Sunday 29 July 2018

مہمان اور میزبان سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آئینے میں

0 comments
مہمان اور میزبان سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آئینے میں

ہر انسان کی زندگی میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں کہ وہ کبھی مہمان بنتا ہے اور کبھی میزبان ۔ ان دونوں حالتوں میں اخلاق و محبت اور ظرف کی وسعت بہ قدر حیثیت لازمی ہے ۔مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار اور عزت و احترام کے ساتھ اس کا استقبال سب سے پہلی چیز ہے اس کے بعد حسب حیثیت ان کے لئے کھانے پینے ، رہنے سہنے وغیرہ کے انتظامات ضروری ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود بھی اس پر عمل کیا ۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی ۔ ان میں سے کچھ قارئین کے نذر کیا جاتا ہے ، پڑھئے اور عمل کیجئے ۔

حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ : میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور دونوں کانوں نے سنا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم یہ ہدایت دے رہے تھے کہ:جو لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں انہیں اپنے مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر تواضع کر نی چاہئے ۔مہمان کے انعام کا موقع پہلا شب و روز ہے۔(یعنی پہلے دن اور رات میں میز بان اورمہمان میں انعام لینے والے اور دینے والے جیسی مسرت و شادمانی اور جذبات محبت کا بھر پور اظہار ہونا چاہئے ) ۔ (بخاری ،حدیث:۶۱۳۵)

حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا : جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمانوں کی عزت کرے ۔ ایک دن اور رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن رات اس کی پوری خاطر داری کرے ، اپنے مقدور بھر اس کے لئے پر تکلف کھانا تیار کرائے ) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو ہے وہی پیش کرے تکلف کی ضرورت نہیں ) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے ۔ مہمان کے لئے جائز نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے ۔ (بخاری ،حدیث:۶۱۳۶)

اس حدیث شریف میں پہلے دن خوب اچھا کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی طاقت سے زیادہ تکلفات کرے ۔ کیو نکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود ارشاد فر مایا کہ : جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اس کے لئے اپنی طاقت سے بڑھ کر تکلف نہ کرو بلکہ جو تمہارے پاس ہو وہی پیش کرو ۔ اور اس سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملاقات کرو ۔ کیونکہ اگر تم نے اپنی طاقت سے زیادہ تکلف برتا تو ہو سکتا ہے کہ تم اس کے چہرے میں ناگواری محسوس کرو ۔ (شعب الایمان۔حدیث:۹۱۶۵،چشتی)

حضرت ابو الاحوص جشمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم یہ فر مایئے کہ میں ایک شخص کے یہاں گیا اس نے میری مہمانی نہیں کی اب وہ میرے پاس آئے تو میں اس کی مہمانی کروں یا اس کا بدلہ دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : تم اس کی مہمانی کرو ۔ (ترمذی،حدیث:۲۰۰۶)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حضرت جبرئیل سے دریافت کیا کہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست کس وجہ سے بنا لیا۔انہوں نے کہا کہ : کھانا کھلانے کی وجہ سے ۔ (شعب الایمان، حدیث: ۹۱۷۱ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : مہمان کو ناپسند نہ کرو ، جو شخص مہمان کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو ناپسند کرتا ہے ۔ (شرح صحیح مسلم مصنفہ علامہ غلام رسول سعیدی ،جلد اول،صفحہ:۴۵۷)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:بے شک فر شتے تم میں سے ہر اس شخص کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا دستر خوان بچھا رہتا ہے ۔
(شعب الایمان،حدیث:۹۱۷۹،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فر مایا کہ : تم اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھائو کیونکہ مہمان اکیلے کھانے سے شرما تا ہے ۔ (شعب الایمان۔حدیث:۹۱۸۶)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:اچھا طریقہ یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے ۔ (ابن ماجہ۔شعب الایمان،حدیث:۹۲۰۲)

یہ مہمان نوازی صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر کوئی کافر بھی دروازے پر آجائے تو اس کی ضیافت کرنی چاہئے اور اسے پیٹ بھر کھلانا پلانا چاہئے ۔ چنا نچہ حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس ایک مہمان آیا ، وہ شخص کا فر تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا ، اس نے وہ دودھ پی لیا ، پھر دوسری بکری کا دودھ دوھنے کا حکم دیا اس نے اس کو بھی پی لیا حتی کہ اس نے اسی طرح سات بکریوں کا دودھ پی گیا ، پھر صبح کو وہ اسلام لے آیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ان کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا انہوں نے وہ دودھ پی لیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے پھر دوسری بکری کا دودھ دوھنے کا حکم دیا ، وہ دوسری بکری کا سارا دودھ نہ پی سکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کا فر سات آنتوں میں پیتا ہے ۔ (مسلم،کتاب الاشربہ،حدیث:۲۰۶۳)

بلکہ اسلام میں یہاں تک سکھایا گیا کہ اگر تمہارے پاس کوئی مہمان آجائے چاہے وہ کسی بھی قوم کا رہنے والا ہو اور تمہارے پاس تمہارے اپنے بچوں کے کھانے کے سوا اور کچھ نہ ہو اس حالت میں بھی مہمان نوازی کرنی چا ہئے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی خدمت میں آکر کہا کہ : میں فاقہ سے ہوں (یعنی کئی دن سے صحیح سے کھانا نہیں ملا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنی کسی زوجہ کی طرف پیغام بھیجا ، انہوں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دوسری زوجہ کے پاس پیغام بھیجا انہوں نے بھی اسی طرح کہا حتی کہ سب نے یہی کہا : کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : جو شخص آج رات اس کو مہمان بنائے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فر مائے گا ، انصار میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم اس کو میں مہمان بناؤں گا ، وہ صحابی اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور انہوں نے بیوی سے پوچھا کہ : تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ بیوی نے کہا : صرف بچوں کا کھانا ہے ۔ انہوں نے کہا : بچوں کو کسی چیز سے بہلادو ، جب ہمارا مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظا ہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں (نہیں تو، وہ ہماری غربت دیکھ کرپیٹ بھر نہیں کھا سکے گا اور ہمیں بھی اس کھانے میں شریک کرنے کی کوشش کرے گا) جب وہ کھانا کھانے لگے تو تم چراغ کے پاس جا کر اس کو بجھا دینا ، پھر وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے (اس طر ح سے پیٹ بھر) کھانا کھا لیا ۔ جب صبح کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : تم نے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اللہ تعالیٰ اس پر بہت خوش ہوا ۔ (مسلم،کتاب الاشربہ،باب اکرام الضیف و فضل ایثا رہ،حدیث:۲۰۵۴،چشتی)

اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس ایک مہمان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ رہن (یعنی گروی) رکھ کر اس کی ضیافت فر مائی ۔ (شرح صحیح مسلم ،جلد اول ،ص:۴۵۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کبھی کسی مہمان کو خالی جانے نہ دیا اور اپنی امت کو بھی یہی درس دیا اور ساتھ ہی ان کو یہ بھی سکھایا کہ جب تم کسی کے مہمان بنو تو اپنے کسی بھی عمل اور حر کت سے میزبان کو تکلیف کا احسا س نہ ہونے دو کیو نکہ نا شا ئستہ حرکات زحمت کا باعث بنتی ہیں اور اس سے با ہمی محبت کا جذبہ کم ہوتے ہوتے مہمانی صرف ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے ۔ پھر معاشرہ تباہ کن صورت حال سے دوچار ہونے لگتا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بے اولاد حضرات کے لیئے خوش خبری

0 comments

خالص جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ ادویات گھر بیٹھےانتھائئ مناسب قیمت پر منگوائیں

0 comments

بے پناہ مردانہ طاقت اور ٹائمنگ

0 comments

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا حج و عمرہ

0 comments
مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا حج و عمرہ

اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دو یا تین حج کئے اورہجرت کے بعد صرف ایک حج ۱۰ھ/میں کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور و معروف ہے ۔ (ترمذی،حدیث:۸۱۵)

حج کے علاوہ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے چار عمرے بھی ادا فر مائے ۔ جیساکہ روایت ہے کہحضرت قتادہ نے جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کتنے حج کئے؟تو آپ نے فرمایا:ایک حج اور چار عمرے۔ایک عمرہ ذی القعدہ میں۔دوسراعمرۃ الحدیبیہ۔تیسرا وہ عمرہ جو آپ نے حج کے ساتھ ادا فر مایا ۔ چوتھا عمرۃ الجعرانہ ۔ (ترمذی،حدیث:۸۱۵، بخاری،حدیث:۱۷۷۸،مسلم، حدیث:۱۲۵۳)

حج چونکہ تین طرح کے ہوتے ہیں۔حج افراد،حج تمتع اور حج قران۔حج افراد کا معنی ہوتا ہے صرف حج کرنا۔حج تمتع کا مطلب عمرہ ادا کر کے احرام کھول دینا اور پھر حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرنااور حج قِران کا مطلب حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد بدستور احرام پر قائم رہنا اور حج سے فارغ ہونے کے بعد احرام کھولنا ۔
اب اس میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج افراد کیا تھا یا حج تمتع یا حج قران ؟ اس بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ علیہما کی تحقیق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج قران کیا تھا اور امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج افراد کیا تھا اور ان کے علاوہ بعض دوسرے علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج تمتع کیا تھا۔کتب احادیث میں ہر ایک کی تائید میں احادیث طیبہ موجود ہیں ۔ لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو حج قران کے دلائل زیادہ قوی اور مضبو ط دکھائی دیتے ہیں ۔کیو نکہ اس بارے میں بیس سے زائد صحیح او رصریح احادیث مبارکہ ہیں جن سے یہ صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجِ قِران کیا تھا ۔ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔باقی حقیقت حال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّمخوب جانتے ہیں ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : انہوں نے حج کا عمرہ کے ساتھ قران کیا اور اس کے لئے ایک(قسم کا) طواف کیا اور کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے بھی اسی طرح کیا تھا ۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے چار عمرے کئے (۱) عمرۃ الحدیبیہ (۲) حدیبیہ کے اگلے سال اس عمرہ کی قضا (۳) عمرۃ الجعرانہ (۴) وہ عمرہ جس کا حج کے ساتھ قِران کیا ۔ (سنن ابو داود،حدیث:۱۹۹۳۔۱۹۹۴،چشتی)

تر مذی و نسائی میں ہے کہ جس سال حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے حج کیا اس سال حضرت سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس عمرہ اور حج قران پر گفتگو کر رہے تھے ۔ ضحاک نے کہا کہ قران وہی شخص کرے گا جو احکام الہیہ سے جا ہل ہو گا۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ(جو ان دس صحابہ میں سے ہیں جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فر مایاتھا) نے کہا : اے بھتیجے! تم نے اچھی بات نہ کہی۔ضحاک نے کہا کہ : حضرت عمر اس سے منع فر ماتے تھے ۔ حضرت سعد نے فر مایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے قران کیا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ قران کیا ۔ (ترمذی،حدیث:نسائی،حدیث:۲۷۳۴)

مروان بن الحکم کہتے ہیں کہ : میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ انہوں نے سنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے ۔ اللھم لبیک بحج و عمرۃ ۔ (یعنی قران کرنے والے کی طرح ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : آپ اس قران سے باز نہیں آتے (یعنی کیا وجہ ہے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر مایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو حج اور عمرہ کے ساتھ تلبیہ کرتے ہوئے سنا ہے ۔اس لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بات کو آپ کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتا ۔ (سنن نسائی ،حدیث :۲۷۲۲،بخاری،حدیث:۱۵۶۳)

ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی مانتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج قران کیا تھا ۔ اب ہم کچھ ایسی روایتیں بھی آپ کے سامنے رکھتے ہیں جن میں خود حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنے حج کی وضا حت فر مائی ہیں ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا ۔ میں نے ان کے ساتھ کچھ چاندی حاصل کی ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہا کہ : میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رنگے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا اور وہ گھر میں خوشبو بھی لگائی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ : آپ کو کیا ہوا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنے اصحاب کو حلال ہونے کا حکم دیا اور وہ حلال ہو گئے (یعنی آپ حلال کیوں نہیں ہوئے؟) حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے احرام کی نیت کی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے پوچھا کہ : تم نے کیا کیا ؟ میں نے کہا کہ : میں نے احرام میں نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے احرام کی نیت کی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا : میں نے ہدی (یعنی قر بانی کا جانور) روانہ کردیا ہے اور قران کا احرام باندھا ہے ۔ (سنن ابو داود،حدیث:۱۷۹۷،چشتی)

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے عرض کیا : کیا وجہ ہے کہ لوگ حلال ہوگئے اور آپ اپنے عمرے سے حلال نہیں ہوئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے ہدی میں قلادہ(پٹہ) ڈال دیا ہے اور سر کے بالوں کو چپکا لیا ہے ۔ میں اس وقت تک عمرہ سے حلال نہیں ہوں گا جب تک حج سے حلال نہ ہو جائوں ۔ (بخاری،حدیث:۱۵۶۶ ۔ مسلم، حدیث: ۱۲۲۹ ابوداود، حدیث: ۱۸۰۶)

اس حدیث شریف سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے حج قران کیا تھا کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم عمرہ سے اس وقت تک حلال نہ ہوئے جب تک کہ حج سے حلال نہ ہو گئے اور ایسا حج قران ہی میں ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی روایتیں ہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود اپنے حج کی وضا حت کرتے ہوئے “قران” فر مایا ۔ ان سب کے باوجود تینوں طریقے کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ کسی بھی طریقے سے کرے درست ہے البتہ وہ لوگ جو حج کی طاقت رکھتے ہوئے حج نہیں کرتے ان کی بڑی مذمت آئی ہے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جو طاقت ہونے کے باوجود حج نہ کرے تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر۔ ( ترمذی،حدیث: ۸۱۲)

اللہ تعالی ہم سب کو ایمان وادب کے ساتھ زیارت حر مین شریفین کی سعادت سے بار بار بہرہ ور فر مائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

زندگی کا حقیقی شعور سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آئینے میں

0 comments
زندگی کا حقیقی شعور سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آئینے میں

زندگی کا حقیقی شعور کس شے میں ہے۔۔۔ آدمی کو شرف و امتیاز کسی چیز سے ملتا ہے۔۔۔ کون سا احساس اس کے لئے عزت و سرفرازی لے کر آتا ہے۔۔۔ میں نے اس سوال پر جتنا بھی غور کیا ہمیشہ ایک ہی جواب ملا۔۔۔ یہ کہ آدمی دوسروں کی عزت افزائی کرے ۔ وہ اپنے جذبوں کی ہر پہنائی میں دوسروں کو ساتھ لیکر اترے۔۔۔ اور احساس کے ہر افق پر محبت کی چاندی بکھیرتا نظر آئے ۔ جیون کی کھیتی میں وہ جب بھی کوئی فصل اگائے۔۔۔ پیار ہی اگائے۔۔۔ اور پیار ہی لٹائے۔۔۔ وہ زندگی کے راستوں میں جب چلے ۔ مل کر چلے ۔ دوسروں سے الگ نہ ہو ۔ اسے تنہا کوئی خوشی نہ بھائے۔۔۔ جو خوشی دیکھے سب میں بانٹے۔۔۔ وہ نفع پہنچا کر راحت پائے۔۔۔ اور عزت دے کر، عزت لائے ۔ یہی معیار عزت ہے خدا کے ہاں ۔ اور یہی ہے سیرت میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہے ۔ جو چاہتا، جب چاہتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل سکتا تھا ۔ (امام احمد، کتاب الزہد ابن عساکر سبل الھدی 7 / 34)

دستر خوان پر کبھی اکیلے کھانا نہ کھاتے ۔ ہر ایک کو شریک طعام کرتے ۔ مجلس میں کبھی نمایاں جگہ نہ لیتے ۔ حلقہ عام میں گھل مل کربیٹھتے ۔ چلتے ہوئے ہمرائیوں سے الگ نہ ہوتے ۔ ساتھ ساتھ چلتے ۔ سواری پر کسی ہمسفر کو ساتھ بٹھاتے ۔ مریضوں کی عیادت کرتے اور جنازوں میں شامل ہوتے ۔ کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعود المریض ویشھد الجنازۃ ۔ (6) (ترمذی 3 / 337،چشتی)

غریبوں کی دلجوئی کرتے۔۔۔ ان کی دعوت قبول فرماتے اور ان کے گھر جاتے۔۔۔ لوگوں کے کام کرتے اور ان کی ضرورتیں برلاتے۔۔۔ ان کانت الامۃ لتاخذ بید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتنطلق بہافی حاجتہا (صحیح بخاری 10 / 489)

سفر حضر میں ہر اجتماعی موقع پر چھوٹے بڑے کام میں صحابہ کے ساتھ شریک محنت ہوئے۔۔۔ مسجد کی تعمیر، خندق کی کھدائی، جہاد کی تیاری، کاروان سفر، اور پڑاؤ ڈالنے کے مواقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے کاموں میں عملاً بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔۔۔ یہ سماجی شعور کی وہ برتر سطح ہے جو میرے آقا و مولا نے اپنے کمال فکر، ندرت احساس اور عظمت کردارکے ذریعہ اجاگر فرمائی۔۔۔ نوع بشر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتماعیت، رفاقت، باہمی تعاون، دوستی اور خدمت کے جن اعلی اصولوں اور پاکیزہ روایات سے عملاً روشناس کرایا اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں اور نہیں ملتی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز حیات میں جو فطری بے ساختگی نظر آتی ہے وہ کائنات میں سب سے یکتا اور انمول ہے۔۔۔ حسن کردار کا ایسا خزانہ جو دنیا والوں کے لئے ہمیشہ آئیڈیل رہے گا۔۔۔ ندرت احساس کا اجلا منظر جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔۔۔ اور شعور زندگی کی وہ سب سے اونچی سطح جس تک پہنچنا رہتی دنیا کسی اور کے بس میں نہیں۔۔۔

ایسے لوگ تو دنیا میں بہت ہوں گے جو سائل کو خوش ہو کر دیتے ہوں۔۔۔ لیکن ایسا کوئی نہ ہوگا جس سے مانگتے ہوئے، سائل انتہائی بداخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آئے۔۔۔ مگر وہ پھر بھی اپنے دامن عفو و کرم سے اس کی خطائیں ڈھانپ لے۔۔۔ اور اپنی بے بہا نوازشوں سے اس کو نہال کر دے۔۔۔

یہ شان تو بس محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔۔۔ وہ رحمۃ للعلمین بن کر آئے ہیں۔۔۔ پس جو کوئی عالمین میں شامل ہے۔۔۔ وہ ان کی رحمت سے ہر حال میں فیضیاب ہے۔۔۔ کوئی مومن ہو یا کافر۔۔۔ برا ہو یا اچھا۔۔۔ امیر ہو یا غریب۔۔۔ حقدار ہو یا سائل۔۔۔ خوش اخلاق ہو یا بدتمیز۔۔۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہر ایک کو رحمت ہی سے ڈھانپا۔۔۔ اور محبت ہی سے نوازا ہے۔۔۔ ہمارے سامنے کوئی سائل آئے اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرے۔۔۔ تو ہمیں اس پر غصہ آئے گا۔۔۔ پھر ہم اسے نوازنے کی بجائے ڈانٹنے لگیں گے۔۔۔ یہ ہمارے احساس کا رخ اور برتاؤ کا معیار ہے۔۔۔ عالم بشریت کا طرز احساس یہی ہے۔۔۔ اور یہی ہوسکتا ہے۔۔۔ مگر وہ کہ رحمت للعلمین ہیں۔۔۔ احساس کی سب سے اونچی سطح اور سب سے اعلیٰ منزل انہی کے شایان ہے۔۔۔ اکیلے اس جہاں میں وہی تو ہیں جو ندرت احساس کا یکتا پیکر ہیں۔۔۔ لو دیکھو ایک سائل ان کی بارگاہ میں آیا ہے۔۔۔ وہ بدو ہے۔۔۔ نرا گنوار۔۔۔ اس کے مانگنے کا انداز دیکھو۔۔۔ اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان عطا پہ ناز کرو۔۔۔ صحیح بخاری ومسلم کی متفق علیہ حدیث ہے : عن انس رضی اللہ عنہ قال : کنت امشی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلیہ برد نجرانی غلیظ الحاشیۃ فادرکہ اعرابی فجبذہ برداثہ جبذۃ شدیدۃ قال انس رضی اللہ عنہ حتی نظرت الی صفحۃ عنق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اثرات بھا حاشیۃ الثوب من شدۃ جبذتہ فقال یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرلی من مال اللہ الذی عندک فالتفت الیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضحک وامرلہ یعطا۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جارہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس کے کنارے بہت زیادہ کھردرے تھے۔ ایک بدو آیا اس نے وہ چادر زور سے کھینچی حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک پر چادر کے کھینچنے کی وجہ سے پڑنے والے نشانات دیکھے۔ پھر اس بدو نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے مال میں سے مجھے بھی دے جو آپ کے پاس ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے مسکرائے اور اسے مال دینے کا حکم فرمایا ۔

اس طرح کے بہت سے واقعات احادیث طیبہ میں موجود ہیں۔۔۔ عرب کے وہ بدو جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے : الاعراب اشد کفرا ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ۔۔۔ یعنی یہ بدو کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو تعلیمات اتاری ہیں ان کی حدود سے جاہل رہیں۔۔۔ یہ بدو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے اور انتہائی ناپسندیدہ رویہ اپناتے۔۔۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت ہمیشہ انہیں اپنی عطا و بخشش سے ڈھانپ لیتی۔۔۔ بدوؤں کا آنا جانا لگا رہتا۔۔۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی سے گریز نہ فرماتے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کرم تک رسائی ہر آن سب کو میسر تھی۔۔۔ راہ چلتے کوئی بڑھیا اپنے کسی کام کے لئے روک لیتی۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال توجہ سے اس کی بات سنتے اور انتہائی مہربانی سے اس کے کام کے لئے اس کے ساتھ چل پڑتے۔۔۔ مدینہ کی کنیزیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے معاملات حل کرنے کے لئے عرض کرتیں۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ چل پڑتے اور جب تک ان کا کام ہو نہ جاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس نہ لوٹتے۔۔۔ چنانچہ مسند امام احمد، صحیح بخاری اور ابن ماجہ کی روایت ہے : ۔۔۔ ان کانت الامۃ من المدینۃ لتاخذ بید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتنطلق بہ فی حاجتھا فلم ینزع یدہ من یدھا حتی تذھب بہ حیث شاء ت۔۔۔مجلس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں کبار صحابہ موجود ہوتے۔۔۔ وہیں عام بے سلیقہ لوگ، دیہاتی اور بچے بھی اسی طرح گھل مل کر بیٹھے ہوتے۔۔۔ اور اپنی اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتوں اور عنایتوں سے فیضیاب ہوتے۔۔۔

امام بخاری نے الادب المفرد، میں عدی بن حاتم کی روایت بیان کی ہے کہ۔۔۔ میں بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ بچے، خواتین اور دیہاتی لوگ جمع ہیں اور سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال قرب اور عنایت توجہ سے فیضیاب ہورہے ہیں۔۔۔ تو مجھے یقین ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہ نہیں ہیں بلکہ خدا کے سچے رسول ہیں۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں کسی آنے والے کے لئے رکاوٹ نہ تھی۔۔۔ کوئی بات کرنے والا جو کچھ چاہتا بے تکلف کہہ دیتا۔۔۔ کوئی راہ گیر جہاں چاہتا راستے میں اپنے کسی کام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روک لیتا۔۔۔ لوگ اپنے ناپسندیدہ طرز عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچاتے۔۔۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ فرماتے۔۔۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و عنایت کا دریا مسلسل بہتا۔۔۔ اور ہر اچھے، برے، ہر اپنے، پرائے کو یکساں سیراب کرتا رہا۔۔۔ ابن ابی شیبہ، دارمی اور دیگر محدثین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ : قال العباس رضي الله عنه يارسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اني اراهم قد آذوک وآذاک غبارهم، فلواتخذت عريشا تکلمهم فيه فقال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم لاازال بين اظهرهم يطؤن عقبي وينازعون ثوبي ويؤذيني غبارهم حتي يکون الله هوالذي يرحمني منهم . (ابن ابي شيبه، 13 / 257، دارمي 1 / 36،چشتی)
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک بار (سفر کے دوران) عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے طرز عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور ان کا غبار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اذیت کا باعث ہے۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف رکھیں جہاں یہ لوگ حاضر ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات سنیں اس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میں ہمیشہ ان لوگوں کے درمیان اسی طرح رہوں گا کہ یہ مجھے گھیرے رہیں، میری چادر کھینچتے رہیں اور ان کا غبار مجھے تکلیف پہنچاتا رہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی آغوش رحمت میں ڈھانپ لے ۔

سبحان اللہ ! کتنی عظیم ہے ذات مدینے والے کی ۔۔۔ دیکھئے دریائے رحمت میں کتنا عظیم بہاؤ ہے۔۔۔ کیسے کیسے موتی امنڈ رہے ہیں اس کی موجوں سے۔۔۔ ندرت احساس کے موتی۔۔۔ مروت و مدارات کے موتی۔۔۔ حلم و بردباری کے موتی۔۔۔ عفو وکرم کے موتی۔۔۔ عجز و تواضع کے موتی۔۔۔ اور جودو سخا کے موتی۔۔۔ موج موج اس دریا کی۔۔۔ البیلے موتیوں کا ہار۔۔۔ اور ایک ایک موتی اس کا دوجہاں سے بڑھ کر۔۔۔ اے خدا کچھ تو ہی بتا۔۔۔ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دریا کتنا گہرا، کتنا بھرا اور کتنا پھیلا ہے۔۔۔ اپنی مخلوق میں تو ایسا کوئی تو نے بنایا ہی نہیں جو تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دریائے کرم کو ناپ سکے۔۔۔ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کرم کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو خود ان سے بڑھ کر ہو۔۔۔ اور ان سے بڑھ کر کوئی تو نے بنایا ہی نہیں۔۔۔ پھر اے میرے خدا بس تو ہی تو ہے۔۔۔ اکیلا تو۔۔۔ جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا گھیرا (گہرائی و گیرائی) جانتا ہے ۔ تو ہی اس دریائے کرم کا منبع ہے ۔

اور تو ہی اس کا انت۔۔۔ ساری موجیں اس کی تو نے ہی بنائی ہیں۔۔۔ اور تو ہی ان کا شمار جانے۔۔۔ اس کے موتی، مونگے سب تیرے کرم کی پرچھائیاں۔۔۔ تو ہی جانے کیا کیا تو نے اس دریا میں سمویا ہے۔۔۔ ندرتیں اس کی تیرے جلوے۔۔۔ تو ہی اس کے رنگ پہچانے۔۔۔ سب وسعتیں اس کو تو نے بخشیں۔۔۔ اور تو ہی اسے کونین کی ہر سرحد سے پرے چھلکائے۔۔۔ کائنات کی حد بندی تو نے ہی تو کی ہے۔۔۔ اور اپنے محبوب کی رحمت کو بے حدو بے کنار بھی تو نے ہی اٹھایا ہے۔۔۔ پھر میں تو بس اتنا ہی سمجھ پایا ہوں میرے خدا۔۔۔ کہ تو نے اپنی کائنات کو محدود اس لئے بنایا ہے۔۔۔ صرف اس لئے۔۔۔ تاکہ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیکرانی چھلک سکے۔۔۔ تری قدرت کے جلوے دو ہیں۔۔۔ اک ترا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بیکراں ہے۔۔۔ بے حد وبے کنار۔۔۔ اور دوسرے۔۔۔ پوری کائنات جو محدود ہے۔۔۔ زمان معین، مکان مقید۔۔۔ آغاز معلوم۔۔۔ انجام معلوم۔۔۔ ہر شے حدود و قیود میں بند۔۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔ یہ کائنات میں تو نے حدیں کیوں رکھی ہیں۔۔۔ اس لئے میرے مولا تاکہ۔۔۔ ہر کوئی جان لے۔۔۔ تیرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات سے بڑھ کر ہے۔۔۔ وجود میں بھی۔۔۔ اخلاق میں بھی۔۔۔ شعور میں بھی۔۔۔ احساس میں بھی۔۔۔ کرم میں بھی۔۔۔ عطا میں بھی ۔

یہ کائنات اگر محدود نہ ہوتی ۔ تو کیسے کھلتا کہ ۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات لامحدود ہے ۔ یہ سمٹی ہوئی کائنات بتاتی ہے کہ ۔ رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دریا بیکراں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت للعلمین ہیں ۔ تمام جہانوں کے لئے رحمت ۔ تو بالیقین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت تمام جہانوں سے بڑھ کر ہے ۔ ہر شے اس رحمت کی آغوش میں سمٹی ہوئی ہے ۔ کائنات کے سب کنارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے فیضیاب ہیں اور یہ تبھی ہوسکتا ہے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دریا ان کناروں سے باہر امنڈ رہا ہو ۔ اور یقیناً ایسا ہی ہے ۔ رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دریا کونین کے سب کناروں سے پرے بہہ رہا ہے ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 28 July 2018

رشتہ دار سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آئینے میں

0 comments
رشتہ دار سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آئینے میں

آج کے اس پر آشوب دور میں ایک رشتہ دار دولت و ثروت کی بہتات کے سبب فلک بوس عمارتوں میں داد عیش دے رہاہے ان کے بچے دنیا کی اعلی ترین ملبوسات زیب تن کر رہے ہیں ، لذیذ کھانوں اور میوہ جات سے سیراب ہو رہے ہیں اور دنیا کی ہر نو پید دلچسپیوں سے صبح و شام لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔مگر ان کی نظروں کے سامنے اس کے رشتہ دار بھوک سے بلک رہے ہیں ان کے بچے فاقہ کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں ان کے بدن پر معمول کا لباس بھی نظر نہیں آرہاہے اس کے باوجود ان کے دل کے اندر ان کے دکھ درد کو بانٹنے کا کوئی جذبہ نظر نہیں آتا بلکہ بسا اوقات ان کی غریبی اور مفلسی کی وجہ سے ان سے رشتہ کاٹ لیا جاتا ہے اور قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود پہچاننے تک سے انکا ر کر دیا جاتاہے۔جس کی وجہ سے ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ عجیب درد و کرب سے کراہ رہاہے ۔

ایسی صورت حال میں معاشرے کو درد وغم اور مصا ئب و آلام سے کوئی نکال سکتا ہے ،تو وہ مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی پاکیزہ سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اعلی تعلیمات ہے۔اس لئے ذیل میںرشتہ داروں کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی سیرت اور آپ کی پاکیزہ تعلیمات پیش کی جاتی ہے جو ہمارے لئے بہترین نمو نہ عمل ہے۔
رشتہ داروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ہمدردیاں: آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا ابو طالب اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوشحال نہ تھے ۔اکثر تنگی کا سا منا رہتا تھا ،مکہ میں جب قحط پڑا تو اس سے ان کی مالی حالت اور کمزور ہوگئی، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے آپ کی یہ تکلیف نہ دیکھی گئی،حضور اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور اس بات کی ترغیب دی کہ ہمیں مل کر جناب ابو طالب کا بوجھ بانٹ لینا چا ہئے ،ان کا ایک بیٹا میں لے لیتا ہوں ،اس کی پرورش میں کروں گا ۔ایک لڑ کا آپ لے لیں ،اور اس کی پرورش کی ذمہ داری آپ اپنے ذمے لے لیں اس طر ح ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔

چنا نچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور حضرت عباس ابو طالب کے پاس گئے اور اپنے آنے کا مقصد بتایا۔جناب ابو طالب کے چار بیٹے تھے، طالب ، عقیل ، جعفر،علی۔انہوں نے کہا :طالب اور عقیل کو آپ میرے پاس رہنے دیں اور باقی بچوں کے بارے میں جو آپ لوگوں کی مرضی ہو کریں ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو سب سے کم عمر تھے ۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ان کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور جعفر کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ لے گئے۔(ضیاء النبی،جلد دوم،صفحہ:۲۲۹۔۲۳۰،چشتی)
ان کے علاوہ جو بھی رشتہ دار تھے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم زندگی بھر ان کی خیر خواہی کرتے رہے ۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے دودھ کے رشتہ داروں کو بھی کبھی فراموش نہ کیا ۔چنانچہ قحط سالی کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے رضاعی والدین کی مصیبتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ عطا فر مایا۔اس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے خود بھی اپنے رشتہ داروں کی تکلیف کو بانٹا اور دوسرے کو بھی اس نیک کام پر ابھارا۔اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم عطا فر مایا:چنانچہ ذیل میں اس سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی کچھ تعلیمات نہایت اختصار کے ساتھ تحریر کیا جاتی ہیں۔آپ انہیں پڑ ھئے اور عمل کیجئے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : رحم (یعنی رشتہ) رحمن سے مشتق ہے اور اللہ تعالیٰ نے رشتہ کے بارے میں فر مایا ہے کہ:جو تجھے ملائے گا میں اسے ملائوں گا اور جو تجھے کاٹے گا اسے میں کاٹوں گا ۔ (بخاری،حدیث:۵۹۸۸، مسلم،حدیث:۲۵۵۷)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے عرض کیا کہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم مجھے ایسا کام بتائے کہ اگر میں اس کو کروں تو جنت میں داخل ہو جائوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایاکہ:سلام کو پھیلائو،کھانا کھلاو ، اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرواور رات کو جب سب لوگ سو جائیں تو اٹھ کر نماز پڑھو اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاو ۔ (المستدرک للحاکم، حدیث:۷۲۷۸)

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فر مایا:میں اللہ ہوں ،میں رحمن ہوں ،رحم (یعنی رشتہ) کو میں نے پیدا کیا اور اس کانام میں نے اپنے نام سے مشتق کیا لہذا جو اسے ملائے گا میں اسے ملائوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا ۔ (المستدرک للحاکم،حدیث:۷۲۶۹۔۷۲۷۰،چشتی)

حضرت عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں درازی (یعنی برکت)ہو اور رزق میں کشادگی ہو اور بری موت سے محفوظ رہے،وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (المستدرک للحاکم،حدیث :۷۲۸۰، بخاری،حدیث:۵۹۸۵،۵۹۸۶ واللفظ للمستدرک،چشتی)

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا : رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ (بخاری ،حدیث:۵۹۸۴،مسلم،حدیث:۲۵۵۶)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ:اپنے نسب کو پہچانو تاکہ صلہ رحم کرو کیونکہ اگر رشتے کو کاٹا جائے تو اگر چہ قریب ہو وہ قریب نہیں ہے اور اگر جوڑا جائے تو دور نہیں ہے اگر چہ دور ہو ۔ (المستدرک للحاکم، حدیث:۷۲۸۳)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ملاقات کرنے کے لئے گیا تو میں نے جلدی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا دست مبارک پکڑ لیا اور حضور نے بھی میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ۔پھر فر مایا:اے عقبہ! دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق یہ ہیں کہ:تم اس کو ملائو جو تمہیں جدا کرے اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو ،اور جو یہ چاہے کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو وہ اپنے رشتہ والوں کے ساتھ صلہ رحمی(یعنی اچھا سلوک)کرے ۔ (المستدرک للحاکم،حدیث:۷۲۸۵،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا کہ:صلہ رحمی اس کا نام نہیں کہ بدلہ دیا جائے ،یعنی اس نے اس کے ساتھ احسان کیا تو اس نے بھی اس کے ساتھ کردیا بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اُدھر سے کاٹا جاتا ہے اور یہ جوڑتا ہے ۔ (بخاری،حدیث :۵۹۹۱،مسلم،حدیث:۲۹۰۸)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ان پاکیزہ تعلیمات پر عمل کر کے ہی معاشرے کو جنت نشاں بنایا جا سکتا ہے اور ان تعلیمات سے ترک تعلق کے نقصانات بالکل روشن اور واضح ہیں۔اس لئے ایک اچھا رشتہ دار وہی ہے جو مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ان تعلیمات کے مطابق اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور نہ یہ کہ صرف وہ کرتا ہے تب یہ کرتا ہے ۔ نہیں، بلکہ یہ اس وقت بھی حسن سلوک کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ اس کے رشتہ دار نہیں کرتے ہیں ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا زہد و قناعت

0 comments
مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا زہد و قناعت

ہر بندہ مومن کے لئے جو اللہ کے پاس ابدی نعمتیں اور سر مدی راحتیں ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کے سامان عیش وعشرت سے دستبردار ہو جانے کو زہد و قناعت کہتے ہیں ۔اور اس دشوار ترین راہ کے مسافر کو زاہد و قانع کہا جاتا ہے۔
آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی شان زہد و قناعت بلندی کے اس مقام پر فائز تھی جہاں تک آپ کے سوا کسی اور کی رسائی ممکن بھی نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زہد کی عظمتوں کااندازہ مندرجہ ذیل روایتوں سے بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ:رسول کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے پوری زندگی میں کبھی مسلسل تین دن پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا ۔ (بخاری،حدیث:۶۴۵۴،مسلم،حدیث:۲۹۷۰)

دوسری روایت میں آپ فر ماتی ہیں کہ:رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی آل اطہار نے گندم کی روٹی سے لگاتار تین دن تک شکم سیر ہو کر نہیں کھایا ۔ پہلی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر ہے اور دوسری میں حضور کے اہل بیت کا ذکر ہے ۔یعنی صرف خود ہی بھوکے رہنے کو اپنا معمول نہ بنایا تھا بلکہ حضور کے اہل بیت کی حالت بھی ایسی ہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اہل بیت نے گندم کی روٹی کبھی شکم سیر ہو کر نہیں کھایا ۔ حضرت صدیقہ ہی بیان فر ماتی ہیں کہ:پورا مہینہ گزر جاتا تھا ہم چولہے میں آگ نہیں جلاتے تھے صرف کھجور اور پانی پر ہماری گزر اوقات ہوتی تھی ۔ (بخاری،حدیث:۶۴۵۸۔مسلم،حدیث:۲۹۷۲۔ابن ماجہ،حدیث:۴۱۴۵،چشتی)
آپ بیان کرتی ہیں کہ : کئی بار فاقہ کشی کے باعث حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا شکم مبارک کمر سے لگ جاتا ۔میں اس پر ہاتھ پھیرتی ۔میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔عرض کرتی۔اے اللہ کے محبوب میری جان آپ پر قر بان ۔آپ اپنے رب سے اتنا تو مانگتے کہ فاقہ کشی کی نوبت نہ آتی۔آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:یا عائشۃ مالی وللدنیا۔اے عائشہ!میر ااس دنیا سے کیا تعلق ہے ؟ آپ ہی ارشاد فر ماتی ہیں کہ:سرورعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جب اس دنیا سے رحلت فر مائی تو کوئی دینار،درہم ،کوئی بکری اور اونٹ بطور تر کہ نہیں چھوڑا ۔

امام بخاری اور دیگر محدثین علیہم الرحمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ : ایک روز حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوپہر کو مسجد کی طرف روانہ ہوئے ۔حضرت عمر کو پتہ چلاتو آپ بھی اسی وقت چلچلاتی دھوپ میں باہر نکل آئے اور مسجد کی طرف چل پڑے ۔انہوں نے جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا :یا ابا بکر ما اخرجک فی ھذہ الساعۃ۔اے ابو بکر ! اس وقت آپ کیوں گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آئے ہیں ؟آپ نے جواب دیا بھوک اور فاقہ کی وجہ سے کسی پہلو آرام نہیں آرہاتھا اس لئے مسجد جانے کا ارادہ کیا۔آپ نے عرض کیا :اس ذات کی قسم!جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں بھی اس چلچلاتی دھوپ میں اسی وجہ سے مسجد کی طرف جارہاہوں ۔اسی دوران شاہ دوعالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بھی تشریف لائے اور اپنے دونوں صحابہ سے پوچھا کہ اس وقت تم دونوں گھر سے نکل کر کدھر جارہے ہو؟دونوں نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ! مسلسل بھوک کی وجہ سے کسی پہلو قرار نہیں آرہا تھا اس لئے خانہء خدا میں جانے کا ارادہ کیا۔حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا:انا والذی نفسی بیدہ ما اخرجنی غیرہ ۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے!میں بھی اسی وجہ سے گھر سے نکل کر آیا ہوں۔حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اور دونوں حضرات حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ۔انہیں جب حقیقت حال کا پتہ چلا تو انہوں نے ایک بکری ذبح کیا اور پکا کر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خدمت میں پیش کیا ۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس بھنی ہوئی بکری کا ایک حصہ کاٹا ، اسے روٹی پہ رکھا اور فر مایا : اے ابو ایوب رضی اللہ عنہ یہ (میری لخت جگر) فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پہنچادو ۔ کیو نکہ اس نے بھی کئی دنوںسے کچھ نہیں کھایا ہے ۔ (ضیاء النبی، جلد ۵؍ص:۳۸۰)

کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زہد وقناعت سے متعلق ایسی ایسی روایتیں ہیں جن کے مطالعہ کے بعد سخت سے سخت جان پر بھی
گر یہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہیں اور آنکھیں آنسوئوںسے بھیگ جاتی ہیںاور دل افسردہ ہو جا تا ہے ۔

مگریہ خیال دل میں لانا بھی گناہ ہے کہ( نعوذ باللہ من ذالک) حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ایسی فقر وفاقہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اس لئے یہ ساری دقتیں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو اپنی زندگی میں برداشت کرنی پڑی۔نہیں،ایسا ہر گز نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جان بوجھ کر قصدا وعمدا دنیا کے عیش وآرام سے علیحد گی اختیا ر فرمایا تاکہ اپنے رب کریم کی بارگا ہ کی نعمتوں اور اس کے قرب سے مالا مال ہوں ۔ چنانچہ خود آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فر مایا کہ:اگر تو چاہے تو میں مکہ کے پہاڑوں کو سونا بنادوں۔میں نے عرض کیا :یا رب العالمین! مجھے اس کی خواہش نہیں ،میری آرزو یہ ہے کہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانا کھائوں،،جس روز میں فاقہ کروں اس دن میں تیری بارگاہ میں عجز ونیاز کا ہدیہ پیش کروں اور تیرے ذکر اور یاد میں مصروف رہوں اور جس روز میں سیر ہو کر کھائوں اس دن تیرا شکر کروں اور سارا وقت تیری حمد وثنا میں گزاروں۔
اسی طرح ایک روز جبرئیل امین بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو سلام فر ماتاہے اور کہتا ہے کہ :کیا آپ اس بات کو پسند فر ماتے ہیں کہ:میں ان پہاڑوں کو سونا بنادوں اور جدھر آپ تشریف لے جائیں وہ آپ کے ساتھ جائیں؟۔
یہ سن کر کچھ دیر کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے سر مبارک جھکا لیا اور غور وفکر کرنے لگے کہ اپنے رب کریم کی اس پیشکش کا کیا جواب دیں ۔تھوڑی دیر کے بعد سر مبارک اٹھایا اور فر مایا:اے جبرئیل !دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا اور کوئی گھر نہیں ہے اور یہ اس کا مال ہے جس کے پاس کوئی مال نہ ہو ۔اس دنیا کو وہ آدمی جمع کرتا ہے جو عقل ودانش سے محروم ہو۔
نیز امام بخاری و مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا کہ:اللہ تعالی نے زمین کے سارے خزانوں کی کنجیا ں میرے حوالے فرمائی ہیں۔(مسلم،حدیث:۵۲۳،چشتی)
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا فقر اختیاری تھا اضطراری نہ تھا۔بھلا جس کے قبضہ میں ساری دنیا کے خزانوں کی کنجیاں ہوں اور وہ ذات دوسروںکو اتنا نوازتی ہو کہ زندگی بھر اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آتی ہو۔بھلا وہ نادار اور مفلس کیو نکر ہو سکتا ہے۔یقینا حضور کا یہ فقر اختیاری تھا اور حضور نے جان بوجھ کر ان تمام دنیاوی عیش وآرام کو اپنے رب کریم کی رضا جوئی کے لئے اپنے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔

اس سلسلہ میں قاضی محمد منصور پوری نے اپنی کتاب’ رحمت للعالمین ‘جلد اول کے اخیر میں ایک قصیدہ لکھا ہے اس کا یہ شعر اس الجھن کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔

گزید فقر کہ فرمانروائے ملک ابد
بہ مشت خاک ندارد ہوائے سلطانی

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی مرضی سے دولت وثروت کو ٹھکرا دیا اور فقر کو اختیار فر مایا کیونکہ آپ ایسے ملک کے بادشاہ ہیں جو ہمیشہ رہے گا اور جس کی بادشاہی کا یہ عالم ہو وہ ایک مشت خاک پر حکومت کرنے کا خیال کب کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ متعدد ایسے شواہد موجود ہیں کہ صحابہ کرام آپ کے عیش وآرام کے لئے سامان مہیا کر نے کی درخواست کرتے مگر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اس کی اجازت نہ دیتے اور ایسی پیش کش کبھی قبول نہ فرماتے۔

چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ایک چٹائی پر سو رہے تھے ۔اس کے ابھرے ہوئے نشانات پہلو مبارک پر نظر آنے لگے ۔جب حضور بیدار ہوئے تو میں اس جگہ کو ملنے لگا جہاں نشانات پڑے ہوئے تھے ۔اسی درمیان میں نے کہا کہ:حضور اگر اجازت دیں تو ہم یہاں آرام دہ بستر بچھا دیں اور حضور اس پر آرام فر مایا کریں ۔سیدنا عمر فاروق کہتے ہیں کہ میری اس درخواست پر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:میرا اس دنیا سے کیا تعلق ؟ میری اور دنیا کی یہ مثال ہے جس طرح کوئی مسافر ہو گر می کے موسم میں دن میں سفر کرے ،دوپہر کا وقت آئے تو قیلولہ کرنے کے لئے کسی درخت کے سائے میں آرام کرے ۔پھر آرام کے بعد اس جگہ کو چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائے ۔ (المستدرک للحاکم،کتا ب الرقاق ،حدیث:۷۸۵۸،چشتی)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:ایک روز جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پانی میں شہد ملا کر دیا گیا تو آپ زار وقطار رونے لگے ۔لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فر مایا کہ:مجھے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے زمانے کا ایک واقعہ یا د آگیا ۔میں خدمت اقدس میں حاضر تھا ،میں نے دیکھا کہ حضور کسی چیز کو دھکیل رہے ہیں لیکن وہ چیز ہمیں نظر نہ آئی ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہمیںتو کوئی چیز نظر نہیں نہ آئی ۔حضور کس چیز کو دھکیل رہے تھے؟آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:الدنیاتطلعت لی۔کہ دنیا میری طرف جھانک رہی تھی۔میں نے فر مایا۔الیک عنی۔مجھ سے دور ہوجائو۔ اس دنیا نے مجھ سے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ! میری مجال نہیں کہ میں حضور کے دامن کو چھو سکوں ۔ یہ بیان کرنے کے بعد حضرت صدیق اکبر نے ارشاد فر مایا۔پس یہ مشروب (یعنی پانی میں شہد ملایا ہوا) مجھے دیا گیا تو مجھے ڈرلگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا مجھے اپنے دامن میں پھنسالے ۔ اس لئے مجھ پر گریہ طاری ہوگیا۔(المستدرک للحاکم،کتاب الرقاق ، حدیث:۷۸۵۶،چشتی)

امام بوصیری پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل فر مائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی شان زہد کے بارے میں کیا ہی پیاری باتیں لکھی ہیں ۔آپ نے کہا :

راودتہ الجبال الشم من ذھب
عن نفسہ فاراھا ایما شمم

بڑے اونچے اونچے سونے کے پہاڑوں نے حضور کو للچانا چاہا لیکن حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی بے نیازی کی وہ بلند چوٹیاں انہیں دکھائیں کہ وہ اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔

وکیف تدعوا الی الدنیاضرورۃ من
لولاہ لم تخرج الدنیا من العدم

تم دنیا کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے محتاج ہونے کا دعوی کیسے کر سکتے ہو؟حالانکہ حضور کی ذات پاک وہ ذات ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نہ ہوتے تو دنیا کبھی پردئہ عدم سے نکل کر منصہ شہود پر نہ آتی۔

امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ نے حبیب بن ثابت سے اور وہ حضرت خثیمہ رضی اللہ عنھم سے روایت کرتے ہیں کہ:کار کنان قضا وقدر نے ایک روز عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضور کی مرضی ہوتو ہم دنیا کے سارے خزانے اور ان کی کنجیاں حضور کی خدمت میں پیش کریں ۔یہ بے انداز نعمتیں نہ آپ سے پہلے کسی کو عطا کیں اور نہ آپ کے بعدکسی کو عطا کیا جائے گا۔اور دنیا میں نعمتوں کی یہ فراوانی آخرت میں آپ کے درجات کو کم کرنے کا باعث نہیں بنیں گی۔اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:ان تمام نعمتوں کو میرے لئے آخرت میں جمع فر مادیں۔(ضیاء النبی،جلد ۵؍ص:۳۸۳)

جب اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دنیاوی نعمتوں اور عیش وآرام سے اس طرح بے رخی کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی۔بڑی خیر وبر کت والا ہے اللہ تعالیٰ جو اگر چاہے تو بنادے آپ کے لئے بہتر اس سے(یعنی ایسے)باغات ،رواں ہوں جن کے نیچے نہریں اور بنادے آپ کے لئے بڑے بڑے محلات ۔ (سورہ فر قان۔آیت:۱۰)

حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے جس طر ح خود دنیا سے منہ موڑے رکھا اسی طرح اپنی امت کو بھی دنیا کی محبت سے بچنے کی تا کید فر مائی اور اس کی مذمت بیان فر مائی ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا۔حب الدنیا رأس کل خطیۃ۔دنیا کی محبت ہی ہر برائی کی جڑ ہے۔اور ایک دوسری روایت میں ارشاد فر مایا کہ:اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کوئی کا فر اس سے پانی بھی نہ پی پاتا ۔ (المستدرک للحاکم،کتاب الرقاق ،حدیث:۷۸۴۷)

آج پوری دنیا میں جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا کی محبت اور آخرت سے بیزاری ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے بچائے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔ آمین بجاہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا طریقہ تعلیم

0 comments
مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا طریقہ تعلیم

ایک معلم کا یہ فر ض ہوتا ہے کہ وہ اپنے چشمہ علم سے ہر تشنہ لب کو اس کے ظرف اور استعداد کے مطابق ایسے عمدہ اسلوب اور دلکش انداز میں سیراب کرے جومتعلم کے لئے دلچسپی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اوقع فی النفس بھی ہو۔اس بابت اس ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اسوہ حسنہ جسے اللہ نے پوری دنیا کے لئے معلم بنا کر مبعوث فر مایا ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔اس لئے ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طر یقہ تعلیم کے کچھ نکات باذوق افراد کی نذر ہیں ۔ گر قبول افتد زہے عز وشرف ۔
مضامین کا انتخاب و ترتیب: ایک معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے مناسب حال پہلے مضامین کا انتخاب کرے پھر اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ تدریجا مدارج کمال تک پہونچائے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والاہر قا ری بخوبی جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے ابتدائی دور میں زیادہ تر عقائد کے موضوع پر توجہ دلائی اور جب صحابہ کرام عقائد میں پختہ ہوگئے تو انہیں عبادات و معاملات اور حسن اخلاق وغیرہ کی تعلیم حسب حال عطا فر مائی ۔یہاں تک کہ خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے۔اللہ اللہ کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اس حسن انتخاب اور تر تیب کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ۔عقائد کی پختگی کے بغیر عبادات میں خشوع وخضوع اور دلجمعی ،معاملات میں صفائی اور اخلاق میں پاکیزگی ممکن ہی نہیں۔ اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس طرح اپنے مضامین کو ترتیب دیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے طب ،سائنس، نفسیات ،ارضیات،حیاتیات،نباتیات ،فلکیات اور اس کے علاوہ دیگر علوم وفنون کے حصول سے کبھی منع نہ فر مایا بلکہ ان سب کی ترغیب دلائی ۔مگر ان سب سے پہلے ایک انسان کو انسان ہونا سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو معلوم تھا کہ اگر انسانیت سے عاری شخص ایٹم بم ایجاد کرے گا تو وہ ظالموں پر بر سانے کے بجائے مظلوموں کے آشیانے پر گرانے سے دریغ نہ کرے گا۔اس لئے سائنسداں بنا نے سے پہلے انسانیت کے راز سے آشنا انسان بنا نا ضروری سمجھا اور اسی کے مطابق اپنے شاگردوں کو تعلیم دیا۔
قولی اور عملی طریقہ:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جس طرح اپنی من موہنی باتوں کے ذریعے تعلیم دیا کرتے تھے اسی طرح بسا اوقات عملی طر یقے سے بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔چنانچہ روایت ہے کہ ایک صحابی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر نماز کے اوقات کے متعلق دریا فت فر مایا:تو آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دودن نماز اس طر ح پڑھائی کہ پہلے دن ہر نماز کو اس کے اول وقت میں ادا فر مایااور دوسرے دن اس کے آخر وقت میں ۔پھر آپ نے دریافت کیا کہ:نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا شخص کہا ں ہے ؟وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا ان دونوں اوقات کے بیچ کا وقت تمہاری نماز کا وقت ہے۔(بخاری،مسلم)

انداز تفہیم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنی بات کو سمجھانے کے لئے متعدد طر یقے اپنا تے تھے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

صاف لب ولہجے میں بات کہنا اور حسب ضرورت کسی بات کو دہرانا: آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب بھی کوئی بات کرتے تو صاف اور واضح انداز میں کہتے اور کسی خاص بات کی اہمیت کے سبب یا محض سمجھانے کی غرض سے مکرر ارشاد فر ماتے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب گفتگو فر ماتے تو آہستہ آہستہ ،ہر لفظ الگ الگ کرکے تلفظ فر ماتے بسا اوقات ایک لفظ کو یا جملہ کو تین بار دہراتے تاکہ سننے والے اس کو پوری طرح سن بھی لیں اور اس کا مفہوم بھی سمجھ لیں ۔ (ترمذی،حدیث:۳۶۳۹،۳۶۴۰،چشتی)

حقائق کو مثالوں کے ذریعے ذہن نشین کرانا: معلم کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب اپنے صحابہ کو وعظ ونصیحت فر ماتے تو بعض دفعہ مثالیں دیتے تاکہ ان کو حقیقت حال سے پوری آگاہی ہوجائے اور بات خوب ذہن نشیں ہوجائے۔ چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: سردیوں کے موسم میں ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم چل رہے تھے اور درختوں کے زرد پتے نیچے گر رہے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:اے ابو ذر! میں نے عرض کیا:لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم! حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:جب بندئہ مسلم محض اللہ کی رضا کے لئے نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں ۔(بخاری)

نماز کے ذریعے گناہوں کے ختم ہونے کی ایک دوسری مثال بیان فر ماتے ہوئے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:بھلا بتائو کہ اگر کسی کے دروازے پر نہرہو اور اس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہ جائے گا۔صحابہ کرام نے عرض کیا :اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی نہیں رہ جائے گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایاکہ:یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔(بخاری،حدیث:۵۲۸)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ہادی برحق صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے رزق کے حاصل کرنے کے طریقے کے بارے میں مثال بیان فر مائی ۔فرمایا کہ:رزق ایسے ہے جس طرح ایک باغ ہو جس کے ارد گرد فصیل ہو ۔اس فصیل میں ایک جگہ دروازہ ہے اس دروازے کے سامنے کا علاقہ ہموار ہے اور دیوار کے ارد گرد کا راستہ بڑا پتھریلا اور دشوار گزار ہے ۔پس جو آدمی اس باغ کی طرف اس کے دروازے والے راستے سے آتا ہے تو باغیچہ میں داخل ہوتا ہے پھل کھاتا ہے اور ہر قسم کی رکاوٹوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ اور جو اس کی فصیل کی طرف سے داخل ہونا چا ہتا ہے وہاں دشوار گزار راستے ہیں ۔ گرم ریتیلا علاقہ ہے جس میں پائوں دھنس جاتے ہیں وہ جب ان مشکل راستوں کو طے کرکے اس باغ تک پہنچتا ہے تو اسے وہی ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہوتا ہے ۔ (طبرانی،چشتی)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ایک کلی زمین میں گاڑی پھر اس کے ایک طرف ایک اور کلی گاڑی پھر دوسری طرف بہت دور تیسری کلی گاڑی ۔پوچھا تم سمجھتے ہو کہ یہ کیا ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے بیچ والی کلی کی طرف اشارہ کر کے فر مایا:یہ انسان ہے اور دائیں ہاتھ والی کلی جو نزدیک تھی ،فر مایا کہ:یہ اس کی موت ہے۔بائیں ہاتھ والی جو دور تھی،یہ اس کی امید ہے ۔پھر انسان اپنی امید کو پوری کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا رہتاہے راستہ میں موت کی کلی آجاتی ہے اور اس کے سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔(ضیاء النبی،جلد۵؍ص:۴۳۵)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم مدینہ شریف کے بالائی علاقوں میں سے کسی علاقے سے آتے ہوئے بازار سے گزرے ۔آپ کے دونوں طرف لوگ تھے ۔آپ ایک چھوٹے کان والے مرے ہوئے بکری کے بچے کے پاس سے گزرے ،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس کاکان پکڑ کر فر مایا:تم میں سے کوئی اس کو ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا ؟صحابہ نے کہا کہ ہم اس کو کسی چیز کے بدلے لینا پسند نہ کریں گے،ہم اس کا کیا کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا :کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو یہ مل جائے ؟ صحابہ نے کہا: بخدا اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا ایک کان چھوٹا ہے اور اب تو یہ مر دہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:جس طرح تمہارے نزدیک یہ ایکدم حقیر ہے ،اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس بھی زیادہ حقیر ہے۔(مسلم،کتاب الزھد،چشتی)

ہاتھ کے اشارہ کے ذریعے سمجھانا : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کبھی کسی بات کو سمجھانے کے لئے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ بھی فر مایا کرتے تھے: چنانچہ یتیم بچوں کی پرورش کرنے والے کے درجے کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طر ح سے داخل ہوں گا۔یہ بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملا کر دکھایا۔(ترمذی)

خطوط اور نقشے وغیرہ کے ذریعے سمجھانا : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نقشے وغیرہ بنا کر بھی اپنی باتیں صحابہ کے ذہن و دماغ میں جاگزیں فر ماتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ایک مربع خط کھینچا ،پھر اس کے بیچ میں ایک خط کھینچا ،ایک اور خط کھینچا جو اس دائرے سے باہر نکلا ہوا تھا۔پھر اس بیچ والے خط کے دونوں طرف بہت سے چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے(جو دائرے کے اندر ہی تھا)پھر فر مایا: یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئی ہے ۔اور وہ خط جو اس سے باہر نکلی ہوئی ہے اس کی امید ہے(کہ انسان مرجاتا ہے اور اس کی امیدیں باقی رہ جاتی ہیں)اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کے مشکلات ہیں۔پس انسان جب ایک مشکل سے نکل جاتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتاہے۔ (بخاری،حدیث:۶۴۷۱)

اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بظاہر تعارض کی صورت میں اس کا دفع بھی بیان فر مادیتے تھے تاکہ کسی قسم کا کوئی خلجان ذہن میںنہ رہ جائے ۔ان سارے کاموں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم انتہائی نرمی اور شفقت کا مظاہرہ فر ماتے تھے جس کے سبب ہر ایک پر خوشگوار اثر پڑ تا تھا اور سیکھنے کے بعد اس پر عمل کرنے میں ایک لذت محسوس کرتاتھا۔

ایک کامیاب استاذ کے لئے ان طریقوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ خود مختلف خوبیوں اور پاکیزہ سیرت وکردارکے حامل ہوں تاکہ ان کی شخصیت کا پرتو منعکس ہوکر طالب علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکے اور ساتھ ہی وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا رویہ اپنائے ،غلط حر کتوں کے صادر ہونے پر مار پیٹ ،گدھا،بیوقوف،گھامڑ،ناہنجار وغیرہ نازیبا کلمات کہنے کے بجائے نرمی اور محبت سے سمجھائے ۔ ان کے لایعنی اعتراضات پر مذاق اڑانا اور گہرے اعتراضات پر جھنجھلاہٹ کی کیفیت کا طاری کر لینا سیرت نبوی کے سراسر خلاف ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ایک شخص نے کہا کہ : مجھے زنا کی اجازت دی جائے ۔ ایسے لغو تر مطالبے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے برا بھلا کہنے کے بجائے ایسے من موہنے انداز سے سمجھایا کہ وہ عفت وپارسائی کے پیکر بن گئے ۔
نیز خود غرضی اور مال و دولت کے حصول کو مقصد اصلی بنانے کے بجائے اس کی خیر خواہی اور اچھے مستقبل کو اپنا مطمح نظر بنائیں۔آج استاذ وشاگرد کے درمیان احترام ومحبت کا جو فقدان نظر آتا ہے اس میں اس کا بہت بڑا رول ہے ۔

اللہ تعالی ہم سب کوسیرت مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنا نےکی تو فیق عطافر مائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 24 July 2018

مصطفیٰ کریم رحمۃُ لّلعالمین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

0 comments
مصطفیٰ کریم رحمۃُ لّلعالمین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم

رحمت اس جذبہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک ذات دوسری ذات کے ساتھ محبت و شفقت،لطف وکرم اور فضل و احسان کا برتائو کرتی ہے اور انہیں موت سے زندگی ،اندھیرے سے اجالے اور بے قراری سے امن وسکون کی طرف لے جاتی ہے۔یہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے تمام حیوانات کے اندر کم وبیش ودیعت فرمایاہے اسی وجہ سے ایک جانور بھی اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور اسے دشمنوں کا شکار ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
مگر تمام مخلوقات میں یہ جذبہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو عطا فر مایا،اور آپ کی رحمت کو زمان ومکان ،دوست ودشمن،انسان وحیوان کی تمام تر قیودات سے الگ کر کے بیان فر مایا:و ماارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔اے محبوب ہم نے آپ کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ۔
اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی رحمت کا دائرہ کسی خاص قوم اور کسی خاص جماعت کے لئے محدود نہ تھا بلکہ آپ جس طرح اپنے دوستوں کے لئے رحمت تھے ویسے ہی اپنے دشمنوں کے لئے بھی،جیسے تمام انسانوں کے لئے رحمت تھے ویسے ہی تمام حیوانوں کے لئے بھی،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو میں آپ کی رحمت کے جلوے کو دیکھا جا سکتا ہے ہم بطور اختصار یہاں پر چند جھلکیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
تمام انسانوں کے لئے رحمت:حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے اقوال وافعال اور اپنے پاکیزہ کردار سے ان تمام افکار و نظریات کو جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتا ہے مثلا طاقت و قوت میں زیادہ ہونا ،دولت وثروت میں فائق ہونا،کسی اعلیٰ خاندان اور ملک میں پیدا ہونا،اعلیٰ خوبیوں کا مالک ہونا،انسان کا خود فراموش ہونااوروہم پرستی وغیرہ کا شکار ہونا۔یہ سب وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک انسان اپنے سے کمزور، غریب ، کمتر، بے بس،کمزور،بیوہ،یتیم جیسے انسانوں پرہی نہیںبلکہ خود اپنے جگر کے ٹکڑوں پربھی ظلم روا رکھتا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ایسے تمام افکار ونظریات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا : لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مردو عورت سے پیدا کیا ،اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں صرف اس لئے بانٹا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو،تم میں زیادہ عزت والا وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والاہے،چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے ،نہ کسی عجمی کو عربی پر ،نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے،ہاں بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے۔(جو اچھے کاموں کی بدولت اچھا بن جائے وہی اچھا ہے چاہے وہ کسی خاندان کسی ملک اور کسی بھی رنگ کا ہو، امیر ہو یا غریب طاقت وقوت والا ہو یا کمزور،آزاد ہو یا غلام ، آقا ہو یا نوکر)۔
سارے انسان آدم کی اولاد ہیں،اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے ،اب فضیلت وبرتری کے سارے دعوے،خون ومال کے سارے مطالبے اور انتقام میرے پیروں تلے روندے جا چکے ہیں قریش کے لوگو! خدانے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا ،اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر ومباہات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لوگو! تمہارے خون ومال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعا ہمیشہ کے لئے حرام کر دی گئیں(تو اب کسی کو بلاوجہ قتل کرنا،کسی کا مال طاقت کے زور سے لوٹنا یا اس کو بر باد کرنے کی کوشش کرنااور کسی کو حقیر وناتواں سمجھ کر اس کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرناجائز نہیں)تم سب اپنے خالق حقیقی کے پاس جائوگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔
لو گو!ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اپنے غلاموں کا خیال رکھو،ہاں! غلاموں کا خیال رکھو،انہیں وہی کھلائو جو خود کھاتے ہو ،ایسا ہی پہنائو جیسا تم پہنتے ہو۔
عورتوں سے بہتر سلوک کرو،کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں ۔اور وہ خود اپنے لئے کچھ نہیں کرسکتیں ،چنانچہ ان کے بارے میںخدا کا لحاظ رکھوکہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں ۔لوگو! میری بات سمجھ لو!میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا
دیکھو!تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں (اور ہر ایک پر اس کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے)
قرض قابل ادا ہے ،منگنی پر لی ہوئی چیز واپس کر نی چا ہئے ،تحفہ کا بدلہ دینا چاہئے ،اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے وہ تاوان ادا کرے، کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے ،سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے،خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔
اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا ،نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔
خطبہ حجۃ الوداع کے بعض حصے : حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے رحمت بھرے اقوال اتنے زیادہ ہیں کہ ہم ان سب کو بیان نہیں کر سکتے ۔آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے نہ یہ کہ صرف رحمت کا درس دیا بلکہ خود بھی سب سے زیادہ اس کا عملی مظاہرہ فر مایا:چنانچہ جس وقت بیوہ عورتیں دنیاکی سب سے بڑی منحوس چیز سمجھی جاتی تھیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی پہلی شادی ایک بیوہ سے کرکے انہیں وہ بلند مرتبہ عطا کیا جس مرتبہ پر دنیا کی کوئی عورت نہیں پہنچ سکتی ،جب بچیوں کو منحوس سمجھ کر زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا اس وقت آپ نے اس کے خلاف آواز بلند کیا اور خود اپنی بچیوں سے ایسی محبت فر مائی جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے۔یتیم و غلام کی اس محبت بھرے انداز میں پرورش فر مائی کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ کمزوروں ،غریبوں اور بے کسوں کی ایسی دستگیری فر مائی جس کی نظیر نہ پہلے دیکھی گئی اور نہ بعد میں دیکھی جائے گی۔اپنی جان کے دشمنوں کے ساتھ وہ رحمت بھرا سلوک فر مایا جو کسی دوسرے کی بس کی بات ہی نہیں ۔اور آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے غلاموں نے اس درس رحمت کو ایسا فروغ دیا کہ وہ جہاں بھی گئے وہاں رحمت کے بادل بن کر ہرکشت ناتواں کو رشک گلزار بنادیا ،مصر کی سر زمین پر ہر سال لوگ اپنی قوم کی ایک حسین اورکنواری دو شیزہ کو دریائے نیل کے نام پر بھینٹ چڑ ھا دیتے تھے ،مگر جب اسلام کا ہلالی پرچم مصر کی سر زمین پر لہرایا تو مصطفی جان رحمت کے دیوانے نے اس ظلم عظیم کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم فر مادیا۔آج دنیا بھر میں اگر عورتیں زندہ ذبح نہیں کی جاتی ہیں یا زندہ نہیں جلائی جاتی ہیں یا معاشرہ میں ایک باوقار مرتبہ پر فا ئز ہیں یہ سب مصطفی جان رحمت ہی کا صدقہ ہے۔ آج کمزور سے کمزورتر انسان اپنے حقوق کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے اور عدالتی نظاموں کے ذریعے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی سکت رکھتا ہے تو یہ سب آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہی کی رحمت کا صدقہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان مل کر آپ کی رحمتوں کا احسان ادا کرنا چاہیں تو قیامت تک ادا نہیں کر سکتے ۔
جانوروں کے لئے رحمت:حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا سحاب رحمت جس طرح انسانوں پر بر سا اسی طرح جانوروں پر بھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی آ مد سے قبل جانوروں کے ذبح کرنے کے بہت سارے ظالمانہ طریقے رائج تھے نیز ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ لادنا بھی روز مرہ کا معمول تھا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ان جانوروں پر ہونے والے ہر طرح کے ظلم و ستم کا خاتمہ فر مایا۔
چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ: حضور علیہ الصلاۃ والسلام ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے ،وہاں ایک اونٹ زور زور سے چلا رہا تھا جب اس نے آپ کو دیکھا تو ایک دم بلبلانے لگا اور اس کے دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ،آپ نے قریب جا کر اس کے سر اور کنپٹی پر اپنا دست رحمت پھیرا تو وہ تسلی پا کر بالکل خاموش ہوگیا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے لوگوں سے دریافت فر مایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟لوگوں نے ایک انصاری کانام بتایا ،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فورا ان کو بلوا کر فر مایاکہ :اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر تمہارا محکوم بنادیا ہے لہذا تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو ،تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو ۔ (ابوداود،بحوالہ سیرت مصطفی،ص:۶۰۹،چشتی)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور جان نور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جنگل جارہے تھے کہ یارسول اللہ! کی آواز آئی آپ نے پلٹ کر دیکھا کہ ایک ہرنی بندھی ہوئی ہے اور ایک اعرابی سو رہاہے ،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ہرنی نے فریاد کیا کہ مجھے اس اعرابی نے شکار کر لیا ہے ، میرے دو بچے اس پہاڑ پر رورہے ہیں اگر تھوڑی مہلت مل جائے تو ان کو دودھ پلا آوں ،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ہرنی کو چھوڑ دیا ،اعرابی بیدار ہوا تو کہنے لگا :اگر میرا شکار واپس نہ آیا تو اچھا نہ ہوگا ،گفتگو کے دوران ہی ہر نی اپنے دونوں بچے کے ساتھ واپس آگئی ،اعرابی حیران رہ گیا ،اور آپ کی بے پایاں رحمت کا جلوہ دیکھ کر فورا کلمہ پڑھا ،اور ہرنی کو اس کے بچوں کے ساتھ آزاد کردیا ،ہرنی اپنے بچوں کے ساتھ کلمہ پڑھتی اچھلتی کودتی چلی گئی ۔ (شفا شریف،جلد:۶،ص:۷۶)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چڑیا کے دو بچے تھے ہم نے اس کو پکڑ لیا ،ان بچوں کی ماں رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قدموں پر نثار ہونے لگی اور فر یاد کرنے لگی ،تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا کہ : ان بچوں کو اپنی جگہ پہنچا آو ۔ (حجۃ اللہ،ص:۴۶۶،چشتی)
انہیں روایات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا ہی پیاری بات امام عشق ومحبت سیدنا امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ علیہ نے فر مایا ہے۔ ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فر یاد ۔۔ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد۔۔اسی در پہ شتران ناشاد۔۔گلہ رنج و عنا کرتے ہیں۔

درس رحمت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ہر جاندار کے ساتھ رحم کرنے کا درس دیا اور بے رحمی کرنے کے نقصانات سے آگاہ فر مایا : چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا : بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نے گر می کے دنوں میں ایک کتے کو ایک کنویں کے گرد چکر لگاتے دیکھا جس کی پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکلی ہوئی تھی ،اس عورت نے اپنے موزے میں پانی لاکر اس کتے کو پلایا تو اس کی بخشش کردی گئی،دوسری روایت یہ بھی ہے کہ:صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ! کیا ان جانوروں میں بھی ہمارے لئے ثواب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:ہر جگر والے میں ثواب ہے ۔(صحیح مسلم،کتاب قتل الحیات وغیرھا،باب فضل ساقی البھائم و اطعامھا،حدیث:۲۲۴۴۔۲۲۴۵)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سے روایت ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا،اس نے اس بلی کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی ،وہ عورت اسی وجہ سے جہنم میں داخل کی گئی،جب اس نے بلی کو باندھا تو اس کو کھلایا نہ پلایا اور نہ اس کو کیڑے مکوڑے کھانے کے لئے آزاد کیا ۔ (صحیح مسلم،کتاب قتل الحیات وغیرھا،باب تحریم قتل الھرۃ۔حدیث:۲۲۴۲)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا : جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ (بخاری،حدیث:۵۹۹۷)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے دین کا ہر حکم رحمت ہی رحمت ہے جو نظام عالم کی بقا کا ضامن ہے آج کی اس ظلم سے بھری دنیا کو امن و آشتی کے گہوارے میںاگر کوئی نظام حیات تبدیل کر سکتا ہے تو وہ صرف رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا لایا ہوا نظام رحمت ہے ۔ اے کاش ! دنیا اس حقیقت کو سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتی ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)