Monday 27 April 2020

فضائل و مناقب حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا

0 comments
فضائل و مناقب حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا
محترم قارئین : تین (3) رمضان المبارک سن 11 ہجری یوم وصال شہزادی رسول خاتون جنّت حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا ہے اسی نسبت سے گدائے درِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی بارگاہِ شہزادی رسول خاتون جنّت حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا میں یہ نذرانہ عقیدت احادیث مبارکہ سے چن کر پیش کر رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ یہ نذرانہ اس فقیر کےلیئے ذریعہ نجات بنے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو بلایا پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں ۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام ﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3511، و کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1327، الرقم : 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 296، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 77، و في فضائل الصحابة، 2 / 754، الرقم : 1322،چشتی)

حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع تھیں اور کوئی ایک بھی ہم میں سے غیر حاضر نہ تھی، اِتنے میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی ﷲ عنھا وہاں تشریف لے آئیں ، تو ﷲ کی قسم اُن کا چلنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے سے ذَرّہ بھر مختلف نہ تھا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستئذان، باب : من ناجي بين الناس ومن لم بسر صاحبه فإذا مات أخبر به، 5 / 2317، الرقم : 5928، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 263، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الطيالسي في المسند : 196، الرقم : 1373، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 247، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 101، 102، الرقم : 188،چشتی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اَزواج جمع تھیں اور کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھی ۔ اتنے میں حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنھا آئیں جن کی چال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے کے مشابہ تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مرحبا (خوش آمدید) میری بیٹی ! پھر اُنہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا ۔ اسے امام مسلم، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، 1906، الرقم : 2450، و ابن ماجة في السنن، کتاب : ماجاء في الجنائز، باب : ماجاء في ذکر مرض رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 518، الرقم؛ 1620، و النسائي في السنن الکبري، 4 / 251، الرقم : 7078، 5 / 96، 146، الرقم : 8368، 8516، 8517، و في فضائل الصحابة، 77، الرقم : 263، و في کتاب الوفاة، 1 / 20، الرقم : 2،چشتی)

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ سلام ﷲ علیہا سے بڑھ کر کسی کو عادات و اَطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 700، الرقم : 3872، و أبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في القيام، 4 / 355، الرقم : 5217، و النسائي في فضائل الصحابة : 78، الرقم : 264، و الحاکم في المستدرک، 4 / 303، الرقم : 7715، و البيهقي في السنن الکبري، 5 / 96، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 248، و إبن جوزي في صفة الصفوة، 2 / 6، 7،چشتی)

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی ﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے ’’ الادب المفرد‘‘ میں اور امام نسائی و ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 326، 377، الرقم : 947، 971، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، الرقم : 9236، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 403، الرقم : 6953، و الحاکم في المستدرک، 3 / 167، 174، الرقم : 4732، 4753، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 242، الرقم : 40890، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 101، و ابن راهوية في المسند، 1 / 8، الرقم : 6،چشتی)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب آیت : ’’جب ﷲ کی مدد اور فتح آ پہنچے ۔ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو بلایا اور فرمایا : میری وفات کی خبر آ گئی ہے، وہ رو پڑیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مت رو، بے شک تم میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو وہ ہنس پڑیں ، اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج نے بھی دیکھا ۔ انہوں نے کہا : فاطمہ! (کیا ماجرا ہے)، ہم نے آپ کو پہلے روتے اور پھر ہنستے ہوئے دیکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا : میری وفات کا وقت آ پہنچا ہے ۔ (اس پر) میں رو پڑی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مت رو، تم میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھے ملو گی، تو میں ہنس پڑی ۔ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 51، الرقم : 79، و ابن کثير في تفسير قرآن العظيم، 4،چشتی)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِفَاطِمَة اللَّهُمَّ، إِنِّي أُعِيْذُهَابِکَ وَ ذُرِّيَتَهَا مِنَ الْشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے لئے خصوصی دعا فرمائی : اے ﷲ! میں (اپنی) اس (بیٹی) اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں ۔ اس حدیث کو امام ابن حبان، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 394، 395، الرقم : 6944، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 409، الرقم : 1021، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الهيثمي في موارد الظمآن، 550، 551، الرقم : 2225، و ابن الجوزي في تذکرة الخواص، 1 / 277، و المحب الطبري في ذخائر العقبي، 1 / 67،چشتی)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : لَمْ يَکُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِرَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَ فَاطِمَة سلام ﷲ عليهم. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کوئی بھی شخص حضرت حسن بن علی اور حضرت فاطمہ الزہراء (رضی اللہ عنھم) سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 164،چشتی)

حضرت امّ سلمی رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام ﷲ علیھا اپنی مرض موت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی ۔ بیماری کے اس پورے عرصہ کے دوران جہاںتک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے ۔ سیدۂ کائنات نے کہا : اے اماں ! میرے غسل کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی ۔ آپ نے جہاں تک میں نے دیکھا بہترین غسل کیا۔ پھر بولیں : اماں جی! مجھے نیا لباس دیں ۔ میں نے ایسا ہی کیا آپ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئیں ۔ ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے کر لیا پھر فرمایا : اماں جی : اب میری وفات ہو جائے گی، میں (غسل کر کے) پاک ہو چکی ہوں ، لہٰذا مجھے کوئی نہ کھولے پس اُسی جگہ آپ کی وفات ہوگئی ۔ حضرت اُمّ سلمی بیان کرتی ہیں کہ پھر حضرت علی کرم ﷲ وجہہ تشریف لائے تو میں نے انہیں ساری بات بتائی ۔ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 461، الرقم : 27656. 27657، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 113، والزيلعي في نصب الراية، 2 / 250، والطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 / 103، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 210، وابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 221،چشتی)

عَنْ جَابِرٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ بَنِي أُمٍّ عُصْبَةٌ يَنْتِمُوْنَ إِلَيْهِمْ إِلَّا ابْنَي فَاطِمَة، فَأَنَا وَلِيُهُمَا وَ عُصْبَتُهُمَا.رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کی اولاد کا عصبہ (باپ) ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے ، سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، کہ میں ہی اُن کا ولی اور میں ہی اُن کا نسب ہوں ۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 179، الرقم : 4770، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف بحب اَقرباء الرسول صلي الله عليه وآله وسلم و ذَوِي الشرف، 1 / 130،چشتی)

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي ﷲ عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : کُلُّ نَسَبٍ وَ سَبَبٍ يَنْقَطِعُ يَوْمَ الْقِيَامَة إِلَّا مَا کَانَ مِنْ سَبَبِي وَ نَسَبِي . رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ .
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے نسب اور رشتہ کے سوا قیامت کے دن ہر نسب اور رشتہ منقطع ہو جائے گا ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم، احمد اور بزار نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 153، الرقم : 4684، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 625، 626، 758، الرقم : 1069، 1070، 1333، و البزار في المسند، 1 / 397، الرقم : 274، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، 45، الرقم : 2633، 2634، و في المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم : 5606، 6 / 357، الرقم : 6609،چشتی)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں ۔ اسے امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4736، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم : 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم : 2952، والخطيب في تاريخ بغداد، 4 / 401،چشتی)

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ فَاطِمَة حَصَّنَتْ فَرْجَهَا فَحَرَّمَهَا ﷲُ وَ ذُرِّيَتَهَا عَلَي النَّارِ.رَوَاهُ الطَّبَرانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت و پاک دامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اور اُس کی اولاد کو آگ پر حرام فرما دیا ہے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 407، الرقم : 1018، و البزار في المسند، 5 / 223، الرقم : 1829، و الحاکم في المستدرک، 3 / 165، الرقم : 4726، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 188، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 115، 116،چشتی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رضي ﷲ عنهما، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِفَاطِمَة رضي ﷲ عنها : إِنَّ ﷲَ عزوجل غَيْرُ مُعَذِّبِکِ وَلَا وُلْدِکِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 263، الرقم : 11685، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 202، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 117،چشتی)

عَنْ عَائِشَة رضي ﷲ عنها قَالَتْ : مَا رَأيْتُ أفْضَلَ مِنْ فَاطِمَة رضي ﷲ عنها غَيْرَ أبِيْهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ .
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے افضل اُن کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص نہیں پایا ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 137 الرقم : 2721، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 201، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 277، الرقم : 24،چشتی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِفَاطِمَة رضي ﷲ عنها : أَنْتِ أَوَّلُ أَهْلِي لَحُوْقًا بِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ وَأَبُونُعَيْمٍ .
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنھا سے فرمایا : میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تو مجھ سے ملے گی ۔ اس حدیث کو امام احمد نے ’’فضائل الصحابہ‘‘ میں امام ابونعیم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في فصائل الصحابة، 2 / 764، الرقم : 1345، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 40،چشتی)

عَنْ عَمْرِو بْنِ دِيْنَارٍ، قَالَ : قَالَتْ عَائِشَة رضي ﷲ عنها : مَا رَأيْتُ أحَدًا قَطُّ أصْدَقُ مِنْ فَاطِمَة غَيْرَ أبِيْهَا . رَوَاهُ أبُونُعَيْمٍ .
ترجمہ : حضرت عمرو بن دینار رحمۃ ﷲ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا میں نے فاطمہ سے زیادہ سچا کائنات میں کوئی نہیں دیکھا ۔ اس حدیث کو امام ابونعیم نے روایت کیا ہے ۔ (حلية الأولياء، 2 / 41، 42،چشتی)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّمَا سُمِّيَتْ بِنْتِي فَاطِمَة لِأنَّ ﷲَ عزوجل فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ .
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنھما سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے جدا کر دیا ہے ۔ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الهندي في ’کنز العمال، 12 / 109، الرقم : 34227، و السخاوي في ’اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 96،چشتی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أنَا مِيْزَانُ الْعِلْمِ ، وَ عَلِيٌّ کَفَتَاهُ، وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ خُيُوْطُهُ ، وَ فَاطِمَة عَلَاقَتُهُ وَ الْأئِمَّة مِنْ بَعْدِي عُمُوْدُهُ يُوْزَنُ بِهِ أعْمَالُ الْمُحِبِّيْنَ لَنَا وَ الْمُبْغِضِيْنَ لَنَا .
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا ترازو ہوں ، علی اس کا پلڑا ہے ، حسن اور حسین اُس کی رسیاں ہیں ، فاطمہ اُس کا دستہ ہے اور میرے بعد اَئمہ اَطہار (اُس ترازو کی) عمودی سلاخ ہیں،جس کے ذریعے ہمارے ساتھ محبت کرنے والوں اور بغض رکھنے والوں کے اَعمال تولے جائیں گے ۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 44، الرقم : 107، و العجلوني في ’کشف الخفاء، 1 / 236)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

شان سیدہ ، زاہدہ ، طیّبہ ، طاہرہ ، عابدہ حضرت بی بی فاطمۃُ الزہرا سلام اللہ علیہا
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک روز صبح کے وقت باہر تشریف لے گئے ۔ آپ کے اوپر سیاہ اُون سے بُنی ہوئی چادر تھی ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے توآپ نے اُنہیں اس چادر میں داخل کرلیا ۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تواُنہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا ، پھرحضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو انہیں بھی داخل کرلیا ، پھر حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے توآپ نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا ۔ پھرفرمایا ،''بے شک اﷲ یہ چاہتا ہے کہ اے گھر والو! کہ تم سے گندگی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے ۔ (صحیح مسلم، مصنف ابن ابی شیبہ، المستدرک للحاکم،چشتی)

حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْس۔۔۔۔۔۔الخ ۔ حضرت امِ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے کاشانہ اقدس میں نازل ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو بلا کر چادر اوڑھائی پھر دعا مانگی، اے اللہ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں، ان سے گندگی دور رکھ اور انہیں خوب پاک وصاف بنا دے۔ حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ آپ نے فرمایا ، تم اپنی جگہ پر ہو اور تم خیر کی جانب ہو ۔ (ترمذی ابواب المناقب،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے نکلتے اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے دروازے کے پاس سے گزرتے تو فرماتے ، اے اہلِ بیت! نماز قائم کرو ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْس۔۔۔۔۔۔الخ ۔ بے شک اﷲ یہ چاہتا ہے کہ اے گھر والو ! کہ تم سے گندگی دور کردے اور تمہیں خوب پاک صاف کردے ۔ (مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، المستدرک للحاکم،چشتی)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ، فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَ کُمْ ۔۔۔۔۔۔ الخ۔'' فرما دو ، آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو''۔ تو رسول کریم انے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا، اے اللہ ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ث (صحیح مسلم)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جمع تھیں کہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آگئیں ان کا چلنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چلنے سے مختلف نہیں تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں دیکھا تو فرمایا ، میری بیٹی خوش آمدید ۔ پھر انہیں بٹھایا اور ان کے ساتھ سرگوشی فرمائی تو وہ بہت زیادہ روئیں ۔ اُن کا غم دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دوبارہ سرگوشی فرمائی تو وہ ہنسنے لگیں ۔ میں نے پوچھا ،آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تم سے کیا سرگوشی فرمائی تھی ؟ کہا ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے راز کو فاش نہیں کرسکتی ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوا تو میں نے کہا ، میں تمہیں اس حق کا واسطہ دیتی ہوں جو میرا تم پر ہے کہ مجھے وہ بات بتادو ۔ کہا ، ہاں اب بتادیتی ہوں ۔ پہلی بارجب آپ نے مجھ سے سرگوشی فرمائی تو بتایا کہ جبرئیل میرے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اس سال دو مرتبہ کیا ہے، میرے خیال میں میرا آخری وقت قریب آگیا ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا اور صبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے اچھا پیش رو ہوں ۔ یہ سن کر میں روئی ۔ آپ نے جب میری پریشانی ملاحظہ فرمائی تو دوبارہ سرگوشی کی اور ارشاد فرمایا : اے فاطمہ! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم ایمان والی عورتوں کی سردار ہو یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو ۔ (صحیح مسلم) ۔
آپ ہی سے دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم انے مجھ سے سرگوشی فرمائی کہ اسی مرض میں میرا وصال ہو جائے گا تو میں رونے لگی۔ پھرآپ نے سرگوشی فرماتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہلِ بیت میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملوگی، تو میں ہنس پڑی ۔ (بخاری، مسلم)

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادات واطوار اور نشست وبرخاست میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا ۔ (المستدرک، فضائل الصحابۃ للنسائی،چشتی)

حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے مل کر سفر پر روانہ ہوتے اور جب سفر سے تشریف لاتے تو بھی سب سے پہلے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرماتے ، میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں ۔ (المستدرک للحاکم،صحیح ابن حبان)

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (بخاری،مسلم)

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی ضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کے لیئے نکاح کا پیغام دیا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، بیشک فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے اور مجھے یہ بات پسند نہیں کہ اُسے کوئی تکلیف پہنچے ۔ خدا کی قسم ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔ (بخاری، مسلم،چشتی)

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کر دیں ۔ میں اُن کو اجازت نہیں دیتا ، میں ان کو اجازت نہیں دیتا ، پھر میں ان کو اجازت نہیں دیتا ۔ ہاں اگر ابنِ ابی طالب چاہے تو میری بیٹی کو طلاق دیدے اورپھر اُن کی بیٹی سے شادی کر لے ۔ کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے ۔ جو چیز اُسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے پریشان کرتی ہے اورجو چیز اُسے تکلیف دیتی ہے وہ مجھے تکلیف دیتی ہے ۔ (مسلم، ترمذی، ابوداؤد)

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ اسے تکلیف دینے والامجھے تکلیف دیتا ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے ۔ (مسند احمد،المستدرک)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہرضی اﷲ عنہا سے فرمایا، بیشک اللہ تعالیٰ تیری ناراضگی پر ناراض اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے ۔ (المستدرک،طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں ۔ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد،چشتی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہرضی اﷲ عنہا کے لیے ان کی شادی کے موقع پر خاص دعا فرمائی، اے اللہ ! میں اپنی اس بیٹی کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔(صحیح ابن حبان، طبرانی فی الکبیر)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شادی کی ر ات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُن پر پانی چھڑکا اور فرمایا ، اے اللہ ! ان دونوں کے حق میں برکت دے اور ان دونوں پر برکت نازل فرما اور ان دونوں کے لیے ان کی اولاد میں برکت عطا فرما ۔ (طبقات ابن سعد، اُسدُ الغابہ)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، قیامت کے دن میرے حسب ونسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا ۔ ہر بیٹے کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے سوائے اولادِ فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں ۔ (مصنف عبدالرزاق، سنن الکبریٰ للبیہقی، طبرانی فی الکبیر،چشتی)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ثکے متعلق فرمایا ، میں اُن سے لڑنے والا ہوں جو اِن سے لڑیں اور اُن سے صلح کرنے والا ہوں جو اِن سے صلح کریں ۔ (ترمذی،ابن ماجہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دریافت فرمایا، عورت کے لیے کون سی بات سب سے بہتر ہے ؟ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے ۔ میں نے گھر آ کر یہی سوال سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کیا تو انہوں نے جواب دیا، عورت کے لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ اسے غیر مرد نہ دیکھے ۔ میں نے اس جواب کا ذکر حضور اسے کیا تو آپ نے فرمایا ، فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ (مسند بزار، مجمع الزوائد،چشتی)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، بیشک فاطمہ نے اپنی عصمت وپارسائی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد پر آگ حرام کر دی ہے۔ (المستدرک للحاکم، مسند بزار)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہاسے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا۔ (طبرانی فی الکبیر،مجمع الزوائد) علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، آج رات ایک فرشتہ جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا، اُس نے اپنے رب سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے کے لیے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن وحسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (ترمذی،مسند احمد، فضائل الصحابۃ للنسائی، المستدرک للحاکم،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا،سب سے پہلے جنت میںتم، فاطمہ ، حسن اور حسین داخل ہو گے ۔ میں نے عرض کی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہونگے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، وہ تمہارے پیچھے ہونگے ۔ (المستدرک للحاکم، الصواعق المحرقۃ:٢٣٥،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا ، میں، تم اور یہ دونوں ( یعنی حسن و حسین) اور یہ سونے والا (سیدنا علی جو کہ اُسوقت سو کر اُٹھے ہی تھے) قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہونگے ۔ (مسند احمد،مجمع الزوائد)

اُمُ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہیں مرحبا کہتے ، کھڑے ہو کر اُن کا استقبال کرتے ، اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بوسہ دیتے اور اُنہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔ (المستدرک،فضائل الصحابۃ للنسائی،چشتی)

حضرت جمیع بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے پوچھا ، لوگوں میں سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ فرمایا ، فاطمہ رضی اﷲ عنہا ۔ پوچھا، مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا ؟ فرمایا ، ان کے شوہر یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ (ترمذی،المستدرک، طبرانی فی الکبیر)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں عرض کی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کو میرے اور فاطمہ میں سے کون زیادہ محبوب ہے ؟ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ، فاطمہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے اور تم مجھے اس سے زیادہ عزیز ہو ۔ (طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد،چشتی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر گئے اور فرمایا ، اے فاطمہ ! خدا کی قسم ! میں نے آپ سے زیادہ کسی ہستی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک محبوب نہیں دیکھا ۔ اور خدا کی قسم ! لوگوں میں سے سوائے آپ کے والد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مجھے کوئی اور آپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، المستدرک للحاکم)

سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے وصال سے قبل حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے فرمایا ، میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردے کا پورا لحاظ رکھنا ۔ انہوں نے کہا ، میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ان پر پردہ ڈال دیتے ہیں (اس طرح جسم کی ہیئت نمایاں نہیں ہوتی) ۔ پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر ان پر کپڑا ڈال کر سیدہ کو دکھایا ۔ آپ نے پسند کیا پھر بعد وصال اسی طرح آپ کا جنازہ اٹھا ۔ (اُسدُ الغابہ، استیعاب)


حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا غیب سے آواز دے گا ، اے اہلِ محشر ! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  گزر جائیں ۔ (المستدرک للحاکم،اسدُ الغابہ)۔(طالبِ دع و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)








































حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئیں ۔

شیعہ محقق و محدث شیخ عباس قمی لکھتا ہے : جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور حالات پرسکون ہو گئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے سفارش کی اور رضا کے طلب گار ہوئے تو آپ راضی ہو گئیں ۔ (بیت الاحزان شیخ عباس قمی صفحہ نمبر 113)،(حق الیقین جلد اول صفحہ نمبر 202)،(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد نمبر 6 صفحہ 196)،(بحار الانوار ملا باقر مجلسی جلد نمبر 28 صفحہ نمبر 322)
سوچ فتنہ باز رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی سوچ اب بھی وقت ہے فتنہ بازی اور نفرت پھیلانے سے باز آجا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا گھر جلایا کا جواب
محترم قارئین : روافض یعنی شیعہ حضرات کے مذھب کی بنیاد جھوٹ یعنی تقیہ پر ہے اگر یہ جھوٹ نہ بولیں تو ان کا خود ساختہ مذھب خود بخود دفن ہو جائے گا ان کے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا گھر جلایا آیئے پہلے شیعہ کے جھوٹے اعتراض کو پڑھتے ہیں پھر اس کا جواب :

شیعہ اعتراض : ایک اعتراض جو شیعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ سقیفہ کے واقعہ کے بعد، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بیعت دینے سے انکار کیا تھا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر اور چند دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر جاؤ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکڑ کرلے آؤ ۔ ذرائع کے مطابق جیسے تاریخ طبری (اور دوسرے ذرائع) میں ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عمر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں گھر کا دروازہ توڑا اور علی رضی اللہ عنہ کو گھسیٹے ہوئے ابو بکر کی طرف لے گئے اور زبردستی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کروائی ۔ یہ واقعہ تمام تاریخ کی کتابوں ، جیسے صحیح البخاری، احمد بن حنبل، سیرہ النبوۃ از ابن ہشام، تاریخ طبری (عربی)، الستیعاب از عبدالبر، تاریخ الخلفاء ابن قتیبہ اور کنز المعال میں درج ہے ۔ وہ علی (رضی اللہ عنہ) کے گرد گھیرا ڈال کے کھڑے ہوئے ، ان کے گھر کا دروازہ جلایا اور ان کی مرضی کے خلاف ان کو گھر سے نکالا ، علی رضی اللہ عنہ کے گھر کی خواتین کی سردار (حضرت فاطمہ علیہ السلام) کو دروازے کے درمیان دبایا اور اسطرح محسن رضی اللہ عنہ (جن سے فاطمہ چھ مہینے کی حاملہ تھیں) کو مار ڈالا ۔ 

شیعہ اعتراض کا جواب : شیعہ حضرات نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے افعال کے بارے میں دھوکہ دیا۔ یہ واقعہ ایسا نہیں تھا جیسا اس کو بتایا جاتا ہے ۔ جو کچھ بھی اس واقعہ سے متعلق صحیح بخاری، مسند احمد، کنزالاعمال، البدایہ النہایہ، الکامل از ابن اثیر، سیرۃ النبی از ابن ہشام اور تاریخ السلام از لیث سحابی میں موجود ہے، جب کھنگالا جاتا ہے تو وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انتقال کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ اور انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم ، تدفین کے مراحل میں مشغول تھے ۔ دوسری طرف کچھ انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سقیفہ بنی سعدہ میں اکھٹا ہوئے ۔ ان کا ارادہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کا تھا ۔ کیونکہ یہ اکابر صحابہ اور مہاجرین صحابہ کی باہمی مشاورت کے خلاف تھا اس لئے نہایت ہی نامناسب تھا ۔ اسکو دیکھ کر ایک صحابی فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھرکی طرف روانہ ہوئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا ، جو تدفین کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ پہلے تو حضرت عمر نے انہماک کی وجہ سے آنے سے انکار کیا ، لیکن جب صحابی نے اس پراسرار کیا اور اس کی اہمیت کے متعلق اطلاع کی تو عمر باہر نکل کر آئے صحابی نے انہیں انصار کے مجمع کے بارے میں بتایا ۔ اس کو سن کر حضرت عمر نے فوراً حضرت ابوبکر کو بلایا جو کہ خود تدفین کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ جب عمر نے ان کو معاملے کی اہمیت کے بارے میں بتایا ، تو وہ بھی سقیفہ جانے کے لئے تیار ہوگئے اور ان کے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بھی ہولئے ۔ 

یہاں پر یہ معاملہ صاف ہوگیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت حاصل کرنے کے لئے کوئی ابتدائی قدم نہیں اٹھایا تھا ، اس کے برعکس وہ تدفین کے مراحل میں مصروف تھے ۔ کوئی دوسرے صحابی آئے اور انہوں نے حضرت عمر کو انصار کے جمع ہونے کے بارے میں بتایا ۔ 

اس واقعے کے بعد کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہمیت کے بارے میں جان سکتا ہے ۔ نیز حضرت ابوبکر اکیلے سقیفہ بنی سعدہ نہیں گئے تھے ، بلکہ ان کے ساتھ عمر اور عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنھم بھی ساتھ گئے تھے ۔ (یہ تین صحابہ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے ، یعنی ان دس صحابیوں میں سے تھے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنت کی خوشخبری دی تھی) ۔ بظاہر حضرت ابوبکر ، حضرت علی یا حضرت زبیر کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے ، کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب سے نزدیکی رشتہ دار تھے اور ان کا تدفین کے انتتظامات میں رکنا زیادہ مناسب تھا ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو روضہ مبارک میں منتقل کیا کو فرمایا ’’ ایک آدمی کی تدفین کے لئے اسکے اہل خانہ اور قریبی رشتہ دار ذمہ دار ہوتے ہیں ۔‘‘ (سنن ابوداؤد ج 2ص 102،چشتی)

عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اس کی وضاحت کی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی سعدہ اس لئے گئے تھے کہ انصار کو مطلع اور انکو وضاحت کرسکیں۔ انکو اسکا نہیں پتہ تھا کہ اسکے بیچ میں انکو خلیفہ مقرر کرنے کی ذمہ داری دی جارہی ہے۔ شاید اسی وجہ سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر نہیں گئے تھے۔ جب یہ تینوں صحابہ سقیفہ بنی سعدہ پہنچے تو دیکھا کہ انصارایک بہت جذباتی حالت میں ہیں اور سعد بن عبادہ کو خلیفہ کے طور پر مقرر کرنے والے ہیں۔ یہ کسی بھی حالت میں درست اور مناسب نہیں تھا۔ مہاجرین کے علاوہ ، انصار میں سے کوئی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیعت لینے پر خوش نہیں تھا اور اس کا بہت بڑا خطرہ تھا کہ بغاوت نہ ہوجائے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی نشاندہی بخاری میں موجود میں خطبہ میں کی تھی۔ اسی لئے ابوبکر آگے آئے اور انہوں نے بڑی ذہانت کے ساتھ اس کی وضاحت کی کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے کیونکہ تمام عرب انکی عزت کیا کرتے ہیں۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرات عمر اور ابوعبیدہ بن جراح رضوان اللہ علہم اجمعین کے ہاتھ کھڑا کرکے گذارش کی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو ۔  انصار اس پر راضی نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ایک امیر انصار میں سے ہونا چاہیے او ر ایک مہاجرین سے۔ لیکن یہ ممکن کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ملک میں ایک ہی وقت میں دو حکمران ہوں؟ اس موقع پر حضرت عمر نے کہا ’’ ایک میان میں دوتلواریں نہیں رہ سکتی‘‘۔ جب حضرت عمر نے دیکھا کہ مسائل حل نہیں ہورہے اور اعتراضات ختم نہیں ہورہے ہیں اور بغاوت کا خدشہ سامنے آرہا ہے تو انہوں نے حضرت ابوبکر کو منبر پر کھڑا کردیا اور اعلان کیا کہ وہ انکے ہاتھوں پر بیعت کرنے جارہے ہیں۔ حضرت عمر کے ہاتھوں بیعت کرنے سے پہلے انصاری صحابہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیعت کرلی ۔ اسکو دیکھنے کے بعد تمام مہاجرین اور انصار جو وہاں موجود تھے ، انہوں نے بھی حضرت ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کرلی، سوائے سعد بن عبادہ کے ۔ جب حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کو خلافت کے اہل ہونے کا حقدار ثابت کیا تو انہوں نے کہا ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابوبکر کو اپنی زندگی میں نماز پڑھانے کے لئے آگے کیا تھا اور وہ ہی ثانی اثنین یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غار کے ساتھی تھے۔ عمر انکی موجودگی میں خلیفہ کیسے بن سکتا ہے ؟‘‘ حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے بھی یہی بات کی۔ زید بن ثابت جو ایک انصاری صحابی تھے، انہوں نے بھی کچھ اسی طرح کہا اور مہاجرین کی فضیلت اور اہمیت انصار پر واضح کی۔ اس طرح وہ انصار جنہوں نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے ، اپنی خوشی سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں بیعت کی ۔ 
یہ مجمع ایک اتفاقی واقعہ تھا ۔ انصار اس مجمع کے ہونے کے ذمہ دار تھے۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھم نے انکو جمع نہیں کیا تھا کہ خلافت حاصل کی جائے ۔ اس کے برعکس انکو سقیفہ بنی سعدہ جانے کے لئے مجبور کیا گیا تھا تاکہ وہ ایک بغاوت کو اٹھنے سے روکیں۔ اگر یہ طریقہ نہیں اختیار کیا جاتا اور یہ تین صحابہ سقیفہ بنی سعدہ سے چلے جاتے، انصار کا ایک گروہ اپنے آپ میں سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کرلیتا کیونکہ وہ ایک جذباتی حالت میں تھے اور خلیفہ مقرر کرنے میں دیر نہیں چاہتے تھے۔ اگر ایک اس وقت ایک انصار صحابی اکابر صحابہ کی غیر موجودگی میں خلیفہ مقرر ہوجاتے تو اس کا ایک قوی امکان تھا کہ عرب ان کی خلافت کو رد کردیتے اور ناتفاقی اور کشت و خون کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصآل کے فوری بعد ہی شروع ہوجاتا ۔ یہی بات وہ صحابی کہہ رہے تھے کہ جب انصار صحابی کو وہ مشورہ دے رہے تھے : تم لوگوں نے پہلے اسلام کو سہار ا دیا اور اسکی مدد دی، اب تم لوگ وہ پہلے افراد نہ بنو جو اسلام کو ختم کرو یعنی لڑائی جھگڑا آپس میں کرکے ۔‘‘
اب اس بات پر کوئی غور کرسکتا ہے کہ یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟ نہ انہوں نے خلافت کا مطالبہ کیا اور نہ ہی خلافت کے حصول کی کوشش کی۔ حضرت ابوبکر نے عمر اور ابوعبیدہ بن جراح کو خلافت کے لئے پیش کیا۔ حضرت عمر نے آپ کو خلافت کے لئے آگے کیا اور تمام مہاجرین اور انصار نے حضرت عمر کی اس دعوت کا قبول کیا۔ یہ کسی مصدقہ روایت سے ثابت نہیں ہے کہ ابوبکر اور عمر کسی سازش کاحصہ تھے۔ اگر کوئی اسکا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اسکا ثبوت لے کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس خلافت کا اپنی دورِ خلافت میں اتفاقی کہنا بھی اسی لئے تھا، کیونکہ ان کے ذہن میں اس خیال کا آنا ناممکن تھا یا یہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین اس بیعت کا حصہ نہیں بنے تھے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تدفین کے مراحل میں مصروف تھے اور بظاہر انکو نہیں پتہ تھا کہ کون گھر کے باہر ظاہر ہوا۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے مہاجرین نے اس لئے بیعت نہیں کی کہ وہ اس سے متفق نہیں تھے، اسی لئے ان صحابہ کو جو وہاں موجود نہیں تھے ملامت کا شکار نہیں کیا گیا تھا۔ ایک عام مجلس دوسرے دن مسجد نبوی میں منعقد ہوئی جس میں بقایا سب افراد کے لئے بیعت ہوئی تاکہ کسی کو خلافت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کہنے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ بھی کسی کالزام لگانا غلط ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے حضرت علی اور دوسرے صحابہ کو سقیفہ بنی سعدہ میں مدعو نہیں کیا تھا۔ انکو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے ، نہ ہی وہ اس ارادہ سے گئے تھے کہ خلافت اپنے لئے غضب کرلیں۔ سقیفہ بنی سعدہ میں جوکچھ ہوا وہ ایک اتفاق اور اچانک ہوا تھا۔ 

یہ کچھ کچھ روایات سے ثابت ہے کہ سقیفہ بنی سعدہ کے واقعے کی بعد ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھر تشریف لے کہ گئے اور تدفین کے بقایا مراحل میں حصہ لیا۔ اگلے دن ابوبکر مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوگئے اور عمر صحابہ کے سامنے کھڑے رہے ، پھر ابوبکر نے کچھ الفاظ ادا کیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد جو انہوں نے کہا تھا ، اس پر معذرت کی ۔ پھر مزید کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوگیا ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔‘‘ ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر کی طرف اشارہ کیا اور انکے فآائل کا اعتراف کیا۔ پھر فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یارِ غار تھے اور خلافت کے کسی اور کی نسبت سب سے زیادہ مستحق تھے اور سب لوگوں کو انکے ہاتھ ہر بیعت کرنا چاہیے۔ تمام صحابہ جو اس وقت مسجد نبوی میں موجود تھے انہوں نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسکو عام بیعت کہا جاتا ہے۔ اس بیعت کے موقع پر دو نہایت اہم اور مشہور صحابی علی اور زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعنین موجود نہ تھے۔ یہ ایک الجھاؤ تھا۔ حضرت ابوبکر نے انکے متعلق دریافت کیا۔ کچھ صحابہ کھڑے ہوئے اور علی اور زبیر کو مسجد نبوی میں بلالائے۔ جب یہ صحابہ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : آپ نے بیعت کیوں نہیں لی حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رشتہ دار اور داماد ہیں ؟ کیا آپ مسلمانوں کے درمیان ناتفاقی چاہتے ہو ؟‘‘ حضرت علی یہ سننے کے بعد اس پر معذرت کی اور حضرت ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کر لی ۔ حضرت ابوبکر نے حضرت زبیر سے بھی یہی سوال کیا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حواری اور رشتہ دار ہونے کے بعد بھی تم مسلمانوں کے درمیان نااتفاقی پیدا کرنے چاہتے ہو ؟ ‘‘ انہوں نے بھی اس پر اپنی معذرت پیش کی اور ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔ 

اب جہاں تک کچھ روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ کے گھر اکھٹے ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادھر گئے تو انکو دھمکایا، میں یہاں پر یہ کہوں گا کہ بظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تدفین کے بعد اور مسجد نبوی میں عام بیعت کے بعد، علی اور زبیر اور کچھ دوسرے مہاجرین ، فاطمہ کے گھر میں اکھٹے ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ چونکہ اب تم عام بیعت منعقد نہیں ہوئی تھی، اس لئے ہم علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیتے ہیں۔انہوں نے اس معاملے کو اپنے طور پر طے کیا اور زبیررضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ وہ علی کی مدد تلوار کے ذریعے کریں گے۔ دوسرے طرف بہت سے مہاجرین اور انصار پہلے ہی حضرت ابوبکر کے ہاتھوں سقیفہ بنی سعدہ میں بیعت کرچکے تھے، اب اگر ایک اور خلیفہ مقرر ہوجاتا تو بغاوت کا ایک بہت بڑا خدشہ پیدا ہوتااور انصار ایک بار پھر اپنے لئے الگ خلیفہ اور امیر مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے۔ اس لئے اس بغاوت کو دبانے لئے عمر ، فاطمہ کے گھر گئے جب علی اور زبیر گھر پر نہیں تھے۔ کنز العمال میں یہ درج ہے کہ عمر نے فاطمہ کوکہا کہ ’’ اے دخترِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، تمام لوگوں میں سے کوئی مجھے آپ کے باپ سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور اس کے بعد آپ سے زیادہ پیارا کوئی نہیں ۔ میرے پاس یہ بری خبر آئی ہے کہ یہ لوگ آپ کے گھر میں جمع ہوئے ہیں اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ اگر ان لوگوں کو روکا نہیں گیا تو خدا کی قسم میں ان کے گھر جلادوں گا ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمر لوٹ آئے اور جب علی اور زبیر گھر واپس آئے تو فاطمہ نے ان لوگوں سے یہ کہا ’’ کیا آپ کو پتہ ہے کہ عمر یہاں آئے تھے اور مجھ سے ایک عہد لیا کہ اگر تم لوگوں نے ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کی تو تم لوگوں کے گھر جلادیں گے ؟ خدا کی قس م! عمر اپنے عہد کو پورا کریں گے ۔ اس لئے میرے گھر سے اس ارادے سے چلے جائے کہ اپنے ارادے اور خیالات کو ملتوی کردیں اور دوبارہ میرے گھر اس ارادے سے نہیں آئیں ۔‘‘ علی اور زبیر گھر چھوڑ کر آگئے اور دوبارہ وہاں جمع نہیں ہوئے جب تک انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہ کرلی ۔ (کنز العمال ج 5، ص 651،چشتی)

کنز العمال کی اس روایت کے ذریعے کچھ نکات واضح اور صاف ظاہرہوتے ہیں :

جب عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی اور حضرت زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین گھر پر نہیں تھے۔اس لئے عمر کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور کوئی جھگڑا ہوا۔

(1) عمر رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نہایت عزت کے ساتھ پیش آئے انکو یہ بھی بتایا کہ آپ رضی اللہ عنہا انکے بچوں سے زیادہ محبوب ہیں ۔
(2) عمر نے فاطمہ کو کسی طور پر دھمکایا نہیں تھا۔
(3) جب عمر نے فاطمہ کا گھر چھوڑا، تو فاطمہ اور انکا گھر بالکل صحیح سالم تھا۔انکو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔بعد میں جب علی رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو فاطمہ نے یہ شکایت نہیں کی کہ عمر نے ان سے بدتمیزی کی۔ بجائے اسکے فاطمہ نے انکو مستقبل میں اپنے گھر میں عمر کی کی مخالفت اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کرنے سے روکا تھا۔
(4) علی رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر کے ہاتھوں بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کرلی تھی۔

یہ الزام حضرت عمر پر لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ کا گھر کا دروازہ توڑا اور علی اور فاطمہ کے پاس ایک غیر مہذبانہ انداز میں گئے، ان کے اس عمل کے نتیجے میں فاطمہ کا حمل ساقط ہوگیا ، یہ تمام الزام ایک جھوٹ اور من گھڑت ہے ۔ حقیقت میں یہ الزام دراصل حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی توہین کرتا ہے اور اسلام کا مذاق اڑاتا ہے ۔ کیا حضرت علی اتنے بزدل تھے کہ نہ اپنے گھر کو بچا سکے اور نہ ہی اپنی بیوی کا انتقام لے سکے ؟ جب حضرت علی خلیفہ بن گئے تو کیوں نہیں انہوں نے حضرت عمر کے خاندان سے اپنے مقتول بچے کا خون بہا لیا ؟ وہ لوگ جنہوں نے یہ روایات گھڑیں ہیں دراصل اسلام کے دشمن تھے ۔ ان لوگوں نے کفار کے سامنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اسطرح گمراہ تصویر کشی کی ہے کہ نعوذ باللہ وہ خلافت کے حصول کے پیاسے تھے ، ان کا کوئی قانونی سسٹم نہیں تھا ، طاقتور کمزو ر کا دبایا کرتا تھا ، سچ بولنا جرم تھا، ظالم کو سزا نہیں ملتی تھی، حکام کو خوش رکھنے کے لئے جھوٹ بولنا پڑتا تھا، جیسے منافق لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان کے دلوں میں اپنے حکمرانوں کے لئے برائی چھپی ہوتی ہے۔ استغفر اللہ۔ کیا آپ کا دل یہ الزامات اور خرافات قبول کرے گا ؟ کیا کبار صحابہ ایسا ہی کیا کرتے تھے ؟ کیا یہ صحابہ اس قابل نہیں تھے کہ انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں جیسے قیصر اور کسریٰ جیسوں بغیر سروسامانی کے کو تباہ و برباد کردیا تھا؟ کیا اللہ تعالی ظالموں کی مدد کرتا ہے ؟

یہ دعویٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا اسقاط ہوگیا تھا، ایک من گھڑت قصہ ہے ۔ یہ ایک مصدقہ تاریخی کتاب، البدایہ و النہایہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی میں ، حضرت فاطمہ نے ایک تیسرے بچے جس کا نام محسن تھا، جنم دیا تھا اور یہ بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی ہی میں وفات پا گیا تھا۔ اسی وجہ سے زیادہ تر تاریخ نویسوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صرف دو بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔

حضرت عمر نے ان لوگوں کے خلاف ایک سخت رویہ کیوں اختیار کیا جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہونے کے بعد مخالفت کی، اسکا سبب یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تھا: ’’ خلیفہ ہونے کے بعد کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا، جب اسکو مسلمانوں نے مقرر کرلیا ہو۔ پس جو اسکا دعویٰ کرے اسکو قتل کردو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔(صحیح مسلم)

جب عام بیعت ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتا تھا، نہ ہی اسکو خواہش کی تھی۔ اگر آپ لوگ اس نے خوش نہ ہوں ، تو میں معزول ہوجاتا ہوں اور آپ کسی اور کو خلیفہ بنالینا۔‘‘ مہاجرین کی اکثریت، خصوصا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسکا انکار کیا اور کہا ’’ نہیں، آپ (ابوبکر) اس امر کے بنسبت کسی اور کے زیادہ مستحق ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز جیسے اہم امور میں آپ کو آگے کیا، تو اب ہم آپ کو کیسے پیچھے ہٹائیں؟‘‘ جب علی اور زبیر سے پوچھا گیا کہ آپ نے شروع میں بیعت کیوں نہیں کی؟ تو انہوں نے جواب دیاکہ اسکا سبب ہم نے اس معاملے میں مشورہ کیا تھا۔ شیعہ کتاب ’’ احتجاج طبرسی‘‘ کی ایک روایت ہے کہ علی نے ابوبکر کے ہاتھوں بیعت کی اور ان کے پیچھے نماز ادا کی۔ علی نے اس بات کا اپنی خلافت میں اعلان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خلیفہ مقرر کرنے کی اور ہمیں اسکی بیعت کرنے کی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ اگر میں نے بیعت کی ہوتی تو میں کبھی ابوبکر کو رسول اللہ کے منبر پر چڑھنے کی اجازت نہ دیتا، لیکن ابوبکر خلافت کے اہل تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو آگے بڑھایا، انکے ساتھ کام کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ہم نے عمر اور عثمان کی معاونت کی۔ 

کوئی اس بات پر غور کرسکتا ہے کہ اگر علی رضی اللہ عنہ نے بیعت لی ہوتی تو وہ اسکو اپنی خلافت میں ضرور بتاتے، جب انکو حکومتی سطح سے کسی کی تنبیہ یا دھمکی کا خطرہ نہ ہوتا۔ اگر ابوبکر یا عمر نے ان پر ظلم کیا ہوتا تو اس کو وہ ضرور بتاتے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

ہم نے کافی تفضٰیل کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں بیان کیا ہے۔ کوئی بھی اس کو مصدقہ مان سکتا ہے کیونکہ یہ اسلام اور صحابہ کی نیچر کے مطابق ہے۔ وہ روایات جو صحابہ اور اسلام کی غلط تعبیریں کرتی ہیں انکو قبول نہ کیا جانا چاہیے کیونکہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتے ہوئے اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ، انہوں نے ان جھوٹی روایات کو گھڑا ہے اور اسطرح انکو پھیلایا ہے کہ مسلمانوں میں ناانتفاقی پھیل جائے اور گروہ درگروہ تقسیم ہوکر آپس میں خون بہانے لگیں۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہر بات سچی اور مصدقہ نہیں ہوتی اور اس پر شیعوں سے لڑنا نہیں چاہیے، اس کے برعکس ہمیں ایک عملی مسلمان ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ آپ کو صحابہ کا ذکر ہمیشہ ادب و احترام سے کرنا چاہیے اور ان کے لئے نفرت اور کسی اور صحابی کے لئے انکی برائی نہیں رکھنا چاہیے، نیز تمام صحابہ کے لئے محبت کی تلقین کرنا چاہئے ۔ ان سے محبت کرنا ہمارے ایمان کی نشانی ہے اور ان کی مخالفت کرنا نفاق کی نشانی ہے۔ 

اگر کوئی شیعہ آپ کو مستقل تنگ کرے تو اس سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ بزدل تھے یا بہادر تھے ؟

اگر وہ بہادر تھے توانہوں نے سچائی کیوں چھپائی ؟

کس چیز نے انکو سچائی چھپانے سے اپنی خلافت میں روکا ؟ 

اگر تمہارے (شیعہ) عقیدے میں کسی کو خلافت اور حکومتی معاملات میں وصیت ملے اور وہ ان کو کھل کر نہ کہہ سکے ، تو تم اس کو کیسا پاؤ گے؟

اس کی یہ وصیت کہاں ہے اور کس کتاب میں ملے گی ؟

اس کو تم کسی معیاری مصدقہ ذرائع سے ثابت کیوں نہیں کرپارہے ؟

یہ مضمون ہم نے درج ذیل کتب سے تیار کیا ہے تفصیل کےلیئے ان کتب کا مطالعہ فرمائیں : (صحیح البخاری ج 2، ص 1009، 1072)(فتح الباری ج 12، ص 145، حدیث نمبر 6830، ج 13، ص 208، حدیث نمبر 7219،)(مسند احمد بن حنبل ، ج 1، ص 55، حدیث 133، ص 121، حدیث 391)(کنز الاعمال ج 5، ص 635- 637، حدیث نمبر 14131-14156)(رشد الانف ، شرح سیرہ ابن ہاشم ج 4، ص 260)(البدایہ و النہایہ ج 5، ص 245-252 ج 6، ص 301-331)(الکامل فی التاریخ ابن اثیر ج 2ص 189،194)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 25 April 2020

نمازِ وترکی تین رکعات ہیں

0 comments
نمازِ وترکی تین رکعات ہیں
محترم قارئینِ کرام : غیرمقلد وہابی حضرات اپنی ذمے لگائی گئی ڈیوٹی کے مطابق ہر اسلامی مسلے پر امتِ مسلمہ سے الگ تھلگ راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں میں سے ایک نمازِ وتر بھی ہے جس کے متعلق یہ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ نمازِ وتر ایک رکعت ہے آیئے دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں کہ نمازِ وتر کی کتنی رکعات ہیں ایک یا تین جب آپ مکمل دلائل پڑھ لیں تو سوچیئے گا ضرور آخر غیر مقلد وہابی حضرات کا کیا بنے گا اور یہ کس کے مشن پر ہیں :

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وترکی تین رکعت ادا فرماتے تھے اور سلام آخر ہی میں پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی مترجم جلد اوّل کتاب قیام اللیل وتطوع النھار باب کیف الوتر بثلاث صفحہ نمبر 613 مطبوعہ ضیاء القرآن)

جیسے اور نمازوں میں آخری رکعت میں سلام پھیرا جاتا ہے ویسے ہی وتر میں بھی آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے دو رکعت پر نہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت (وتر) ادا فرماتے (بخاری ، کتاب التہجد، جلد اول، حدیث 1077، ص 472، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور مسلم شریف، جلد اول، کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرہا، حدیث 1620، ص 573، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین مرتبہ دو دو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اور اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے تین رکعت وتر ادا کئے ۔ (مسلم شریف، جلد اول، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا، حدیث 1696، ص 597، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

حضرت ابی بن کعب رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی ، دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔ (سنن نسائی، جلد اول، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، حدیث 1702، ص 540، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم تین رکعت و تر پڑھتے تھے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام و تابعین کرام رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے ۔ (جامع ترمذی جلد اول، ابواب الوتر حدیث 448، ص 283، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)(زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2،ص 263)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعت ہے ۔ (طحاوی شریف)

سیدنا عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما و ترکی تین رکعتوں میں تین سورتیں تلاوت فرماتے ۔ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور قل یاایھا الکفرون اور قل ہو اﷲ احد ۔ (سنن نسائی ، جلد اول حدیث نمبر 1706، ص 541، مطبوعہ فرید بک لاہور پاکستان)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم وتروں میں کیا پڑھتے تھے تو انہوں نے فرمایا ۔ پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ ، دوسری میں قل یاایھا الکفرون اور تیسری میں قل ہو ﷲ احد پڑھتے تھے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد اول، باب ماجاء فیما یقرا فی الوتر، حدیث نمبر 1224، ص 336، مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ۔
ترجمہ : دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں ۔ (سنن دار قطنی ، 2 : 27)

نام وَر تابعی اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْکَعْ رَکْعَةً تُوتِرُ لَکَ مَا صَلَّيْتَ ۔
ترجمہ : رات کی نماز کی دو دو رکعتیں ہیں۔ جب تم فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو۔ یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی ۔ اِس کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں : وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ ۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے ۔ (صحيح بخاری ، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر، 1 : 337، رقم : 948،چشتی)

مذکورہ احادیث سے احناف کے مذہب کی واضح تائید ہو رہی ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں کیونکہ مذکورہ تمام احادیث میں تین تین سورتیں پڑھنا وارد ہوا ہے ۔

غیر مقلدین کے دلائل

پہلی حدیث : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ پس جب تم لوٹنے کا ارادہ کرو تو ایک رکوع کرو۔ وتر کرو، جو تم پڑھ چکے (نسائی شریف)
دوسری حدیث : حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رات میں گیارہ رکعت نماز پڑھتے تھے ۔ ان میں سے ایک کے ساتھ وتر کرے ۔ پھر اپنے سیدھے کروٹ لیٹ جاتے ۔ (نسائی شریف)
تیسری حدیث : حضرت نافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنی بعض ضروریات کا حکم دیتے ۔

غیر مقلدین کے دلائل کا جواب

پہلی حدیث کا جواب : اس حدیث کا جواب خود اسی میں موجود ہے ۔ دو دو رکعت کرکے جب نماز پڑھیں گے اور ایک رکعت ملا کر وتر ادا کریں گے تو تعداد تین ہوگی ، کیونکہ یعنی جو تم پڑھ چکے ، اس کے ساتھ ایک ملالو ۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ تُوْتِر کا مصدر الایتار ہے ۔ اور یہ بابِ افعال سے ہے ۔ بابِ افعال کی خاصیت تعدی ہونا ہے ۔ لہٰذا تعدی اسی وقت ہوگی جب دو کے ساتھ ایک رکعت ملالی جائے ۔

دوسری حدیث کا جواب : احناف کے دلائل میں تیسری حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ۔ چار چار رکعت پڑھنے کے بعد تین رکعت ادا فرمائی ۔ اس لئے دوسری حدیث کی تفسیر خود راوی کی طرف سے موجود ہے کہ گیارہ رکعت میں سے آٹھ رکعت صلوٰۃ اللیل (تہجد) ہے اور تین رکعت وتر ہے ۔

تیسری حدیث کا جواب : حضرت عقبہ بن مسلم نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے وتر سے متعلق سوال کیا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم دن کے وتر کو جانتے ہو ۔ آپ نے فرمایا جی ہاں ! نماز مغرب یہ سن کر حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما نے فرمایا کہ رات کے وتر بھی ایسے ہیں ۔ حضرت نافع علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا فعل ثابت ہورہا ہے اور حضرت عقبہ علیہ الرحمہ کی روایت سے آپ کا قول ثابت ہورہا ہے ۔ قاعدے کے مطابق حدیث قولی کو ترجیح ہوگی اور وتر کا طریقہ نماز مغرب کی طرح ایک سلام سے تین رکعت ہوگی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دم کٹی (یعنی صرف ایک رکعت نماز) پڑھنے سے منع فر مایا

حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دم بریدہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا یعنی کوئی شخص ایک رکعت وتر پڑھے ۔ (اس حدیث کو علامہ ذیلعی نے نصب الرایہ ج،۲، ص،۱۲۰)(حافظ ابن حجر نے درایہ ج۱،ص۱۱۴،چشتی)(علامہ عینی نے عمدہ القاری ج۴،ص،۴، پر بیان کیا ہے)

حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دم کٹی (ایک رکعت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ۔ (نیل الاوطارمصنفہ قاضی محمد بن علی شوکانی)

بظاہر کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک رکعت کے ذریعے اپنی نمازوں کو طاق بنا یا ، ایسی تمام روایات اس معنی پر محمول ہے کہ وہ ایک رکعت دو رکعات سے ملی ہوئی تھی ۔ کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے صرف ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے ۔ اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے کہ وتر کی نماز تین رکعات ہیں ۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’اجمع المسلمون علے ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن‘‘ تمام مسلمانو کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں اور اس کی صرف آخری رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج،۲،ص،۲۹۴ ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)