درود تاج پر اعتراضات کے جوابات حصّہ سوم ۔ از قلم استاذی المکرّم غزالی زماں علاّمہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
عشق کے معنی
٭ پھلواروی صاحب نے عشق کے معنی زورِ گندم بتائے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں بتائے۔ لغت کی کسی کتاب میں لفظ عشق کے یہ معنی کوئی نہ دکھاسکے گا البتہ اس معنی پر انہوں نے مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ضرور استدلال فرمایا ہے جو پھلواروی صاحب کے حواس باختہ ہونے کی دلیل ہے۔ مولانا رومی تو اس شعر میں یہ فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں جو خواہش نفسانی پائی جاتی ہے وہ عشق نہیں وہ تو محض گندم کھانے کا خمار ہے پھلواروی صاحب نے اسی خمارِ گندم کو عشق قرار دے دیا جس کے عشق ہونے کی مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نفی فرما رہے ہیں
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے
عشق مولانا رومی کی نظر میں
٭ مولانا نے اس شعر میں خمارِ گندم کی مذمت کی ہے مگر حسب ذیل اشعار میں عشق کی مدح فرمائی ہے
ہر کرا جامہ ز عشق چاک شد
اوز حرص و عیب کلی پاک شد
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علتہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جسم خاک از عشق برافلاک شد
کوہ در رقص آمدو چالاک شد
٭ یعنی جس کے وجود نفسانی کا جامہ عشق سے چاک ہوگیا۔ وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوگیا۔ اے ہمارے عشق خوش سوداء اور ہماری تمام بیماریوں کے طبیب تو خوش رہ۔ اے ہماری نخوت و غرور کی دوا۔ اے ہمارے عشق تو ہی ہمارا افلاطون اور جالینوس ہے جسم خاکی عشق سے افلاک پر پہنچا‘ پہاڑ رقص میں آکر چست و چالاک ہوگیا۔
٭ ان اشعار میں مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے عشق وخوش سودا کو تمام بیماریوں کا طبیب اور اسی عشق کو اپنی نخوت و ناموس کی دوا اور اسی عشق کو اپنا افلاطون اور جالینوس فرماکر اس کی مدح فرمائی ہے۔ پہلے شعر کے ساتھ ان اشعار کو ملا کر پڑھیئے۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا مفہوم آپ پر واضح ہوجائے گا کہ زورِ گندم عشق نہیں کیونکہ وہ انسانی خواہشات کو ابھارتا اور انسان کو بیشمار امراض قلبیہ میں مبتلا کردیتا ہے عشق تو ان کے نزدیک ایک ایسا جوہر لطیف ہے کہ اگر وہ کسی کے وجود نفسانی کا جامہ چاک کردے تو وہ حرص اور ہر عیب سے پاک ہوجائے وہ فرماتے ہیں۔ عشق ہی ہماری تمام بیماریوں کا طبیب اور نخوت و ناموس کی دوا ہے۔ اسی عشق نے جسد خاکی کو افلاک پر پہنچایا اور اسی عشق سے پہاڑ رقص میں آیا۔
٭ خلاصہ یہ ہے کہ مولانا کے نزدیک زور گندم عشق نہیں کیونکہ وہ امراض قلبیہ کا سبب ہے اور عشق ان کے نزدیک تمام امراض قلبیہ کا طبیب ہے۔
ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا
محبت
٭ اس ضمن میں پھلواروی صاحب نے ایک لطیف میلان قلب کا نام محبت رکھا ہے گویا ان کے نزدیک محبت میں نفسانی خواہش‘ زورِ گندم اور حسن و شباب سے تعلق کا شائبہ ممکن ہی نہیں حالانکہ اہل عرب کے کلام اور محاورات میں محبت کا لفظ حسن و شباب کے تعلق ‘ نفسانی خواہش اور زورِ گندم کے معنی میں بھی بکثرت مستعمل ہے۔ حدیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں مثلاً بخاری شریف میں ہے
اِنَّھَا کاَنَتْ لِیْ بِنْتُ عِمِّ اَحْبَبْتُھَا کَاَ شَۃِ مَایُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَآ ئَ فَطَلَبْتُ مِنْھَا فَاَ یَتُ
ترجمہ٭ غار میں پھنسے ہوئے تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا میری چچا کی بیٹی تھی جس سے میں ایسی محبت کرتا تھا جیسی شدید ترین محبت مردوں کو عورتوں سے ہوتی ہے لہذا میں نے اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا۔(بخاری ج۱ ص۳۱۴)
٭ الفاظ حدیث کی روشنی میں پھلواروی صاحب کے اپنے من گھڑت عشق کے معنی اور محبت میں کیا فرق رہا؟ مولانا رومی کے اشعار میں تو عارفین کا عشق مذکور تھا جو رَاحَۃ العاشقین کے الفاظ سے مراد ہے۔ اب اہل لغت کی طرف آیئے تمام اہل لغت نے لفظ عشق پر کلام کرتے ہوئے اسکے معنی ’’فرط محبت‘‘ کے لکھے ہیں۔ مختار الصحاح ص۳۷۴ میں ہے۔ اَلْعِشْقُ فَرْطُ ا لْحُبِّ اسیطرح لسان العرب ج۱۰ص۲۵‘ تاج العروس ج۷ص۱۳ اور قاموس ج۳ص۲۶۵ میں ہے۔
٭ جس طرح محبت پاکیزہ بھی ہوتی ہے اور خبیث بھی۔ اسی طرح عشق بھی پاکیزگی اور خبث دونوں میں پایا جاتا ہے ملاحظہ ہو قاموس میں ہے اَلْیِشْقُ۔۔۔۔اِفْرَاطُ الْہُبِّ ویَکُوْنُ فِیْ عَفَافٍ وفِیْ دَعَارَۃٍ (ص۲۶۵ج۳) یعنی عشق کا معنی افراط محبت ہے جو پاک دامنی میں ہوتا ہے اور خبث میں بھی معلم ہوا کہ عشق اور محبت میں شدت اور افراط کے سوا کوئی فرق نہیں۔
لفظ عشق کا ثبوت
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’لفظ عشق اتنا گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف لفظ ہے کہ قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس لفظ کے استعمال سے مکمل احتراز کیا ہے‘‘
٭ قرآن و حدیث میں لفظ’’عشق‘‘ سے مکمل احتراز کا دعوی محل نظر ہے۔ قرآن میں نہ سہی مگر حدیث میں ’’عَشِقَ‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ بروایت خطیب بغدادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَھِیْدًا
ترجمہ٭ جس کو کسی سے عشق ہوا پھر وہ پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔
٭ اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی بروایت خطیب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
مَنْ عَشِقَ فَکَتَمَ وَعَفَّ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ
ترجمہ٭ جس کو کسی سے عشق ہوا پھر اس نے چھپایا اور پاک دامن رہتے ہوئے مرگیا تو وہ شہید ہے۔(الجامع الصغیر ج۲ ص ۱۷۵ طبع مصر)
٭ اگر چہ ان دونوں حدیثوں میں ضعف کا قول کیاگیا ہے لیکن اس حدیث کو امام سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اسانید متعددہ سے وارد کیا بعض میں کلام کیا اور بعض کو برقرار رکھا جن اسانید کو برقرار رکھا وہ ضعیف نہیں چنانچہ امام سخاوی نے اس حدیث کی اسانید میں سے ایک سند کے متعلق فرمایا وَھُوَ سَنَدٌ صَحِیْحٌ (مقاصدِ حسنہ ص ۴۲۰)
٭ علامہ سخاوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام خرائطی اور ویلمی وغیرھما نے روایت کیا۔ بعض محدثین کے نزدیک اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں
مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَصَبَرَ فَھُوَ شَھِیْدٌ
ترجمہ٭ جس کو کسی سے عشق ہوگیا پھر وہ پاک دامن رہا اور اسے چھپایا اور صبر کیا تو وہ شہید ہے۔
٭ اور امام بیہقی نے اسے طرقِ متعددہ سے روایت کیا(مقاصدِ حسنہ ص۴۱۹‘۴۲۰ طبع مصر)
٭ اہل علم جانتے ہیں کہ طرقِ متعددہ سے سند ضعیف کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ مختصر یہ کہ لفظ عشق حدیث میں وارد ہے۔ قرآن و حدیث میں ا س سے مکمل احتراز کا جو دعوی کیا گیا ہے صحیح نہیں۔
عدم ورود ثبوت سخا فت نہیں
٭ علاوہ ازیں پھلواروی صاحب کی یہ دلیل کہ لفظ عشق چونکہ قرآن و حدیث میں وارد نہیں ہوا ۔ اس لئے وہ نہایت گرا ہوا‘ گھٹیا اور سخیف ہے۔ قطعاً درست نہیں بکثرت کلمات فصیحہ کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئے مثلاً لفظ ’’طُروف‘‘ اور اس کا واحد’’ظرف‘‘ قرآن میں کہیں وارد نہیں ہوا نیز’’نظم‘‘ اور ‘‘نسق‘‘ دونوں محاورات عرب میں کثیر الاستعمال اور فصیح ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی قرآن میں کہیں وارد نہیں ہوا۔ نہ ان دونوں میں سے کوئی لفظ کسی حدیث میں آیا ہے۔ ترمذی شریف میں ’’نِظَامٍ بَالٍ‘‘ کے الفاظ وارد ہیں(ج۹ص۵۹ طبع مصر) اور مسند امام احمد میں ایک جگہ لفظ ’’مَنْظُوْمَات‘‘ اور دوسری جگہ ’’اِنْتَظَمَتْ‘‘ کا لفظ آیا ہے(ج۲ص۲۱۹‘ج۴ص۵۲ طبع بیروت) لیکن لفظ نظم بعینہٖ آج تک کسی حدیث میں منقول نہیں ہوا اسی طرح نَاسِقُوْ بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ کے الفاظ بعض علماء نے حدیث سے نقل کئے ہیں(مجمع بحارالانوار ج۳ص۳۵۲ طبع نولکشور) لیکن لفظِ نسق آج تک کسی حدیث سے کسی نے نقل نہیں کیا۔ کیا پھلواروی صاحب ان الفاظ کو بھی گھٹیا‘ گرا ہوا اور سخیف قرار دیں گے؟
٭ پھر یہ کہ لفظ عشق نہ سہی مگر اس کے معنی (شدتِ محبت اور فرطِ محبت) جو لغت کی معتبر کتابوں سے ہم نقل کرچکے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بکثر ت وارد ہیں جیسے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ اور جو لوگ ایمان لائے وہ شد کیلئے بہت زیادہ محبت رکھنے والے ہیں(پ۲ بقرہ)
٭ اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مومن وہی ہے جس کے دل میں سب سے زیادہ میری محبت ہو(بخاری ج ۱ ص۷ مسلم ج ۱ ص۴۹) شدت محبت اور زیادت محبت ہی عشق کے معنی ہیں جو اس آیت اور اس حدیث میں وارد ہیں۔
٭ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرط محبت کے معنی میں علماء اور صلحاء امت اور فصحا ملت نے نظماً و نثراً اس لفظ عشق کو جس کثرت سے استعمال کیا ہے کسی سے مخفی نہیں۔ کیا اس کے بعد بھی اسے گرا ہوا گھٹیا اور سخیف کہنے کا جواز باقی رہتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لفظ عشق اصل میں گھٹیا ‘ سخیف اور گرا ہوا ہونے کی دلیل ہے بلکہ پھلواروی صاحب کی ذہنیت رکھنے والے اگلے پچھلے لوگوں نے اس کے معنی زورِ گندم سمجھ کر اسے گرے ہوئے‘ گھٹیا اورسخیف معنی میں استعمال کیا۔ اسی لئے اس کا استعمال عام مذموم قرارپایا۔ بجز ایسے بعض استعمالات کے جہاں سخیف اور گھٹیا اور معنی کا واہمہ متصور ہی نہ ہو جیسے رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ یہاں اس قسم کے توہم کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔
دسواں اعتراض اور اسکا جواب
اقارب سے کمال درجے کی محبت
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’انسان کو اپنے والدین سے بہن‘ بھائی سے دختر و فرزند سے کمال درجے کی محبت تو ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی عشق نہ ہوتا ہے اور نہ ہوسکتا ہے‘‘(انتہیٰ)
٭ ہم ابھی ثابت کرچکے ہیں کہ عشق کے معنی کمال درجے کی محبت کے سوا کچھ نہیں لیکن ماں باپ‘ بہن بھائی کے ساتھ کمال محبت کو عشق اس لئے نہیں کہا جاتا اور نہ کہا جاسکتا ہے کہ پھلواروی صاحب جیسی ذہنیت رکھنے والوں نے خمار گندم کا نام عشق رکھ دیا ہے جس کا تصور بھی والدین اور بہن‘ بھائی کے متعلق نہیں کیا جاسکتا۔
گیارہواں اعتراض اور اسکا جواب
زورِ گندم اور عشق
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں محبت کو بقا ہوتی ہے ‘ عشق فانی ہے۔ انتہیٰ
٭ درست فرمایا زور گندم یقینا فانی ہے مگر وہ عشق نہیں ‘ عشق تو کمالِ محبت کا نام ہے اور وہ باقی ہے۔
بارہواں اعتراض اور اسکا جواب
حضورﷺ کو معشوق کہنا جائز نہیں
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں ’’حضورﷺ کو معشوق کہنا انتہائی بدتمیزی ہے پس جب حضورﷺ معشوق نہیں تو راحتہ العاشقین کس طرح ہوسکتے ہیں‘‘؟ انتہیٰ
٭ بجا فرمایا کوئی صاحب ہوش و حواس حضورﷺ کے حق میں یہ لفظ نہیں کہہ سکتا۔ اگر کہے گا تو یقیناً بد تمیز قرار پائے گا مگر صاحب درود تاج نے حضورﷺ کے حق میں یہ لفظ نہیں کہا۔
٭ اس مقام پر پھلواروی صاحب کا یہ کہنا کہ جب حضورﷺ معشوق نہیں تو ’’راحۃ العاشقین‘‘ کیسے ہوسکتے ہیں؟ انتہائی مضحکہ خیز ہے حکم اور اطلاق کا فرق بھی پھلواروی صاحب نہیں سمجھ سکے۔ عشق کے معنی کمال محبت کے اعتبار سے اَلْعَاشِقِیْنَ کے معنی محبین کاملین ہیں جس کا مفادیہ ہے کہ حضورﷺ محبوب اکمل ہیں محبوب اکمل اپنے محب کامل کی راحت ہوتا ہے۔
٭ خلاصہ یہ ہے کہ درود تاج میں حضورﷺ کی ذات مقدسہ پر محبوب اکمل ہونے کا حکم ہے۔ لفظ معشوق کا اطلاق نہیں۔
٭ صاحب درودتاج نے حضورﷺ کو راحۃ العاشقین کہا ہے معشوق نہیں کہا پھلواروی صاحب کا ان پر یہ الزام کہ انہوں نے راحۃ العاشقین کہہ کر حضورﷺ کو معشوق کہہ دیا۔ اگر حضورﷺ معشوق نہیں تو راحۃ العاشقین کیسے ہوسکتے ہیں۔بالکل ایسا ہے جیسے شد کو ’’خَالِقُ کُلِّ شَیْیٍٔ‘‘ کہنے والے پر یہ الزام لگا دیاجائے کہ معاذ اللہ اس نے شد کو ’’خَالِقُ الْخَنَازِیْر‘‘ کہہ کر شان الوہیت میں گستاخی کی ہے کیونکہ اگر شد خالق الخنازیر نہیں تو خالق کل شیٔ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس طرح یہ الزام قطعاً غلط اور لغو ہے اسی طرح راحۃ العاشقین کہنے کی بنیاد پر مؤلف دروردتاج پر حضورﷺ کومعشوق کہنے کا الزام بھی غلط ‘ بیہودہ اور لایعنی ہے۔
رَاحَۃِ الَعَاشِقِیْنَ پر اعتراض کا خمیازہ
٭ اگر پھلواروی صاحب ’’رَاحَۃِ الْعَاشِقِیْنَ‘‘ کے الفاظ سے یہ الزام لگاتے ہیں کہ درودتاج میں حضورﷺ کومعشوق کہا گیا ہے تو اپنے اوپر بھی اس الزام کو قبول کرلیں کہ انہوں نے ماں‘ بہن اور بیٹی کو محبوبہ کہا ہے جبکہ ماں‘ بہن اور بیٹی کو اس کے بیٹے بھائی اور باپ کی محبوبہ کہنا انتہائی معیوب ہے۔ ہم ابھی پھلواروی صاحب کا کلام نقل کر چکے ہیں کہ انسان کو اپنے والدین‘ بھائی‘ بہن سے دختر و فرزند سے کمال درجہ محبت ہوتی ہے ۔ پھلواروی نے یہی کہہ کر ماں بہن اور بیٹی کو محبوبہ کہدیا کیونکہ اگر وہ محبوبہ نہیں تو ان کے ساتھ کمال درجہ کی محبت کیسے ہوسکتی ہے؟
٭ اگر پھلواروی صاحب اپنے اوپر یہ الزام قبول کرنے کو تیار نہیں تو درودتاج کے مؤلف پر یہ الزام رکھنا سراسرناانصافی نہیں تو کیا ہے؟
تیرھواں اعتراض اور اسکا جواب
مَحْبُوْبِ رَبِّ الْمَشْرِقَیْنِ
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں کہ محبوب کا لفظ لغتہً تو غلط نہیں ہوسکتا لیکن حضورﷺ کیلئے یہ لفظ میری ناقص نگاہوں سے نہیں گزرا۔ صحابہ کرام ’’خَلِیْلِیْ‘‘ یا ’’حَبِیْبِیْ‘‘ تو کہتے تھے لیکن’’مَحْبُوْبِی‘‘ و ’’َمَعْشُوْقِیْ‘‘ کبھی نہ کہا۔ انتہیٰ کلامہٗ
٭ پھلواروی صاحب کے آخری جملے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حضورﷺ کومحبوب کہنا اور معشوق کہنا دونوں کا حکم ایک ہے لفظ معشوق کے متعلق تو ہم ابھی کہہ چکے ہیں کہ حضورﷺ کے حق میں یہ لفظ کہنا انتہائی بد تمیزی ہے بجز کسی بے حواس کے کوئی مسلمان حضورﷺ کو معشوق نہیں کہہ سکتا لیکن لفظ محبوب کو بھی اس کے ساتھ ملا دینا انتہائی جسارت ہے کیا پھلواروی صاحب نے یہ سمجھ لیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ثناء میں کوئی ایسا لفظ جائز نہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نہ کہا ہو؟
عدم ورود دلیل عدم جواز نہیں
٭ اگر واقعی وہ یہ سمجھتے ہیں تو بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں متقدمین و متاخرین علماء و صلحاء امت نے حضورﷺ کی مدح وثناء میں بے شمار ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں مثلاً ’’وَسِیْلَتِیْ‘‘ ’’مُحْسِنِ اَعْظَمْ‘‘ ’’اِمَامُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ جن پر آج تک کسی نے انکار نہیں کیا اور وہ بلاشبہ جائز ہیں ہاں! ایسا کوئی لفظ جو حضورﷺ کے شایان شان نہ ہوکسی کے نزدیک جائز نہیں‘ نہ درورد تاج میں کوئی ایسا لفظ وارد ہوا۔
٭ پھلواروی صاحب کے اس آخری جملے سے کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ حضورﷺ کے محبوب ہونے کا تصور ان کیلئے معاذ اللہ سوہان روح ہے۔
چود ھواں اعتراض اور اسکا جواب
جَدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ حسنین کریمین بلکہ جمیع امت مسلمہ باعث فخر
٭ پھلواروی صاحب فرماتے ہیں’’رسم دنیا کے مطابق چھوٹا اپنے بڑوں کیلئے باعث فخر ہوسکتا ہے لیکن صرف اس وقت جبکہ وہ مجموعی حیثیت سے یا کسی خاص امتیازی کارگزاری میں اپنے بزرگوں سے آگے نکل جائے یا کم ازکم ان کے برابر ہوجائے یا کسی ایسے وصف کا مالک ہوجائے جو اس کے بڑوں کو حاصل ہی نہ ہوا ہو۔ نواسہ رسول ﷺ ہونا حضرات حسنین کریمین کیلئے باعث فخر ہوسکتا ہے لیکن حضورﷺ کیلئے حسنین کانانا ہونا قطعاً کوئی شرف ۔ مہاجرین و انصار کو چھوڑ کر کسی ایسے کو باعث فخر بنانا جو نہ مہاجر ہے نہ انصار۔ یقیناً ایک ایسی غالیانہ ذہنیت کا غماز ہے جس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں‘‘ (ملحضاً)
٭ پھلواروی صاحب نے رسم دنیا کا سہارا لے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ دین کے کسی گوشے میں انہیں پناہ نہیں ملی۔ ذرا دین کے میدان میں آئیے ہم آپ کو بتائیں گے کہ کسی کا باعث فخر ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ جس شخص کے باعث فخر کیاجائے وہ فخر کرنیوالے سے افضل یا اس کے برابر ہو۔ دیکھیئے حدیث میں واردہے کہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا
اِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ الْاَنْبِیَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
ترجمہ٭ میں تمہارے باعث قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام پر فخر کروں گا۔(مسند احمدج۳ص۲۴۵ طبع بیروت)
٭ اور ترمذی شریف میں ہے
اِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ
ترجمہ٭ میں تمہارے باعث فخر کروں گا(ترمذی ج۱ص۳ طبع دہلی)
٭ اور ابو دائود میں ہے
فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ
ترجمہ٭ بیشک میں تمہارے سبب فخر کروں گا(ابودائود ج۱ص۲۸۰ طبع اصح المطابع کراچی)
٭ یہی الفاظ نسانی میں بھی ہیں(ج۲ ص۵۹ طبع دہلی) اور مسند احمد میں ایک دوسری جگہ وارد ہے
وَمُکَاثِرٌ بِکُمْ
ترجمہ٭ میں تمہاری وجہ سے فخر کروں گا۔(ے۳۵۱ج۴طبع بیروت)
٭ اور ابن ماجہ میں ہے
وَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ الْاُمَمَ
ترجمہ٭ اور بے شک میں تمہارے باعث دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔(ابن ماجہ ج۲ ص۲۹۱طبع المطابع کراچی)
٭ کتب احادیث میں روایات منقولہ بتفاوت یسیر متعدد مقامات پر مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً وارد ہیں جن کی دلالت قطعیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی امت حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہے۔ حسنین کریمین‘ حضورﷺ کی امت ہونے کے علاوہ حضورﷺ کے صحابی بھی ہیں۔ صرف صحابی نہیں بلکہ حضورﷺ کی اولاد امجاد اور اہل بیت اطہار ہونے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ جب حضورﷺ کی امت حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہے تو حسنین کریمین حضورﷺ کیلئے بطریق اولی باعث فخر ہیں جبکہ امت کے کسی ایک فرد کا حضورﷺ سے افضل یا حضورﷺ کے برابر ہونا بھی ممکن نہیں بلکہ حضورﷺ مطلقاً افضل الخلق ہیں۔
٭ ثابت ہوا کہ حسنین کریمین کا حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہونا ہرگز اس بات کو مستلزم نہیں کہ معاذ اللہ وہ حضورﷺ سے افضل یا حضورﷺ کے برابر ہوں۔ پھلواروی صاحب کی غلط فہمی یہ ہے کہ انہوں نے حسنین کریمین کا حضورﷺ کے لئے باعث فخر ہونا حضورﷺ سے ان کے افضل ہونے کو مستلزم سمجھ لیا اور یہ قطعاً غلط ہے۔ دیکھیئے حدیث شریف میں وارد ہے
اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُبَاھِیْ بِکُمُ الْمَلٰئِکَۃَ
ترجمہ٭ حضورﷺ نے فرمایا اے میرے صحابہ بیشک اللہ عزوجل تمہارے باعث ملائکہ پر فخر فرماتا ہے۔
٭ یہ حدیث مسلم شریف ج ۲ ص۳۴۶ طبع اصح المطابق کراچی اور مسند امام احمد ج۲ ص ۱۸۶ ‘۱۸۷طبع بیروت پر وارد ہے۔ نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ شد کیلئے بھی باعث فخر ہے کیا پھلواروی صاحب معاذ اللہ یہاں بھی اس استلزام کو تسلیم کریں گے؟(العیاذ باللہ) ذرا غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آئیگی کہ حضورﷺ کی امت پر شد کا فخر فرمانا شد ہی کی علوِ شان کی دلیل ہے کہ حق سبحانہ و تعالی نے امت محمدیہ کو یہ فضل و شرف عطا فرمایا کہ شد ان کے باعث ملائکہ پر فخر فرماتا ہے معلوم ہوا کہ حسنین کریمین اور حضورﷺ کی باقی امت کا حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہونا حضورﷺ سے افضل ہونے کو مستلزم نہیں بلکہ خود حضورﷺ کی افضلیت کو مستلزم ہے کیونکہ ان حضرات کا حضورﷺ کیلئے باعث فخر ہونا حضورﷺ ہی کے فیض اور نسبت کی وجہ سے ہے اگر امت کی اضافت حضورﷺکیطرف نہ ہوتی یا حسنین کریمین کو حضورﷺ کا نواسہ ہونے کی نسبت حاصل نہ ہوتی اور وہ حضورﷺ کے فیض سے محروم ہوتے تو ان میں سے کوئی بھی حضورﷺ کیلئے باعث فخر نہ ہوسکتا تھا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ درحقیقت یہ حضورﷺ ہی کی فضیلت ہے اور حضورﷺ کی ہر فضیلت شد کی عظمت شان کی دلیل ہے کہ اسی نے اپنے محبوب کو یہ فضیلت عطا فرمائی۔
٭ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ’’جِدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْن‘‘کے الفاظ محض بطور لقب اور تعریف استعمال ہوئے ہیں جیسے حضورﷺ کا قول مبارک ’’اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ‘‘(صحیح بخاری ج۲ ص۶۱۷) طبع اصح المطالع کراچی۔ صحیح مسلم ج۲ ص ۱۰۰طبع اصح المطابع کراچی
٭ ’’جِدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْن‘‘کے الفاظ ہوں یا ’’اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ‘‘کے نوری کلمات حضورﷺ کیلئے حصول فضل و شرف کے معنی کا ان سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
٭ اس کے بعد آگے چل کر’’جِدِّالْحَسَنِ وَالْحُسَیْن‘‘کے الفاظ کو پھلواروی صاحب غالیانہ ذہنیت کا غماز قراردے رہے ہیں جبکہ حسنین کریمین کے تمام فضائل و مناقب کو نظر انداز کرکے ان کے مہاجر و انصار نہ ہونے کا ذکر جس انداز میں پھلواروی صاحب نے کیا ہے وہ خود اہل بیت اطہار کے حق میں ان کی متعصبانہ ذہنیت کی غمازی کررہا ہے۔ فیاللعجب ۔(جاری ہے)۔(طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment