Sunday 14 June 2020

درسِ قرآن موضوع آیت : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ

0 comments
درسِ قرآن موضوع آیت : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ وَجٰہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ۔ ﴿سورہ مائدہ آیت نمبر 35﴾ 
ترجمہ : اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔

اس آیت مبارکہ میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو ۔ اور اگر تقویٰ سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مُطْلَقاً ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے محبت ، صدقات کی ادائیگی ، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت ، دعا کی کثرت ، رشتہ داروں سے صِلہ رَحمی کرنا اور بکثرت ذِکْرُ اللہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہِ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو ۔  (تفسیر صاوی ، المائدۃ،  تحت الآیۃ : ۳۵، ۲/۴۹۷،چشتی)

اس سے پہلے متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی سرکشی اور عناد اور اللہ کی نافرمانی کرنے پر ان کی جسارت اور دیدہ دلیری کو بیان فرمایا تھا ‘ اور اللہ کی اطاعت اور عبادت کرنے سے ان کے بعد اور دوری کا ذکر فرمایا تھا۔ اللہ کے قرب کا وسیلہ اور ذریعہ اس کے خوف سے گناہوں کا ترک کرنا اور عبادات کا بجا لانا ہے ‘ یہود نے اس وسیلہ کو حاصل نہیں کیا تھا ۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تمہارا طریقہ یہود کے برعکس ہونا چاہیے ‘ تم اللہ کے خوف سے گناہوں کو ترک کرکے اور اس کی اطاعت اور عبادات کر کے اس کے قرب کا وسیلہ تلاش کرو ۔ 

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ذکر فرمایا تھا کہ یہود کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں اور اپنے باپ دادا کے اعمال پر فخر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا کہ تمہیں اپنے اکابر اور اسلاف پر فخر کرنے کے بجائے نیک اعمال میں کوشش کرنی چاہیے ‘ اور عبادات کے ذریعہ اس کے قرب اور نجات کے وسیلہ کو تلاش کرنا چاہیے ۔ 

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس سے متصل آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کا ذکر فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ اللہ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ‘ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ قبولیت توبہ کے لیے اس کی بارگارہ میں وسیلہ تلاش کرو ۔ 

وسیلہ بہ معنی ذریعہ تقرب

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : کسی چیز کی طرف رغبت سے پہنچنا وسیلہ ہے اور اللہ کی طرف وسیلہ کی حیققت یہ ہے کہ علم اور عبادت کے ساتھ اسکے راستہ کی رعایت کرنا ‘ اور شریعت پر عمل کرنا اور اللہ کا وسیلہ اللہ کا قرب ہے ۔ (المفردات ص ٥٢٤۔ ٥٢٣“ مطبوعہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

علامہ ابن محمد بن مکرم بن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : امام لغت علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے ‘ وہ وسیلہ ہے۔ (صحاح جوہری ‘ ج ٥ ص ١٨٤١‘ لسان العرب ‘ ج ١١ ص ٧٢٥۔ ٧٢٤‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٠٥ ھ) 

انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کے وسیلہ سے دعا کا جواز

امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٣٣ ھ آداب دعا میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی بارے میں انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے ۔ (حصن حصین معہ تحفہ الذاکرین ‘ ص ٣٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفیٰ البابی واولادہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ) 

علامہ تقی الدین احمد بن تیمیہ متوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں : ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق میں سوال کرتا ہوں یا فلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں تو اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو اور یہ دعا صحیح ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی اس سے شفاعت کرسکتا ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ‘ ج ١ ص ٢١١‘ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز،چشتی)

قاضی محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ لکھتے ہیں : یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق سے مراد یہ ہو ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے ‘ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا ۔ (تحفۃ الذاکرین ‘ ص ٦٩‘ مطبوعہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ) 

امام ابو حاتم محمد بن حبان رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٥٤ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا چھ (قسم کے) آدمیوں پر میں نے لعنت کی ہے ‘ اور ان پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا قبول کی جائے گی ۔ (الحدیث) (صحیح ابن حبان ‘ ج ١٣ رقم الحدیث : ٥٧٤٩‘ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے اور میرے علم میں اس کی کوئی علت نہیں ہے اور ذہبی نے اس کو برقرار رکھا ۔ المستدرک ‘ ج ١ ص ٣٦‘ ج ٢‘ ص ٥٢٥‘ ج ٤ ص ٩٠‘ الجامع الکبیر ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ١٢٨٨٥‘ ١٢٩٢١‘ المعجم الاوسط ‘ للطبرانی ج ٢‘ رقم الحدیث : ١٦٨٨۔ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور امام ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا۔ مجمع الزوائد ‘ ج ٧‘ ص ٢٠٥‘ المعجم الکبیر ‘ ج ١٧‘ ص ٤٣‘ مواردالظمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢) 

اس صحیح حدیث میں یہ تصریح ہے کہ ہر نبی مستجاب الدعوات ہے : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی وجاہت ‘ ان کی حرمت اور اس کے حق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو اپنی بارگاہ میں یہ عزت عطا فرمائی ہے کہ وہ ان کے سوال اور ان کی دعا کو مسترد نہیں فرماتا ‘ ہرچند کہ وہ اس پر قادر ہے کہ وہ ان کی دعا کو مسترد فرما دے ‘ لیکن ایسا کرنا ان کی دی ہوئی عزت اور وجاہت کے خلاف ہے۔ ان کا اللہ پر حق ہے ‘ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ جیسے اجیر کا آجر پر حق ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے ان کی دعا کو قبول کرنے کا جو وعدہ فرما لیا ہے ‘ اس وعدہ کی جہت سے ان کا حق ہے ‘ فی ذاتہ کوئی استحقاق نہیں ہے ‘ یا حق بمعنی وجاہت اور حرمت ہے استحقاق کے معنی میں ہے ۔ 

اس پر ایک دلیل مذکور الصدر حدیث ہے اور دوسری دلیل یہ حدیث ہے : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ جب بندہ فرائض ادا کرکے نوافل کو ہمیشہ پڑھتا ہے تو اللہ اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جب وہ اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ اس کے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے ‘ اس کی آنکھیں ہوجاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے ‘ اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر ہوجاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور فرماتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کروں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں ضرور اس کو اپنی پناہ میں لوں گا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٠٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ )(مختصر تاریخ دمشق ‘ ج ٤‘ ص ١٠٤)(مسند احمد بتحقیق ‘ احمد شاکر ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٠٧١،چشتی)(مسند ابویعلی ‘ ٧٠٨٧)(صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ رقم الحدیث : ٣٤٧)(مجمع الزوائد ‘ ج ١٠‘ ص ٢٦٩‘ المطالب العالیہ ‘ ج ١‘ ص ١٣٩)
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر ولی اور نبی سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کی دعا ضرور قبول فرمائے گا اور ان کی دعا رد نہیں فرمائے گا اور ان کا اللہ پر یہی حق ہے ‘ اور یہی ان کی اللہ کی بارگاہ میں وجاہت اور حرمت ہے ۔ اس لیے انبیاء علیہم السّلام اور اولیاء اللہ کے وسیلہ سے دعا کرنا ‘ یا ان سے دعا کرنے کی درخواست کرنا صحیح ہے اور اب ہم اس سلسلہ میں احادیث پیش کریں گے ۔ 

یاد رکھئے ! رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا ، ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، ان کے تَوَسُّل سے بارگاہِ ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ میں اپنی جائز حاجات کی تکمیل کے لئے اِلتجائیں کرنا نہ صرف جائز بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ رہا ہے ۔

صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عباس بن عبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے ’’اللہُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ ، ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتاتھا اور ا ب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے چچا جان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوو سیلہ بناتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ تو لوگ سیراب کیے جاتے تھے ۔ (بخاری، کتاب الاستسقائ، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، ۱/۳۴۶، الحدیث: ۱۰۱۰)

حضرت اوس بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مدینۂ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ا س کی شکایت کی ۔ آپ  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا : رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور کی طرف غور کرو ،اس کے اوپر (چھت میں ) ایک طاق آسمان کی طرف بنادو حتّٰی کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے ۔ لوگوں نے ایسا کیا تو ہم پر اتنی بارش برسی کہ چارہ اُگ گیا اور اونٹ موٹے ہوگئے حتّٰی کہ چربی سے گویا پھٹ پڑے، تو اس سال کا نام عَامُ الْفَتْق یعنی پھٹن کا سال رکھا گیا ۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ۔۔۔ الخ، ۱/۵۶، الحدیث : ۹۲)

بلکہ خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اپنے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی تعلیم ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دی ، چنانچہ حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے توان کو یہ دعا ارشاد فرمائی ’’اللہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اللہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، میرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما ۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲/۱۵۶، الحدیث: ۱۳۸۵،چشتی)

جو شخص اس حدیثِ پاک میں مذکور دعا پڑھنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس دعا میں ان الفاظ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کی جگہ ’’یَا نَبِیَّ اللہ ‘‘یا ’’ یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ پڑھے ۔

حدیث پاک میں مذکور لفظ’’یَا مُحَمد‘‘ سے متعلق ضروری وضاحت

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علماء تصریح فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔ اور(یہ بات)واقعی محل انصاف ہے ،جسے اس کا مالک ومولی ہو جائیں ، اُس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دیا ہے : ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾‘‘  ۔ (سورہ النساء: ۶۴)
ترجمہ : اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ، تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

کیا اللہ تعالیٰ اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضر ہوں اورتُو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قرآن کی آیت صاف فرما رہی ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۱ /۳۰۴-۳۰۵)

زیر تفسیر آیت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21 اکیسوویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ (مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں ) ‘‘کا مطالعہ فرمائیں ۔

اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے

یاد رہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اُس اِختیار کی بنا پر اُن بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے ، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے آکر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی مدد کی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ اَذِلَّۃٌۚ ۔ (سورہ اٰل عمران: ۱۲۳)
ترجمہ : اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے ۔

یہاں فرشتوں کی مدد کو اللہ تعالیٰ  کی مدد کہا گیا ، اِس کی وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اِختیار اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہے تو حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ہوئی ۔ یہی معاملہ انبیا ء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیائے عِظام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتاً وہ مدد اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے ، جیسے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے تخت لانے کا فرمایا اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا ۔ اس پر انہوں نے فرمایا : ’’ہٰذَا مِنۡ فَضْلِ رَبِّیۡ‘‘ ترجمہ : یہ میرے رب کے فضل سے ہے ۔ (سورہ نمل :۴۰)

اورتاجدار رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں مدد کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے ، ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں :

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا ۔  (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳/۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱)(الخصائص الکبری،  باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر ما تقدّم، ۲/۸۵،چشتی)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابہ کوسیراب کردیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴/۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۱۵/۵۳۶)

انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے چودہ سو (1400) یا اس سے بھی زائد اَفراد کو سیراب کر دیا ۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳/۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳)

لُعابِ د ہن سے بہت سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔ (الخصائص الکبری،  باب آیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔ الخ، ۲/۱۱۵-۱۱۸)

اور یہ تمام مددیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت سے تھیں لہٰذا سب اللہ تعالیٰ کی ہی مددیں ہیں ۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30 تیسویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے ’’اَ لْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَائِ (مصطفی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘ کا مطالعہ فرمائیے ۔

تبع تابعین رضی اللہ عنہم کے توسل سے فتح

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فََيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ .
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے : ہاں، تو انہیں (ان صحابہ کرام کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں، تو پھر انہیں (ان تابعین کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں! تو انہیں (تبع تابعین کے توسل سے) فتح دے دی جائے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1335، الرقم : 3449، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم : 2532، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 7، الرقم : 1056، وابن حبان في الصحيح، 11 / 86، الرقم : 4768.)(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ (مزید حصّہ دوم میں پڑھیں)

درسِ قرآن موضوع آیت : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس سے قبل آپ حصّہ اوّل پڑھ چکے ہونگے آیئے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :

اگر بزرگوں کی دعاؤں کا وسیلہ جائز ہے تو ان کی ذوات کا وسیلہ بھی درست ہے ، کیونکہ دعا تو رد بھی ہوسکتی ہے ، محبوبان خدا تو اس کے مقبول بندے ہیں اور ویسے بھی ذات اصل ہے اوردعا فرع ہے ۔ اگر فرع کا وسیلہ درست ہے تو اصل کا وسیلہ بھی درست ہے ۔

قرآن مجید میں نیک لوگوں سے وابستہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاایھالذین اٰمنوا اتقواللہ وکونوامع الصادقین ۔ (سورۃ التوبۃ،۱۱۹)
ترجمہ : ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔

اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کوبھی واضح کردیا گیا ہے ، کہ وسیلہ سے مراد اللہ والوں کی ذات سے تعلق قائم کرنا ہے ۔ اور انہیں اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ بنانا ہے ۔

نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کا خود حکم دیا تھا۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا : اچھے طریقہ سے وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ دعا کرے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قدتوجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضیٰ اللھم فشفعہ فیّ ۔
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور رحمت والے نبی محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یارسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ اسے پورا کردیا جائے ۔ اے اللہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔ (یہ حدیث صحیح ہے ، سنن ابن ماجہ صفحہ۱۰۰،مسند احمد جلد۴صفحہ ۱۳۸، المستدرک جلد۱ صفحہ ۳۱۳،۵۱۹،۵۲۶،عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی صفحہ ۲۰۲،دلائل النبوۃ للبیہقی جلد۶صفحہ۱۶۷،السنن الکبریٰ للنسائی جلد ۶ صفحہ ۱۶۹،الاذکار للنووی صفحہ۱۶۷،عمل الیوم واللیلۃ للنسائی صفحہ ۴۸۱ ، الترغیب والترہیب جلد۱صفحہ۴۷۳ ،صحیح ابن خزیمہ جلد۲صفحہ۲۲۵، ترمذی جلد۲صفحہ ۱۹۸،البدایہ والنھایہ جلد۱صفحہ۱۳۰۱مطبوعہ دار ابن حزم، الخصائص الکبریٰ جلد۲صفحہ ۲۰۲،الجامع الصغیر جلد۱صفحہ۴۹صحیح کہا،چشتی)

واضح رہے اس حدیث کو مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب وحید الزمان حیدرآبادی نے ھدیۃ المھدی صفحہ ۴۷ ، مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی  نے نزل الابرار صفحہ۳۰۴ اور مشہور غیر مقلد علامہ قاضی شوکانی نے تحفۃ الذکرین صفحہ ۱۳۷ پر نقل کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ حرانی نے فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۱صفحہ ۲۷۵ پر نقل کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وان کانت لک حاجۃ فافعل مثل ذلک ۔ ترجمہ : تجھے جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو اسی طرح کرنا ۔ اسی حدیث کو علامہ اشرفعلی تھانوی نے نشرالطیب صفحہ ۲۵۳ ۔ اور علامہ شبیر احمد دیوبندی نے یا حرف محبت اور باعث رحمت ہے صفحہ ۴۲ پر نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے لیئے عام ہے ۔

اور دور فاروقی میں قحط سالی کے وقت حضرت فاروق اعظم رضی اللّه عنہ عرض کرتے ہیں : للھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا افتسقینا و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔ (صحیح البخاری ابواب الا ستسقا ، باب سوال الناس الامام الاستسقا اذا قحطوا۔۱/۱۳۷۔کتاب المناقب، باب ذکر عباس بن عبدالمطب رضی اللہ عنہم ۱/۵۲۶)
ترجمہ : اے اللہ ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کردیتا تھا،اب کی بار ہم اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں ، لہٰذا تو ہم پر باران رحمت کا نزول فرما ۔ راوی کا بیان ہے ، تو انہیں سیراب کردیا گیا ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضرت المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور یہ عرض کرتے ‘ اے اللہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برساتا تھا (اب) ہم اپنے نبی کے عم (محترم) کو تیری طرف وسیلہ پیش کرتے ہیں ‘ تو تو ہم پر بارش نازل فرما ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا پھر لوگوں پر بارش ہوتی ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١ رقم الحدیث : ١٠١٠‘ مطبوعہ دارالکتب ‘ العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ ‘ المعجم الکبیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٨٤‘ کتاب الدعاء للطبرانی ‘ رقم الحدیث : ٩٦٥‘ شرح السنہ للبغوی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث : ١١٦٠،چشتی)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ‘ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ‘ آپ سے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ٹھیک کر دے۔ آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں اور اگر تم چاہو تو میں اس کو مؤخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اس نے کہا آپ دعا کر دیجئے ‘ آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح سے وضو کرے ‘ پھر دو رکعت نماز پڑھے اور یہ دعا کرے ‘ ” اے اللہ ! میں تیرے نبی (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اے محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ تاکہ میری حاجت پوری ہو ‘ اے اللہ میرے متعلق آپ کی شفاعت قبول فرما۔ (امام ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ ابو اسحاق نے کہا ‘ یہ حدیث صحیح ہے)
علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے لکھا ہے اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ١٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٧١٧٥‘ ١٧١٧٤‘ طبع قاہرہ ‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٨٩‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٨٥‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٠٤٩٦‘ عمل الیوم واللیلہ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٦٤‘ عمل الیوم والیلہ لابن السنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٣٣‘ المستدرک ج ١‘ ص ٥١٩‘ دلائل النبوۃ ‘ ج ٦‘ ص ١٦٧‘ امام طبرانی نے اس حدیث کو روایت کر کے لکھا ہے ‘ یہ حدیث صحیح ہے۔ المعجم الصغیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٠٨‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ٨٣١١‘ حافظ منذری نے لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ الترغیب والترہیب ‘ ج ١‘ ص ٤٧٦۔ ٤٧٤‘ حافظ الہیثمی نے بھی لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ‘ ج ٢ ص ٢٧٦‘ مختصر تاریخ دمشق ‘ ج ٣ ص ٣٠٤،چشتی)

شیخ ابن تیمیہ ‘ قاضی شوکانی ‘ علامہ نووی اور امام محمد جزری وغیرھم نے امام ترمذی کے حوالے سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں یا محمد کے الفاظ ہیں ‘ لیکن ہمیں جو ترمذی کے پاکستانی اور بیروت کے نسخے دستیاب ہیں ‘ ان میں یا محمد کے الفاظ نہیں ہیں ۔ سنن ترمذی کے علاوہ ہم نے باقی جن کتب حدیث کے حوالے دیئے ہیں ‘ ان سب میں یا محمد کے الفاظ ہیں ۔

امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر سے نماز پڑھنے کے لیے نکلا اور اس نے یہ دعا کی ‘ اے اللہ ! تجھ پر سائلین کا جو حق ہے میں اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور میرے اس (نماز کے لیے) جانے کا جو حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ کیونکہ میں بغیر اکڑنے اور اترانے اور بغیر دکھانے اور سنانے کے (محض) تیری ناراضگی کے ڈر اور تیری رضا کی طلب میں نکلا ہوں ‘ سو میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو جہنم میں سے مجھے اپنی پناہ میں رکھنا اور میرے گناہوں کو بخش دینا اور بلاشبہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشے گا ۔ (سو جو شخص یہ دعا کرے گا) اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوگا اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کریں گے ۔ (سنن ابن ماجہ ‘ ج ١ رقم الحدیث : ٧٧٨‘ عمل الیوم واللیلہ لابن السنی ‘ رقم الحدیث : ٨٥‘ الترغیب والترھیب ‘ ج ٢‘ ص ٤٥٢‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ ج ٢‘ ص ٤٥٨‘ علامہ احمد شاکر نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ مسند احمد ‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث : ١١٠٩٩،چشتی)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : عبدالرحمن بن یزید روایت کرتے ہیں کہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو خوب علم تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان میں سب سے زیادہ قریب اللہ عزوجل کی طرف وسیلہ تھے ۔ (مسند احمد ‘ ج ٥‘ ص ٣٩٥‘ دارالفکر بیروت ‘ طبع قدیم ‘ علامہ احمد شاکر ‘ متوفی ١٣٧٧ ھ نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مسند احمد ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٢٣٢٠١‘ طبع قاہرہ)

وسیلہ بہ معنی درجہ جنت

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : وسیلہ کا ایک معنی جنت کے درجات میں سے ایک (مخصوص) درجہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (نہایہ ‘ ج ٥‘ ص ١٨٥)

امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم موذن (کی اذان) کو سنو تو اس کے کلمات کی مثل کہو ‘ پھر مجھ پر درود پڑھو ‘ کیونکہ جس شخص نے ایک مرتبہ مجھ پر درود پڑھا ‘ اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا۔ پھر میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو ‘ کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک ایسا درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو حاصل ہوگا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ۔ سو جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کا سوال کیا ‘ اس کے حق میری شفاعت جائز ہوجائے گی ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ (٣٨٤) ٨٢٦‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٢٣‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٦١٤‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٧٧‘ عمل الیوم واللیلہ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٥‘ عمل الیوم واللیلہ لابن السنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٩٤‘ مسند احمد ‘ بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦٨‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث :‘ ١٠٩٦٢‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث :‘ ١١٤٤٢‘ ١١٦٨١‘ ١١٧٩٩‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ٤١٠۔ ٤٠٩‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٨٨‘ مطبوعہ مکتبہ اثریہ ‘ فیصل آباد،چشتی)

دعاء اذان میں حدیث شفاعت کی تحقیق

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اذان سنتے تو دعا کرتے : اے اللہ اس دعوت کاملہ اور (اس کے نتیجہ میں) کھڑی ہونے والی نماز کے رب ‘ اپنے بندے اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت نازل فرما اور قیامت کے دن ہمیں آپ کی شفاعت میں (داخل) کردے ۔ (المعجم الاوسط ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٣٦٧٥‘ مکتبہ المعارف الریاض ‘ ١٤٠٥ ھ)

حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس حدیث کی سند میں صدقہ بن عبد اللہ السمین ہے ۔ امام احمد ‘ امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرّحمہ نے اس کو ضعیف کہا ہے اور دحیم اور ابو حاتم اور احمد بن صالح مصری نے اس کی توثیق کی ہے ۔ ( مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٣٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت)

حافظ جمال الدین یوسف مزی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں : صدقہ میں عبد اللہ السمین کی روایات سے امام ترمذی ‘ امام نسائی ‘ اور امام ابن ماجہ علیہم الرّحمہ نے استدلال کیا ہے ۔ ہرچند کہ امام احمد اور شیخین علیہم الرّحمہ نے اس کو ضعیف کہا ہے ‘ لیکن سعید بن عبدالعزیز اور امام اوزاعی نے اس کو ثقہ کہا ۔ عبدالرحمن بن ابراہیم نے کہا : صدقہ ہمارے شیوخ میں سے ہیں اور ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ احمد بن صالح مصری نے کہا اس کی روایت صحیح اور مقبول ہے ۔ دحیم نے کہا اگرچہ یہ قدریہ کی طرف مائل تھا ‘ لیکن روایت میں صادق تھا۔ ولید بن مسلم نے کہا یہ ١٦٦ ھ میں فوت ہوگیا تھا ۔ تہذیب الکمال ‘ ج ٩‘ ص ٨١۔ ٧٨‘ ملخصا ‘ میزان الاعتدال ‘ ج ص ٤٢٦۔ ٤٢٥‘ تہذیب التہذیب ‘ ج ٤‘ ص ٣٨١)

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا کی ”’ اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ “ اے اللہ ! آپ پر صلوۃ نازل فرما اور آپ کو اس مقام پر پہنچا جو تیرے نزدیک جنت میں آپ کے لیے مخصوص ہے اور قیامت کے دن ہم کو آپ کی شفاعت میں داخل کردے ‘ سو جو شخص یہ دعا کرے گا ‘ اس کے لیے شفاعت واجب ہوجائے گی ۔ (المعجم الکبیر ج ١٢‘ رقم الحدیث : ١٢٥٥٤‘ الجامع الکبیرج ٧‘ رقم الحدیث : ٢٢١١٨‘ عمدۃ القاری ‘ ج ٥‘ ص ١٢٤،چشتی)

حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٠٧ ھ لکھتے ہیں اس حدیث کی سند میں اسحاق بن عبد اللہ بن کیسان ہے ۔ حاکم اور ابن حبان نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ اس کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں۔ ( مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٣٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف مزی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٤٢ ھ نے متعدد ائمہ حدیث کے حوالوں سے اسحاق بن عبد اللہ کا ضعف نقل کیا ہے ۔ امام ابو داؤد نے اسحاق بن عبد اللہ کی صرف ایک حدیث متابعۃ درج کی ہے اور امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اس کی روایات کو درج کیا ہے ۔ اسحاق بن عبد اللہ بن کیسان ١٤٤ ھ میں فوت ہوا تھا ۔ (تہذیب الکمال ‘ ج ١ ص ٦٢۔ ٥٧‘ میزان الاعتدال ‘ ج ١ ص ٣٤٦‘ کتاب الجرح والتعدیل ‘ ج ٢‘ ص ٢٢٨) ۔ ہر چند کہ یہ حدیث ضعیف ہے ‘ لیکن فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔

دعائے اذان کے بعض دیگر کلمات کی تحقیق

اس بحث کے اخیر میں ہم ایک اور حدیث بیان کرنا چاہتے ہیں جس میں ” انک لا تخلف المیعاد “ کا ذکر ہے ۔

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا کی ” اے اللہ ! میں تجھ سے اس دعوت کاملہ اور اس کے نتیجہ میں کھڑی ہونے والی نماز کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت میں وہ مقام عطا فرما جو آپ کے لیے مخصوص ہے ‘ اور آپ کو فضیلت عطا فرما اور آپ کو اس مقام محمود پر فائز کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ‘ بیشک تو وعدہ کی مخالفت نہیں کرتا ‘ اس حدیث کو امام بخاری نے اپنے صحیح میں علی بن عیاش سے روایت کیا ہے ۔ (سنن کبری ‘ ج ١‘ ص ٤٤٠‘ مطبوعہ نشرالسنہ ‘ ملتان)

اس دعا میں الوسیلۃ اور الفضیلۃ کے بعد والدرجۃ الرفیعۃ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے اس کی اصل یہ حدیث ہے : امام عبدالرزاق بن ھمام رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢١١ روایت کرتے ہیں : ایوب اور جابر جعفی بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اقامت کے وقت کہا : اے اللہ ! اس دعوت تامہ اور اس کے بعد کھڑی ہونے والی نماز کے رب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت میں وہ مقام عطا فرما ‘ جو آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور آپ کے درجات بلند فرما “ تو اس کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت واجب ہوجائے گی ۔ (المصنف ‘ ج ١ ص ٤٩٦‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٠ ھ،چشتی)

وسیلہ بن معنی مرشد کامل

ایمان ‘ اعمال صالحہ ‘ فرائض کی ادائیگی ‘ اتباع سنت ‘ اور محرمات اور مکروہات سے بچنا ‘ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنا کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور جس مرد صالح اور مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کرکے ایک مسلمان گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کا عہد کرتا ہے ‘ جو اس کی مسلسل نیکی کی تلقین کرتا ہے ‘ اور اس کی روحانی تربیت کرتا ہے ‘ اس شیخ کے وسیلہ اور قرب الہی کے ذریعہ میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ قول جمیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں وسیلہ سے مراد بیعت مرشد ہے ۔

مولوی اسماعیل دہلوی دیوبندی وہابی متوفی ١٢٤٦ ھ لکھتے ہیں : اہل سلوک اس آیت کو راہ حقیقت کے سلوک کی طرف اشارہ گردانتے ہیں اور مرشد کو وسیلہ سمجھتے ہیں۔ اس بناء پر حقیقی کامیابی اور مجاہدہ سے پہلے مرشد کو تلاش کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے سالکان حقیقت کے لیے یہی قاعدہ مقرر کیا ہے ‘ اس لیے مرشد کی رہنمائی کے بغیر اس راہ کا ملنا شاذ ونادر ہے ۔ (صراط مستقیم ‘ (فارسی) ص ٥٠‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ لاہور)

معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام اور دیگر صالحین علیہم الرّحمہ کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔ (جاری ہے)

درسِ قرآن موضوع آیت : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ حصّہ سوم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس سے قبل آپ حصّہ اوّل پڑھ چکے ہونگے آیئے اب حصّہ سوم پڑھتے ہیں :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ وَجٰہِدُوۡا  فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ۔ ﴿سورہ مائدہ آیت نمبر 35﴾
ترجمہ : اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔
حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس آیت میں وسیلہ سے مراد مرشد ہے ۔ عملِ صالح اور جہاد مراد نہیں لے سکتے کیونکہ وہ تقویٰ میں شامل ہیں ۔ (القول الجمیل مترجم اردو صفحہ نمبر 39 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ یَبْتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوۡنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوۡرًا ۔ (سورہ الاسراء آیت نمبر 57)
ترجمہ : وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے ۔

کفارکے بہت سے گروہ تھے۔ کوئی بتوں اور دیوی ، دیوتاؤں کو پوجتا تھا اور کوئی فرشتوں کو ، یونہی عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہودیوں کا ایک گروہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ، یونہی بہت سے لوگ ایسے جنوں کو پوجتے تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ تھی تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اُن لوگوں کوشرم دلائی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جن مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کو یہ لوگ پوجتے ہیں وہ تو خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے تاکہ جو سب سے زیادہ مقرب ہو اس کو وسیلہ بنائیں تو جب یہ مقربین بھی بارگاہِ الٰہی تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں اور رحمت ِالٰہی کی امید رکھتے ہیں اور عذاب ِ الٰہی سے ڈرتے ہیں تو کافر انہیں کس طرح معبود سمجھتے ہیں ۔ (تفسیر خازن الاسراء تحت الآیۃ: ۵۷، ۳/۱۷۸،چشتی)

اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا جائز ہے

اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔ آیت میں وسیلہ بنانے کا جوازبیان کیا گیا ہے اور شرک کا رد کیا گیا ہے ۔ وسیلہ ماننے اور خدا ماننے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، جو وسیلے کو شرک کہے وہ اس آیت کے مطابق مَعَاذَاللّٰہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی شرک کا مُرتکب قرار دیتا ہے۔ اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کائنات کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں سب سے مقرب وہی ہیں تو بقیہ سب انہیں کو وسیلہ بناتے ہیں اور اسی لئے میدانِ قیامت میں سب لوگ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ہی جمع ہوکر حاضری دیں گے اور بارگاہِ الٰہی میں سفارش کروائیں گے ۔

خارجیوں نے آیت وسیلہ کے ترجمے میں کھلی تحریف کی ہے تاکہ اپنی خود ساختہ شریعت کو بچا سکیں ۔

زیرِ بحث آیت ، کہ جس کے ترجمے میں خارجی حضرات تحریف کرتے ہیں ، یہ ہے : أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسی چیزیں کھل کر ذکر کر دی ہیں کہ جو خارجیوں کو تا قیامت ہضم نہیں ہو سکتیں ۔

(1) یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کا ذکر کر رہا ہے جو اللہ کے قریب پہنچنے کے لیے اپنے میں سے "زیادہ بزرگ" اور "زیادہ مقرب" کا "وسیلہ" پکڑتے ہیں تاکہ اس زیادہ مقرب وسیلے کی شفاعت سے اللہ کے اور قریب پہنچ سکیں ۔

(2) یہ کہ یہ آیت یہ بھی بیان کر رہی ہے کہ اللہ عزّ و جل کے یہ مقرب انبیاء علیہم السّلام  "اپنی وفات" کے بعد بھی بزرگی میں اپنے برتر انبیاء علیہم السّلام کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں (اور بزرگی میں اللہ کے نزدیک تر یہ انبیاء بھی (کہ جن کا وسیلہ پکڑا جا رہا ہے) اگرچہ کہ"وصال" فرما کے ہیں ، مگر ان کا وصال اس چیز میں مانع نہیں کہ وہ ان کی شفاعت کریں) ۔

یہاں دو سوال اٹھتے ہیں

(1)  یہ کہ انہیں ترجمے میں یہ تحریف کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟

(2) یہ کہ انہوں نے اس آیت کا جو ترجمہ کیا ہے ، اُس میں وہ تحریفی الفاظ کیا ہیں ؟

تو پہلا مسئلہ کہ خارجی حضرات کو تحریف کی یہ ضرورت کیوں پیش آئی ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خارجیوں کا عقیدہ ہے کہ وسیلہ "صرف اور صرف انسان کے اپنے نیک اعمال ہیں"۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اللہ کے دیگر برگزیدہ بندوں اور فرشتوں کی شفاعت کو یہ وسیلہ تسلیم نہیں کرتے ۔ چونکہ قرآن کی یہ آیت براہ راست خارجیوں کے عقائد کو غلط ثابت کر رہی ہے ، اس لیے خارجیوں کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا کہ وہ اس آیت کے ترجمے و تفسیر میں تحریف کر دیں تاکہ وسیلے کے متعلق ان کا خود ساختہ عقیدہ قائم رہ سکے ۔

(2) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سمجھیں کہ خارجیوں نے اس ترجمے میں کیا تحریف کی ہے ۔

سعودیہ میں شاہ فہد نے قران کا جو اردو ترجمہ شائع کروایا ہے (جس کے مترجم جونا گڑھی صاحب ہیں) ، اس میں انہوں نے اس آیت کے ترجمے میں تحریف کرتے ہوئے یوں کر دیا ہے :

ترجمہ محمد جونا گڑھی غیرمقلد وہابی:  جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون [اپنے نیک اعمال کی بدولت] زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔

چنانچہ اس آیت کے ٹکڑے "ایھم اقرب" کا ترجمہ انہوں نے کر دیا ہے "ان میں سے کون اللہ کے زیادہ نزدیک ہو جائے"۔ یعنی ان انبیاء علیہم السّلام میں یہ مقابلہ Competition لگا ہوا ہے کہ قبروں میں اپنی عبادت کے نیک عمل کے ذریعے ایک دوسرے کی نسبت اللہ کے زیادہ قریب ہو جائیں ۔ (دیکھئیے غیرمقلد وہابی عقیدے کے عالم دین "قریب اللہ صاحب" کا انگریزی ترجمہ ، جو ہم آگے نقل کریں گے اور اس میں آپ کو یہ Competition ذرا کھل کر نظر آ جائے گا اور غیرمقلد وہابی حضرات انٹرنیٹ پر اپنے انگلش آرٹیکلز کے لیے قریب اللہ کا یہی ترجمہ استعمال کر رہے ہیں،چشتی)۔

غیرمقلد وہابی حضرات نے آیت کے اس ٹکڑے "ایھم اقرب" کے ترجمے میں تحریف کر کے اسکو اپنے عقیدے کے مطابق ڈھال لیا ہے ۔

"ایھم اقرب" کا صحیح ترجمہ

آئیے اب "ایھم اقرب" کے صحیح ترجمے کا اہلحدیث حضرات کے ترجمے سے تقابل کرتے ہیں :

صحیح ترجمہ

"ایھم" ۔۔۔ کون ان میں سے : "اقرب" ۔۔۔ قریب ترین ہے (نوٹ: "ہے" زمانہ حال کا صیغہ ہے جسے انگریزی میں "Present Simple" کہتے ہیں ۔
غیرمقلد وہابی حضرات نے اس "ہے" کو فعل زمانہ مستقبل میں تبدیل کر کے یہ ساری تحریف کی ہے ۔
عربی قواعد کی ترکیب ذرا مختلف ہے اور اس کا ذکر ہم بعد میں تفصیل سے کریں گے اور ثابت کریں گے کہ غیرمقلد وہابیوں کا ترجمہ یقینی طور پر غلط ہے ۔ (ان شاء اللہ)

غیرمقلد وہابی حضرات کا  ترجمہ : "ایھم" ۔۔۔ ان میں سے کون ۔ "اقرب" ۔۔۔ زیادہ نزدیک ہو جائے ("ہو جانا" زمانہ مستقبل کا صیغہ ہے اور یہ تحریف کر کے اہلحدیث حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ "ان میں سے کون [اپنی قبر میں کی گئی عبادات کو وسیلہ بنا کر] زیادہ نزدیک ہو جائے۔)

بات بہت نازک ہے اور بہت چالاکی سے یہ تحریف کی گئی ہے ۔ ایک چھوٹے سے "ہے" کو انہوں نے "ہو جانا" سے بدل کر آیت کے معنی کہیں کے کہیں بدل دیے ۔

ہماری قارئین سے درخواست ہے کہ وہ بہت توجہ سے اس بحث کو پڑھتے جائیں اور ہم بہت گہرائی میں جا کر ہر زاویے سے اس غلط ترجمے کی تحریف کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے واضح کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔

وہ علماء جنہوں نے صحیح ترجمہ کیا : اب قبل اس کے کہ ہم "ایھم اقرب" کے صحیح ترجمے پر بحث کو آگے بڑھائیں، بہتر ہے کہ چند صحیح تراجم کو دیکھ لیا جائے ۔

ترجمہ : وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے ۔ (کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ)

ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب : یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں (یعنی ملائکہ، جنّات، عیسٰی اور عزیر علیہما السلام وغیرھم کے بت اور تصویریں بنا کر انہیں پوجتے ہیں) وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے (بارگاہِ الٰہی میں)زیادہ مقرّب کون ہے اور (وہ خود) اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور (وہ خود ہی) اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، (اب تم ہی بتاؤ کہ وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں وہ تو خود معبودِ برحق کے سامنے جھک رہے ہیں)، بیشک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔

ترجمہ علاّمہ محمود الحسن دیوبندی : وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں وہ خود ڈھونڈتے ہیں اپنے رب تک وسیلہ کہ کونسا بندہ بہت نزدیک ہے ۔ اور امید رکھتے ہیں اس کی مہربانی کی اور ڈرتے ہیں اس کے عذاب سے ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔

    تفسیر از شبیر احمد عثمانی دیوبندی : مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو تم معبود و مستعان سمجھ کر پکارتے ہو، وہ خود اپنے رب کا بیش از بیش قرب تلاش کرتے ہیں ۔ ان کی دوا دوش صرف اس لیے ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں کون آگے نکلتا ہے ، ان میں جو زیادہ مقرب ہیں وہ ہی زیادہ قرب الہی کے طالب رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کسی سب سے زیادہ مقرب بندہ کی دعاء وغیرہ کو حصولِ قرب کا وسیلہ بنائیں ۔ (تفسیر عثمانی،چشتی)

 ترجمہ پیر کرم الازھری رحمۃ اللہ علیہ : وہ لوگ جنہیں یہ مشرک پکارا کرتے ہیں وہ خود ڈھونڈتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ کونسا بندہ (اللہ سے) زیادہ قریب ہے اور امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور ڈرتے رہتے ہیں اس کے عذاب سے ۔

 تفسیر ضیاء القرآن : مطلب یہ ہے کہ کمشرکین جن کو خدا بنائے ہوئے ہیں اور جن کو اپنی تکالیف و مصائب میں پکارتے ہیں یہ خدا نہیں بلکہ وہ تو خود ہر لمحہ ہر لحظہ اپنے رب کریم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اگر واقعی وہ خدا ہوتے جیسے مشرکین کا خیال ہے تو پھر انہیں کسی کی عبادت اور رضاجوئی کی کیا ضرورت تھی۔ مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہ الہی میں وسیلہ بنانا جائز ہے اور اللہ تعالی کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ اس آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیر کی عبادت کرنا ممنوع ہے لیکن مقبولانِ بارگاہ ایزدی کا وسیلہ پکڑنا اور انس ے التماسِ دعا کرنا جائز ہے ۔

عربی قواعد کے مطابق "ایھم اقرب" کا ترجمہ

پہلی بات جو آپ نوٹ کریں وہ یہ ہے کہ "ایھم اقرب" میں کوئی "فعل" کا صیغہ استعمال نہیں ہوا ہے ۔ چنانچہ عربی زبان کے لحاظ سے اس میں "فعل حال" یا "فعل مستقبل" کا کوئی بحث ہی نہیں ہے ۔

عربی زبان میں "جملہ" کی دو اقسام ہوتی ہیں :

1) الجملات الفعلیۃ
("فعلیہ جملے" یعنی (Verbal Sentence)

2) الجملات الاسمیہ
("اسمیہ جملے" یعنی (Noun Senteces)

عربی میں جملے کے ان اقسام کی مثال اردو یا انگریزی زبان میں نہیں مل سکتی ۔ "فعلیہ جملے" وہ ہوتے ہیں جو کسی "فعل" سے شروع ہوتے ہیں جبکہ "اسمیہ جملے" وہ ہوتے ہیں جو کسی "اسم" سے شروع ہوتے ہیں۔ اب یہ چیز عربی زبان میں بالکل قابل قبول ہے (بلکہ کچھ صورتوں میں بہتر ہے) کہ فعل "ہے" کو جملے سے نکال دیا جائے۔ مثال کے طور پر عربی زبان میں یہ کہنا بالکل درست ہو گا: "الکتاب کبیر"، جس کا مطلب ہے "یہ بڑی کتاب ہے"۔

آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں "یکن الکتاب کبیرا" جس میں آپ "یکن" کا فعل استعمال کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے "ہے"۔ مگر یہ ناخوشگوار عربی ہے اور یہ بہتر طریقہ ہے کہ "یکن" کو نکال دیا جائے اور صرف "الکتاب کبیر" کہا جائے ۔ اب اوپر کی آیت میں "ایھم اقرب" بالکل اسی طرح کا جملہ ہے ، یعنی کسی بھی "فعل" کے بغیر اور اسی لیے اس کے ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں "ہے" استعمال کرنا ہو گا ۔

چنانچہ "الکتاب کبیر" کا ترجمہ ہم "یہ ایک بڑی کتاب ہے" کریں گے بجائے اسکے کہ یہ کہیں "یہ ایک بڑی کتاب ہو جائے"۔ چنانچہ غیرمقلد وہابی حضرات کا ترجمہ "ہو جائے" ہر صورت میں غلط ہے ۔

اگر "ایھم اقرب" کے اس جملے میں کوئی "فعل" استعمال ہو جاتا تو زمانہ حال یا زمانہ مستقبل کے متعلق شاید کچھ غلط فہمی ہو جاتی، مگر اس سلسلے تو سرے سے کسی غلط فہمی کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔

چنانچہ "ای" کا مطلب ہے "ان میں سے" اور "اقرب" کا مطلب ہے "قریب ترین"، یعنی "ان میں سے کون قریب ترین ہے"۔

غیرمقلد وہابی حضرات کو چیلنج ہے کہ وہ اس جملے کا ترجمہ "قریب ہو جائے" ثابت کریں ۔

سورۃ النساء کی آیت گیارہ میں "ایھم اقرب" کا ترجمہ

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے پہلے سے ہی خود یہ انتظام کر کے رکھا ہوا ہے کہ غیرمقلد وہابی حضرات کے ترجمے میں غلطی صاف پکڑی جائے ۔ اور یہ انتظام ایسے کیا کہ یہی جملہ "ایھم اقرب" اللہ تعالی نے سورۃ النساء کی آیت گیارہ میں استعمال کیا ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں پڑھیں)

درسِ قرآن موضوع آیت : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ حصّہ چہارم
محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس سے قبل آپ حصّہ اوّل ، دوم اور سوم  پڑھ چکے ہونگے آیئے اب حصّہ چہارم پڑھتے ہیں :

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 597 ھ نے لکھا ہے کہ : جن لوگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں اس کے مصداق میں تین قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ جن ہیں جو بعد میں اسلام لے آئے تھے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ ملائکہ ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ہیں ، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے ، اور اس آیت میں یدعون ، یعبدون کے معنی میں ہے ، یعنی وہ ان کو معبود سمجھ کر عبادت کرتے ہیں ۔ (زاد المسیر ج 5 ص 57، 58، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ)

جن کی وہ عبادت کرتے تھے ان کے جن ہونے کے متعلق یہ دلیل ہے : حضرت عبد اللہ بن مسعو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے بعض افراد جنات کے بعض افراد کی عبادت کرتے تھے ، پھر وہ جن مسلمان ہوگئے ، اور وہ انسان بدستور ان جنات کی عبادت کرتے رہے تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 4714، صحیح مسلم، رقم الحدیث : 3030، السنن الکبری للنسائی، رقم الحدیث : 11288،چشتی)

اور جن لوگوں نے کہا وہ فرشتے تھے ان کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ عرب کے بعض قبائل سے کچھ لوگ ملائکہ کی ایک قسم کی عبادت کرتے تھے جن کو جنات کہا جاتا تھا اور وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 16893، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

اور جن لوگوں نے کہا وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر کی عبادت کرتے تھے ان کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت ابن عباس نے کہا جن کی وہ لوگ عبادت کرتے تھے وہ حضرت عیسیٰ ، ان کی والدہ اور حضرت عزیر ہیں ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 16895، حضرت ابن عباس کی دوسری روایت میں شمس اور قمر کا بھی زکر ہے، رقم الحدیث : 16897)

جو جنات مسلمان ہوچکے تھے ، اسی طرح فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے محتاج ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ، ہرچند کہ ملائکہ اور انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں وہ کسی قسم کو کوئی گناہ نہیں کرتے اور نہ ان کو دنیا اور آخرت میں کسی قسم کے عذاب کا خطرہ ہے ، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی جلال ذات سے خوف زدہ رہتے ہیں اور ان میں سے جو اللہ تعالیٰ کے جتنے زیادہ قریب ہے وہ اتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ان اتقاکم واعلمکم باللہ انا۔ تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھنے والا میں ہوں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بکثرت جنت کے حصول کی اور دوزخ کے عذاب سے پناہ کی دعائیں فرماتے تھے:حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دعا کثرت سے کرتے تھے : اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں (بھی) اچھائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 6389،چشتی)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : 2690، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 1519، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 939، مسند احمد رقم الحدیث : 12004، عالم الکتب بیروت)

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں میں سے یہ دعا تھی : اے اللہ ہم تجھ سے رحمت کے موجبات اور پکی مغفرت کو طلب کرتے ہیں اور ہر گناہ سے سلامتی اور نیکی کی سہلوت طلب کرتے ہیں اور جنت کی کامیابی اور تیری مدد سے دوزخ سے نجات طلب کرتے ہیں، یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ۔ (حافظ ذہبی نے اس کو بلا جرح نقل کیا ہے) (المستدرک ج 1 ص 525، قدیم ، المستدرک رقم الحدیث : 1968، الجامع الصغیر رقم الحدیث : 1487)

وسیلہ  خواہ  تقرب کیلئے ہو یا حاجت روائی کیلئے ہوخواہ  کسی نیک اعمال کا ہو یا کسی نیک بندے کا ہو ۔خواہ  وہ نیک ہستی حیات ہو۔ یا ظاہری وفات پاچُکی ہو۔۔۔خواہ وَسیلہ کلام حقیقی ذاتی کی صورت میں ہو ۔یا کلام مجازی کی صورت میں ہو۔ یہ قرآن واحادیث کی روشنی میں ایک ثابت شدہ امر ہے۔  اور جائز ہے۔۔۔اِسے  شرک  کہنا  عام مسلمانوں بلکہ بڑے بڑے محدثین تابعین اور صحابہ کرام  علیھم الرضوان  پر الزام کے مترادف  ہے۔ بلکہ اِن نفوسِ قُدسیہ کو  شرکیہ افعال میں مبتلا ہونے والا۔ کہنے کے مترادف ہے ۔

حالانکہ قرآن کی کسی  آیت اور کسی حدیث میں وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔اُور جو حضرات ہٹ دھرمی دِکھاتے ہوئے قرآن کی  وہ آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔۔ کہ،، جس میں بتوں کو پوجنے اور ان سے مدد مانگنے سے منع کیا گیا ہے۔ جُو کہ ،،صریح گُستاخی تُو ہے ہی۔۔۔ لیکن علمی خیانت بھی ہے۔۔۔ کہ جانتے بُوجھتے آیات کا محل بدل دِیا جائے۔ یہ قُرانی آیات کی تفسیر  بالرائے کے مترادف ہے۔ جسکی اِسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ  اپنی جانب سے قران کی تفسیر کرنا بلااجماع علما و محدثین حرام عمل ہے ۔

مثلاً : قُلْ اَنَدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰینَا اللہُ ﴿ۙ۷۱﴾
ترجمہ : تم فرماؤ  کیا ہم اللّٰہ کے سوا اس کو پوجیں جو ہمارا نہ بھلاکرے۔ نہ بُرا۔  اُور الٹے پاؤں پلٹا دیئے جائیں بعد اس کے کہ اللّٰہ نے ہمیں راہ دکھائی ۔
اور ان آیات میں لفظ’’ دعا‘‘ پکار  کے معنی میں نہیں بلکہ عبادت کے معنی میں ہے  مگر ہٹ دھرمی دیکھئے کہ قرآن  میں اپنی رائے سے تفسیر کر تے ہوئے کہتے  ہیں  کہ دعا سے مُراد’’ پکارنا‘‘ ہے لہذا کسی نبی ولی کو پکارنا جائز نہیں ہے یہ شرک ہے العیاذ باللہ تعالی حالانکہ تمام مفسرین نے  ان مقامات پر لفظ دعا کا معنی  عبادت کرنا بیان کیا ہے مگر جس کا کام ہی مسلمانوں پر شرک کا فتوی صادر کرنا ہو تو  اُسے اپنے ایمان کی بھی  کیا فِکر ہُوگی ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ‘‘ یعنی : جس نے قرآن میں بغیر علم کے کچھ کہا پس اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے ۔ (سنن الترمذی باب تفسیر القران حدیث نمبر۲۱۰۱)

بالفرض محال آپ اس کا معنی ’’پکارنا‘‘ ہی لو تو جناب یہ بتایئے کہ  دنیا میں کون مسلمان  پھر شِرک سے باہررہا۔۔۔ ہر شخص کسی نہ کسی شخص کو دنیا میں اپنی مدد وغیرہ کے لئے ضرور پکارتا ہے۔۔۔ تو جن حضرات نے مطلق پکارنے کو ہی شرک کہا تو اس صورت میں دنیا میں سب کے سب ہی معاذ اللہ کافر و مشرک ہوگئے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے اس آیت میں جس کو آپ نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مطلقاً  بَندوں کو پکارنے سے منع کیا ہے۔ تو اب آپ کسی کو بھی نہیں پکار سکتے۔۔۔ اُور اگر آپ یہ کہیں کے زِندوں کو پکار سکتے ہیں۔ مگر مُردہ کو نہیں پکار سکتے۔
تو حضرت موسی علیہ السلام نے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وصال مبارک کے کئی سو سال بعد مدد فرمائی۔ پچاس نمازوں کو پانچ نمازوں میں تبدیل کرواکر۔۔۔۔ تو اعتراض کرنے والوں کو چاہیئے کہ،، وُہ  پُوری پچاس نماز ہی پڑھا کریں۔ کہ،، آپ تو مرنے کے بعد مدد کے قائل نہیں ہیں۔۔۔ نیز آپ نے یہ مُردہ اور زندہ کی تفسیرکہاں سے کی ہے ؟
ذرااس کا حوالہ دیجیے وگرنہ  آپکا یہ عمل تفسیر بالرائے کرنا ہے۔۔۔ جو کہ حرام ہے۔ اور اگر زندہ کو پکار سکتے ہیں تو کیا فرعون کے ساتھی جو اسے خدا سمجھ کر پکارتے تھے ۔۔تو کیا وہ جائز تھا ؟
یا آج اگر کوئی کسی کو خدا سمجھ کر پکارے تو کیا یہ جائز ہوگا۔۔۔؟ تو معلوم یہ  ہُوا۔ کہ، زندہ یا مرد ہ کا فرق نہیں بلکہ خدا سمجھ کر پکارنا ممنوع ہے۔ اُور یہی شرک ہے ۔

الحمد للہ کوئی بھی ذی شعور مسلمان کسی نبی علیہ السلام یا  وَلیُ اللہ  کو خدا سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا۔ اور جو پکارے وہ یقیناًمشرک ٹھہرے گا۔ اب بھی اگر  کوئی ان آیات  کوجو کہ  کفار کے حق میں نازل ہوئیں انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرتا دَکھائی دے ۔ تو درحقیقت وہ اسلام کے لِبادے میں اہل خوارج بے دین لوگوں میں سے ہیں ۔کیونکہ بخاری شریف میں یہ خوارجیوں کی نشانی بیان کی گئی ہے ۔

 حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالی عنہ خارجیوں کے بارے میں فرماتے ہیں ’’وقال إنہم انطلقوا إلی آیات نزلت فی الکفار فجعلوہا علی المؤمنین‘‘ یعنی : فرمایا کہ( خارجیوں کی نشانی یہ ہے کہ) وہ آیات جو کفار کے حق میں نازل  ہوئی ہیں مسلمانوں پر تھوپتے ہیں ۔ (صحیح بخاری باب قتل الخوارج قبل حدیث نمبر۶۵۳۱،چشتی)

ہم مسلمان الحمدللہ رب العلمین ہرطرح کے شرک سے محفوظ ہیں۔  کیونکہ اس بات کی ضمانت خود اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نے دی ہے صحیح بخاری میں ہے’’وانی واللہ ما اخاف علیکم ان تشرکو بعدی ‘‘۔یعنی’’اور بے شک میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے اپنے بعد تمہارے شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی خوف نہیں ۔ (صحیح بخاری ،باب الصلوٰۃ علی الشہید،کتاب الجنائز،ج:ا،جزء:۲،ص۹۴،مکتبہ دارالفکر بیروت)

اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن  وحدیث میں وسیلہ کی ممانعت نہیں ہے ۔

توسّل اور تبرک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلّم قرآن کی روشنی میں

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ ۔ (البقرة، 2 : 89)
ترجمہ : اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ وا لی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا انکے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر ۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (النّساء، 4 : 64)
ترجمہ :  اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب : تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔
(المائدة، 5 : 35)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔

وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَo وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ ۔ (التّوبة، 9 : 58.59)

(58) اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ان میں سے کچھ ملے تو راضی ہو جائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں ۔
(59) اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول، ہمیں اللہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔

لاَ تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ۔ (التّوبة، 9 : 108)
ترجمہ :  اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا، بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو، اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں ۔

أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ۔ (بني إسرائيل، 17 : 57)
 ترجمہ : وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے ۔

إنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًاo لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًاo وَيَنصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا ۔ (الفتح، 48 : 1.3)
ترجمہ : (1) بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح دی ۔
(2) تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دے اور تمہیں سیدھی راہ دکھا دے ۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَo سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ۔ (المنافقون، 63 : 5.6)
ترجمہ : (5) اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لیے معافی چاہیں تو اپنے سر گھماتے ہیں اور تم انہیں دیکھو کہ غور کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں ۔
(6) ان پر ایک سا ہے تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو، اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا بیشک اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔

وسیلہ کے جواز پر مختصر تحریر ایک بار ضرور پڑھیں

یاایھاالذین اٰمنوا اتقوااللہ وابتغواالیہ الوسیلۃ ۔ (المآئدہ،۳۵)
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف جانے کے لیے وسیلہ تلاش کرو ۔

اگر بزرگوں کی دعاؤں کا وسیلہ جائز ہے تو ان کی ذوات کا وسیلہ بھی درست ہے ، کیونکہ دعا تو رد بھی ہوسکتی ہے ، محبوبان خداتو اس کے مقبول بندے ہیں اور ویسے بھی ذات اصل ہے اوردعا فرع ہے ۔ اگر فرع کا وسیلہ درست ہے تو اصل کا وسیلہ بھی درست ہے۔

قرآن مجید میں نیک لوگوںسے وابستہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاایھالذین اٰمنوااتقواللہ وکونوامع الصادقین۔(التوبۃ،۱۱۹)
ترجمہ:ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔

اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کوبھی واضح کردیا گیا ہے،کہ وسیلہ سے مراد اللہ والوں کی ذات سے تعلق قائم کرنا ہے۔اور انہیں اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ بنانا ہے۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کا خود حکم دیا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا:اچھے طریقہ سے وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ دعا کرے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قدتوجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضیٰ اللھم فشفعہ فیّ ۔
ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور رحمت والے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یارسول اللہ ! میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ اسے پورا کردیا جائے ۔اے اللہ!آپ کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔ (ھذا حدیث صحیح ، سنن ابن ماجہ صفحہ۱۰۰،مسند احمد جلد۴صفحہ ۱۳۸، المستدرک جلد۱صفحہ۳۱۳،۵۱۹،۵۲۶،عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی صفحہ ۲۰۲،دلائل النبوۃ للبیہقی جلد۶صفحہ۱۶،چشتی)(السنن الکبریٰ للنسائی جلد ۶ صفحہ ۱۶۹،الاذکار للنووی صفحہ۱۶۷،عمل الیوم واللیلۃ للنسائی صفحہ ۴۸۱ ، الترغیب والترہیب جلد۱صفحہ۴۷۳ ،صحیح ابن خزیمہ جلد۲صفحہ۲۲۵، ترمذی جلد۲صفحہ ۱۹۸،البدایہ والنھایہ جلد۱صفحہ۱۳۰۱مطبوعہ دار ابن حزم، الخصائص الکبریٰ جلد۲صفحہ ۲۰۲،الجامع الصغیر جلد۱صفحہ۴۹صحیح کہا)
واضح رہے !اس حدیث کو وحید الزمان حیدرآبادی وہابی نے (ھدیۃ المھدی صفحہ ۴۷) ، نواب صدیق حسن خان بھوپالوی وہابی نے (نزل الابرار صفحہ۳۰۴) ، غیر مقلد نجدیوں کے’’ مجتہد‘‘ قاضی شوکانی نے تحفۃ الذکرین صفحہ ۱۳۷ پر نقل کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
غیر مقلد وہابیوں اور دیوبندیوں کے’’ بزرگ‘‘ ابن تیمیہ حرانی نے فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۱صفحہ ۲۷۵ پر نقل کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:وان کانت لک حاجۃ فافعل مثل ذلک ۔ ترجمہ : تجھے جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو اسی طرح کرنا ۔ اسی حدیث کو علامہ اشرفعلی تھانوی دیوبندی نے نشرالطیب صفحہ ۲۵۳ ۔
اور شبیر احمد دیوبندی نے یا حرف محبت اور باعث رحمت ہے صفحہ ۴۲ پر نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے عام ہے ۔
اور دور فاروقی میں قحط سالی کے وقت حضرت فاروق اعظم رضی اللّه عنہ عرض کرتے ہیں : للھم انا کنا نتوسل الیک بنبیناافتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔ (صحیح البخاری ابواب الا ستسقا ، باب سوال الناس الامام الاستسقا اذا قحطوا۔۱/۱۳۷۔کتاب المناقب، باب ذکر عباس بن عبدالمطب رضی اللہ عنہم ۱/۵۲۶)
ترجمہ : اے اللہ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کردیتا تھا،اب کی بار ہم اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں،لہٰذا تو ہم پر باران رحمت کا نزول فرما۔ راوی کا بیان ہے، تو انہیں سیراب کردیا گیا۔
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور دیگر صالحین کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔ حیرت کی بات ہت وسیلہ اور تبرک کے منکرین دعویٰ قرآن و حدیث کا کرتے ہیں مگر قرآن مجید کی یہ آیات مبارکہ انہیں نظر کیوں نہیں آتیں ، بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات انبیاء علیہم السّلام و صالحین علیہم الرّحمہ پر چسپاں کرنے میں انہیں ذرا بھی خوف خدا نہیں آتا ، کتمان حق کرتے ہیں ، عوام الناس جوکہ کم علم ہوتے ہیں ان سادہ لوگوں کو قرآن و حدیث کے نام پر دھوکہ و فریب دے کر ان کے عقائد و نظریات خراب کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مکمل قرآن و حدیث پر ایمان لانے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔