکتا‘‘ انتہیٰ کلامہٗ۔ میں عرض کروں گا کہ اہل اللہ کے خوارق عادات کے ضمن میں ان کی یہ بات بالکل بے محل ہے قوانین فطرت اہل اللہ نے نہ بنائے ہیں نہ انہیں کبھی توڑا ہے نہ وہ توڑ سکتے ہیں ان کا بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور جس چیز کو وہ بنا سکتا ہے اسے توڑ بھی سکتا ہے۔ یہی خرق عادت ہے ۔ جسے پھلواروی صاحب ناممکن کہہ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کررہے ہیں۔

چھیالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
معجزات و کرامات کو نظربندی کہنا
٭ معجزات و کرامات کے ضمن میں پھلواروی صاحب کا اسباب خفیہ کا ذکر کرکے بازی گر‘ جادوگر‘ ہپناٹزم کے تماشوں کا ذکر کرنا محض یہ تاثر دینے کیلئے ہے کہ اہل اللہ کے خوارق عادات معجزات و کرامات سب اسی نوعیت کے ہیں حالانکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ وہ سب افعال الہیہ ہیں۔ ان کا ظہور من جانب اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جادو اور بازی گری سے ان کا کیا تعلق؟
٭ پھلواروی صاحب کی یہ تحریر دراصل ان کے اسی بعض و عناد کا اظہار ہے جس کا مظاہرہ وہ ابتداء سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

سینتالیسواں اعتراض اور اسکا جواب
کرامت کو لااکراہ فی الدین کے منافی کہنا
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’کرامت یا خرق عادت ایک قسم کا دبائو ہے جسے دیکھ کر انسان ڈر سا جاتا ہے اور بات ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ کسی تک لا اکراہ فی الدین کے منافی ہے’’انتہی کلامہٗ
٭ اس عبارت سے پھلواروی صاحب کا مافی الضمیر کھل کر سامنے آگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں اور خوارق انبیاء و اولیاء کرام کو ایک قسم کا دبائو قرار دے رہے ہیں جسے دیکھ کر انسان ڈر سا جاتا ہے اور بات ماننے پر مجبور سا ہوجاتا ہے۔
٭ جن آیات قدرت کو دیکھ کر انسان کو خوف لاحق ہو پھلواروی صاحب انہیں لا اکراہ فی الدین کے منافی سمجھتے ہیں حالانکہ سنت الہیہ یہی ہے کہ معجزات و خوارق عادات کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جائے قرآن کی جو آیت پھلواروی صاحب کے ذہن کو جھنجوڑ رہی ہے اس کے آخری الفاظ میں ارشاد فرمایا وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیَاتِ اِلَّا تَخُوِیْفًا(پ۱۵ الاسراء آیت نمبر۵۹)یعنی ہم نشانیاں اسی لئے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں۔
٭ اگر یہ لااکراہ فی الدین کے خلاف ہے تو کیا پھلواروی صاحب کے نزدیک ک میں تعارض بھی پایاجاتا ہے؟ خوارق عادت سے لوگوں کا ڈر محسوس کرنا لااکراہ فی الدین کے منافی ہوتا تو انبیاء علیہ السلام صرف مبشر ہوتے مُنْذِرْ و نَذِیْر کبھی نہ ہوتے۔ پھلواروی صاحب جو سنت الہیہ کی آڑ لے کرخوارق عادت کے منکر ہیں کاش اس حقیقت پر غور فرماتے کہ آیات و معجزات کے ذریعے لوگوں کو ڈرانا سنت الہیہ ہے۔
٭ جیسا کہ ہم نے ابھی آیت قرآنیہ سے ثابت کیا۔ نبوت ختم ہونے کیساتھ معجزات کا سلسلہ تو ختم ہوگیا لیکن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے ساتھ لوگوں کو ڈرانے کا سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ قیامت تک جاری رہے گا حدیث شریف میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ سورج گرہن کے موقع پر رسولﷺ نے کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا
ھٰذِہِ الْاٰیَاتُ الَّتِیْ یُرْسِلُ اللّٰہُ لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیٰوتِہٖ وَلٰکنْ یُّخَوِّفُ اللّٰہُ بِھَا عِبَادَہ (بخاری‘ مسلم‘ مشکوۃ ص۱۳۰طبع دہلی)
ترجمہ٭ یہ قدرت کی نشانیاں جنہیں اللہ بھیجتا ہے کسی کی موت یا پیدائش کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ انکے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔
٭ قارئین کرام! غور فرمائیں قرآن و حدیث کی روشنی میں پھلواروی صاحب کی یہ بات باطل محض نہیں تو کیا ہے؟

اڑتالیسواں اعتراض اور اس کا جواب
کھلی تضاد بیانی
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’خاتم النبیین ﷺ کاکمال یہ ہے کہ قانون قدرت کو توڑ کر کرامت پیدا کرنے کا سلسلہ ختم کردیا‘‘(انتہیٰ کلامہٗ)
٭ پھلواروی صاحب اپنی اس عبارت میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قانون قدرت توڑ کر کرامت پیدا کرنے کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا خاتم النبیین ﷺ نے اسے ختم کردیا۔ انتہائی حیرت کامقام ہے کہ قانون قدرت کا توڑنا تو ممکن ہی نہیں پھلواروی صاحب نے تو اسے اللہ تعالیٰ کیلئے بھی ناممکن قرار دیا ہے پھر اس سلسلے کو ختم کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا یہ پھلواروی صاحب کی کھلی تضاد بیانی نہیں؟

انچاسواں اعتراض اور اسکا جواب
امور عادیہ کو خوارق عاد کہنا
٭ اس کے بعد پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’اور جو معجزہ ظاہر ہوا وہ کم اسباب کے اندر رہ کر اور قانون قدرت سے ہم آہنگ رہ کر ظاہر ہوا‘‘ (انتہیٰ کلامہٗ)
٭ میں عرض کروں گا کہ جو کام خارق عادت نہ ہو اور وہ اسباب میں رہ کر ظاہر ہوں انہیں معجزہ کہنا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ پھلواروی صاحب نے یہ بات کہہ کر گویا معجزے کی بنیاد ہی اکھاڑ دی ہم شرح مواقف کے حوالے سے ابھی بتا چکے ہیں کہ معجزہ خارق عادت امر ہے جو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اسی کیطرف سے صدق نبوت کی دلیل کے طورپر نبی سے ظاہر ہوتا ہے دراصل پھلواروی صاحب کا مقصد ہی یہ ہے کہ معجزات اور خوارق عادات کا تصور مسلمان کے ذہن سے نکال دیں۔

پچاسواں اعتراض اور اسکا جواب
تخت سلیمانی کو ہوا اڑاتی تھی
٭ اس مقام پر پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جن لے کر سفر کراتے تھے‘‘ قرآن کے خلاف ہے اس میں شک نہیں کہ شیاطین اور جنات سلیمان علیہ السلام کیلئے مسخر تھے لیکن حضرت سلیمان کے تخت کو لے کر ان کا سفر کرانا صحیح نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایافَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآئً حَیْثُ اَصَابَ(پ۲۳آیت۳۶)’’ یعنی ہم نے سلیمان علیہ السلام کیلئے ہوا مسخر کردی وہ ان کے حکم کے ساتھ نرم روی سے چلتی جہاں وہ ارادہ فرماتے‘‘
٭ یہاں جنوں کا نہیں بلکہ ہوا کا ذکر ہے کہ سلیمان علیہ السلام جہاں چاہتے تھے ہوا ان کے حکم سے چلتی تھی یعنی ان کے تخت کو لے جاتی تھی۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ معجزات میں انبیاء علیہ السلام کے حکم اور ارادے کا پایاجانا بھی قرآن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن سے ثابت ہے۔

معجزہ و کرامت مقدور نبی و ولی ہوتے ہیں
٭ یہ صحیح ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے قصد و التفات کے بغیر بھی ان سے خوارق عادت کا صدورناممکن نہ تھا بناء برین اہل اللہ کیلئے خوارق عادات کا اظہار ممکن اور تحت قدرت الہیہ ہے ورنہ قادر مطلق کا عجز لازم آئے گا۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا
٭ معجزہ ہو یا کرامت دراصل خرق عادت کے طورپر وہ اللہ تعالیٰ ہی کاکام ہوتا ہے بعض علماء نے کہا کہ معجزہ کی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کے تحت قدرت نہ ہو اور بعض نے کہا کہ یہ شرط بے معنی ہے یعنی ہوسکتا ہے کہ نبی معجزے پر قدرت رکھتا ہو مگر یہ اختلاف محض نزاع لفظی ہے کیونکہ خرق عادت کام کی جو قدرت اللہ تعالیٰ نے نبی کو عطا فرمائی جو لوگ اسی قدرت کو معجزہ کہتے ہیں انکے نزدیک معجزہ نبی کا مقدور نہیں کیونکہ خرق عادت کی اس قدرت پر نبی قادر نہیں ہوتا اور جن لوگوں نے اس فعل خارق للعادۃ کو معجزہ کہا جو اس قدرت معجزہ سے ظاہر ہو رہا ہے انہوں نے معجزے کا نبی کیلئے مقدور ہونا تسلیم کیا۔
٭ خلاصہ یہ کہ جنہوں نے خرق عادت کی قدرت کو معجزہ قرار دیا وہ خارق عادت فعل کو حقیقتاً معجزہ نہیں کہتے ہاں ان کے نزدیک وہ مجازًا معجزہ ہے اور جن لوگوں نے قدرت کی بجائے اس خارق للعادۃ فعل کو معجزہ کہا ان کے نزدیک وہ فعل حقیقتاً معجزہ ہے اور وہ نبی کا مقدور ہے یعنی نبی میں قدرت معجزہ کا انکار کسی نے نہیں کیا فرق اتنا ہے کہ کسی نے عین قدرت کو معجزہ کہا جو نبی کی مقدور نہیں اور کسی نے اس قدرت کی وجہ سے خارق عادت فعل کو معجزہ کہا جو قدرت معجزہ کی وجہ سے نبی کا مقدور ہے(ملحضًا شرح مواقف ج۸ص۲۲۳۔۲۲۴ طبع مصر)
٭ بہر حال معجزہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے اور اسی کی جانب سے ہے خواہ وہ قدرت معجزہ ہو یا فعل خارق للعادۃ اور اسے اللہ تعالیٰ کیلئے ناممکن کہنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار کرنا ہے یہ بحث افعال خارقہ للعادۃ سے متعلق تھی رہا قرآن تو یقینا وہ معجزہ ہے ایسا دائمی اور ابدی معجزہ جو بقیہ معجزات کو حاوی ہے بلکہ انبیائے سابقین علیہ السلام کے معجزات پر بھی مشتمل لیکن وہ فعل نہیں اللہ تعالیٰ کاکلام قدیم ہے اسلئے وہ افعال خارقہ للعادۃ کے حکم سے بالا تر ہے مختصر یہ کہ ہم نے قرآن سے ثابت کردیا کہ پھلواروی صاحب کا یہ قول غلط ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جن لے کر سفر کراتے تھے‘‘

اکیاونواں اعتراض اور اسکا جواب
تخت بلقیس کو اٹھا لانے والا
٭ اس مقام پرپھلواروی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے چشم زدن میں جنوں سے بلقیس کا تخت منگوایا‘‘ قرآن مجید میں ہے
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰیِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقظوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ(پ۱۹ النمل آیت۳۹)
٭ یہ بات قوی ہیکل خبیث جن نے کہی تھی کہ آپ کے دربار برخواست کرنے پہلے بلقیس کا تخت میں آپ کے پاس لے آئوں گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاقَالَ الَّذِیْ عِنْدَ ہٗ عِلْمٌ مِّنَالْکِتَابِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ۔ جسکے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت میں آپ کے پاس لے آئوں گا(النمل آیت۴۰) جمہور مفسرین کے نزدیک وہ آصف بن برخیا ہیں جو انسان تھے بعض نے کہا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے بعض اقوال میں دوسرے انسانوں کا ذکر وارد ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام تھے ایک قول کے مطابق وہ جبریل علیہ السلام تھے لیکن پلک جھپکنے سے پہلے تخت لانے کی بات کسی ’’جن‘‘ نے نہیں کی۔ بالفرض کسی قول شاذ میں ’’جن‘‘ کا لفظ آیا بھی ہو جو ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ تو قول شاذ پھلوروی صاحب کے نزدیک پہلے ہی ناقابل قبول ہے پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے کس بنا پر یہ بات کہہ دی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چشم زدن میں جنون سے بلقیس کا تخت منگوایا۔

باونواں اعتراض اور اسکا جواب
عادی امور کو معجزات بتانا صحیح نہیں
٭ پھلواروی صاحب نے اس مقام پر بعض سابقین انبیاء و مقربین کے خوارق معجزات و کرامات کے بالمقابل جو حضورﷺ کے چند امور عادیہ کو معجزہ قرار دے کر نقل کیا ہے انتہائی مضحکہ خیز ہے ہمارا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ہر قول و فعل‘ ہر ادا‘ ہرحال اور ہرکام قیامت تک بنی نوع انسان کیلئے مشعل ہدی اور مینار ہدایت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امور عادیہ کو معجزات کی جگہ لکھ دیاجائے پھلواروی صاحب کا یہ طرز عمل علم و دانش کی روشنی میں لایعنی اور بے محل ہے۔

تریپنواں اعتراض اور اسکا جواب
وَمَا مَنَعَنَااَنْ نُّرْسِلَ بِاْلآیَاتِ کا مفہوم
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ک کی ایک آیت میرے دماغ کو اکثر جھنجوڑتی رہتی ہے جو یہ ہے ۔ وَمَا مَنَعَنَااَنْ نُرْسِلَ بِلْآیَاتِ اِلَّا اَنْ کَذَّبَ بِھَاالْاَوَّلُوْنَ ہمیں معجزات بھیجنے سے صرف اسی بات نے روک دیا ہے کہ گذشتہ امتوں نے ان کی تکذیب کی۔ ایک شے کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود جھٹلانے کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ معجزہ کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور اسے من جانب اللہ سمجھنے کے بجائے کھیل تماشہ بازی گری جادو اور نظر بندی وغیرہ سمجھتے ہیں(انتہیٰ کلامہٗ)
٭ میں عرض کروں گا کہ آیت نہیں بلکہ اس کا غلط مفہوم پھلواروی صاحب کے ذہن کو اکثر جھنجوڑتا رہتا ہے۔ مضمون آیت بالکل واضح ہے کہ قریش مکہ جن معجزات کو طلب کررہے ہیں اگر ہم انہیں ظاہر فرما دیں تو جس طرح پہلے لوگ اس قسم کے معجزات کا انکار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے یہ لوگ بھی انکارکرکے ہلاکت کے مستحق ہوجائیں گے طلب کردہ معجزات و آیات ہم نے صرف اس لئے نہیں بھیجے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ انہیں دیکھ کر ایمان نہیں لائیں گے اور مکذبین اولین کی طرح یہ لوگ‘ ہلاکت و عذاب کے مستوجب قرار پائیں گے۔ مطلوبہ آیات کو دیکھنے کے بعد ان کا انکار کرنے والوں کو اپنے عذاب میں ہلاک کردینا ہماری سنت ہے ہم نہیں چاہتے کہ اپنے محبوب ﷺ کی موجودگی میں انہیں عذاب عام میں مبتلا کرکے ہلاک کریں بس یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان کی مطلوبہ آیات نہیں بھیجیں۔
٭ آیت کریمہ کے اس واضح مفہوم میں کوئی ایسی بات ہی نہیں جو ذہن کو جھنجوڑنے والی ہو ایک شے کو آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود جھٹلانے کا یہی مطلب ہے کہ وہ معجزہ دیکھ بھی ایمان نہ لائے لیکن پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ وہ اسے من جانب اللہ سمجھنے کے بجائے کھیل تماشہ بازی گری جادو اور نظر بندی وغیرہ سمجھتے رہے لحیح نہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے ان معجزات کو من جانب اللہ سمجھنے کے باوجود محض ازراہ عناد‘ سحر یا نظر بندی کہا ہو اور حقے کی معرفت کے باوجود تمرد اور سرکشی اختیار کرکے اپنے کفر پر جمے رہے ہوں قرآن سے ثابت ہے کہ انکار کرنے والوں نے حق کو پہچان کر بھی اس کے ماننے سے انکار کردیا جان بوجھ کر حق کو چھپایا اور حق کو پہچان کر اس کے ساتھ کفر کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایافَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْابِہٖ جب ان کے پاس جانا پہچانا حق آگیا تو اس کے ساتھ انہوں نے کفر کیا(پ۱ البقرہ ۸۹) نیز فرمایا اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُالْکِتَابَ یَعْرِنَوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ رسول اللہ ﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپاتا ہے۔(البقرہ ۱۴۶)
٭ ان آیات سے ثابت ہوا کہ معاندین کفار نے حق کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بھی حق کا انکار کیا اور از راہ عناد اپنے کفر پر جمے رہے لہذا پھلواروی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں۔

چونواں اعتراض اور اسکا جواب
معجزات کو وقتی کہنا نافہمی ہے
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’ًگذشتہ سارے معجزات وقتی تھے منکرین نے ان کو آنکھوں سے دیکھ بھی قبول حق سے انکار کردیا۔(انتہیٰ)
٭ پھلواروی صاحب کی تضاد بیانی انتہائی تعجب انگیز ہے کبھی وہ خرق عادت کو ناممکن کہہ کر معجزات کا انکار کردیتے ہیں اور کبھی ان کو وقتی معجزات کہہ دیتے ہیں ۔ معجزات تو درکنار اگر وہ پچھلے نبیوں کو بھی محض وقتی انبیاء علیہ السلام کہہ دیں تو کون انہیں روکے گا؟ نبی کی نبوت کبھی زائل نہیں ہوتی وہ ابد تک ہمہ وقتی ہے ان کے معجزات کو محض وقتی کہنا نافہمی ہے۔

پچپنواں اعتراض اور اسکا جواب
قرآن حقانیت معجزات انبیاء کا امین ہے
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’آج اگر کوئی ان معجزات کے وجود یا وقوع ہی سے انکار کردے اور یہ دعوی کرے کہ سب من گھڑت افسانے ہیں یہ کبھی وقوع میں آئے ہی نہیں تو ہم ان کے وجود کو کیسے ثابت کرسکتے ہیں؟ لیکن قرآن کے زندہ و پائندہ اعجاز سے کسی دور میں بھی انکار کی گنجائش نہیں‘‘ انتہیٰ
٭ میں عرض کروں گا آپ مانتے ہیں کہ قرآن کے زندہ و پائندہ اعجاز سے کسی دور میں بھی انکار کی گنجائش نہیں اسی قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام کے معجزات کو بیان فرما کر انہیں زندہ و پائندہ کردیا کسی دور میں بھی قرآنی اعجاز کے انکار کی گنجائش نہ ہونا ان معجزات کے انکار کی گنجائش نہ ہونے کو مستلزم ہے جب بھی کوئی دعوی کرے گا کہ یہ سب افسانے ہیں یہ کبھی وقوع میں آئے ہی نہیں ہم اسی وقت ان کے وجود اور وقوع کو قرآن سے ثابت کریں گے۔

ہر مطالبے کا استیفاء
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ‘ میں نے جن غلطیوں کی نشان دہی کی ہے وہ اگر لغوی ہیں لغت ہی سے اس کا جواب دینا چاہیئے صرف و نحو کی بات ہے تو صرف صرف و نحو ہی کے قواعد سے اس کی تردید کرنی چاہئے میری گذارشوں کا یہ جواب نہیں کہ فلاں صاحب علم بزرگ نے تو ان غلطیوں کی نشاندہی کی نہیں لہذا تمہاری نشان دہی غلط ہے‘‘(ص ۱۶)
٭ پھلواروی صاحب کے اس مطالبے کو حرف بحرف ہم نے پورا کردیا ہم نے ان کے جواب میں اس بات پر اکتفاء نہیں کیا کہ فلاں صاحب علم بزرگ نے ان غلطیوں کی نشان دہی نہیں کی لہذا پھلواروی صاحب کی نشاندہی غلط ہے بلکہ پھلواروی صاحب نے جن لغوی غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ہم نے لغت ہی سے ان کا جواب دیا ہے اور صرف و نحو کی بات کی تردید ہم نے صرف و نحو ہی کے قواعد سے کی ہے اور ان کی فکر غلطیوں کا جواب فکری ہی اندازسے دیا ہے۔
٭ پھلواروی صاحب کے اعتراضات کا خلاصہ ہم نے اپنے الفاظ میں پیش نہیں کیا بلکہ ان کا ہر اعتراض انہی کی عبارت میں نقل کردیا ہے اور ان کے مدلل جوابات لکھ دیئے ہیں۔ علم و دانش اور عدل و انصاف کی روشنی میں ناظرین کرام پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہوگی کہ پھلواروی صاحب نے جو غلطیاں درودتاج اور دیگر وظائف میں نکالی ہیں درحقیقت وہ درود تاج وغیرہ کی غلطیاں نہیں بلکہ خود ان کی اپنی غلطیاں ہیں اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہی درست ہے اسی لئے انہوں نے آگے چل کر صاف کہہ دیا کہ ’’ہمارے لئے آسان راستہ یہ ہے کہ درودتاج کے متعلق یہ مان لیں کہ ایسی بے سروپا عبارت کے مصنف حضرت شاذلی نہیں ہوسکتے‘‘
٭ قارئین کرام!کو یاد ہوگا کہ پھلواروی صاحب نے اس مضمون کی ابتداء ان الفاظ سے کی تھی ’’درودتاج کے بعض مقامات مجھے کھٹکتے ہیں علمائے کرام سے کچھ طالب العمانہ استفسار کرنے کی جسارت کررہا ہوں اپنی علمی بے بضاعتی کا مجھے اقرار بھی ہے اور پورا احساس بھی‘‘(۷) مگر ان کے مضمون کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ طالب علمانہ استفسار اور اپنی علمی بے بضاعتی کا احساس و اقرار محض ایک لبادہ ہے جو اس مقام پر پہنچ کر اچانک اتر گیا اور حقیقت واضح ہوگئی کہ استفسار مطلوب نہ تھا بلکہ یہ منوانا مقصود تھا کہ درودتاج کی عبارت بے سروپاہے جو حضرت شاذلی کی تصنیف نہیں ہوسکتی ہمیں اس سے بحث نہیں کہ درودتاج حضرت شاذلی کی تصنیف ہے یا نہیں ہمیں تو صرف یہ بتانا تھا کہ پھلواروی صاحب نے جس چیز کو غلط سمجھا وہ علط نہیں بلکہ صحیح ہے صحیح کو غلط سمجھنا اور اپنی غلط فہمی کو غلط فہمی نہ کہنا ایسا جہل مرکب ہے جس سے کبھی بھی نجات نہیں مل سکتی کسی نے سچ کہا :

آنکس کہ نداند و بداند کہ بداند ۔۔۔۔۔۔ درجہل مرکب ابدالدھر بماند

الحمد للہ درود تاج پر کیئے گئے جملہ اعتراضات کا مکمل و مدلّل جواب از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علاّمہ سیّد احمس سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ مکمل ہوا بہت ہی افسوس ہوتا ہے سوشل میڈیا پر بیٹھا ہر وہ شخص جسے استنجا کرنے کا شرعی طریقہ نہیں آتا وہ بھی درود تاج اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی مقدس شانوں پر اعتراض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے ایسے ہی ایک شخص نے ہمارے پیج پر درود کی پوسٹ پر جاہلانہ اعتراض کیا تو فقیر نے بجائے اس کے کہ خود اپنی طرف سے کچھ جواب دیتا استاذی المکرّم علیہ الرّحمہ کئی سال پہلے جملہ اعتراضات کے جوابات دے چکے تھے فقیر نے انہیں ترتیب دے کر دس (10) حصّوں میں پیش کر دیا اہل علم کہیں غلطی پائیں تو فقیر کو مطلع فرمائیں جزاکم اللہ خیرا کثیرا آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...