درس قرآن موضوع انعام یافتہ لوگ
وَ مَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا ذَلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّہِ وَکَفَی بِاللّہِ عَلِیمًا ۔ (سورہ النسآء آیت نمبر 69)
ترجمہ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پراللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں ۔
وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ : اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے ۔ آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیاتھا تو رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا، آج رنگ کیوں بدلاہوا ہے ؟عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اورنہ درد سوائے اس کے کہ جب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سامنے نہیں ہوتے تو اِنتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے، جب آخرت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقام عالی تک رسائی کہاں ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱/۴۰۰، چشتی)
اور انہیں تسکین دی گئی کہ منزلوں کے فرق کے باوجودفرمانبرداروں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضری اور مَعِیَّت کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا اور انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مخلص فرمانبردار جنت میں اُن کی صحبت ودیدار سے محروم نہ ہوں گے۔حدیث شریف میں ہے:آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے ۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب اخبار الرجل الرجل بمحبتہ ایاہ، ۴/۴۲۹، الحدیث: ۵۱۲۷، چشتی)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا شوقِ رفاقت
اس سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی رفاقت صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت محبوب تھی اور دنیا کی رفاقت کے ساتھ ساتھ اُخروی رفاقت کا شوق بھی ان کے دلوں میں رچا بسا تھا اور وہ ا س کے لئے بڑے فکر مند ہو اکرتے تھے۔ ذیلی سُطور میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے شوقِ رفاقت کے چند اور واقعات ملاحظہ ہوں ، چنانچہ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں رات کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وضو کیلئے پانی لایا کرتا اور دیگر خدمت بھی بجا لایا کرتا تھا ۔ایک روز آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : سَلْ (مانگو) میں نے عرض کیا ’’ اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ‘‘میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس کے علاوہ اور کچھ؟ میں نے عرض کی: میرا مقصود تو وہی ہے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ تو پھر زیادہ سجدے کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو ۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹)، چشتی)
جنگِ اُحد کے موقع پر حضرت ام عمارہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، آپ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو جنت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی خدمت گزاری کا شرف عطا فرمائے۔ اس وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہ ’’اللھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَائِیْ فِی الْجَنَّۃِ‘‘ یااللہ!عَزَّوَجَلَّ، ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔ حضرت ام عمارہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہازندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی اس دعاکے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ (الطبقات الکبری لابن سعد، ومن نساء بنی النجار ۔۔۔ الخ، امّ عمارۃبنت کعب، ، ۸/۳۰۵ ، چشتی)
حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زوجہ شدت ِغم سے فرمانے لگیں :ہائے غم۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: واہ! بڑی خوشی کی بات ہے کہ کل ہم اپنے محبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور ان کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے ملاقات کریں گے ۔ (سیرت حلبیہ، باب استخفائہ صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ فی دار الارقم۔۔۔ الخ، ۱/۴۲۲، چشتی)
ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ہاشم بن عتبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا ’’اے ہاشم! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم جنت سے بھاگتے ہو حالانکہ جنت تو تلواروں (کے سائے) میں ہے۔ آج میں اپنی محبوب ترین ہستیوں محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا۔ چنانچہ اسی جنگ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شہادت پائی ۔ (اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمار بن یاسر، ۴/۱۴۴، چشتی)
جب حضرت خباب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبیمار ہوئے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے (جب انہوں نے دیکھا کہ یہ اسی مرض میں وفات پا جائیں گے ) تو فرمایا ’’تم خوش ہو جاؤ، کل تم محبوب ترین ہستی محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ملاقات کرو گے۔
(البدایہ والنہایہ، ثمّ دخلت سنۃ سبع وثلاثین، ذکر من توفی فیہا من الاعیان، ۵/۴۱۷)
اللہ تعالیٰ ان مقدس ہستیوں کے شوقِ رفاقت کے صدقے ہمیں بھی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی قبر و حشر اور جنت میں رفاقت نصیب فرمائے۔ اٰمین۔
صدق کے معنی اور اس کے مَراتِب : اس آیت میں صِدّیقین کا لفظ آیا ہے۔ صدیقین انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے سچے مُتَّبِعین کو کہتے ہیں جواخلاص کے ساتھ اُن کی راہ پر قائم رہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں ہم اس کے معانی اور اس کے درجات بیان کرتے ہیں چنانچہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : صدق 6 معانی میں استعمال ہو تا ہے :(1) گفتگو میں صدق۔ (2) نیت و ارادہ میں صدق۔ (3) عَزم میں صدق۔ (4) عزم کو پورا کرنے میں صدق۔ (5) عمل میں صدق۔ (6) دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان معانی کے اعتبار سے صادقین کے بہت سے درجات ہیں اور جس شخص میں کسی خاص چیز میں صدق پایا جائے تو وہ اسی چیز کی نسبت سے صادق کہلائے گا، چنانچہ : پہلا صدق ’’زبان کا صدق ‘‘ہے اور یہ صرف خبریں دینے میں یا ان باتوں میں ہوتا ہے جو خبروں میں شامل ہوں اور ان سے آگاہی ہو اور اس میں وعدے کو پورا کرنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا بھی داخل ہے،لہٰذا ہر بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے الفاظ کی حفاظت کرے اور (ہمیشہ) سچی بات ہی کہے ۔
دوسرا صدق ارادے اور نیت سے متعلق ہے اور یہ اخلاص کی طرف لوٹتا ہے، یعنی بندے کی حَرکات و سَکَنات کا باعث صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، اگر اس میں کوئی نَفسانی غرض بھی آ جائے تو صدقِ نیت باطل ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کو جھوٹاکہنا صحیح ہے لہٰذا ہر صادق کا مخلص ہونا ضروری ہے ۔
تیسرا صدق ’’عزم کا صدق ‘‘ ہے کیونکہ بعض اوقات انسان کسی عمل کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے مجھے مال عطا فرمایا تو میں تمام مال صدقہ کر دوں گا یا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں میرا دشمن سے مقابلہ ہو ا تو میں ا س سے لڑوں گا اور ا س لڑائی میں اگر میں قتل بھی ہو جاؤں تو مجھے اس کی پرواہ نہ ہو گی یا اگراللہتعالیٰ مجھے حکومت دے تو میں انصاف کروں گا اور ظلم کرنے اور مخلوق کی طرف میلان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔یہ عزم و ارادہ دل میں ہوتا ہے اور انتہائی پختہ اور سچا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس میں دوسری طرف میلان اور تَرَدُّد ہوتا ہے، نیز ایسی کمزوری ہوتی ہے جو عزم میں صدق کے مقابل اور اس کی ضد ہوتی ہے توصادق اور صدیق وہ شخص ہے جس کا پختہ ارادہ تمام نیکیوں میں قوتِ تامہ کے ساتھ ہوتاہے، اس میں کسی قسم کا میلان ،تردد اور کمزوری نہیں ہوتی اور ا س کا نفس ہمیشہ نیک کاموں پر پختہ ارادہ رکھتا ہے ۔
چوتھا صدق ’’عزم کو پورا کرنے کا صدق‘‘ ہے کیونکہ بعض اوقات نفس فی الحال عزم کر لیتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وعدے اور عزم میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور اس میں محنت بھی کم ہوتی ہے لیکن جب حقیقت کا سامنا ہوتا ہے اور قدرت حاصل ہوجاتی ہے اور شہوت کازور ہوتا ہے تو عزم ختم ہو جاتا ہے اور خواہشات غالب ا ٓجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ عزم کو پورا نہیں کر سکتا اور یہ بات صدق کے خلاف ہے ۔
پانچواں صدق ’’اعمال کا صدق‘‘ ہے، یعنی انسان کوشش کرے حتّٰی کہ اس کے ظاہری اعمال ایسی بات پر دلالت نہ کریں کہ ا س کے دل میں جو کچھ ہے وہ ظاہر کے خلاف ہے۔ یہ کوشش اعمال کو چھوڑنے سے نہ ہو بلکہ باطن کو ظاہر کی تصدیق کی طرف کھینچنے سے ہو اور یہ بات تَرکِ ریاسے حاصل ہوتی ہے کیونکہ ریا کار تو یہی چاہتاہے کہ اس کے ظاہر سے باطن کی اچھی صفات سمجھی جائیں البتہ کئی نمازی نماز میں خشوع و خضوع کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد دوسروں کو دکھانا نہیں ہوتا لیکن ان کا دل نماز سے غافل ہوتا ہے اور جو شخص اسے دیکھتا ہے وہ اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑ ادیکھتا ہے جبکہ باطنی طورپر وہ خواہشات میں سے کسی خواہش کے سامنے بازار میں کھڑ اہوتا ہے ،اس طرح یہ اعمال زبانِ حال سے باطن کی خبر دیتے ہیں اور وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے اور اس سے اعمال میں صدق کی باز پُرس ہو گی۔ اسی طرح کوئی شخص سکون و وقار سے چل رہا ہوتا ہے حالانکہ ا س کا باطن سکون وو قار سے موصوف نہیں ہوتا تو یہ بھی اپنے عمل میں سچا نہیں اگرچہ ا س کی توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو اور نہ ہی وہ ان کو دکھا رہا ہو ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ظاہر کاباطن کے خلاف ہونا قصد وارادے سے ہو تو وہ ریا ہے اور ا س سے اخلاص ختم ہو جاتا ہے اور قصدو ارادے کے بغیر ہو تو اس سے صدق فوت ہو جاتا ہے اور اس قسم کی خرابی سے نجات کی صورت یہی ہے کہ ظاہر وباطن ایک جیسا ہو بلکہ باطن ظاہر سے بہتر ہو ۔
چھٹا اور سب سے اعلیٰ و مُعَزَّز درجے کا صدق’’ مقامات دین میں صدق‘‘ ہے، جیسے خوف ، امید، تعظیم، زُہد، رضا، تَوَکُّل، محبت اور باقی اُمورِ دینیہ میں صدق پایا جانا ۔ان امور کی کچھ بنیادیں ہیں جن کے ظاہر ہونے سے یہ نام بولے جاتے ہیں ،پھر ان کے کچھ مقاصد اور حقائق ہیں تو حقیقی صادق وہ ہے جو ان امور کی حقیقت کو پا لے اور جب کوئی چیز غالب آ جائے اور اس کی حقیقت کامل ہو تو ا س سے موصوف شخص کو صادق کہا جاتا ہے ۔ (احیاء العلوم، کتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الثالث، بیان حقیقۃ الصدق ومعناہ ومراتبہ، ۵/۱۱۷-۱۲۲ ، چشتی)
یاد رہے کہ اس آیت میں صدیقین سے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے اَکابِر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے پہلے مراد ہیں جیسے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ شہداء سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے راہِ خدا میں جانیں دیں اور صالحین سے مراد وہ دیندار لوگ ہیں جو حق العِباد اور حقُّ اللہ دونوں ادا کریں اور اُن کے احوال و اعمال اور ظاہر و باطن اچھے اور پاک ہوں ۔
انعام یافتہ لوگ کون ھیں ؟
اس بات کی پوری طرح کوشش کی جاتی ہے کہ تصوف اور روحانیت کی راہوں میں چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ زندگی کی بنیاد یا بساط ایک طرز فکر کے اوپر قائم ہے اگر وہ طرز فکر ایسی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے تو اس کا نام شیطنت ہے اور وہ طرز فکر جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے یعنی اس کائنات میں دو گروہ ہیں جن میں ایک گروہ انعام یافتہ ہے اور دوسرا گروہ باغی اور ناشکرا ہے۔ قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو مختصر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اس پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں ایک وہ طرز ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے نا پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارنے والے دوست اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں اور اس طرز فکر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کہا ہے۔ حق آشنا لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہیں، سرکش ہیں اور جن کی صفات میں شیطنت بھری ہوئی ہے وہ نعمتوں سے معمور خزانوں کے مالک ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو شیطانی طرزوں سے دور ہیں نعمتوں سے محروم ہیں یہ ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جس کو ہم دنیاوی زندگی کی آسائش کہتے ہیں ۔
دوسری بات جو بالکل سامنے کی ہے یہ ہے کہ زندگی کی آسائش سے متعلق وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرز فکر سے ہم آہنگ ہیں دونوں شریک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ذریت شیطان بھی کھانا کھاتی ہے، وہ بھی لباس پہنتی ہے، اس کے لئے اچھے سے اچھا گھر موجود ہے اور جو لوگ ذریت ابلیس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے وہ بھی کھانا کھاتے ہیں، گھر میں رہتے ہیں، لباس پہنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ جواہرات کے انبار سے ضروریات پورے ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک آدمی کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ موجود ہے تو وہ وہی روٹی کھائے گا۔ دوسرے آدمی کے پاس اگر محل موجود ہے اور اس محل میں 50 کمرے ہیں تو سونے کے لئے اسے ایک چارپائی کی جگہ کی ضرورت پیش آتی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ، نہ ہو گا کہ پچاس کمروں کا مالک کوئی بندہ جب سونے کے لئے لیٹے تو اس کا جسم دراز اور اتنا پھیل جائے کہ وہ دس چارپائیوں کی جگہ گھیر لے ۔ سونے کے لئے اسے ایک ہی چارپائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہی حال پوری زندگی کے اعمال و حرکات کا ہے ۔ اس مختصر تشریح سے یہ ثابت ہوا کہ دنیاوی طرز فکر میں ذریت ابلیس اور اس کے خلاف دوسرے لوگ مادی زندگی کے وسائل میں مشترک قدریں رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انعام کیا ہے کہ جس انعام کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ کہا ہے اور جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں ۔ دوستوں کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو بندہ ہمارا دوست بن جاتا ہے ہم اس کے اوپر سے خوف اور غم اٹھا لیتے ہیں۔ خوف اور غم جس آدمی کی زندگی سے نکل جاتا ہے تو خوشی اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ یہ وہ انعام ہے جو ہمیں ظاہرہ آنکھ سے نظر نہیں آتا یہ وہی انعام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہماری ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں ہم نے ان کے دلوں پہ مہر لگا دی ہے اور ہم نے ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں۔ ایسا بندہ جس کے دل پر کانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے وہ اس دنیا میں سوچتا بھی ہے ، سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مہر اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے ک ا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دنیاوی طور پر اندھا ہو گیاہے یا اس کی عقل سلب ہو گئی ہے یا اس کے کانوں میں سیسہ ڈال دیا گیا ہے یا وہ بہرہ ہو گیا ہے۔ عقل پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر سے ان صفات کو نکال لیا گیا ہے جن صفات سے آدمی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اس کی سماعت میں سے وہ صفت نکال لی گئی ہے جس کے ذریعے سے غیب کی آوازیں سنتا ہے ۔ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے جن آنکھوں سے وہ ، اگر ان آنکھوں پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو حضور عصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے دربار اقدس میں حاضر ہو کر کھلی آنکھوں سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی ذات اقدس کا مشاہدہ کر لیتا ہے ۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے قلب میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کر سکیں ۔ ان کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ فرشتوں کی آواز سن سکیں ۔ ان کی آنکھوں میں اتنی چمک نہیں ہے کہ وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا دیدار کر سکیں ۔ وہ سب لوگ ذریت ابلیس میں آتے ہیں ۔ بات بہت زیادہ سخت ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ارکان اسلام کی ماہیت اور حقیقت میں اگر فکر کیا جائے تو ہر رکن اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق روحانی طرزوں ، روحانی صفات اور روحانی صلاحیتوں سے ہے ۔
اسلام میں بنیادی رکن حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانا ہے۔ ایمان لانے کے بعد حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی رسالت کی شہادت دینا ہے لیکن دنیا کا کوئی قانون اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر دیکھے شہادت معتبر ہو سکتی ہے ۔ کلمہ شہادت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان شیطانیت سے آزاد ہو کر فی الواقع ایمان کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور وہ برملا حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے ۔ قانون شہادت یہ ہے کہ شہادت بغیر دیکھے معتبر نہیں ہوتی ۔ مسلمان ہونے کے بعد حق باتوں پر یقین ضروری ہے‘ جو ایمان کی شرائط میں داخل ہیں ان میں پہلی بات غیب پر یقین ہے ۔ ہم غیب پر یقین رکھتے ہیں ۔ قانون یہ ہے کہ جب تک کوئی بات مشاہدے میں نہیں آتی ۔ یقین متزلزل رہتا ہے اس کے بعد ملائکہ کا تذکرہ آتا ہے پھر ان کتابوں کا تذکرہ آتا ہے جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے پہلے انبیاء علیہم السّلام پر نازل ہوئیں پھر یوم آخرت کا تذکرہ آتا ہے یہ تمام تذکرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انسان کے اندر کوئی ایسی آنکھ موجود ہے جو پردوں کے پیچھے دیکھتی ہے۔ انسان کے اند رایسے کان موجود ہیں جو ماورائی آوازیں سن کر ان کے معانی اور مفہوم کو سمجھتے ہیں۔ ایسی آنکھیں موجود ہیں جو آنکھیں زمان و مکاں کی تمام حد بندیوں کو توڑ کر عرش پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتی ہیں۔ ایسا قلب موجود ہے جو محسوس کرتا ہے۔ قلب اللہ کا گھر ہے اور اس گھر میں مکین کو دیکھتا ہے۔ روحانیت اور تصوف سالکان طریقت کو اسی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ آدمی ظاہرہ حواس سے ہٹ کر ان حواس کا کھوج لگائے جن حواس میں لطافت ہے، نرمی ہے، رحمت ہے، محبت ہے، حلاوت ہے، نور ہے، روشنی ہے۔ جن حواس سے بندہ اپنے آقا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے قدموں میں سرنگوں ہوتا ہے جہاں تک دنیا زندگی گزارنے کے لئے مفروضہ حواس کا تعلق ہے ان حوا س میں آدم، بکری اور کتا برابر کے شریک ہیں۔ کتا بھی عقل رکھتا ہے ، آدمی بھی عقل رکھتا ہے۔ بعض حالات میں کتا انسان سے زیادہ عقل مند ہے۔ دوسری بات جو زیر بحث آتی ہے وہ ساخت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت پر تخلیق کیا ہے وہ ساخت اس قسم کی ہے کہ اس ساخت کی وجہ سے وہ عقل سے زیادہ سے زیادہ کام لے سکتا ہے اگر بلی کی ساخت انسانوں کی طرح ہوتی اور جس طرح انسان دو پیروں پر چلتا ہے اسی طرح بلی بھی پیروں پر چلتی تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بلی کار ڈرائیو نہ کر سکتی۔ دنیاوی عقل کا تعلق جہاں تک ہے اللہ کی سب مخلوق عقل رکھتی ہے۔ جہاں تک عقل میں کمی بیشی کا تعلق ہے وہاں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ آدمی بھی سب عقل مند نہیں ہوتے۔ ہزاروں لاکھوں میں چند دانش ور نکلتے ہیں اور اس دانش وری کے اندر غوطہ لگا کر جب کوئی گوہر نایاب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں بھی بے عقلی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
انسان روزانہ ترقی کے نعرے لگاتا ہے روزانہ ایجادات کے لئے نئے فارمولے زیر بحث آتے ہیں کچھ دن ان فارمولوں کا چرچا رہتا ہے پھر خود ہی ان فارمولوں کی نفی ہو جاتی ہے۔ آج کا دانشور جو کہتا ہے آنے والی کل کا دانشور اسی بات کی نفی کر دیتا ہے جبکہ عقل سلیم یہ جانتی ہے کہ حقیقت میں تغیر و تبدل اور تعطل واقع نہیں ہوتا۔ حقیقت اپنی جگہ اٹل رہتی ہے اربوں کھربوں سال سے چاند چاند ہے، سورج سورج ہے، زمین زمین ہے۔ اربوں کھربوں سال سے چاند کی گردش کے جو فارمولے قدرت نے متعین کر دیئے ہیں ان میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ سورج کے اندر روشنی پیدا کرنے کے جو فارمولے قدرت نے بنا دیئے ہیں ان میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہو گا ۔
اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس بات میں تغیر، تبدل ، تعطل واقع ہو سکتا ہے وہ حقیقی نہیں ہے اس کی بنیاد فکشن (FICTION) اور مفروضہ حواس پر ہے ۔ تصوف اور روحانیت مفروضہ فکشن حواس کی نفی کر کے آدمی کو حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment