Sunday 8 May 2016

توحید و شرک پر مختصر مضمون ایک بار تعصب سے بالا تر ہو کر ضرور پڑھیں

1 comments
نہایت افسوس کی بات ہے کہ جس عقیدہ توحید پر امت مسلمہ کو مجتمع کیا گیا تھا آج اسی امت کے اندر جہالت اور عدم واقفیت کی وجہ سے بعض لوگوں نے اس عقیدہ توحید کے اندر اپنی خود ساختہ اور من پسند تعریفات و مباحث ایجاد کرکے اس کی حقیقی صورت کو مسخ کردیا اور ملت اسلامیہ میں ایسا انتشار پیدا کر دیا کہ امت محمدیہ دو ایسے گروہوں میں منقسم ہو گئی کہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے اسلام نے جس بنیاد (لاالہ الا اللہ )پر امت مسلمہ کو متحد کیا تھا آج بعض گمراہوں نے اس بنیاد کی حقیقی صورت کو مسخ کرنے کی ایسی گھناؤنی سازش کی کہ جس کی بنا پر فتنہ و فساد برپا ہو گیا۔

آج توحید کے برائے نام داعی مسلمانون کو کافر و مشرک کہنے پر ذرا برابر عار محسوس نہیں کرتے اور امت محمدیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کتنے افسوس کی بات ہے کہ پورا کفر، دین اسلام کے خلاف متحد ہو چکا ہے لیکن یہ لوگ مسلمانوں پر شرک و بدعت کے فتوے لگا کر کفار کے ناپاک عزائم کو تقویت دے کر اسلام کی جڑون کو کھوکھلا کر رہے ہیں

اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر ہم یہ مضمون لکھ رہے ہیں تا کہ مسلمان ہمارے مسلمان بھائی توحید و شرک کی اصل صورت کو پہچانیں اور حقیقت حال سے آگاہ ہو جائیں کہ شرک کیا ہے اور اسلام کے نزدیک شرک کاحقیقی مفہوم کیا ہے

کیونکہ شرک ایک ایسا زہر ہلاہل ہے جو انسان کی بربادئ ایمان اور اعمال صالحہ کو برباد کرنے کا سبب بنتا ہے یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہماری دینا و آخرت کی بہتری کا دارو مدار ہے اور اس سے عدم واقفیت کی بنا پر ہو سکتا ہے کہ ہمارا دامن اس غٖلاظت سے آلودہ ہو چکا ہو اور ہماری دینا و آخرت کی بربادی کا سامان تیار رکھا ہو لہذا اس بارے میں معلومات حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم و بے حد ضروری ہے

لہذا سب سے پہلے توحید و شرک کی تعریف کی جاتی ہے

توحید کی تعریف:حضرت علامہ مولانا سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ توحید کی تعریف میں لکھتے ہیں

"اللہ تعالی کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ہونے سے پاک ماننا یعنی جس طرح اللہ تعالی ہے ویسا کسی کو خدا نہ ماننا اور علم و سماعت و بصارت وغیرہ جیسی صفات اللہ تعالی کی ہیں ایسی صفات کسی کی نہیں یہ عقیدہ رکھنا توحید کہلاتا ہے

شرک کی تعریف:ھو اثبات الشریک فی الفھیت بمعنی واجب الوجود کما للمجوس او بمعنی استحقا قا لعبادۃ کما للعبد الاصنام (شرح عقائد)

ترجمہ:شرک یہ ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو واجب الوجود ماننا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے ۔ یا اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو لائق عبادت جاننا جیسا کہ بت پرستوں کا عقیدہ ہے

واجب الوجود:ایسی ذات جو اپنے موجود ہونے میں کسی کی محتاج نہ ہو اور نہ ہی اس کی کوئی ابتدا ہو اور نہ انتہا جیسے اللہ پاک کی ذات ۔ اب اگر کسی نے یہ عقیدہ رکھا کہ جیسے اللہ پاک کی ذات واجب الوجود ہے اسی طرح کوئی دوسرا بھی واجب الوجود ہے مثلا کسی فرشتے یا نبی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ بھی واجب الوجود ہے تو بے شک ایسا شخص مشرک ہے

الحمدللہ اہلسنت و الجماعت میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو یہ عقیدہ رکھتاہو کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام یا کوئی ولی واجب الوجود ہے اللہ پاک کی طرح ۔۔۔یا جیسے اللہ تعالی کی ذات کی کوئی ابتدا نہیں ایسے ہی کسی نبی ولی کی بھی کوئی ابتدا و انتہا نہیں ۔۔ایسا عقیدہ کوئی بھی نہیں رکھتا

شرک کی اقسام

(1)شرک فی الذات (2) شرک فی الصفات

شرک فی الذات: یعنی اللہ تعالی کی ذات پاک میں کسی غیر کو شریکٹھہرانا مطلب یہ کہ اللہ تعالی کی ذات جیسا کسی دوسرے کو سمجھنا اللہ تعالی کی ذات با برکت واجب الوجود ہے لہذا کسی دوسرے کو واجب الوجود ماننا شرک فی الذات کہلاتا ہے

شرک فی الصفات:اللہ تعالی کی صفات عالیہ میں کسی غیر کو شریک ٹھہرانا یعنی جس طرح اللہ تعالی صفات عالیہ کے ساتھ متصف ہے اسی طرح کسی دوسرے میں ثابت کرنا شرک فی الصفات کہلاتا ہے

سوال:سمیع و بصیر اللہ تعالی کی صفات ہیں اگر یہ صفات کسی دوسرے میں ثابت کی جائیں تو کیا یہ شرک ہے ؟

جواب:اللہ تعالی سمیع و بصیر ہے اور انسان بھی سمیع و بصیر

جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے

ان اللہ سمیع بصیر (بے شک اللہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔)

اور ایک جگہ انسان کی صفات کو بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ

فجعلنٰہ سمیعا بصیرا(ہم نے انسان کو سننے اور دیکھنے والا بنایا )

تشریح : ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے سمیع و بصیر کی صفات اپنے لئے بھی بیان فرمائی ہیں اور انسان کے لئے بھی لیکن اللہ تعالی اور انسان کی صفات میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفا ازلی وابدی ہیں اور بندوں کی یہ صفات اللہ تعالی کی محتاج ہین اس لئے کہ یہ اللہ تعالی کی عطا کردہ ہیں جبکہ اللہ تعالی کی یہ صفات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔

اسی طرح اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک صفت رؤف و رحیم بھی ہے جیسا کہ سورہ نور میں ارشاد ہے

ان اللہ رؤف رحیم (بے شک اللہ تعالی رؤف رحیم ہے)

ایک دوسرے مقام پر اپنے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا

وبالمؤمنین رؤف رحیم (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں پر روف و رحیم ہیں

تشریح: ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے اپنے لئے بھی اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئےبھی رؤف و رحیم کی صفات بیان فرمائیں ہیں

لیکن فرق ان میں بعینہ اسی طرح ہوا جیسے پہلے بیان ہوا کہ اللہ تعالی کی یہ صفات ذاتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطائی

اللہ تعالی کی ذات قدیم ہیں جبکہ انسان کی حادث ہیں یعنی ختم ہونے والی ہیں

قدیم:جس کی کوئی ابتدا نہ ہو یعنی بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالی کی یہ صفات ایک سال پہلے تھیں اب نہیں بلکہ اللہ تعالی کی یہ صفات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی

اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے

ان العزۃ للہ جمیعا (بے شک عزت صرف اللہ کے لئے ہے)

دوسرے مقام پر ارشاد ہوا

وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین (بے شک عزت اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے اورمومنوں کے لئے ہے

تشریح : پہلی آیت میں عزت صرف اللہ کے لئے ثابت ہے جبکہ دوسری آیت میں نبی پاک اور تمام مومنوں کےلئے

ان آیات مبارکہ میں جو صفات اللہ تعالی کے لئے بیان ہوئی ہیں وہی اس کے بندوں کے لئے بھی بیان ہوئی ہیں

اب دل کے اندھوں سے ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا قرآن شرک کی دعوت دے رہا ہے ؟ کہ جو صفات اللہ کے لئے ثابت کیں وہی غیراللہ کے لئے بھی ثابت کیں ۔یقینًا ایسا نہیں ۔ قرآن شرک کی دعوت نہیں دیتا بلکہ نام نہاد توحید کے داعی اپنے قلبی بغض و عناد کی وجہ سے اہلسنت والجماعت پر شرک کے فتوے لگا کر اپنی جہالت کا اظہار کرکے تفرقہ بازی کو ہوا دیتے ہیں اور فتنہ و فساد کے ابواب کھول کر امت محمدیہ میں انتشار پیدا کرتے ہیں

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا چاہئے تو یہ تھا کہ امت مصطفی کو متحد کیا جاتا اور کفار کے ناپاک ارادوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت محمدیہ کو تیار کیا جاتا مگر افسوس کہ ان لوگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو مسلمانوں کو مشرک و بدعتی ثابت کرنے میں جھونک دیا جبکہ نبی غیب دان صلی اللہ علیہ وسلم تو ہزاروں سال پہلے ارشاد فرما چکے

انی لا اخشٰی علیکم ان تشرکوا ولکن اخشی ان تفافسوا(بخاری)

مجھے اس بات کا کوئی خدشہ نہیں کہ تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گے مگر مجھے اس بات کا خوف ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ حسد کرو گے

اس حدیث پاک میں تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں شرک کی موت کی مہر ثبت کر دی لیکن یہ لوگ اس غلاظت کو زندہ کرنے میں مُصِر (اصرار کرنے والے)ہیں اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائے(امین)

شرک کی تعریف و اقسام مختصر مضمون تعصب کی عینک اتار کر پڑھیں

1 comments
شرک کا معنیٰ ہے اللہ عزوجل کے سوا کسی کو واجبُ الوجود یا مستحق ِ عبادت جاننا یعنی اُلُوہیت میں دوسرے کو شریک کرنا ۔ بہار شریعت ، حصہ ۱ ، ص ۹۶
واجبُ الوجود ایسی ذات کو کہتے ہیں جس کا وجود ضروری اور عدم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، جس کو کبھی فنا نہیں ، کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ جو خود اپنے آپ سے موجود ہے اور یہ صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ ہمارا اسلام ، حصہ سِوُم، ص ۹۵
شرک کی اقسام
شرک فی الذات ۔
شرک فی العبادات ۔
شرک فی الصفات
شرک فی الذات۔ اللہ عزوجل کے سوا کسی کو ازلی ابدی مستقل غیر محتاج تسلیم کرنا۔
شرک فی العبادات۔ کسی کو ازلی ابدی سمجھ کر اُس کی بندگی کرنا۔
شرک فی الصفات۔ کسی غیر اللہ میں اللہ جیسی صفتِ ذاتی و ازلی و ابدی تسلیم کرنا۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایک ہوتی ہے عبادت اور ایک ہوتی ہے عبادت ۔ کسی کی تعظیم کرنا شرک نہیں مثلاً والدین کو آتا دیکھ کر تعظیماً اُٹھنا شرک نہیں ہے ۔ یا کسی بزرگ کو آتا دیکھ کر اُٹھنا شرک نہیں ہے۔ بعض کم فہم لوگ تعظیم کو بھی شرک ٹھہراتے پھرتے ہیں مگر خود اپنے استاذ کو آتا دیکھ کر اُٹھ کر کھڑے بھی ہو جاتے ہیں اور اُن کے آگے جھکتے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر اِن کی بات مان ہی لی جائے کے تعظیم شرک ہے تو اللہ عزوجل نے قرآن میں تعظیم کا حکم کیوں دیا اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔
وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَعَزَّرْتُمُوۡہُمْ سورہ مائدہ ، آیت ۱۲
ترجمہ ۔ میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو
فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ سورہ الاعراف ، آیت ۱۵۷
ترجمہ ۔ وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے
وَمَنۡ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ سورہ حج ، آیت ۳۰
ترجمہ ۔ اور جو اللّٰہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے
وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ سورہ حج ، آیت ۳۲
ترجمہ ۔ اور جو اللّٰہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے اس کے علاوہ بھی اللہ تعالٰی نے کئی مقامات پر تعظیم کا حکم فرمایا ہے اگر تعظیم کرنا شرک ہوتا تو اللہ تعالٰی قرآن میں تعظیم کا حکم کیوں ارشاد فرماتا؟ یہی کم فہم لوگ شرک فی الصفات کو آڑ بنا کر اپنے کم فہمی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو اللہ کے سوا کوئی نہیں دیتا اس کے سوا کسی سے مانگنا شرک ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کو حاجت روا ماننا شرک ہے اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے۔ تو یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ اس طرح ہر کسی کو مشرک کہتے پھرنا خود ایمان سے پھرنے کی دلیل ہے۔ اگر کوئی اللہ کے علاوہ کسی کو بالذات مدد کرنے والا تسلیم کرتا ہے تو وہ بلا شبہ کافر ہے مگر یہ نہیں کہ اب کسی سے مدد مانگ ہی نہیں سکتے یہ بلکل غلط ہے۔ جیسے حضور داتا علی ہجویری رحمت اللہ علیہ کو داتا کہا جائے تو دشمنان اسلام اس کو کفر و شرک کہنا شروع کر دیتے ہیں کہتے ہیں داتا تو اللہ ہے کسی بندے کو داتا کہنا کفر ہے تو سنو میرا رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔
اِنَّ اللہَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْبَصِیۡرُ سورہ مؤمن ، آیت ۲۰
ترجمہ ۔ بیشک اللّٰہ ہی سنتا دیکھتا ہے۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٭ۖ نَّبْتَلِیۡہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا سورہ دہر ، آیت ۲
ترجمہ ۔ بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے کہ وہ اسے جا نچیں تو اسے سنتا دیکھتا کردیا یہاں دیکھو اللہ عزوجل نے قرآن میں اپنے لئے سمیع اور بصیر کا لفظ استعمال فرمایا اور آدمی کیلئے بھی سمیع اور بصیر کا لفظ استعمال فرمایا ہے یقیناً سمجھ والوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہو گی کہ لفظ ایک جیسے آ سکتے ہیں مگر معنیٰ میں برابری نہیں آ سکتی ۔ اللہ جب دیتا ہے تو کسی سے لے کر نہیں دیتا لیکن جب کسی ولی اللہ سے مانگا جائے تو خود سے نہیں دیتے بلکہ وہ اللہ سے لے کر دیتے ہیں اللہ کی صفت ذاتی ہے اور مخلوق میں ہر کسی کی صفت عطائی ہے۔ اگر اب کوئی کہے کہ داتا صاحب تو وہ کافر نہیں ہے ۔ اللہ بھی داتا ہے لاہور والے بھی داتا ہیں لفظوں میں برابری ہے مگر معنیٰ میں نہیں ہو سکتے ۔ کہ اللہ کو جب داتا کہا جاتا ہے تو وہ اس کی بالذات صفت ہے اور جب داتا علی ہجویری رحمت اللہ علیہ کو داتا کہا جائے تو اُن کی یہ صفت عطائی ہے۔ میرا رب عزوجل فرماتا ہے۔
اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ سورہ البقرہ ، آیت ۱۴۲
ترجمہ ۔ بیشک اللّٰہ آدمیوں پر بہت مہربان مہر والا ہے
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ سورہ توبہ ، آیت ۱۲۸
ترجمہ ۔ بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ اس آیت میں دیکھو اللہ عزوجل نے اپنے لیے بھی رؤف و رحیم کے الفاظ استعمال فرمائے اور اپنی نبی ﷺ کے لیے بھی یہی الفاظ استعمال فرمائے۔ مزید دیکھو میرا رب تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَنۡتَ مَوْلٰىنَا فَانۡصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیۡنَ سورہ البقرہ ، آیت ۲۸۶
ترجمہ ۔ تُو ہمارا مولیٰ ہے تو کافروں پر ہمیں مدد دے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو مولانا کہہ کر پکارا گیا ہے اور وہابی جو کہ کہتا ہے اللہ کہ سوا کوئی مولا نہیں ہے تو وہابی اپنے مولوی کو مولانا کیوں کہتے ہیں اس آیت کی رو سے اللہ کو بھی مولانا کہا گیا ہے اب چاہیے تو یہ کہ اللہ کہ سوا کسی کو مولانا نہ کہا جائے مگر یہ کہتے ہیں ۔ اللہ بھی مولانا مگر کھاتا کچھ نہیں اور وہابی بھی مولانا مگر کچھ چھوڑتا نہیں۔ قرآن پاک میں سورہ یوسف میں وہ واقعہ موجود ہے جہاں قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دو ساتھی آپ علیہ السلام سے اپنا خواب بیان کرتے ہیں تو آپ نے جوتعبیر ارشاد فرمائی اُس کو اللہ عزوجل نے قرآن میں ارشاد فرمایا۔
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیۡ رَبَّہٗ خَمْرًا سورہ یوسف ، آیت ۴۱
ترجمہ۔ اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا اب بتاؤ کہ بادشاہ کو رب کہا گیا ہے۔ اب کیا کہو گے۔ رب کا معنٰی ہے پالنے والا ۔ اگر لفظِ رب کی نسبت اللہ کی طرف کی جائے تو اس کا معنٰی ہوتا ہے رب کی عطا سے پالنے والا ۔ اور اگر اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کا معنٰی ہوتا ہے حقیقی پالنے والا۔