Tuesday 30 June 2020

شریعت کی پابندی بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز اورآج کل کے ڈھونگی پیر

0 comments
شریعت کی پابندی بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز اورآج کل کے ڈھونگی پیر
محترم قارئینِ کرام : شریعت کے بغیر معرفت نہیں ہو سکتی ۔ اور بغیر شریعت کے معرفت کا دعوی کرنے والا شخص جھوٹا ہوتا ہے ۔ کوئی بھی کامل ولی، صوفی بزرگ تارک نماز نہیں ہو سکتا۔ جو تارک نماز ہو یا شریعت پر عمل پیرا نہ ہو یا ارکان اسلام پر عمل پیرا نہ ہو تو وہ شخص ولی اور صوفی نہیں ہو سکتا۔ایسا شخص جھوٹا ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ اور اگر کوئی شریعت کی مخالفت کر رہا ہے تو وہ شیطان ہے۔ ولی اور صوفی اور بزرگ یعنی ولایت اور تصوف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں نہ اسلام کے بنیادی اراکین پر پابندی کی کوئی ضرورت نہیں، تو ایسے لوگ شیطان کے دوست ہیں۔ شیطان کی پیروی اور اتباع کرنے والے ہیں۔ اللہ کے ولی نہیں ہو سکتے ۔

اسلام کے اندر کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ وہ اس مقام پر فائز ہو کہ اس پر نماز پڑھنا فرض نہ ہو یا شریعت پر عمل کرنا فرض نہ ہو ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو نماز معاف نہیں ہوئی تو پھر کسی امتی پر نماز کیسے معاف ہو سکتی ہے۔ ایسا کہنے والے کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اسلام اور تصوف کو بدنام کرنے والے ہیں۔ شیطان کے دوست ہیں۔ اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے اوصاف اور خصوصیات قرآن وحدیث سے ثابت ہیں جو ہر وقت یاد الہی میں مصروف رہتے ہیں ۔

شریعت کے بغیر طریقت کی راہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دین میں ملحد و زندیق ہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کوئی جھوٹا مبلغ ، صوفی یا جعلی پیر جو لوگوں کو دعوت کے اس اصول پر بلاتا ہے وہ خود بھی جہنمی ہے اور دوسروں کو بھی جہنم میں لے جا رہا ہے ۔ ایسے آدمی کی صحبت سے بچنا چاہیے کیونکہ شریعت اور اسلام میں کسی شخص کے لئے کوئی استثنیٰ اور چھوٹ نہیں علمِ باطن وہی قابلِ قبول ہے جو شرعی علم ظاہر کا پابند ہو۔ ظاہر و باطن لازم و ملزوم ہیں مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے تو وہ گناہ ایک سیاہ نقطے کی طرح اس کے قلب پر لگ جاتا ہے اور اس کا جو نقش انسان کے دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے اور جو کيفیات اس کے اندر مرتب ہوتی ہیں اسے باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ باطن ظاہر سے نکلا ہے ۔ اسی طرح جب ہم نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ، حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں ۔ الغرض جو بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا اثر قلب و روح پر ہوتا ہے اور اس کا عمل ایک نور بن جاتا ہے ۔ جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے ۔ یہی اس عمل کا باطن ہے ، اس سے ظاہر اور باطن کے تعلق کا پتا چلتا ہے اگرظاہر ہی نہ ہو تو باطن کہاں سے آئے گا ۔

اس نکتے کو پھلوں کی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ مثلاً کیلے کے اوپر چھلکا ہوتا ہے وہ اس پھل کا ظاہر ہے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں تو ظاہر کو مانتا ہی نہیں اور چھلکے کے بغیر کیلے خریدوں گا تو اس کا پھل جلد ضائع اور خراب ہوجائے گا کیونکہ اب اس پھل پر ظاہر کی حفاظت کا خول نہیں رہا ۔ لہٰذا جس باطن پر ظاہر کی حفاظت نہ رہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شریعت کے ظاہری احکام و امور کی اتباع سے ہٹ گیا تو یوں سمجھئے کہ اس کا باطن بگاڑ کا شکار ہو گیا ۔ جب تک کوئی راہِ تصوف و طریقت میں ظاہر یعنی شریعت کا ظاہری اتباع پوری پابندی سے ملحوظ نہ رکھے اس وقت تک اس کا باطن پاک و صاف اور نورانی ہو ہی نہیں سکتا ۔

شریعت کی پابندی بزرگانِ دین کا طرۂ امتیاز اورآج کل کے ڈھونگی پیروں کو دیکھیئے

ﷲ رب العزت سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں ارشاد فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اور وہ لوگ جو ہمارا راستہ پانے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں ہم ضرور بہ ضرور انہیں ہدایت کا راستہ بتلاتے ہیں ۔ اور بیشک ﷲ سبحانہ وتعالیٰ اچھے لوگوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔ اس آیت پاک میں وضاحت کے ساتھ بتلایا جارہا ہے کہ جو بھی راہِ ہدایت کو پانے کی جستجو کرے گا تو ﷲ تعالیٰ اس کو وہ عطا فرمائے گا ۔ اب کون ہیں وہ جو راہِ ہدایت کو حاصل کرسکیں گے تو وہ ہیں اولیاء آﷲ یعنی ﷲ تعالیٰ کے دوست ۔

بخاری و مسلم شریف میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں کہ آﷲ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ندا (آواز) دیتا ہے اور فرماتا ہے ائے جبریل میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو ، جب حضرت جبریل علیہ السلام اس بندہ سے محبت کرتے ہیں تو آسمان والوں کو حضرت جبریل علیہ السلام ندا (آواز) دیتے اور فرماتے کہ ائے آسمان والو : ﷲ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، جب آسمان والے اس بندے سے محبت کرتے ہیں تو ﷲ تعالیٰ زمین پر رہنے والوں کے دلوں میں اس کے تعلق سے محبت پیدا کردیتا ہے ۔ (متفق علیہ،چشتی)

ولی کے معنی دوست کے آتے ہیں۔ ولی کی پہچان یہ بتلائی گئی ہے کہ ’’ﷲ اور رسول کی پوری اتباع (پیروی) کرنے سے انسان درجہ ولایت کو پہنچتاہے‘‘۔ بعض حضرات ولی کی تعریف میں یہ صراحت کئے ہیں ’’معرفت الٰہی سے آراستہ ہونا ، ہمیشہ عبادت گزار رہنا، لذتوں اور خواہشوں کو ترک کرنا وغیرہ جو پوری اتباع میں یہ سب امور داخل ہیں۔ (نصاب اہل خدمات شرعیہ) ولایت یہ کسبی ہے یعنی محنت سے حاصل کی جانے والی چیز ہے ۔ اور اس کا سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہیگا۔ جس شخص کا اوڑھنا بچھونا تقویٰ و طہارت کے مطابق جتنا ہوگا اتنا ہی وہ ولایت کے درجے پر پہنچے گا ۔

ولی سے بھی ایسی خلاف عادت (عجیب وغریب) باتیں ظاہر ہوسکتی ہیں جن میں عقل حیران ہو اس کو کرامت کہتے ہیں ۔

ولایت کے لئے کرامت کا ظاہر ہونا شرط نہیں، البتہ شریعت کا پابند ہونا شرط ہے۔

اولیاء ﷲ سے محبت رکھنا چاہئے اور ان کے افعال حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے ۔

انبیاء عظام علیہم السّلام اور اولیاء ﷲ کو وسیلہ ٹہرا کر بارگاہ الٰہی میں التجا کرنا اور دعا مانگنا جائزہے ۔

ہندوستان میں بے حساب بزرگانِ دین آئے ہیں اور تبلیغ دین کو اختیار کئے ہیں جس کے ذریعہ اکثر و بیشتر لوگ راہِ راست کو اختیار کئے ہیں اور وہ بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کئے ہیں ۔ جن میں سے ایک بہت ہی بڑے بزرگ جن کو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں رہنے والے سلطان الہند خواجہ خواجگان حضرت سیدنا معین الدین چشتی رحمۃ ﷲ علیہ کے نام سے جانتی ہے ۔ آپ کی شخصیت انتہائی برکت اور عظمت والی ہے ، ولایت کے جتنے اوصاف وکمالات بتلائے گئے ہیں وہ تمام کے تمام حضرت سلطان الہند کی حیات میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے قلوب کوروشن و منور کرتے ہوئے ان کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی اور انقلاب لائے ہیں ۔ یقیناً یہ ایک ایسا کارنامہ ہیں جس کو لوگ قیامت تک یاد رکھیں گے ۔

آپ کی حیات مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب آپ دہلی سے اجمیر تک کا سفر طے کئے تو اس دوران تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ مذہب اسلام میں داخل ہوگئے سبحان ﷲ اس کو کہتے ہیں کرامت کیونکہ ہماری عقل اس کو آسانی سے مان نہیں سکتی ہے ۔ اب یہ کونسا طریقہ تھا کہ لوگ جوق در جوق داخل اسلام ہوتے گئے ۔ بس اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ حضرت سلطان الہند نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایک ایک سنت کو اختیار کیا اور اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی بسر کی ۔ یعنی اخلاق ، کردار ، نرم گفتگو ، اور ہر وقت اچھے اعمال کو اختیار کرنا اور برے اعمال سے پرہیز کرنایہ سب چیزیں آپ کے اندر موجودتھیں ۔

حضرت سلطان الہند رحمۃ اللہ علیہ بزرگانِ دین کی مجلسوں کے میر مجلس ہوتے ہیں ۔ یعنی آپ کو یہ جو مقام ملاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ ہمیشہ ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت و فرمابرداری کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا ۔ اور تمام مریدین و معتقدین کو بھی یہ درس دیتے کہ وہ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزراتے رہیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی و سرفرازی حاصل ہوجائے ۔
سرفرازی اور چاہت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف زبان سے اس کا اظہار کریں بلکہ حقیقی چاہت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں ۔ اگر ایسا ہو تو چاہت کا حق ادا ہوگا ۔ ورنہ نہیں ہوگا ۔ ہماری عبادتیں ، ریاضتیں ، گفتگو ، اٹھنا ، بیٹھنا ، ملاقات کرنا ، غصہ کو پی جانا اور اطاعت خدا ورسول کے مطابق ہوجائے تو ہی کامیابی حاصل ہوگی ورنہ صرف کہنے سے نہ محبت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہمارے مال میں ، رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ یہی درس ہمیں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ ﷲ نے دیا ہے ۔

خلیلِ ملّت حضرت مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جب تک عقل سلامت ہے کوئی وَلی کیسے ہی بڑے مرتبے کا ہو اَحکامِ شریعت کی پابندی سے ہر گزآزاد نہیں ہو سکتا اور جو اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھے وہ ہر گز وَلی نہیں ہوسکتا ۔ جو ا س کے خلاف عقیدہ رکھے (شریعت سے آزاد شخص کو وَلی سمجھے) وہ گمراہ ہے ۔ہاں !اگرآدمی مجذوب ہو جائے اور اس کی عقل زائل ہو جائے تو اس سے شریعت کا قلم اٹھ جاتا ہے ، مگر یہ بھی خوب سمجھ لیجئے کہ جو ایسا ہو گا وہ شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کرے گا ۔ (ہمارااسلام اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ سوم صفحہ نمبر 118،چشتی)

پیروں کی جائیدادیں اور تعلقات

سینکڑوں ہزاروں مربع زمینیں ، وسیع و عریض کاروبار ، کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس، مہنگی ترین گاڑیاں، مہنگے ترین علاقوں میں محلات اور کوٹھیاں ، فائیو سٹارز ہوٹلوں کے کھانے اور رہائشیں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ، سیاست کی آنیاں جانیاں ، اعلیٰ سطح کے حکومتی وغیر حکومتی تعلقات ، امیر ترین خانوادوں اور خاندانوں میں رشتے، ایسی سہولیات و تعیشات کہ بڑے بڑے وزیر بھی دیکھ کر رشک سے مر جائیں۔ کسی بھی حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔

ہر آنے والی نئی حکومت خفیہ وعلانیۃ ان کی آشیر باد حاصل کرتی ہے ۔ انہیں مختلف عہدوں سے نوازا جاتا ہے ، وزارتیں پیش کی جاتی ہیں ، کانفرنسوں میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے ، غیر ملکی دورے کروائے جاتے ہیں، بیش بہا تحائف دیئے جاتے ہیں، بوقت ضرورت خزانوں کے منہ ان کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبان پر یہی وظیفہ ہوتا ہے، نرخ بالا کن ارزانی ہنوز، ان کا پیٹ یہی صدائیں دیتا ہے شکم فقیراں تغار خدا ہر چہ آید فنا درفنا۔ ان کا سمندر سے بھی زیادہ ڈونگا دل پکار پکار کر یہی کہتا ہے هل من مزيد ، هل من مزيد ۔

حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنا لیا ہے ، سالانہ مریدوں میں دورے کرتے ہیں اور طرح طرح سے رقمیں کھسوٹتے ہیں جن کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بہت سے پیر ایسے بھی ہیں جو اس کے لئے جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں یہ (سب) ناجائز ہے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 670 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور،چشتی)

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دھیان ہر وقت اس طرف لگا رہتا ہے کہ کوئی عقیدت مند بھی آئے گا اور نذرانہ پیش کرے گا۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں (کہ یہ بھیک ہے) ۔ (تلبیس ابلیس مترجم اردو صفحہ نمبر 331 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)

بہر حال پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے ۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی جھگی کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے بلکہ مزید آسامیاں پھنسانے کے لئے لنگر کے پیسے بھی وافر مقدار میں ملتے رہتے ہیں ۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا : نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا ۔

اگر آپ درس و تدریس سے وابستہ ہیں تو جن شاگردوں کو آپ دس دس سال پڑھائیں گے اگر وہ کسی کے مرید ہوگئے تو آپ سے حاصل کی ہوئی ساری تعلیم کے متعلق برملا کہتے پھریں گے کہ یہ سب کچھ میرے پیر کے جوتوں کا صدقہ ہے ۔ آپ کے پاس بھول کر بھی نہیں آئیں گے مگر پیر کے در پر آئے روز کی حاضریاں لگوائیں گے ۔ آپ کی دعا میں کوئی اثر نہ پائیں گے مگر پیر کی دعا ایک دم اکسیر ہو گی ۔ نذرانے پیش کریں گے تو پیر کی خدمت میں ، آپ سے الٹا کچھ کھا پی کے جائیں گے ۔ دعوت کریں گے تو آپ کو مفت بلانا بھی پسند نہیں کریں گے مگر پیر کو سپیشل پروٹوکول کے ساتھ بلائیں گے ۔ اگر آپ اور پیر صاحب کبھی اکٹھے ہو گئے تو پہلے پیر کے قدموں کو چومیں گے پھر آپ سے ہاتھ ملائیں گے ۔ جس پیر نے ساری عمر سوائے حاضریوں کے کچھ نہیں دیا اور ہزاروں روپے سمیٹتا رہا ہے اس کو بہترین نشست پہ بٹھائیں گے اور آپ جو کہ ساری عمر مغز ماری کرتے رہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزار کر ایک مقام پہ لاکھڑا کیا ان کو پیر صاحب کے قدموں میں بٹھائیں گے ۔ سٹیج پر پیر صاحب کے لئے خاص انتظام کیا جائے گا اور آپ کو صرف بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو بھی غنیمت ہے ۔ پیر کا کتا کہلانے میں بھی فخر محسوس کریں گے اور آپ کا شاگرد کہلانے میں بھی عار محسوس کریں گے ۔ یہ سب تو وفادار شاگرد کی پھرتیاں تھیں اور اگر خدانخواستہ آپ کا شاگرد غدار نکلا تو پھر ؟ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ پیری مریدی کا پیشہ اختیار کریں اپنوں غیروں سب کی آنکھوں کا تارا بن جائیں گے ۔ بڑے بڑے وزیر و مشیر اور دولت مند آپ کے قدموں میں بیٹھیں گے ۔

آج جو کچھ ان نام نہاد کاروباری پیروں اور نعت خوانوں کے پاس ہے سارا کا سارا سادہ لوح عوام اہل سنت کا ہے ۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذاتی استعمال میں ہے ، دین کو اس کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہے ۔ جو کچھ انہیں دیا گیا تھا وہ عقائدِ صحیحہ کے فروغ ، دین کی سربلندی اور علم و عمل کی ترقی کی نیت سے دیا گیا تھا مگر اب جبکہ یہ آشکارا ہو چکا ہے کہ یہ لوگ دین کی خدمت کی بجائے شکم پروری کا کام کر رہے ہیں تو پھر علماء حق کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ’’مقدس‘‘ کاروباریوں کا مکمل احتساب کریں ۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کی عزت ، عظمت ، مال و دولت سب کچھ علماء کرام کی وجہ سے ہے ۔ آج بھی اگر علماء کرام ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا شروع کر دیں تو ان کاروباریوں کے تمام پلازے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح دھڑام سے زمین پر آ گریں گے ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ مسلکِ اہل سنت وجماعت علم اور عمل کا نام ہے ان کاروباریوں کا تقدس برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے ۔ یہ تو وہی لوگ ہیں جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بدباطن اور بدعقیدہ لوگوں کو مسلک حق پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے ۔

بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے

محترم قارئینِ کرام : ان لوگوں کی منظم سازش کے نتیجے میں اب لوگوں کا علماء حق سے بھی اعتماد اٹھ چکا ہے اور ان کی سر عام تذلیل کی جا رہی ہے ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ، قادری ، نقشبندی ، سہروردی کو خود ایک جاہل پیر نے کہا کہ ’’جو مسئلہ ہم بتا دیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو پتھر پہ لکیر ہوتا ہے ، اب کوئی بڑے سے بڑا مفتی بھی صحیح مسئلہ بتائے تو مرید کو اس پر یقین نہیں آئے گا‘‘۔ دیگر مسالک میں صرف اور صرف علماء کو اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے لئے سب کچھ ان کا عالم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مدرسین معاشی حوالے سے پریشان نہیں ہوتے مگر ہمارے مسلک میں سب کچھ کاروباری پیر اور نعت خوان بنے بیٹھے ہیں اور مدرسین بے چارے انتہائی مفلوک الحال ہیں ۔

عقائدِ صحیحہ کا فروغ اور دینی اقدار کی بقاء کی جنگ انہیں علماء کو لڑنی پڑتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ علماء کرام اپنے مقام کو پہچانیں اور اس کا تحفظ کریں ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جب وقت تھوڑا ہو تو سنتیں اور نفلیں چھوڑ دینی پڑتی ہیں اور فقط فرض ادا کیئے جاتے ہیں ۔ علم دین کا حصول فرض ہے اور باقی محفلیں وغیرہ زیادہ سے زیادہ مستحبات میں شامل ہیں ۔ اس دور زوال میں اب مستحبات کا وقت نہیں رہا ۔ جتنی جلدی ہوسکے علم کا فرض ادا کیا جائے ، جگہ جگہ مدارس کھولے جائیں اور سابقہ صحیح دینی کام کرنے والے مدارس کو مضبوط کیا جائے ۔ ایک محفل کا فائدہ زیادہ سے زیادہ چند دنوں کا ہوتا ہے مگر ایک مدرسہ صدیوں تک اپنی روشنی پھیلاتا رہتا ہے ۔ اگر جگہ جگہ دینی مدارس قائم کر دیئے جائیں تو روشنی کا ایسا سیلاب آئے گا کہ اندھیروں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی ۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو دارین میں کامیابی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 29 June 2020

پیری مریدی اور آج کل کے جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے

0 comments
پیری مریدی اور آج کل کے جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے
محترم قارئینِ کرام : بیعت کے معنی بیچنے کے ہیں ۔ درحقیقت مرید اپنی مرضی کومرشد صالح کے ہاتھ بیچ دیتاہے اسی وجہ سے اس عمل کو بیعت کہتے ہیں ۔

مقصد بیعت : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ دل ایک ایسے پر کی مثل ہے جسے ہوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے ۔ (مشکوۃ کتاب الایمان بالقدر)

یعنی دل کو خواہشات کی ہوائیں یہاں سے وہاں پھیرتی رہتی ہیں تو ضروری ہے کہ کسی کا دست تو انا اس پر رکھ دیا جائے تا کہ وہ الٹنے پلٹنے سے محفوظ ہوجائے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوااور ارشاد فرمایا : لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ ۔ (سورۃ الفتح ،آیت۱۸)
ترجمہ : بے شک اللہ راضی ہوا مسلمانوں سے جب وہ تم سے بیعت کرتے ہیں درخت کے نیچے ۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کے قائم مقام کیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایاـ’’یہ اللہ کا دست قدرت ہے اوریہ عثمان کا ہاتھ ہے ،تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔ (صحیح بخاری،چشتی)

پس قرآن و حدیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہواوہاں ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لئے سامنے ہونا ضروری نہیں بلکہ غیر حاضری میں بھی بیعت کرنا جائز ہے ۔پیری مریدی کے اثبات میں یہ مستحکم اور قطعی اصل ہے اور وہ بنیاد ہے جسے مضبوط اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہا جاسکتا ہے ۔اس میں کسی منکر کو انکار کی گنجائش نہیں اور آج تک کسی مجتہد نے اس سے انکار نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

پیر کیسا ہونا چاہئے ؟

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ (1) سنی صحیح العقیدہ ہو۔ (2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔ (3) فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو ۔ (4) اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳،چشتی)
ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت کرے جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

اگر پیر نہ ہو تو ؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ ( عوارف المعارف)

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ : بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے ۔ (رسالۂ قشیریہ)

میر سیّد عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ : اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔ اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکہ اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔شیطان نے اگر چہ تیرے لیے جال لگا دیے ہیں لیکن تو اس کے دانہ اور پانی سے ذرہ برابر نہ لے اور بہت جلد کسی پیر کا ہاتھ پکڑلے ۔بغیر پیر کے مرجانامردار موت کے مانند ہے ۔اپنا وسیلہ آیہ وا بتغو ا کے ماتحت تلاش کر اور ماننے والوں سے پوچھ اور فسئلوا کو پڑھ ۔ ہمارا سرتاپا وجود گناہ ہے اور مرید ہوجانا ہر گناہ کے لیے پناہ گاہ ۔مریدی دین و ایمان کی چار دیواری ہے اور ہر مسلمان کو اپنے دین کی فکر رہتی ہے ۔ (سبع سنابل)

دیوبندیوں کے پیشوا علاّمہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مرید جہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ۔ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات،چشتی)

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کا امام کہتا ہے کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اسکی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے ۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے ۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بہت اعلی و افضل ہے ۔ غوث اپنے دور میں تمام اولیاء کاسردار ہوتا ہے ۔ لیکن حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اور سب غوثوں کے غوث ہیں اور سب اولیاء اللہ کے سردار ہیں اوران سب کی گردن پر ان کا قدم ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ،جلد ۲۶،ص۵۵۸،چشتی)

پیر یا شیطان ؟

یاد رکھئیے پیر وہی ہے جو شریعت کا تابعدارہو ۔ مصطفی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی بھی بیعت کے وقت کسی اجنبی عورت کا ہاتھ اپنے دستِ اقدس میں نہ لیا ۔ آج کل پیروں کو دیکھیں :
(1) عورتوں کے ماتھوں کو ، ہاتھوں کو چھوتے رہتے ہیں ۔

(2) ہاتھوں میں ایک سے زائد انگوٹھیاں پہنتے ہیں ۔

(3) اپنے بالوں کو شانوں سے بھی لمبا کرتے ہیں ۔

(4) نمازکی بالکل پرواہ نہیں کرتے ۔

ایسے پیرہرگز ہرگز قابل بیعت نہیں نہ ان کی ارادت جائز اور نہ ہی ان سے فیض کا حصول ،جو اَیسوں کے پاس اپنی عورتوں کو بھیجے وہ حدیث کے مطابق دیُّوث (بے غیرت) ہے ۔ ہم نے آپ کے سامنے پیری مریدی کی شرعی حیثیت رکھ دی اور فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑدیا ۔

جعلی پیروں کی تربیت کے عجیب کرشمے

ان پیروں کے ذریعے مریدوں کی جس طرح تربیت ہو رہی ہے وہ بھی انتہائی اذیت ناک ہے ، چند ایک تربیتی مناظر ملاحظہ ہوں :

پیر صاحب جونہی اپنے دولت خانہ کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہیں تو دروازے پر نظریں گاڑے مریدین پر گویا نزع کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ ہاؤ ہو کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، کوئی شوں شوں کی آواز نکالتا ہے کوئی تالیاں بجاتا ہے ، کوئی درود و سلام پڑھتا ہے، کوئی نعرے لگاتا ہے کوئی جوتے اتارتا ہے۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ کرتا ہے ۔

اب ملاقات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، پیر صاحب مریدوں کے جراثیم سے بچنے کے لئے ہاتھوں پہ دستانے چڑھا لیتے ہیں، کوئی مرید قدموں میں گرا ہوا ہے ، کسی نے گھٹنے تھام رکھے ہیں ، کوئی کندھوں کو بوسے دے رہا ہے ، کوئی پشت سے چمٹا ہوا ہے ، کوئی ہاتھ چومنے کے چکر میں ہے ۔

غرضیکہ ایک ہنگامہ بپا ہے اور دھکم پیل ہو رہی ہے ۔ (حالانکہ ایک مسلمان کو نماز کے لئے بھی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ کی اجازت نہیں ہے) جبکہ پیر صاحب نے بڑی شان بے نیازی سے ہاتھ آگے کیا ہوا ہے کسی کو ایک ہاتھ ملاتے ہیں تو کسی کے لئے سر ہلاتے ہیں ، کسی کو ایک انگلی تھماتے ہیں تو کسی کو دو انگلیاں ۔ پیر صاحب کی آمد و رفت پر بار بار کی اٹھک بیٹھک ہوتی ہے۔ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بات کی جاتی ہے جان کی امان طلب کی جاتی ہے ۔ کوئی حالت قیام میں ہے تو کوئی حالت رکوع میں ، کوئی سجدہ کر رہا ہے تو کوئی التحیات میں بیٹھا ہوا ہے ۔(چشتی)

اگر خدانخواستہ آپ نے پیر صاحب کے ہاتھ چومنے میں ذرا سی کوتاہی کر لی تو بس ! پیر صاحب کا غیظ و غضب دیکھنے والا ہوتا ہے ، آنکھیں شعلہ بار ہو جاتی ہیں اور جسم تھرتھرانے لگتا ہے ۔ آپ ایک نظر کی جنبش میں مریدین سے مرتدین کی صف میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے کسی مجبوری کے تحت نذرانہ کی ادائیگی میں کچھ پس و پیش کی ہے تو آپ ہمیشہ کے لئے پیر صاحب کی نظروں میں کھٹک جاتے ہیں ، توجہات و تصرفات سے محرومی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، زمین و آسمان کی تمام آفات و بلیات آپ کے گھر کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ ایسے مرید کے گھر میں قدم رکھنا گویا پیر صاحب کے لئے جہنم میں جانے کے برابر ہوتا ہے ۔

پیر صاحب کی اولاد کے لئے شاہانہ القاب اور مریدوں کے لئے انسانیت سے بھی گرے ہوئے القاب استعمال کئے جاتے ہیں ۔ کئی پیروں سے اتنا استغاثہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بھی اتنا نہیں کیا جاتا ۔ کئی پیر بڑے تجسس پھیلانے والے (Suspense creative) ہوتے ہیں ۔ ہمیشہ نظریں جھکا کے رکھتے ہیں۔ جاہل مرید اپنے پیر کی صرف ایک نظر کرم کے لئے تڑپتے پھڑکتے رہتے ہیں مگر پیر بھی ایسا پکا ہوتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔ اگر کوئی مرید اپنے پیر کے بغیر کعبۃ اللہ کا طواف کر لے تو پیر صاحب اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر قیاس کر کے اس پر ہمیشہ کے لئے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday 24 June 2020

علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا

0 comments
علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا

محترم قارئینِ کرام : شیعہ حضرات جنہیں معصوم مانتے ہیں انہیں میں سے پانچویں امام (امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کیا ہے ۔ اور خود ان کی اپنی کتاب میں موجود ہے ، ہاں ہاں ! ان کی اپنی کتاب ’’الکافی‘‘ میں ، جسے وہ سب سے صحیح کتاب سمجھتے ہیں اور جس کے بارے میں کہتے ہیں ، شیعہ کے لیے یہ کتاب کافی ہے ۔ اسی کتاب میں کلینی نے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : جعفر ابوعبد اللہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک اور روایت میں کہا ہے : علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا ، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔ (الشافی ترجمہ اُصولِ کافی مترجم اردو باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 71)

اسی کتاب میں ہے : حماد بن عیسیٰ سے ، حماد بن عیسیٰ نے قداح سے ابوعبد اللہ (امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ) کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے ، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے … اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے ، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے ۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں ، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الشافی ترجمہ اُصولِ کافی مترجم اردو کتاب فضل العلم ، باب ثواب العالم والمتعلم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 75 ، 76،چشتی)

شیعہ حضرات کا مستند عالم شیخ صدوق محمد بن علی بن حسین بابویہ قمی لکھتا ہے : امام جعفر صادق نے اپنے آبائے طاہرین علیہم السّلام سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء (علیہم السّلام) کے وارث ہیں ، بیشک انبیاء (علیہم السّلام) کی میراث نہ دینار تھی نہ درہم بلکہ اُن کی میراث علم تھی ۔ (ثواب الاعمال و عقاب الاعمال مترجم اردو صفحہ نمبر 145)

شیعہ مذھب کے اصول اربعہ کی اوّل کتاب اصول کافی میں موجود ہے : محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن خالد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين ۔

ترجمہ : امام جعفر صادق (رضی الله تعالی عنہ) نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں ۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا ، اس نے کافی حصہ پا لیا ۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو ۔ ہم اہل بیت کےخلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اورجابلوں کی تاویلوں کو ۔ (اصول الکافی الشیخ الکلینی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 17،چشتی)

یہی روایت شیعہ کے جیّد عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب “الخصاص” میں بھی بیان کی ہے : وعنه، عن محمد بن الحسن بن أحمد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن السندي بن محمد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذلك أن العلماء لم يورثوا درهما ” ولا دينارا ” وإنما ورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا “، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ۔

ترجمہ : امام جعفر صادق رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء بیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بنانے دربم یا دینار کا، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا، اس نے کافی حصہ پا لیا۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو۔ ہم اہل بیت کے خلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اور جابلوں کی تاویلوں کو ۔ (كتاب الاختصاص – الشيخ المفيد – الصفحة 16،چشتی)

شیعہ مذھب کی کتاب اصول الکافی میں موجود ہے جس میں نبی کریم سے واضح الفاظ میں مروی ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے :محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به (3) طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به (4) وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر ۔

ترجمہ : رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا دین کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح ستاروں پر چاند کی فضیلت اور چاندنی رات پر فضیلت ہے اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم و دینار ، بلکہ وہ وراثت میں چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا ، اس نے بڑا حصہ پا لیا ۔ (کتاب اصول الكافي – الشيخ الكليني – ج ۱ – الصفحة ۱۹،چشتی) ۔ اصول الکافی کی اس حدیث کو خمینی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ۔

شیعہ مذھب کی مشہور کتاب قرب الاسناد میں موجود ہے اور علامہ الحمیری القمی نے بحار الانوار کے حوالے سے بیان کی ہے : جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔

ترجمہ : حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عیوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے ۔ (قرب الاسناد الحمیری القمی ص 91,92،چشتی)(بحوالہ المجلسي في البحار 16: 219 / 8)

کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن من العقار شيئا) علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى ، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔ عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں ، ان کے چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث ج ۷ ص ۱۳۷،چشتی)

يونس بن عبد الرحمان عن محمد بن حمران عن زرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔

ترجمہ : حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا عورت زمین و جائیداد میں سے کسی کی وارث نہیں ۔ (کتاب تھذیب الاحکام الشیخ الطوسی ج 9 ص 254)

جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے : میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا ۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے ۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین‘‘ ص ۲۰۱، ۲۰۲ ترجمہ از فارسی)

ذرا سوچیئے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اگر مال ملکیت کی لالچ ہوتی اور فدک اپنی ذات کے لئے حاصل کرنا مقصود ہوتا تو اپنی دولت سیدہ کی خدمت میں کیوں پیش کرتے ؟ اتنی عاجزی سے سیدہ کی فضیلت کا اقرار کیوں کرتے ؟ کیا ظالم حکمراں اس طرح حقوق غصب کرتے ہیں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


Tuesday 23 June 2020

انبیاء کرام علیہم السّلام کی مالی میراث نہیں ہوتی شیعہ کتب کے حوالجات سے

0 comments
انبیاء کرام علیہم السّلام کی مالی میراث نہیں ہوتی شیعہ کتب کے حوالجات سے
محترم قارئینِ کرام : شیعہ مذھب کے اصول اربعہ کی اوّل کتاب اصول کافی میں موجود ہے : محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن خالد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق (رضی الله تعالی عنہ) نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں ۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا ، اس نے کافی حصہ پا لیا ۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو ۔ ہم اہل بیت کےخلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اورجابلوں کی تاویلوں کو ۔ (اصول الکافی الشیخ الکلینی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 17،چشتی)
یہی روایت شیعہ کے جیّد عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب “الخصاص” میں بھی بیان کی ہے : وعنه، عن محمد بن الحسن بن أحمد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن السندي بن محمد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذلك أن العلماء لم يورثوا درهما ” ولا دينارا ” وإنما ورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا “، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء بیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بنانے دربم یا دینار کا، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا، اس نے کافی حصہ پا لیا۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو۔ ہم اہل بیت کے خلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اور جابلوں کی تاویلوں کو ۔ (كتاب الاختصاص – الشيخ المفيد – الصفحة 16)

شیعہ مذھب کی کتاب اصول الکافی میں موجود ہے جس میں نبی کریم سے واضح الفاظ میں مروی ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے :محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به (3) طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به (4) وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر ۔
ترجمہ : رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا دین کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح ستاروں پر چاند کی فضیلت اور چاندنی رات پر فضیلت ہے اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم و دینار ، بلکہ وہ وراثت میں چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا ، اس نے بڑا حصہ پا لیا ۔ (کتاب اصول الكافي – الشيخ الكليني – ج ۱ – الصفحة ۱۹) ، اصول الکافی کی اس حدیث کو خمینی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ۔

شیعہ مذھب کی مشہور کتاب قرب الاسناد میں موجود ہے اور علامہ الحمیری القمی نے بحار الانوار کے حوالے سے بیان کی ہے : جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔
ترجمہ : حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عیوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے ۔ (قرب الاسناد الحمیری القمی ص 91,92،چشتی)(بحوالہ المجلسي في البحار 16: 219 / 8)

کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن من العقار شيئا) علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى ، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔ عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں ، ان کے چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث ج ۷ ص ۱۳۷،چشتی)

يونس بن عبد الرحمان عن محمد بن حمران عن زرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔
ترجمہ : حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا عورت زمین و جائیداد میں سے کسی کی وارث نہیں ۔ (کتاب تھذیب الاحکام الشیخ الطوسی ج 9 ص 254)

جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے : میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا ۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے ۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین‘‘ ص ۲۰۱، ۲۰۲ ترجمہ از فارسی)

ذرا سوچیئے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اگر مال ملکیت کی لالچ ہوتی اور فدک اپنی ذات کے لئے حاصل کرنا مقصود ہوتا تو اپنی دولت سیدہ کی خدمت میں کیوں پیش کرتے ؟ اتنی عاجزی سے سیدہ کی فضیلت کا اقرار کیوں کرتے ؟ کیا ظالم حکمراں اس طرح حقوق غصب کرتے ہیں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 22 June 2020

اہلبیت کون ہیں ؟ کیا ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اہلبیت کا حصّہ ہیں ؟

0 comments
اہلبیت کون ہیں ؟ کیا ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اہلبیت کا حصّہ ہیں ؟
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ ۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر 33)
ترجمہ : اے نبی کے گھر والو اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے ۔

یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھر والو اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں  کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو ۔ (تفسیر مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۳۳، ص۹۴۰)

یعنی اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے دامن ، سیرت ، کردار اور اعمال کے ظاہر وباطن کو ہر نجس اور ناپاکی سے اس طرح پاک فرما دے کہ تم طہارت اور پاکیزگی کا قابل تقلید نمونہ بن جاؤ اور قیامت تک طہارت اور پاکیزگی تم سے جنم لیتی رہے ۔

اِس آیت میں  اہلِ بیت سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہ عنہن سب سے پہلے مراد ہیں  کیونکہ آگے پیچھے سارا کلام ہی اُن کے متعلق ہورہا ہے ۔ بقیہ نُفوسِ قُدسیہ یعنی خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا، حضرت علی المرتضیٰ اور حسنین کریمَین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا اہلِ بیت میں  داخل ہونابھی دلائل سے ثابت ہے ۔

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب’’سوانح کربلا‘‘میں  یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے مِصداق کے بارے میں  مفسرین کے اَقوال اور اَحادیث نقل فرمائیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں :  دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت حضورکی ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن کے حق میں نازل ہے علاوہ اس کے کہ اس پر آیت: وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیۡ  بُیُوۡتِكُنَّ ۔ (ترجمہ : اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں ۔ (پ۲۲، الاحزاب:۳۴) دلالت کرتی ہے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ یہ دولت سرائے اقدس ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن ہی کا مسکن تھا ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نسب و قرابت کے وہ لوگ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ ایک جماعت نے اسی پر اعتماد کیا اور اسی کو ترجیح دی اور ابن کثیرنے بھی اسی کی تائید کی ہے ۔ ( الصواعق المحرقۃ، الباب الحادی عشر،الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم، ص۱۴۳،چشتی)

احادیث پر جب نظر کی جاتی ہے تو مفسرین کی دونوں جماعتوں کو ان سے تائید پہنچتی ہے۔ امام احمدنے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی۔ پنجتن سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی و حضرت فاطمہ و حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ہیں ۔ (صلوات اللہ تعالیٰ علی حبیبہ و علیہم وسلم)

خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں  داخل ہیں  (یعنی ازواجِ مُطَہَّرات) کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں  (اور) چونکہ اہلِ بیتِ نسب (نسبی تعلق والوں ) کا مر اد ہونا مخفی تھا ، اس لئے آں  سَرور ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اس فعل مبارک (جس میں  پنجتن پاک کو چادر میں  لے کر ان کے لئے دعا فرمائی) سے بیان فرمادیا کہ مراد اہلِ بیت سے عام ہیں  ۔ خواہ بیت ِمسکن کے اہل ہوں  جیسے کہ اَزواج یا بیت ِنسب کے اہل (جیسے کہ) بنی ہاشم و مُطّلب ۔ (سوانح کربلا باب اہل بیت نبوت ، چشتی)


اہل بیت کون ہیں ؟

بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے

(1) بیت نسب

(2) بیت مسکن یا بیت سکنٰی

(3) بیت ولادت

اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں

(1) اہل بیت نسب

(2) اہل بیت سکنٰی

(4) اہل بیت ولادت

اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً چچا، تایا، پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں ۔

اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی ۔

اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں ۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا ۔

جب انسان متعصب ہوجاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے ۔ وہ دو طبقے جو حب صحابہ اور حب اہل بیت رضی اللہ عنھم کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہوئے ان میں سے ایک طبقے نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال دیا ۔ گویا انہوں نے اہل بیت میں سے اہل بیت مسکن کو نکال دیا ۔ جب اہل بیت میں سے بیویاں ہی نکل جائیں تو پھر اولاد کا گھر سے کیا تعلق رہا ؟

بہر حال انہوں نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو نکال کر کہا کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ، حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں ۔

بے شک مذکورہ چاروں ہستیاں اہل بیت میں شامل ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چادر تطہیر میں چھپایا اور ان کے اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا انکار فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے مگر سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ایک طبقے نے کچھ اہل بیت مراد لئے اور باقی چھوڑ دیئے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر دوسرے طبقے نے کہا کہ اہل بیت سے مراد صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سیدہ دوعالم حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہل بیت میں شامل ہی نہیں ۔ دونوں طبقوں نے قرآن پاک کو گویا سکول کا رجسٹر داخل خارج سمجھ لیا ہے کہ جسے چاہا داخل کردیا اور جسے چاہا خارج کردیا ۔ من مانی تاویلیں کرکے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور نہ صرف امت بلکہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی متنازعہ بنا دیا ۔
محترم قارئین : جو گھر والا ہے وہ تو ہر گھر والے کو پیارا ہے اور وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے پھر جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے نسبی تعلق والا ہے ، آپ کے گھر میں ہے یا آپ کی نسل پاک میں سے ہے اور اہل ایمان ہے ۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل بیت اور ہر ایک کو پیارا ہونا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق ہونا ، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے ، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے ۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انصاف کر رہے ہیں ؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد

راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کے لئے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان مبارک ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے ۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے ۔ ہوشیار! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ۔ ’’ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا ۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا ۔ (مسند احمد بن حنبل 2 : 167، رقم 1376)

شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے : میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے ۔ ایک محبت کرنے والا ، حد سے بڑھانے والا ۔ وہ محبت اس کو غیر حق کی طرف لے جائے گی ۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا ، وہ بغض اس کو خلاف حق کی طرف لے جائے گا اور سب سے بہتر حال میرے معاملہ میں میانہ رو جماعت کا ہے پس اس میانہ رو جماعت کو اپنے لئے ضروری سمجھو اور (بڑی جماعت) سواد اعظم کے ساتھ وابستہ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے اور خبردار! اس جماعت سے الگ نہ ہونا کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوگا وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوگا جس طرح ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیئے کا شکار ہوتی ہے ۔ (ترجمہ و شرح نہج البلاغہ جلد اول، 383)

ان آیات کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ أمہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس میں شامل ہیں ۔ کسی عامی آدمی کو بھی ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ یہاں اہل بیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں شامل ہیں ۔

اس پورے رکوع کو آپ اس آیت سے پہلے پڑھ لیں اس کے بعد پڑھ لیں سب کا اتفاق ہے کہ اس سے مراد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں بلکہ یہی آیت اس کو شروع سے پڑھ لیں ۔ و قرن فی بیوتکن ۔ اس میں خطاب مؤنث کے صیغے کے ساتھ ہے ۔
اور پھر اس سے بعد والی آیت بھی واذکرن سے شروع ہورہی ہے جو خطاب جمع مؤنث کے لیے ہے ۔ جبکہ إنما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس أہل البیت و یطہرکم تطہیرا ۔ میں یہ نکتہ ہے ۔ واللہ أعلم ۔ تاکہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شمولیت کا بھی امکان باقی رہے ۔ یہی وجہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو حضرت علی و حضرت  فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور امامِ حسن و امامِ حسین رضی اللہ عنہما کو بطور خاص اہل بیت میں شامل کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ سیاق سباق تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے لیے ہے یہ چار ہستیاں اس میں کیسے شامل ہیں ۔

اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن چونکہ اس سے پہلے بنص قرآن اس میں شامل تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ یہ تو ایک قسم کا تحصیل حاصل تھا ۔ اور ویسے بھی معروف بات ہے کہ اہل بیت کے واقعے والی اس حدیث میں یہ تو ذکر ہے کہ چار ہستیاں اہل بیت میں سے ہیں لیکن باقیوں کی نفی کہیں بھی نہیں ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو کہا تھا کہ یہ چار میرے اہل بیت ہے لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ ان کے علاوہ اور کوئی اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے
محترم قارئین کرام : اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے ۔ اہل بیت سے مراد اہل بیتِ رسول علیہم السّلام  ہیں ۔

(1)  بنی ہاشم جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی حضرات عباس‘ علی‘ جعفر‘ عقیل اور حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد اہلبیت ہے جو اہل بیتِ نسب کہلاتے ہیں ۔

)2) قرآن میں آیت تطہیر (سورہ احزاب آیت نمبر 33) کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خوبصورت چادر مبارک اوڑھے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت بی بی فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی اُس خوبصورت چادر مبارک میں داخل فرمالیا اور بارگاہ رب العالمین میں دعا فرمائی یعنی رب العالمین ! یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوصین ہیں تُو اِن سے ناپاکی دور کردے اور انہیں خوب پاک و پاکیزہ بنا ۔ یہ دعاء سن کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی ’’و انا منھم‘‘ یعنی میں بھی ان میں سے ہوں تو ارشاد نبوی ہوا ’’انک علی خیر‘‘ یعنی بے شک تم بہتری پر ہو بلکہ دوسری روایت میں آپ نے ’’بلٰی‘‘ فرمایا یعنی کیوں نہیں ۔ اس طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ  و نیز تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیتِ سکونت ہیں ۔

(3) جب نجران کے عیسائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (سورہ العمران) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا : اللھم ھٰؤلآء اھل بیتی یعنی الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں ۔

تاجدار گولڑہ ولی کامل حضرت سیّدنا و مرشدنا پیر سیّد مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ : آیتہ تطہیر میں لفظ اہل بیت امہات المؤمنین علیہا الرضوان و آل عبا علیہم السلام دونوں کو شامل ہے سیاق آیتہ و احادیث کثیرہ اسی پر دال ہیں ۔ (مکتوبات طیّبات  صفحہ نمبر 150)

اس سے پتا چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن جو مومنین کی مائیں ہیں ، وہ بھی اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں ، اگرچہ اس پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، مگر یہ بات تفضیلی پیر و مولوی صاحبان چھپاتے ہیں ، لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے کتراتے ہیں ، کہ کہیں سُنّی عوام پوچھ ہی نہ لیں کہ جب یہ بھی اہل بیت ہیں ، تو پھر روافض کی جانب سے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن خصوصاً امّا عائشہ صدیقہ پاک سلام اللہ علیہا کی توہین و گستاخیوں پر تم گونگے کیوں بن جاتے ہو ؟

امام اللغۃ حسین بن محمد راغب اصفہانی اور محمد مرتضیٰ الزبیدی علیہما الرّحمہ فرماتے ہیں : اهل الرجل من يجمعه و اياهم نسب او دين او مايجري مجراهما من صناعة و بيت و بلد فاهل الرجل في الاصل من يجمعه و اياهم مسکن واحد ثم تجوز به فقيل اهل بيت الرجل لمن يجمعه اياهم نسب و تعورف في اسرة النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم مطلقا اذا قيل اهل البيت لقوله عزوجل : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ،(سورہ احزاب، 33: 33) وغير باهل الرجل عن امراته و اهل الاسلام الذين يجمعهم ولما کانت الشريعة حکمت برفع حکم النسب في کثير من الاحکام بين المسلم و الکافر قال تعالیٰ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هود آیت نمبر 46)
ترجمہ : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہل بیت کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآنِ مجید کی اس آیت میں ہے بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت ! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے  کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب انسانوں کے ماننے والے ہوں۔ چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے درمیان نسب کا رشتہ منقطع کر دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا : بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔ (المفردات فی غريب القرآن، 1: 29، بيروت، لبنان: دارالمعرفة،چشتی)(تاج العروس، 28: 41، دارالهداية)

قرآنِ مجید میں اہلِ بیت سے مراد ازواج اور اولاد ہے : قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ  ۔
ترجمہ : فرشتوں نے کہا : کیا تم ﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو ؟ اے گھر والو ! تم پر ﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ۔ (هُوْد، 11: 73)

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال ہوا ہے ۔

اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی روزجہ محترمہ کے لیے قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ۔
ترجمہ : جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے ۔ (طهٰ، 20: 10)

عزیز مصر کی بیوی کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
ترجمہ : وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب دیا جائے ۔ ( سورہ يُوْسُف، 12: 25)

حضرت ایوب علیہ السلام کے زوجہ اور بچوں کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ۔
ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیئے) ۔ (سورۃُ الْأَنْبِيَآء، 21: 84)

محترم قاسرئین : اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل بیت میں ازواج اور اولاد دونوں شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواجِ مطہرات اور آپ کی اولاد تو اہلِ بیت ہیں ہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کو بھی اپنی اہلِ بیت میں شامل فرمایا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے : سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ}، [آل عمران، 3: 61]، دَعَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِی.
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔‘‘(سورہ آل عمران، 3: 61) ، تو رسولنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ، پھر فرمایا:یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1871، رقم: 2404، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 185، رقم: 1608، مؤسسة قرطبة مصر)

عَنْْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَدَةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيرًا ۔ [سورۃُ الآحزاب، 33: 33]
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ اس چادر میں داخل ہوگئے، پھر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیت مبارکہ پڑھی: بس ﷲ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک ونقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1883، رقم: 2424،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 15۹، رقم: 4707، دار الکتب العلمية بيروت)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا.
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : ’’فرما دیجیے : میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمنے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن وحسین رضی اللہ عنہم )‘‘ ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)

معلوم ہوا اہلِ بیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ، سیدنا علی اور سیدنا حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ۔ ان کے علاوہ تمام سادات آلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آل قیامت تک موجود رہے گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)