اٹھتے ہیں حجاب آخر اصلی اہلسنت و جماعت کون ؟
سر زمین ہند میں فتنہ وہابیت سے متاثر ہو کر ۱۳۴۰ھ میں مولوی اسماعیل دہلوی (م ۱۲۴۶ھ -۱۸۳۱ء) نے ’’ تقویۃ الایمان نامی گستاخانہ کتاب لکھ کر وہابیت کی آگ کو اسلامیانِ ہند کے خرمن میں لگا دیا۔جس کی تپش سے مسلمان جھلس جھلس کر گمراہیت کے تندور میں گرنے لگے،مشہور غیر مقلد عالم مولانا وحید الزماں فاروقی (۱۳۳۸ھ) نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، وہ لکھتے ہیں -’’ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب ’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی کی پیروی کی ہے‘‘-( مولانا یٰسین اختر مصباحی، سواد اعظم ص: ۱۶، بحوالہ ہدیۃ المہدی، از وحید الزماں فاروقی)
جس وقت یہ کتاب شائع ہوئی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، جو مصنف کے چچا تھے، اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، انہوں نے بڑے درد و کرب بھرے لہجے میں کہا: میں اس وقت بوڑھا ہوں، ورنہ تقویۃ الایمان کے رد میں بھی’’ تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ کی طرح ایک ضخیم کتاب لکھتا‘‘- (مولانا مبارک حسین مصباحی، برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب ،ص: ۱۱۸)
لیکن جو حضرات جوان تھے انہوں نے لکھا اور خوب لکھا-مصنف کے چچا زاد بھائی مولانا مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی، علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی مکہ احمد ابن زینی دحلان ، مولانا مخلص الرحمن اسلام آباد، شیخ محمد عابد، مدینہ منورہ اور دوسرے درجنوں علمانے ’’ تقویۃ الایمان ‘‘ کے خلاف کتابیں لکھیں، تقریریں کیں اور مناظرے کیے- ان میں سب سے زیادہ سرگرم بقول مولانا آزادؔ ان کے پرنانا مولانا منور الدین علیہ الرحمہ تھے - (آزاد کی کہانی آزاد کے زبانی ،ص: ۶)
’’تقویۃ الایمان ‘‘ نے اہالیان ہند کو کیا دیا اور ریال کے زور پر پھیلنے والی اس فکر نے کیا تباہیاں مچائیں، مولانا شاہ زید ابو الحسن فاروقی کی زبانی سنیے-
’’ اس کتاب (تقویۃ الایمان) سے مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد ہوا، کوئی وہابی بنا ، کوئی اہل حدیث کہلایا ، کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا، ائمہ مجتہدین کا جو منزلت اور وقار دل میں تھا ، وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم و احترام میں تقصیرات کا سلسلہ شروع ہوگیا‘‘ -
انقلاب ۱۸۵۷ء سے ایک سال قبل ۱۸۵۶ء /۱۲۷۲ھ میں شہر بریلی میں امام احمد رضا خاں بریلوی (م ۱۳۴۰ھ ۱۹۲۱ء) کی ولادت ہوئی، وہ ایک علمی گھرانے کے فرد تھے، جب انہوں نے ہوش سنبھالا ہر چہار جانب وہابیت کی آگ لگی ہوئی تھی اور ملک کے سبھی علماء اس کے خلاف بر سر پیکار تھے، ان کے معاصر علمامیں زبان وقلم سے ’ ’رد وہابیہ‘‘ کرنے والوں میں یہ حضرات قابل ذکر ہیں-
(۱)مولانا عبد الحئی فرنگی محل (م ۱۳۰۴ھ) (۲) مفتی ارشاد حسین رام پوری (م۱۳۱۱ھ) (۳) مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی (م۱۳۱۳ھ) (۴) مولانا غلام دستگیر قصوری، لاہور (م:۱۳۱۵ھ) (۵) مولاناعبد القادر بدایونی (م: ۱۳۱۹ھ) مولانا ہدایت اللہ رام پور (م:۱۳۲۶ھ) (۷) مولانا خیر الدین دہلوی (م: ۱۳۲۶ھ) (۸) شاہ ابو الخیر دہلوی (م: ۱۳۴۱ھ) (۹) حضرت شاہ علی حسین اشرفی (۱۳۵۵ھ) (۱۰) شاہ مہر علی گولڑوی (۱۳۵۶ھ ، چشتی)
فاضل بریلوی نے بھی اپنے ہم عصر علماے حق کے ساتھ رد وہابیہ کو اپنا مشغلہ بنایا اور اپنے اور بیگانے کا فرق کیے بغیر جس کے فکر و اعتقاد میں بھی ذراسی کجی پائی اس کا بھر پور محاسبہ کیا اور ان کی شدید خبر گیری کی جو سنی حنفی بن کر’’ وہابی فکر‘‘ کی اشاعت میں خفیہ طور سے کوشاں تھے- اس طرح فاضل بریلوی کی کوشش خالص اہل سنت و جماعت کے حق میں تھی-اور امام احمد رضا کے تلامذہ اور خلفاء علم و فن میں یگانۂ روز گار ثابت ہوئے اور علمائے سلف اور اپنے استاد کے مشن کو سب نے بر قرار رکھا، انہوں نے تقریر، مناظرہ اور تصنیف و تالیف ہر طرح سے’’ وہابیت‘‘ کی حقیقت کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی پوری کوشش کی- جس سے جگہ جگہ اسے منہ کی کھانی پڑی-اب وہابیت کے سامنے ایک ہی راستہ تھا ،وہ یہ کہ علمائے اہل سنت سے بحث و تکرار کی بجائے پروپیگنڈ ہ کا سہارا لو اور اہل سنت و جماعت کے علما کو ہی اصل فتنہ و اختلاف کا ذمہ دار ٹھہرا دو، اس کے لیے انہوں ے علماے اہل سنت کو ’’ بریلوی‘‘ سے متعارف کرایا اور خود اہل سنت و جماعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرنے لگے،
اور اس کا ایک غلط تاثر یہ پیدا ہوا کہ ’’ بریلویت‘‘ ایک جد ااسلامی فرقہ ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خاں بریلوی ہیں(معاذاللہ)
آج دیوبندی، وہابی، اہلحدیث، سب ہی اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے کم پڑھا لکھا، یا دینی تعلیم کی کم معلومات رکھنے والے حضرات اکثر الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آخر اصلی اہلسنت و جماعت کون لوگ؟
اس تحریر میں اسی کا جائزہ لیا جائے گا ملاحظہ فرمائیں :فقیر اپنے انداز فکر اور مستقل نصب العین کے مطابق دیوبندی وہابی مکتب فکر کی وہابیت کا ثبوت اپنی طرف سے کچھ کہنے لکھنے کی بجائے ان کی اپنی مستند معتبر کتابوں سے پیش کرے گا۔ مگر پہلے یہ واضح کردوں کہ بیشتر کتب لغت میں وہابی کا معنی محمد بن عبدالوہاب نجدی کا پیروکار لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو فیروز اللغات، امیر اللغات، حسن اللغات وغیرہ وغیرہ۔
یہی کچھ اہلسنت وجماعت کے مسلمہ ومقتدر وموقر امام و فقیہ زبدۃ المحققین علامہ امین الدین محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی نے ردالمحتار حاشیہ در مختار جلد ثالث کتاب الجہاد باب البغاۃ میں ارقام فرمایا:
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ جیسا ہمارے زمانے میں محمد بن عبدالوہاب کے پیروں (اتباع کرنے والوں) سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کرکے حرمین محترمین پر تغلب کیا (چڑھائی کی) اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے مذہب پر نہیں وہ سب مشرک ہیں۔ اس لئے انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کا قتل مباح (جائز) ٹھہرا لیا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی شوکت توڑدی اور ان کے شہروں کو ویران کردیا اور تشکر مسلمین کو ان پر فتح دی ۱۲۳۳ھ میں۔ احناف کے مسلمہ امام و فقیہ کے غیر مبہم واضح ارشاد سے ثابت ہوا کہ وہابی محمد بن عبدالوہاب نجدی کو ماننے والے متبعین کو کہتے ہیں۔ انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کو قتل کیا اور مسلمانوں کو مشرک قرار دیا اور حرمین طیبین پر چڑھائی کی۔
اب آیئے اور دیکھئے۔ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین کو اچھا اور عامل بالحدیث کہنے والا کون ہے؟ اور اس کی قصیدہ خوانی کرنے والا کون ہے؟ مدرسہ دیوبند کے بانی ثانی اور ان کے اپنے بقول ان کے خود ساختہ قطب عالم و غوث اعظم مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی دیوبندی صاف لکھتے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا اور اس کے مقتدی اچھے ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ جلد اول، ص 111، وجدید ایڈیشن فتاویٰ رشیدیہ)
اب خود وہابی ہوکر اہلسنت والجماعت کہلانے اور اپنا نیا نام اہلسنت والجماعت رکھنے والے خود بتائیں کہ بقول علامہ امام ابن عابدین شامی رحمتہ اﷲ علیہ اہلسنت اور علماء اہلسنت کو قتل کرنے والے مسلمانان اہلسنت کو مشرک قرار دینے والے حرمین شریفین پر چڑھائی کرنے والے کے عقائد کو اچھا کہنے والا اسے عامل بالحدیث کہنے والا۔ شرک و بدعت سے روکنے والا کہنے والا ان کے عقائد کو عمدہ کہنے والا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور گنگوہی کو ماننے والے کس طرح اہلسنت و الجماعت ہوسکتے ہیں؟ اور کون مان سکتا ہے؟
اور سنئے اور دیکھئے یہ ہے منہ بولتا ثبوت
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے حکیم الامت مولوی اشرفعلی صاحب تھانوی ڈنکے کی چوٹ پر اپنے وہابی ہونے کا خندہ پیشانی سے اقرار و اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بھائی یہاں (ہماری مسجد و مدرسہ میں) وہابی رہتے ہیں، یہاں (ہمارے پاس) فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو‘‘ (اشرف السوانح جلد اول، ص 45، چشتی)
ایک اور جگہ یہی تھانوی صاحب فانی فی الوہابیت سینہ تان کر کہتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں ’’اگر میرے پاس دس ہزا روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں‘‘ (الافاضات الیومیہ ملفوظات تھانویہ جلد 5ص 67، و جلد 2، ص 221)
لوگوں کوپیسے دے کر اپنے ہم عقیدہ وہابی بنانے کی کتنی تڑپ اور کتنی فکرو آرزو ہے تو پھر یہ حضرات اور ان کے عقیدت مند وہم عقیدہ اہلسنت والجماعت کیسے ہوسکتے ہیں؟
تھانوی صاحب کا مزید فراخدلانہ اقرار
کہتے ہیں ’’ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اہل نجد (محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین) اہل نجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا رائے یہ ہے کہ وہ نجدی ہیں، وجدی نہیں، صرف یہی ایک کسر ہے… فرمایا کہ ابن سعود اپنی ذات سے بہت غنیمت ہے… یہ شکایت کرنے والے ہی کون سے پاک صاف ہیں یہ بھی وہاں جاکر گڑبڑ کرتے ہیں۔ وہ ان کی حرکات کو تشدد سے روکتے ہیں‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، جلد اول، ص 279 ، چشتی)
تھانوی صاحب نے جھٹ سے یہ تو کہہ دیا کہ بہت غنیمت ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ، ام المومنین حضرت زینب، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم و دیگر ازواج مطہرات کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں۔ سیدنا امیر المومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین سیدنا امام حسن مجتبیٰ سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابوذر، سیدنا عباس، سیدنا قتادہ سیدنا عثمان ابن مظعون، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا سعد ابن وقاص، شہزادہ رسول اکرم، سیدنا ابراہیم سیدنا طیب مطاہر، سیدنا قاسم رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم ،جیسے صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں؟
بنت رسول حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، بنت رسول سیدہ حضرت ام کلثوم بنت رسول سیدہ حضرت رقیہ بنت رسول حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہن کے مزارات مقدسہ و دیگر صحابہ کرام واہل بیت اطہار کے مزارات مقدسہ کو کس جرم میں توڑا گیا، کیوں شہید کیاگیا، کیا یہ مزارات مقدسہ مشرکین مکہ و مدینہ ابوجہل، ابولہب وغیرہ کفار بناکر گئے تھے۔ تھانوی وہابی صاحب جو بہت غنیمت ہونے کی ڈگری اور سند دے رہے ہیں، کیا یہ کھلی وہابیت نہیں اور پھر وہابی ہوکر اہلسنت و الجماعت کہلانا اور یہ نام رکھنا کہاں تک مناسب اور مبنی برحقیقت ہے۔ جلیل القدر صحابہ کرام عظیم المرتبت اہل بیت اطہار رضوان اﷲ تعالیٰ عنہم کے مزارات کی پامالی و بے حرمتی وانہدام کی مفصل جامع رپورٹ مولانا محمد علی جوہر مولوی سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد، ظفر علی خاں، مولانا محمد عرفان، سید خورشید حسن، مسٹر شعیب قریشی، عینی مشاہدوں پر مشتمل رپورٹ خلافت کمیٹی صفحہ 30-23، صفحات 879,88,85,80 پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مقالات مولانا محمد علی جوہر میں بھی واضح شواہد ملیں گے۔
وہابی کے معنی پر تھانوی صاحب جھوم گئے
تھانوی صاحب نے اپنے ملفوظ 638 کے تحت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی فرمایا کہ بدعتی کے معنی ہیں۔ باادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں۔ بے ادب با ایمان…
(الافاضات الیومیہ جلد 2، ص 326)
یہاں بھی وہابی سے حسن عقیدت و محبت ظاہر ہے مگر تھانوی صاحب نے مولوی فیض الحسن صاحب کے من گھڑت خلاف واقع اور خلاف تحقیق معنی اس لئے ظرافت کے معنی و مفہوم میں قبول کرلیا۔
مولوی منظور سنبھلی بڑے سخت وہابی
بخدا ہم بحلف شرعی کہتے ہیں واﷲ العظیم یہ ہمارا الزام نہیں، جناب نانوتوی صاحب گنگوہی صاحب، انبیٹھوی صاحب، تھانوی صاحب کی تنقیص آمیز قابل اعتراض خلاف شرع عبارات کی نوع بنوع تاویلیں کرکے تقویۃ الایمان، صراط مستقیم، تحذیر الناس، براہین قاطعہ فتویٰ گنگوہی، حفظ الایمان کی عبارات نت نئی تاویلات زلفیں سنوارنے والے اکابرین دیوبند مسلمہ و معتمد ترجمان و مناظر مولوی منظور سنبھلی بھی صمیم قلب سے صاف صاف اقرار کرتے ہیں ’’ہم خود اپنے بارے میں بھی بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں‘‘ (بعینہ و وبلفظ سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 192)
سنبھلی صاحب کے اس فراخدلانہ اقرار و اعتراف کے بعد نہلے پر دھلا مارتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں جواباً دیوبندی شیخ الحدیث مولوی ذکریا صاحب کہتے ہیں ’’مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا بڑا وہابی ہوں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی، ص 193 بالفظہ، چشتی)
مذکورہ بالا دلائل و حقائق اور روشن شواہد اور ان کے اپنے مسلمہ معتمد اکابر کی شہادتوں کے بعد کہ یہ وہابی ہیں، بڑے مضبوط وہابی ہیں پھر ہم کس طرح تسلیم کرلیں کہ یہ اہل سنت و جماعت ہیں اور کوئی بھی حقیقت پسند ذی فہم و شعور کس طرح ان کو اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟ ہم اپنی قبر و آخرت و میزان کو سامنے رکھ کر دیانتداری سے عرض کرتے ہیں یہ ہمارا الزام برائے الزام نہیں، ان کی کتابوں سے ان کے اکابر کے اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی عدالت اور کورٹ میں طلب کرے۔ ہم وہابی بھی ثابت کرسکتے ہیں پھر زورا زوری اہلسنت کہلانا خلاف واقع اور حقیقت کے برعکس ہے۔
یاد رہے… کہ دیوبندی وہابی مناظر مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان لکھنؤ نے محمد بن عبدالوہاب نجدی بانی وہابیت کے فضائل کمالات پرایک کتاب بنام ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماء حق‘‘ بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے لکھی ہے جس میں وہابیت نجدیت پر جانثاری کا حق ادا کردیا اور اپنے اصلی اندرونی وہابیانہ رنگ روپ میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب بھی ان کی وہابیت میں کوئی شک کرسکتا ہے؟
اور دیکھئے… ہمارا اپنا کوئی الزام نہیں ان کی اپنی کتابوں کے بفلظہ و بعینہ حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب سے ان حضرات کے بلند حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب ان حضرات کے بلند پایہ مصنف وبزعم خود محقق مولوی مسعود عالم ندوی وہابی جوکہ تھانوی وہابی حکیم الامت کے معتمد خلیفہ ونیاز مند مولوی سلیمان ندوی وہابی کے غلام و دریوزہ گر ہیں، نے بنام ’’محمد بن عبدالوہاب، ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ بڑی دھونس داری کے ساتھ ارقام فرمائی ہے جس کی تدوین میں اپنی اور اپنے رفقاء و معاونین کی تمام ترتوانائیاں جھونک دیں اور جان کی بازی لگادی۔ اس کتاب کو وہابی المکتبہ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور نے شائع کیاہے جو ان کے ہم عقیدہ و ہم مسلک ہونے کی دلیل اور سند ہے
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کا انتساب مشہور وہابی دیوبندی مولوی سلیمان ندوی کے نام کیا ہے جس کو مصنف مسعود عالم نجدی ندوی نے اپنا استاد، مربی اور مخدوم تسلیم کیا ہے۔ جو دیوبندی، نجدی، ندوی مسلکی ہم آہنگی اور وہابی اتحاد و یکجہتی کی ناقابل تردید دلیل ہے۔
اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ نجدی وہابی، غیر مقلد وہابی، دیوبندی وہابی ندوی وہابی ایک ہی چیز کے چار نام ہیں۔ بہرحال وہابیت قدر مشرک ہے وہابی ہونا سب کے لئے سعادت ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مولف کتاب ’’محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ نے اس کتاب کی تالیف میں متعدد وغیر مقلدین وہابیہ کو بھی شامل رکھا اور اس باب میں مددومعاونت کی وہ یہ ہیں۔ ڈاکٹر عظیم الدین پٹنہ، پروفیسر حسن عسکری، مولوی عبدالرحمن کاشغری ندوی کلکتہ، مولوی دائود غزنوی غیر مقلد وہابی لاہور، شیخ عنایت اﷲ، ڈاکٹر حمید اﷲ حیدرآباد، شرف الدین بمبئی، مولوی عبدالمجید حریری بنارس، پروفیسر محمد اکبر ندوی کلکتہ، حافظ یوسف حسن بہار شریف، نجدی وہابی عالم شیخ محمد عمران بن محمد بن عمران ساکن نجد ریاض سے خصوصی مدد لی گئی ان مستند و معتبر حوالہ جات نے ثابت کردیا کہ دیوبندی، نجدی، ندوی سب وہابی ہیں تو پھر وہابیوں کو اہلسنت و الجماعت نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کم از کم اپنے مذہب و مسلک سے تو دغا اور بے وفائی نہ کریں۔
ہم اس حقیقت کی نقاب کشائی بھی کردیں کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی اور مولوی اسماعیل دہلوی میں مکمل اعتقادی و مسلکی ہم آہنگی تھی، محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید اور اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان لے کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی شخص منصف مزاج اس حقیقت واقعی کو جان سکتا ہے کہ عربی اور اردو میں دونوں کتب کے مندرجات ایک ہی ہیں۔ دونوں میں وہابیت کی روح کافرما ہے۔ مختلف النوع چکر چلانے لفاظی و مغالطہ آمیزی کے جال بچھانے کے باوجود مولوی مسعود عالم ندوی کو یہ تسلیم کرنا پڑا اور اس کے سوا چارہ ہی نہیں، خود لکھتا ہے ’’ہندوستان کی (اسماعیلی) تحریک وہابیت یعنی حضرت سید صاحب (واسماعیل دہلوی) کی تحریک تجدید و امامت نجد کی وہابی تحریک ہی کی ایک شاخ ہے، اس میں شک نہیں دونوں تحریکوں کا ماخذ ایک بامقصد ایک اور دونوں کو چلانے والے کتاب و سنت کے علمبردار یکساں سرگرم مجاہد تھے (کتاب محمد بن عبدالوہاب ص 8-7)
اسی کتاب کے صفحہ 77 پر محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی کی کتاب التوحید، مولوی اسماعیل دہلوی وہابی کی کتاب تقویۃ الایمان کی وکالت ہے۔ اور نجدی و دہلوی، کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان کی اعتقادی موافقت کا جگہ جگہ تذکرہ کرکے دونوں کی یکسانیت ثابت کی گئی ہے۔
مولوی رشید احمد گنگوہی تقویۃ الایمان کمال درجہ حسن عقیدت و موافقت کے طور پر رقم طراز ہیں۔ کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ اور سچی کتاب ہے موجب قوت و اصلاح ایمان کی ہے… بندہ کے نزدیک سب مسائل اس کے صحیح ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ص 356، و 357)
اندریں حالات ان اہلسنت کا لیبل لگانے والوں کے مسلمہ اکابر جب وہابیت کو اپنا رہے ہیں، وہابیوں کو کون اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟
ابن عبدالوہاب نجدی وہابی کے سوانح نگاروں میں ایک نام شیخ احمد عبدالغفور عطار کا بھی ہے جس نے کمال درجہ جذبہ سرفروشی سے بنام ’’شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب‘‘ ارقام فرمائی جس کا ترجہ کسی مولوی محمد صادق خلیل نے اردو میں کیا ہے۔ اس میں واضح طور پر غیر مبہم انداز میں لکھا ہے جس طرح نجد و حجاز میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا ظہور ہوا۔ بعینیہ اسی طرح ہندوستان میں حضرت الامام شاہ محمد اسماعیل منظر عام پر آئے‘‘ (شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ص 6)
’’نجد کے شیخ (محمد بن عبدالوہاب) نے چونکہ عبادتِ قبور کے خلاف جہاد کرکے شرکیہ مقامات (مزارات وازواج مطہرات کے مزارات طیبہ گرادیئے اورشہید کردیئے) منہدم کردیئے تھے۔ (اسی طرح) … شاہ (اسماعیل) صاحب نے دہلی میں فرمایا تھا کہ اس مہم (بالاکوٹ) سے فارغ ہوکر جائوں تو خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ بھی گرائوں گا… (ص 9) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ … انہوں نے (سید احمد اور اسماعیل دہلوی) نے قیام حجاز کے دوران شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کا مطالعہ بھی کیا… اور وہابی علماء کارکنوں سے ملاقات کے امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا (کتاب محمد بن عبدالوہاب تالیف احمد عبدالغفور عطار)
الحمدﷲ ہم نے بفضلہ تعالیٰ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی کی وہابیت میں اشتراک و ہم آہنگی کو ان کے اپنے اکابر کی مستند تصانیف سے ثابت کردیا۔ اب لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ وہابی ہوکر اہلسنت کا لیبل کیوں اختیار کررہے ہیں؟ اب چند سال پہلے اہلسنت کا لیبل استعمال کرنے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ پہلے سے ابتداء سے اہلسنت نہیں تھے۔
علاوہ ازیں ریکارڈ کنگھالا جائے تو پتہ چلے گا کہ مشہور دیوبندی وہابی شیخ التفسیر مولوی احمد علی صاحب لاہوری نے اپنی بیٹی کی شادی بھی غیر مقلد وہابی مولوی سے کی تھی اور مولوی عبدالمجید خادم سوہدروی (تلمیذ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی وہابی کا تلمیذ مولوی احمد علی لاہوری دیوبندی کا داماد تھا (کتاب کرامات اہلحدیث ص 2)
اور یہ بھی ثابت ہے کہ مولوی احمد علی صاحب لاہوری دیوبندی وہابی اپنے وہابی بھائی مولوی دائود غزنوی کی اقتداء میں نماز عیدین ادا کرتے تھے (ہفت روزہ خدام الدین لاہور)
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ان کے اپنے اکابر کے اعترافات کہاں تک پیش کئے جائیں لکھتے ہیں۔ ’’میں نے شام سے لے کر ہند تک اس دیوبند (دیوبندی وہابی مولوی انور کاشمیری) کی شان کا کوئی محدث اور عالم نہیں پایا اگر قسم کھائوں کہ یہ (مولوی انور کاشمیری) امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی بڑے عالم ہیں تو میں اپنے دعویٰ میں کاذب نہ ہوں گا‘‘ (خدام الدین لاہور 18 دسمبر 1964ئ)
کیا کوئی حقیقی واقعی اصلی اہلسنت ایسا دعویٰ کرسکتا ہے؟
مخالفین نے جیسا کہ ہمارے تعلق سے پروپیگنڈہ استعمال کیا ہمیں بریلوی لفظ سے متعارف کروا کر خد کو اہلسنت و جماعت کی فہرست سے شمار کروانا چاہا
اب لفظ بریلوی کے تعلق سے بھی حقیقت آپ کے سامنے پیش کر دوں ملاحظہ فرمائیں:
ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی اہل حدیث لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے، مگر دیوبندی مقلدین(اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی''کہتے ہیں''۔(ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، مطبوعہ سبحانی اکیڈمی لاہور، ص٣٧٦)
جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، ص٧)
مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور، ص١٠۔١١)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے''(احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، ص٧)
اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو۔
امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، ص٨٥، ٨٦، چشتی)
خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔
(سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، ص٢٢)
مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، ص٧٠)
اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔
(ثناء اﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا(پنجاب)، ص٤٠)
یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔
(انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص، ٤٨ ، چشتی)
پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩)
تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اہلسنت والجماعت ہیں۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضورﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں، حضورﷺ کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں، حضورﷺ کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، حضورﷺ کی امت کے اولیااللہ سے عقیدت رکھتے ہیں، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔(ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)
ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ؛ "امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔(آئینہ رضویات، ص 300)
صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا۔ لہذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے۔(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69)
اس بات پر تو سبھی مکتبہ فکر کا اتفاق ہے کہ سواد اعظم اہل سنت و جماعت ہی حق ہے اور یہی "ما انا علیہ واصحابی" کے مصداق ہے تبھی تو آج فاسد عقائد رکھنے والے فرقہ کے لوگ بھی بڑی شد و مد سے اس اصطلاح کا استعمال کر کے سادہ لوح مسلمانوں سے اپنی حقیقت چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں،
لیکن الحمدللہ علمائے اہلسنت و جماعت ان مکاروں، دھوکہ بازیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں،
اہلسنت و جماعت ان تمام افراد کو کہا جاتا ھے جو رسول کریم صلی الله علیہ و سلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کے طریقے پر کار بند ھیں ۔ وجہ تسمیہ نام سے ظاہر ہے، سنت پر چلنے والے اور جماعت کہنے کی وجہ یہ کہ وە لوگ حق پر جمع ہوئے اور تفرقات میں نہیں پڑے ۔ مصلحین امت نے ھر دَور میں ملت اسلامیہ کو افتراق سے بچانے کی کوشش کی ہے، اسی کوشش کو مسلک حق اہل سنت و جماعت کہا گیا، عملی طور پر اصحاب نبوی ، اہل بیت نبوت ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثين ،ائمہ مجتہدین ، اولیائے کاملین سب اسی پر کار بند رہے۔
جو مسلمان اعتقادًا ما تریدی یا اشعری اور فقہی طور پر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، مقلد ہے اور کسی صحیح سلسلہٴ طریقت ،قادِری ، چشتی ، نقش بندی ، سہروردی ، شاذلی ، رفاعی ( وغیرە ) سے وابستہ ہے، وە اہل سنت وجماعت ( ایک لفظ میں " سنی" ) ہے ، (وە صحیح عقیدے والے سنی جو مقلد نہیں یا سلسلہٴ طریقت سے وابستہ نہیں ، وە بھی سواد اعظم میں شامل ھیں ۔)ابتدا ھی سے ھر عہد میں اہل سنت و جماعت سواد اعظم بڑی تعداد میں رہے ھیں مگر پیمانہ کثرت و قلت نہیں بلکہ اتباع حق ہے ۔
اہل سنت و جماعت کا لقب یا اصطلاح قرون ثلاثہ کے بعد کا من گھڑت نہیں ہے ، بلکہ یہ جملہ فرقِ مبتدعہ سے قبل رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ظاھری عہد مبارک سے صحیح العقیدە اہل حق مسلمانوں کے لیے استعمال ھوتا آ رہا ہے ۔چناں چہ حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما کی روایت موجود ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجنا اہل سنت ھونے کی علامت ہے۔ ( الترغیب : 963، القول البدیع 52، فضائل اعمال688، چشتی)
: عبد الله بن عمرو سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔ تحقیق بنی اسرائیل 72 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جاے گی، ملت واحدە کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کی ، یا رسول الله صلی الله علیک وسلم، وە ملت واحدە کون ھوں گے؟ تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں ہوں اور میرے اصحاب ۔ ( ترمذی : 2461 ، ابن ماجہ: 3992 ، ابو داود:4597، مشکوۃ : 171)
امام ملا علی قاری فرماتے ھیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وە حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔
اور ابن عمر رضی الله عنہما سے روایات ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرمائے گا اور الله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پیروی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقاداً یا قولاً یا فعلاً ) الگ ہوا وە آگ میں الگ ہوا۔ اس کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اپنے اہل جنت اصحاب سے الگ ہوا وە آگ میں ڈالا جاے گا۔(ترمذی:2167،کنز العمال:1029،1030،مشکوۃ:173،174)
ابن عباس رضی ا لله عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : من فارق الجماعة شبرا فمات، إلا مات ميتة جاهلية ( بخاری : 7054) جو جماعت (اھل سنت ) سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، پھر اسی حال میں مرا تو وە جاہلیت کی موت مرا۔
مخالفينِِ اہلسنت کے علامہ ابن تیمیہ نے " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القرآن ) کی تفسیر میں لکھا ہے : قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔ ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 ) اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ھیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) - ( مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ 141/3 ، چشتی)
( تفسیر ابن جریر میں آیت قرآنی " واعتصموا بحبل الله جمیعا " کے تحت حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی الله عنە کی روایت سے لکھا " قال الجماعۃ " اور دوسری سند سے ابن مسعود رضی الله عنہ ھی سے اسی آیت کے تحت لکھا " قال حبل الله الجماعۃ" ابن جریر لکھتے ھیں ( ولا تفرقوا عن دین الله ) علیکم بالطاعۃ والجماعۃ اھل السنۃ والجماعۃ ۔) اور تفسیر ابن کثیر میں ھے( یوم تبیض وجوە وتسود وجوە ) یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1)
اور ابن ابی حاتم اور ابو نصر نے ابانہ میں اور خطیب نے اپنی تاریخ میں اور اللال کائی نے السنۃ میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت فرمائی اس آیت " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە " (آل عمران:106 ) کے بارے میں ، فرمایا کچھ چہرے سفید ھوں گے اور کچھ چہرے سیاە ، ابن عباس نے فرمایا اھل سنت و جماعت کے چہرے سفید اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے اور دیلمی نے ابن عمر سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت کی یونہی تفسیر فرمائی اور ابو نصر سجزى نے أبانه ميں ابو سعيد خدري سے روايت كى كه رسول كريم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمايا اهل سنت كےچہرے روشن ھوں گے اور اھل باطل کے چہرے سیاە ھوں گے ۔( الدر المنثور :63/2،)(دیلمی مسند الفردوس:8986، کنز العمال: 2637، تاریخ بغداد:3908، تفسیرمظھری116/1،السنۃ :74)
فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ہیں ۔ مومن کے لیے لازم ہے سنت اور جماعت کی اتباع کرے پس سنت وە ہے جسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جاری فرمایا ھو اور جماعت وە ہے جس پر ائمہ اربعہ خلفاے راشدین مہدیین رضی الله عنہم اجمعین کے دَور خلافت میں اصحاب نبوی نے اتفاق کیا ۔( غنیۃ الطالبین 192)
محی الدین ، معین الدین ، شہاب الدین، بہاوٴ الدین ، قطب الدین ، فرید الدین ، نظام الدین ، علاوٴ الدین ، نصیر الدین ، حمید الدین ، جلال الدین ، مصلح الدین ، حسام الدین ، صلاح الدین ، نور الدین ، منیر الدین ، شریف الدین ، سدید الدین ، شرف الدین ، تاج الدین ، اوحد الدین ، امین الدین ، کریم الدین ، سیف الدین ، شمس الدین ، سبھی اہل سنت وجماعت ھوے ، ولایت بلا شبہ الله تعالی کا انعام ہے اور انعام دوستوں پیاروں ھی کو دیا جاتاھے۔ اہل سنت و جماعت کے اہل حق ھونے کی یہ واضح دلیل ھے ۔
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے : اگر یہ عناصر فی الواقع حقیقی اہلسنت بننا چاہتے ہیں تو صمیم قلب اور خلوص نیت سچی پکی دائمی توبہ اور رجوع کرکے خلوص نیت عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنائیں اور عملی و اعتقادی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کریں۔ اہلسنت کہلانا ہے تو حضور اقدس نبی اکرم رسول محترمﷺ کو نور مجسم اور بے مثل بشر، حضور اقدسﷺ کو خداداد علم غیب اور حاضر و ناظر اور مختار کل قاسم ہر نعمت بعطاء الٰہی ماننا پڑے گا۔ عید میلاد وصلوٰۃ و سلام قیام و سلام نعرۂ رسالت ختم فاتحہ ایصال ثواب الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ وغیرہم جملہ عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنانا اور اختیار کرنا پڑے گا اور شرک و بدعت کے جملہ فتاویٰ سے رجوع کرکے عملی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر نیت صاف ہو تو یہ سب کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ عوام وخواص ہر کس ناکس اسی کو اہلسنت مانتے اور جانتے ہیں جو سرکار دوعالمﷺ کو نور مجسم نورانی بشر مانتا ہو علم غیب حاضر و ناظر اختیارات نبوی کا قائل ہو، عید میلاد کا جلسہ و جلوس قیام و سلام کرتا ہو، صلوٰۃ و سلام ختم فاتحہ و غیرہم کا قائل و عامل ہو، ورنہ کوئی ہزار مرتبہ شب و روز شکر قندیوں کو شکر قند پیڑا کہتا رہے۔ امرودوں کو الہ آباد یا لاڑکانہ کا پیڑا کہتا رہے، جو اصلی حقیقی خالص کھوئے کے بادام پستہ، الائچی لگے ہوئے اور چاندی کے ورق لگے پیڑے ہوتے ہیں، وہ حلوائیوں کی دکان پر شیشوں کی الماریوں میں رکھے ہوتے ہیں۔ امرودوںکی طرح ٹوکریوں میں گلی گلی نہیں بکتے پھرتے اور اصلی خالص پیڑوں کی آوازیں نہیں لگانی پڑتیں جس طرح یہ عناصر ہمارے اعتقادی نام اہلسنت کا سرقہ کررہے ہیں۔ ہم اہل حق اہلسنت نے کسی بھی مکتب فکر کے علامتی نام کا سرقہ نہیں کیا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment